Surat ul Mudassir

Surah: 74

Verse: 43

سورة المدثر

قَالُوۡا لَمۡ نَکُ مِنَ الۡمُصَلِّیۡنَ ﴿ۙ۴۳﴾

They will say, "We were not of those who prayed,

وہ جواب دیں گے کہ ہم نمازی نہ تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) قالوا لم نک من المصلین…: جہنمی اپنے جہنم میں جانے کے چار اسباب بیان کریں گے، پہلا یہ کہ وہ نماز ادا کرنے والوں میں شامل نہ ہوئے، دوسرا یہ کہ وہ مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے، تیسرا یہ کہ دین کی باتوں کو مذاق کرنے اور جھٹلانے کیلئے وہ مجلسوں میں بیٹھ کر فضول بحث کیا کرتے تھے اور چوتھا یہ کہ وہ روز جزا کو جھٹلاتے تھے۔ ان کی فصیل حسب ذیل ہے :(١) نماز ایمان کے ان ارکان میں سے ہے جن کے بغیر کوئی شخص اسلامی برادری میں شامل ہی نہیں ہوسکتا اور نہ ہی اسے ” انما المومنون اخوۃ “ والی اخوت دینی حاصل ہوسکتی ہے، جیسا کہ فرمایا :(فان تابوا واقاموا ال صلوۃ و اتوا الزکو ۃ فاخوانکم فی الدین) (التوبۃ : ١١)” پھر اگر وہ (کفر سے) توبہ کریں اور نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں تو دین میں تمہارے بھائی ہیں۔ “ بلکہ جب تک کوئی شخص ایمان قبول کر کے صلوۃ و زکوۃ ادا نہ رکے اس سے جنگ کا حکم ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(امرت ان اقاتل الناس حتی یشھدوا الا الہ الا اللہ و ان محمداً رسول اللہ و یقیموالصلاۃ و یوتوا الزکاۃ فاذا فعلوا ذلک عصموا منی دمائھم واموالھم الا بحق الاسلام و حسابھم علی اللہ) (بخاری، الایمان، باب :(فان تابوا واقاموا الصلاۃ…): ٢٥)” مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑتا رہوں یہاں تک کہ وہ اس بات کی شہادت دیں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں اور نمازقائم کریں اور زکوۃ ادا کریں۔ پھر جب وہ یہ کام کریں تو انہوں نے اپنے خون اور مال مجھ سے محفوظ کر لئے، مگر اسلام کے حق کے ساتھ اور ان کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔ “ (٢) جہنمیوں کا یہ اقرار کہ وہ مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام میں مساکین کو کھانا کھلانا کس قدر ضروری ہے۔ (٣) اللہ کی آیات سے مذاق کرنا اور ان کے متعلق فضول بحث کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ان پر ایمان نہیں رکھتا تھا۔ اگر کوئی مسلمان اس کا ارتکاب کرے تو وہ بھی کافر ہوجاتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(ولئن سالتھم لیقولن انما کنا نخوض و نلعب قل اباللہ وایتہ و رسولہ کنتم تستھزء ون لاتعذروا قد کفر تم بعد ایمانکم) (التوبۃ : ٦٥، ٦٦)” اگر آپ ان سے پوچھیں تو کہیں گے ہم تو صرف بحث اور دل لگی کر رہے تھے۔ کہہ دے کیا اللہ کے ساتھ، اس کے رسولا ور اس کی آیات کے ساتھ ہی تمہیں ہنسی مذاق کرنا تھا ؟ بہانے مت بناؤ، یقیناً تم ایمان کے بعد بےایمان ہوگئے ہو۔ “ (٤) قیامت پر قین ایمان کی بنیادی شرط ہے، اس کے بغیر آدمی مسلمان ہی نہیں ہوتا۔ حدیث جبریل میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایمان کی تعریف یہ فرمائی :(ان تومن باللہ و ملائکۃ و کتبہ و رسلہ والیوم الاخر و نومن بالقدر خیرہ و شرہ) (مسلم ، الایمان، باب بیان الایمان واللاسلام…: ٨)” ایمان یہ ہے) کہ تم اللہ پر اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر اور یوم آخرت پر ایمان لاؤ اور قدیر پر خواہ اچھی ہو یا بری، ایمان لاؤ۔ “ (٢) بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ کفار اسلام کے تفصیلی احکام کے مخاطب نہیں ہیں اور نہ اللہ کی طرف سے انہیں اسلام کے احاکم مثلاً نماز و زکوۃ وغیرہ بجا لانے کے مکلف ہیں۔ ایمان لانے سے پہلے انہیں اعمال سے مستثنیٰ قرار دینا ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص کہے کہ وضو کے بغیر چونکہ نماز قبول نہیں ہوتی، اسلئے جب تک کوئی شخص وضو نہ کرلے وہ ” اقیموا الصلوۃ “ کا مخاطب ہی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح بےو و شخص ” اقیموا الصلوۃ “ کا مخطاب ہے اور اسے حکم ہے کہ وضو کر کے نماز ادا کرے، اسی طرح کفار بھی ” اقیموا الصلوۃ واتوا الزکوۃ “ اور دوسرے تمام احکام کے مخاطب ہیں اور انہیں حکم ہے کہ ایمان لا کر یہ تمام احکام ادا کریں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّيْنَ۝ ٤٣ ۙ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ «لَمْ» وَ «لَمْ» نفي للماضي وإن کان يدخل علی الفعل المستقبل، ويدخل عليه ألف الاستفهام للتّقریر . نحو : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] ، أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی [ الضحی/ 6] ( لم ( حرف ) لم ۔ کے بعد اگرچہ فعل مستقبل آتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے وہ اسے ماضی منفی بنادیتا ہے ۔ اور اس پر ہمزہ استفہام تقریر کے لئے آنا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] کیا ہم نے لڑکپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی ۔ صلا أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] والصَّلاةُ ، قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق : تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة/ 157] ، ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار، كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة، أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] ( ص ل ی ) الصلیٰ ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ الصلوۃ بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔ اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

