Surat ul Mudassir
Surah: 74
Verse: 26
سورة المدثر
سَاُصۡلِیۡہِ سَقَرَ ﴿۲۶﴾
I will drive him into Saqar.
میں عنقریب اسے دوزخ میں ڈالوں گا ۔
سَاُصۡلِیۡہِ سَقَرَ ﴿۲۶﴾
I will drive him into Saqar.
میں عنقریب اسے دوزخ میں ڈالوں گا ۔
Leave me alone with whom I created lonely. until His statement, It spares not, nor does it leave (anything)!" Qatadah said, "They claim that he (Al-Walid) said, `By Allah, I thought about what the man says, and it is not poetry. Verily, it has a sweetness and it is truly elegant. Verily, it is exalted and it is not overcome. And I have no doubt that it is magic.' So Allah revealed, فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ (So let him be cursed, how he plotted!), ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ (Then he frowned and he looked in a bad tempered way.) He contracted his eyes together and scowled." Allah says, سَأُصْلِيهِ سَقَرَ
ساصلیہ سقر…:” سقر “ جہنم کا ایک نام ہے، علم اور مونث ہونے کی وجہ سے غیر متصرف ہے۔
سَاُصْلِيْہِ سَقَرَ ٢٦ صلا أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] والصَّلاةُ ، قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق : تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة/ 157] ، ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار، كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة، أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] ( ص ل ی ) الصلیٰ ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ الصلوۃ بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔ اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔ سقر من سَقَرَتْهُ الشمسُ وقیل : صقرته، أي : لوّحته وأذابته، وجُعل سَقَرُ اسم علم لجهنّم قال تعالی: ما سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ [ المدثر/ 42] ، وقال تعالی: ذُوقُوا مَسَّ سَقَرَ [ القمر/ 48] ، ولمّا کان السَّقْرُ يقتضي التّلویح في الأصل نبّه بقوله : وَما أَدْراكَ ما سَقَرُ لا تُبْقِي وَلا تَذَرُ لَوَّاحَةٌ لِلْبَشَرِ [ المدثر/ 27- 29] ، أنّ ذلک مخالف لما نعرفه من أحوال السّقر في الشاهد . ( س ق ر ) سقر ۔ ( جہنم ) اصل میں سقرتہ الشمس وصقرتہ سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی ہیں اسے دھوپ نے جھلس دیا اور پگھلا دیا ۔ پھر جہنم کا علم بن گیا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ ما سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ [ المدثر/ 42] کہ تم دوزخ میں کیوں پڑے ۔ اور نیز فرمایا : ۔ ذُوقُوا مَسَّ سَقَرَ [ القمر/ 48] اب آگ کا مزہ چکھو ۔ پھر چونکہ سقر اپنے اصل کے لحاظ سے جھلس دینے کے معنی کو مقتضی ہے اس لئے آیات : ۔ وَما أَدْراكَ ما سَقَرُ ۔ لا تُبْقِي وَلا تَذَرُ ۔ لَوَّاحَةٌ لِلْبَشَرِ [ المدثر/ 27- 29] اور تم کیا سمجھے کہ سقر کیا ہے ؟ ( وہ آگ ہے کہ ) نہ باقی رکھے گی اور نہ چھوڑے گی اور بدن کو جھلس کر سیاہ کر دے گی ۔ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ سقر کے جو احوال تم مشاہدہ سے جانتے ہو اس کا معاملہ اس سے بالکل جدا ہے
(74:26) ساصلیہ سقر : س مضارع پر داخل ہوکر مستقبل قریب کے معنی پیدا کرتا ہے۔ اصلیہ : اصلی مضارع واحد متکلم ۔ اضلاء (افعال) مصدر بمعنی آگ میں ڈالنا۔ ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب سقر جہنم کے ناموں میں سے ایک نام ہے بوجہ معرفہ و تانیث غیر منصرف ہے لہٰذا منصوب ہے۔ میں اس کو عنقریب ہی جہنم کی آگ میں ڈالوں گا۔
