Surat ul Mudassir

Surah: 74

Verse: 39

سورة المدثر

اِلَّاۤ اَصۡحٰبَ الۡیَمِیۡنِ ﴿۳۹﴾ؕ ۛ

Except the companions of the right,

مگر دائیں ہاتھ والے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Except those on the Right. For verily, they will be فِي جَنَّاتٍ يَتَسَاءلُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

39۔ 1 یعنی وہ گناہوں کے اسیر نہیں ہوں گے بلکہ اپنے نیک اعمال کی وجہ سے آزاد ہونگے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٠] اصحاب الیمین یعنی دائیں جانب یا دائیں ہاتھ والے۔ یہ ان لوگوں کا لقب ہے جن کو جنت کا پروانہ ملنے والا ہوگا۔ اور اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔ ان لوگوں کی پوری تفصیل پہلے سورة واقعہ میں گزر چکی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِلَّآ اَصْحٰبَ الْيَمِيْنِ۝ ٣٩ ۭ ۛ صحب الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] قالَ لَهُ صاحِبُهُ وَهُوَ يُحاوِرُهُ [ الكهف/ 34] ، أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ [ الكهف/ 9] ، وَأَصْحابِ مَدْيَنَ [ الحج/ 44] ، أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] ، أَصْحابُ النَّارِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 217] ، مِنْ أَصْحابِ السَّعِيرِ [ فاطر/ 6] ، وأما قوله : وَما جَعَلْنا أَصْحابَ النَّارِ إِلَّا مَلائِكَةً [ المدثر/ 31] أي : الموکّلين بها لا المعذّبين بها كما تقدّم . وقد يضاف الصَّاحِبُ إلى مسوسه نحو : صاحب الجیش، وإلى سائسه نحو : صاحب الأمير . والْمُصَاحَبَةُ والِاصْطِحَابُ أبلغ من الاجتماع، لأجل أنّ المصاحبة تقتضي طول لبثه، فكلّ اصْطِحَابٍ اجتماع، ولیس کلّ اجتماع اصطحابا، وقوله : وَلا تَكُنْ كَصاحِبِ الْحُوتِ [ القلم/ 48] ، وقوله : ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا ما بصاحبِكُمْ مِنْ جِنَّةٍ [ سبأ/ 46] ، وقد سمّي النبيّ عليه السلام صاحبهم تنبيها أنّكم صحبتموه، وجرّبتموه وعرفتموه ظاهره وباطنه، ولم تجدوا به خبلا وجنّة، وکذلک قوله : وَما صاحِبُكُمْ بِمَجْنُونٍ [ التکوير/ 22] . والْإِصحَابُ للشیء : الانقیاد له . وأصله أن يصير له صاحبا، ويقال : أَصْحَبَ فلان : إذا كَبُرَ ابنه فصار صاحبه، وأَصْحَبَ فلان فلانا : جعل صاحبا له . قال : وَلا هُمْ مِنَّا يُصْحَبُونَ [ الأنبیاء/ 43] ، أي : لا يكون لهم من جهتنا ما يَصْحَبُهُمْ من سكينة وروح وترفیق، ونحو ذلک ممّا يصحبه أولیاء ه، وأديم مصحب : أُصْحِبَ الشّعر الذي عليه ولم يُجَزَّ عنه . ( ص ح ب ) الصاحب ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ قالَ لَهُ صاحِبُهُ وَهُوَ يُحاوِرُهُ [ الكهف/ 34] تو اس کادوست جو اس سے گفتگو کر رہا تھا کہنے لگا ۔ أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ [ الكهف/ 9] کیا تم خیال کرتے ہو کہ غار اور لوح والے ۔ وَأَصْحابِ مَدْيَنَ [ الحج/ 44] اور مدین کے رہنے والے بھی ۔ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] وہ جنت کے مالک ہوں گے ( اور ) ہمیشہ اس میں ( عیش کرتے ) رہیں گے ۔ وَلا تَكُنْ كَصاحِبِ الْحُوتِ [ القلم/ 48] اور مچھلی ) کا لقمہ ہونے والے ( یونس (علیہ السلام) کی طرح نہ ہونا ۔ اور آیت : ۔ مِنْ أَصْحابِ السَّعِيرِ [ فاطر/ 6]( تاکہ وہ ) دوزخ والوں میں ہوں ۔ اور آیت کریمہ : وَما جَعَلْنا أَصْحابَ النَّارِ إِلَّا مَلائِكَةً [ المدثر/ 31] اور ہم نے دوزخ کے دروغہ فرشتے بنائے ہیں ۔ میں اصحاب النار سے دوزخی مراد نہیں ہیں بلکہ دوزخ کے داردغے مراد ہیں جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے ۔ پھر صاحب کا لفظ کبھی ان کی طرف مضاف ہو تو ہے جو کسی کے زیر نگرانی ہوتے ہیں جیسے صاحب الجیش ( فوج کا حاکم اور کبھی حاکم کی طرف جیسے صاحب الاسیر ( بادشاہ کا وزیر ) المصاحبۃ والا صطحاب میں بنسبت لفظ الاجتماع کے مبالغہ پایا جاتا ہے کیونکہ مصاحبۃ کا لفظ عرصہ دراز تک ساتھ رہنے کو مقتضی ہے اور لفظ اجتماع میں یہ شرط نہیں ہے لہذا اصطحاب کے موقعہ پر اجتماع کا لفظ تو بول سکتے ہیں مگر اجتماع کی جگہ پر ہر مقام میں اصطحاب کا لفظ نہین بول سکتے اور آیت کریمہ : ۔ ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا ما بصاحبِكُمْ مِنْ جِنَّةٍ [ سبأ/ 46] تمہارے رفیق کو سودا نہیں میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صاحبکم کہہ کر متنبہ کیا ہے کہ تم نے ان کے ساتھ زندگی بسر کی ہے ان کا تجربہ کرچکے ہو اور ان کے ظاہر و باطن سے واقف ہوچکے ہو پھر بتاؤ کہ ان میں کوئی دماغی خلل یا دیوانگی پائی جاتی ہے یہی معنی آیت وما صاحِبُكُمْ بِمَجْنُونٍ [ التکوير/ 22] کے ہیں ۔ الا صحاب للشئی کے معنی ہیں وہ فرمانبردار ہوگیا اصل میں اس کے معنی کسی کا مصاحب بن کر اس کے ساتھ رہنے کے ہیں ۔ چناچہ اصحب فلان اس وقت بولتے ہیں جب کسی کا بیٹا بڑا ہو کر اس کے ساتھ رہنے لگے ۔ اور اصحب فلان فلانا کے معنی ہیں وہ اس کا ساتھی بنادیا گیا قرآن میں ہے : ۔ وَلا هُمْ مِنَّا يُصْحَبُونَ [ الأنبیاء/ 43] اور نہ ہم سے پناہ ہی دیئے جائیں گے ۔ یعنی ہماری طرف سے ان پر سکینت تسلی کشائش وغیرہ کی صورت میں کسی قسم کا ساتھ نہیں دیا جائے گا جیسا کہ اس قسم کی چیزوں سے اولیاء اللہ کی مدد کی جاتی ہے ۔ ادیم مصحب : کچا چمڑہ جس سے بال نہ اتارے گئے ہوں ۔ يمین ( دائیں طرف) اليَمِينُ : أصله الجارحة، واستعماله في وصف اللہ تعالیٰ في قوله : وَالسَّماواتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ [ الزمر/ 67] علی حدّ استعمال الید فيه، و تخصیص اليَمِينِ في هذا المکان، والأرض بالقبضة حيث قال جلّ ذكره : وَالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 67] يختصّ بما بعد هذا الکتاب . وقوله :إِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَأْتُونَنا عَنِ الْيَمِينِ [ الصافات/ 28] أي : عن الناحية التي کان منها الحقّ ، فتصرفوننا عنها، وقوله : لَأَخَذْنا مِنْهُ بِالْيَمِينِ [ الحاقة/ 45] أي : منعناه ودفعناه . فعبّر عن ذلک الأخذ باليَمِينِ کقولک : خذ بِيَمِينِ فلانٍ عن تعاطي الهجاء، وقیل : معناه بأشرف جو ارحه وأشرف أحواله، وقوله جلّ ذكره : وَأَصْحابُ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 27] أي : أصحاب السّعادات والمَيَامِنِ ، وذلک علی حسب تعارف الناس في العبارة عن المَيَامِنِ باليَمِينِ ، وعن المشائم بالشّمال . واستعیر اليَمِينُ للتَّيَمُّنِ والسعادة، وعلی ذلک وَأَمَّا إِنْ كانَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 90- 91] ، وعلی هذا حمل :إذا ما راية رفعت لمجد ... تلقّاها عرابة باليَمِين ( ی م ن ) الیمین کے اصل معنی دایاں ہاتھ یا دائیں جانب کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَالسَّماواتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ [ الزمر/ 67] اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لیپٹے ہوں گے ۔ میں حق تعالیٰ کی طرف یمن نسبت مجازی ہے ۔ جیسا کہ ید وغیر ہا کے الفاظ باری تعالیٰ کے متعلق استعمال ہوتے ہیں یہاں آسمان کے لئے یمین اور بعد میں آیت : ۔ وَالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 67] اور قیامت کے دن تمام زمین اس کی مٹھی میں ہوگی ۔ میں ارض کے متعلق قبضۃ کا لفظ لائے میں ایک باریک نکتہ کی طرف اشارہ ہے جو اس کتاب کے بعد بیان ہوگا اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَأْتُونَنا عَنِ الْيَمِينِ [ الصافات/ 28] تم ہی ہمارے پاس دائیں اور بائیں ) اسے آتے تھے ۔ میں یمین سے مراد جانب حق ہے یعنی تم جانب حق سے ہمیں پھیرتے تھے اور آیت کریمہ : ۔ لَأَخَذْنا مِنْهُ بِالْيَمِينِ [ الحاقة/ 45] تو ہم ان کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے ۔ میں دایاں ہاتھ پکڑ لینے سے مراد روک دینا ہے جیسے محاورہ ہے : ۔ یعنی فلاں کو ہجو سے روک دو ۔ بعض نے کہا ہے کہ انسان کا دینا ہاتھ چونکہ افضل ہے سمجھاجاتا ہے اسلئے یہ معنی ہو نگے کہ ہم بہتر سے بہتر حال میں بھی اسے با شرف اعضاء سے پکڑ کر منع کردیتے اور آیت کریمہ : ۔ وَأَصْحابُ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 27] اور دہنے ہاتھ والے ۔ میں دہنی سمت والوں سے مراد اہل سعادت ہیں کو ین کہ عرف میں میامن ( با برکت ) ) کو یمین اور مشاے م ( منحوس ) کو شمالی کے لفظ سے یاد کیا جاتا ہے اور استعارہ کے طور پر یمین کا لفظ بر کت وسعادت کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَأَمَّا إِنْ كانَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 90- 91] اگر وہ دائیں ہاتھ والوں یعنی اصحاب خیر وبر کت سے ہے تو کہا جائیگا تجھ پر داہنے ہاتھ والوں کی طرف سے سلام اور ایس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( 426 ) اذا ما رایۃ رفعت ملجد تلقا ھا عرا بۃ بالیمین جب کبھی فضل ومجد کے کاموں کے لئے جھنڈا بلند کیا جاتا ہے تو عرابۃ اسے خیر و برکت کے ہاتھ سے پکڑ لیتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