33 That is, "We were not of those who after having believed in Allah and His Messenger and His Boo , performed the foremost duty imposed by Allah, i.e. the Prayer. " Here, it should be understood well that unless a person has believed he cannot offer the Prayer at all. Therefore, one's being of those who performed the Prayer, by itself implies that one is a believer. But by attributing one's going to Hell to one's not being of those who performed their Prayer, it has been made explicit that one cannot escape Hell even after having believed if one dces not perform one's Prayers regularly.

سورة الْمُدَّثِّر حاشیہ نمبر :33 مطلب یہ ہے کہ ہم ان لوگوں میں سے نہ تھے جنہوں نے خدا اور اس کے رسول اور اس کی کتاب کو مان کر خدا کا وہ اولین حق ادا کیا ہو جو ایک خدا پرست انسان پر عائد ہوتا ہے ، یعنی نماز ۔ اس مقام پر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ نماز کوئی شخص اس وقت تک پڑھ ہی نہیں سکتا جب تک وہ ایمان نہ لایا ہو ۔ اس لیے نمازیوں میں سے ہونا آپ سے آپ ایمان لانے والوں میں سے ہونے کو مستلزم ہے ۔ لیکن نمازیوں میں سے نہ ہونے کو دوزخ میں جانے کا سبب قرار دے کر یہ بات واضح کر دی گئی کہ ایمان لا کر بھی آدمی دوزخ سے نہیں بچ سکتا اگر وہ تارکِ نماز ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(74:43) قالوا۔ یعنی اہل دوزخ (المجرمین) کہیں گے :۔ (1) لم نک من المصلین لم نک مضارع نفی جحد بلم (مضارع مجزوم بوجہ عمل لم) ۔ نک اصل میں نکون تھا۔ ہم نمازی نہ

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قالو ................ المصلین (74:43) ” وہ کہیں گے ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے “۔ اشارہ یہ ہے کہ ہم ایمان لاکر اس گروہ میں شامل نہ ہوئے جو نمازیوں کا گروہ تھا ، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں نماز کی اہمیت کیا ہے ۔ یہ گویا ایمان اور فلاح کی دلیل ہے اور نماز کا انکار دراصل کفر ہے اور جو شخص نماز نہیں پڑھتا۔ وہ صفت ایمان سے محروم ہوجاتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

16:۔ ” قالوا “ کفار و مشرکین جواب میں کہیں گے۔ ہم نماز کی فرضیت کے معتقد نہیں تھے، نہ فقراء و مساکین پر خرچ کرنے کو اچھا سمجھتے تھے۔ دین کا مذاق اڑانے والوں کے ساتھ مل کر ہم بھی دین کا تمسخر اڑاتے تھے اور قیامت کے دن کو بھی نہیں مانتے تھے۔ ہم اسی حال میں رہے۔ یہاں تک کہ موت نے ہمیں آلیا۔ کفار چونکہ مخاطب بالفروع نہیں ہیں اس لیے نماز نہ پڑھنے سے نماز کی فرضیت کا اعتقاد نہ رکھنا مراد ہے۔ یا مصلین، مومنین سے کنایہ ہے۔ فیجوز ان یکون المعنی من المعتقدین للصلاۃ ووجوبھا فیکون العذاب علی ترک الاعتقاد وایضا المصلین یجوز ان یکون کنایۃ عن المؤمنین (روح ج 29 ص 133) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(43) وہ جواب دیں گے نہ ہم نماز پڑھنے والوں میں سے تھے۔