ف 3 ینی گوشت ہڈی اور پسلی ہر چیز کو بھسم کر کے رکھ دے گی۔
فہم القرآن ربط کلام : مجرم شخص کو جس کٹھن گھاٹی پر چڑھائے جانے کی دھمکی دی گئی ہے وہ جہنم ہے۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے فرامین کا انکار کرتے ہیں انہیں بہت جلد جہنم میں جھونکا جائے گا۔ اے قرآن پڑھنے والے ! تو نہیں جانتا ہے کہ جہنم کیا ہے ؟ وہ اللہ کا تیار کیا ہوا عقوبت خانہ ہے جس میں مجرم کو موت نہیں آئے گی اور نہ اس کی زندگی ہوگی گویا کہ وہ موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا رہے گا۔ وہ چمڑی ادھیڑ دینے والی آگ ہے اس پر انیس فرشتے مقرر کیے گئے ہیں اور یہ تعداد کفار کے لیے آ زمائش بنا دی گئی ہے ہاں یہ ان لوگوں کے لیے آزمائش نہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے کی توفیق بخشی ہے۔ جنت کے فرشتوں کی تعداد اس لیے بتائی گئی ہے تاکہ اہل کتاب کو یقین ہو اور اہل ایمان کے ایمان میں اضافہ ہو اور انہیں کسی قسم کا شک باقی نہ رہے۔ جن کے دل میں شک کی بیماری ہے اور جنہوں نے کفر اختیار کر رکھا ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس مثال سے کیا سمجھایا ہے ؟ سنو ! اس مثال کا مقصد یہ ہے کہ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ لوگوں کی آزمائش کرے کہ کون اس کے فرمان کو مِن و عن مانتا ہے اور کون اس میں باتیں بناتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ یقین کرو ! کہ ” اللہ “ کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب کفار کے سامنے ان آیات کی تلاوت کی تو انہوں نے اپنے انجام پر غور کرنے کی بجائے اس بات کا مذاق اڑایا کہ ایک طرف یہ نبی کہتا ہے کہ جو لوگ مجرم ہوں گے انہیں جہنم میں پھینکا جائے گا ظاہر ہے کہ اس کے بقول لاتعداد لوگ جہنم میں جائیں گے کیا کروڑوں کھربوں انسانوں کو صرف انیس فرشتے قابو کریں گے اور سزا دیں گے یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔ اس بات پر مزید ہرزہ سرائی کرتے ہوئے ایک دوسرے کو کہنے لگے کہ کیا ہم اتنے گئے گزرے ہیں کہ انیس فرشتوں کو قابو نہیں کرسکیں گے مکہ کا ایک پہلوان کہنے لگا کہ فکر نہ کرو کہ سترہ ملائکہ کو میں اکیلا ہی سنبھال لوں گا باقی کو سنبھالنے کے لیے تم کافی ہوگے۔ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کچھ مسائل مثال کے ذریعے سمجھائے ہیں جن لوگوں کے دلوں میں نفاق کی کھوٹ ہے وہ اس مثال کو سمجھنے کی بجائے اس کا مذاق اڑاتے ہیں حالانکہ جس بات کو مثال کے ذریعے سمجھایا جائے اس میں کوئی ابہام باقی نہیں رہتا۔ لیکن جن کے دلوں میں کفر و نفاق کا مرض ہوتا ہے وہ حق کو تسلیم کرنے کی بجائے اس سے مزید دور ہوجاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے اصول یہ ہے کہ انہیں گمراہی کے لیے کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ہدایت اور گمراہی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے جو اللہ تعالیٰ سے ہدایت کا طالب ہوتا ہے وہ اسے ہدایت سے نوازتا ہے اور جو ہدایت سے بےاعتنائی کرتا ہے اسے گمراہی میں کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ جہاں تک اہل کتاب کے یقین کرنے کا تعلق ہے ان کی اصل کتابوں میں جہنم کے ملائکہ کی تعداد انیس موجود ہے وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ کوئی نبی ” اللہ “ پر جھوٹ نہیں بولتا اس لیے قرآن مجید نے جہنم کے فرشتوں کی جو تعداد بتلائی ہے وہ حق پر مبنی ہے۔ جہنم کی آگ کی کیفیت : (اِِنَّہَا عَلَیْہِمْ مُوْصَدَۃٌ فِیْ عَمَدٍ مُّمَدَّدَۃٍ ) (ہمزہ : ٨، ٩) ” وہ ان پر ڈھانک دی جائے گی۔ لمبے لمبے ستونوں کی طرح ہوگی۔ “ (اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا سَوْفَ نُصْلِیْھِمْ نَارًاکُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُھُمْ بَدَّلْنٰھُمْ جُلُوْدًاغَیْرَھَا لِیَذُوْقُوا الْعَذَابَ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَزِیْزًا حَکِیْمًا) (النساء : ٥٦) ” جن لوگوں نے ہماری آیتوں سے کفر کیا انہیں ہم یقیناً آگ میں ڈال دیں گے جب ان کی کھالیں جل جائیں گی تو ان کی جگہ ہم دوسری کھالیں بدل دیں گے تاکہ وہ عذاب چکھتے رہیں یقیناً اللہ تعالیٰ غالب، حکمت والا ہے۔ “ (وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَ اِِنَّ عَذَابَہَا کَانَ غَرَامًا) (الفرقان : ٦٥) ” اللہ کے بندے دعائیں کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں جہنم کے عذاب سے بچالے جہنم کا عذاب چمٹ جانے والا ہے۔ “ (ثُمَّ لَا یَمُوتُ فِیْہَا وَلَا یَحْیٰی) (الاعلیٰ : ١٣) ” پھر اس میں موت نہیں آئے گی اور نہ ہی زندگی ہوگی۔ “ مسائل ١۔ جہنم کی سختیوں کا کوئی شخص اندازہ نہیں کرسکتا۔ ٢۔ جہنمی جہنم میں ہمیشہ ہمیش موت وحیات کی کشمکش میں رہیں گے۔ ٣۔ جہنم کی آگ جہنمیوں کی چمڑیاں ادھیڑ دے گی۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے جہنم پرانیس ملائکہ مقرر کیے ہیں۔ کفار اس تعداد کا مذاق اڑاتے ہیں مومن اور اہل کتاب اس پر یقین رکھتے ہیں۔ ٥۔ ہدایت اور گمراہی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ تفسیر بالقرآن جہنم کی ہولناکیوں کا ایک منظر : ١۔ جہنم کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے۔ (البقرۃ : ٢٤) ٢۔ جہنم پر سخت گیر فرشتوں کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے۔ (التحریم : ٦) ٣۔ مجرم جہنم کے گرجنے برسنے کی آوازیں سنیں گے۔ (الفرقان : ١٢) ٤۔ جہنم کی آگ بہت زیادہ تیز ہوگی۔ (التوبۃ : ٨١) ٥۔ جہنم بھرنے کا نام نہیں لے گی۔ (ق : ٣٠) ٦۔ جہنم کے شعلے بڑے بڑے مکانوں کی طرح بلند ہوں گے۔ (المرسلٰت : ٣٢)
ساصلیہ سقر (74:26) ” اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ دوزخ ؟ “ یہ بہت ہی خوفناک چیز ہے۔ ہماری قوت مدرکہ سے وراء ہے۔ اور اس اجمال اور عدم علم کے بعد دوزخ کی بعض شدید خصوصیات بتائی جاتی ہیں۔ لا تبقی ولا تذر (74:27) ” نہ باقی رکھے اور نہ چھوڑے “۔ جھاڑو دے کر سب کچھ نکل جانے والی ہے اور سب کچھ مٹا دینے والی ہے۔ کوئی چیز بھی اس کے سامنے کھڑے نہیں رہ سکتی۔ اور نہ اس سے کوئی چیزرہتی ہے۔ اور نہ اس سے کوئی چیز زیادہ ہوتی ہے ، وہ سب کچھ فنا کردیتی ہے۔ اب انسان کے ساتھ اس کا سلوک کیا ہے۔
9:۔ ” ساصلیہ سقر “ یہ تخویف اخروی ہے۔ میں اس کو سقر میں داخل کروں گا۔ سقر ایسی تیز اور سخت آگ کا دوزخ ہے کہ ” لا تبقی ولا تذر “ کہ ہڈی پسلی چھوڑے گی نہ گوشت پوست ” لواحۃ للبشر “ بشرۃ کی جمع ہے، سقر کی آگ دوزخیوں کے چمڑوں کو جلا کر سیاہ اور بد شکل بنا دے گی۔ دوزخ پر ہم نے انیس فرشتے یا فرشتوں کی انیس صفیں مقرر کر رکھیں ہیں۔ والاول اصح۔ اور پھر یہ دوزخ کے خزان آدمی یا جن نہیں بلکہ فرشتے ہیں جو طاقت و قوت میں جن وانس پر فائق ہیں۔ اہل دوزخ جن وانس کے لیے ان کے دلوں میں رحمت و شفقت کا کوئی جذبہ نہیں ہوگا اور نہ دوزخیوں کے بارے میں احکام خداوندی کی تعمیل میں کوتاہی کا احتمال ہی ہوگا۔