مگر جنتی وہ ایسے نہیں ہوں گے کیونکہ بہشتوں میں ہوں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٩{ اِلَّآ اَصْحٰبَ الْیَمِیْنِ ۔ } ” سوائے ان لوگوں کے جو داہنے والے ہوں گے۔ “ یعنی جن کا نامہ اعمال ان کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة الْمُدَّثِّر حاشیہ نمبر :31 بالفاظ دیگر بائیں بازو والے تو اپنے کسب کے بدلے میں پکڑ لیے جائیں گے لیکن دائیں بازو والے اپنا فک رہن کرالیں گے ۔ ( دائیں بازو اور بائیں بازو کی تشریح کے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد پنجم ، تفسیر سورہ واقعہ ، حواشی 5 ، 6 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

18: اس سے مراد وہ نیک لوگ ہیں جن کا اعمال نامہ اُنہیں ان کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(74:39) الا اصحب الیمین۔ استثناء متصل ہے چونکہ مستثنیٰ متصل (اصحب) الا کے بعد کلام موجب میں واقع ہے لہٰذا منصوب ہے۔ (کلام موجب وہ ہے جس میں نفی نہی استفہام نہ ہو) ۔ اصحب الیمن۔ مضاف مضاف الیہ دائیں ہاتھ والے۔ مراد اشخاص جن کو اعمال نامے دائیں ہاتھ میں دئیے جائیں گے یا وہ گروہ جو قیامت کے روز اللہ کے عرش کے دائیں طرف کھڑا ہوگا۔ اگر یمین یمن سے ہے جس کے معنی برکت اور غیر و بہتری کے ہیں تو اس سے اہل خیر اور نیک و کار، ایماندار لوگ مراد ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 یعنی وہلوگ جنہیں ان کا نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا یا جو دائیں ہاتھ چلائے جائیں گے یا جو حضرت آدم کی پشت کی دائیں جانب سے نکلے یا جو دنیا میں سیدھی راہ پر چلتے رہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : ہر انسان اپنے اعمال کے بدلے میں گروی ہے اسی بنیاد پر ہی نجات پائے گا یا پکڑا جائے گا۔ اپنے اعمال کی وجہ سے پکڑے جانے والے لوگوں سے جنتی مستثنیٰ ہوں گے انہیں نیک اعمال کے بدلے جنت میں داخلہ دیا جائے گا وہ جنت میں تشریف فرما ہونے کے باوجود گاہے گاہے جہنمیوں سے بات چیت کرسکیں گے تاکہ جہنمیوں کو یہ احساس ہو کہ دنیا میں ہمارے ساتھ رہنے والے لوگ جنہیں ہم حقیر سمجھتے تھے وہ آج جنت میں عیش و عشرت کے ساتھ رہ رہے ہیں اور ہم ان کے مقابلے میں اذّیت ناک سزائیں پا رہے ہیں۔ جب جنتی ان سے سوال کریں گے کہ تمہیں کون سی چیز جہنم میں لے آئی ہے تو وہ اقرار کریں گے کہ ہم نماز پڑھنے والوں میں نہ تھے او ہم مسکینوں کو کھانا نہیں کھلایا کرتے تھے اور ہم حق کے خلاف باتیں کرنے والوں میں شامل تھے اور قیامت کے دن کو جھوٹ قرار دیتے تھے۔ اسی حالت میں ہمیں موت آئے گی یہاں تک کہ ہمیں جہنم کے ساتھ واسطہ پڑا ہے جس پر ہم یقین نہیں کرتے تھے اب ہمیں یقین ہوگیا ہے۔ یہاں کلام کے سیاق وسباق سے معلوم ہوتا ہے کہ جہنمی جنتیوں سے درخواست کریں گے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور ہماری نجات کی سفارش کی جائے۔ لیکن ان کی سفارش کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ جن کی کوئی سفارش نہیں کرسکے گا وہ کافر، مشرک اور منافق ہوں گے یہ لوگ ہمیشہ ہمیش جہنم میں رہیں گے جہنمی جن گناہوں کا سب سے پہلے اعتراف کریں گے وہ تین ہیں۔ تارک نماز ہونا : حقوق اللہ میں سب سے پہلے اللہ کا بندے پر حق یہ ہے کہ بندہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرے اور عبادات میں سب سے پہلا فرض نماز ہے۔ (بَیْنَ الرَّجُلِ وَبَیْنَ الشِّرْکِ وَالْکُفْرِ تَرْکُ الصَّلٰوۃِ ) (رواہ مسلم : کتاب الایمان) ” مسلمان اور کفر و شرک کے درمیان ترک نماز کا فرق ہے۔ “ جہنمی کا اقرار کہ ہم کھانا نہیں کھلاتے تھے : حقوق اللہ کے بعد حقوق العباد ہیں حقوق العباد میں سر فہرست وہ لوگ ہیں جو زندگی کی بنیادی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہیں۔ انسان کی بنیادی ضروریات میں اس کی پہلی ضرورت یہ ہے کہ اسے روح اور جسم کا رشتہ قائم رکھنے کے لیے خوراک میسر ہونی چاہئے اگر کوئی غریب دو وقت کی روٹی سے محروم ہے تو اس کے پڑوسی اور حکومت کا فرض ہے کہ وہ اس کی خوراک کا بندوبست کرے دین اسلام نے اس فرض کو اس حد تک لازم قرار دیتا ہے۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) یَقُولُ سَمِعْتُ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ لَیْسَ الْمُؤْمِنُ الَّذِی یَشْبَعُ وَجَارُہُ جَاءِعٌ إِلَی جَنْبِہِ ) (مَا جَاءَ فِی کَرَاہِیَۃِ إِمْسَاکِ الْفَضْلِ ، وَغَیْرُہُ مُحْتَاجٌ إِلَیْہِ ) ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ فرما رہے تھے کہ وہ شخص مومن نہیں جو خود سیر ہو کر کھائے اور اس کا پڑوسی اس کے پڑوس میں بھوکا رہے۔ “ قیامت کا انکار کرنا : قرآن مجید کا مطالعہ کرنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ قرآن مجید کا تیسرا بڑا مضمون فکر آخرت ہے جو شخص آخرت پر یقین نہیں رکھتا اور اس کیلئے تیاری نہیں کرتا وہ قیامت کے دن پکڑا جائے گا اور وہاں اس کی کوئی سفارش کرنے والا نہیں ہوگا۔ مسائل ١۔ جنتیوں کے سوال کے جواب میں جہنمی اقرار کریں گے کہ ہم بےنماز تھے اور مسکینوں کو کھانا نہیں کھلایا کرتے تھے۔ ٢۔ جہنمی اقرار کریں گے کہ ہم حق کے مقابلے میں باتیں بنایا کرتے اور جہنم کو جھٹلایا کرتے تھے۔ ٣۔ جہنمیوں کے اقرار کرنے کے باوجود ان کی سفارش کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اصحاب الیمین کی رہائی اور قیدوبند سے ان کے چھوٹ جانے کا واقعہ کیونکر پیش آیا کہ اللہ نے اپنے فضل وکرم سے ان کی نیکیوں کو دوگنا کردیا اور ایسے مشکل حالات میں ان کی رہائی اور کامیابی کا اعلان دلوں کو گرما دیتا ہے اور انسان اللہ کی رحمتوں کے یقین سے سرشار ہوجاتا ہے۔ اسی طرح اس بات کا اثر مجرموں اور تکذیب کرنے والوں پر بھی ہوتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو سخت ترین حالات میں محصور پاتے ہیں۔ نہایت ہی اہانت آمیزی کے ساتھ وہ اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں۔ اور ایک طویل بیان ریکارڈ کراتے ہیں ، جبکہ وہ اہل ایمان جن کو وہ اس دنیا میں کچھ چیز ہی نہ سمجھتے تھے اور ان کو ذرہ برابر اہمیت بھی نہ دیتے تھے ، وہ اب عزت و تکریم کی بلندیوں پر ہیں۔ اور وہ ان سے اس انداز میں سوال کرتے ہیں جس طرح کوئی نہایت ہی شکست خوردہ شخص سے کرتا ہے۔ ذرا سوال دیکھیں :

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿اِلَّاۤ اَصْحٰبَ الْيَمِيْنِؕۛ٠٠٣٩﴾ (لیکن داہنی طرف والے مرہون نہ ہوں گے یعنی ایمان اور اعمال صالحہ کی وجہ سے ان حضرات کی نجات ہوجائے گی وہ اپنے اعمال کی وجہ سے محبوس نہ ہوں گے جنت میں داخل ہونے کے لیے ان کے لیے کوئی رکاوٹ نہ ہوگی یہ وہی اصحاب یمین ہیں جن کا سورة الواقعہ میں ذکر ہے ﴿وَ اَصْحٰبُ الْيَمِيْنِ ١ۙ۬ مَاۤ اَصْحٰبُ الْيَمِيْنِؕ٠٠٢٧ فِيْ سِدْرٍ مَّخْضُوْدٍۙ٠٠٢٨﴾ (الآیات)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(39) مگر داہنی جانب والے اس حبس اور رہن سے مستثنیٰ ہیں۔ یعنی الست کے دن حضرت آدم (علیہ السلام) کی داہنی جانب تھے دنیا میں بھی راست رو رہے، قیامت میں عرش الٰہی کے دائیں جانب جگہ ملی اور ان کے نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں دیئے گئے۔ یہ حضرات اصحاب یمین کہلاتے ہیں جیسا کہ سورة واقعہ میں ذکر کیا جاچکا ہے اور جب اصحاب یمین مستثنیٰ ہوئے تو سابقون کو بالادلیٰ مستثنیٰ سمجھنا چاہیے۔ بہرحال یہ حضرات محبوس ہونے سے مستثنیٰ ہوں گے یہ حقوق واجہ ادا کردینے کی وجہ سے مرہون نہ ہوں گے آگے ان اصحاب یمین کی مزید تفصیل ہے۔