Surat ul Qiyama

Surah: 75

Verse: 1

سورة القيامة

لَاۤ اُقۡسِمُ بِیَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ ۙ﴿۱﴾

I swear by the Day of Resurrection

میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Oath about the Final Return on the Day of Resurrection and the Refutation against the Plots of the Thinkers It has been mentioned previously on more than one occasion that if the thing that is being sworn about is something that is being negated, then it is permissible to use the word "La" (Nay) before the oath to emphasize the negation. Here, what is being sworn about is ... the affirmation of the final abode and the refutation against the claim of the ignorant that the resurrection of bodies will not occur. This is why Allah says, لاَا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ وَلاَ أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ   Show more

ہم سب اپنے اعمال کا خود آئینہ ہیں یہ کئی دفعہ بیان ہو چکا ہے کہ جس چیز پر قسم کھائی جائے اگر وہ رد کرنے کی چیز ہو تو قسم سے پہلے لا کا کلمہ نفی کی تائید کے لئے لانا جائز ہوتا ہے یہاں قیامت کے ہونے پر اور جاہلوں کے اس قول کی تردید پر قیامت نہ ہو گی قسم کھائی جا رہی ہے تو فرماتا ہے قسم ہے قیامت کے ... دن کی اور قسم ہے ملامت کرنے والی جان کی ، حضرت حسن تو فرماتے ہیں قیامت کی قسم ہے اور ملامت کرنے والے نفس کی قسم نہیں ہے ، حضرت قتادہ فرماتے ہیں دونوں کی قسم ہے ، حسن اور اعرج کی قرأت آیت ( لَآ اُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ Ǻ۝ۙ ) 75- القيامة:1 ) ہے اس سے بھی حضرت حسن کے قول کی تائید ہوتی ہے اس لئے کہ ان کے نزدیک پہلے کی قسم ہے اور دوسرے کی نہیں ، لیکن صحیح قول یہی ہے کہ دونوں کی قسم کھائی ہے جیسے کہ حضرت قتادہ کا فرمان ہے ، ابن عباس اور سعید بن جبیر سے بھی یہی مروی ہے اور امام ابن جریر کا مختار قول بھی یہی ہے ۔ یوم قیامت کو تو ہر شخص جانتا ہی ہے ، نفس لوامہ کی تفسیر میں حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ اس سے مراد مومن کا نفس ہے وہ ہر وقت اپنے تئیں ملامت ہی کرتا رہتا ہے کہ یوں کیوں کہدیا ؟ یہ کیوں کھا لیا ؟ یہ خیال دل میں کیوں آیا ؟ ہاں فاسق فاجر غافل ہوتا ہے اسے کیا پڑی جو اپنے نفس کو روکے ، یہ بھی مروی ہے کہ زمین و آسمان کی تمام مخلوق قیامت کے دن اپنے تئیں ملامت کرے گی ، خیر والے خیر کی کمی پر اور شر والے شر کے سرزد ہونے پر ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد مذموم نفس ہے جو نافرمان ہو ، فوت شدہ پر نادم ہونے والا اور اس پر ملامت کرنے والا ، امام ابن جریر فرماتے ہیں یہ سب اقوال قریب قریب ہیں مطلب یہ ہے کہ وہ نفس والا ہے جو نیکی کی کمی پر برائی کے ہو جانے پر اپنے نفس کو ملامت کرتا ہے اور فوت شدہ پر ندامت کرتا ہے ۔ پھر فرماتا ہے کیا انسان یہ سوچے ہوئے ہے کہ ہم قیامت کے دن اس کی ہڈیوں کے جمع کرنے پر قادر نہ ہوں گے ، یہ تو نہایت غلط خیال ہے ہم اسے متفرق جگہ سے جمع کر کے دوبارہ کھڑا کریں گے اور اس کی بالشت بالشت بنا دیں گے ۔ ابن عباس وغیرہ فرماتے ہیں یعنی ہم قادر ہیں کہ اسے اونٹ یا گھوڑے کے تلوے کی طرح بنا دیں ، امام ابن جریر فرماتے ہیں یعنی دنیا میں بھی اگر ہم چاہتے اسے ایسا کر دیتے ، آیت کے لفظوں سے تو ظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ ( قادرین ) حال ہے ( نجمع ) سے یعنی کیا انسان یہ گمان کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں جمع نہ کریں گے ہاں ہاں ہم عنقریب جمع کریں گے درآنحالیکہ ہمیں ان کے جمع کرنے کی قدرت ہے بلکہ اگر ہم چاہیں تو جتنا یہ تھا اس سے بھی کچھ زیادہ بنا کر اسے اٹھائیں اس کی انگلیوں کے سرے تک برابر کر کے پیدا کریں ۔ ابن قتیبہ اور زجاج کے قول کے یہی معنی ہیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ انسان اپنے آگے فسق و فجور کرنا چاہتا ہے یعنی قدم بہ قدم بڑھ رہا ہے ، امیدیں باندھے ہوئے ہے ، کہتا جاتا ہے کہ گناہ کرتولوں توبہ بھی ہو جائے گی قیامت کے دن سے جو اس کے آگے ہے کفر کرتا ہے ، وہ گویا اپنے سر پر سوار ہو کر آگے بڑھ رہا ہے ، ہر وقت یہی پایا جاتا ہے کہ ایک ایک قدم اپنے نفس کو اللہ کی معصیت کی طرف بڑھاتا جاتا ہے مگر جن پر رب کا رحم ہے ، اکثر سلف کا قول اس آیت کی تفسیر میں یہی ہے کہ گناہوں میں جلدی کرتا ہے اور توبہ میں تاخیر کرتا ہے ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں جو یوم حساب کا منکر ہے ، ابن زید بھی یہی کہتے ہیں اور یہی زیادہ ظاہر مراد ہے کیونکہ اس کے بعد ہی ہے کہ وہ پوچھتا ہے قیامت کب ہو گی ، اس کا یہ سوال بھی بطور انکار کے ہے یہ جانتا ہے کہ قیامت کا آنا محال ہے ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَيَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ 48؀ ) 10- یونس:48 ) ، کہتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو بتا دو کہ قیامت کب آئے گی؟ ان سے کہدے کہ اس کا ایک دن مقرر ہے جس سے نہ تم ایک ساعت آگے بڑھ سکو گے نہ پیچھے ہٹ سکو گے ۔ یہاں بھی فرماتا ہے کہ جب آنکھیں پتھرا جائیں گی ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( لَا يَرْتَدُّ اِلَيْهِمْ طَرْفُهُمْ ۚ وَاَفْــِٕدَتُهُمْ هَوَاۗءٌ 43؀ۭ ) 14- ابراھیم:43 ) ، یعنی پلکیں جھپکیں گی نہیں بلکہ رعب و دہشت خوف و وحشت کے مارے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ادھر ادھر دیکھتے رہیں گے ، برق کی دوسری قرأت برق بھی ہے ، معنی قریب قریب ہیں اور چاند کی روشنی بالکل جاتی رہے گی اور سورج چاند جمع کر دیئے جائیں گے یعنی دونوں کو بےنور کر کے لپیٹ لیا جائے گا ، جیسے فرمایا آیت ( اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ Ǻ۝۽ ) 81- التكوير:1 ) حضرت ابن مسعود کی قرأت میں ( وجمیع بین الشمس والقمر ) ہے ، انسان جب یہ پریشانی شدت ہول گھبراہٹ اور انتظام عالم کی یہ خطرناک حالت دیکھے گا تو بھاگا جائے گا اور کہے گا کہ جائے پناہ یعنی بھاگنے کی جگہ کہاں ہے؟ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو ملے گا کہ کوئی پناہ نہیں رب کے سامنے اور اس کے پاس ٹھہرنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( مَا لَكُمْ مِّنْ مَّلْجَاٍ يَّوْمَىِٕذٍ وَّمَا لَكُمْ مِّنْ نَّكِيْرٍ 47؀ ) 42- الشورى:47 ) یعنی آج نہ تو کوئی جائے پناہ ہے نہ ایسی جگہ کہ وہاں جا کر تم انجان اور بےپہچان بن جاؤ ، آج ہر شخص کو اس کے اگلے پچھلے نئے پرانے چھوٹے بڑے اعمال سے مطلع کیا جائے گا ، جیسے فرمان ہے آیت ( وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا 49؀ۧ ) 18- الكهف:49 ) جو کیا تھا ، موجود پا لیں گے اور تیرا رب کسی پر ظلم نہ کرے گا ۔ انسان اپنے آپ کو بخوبی جانتا ہے اپنے اعمال کا خود آئینہ ہے گو انکار کرے اور عذر معذرت پیش کرتا پھرے ، جیسے فرمان ہے آیت ( اِقْرَاْ كِتٰبَكَ ۭ كَفٰى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيْبًا 14۝ۭ ) 17- الإسراء:14 ) اپنا نامہ اعمال خود پڑھ لے اور اپنے تئیں آپ ہی جانچ لے ، اس کے کان آنکھ ، پاؤں اور دیگر اعضاء ہی اس پر شہادت دینے کافی ہیں ، لیکن افسوس کہ یہ دوسروں کے عیبوں اور نقصانوں کو دیکھتا ہے اور اپنے کیڑے چننے سے غافل ہے ، کہا جاتا ہے کہ توراۃ میں لکھا ہوا ہے اے ابن آدم تو دوسروں کی آنکھوں کا تو تنکا دیکھتا ہے اور اپنی آنکھ کا شہتیر بھی تجھے دکھائی نہیں دیتا ؟ قیامت کے دن چاہے انسان فضول بہانے بنائے گا اور جھوٹی دلیلیں دے گا بیکار عذر پیش کرے گا مگر ایک بھی قبول نہ کیا جائے گا ۔ اس آیت کے معنی یہ بھی کئے گئے ہیں کہ وہ پردے ڈالے ۔ اہل یمن پردے کو عذر کہتے ہیں ، لیکن صحیح معنی اوپر والے ہیں جیسے اور جگہ ہے کہ کوئی معقول عذر نہ پا کر اپنے شرک کا سر سے انکار ہی کر دیں گے کہ اللہ کی قسم ہم مشرک تھے ہی نہیں اور جگہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ کے سامنے بھی قسمیں کھا کھا کر سچا ہونا چاہیں گے جیسے دنیا میں تمہارے سامنے ان کی حالت ہے لیکن اللہ پر تو ان کا جھوٹ ظاہر ہے چاہے کتنا ہی وہ اپنی تئیں کچھ بھی سمجھتے رہیں ، غرض عذر معذرت انہیں قیامت کے دن کچھ کار آمد نہ ہو گا ، جیسے اور جگہ فرماتا ہے آیت ( يَوْمَ لَا يَنْفَعُ الظّٰلِمِيْنَ مَعْذِرَتُهُمْ وَلَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوْۗءُ الدَّارِ 52؀ ) 40-غافر:52 ) ظالموں کو ان کی معذرت کچھ کام نہ آئے گی یہ تو اپنے شکر کے ساتھ اپنی تمام بداعمالیوں کا بھی انکار کر دیں گے لیکن بےسود ہو گا ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1۔ 1 میں قیامت کے دن کی قسم کھاتا ہوں، قیامت کے دن کی قسم کھانے کا مقصد اس کی اہمیت اور عظمت کو واضح کرنا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١] قسم کھانے سے مقصد بعض دفعہ تو اپنی بات کو مؤکد بنانا ہوتا ہے۔ اور بعض دفعہ قسم بطور شہادت یا شہادت کو مزید مؤکد بنانے کے لیے کھائی جاتی ہے۔ اور ایسی چیز کی کھائی جاتی ہے جسے انسان بہرحال اپنی ذات سے بالاتر سمجھتا ہو۔ اور چونکہ انسان خود اشرف المخلوقات پیدا کیا گیا ہے۔ لہذا ہم انسانوں کو یہی حکم...  ہے کہ اگر قسم کھانے کی ضرورت پیش آئے تو صرف اللہ کی ذات کی یا اس کی صفات کی کھائی جائے۔ اس کے علاوہ غیر اللہ کی قسم کھانا شرک اور حرام ہے۔ لے کن اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے جس چیز کو اہم سمجھتے ہوئے قسم اٹھانا چاہے بطور شہادت اور دلیل پیش کرکے قسم اٹھا سکتا ہے۔ مثلاً یہی قیامت کا دن جسے برپا کرنا اللہ کے انتہائی مہتم بالشان کارناموں سے ایک کارنامہ ہوگا اور یہ ایسی چیز تھی جس کا کفار مکہ یکسر انکار کر رہے تھے۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے ان کافروں کی یقین دہانی کی خاطر قیامت کے دن کی قسم اٹھا کر فرمایا کہ وہ یقیناً واقع ہو کے رہے گی۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) لا اقسم بیوم القیمۃ…:” القیمۃ “ ” قیام “ مصدر ہے ، کھڑا ہونا، تاء ” ایک دفعہ “ کا معنی ادا کرنے کے لئے ہے، یعنی آدمی کا ایک دفعہ کھڑا ہونا۔ یہاں یہ تنبیہ کے لئے لائی گئی ہے کہ قیامت کا وقوع دفعتاً ہوگا۔ (راغب)” یوم القیامۃ “ کا معنی ہوگا ایک ہی دفعہ اٹھ کھڑے ہونے کا دن۔ ” اللوامۃ “” لام یلوم “ س... ے مبالغے کا صیغہ ہے، یعنی بہت ملامت کرنے والا، جیسے ” علامۃ “ اور ” فھامۃ “ ہے۔ (٢) ” لااقسم “ کا معنی یہ نہیں کہ میں قسم نہیں کھاتا، بلکہ ” لا “ الگ ہے اور ” قاسم “ الگ۔ معنی یہ ہے کہ نہیں، میں قیامت کے دن کی قسم کھاتا ہوں۔ عرب کے ہاں یہ محاورہ عام ہے ” لا واللہ “ یعنی جب کوئی شخص انکار کر رہا ہو تو پہلے اس کے انکار کی نفی ” لا “ سے کی جاتی ہے، پھر اپنی بات کی تاکید کے لئے قسم ذکر کی جاتی ہے۔ اردو میں بھی مخاطب کے غلط خیال کی تردید کے لئے ایسے ہی کہا اجتا ہے کہ نہیں، اللہ کی قسم ! بات اس طرح ہے۔ کئی مفسرین نے فرمایا کہ ” لا “ زائدہ ہے اور معنی یہ ہے کہ میں قسم کھاتا ہوں۔ مگر زائدہ ماننے کے بجائے با معنی قرار دینا بلاغت قرآن کے زیادہ لائق ہے، جب کہ معنی بھی درست ہو رہا ہے اور پر زور ہو رہا ہے۔ (٣) قرآن میں انسانی نفس کی تین قسموں کا ذکر کیا گیا ہے، ایک وہ جو اسے گناہ پر ابھارتا ہے، اس کا نام ” امارہ “ ہے، جیسا کہ فرمایا :(ان النفس لامارۃ بالسوء ) (یوسف، ٥٣)” نفس تو برائی کا حکم دینے والا ہے۔ “ دوسرا وہ نفس جو آدمی کو برائی پر ملامت کرتا ہے، اس کا نام ” لوامہ “ ہے۔ کوئی بھی شخص خواہ نیک ہو یا بد، نیک کام میں کوتاہی اور برے کام کے ارتکاب پر خود اس کا نفس اسے ملامت کرتا ہے کہ تم نے ایسا کیوں کیا ؟ اسے عام طورپر اردو میں ضمیر کہتے ہیں۔ تیسرا وہ جسے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی تمام باتوں پر یقین ہو اور ان کے حق ہونے پر اسے پورا اطمینان اور تسلی ہو، منافقین کی طرح شک و شبہ میں مبتلا نہ ہو ، یہ ” نفس مطمئنہ “ ہے۔ بعض اہل علم نے فرمایا کہ یہ ایک ہی نفس کی مختلف وقتوں میں تین حالتیں ہیں۔ (٤) ” بیوم القیمۃ “ اور ” بالنفس اللوامۃ “ کی قسم جس بات پر کھائی گئی ہے وہ یہاں لفظوں میں مذکور نہیں، مگر بعد میں آنے والی آیات سے وہ بات خود بخود سمجھ میں آرہی ہے کہ وہ یہ ہے کہ ہم یقینا انسان کی ہڈیاں اکٹھی کر کے اسے دوبارہ زندہ کریں گے۔ (٥) قسم سے مراد اس بات کی تاکید ہوتی ہے جس کے لئے قسم کھائی جاتی ہے، پھر بعض اوقات تاکید کی صورت یہ ہوتی ہے کہ وہ چیز نہایت عظیم الشان ہوتی ہے جس کی قسم کھائی گئی ہے اور اس کی عظمت ہی بات کی تاکید کیلئے کافی سمجھی جاتی ہے اور بعض اوقات قسم اپنے جواب قسم کی دل یل ہوتی ہے جس سے اس کی تاکید ہوتی ہے۔ یہاں قیامت کے دن کی قسم قیامت کے حق ہونے کی تاکید کیلئے اٹھائی گئی ہے، اس کی وجہ قیامت کی عظمت بھی ہے اور یہ بھی کہ روز قیامت اپنی دلیل خود ہے، جیسا کہ سورة ص میں قرآن کے حق ہونے کے لئے خود قرآن کی قسم کھائی ہے، فرمایا :(ص والقرآن ذی الذکر) (ص : ١)” ص۔ اس نصیحت والے قرآن کی قسم۔ “ اور نفس لوامہ کی قسم اس لئے کہ یہ بات انسان کی فطرت میں رکھ دی گئی ہے کہ اس کا نفس برے کام پر اسے ملامت کرتا ہے، قطع نظر اس سے کہ اس کے نزدیک اچھائی یا برائی کا معیار کیا ہے اورق طع نظر اس سے کہ وہ ضمیر کی اس ملامت کی پروا کرتا ہے یا نہیں ؟ ملامت کرنے والا یہ نفس اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان پر حجت ہے کہ جس طرح تمہارا اپنا نفس خود تم سے باز پرس کر رہا ہے لازم ہے کہ ایک ایسا وقت آئے جب تمہارا پیدا کرنے والا تم سے باز پرس کرے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary لَآ اُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ وَلَآ اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ (I swear by the Day of Resurrection, [ 1] and I swear by the self-reproaching conscience, (that Resurrection is a reality.)...75:1-2). The negative particle la &nay& prefixed to the oath in this context has no meaning. When the object of oath is to refute the false thought of an opponent, this redundant n... egative particle is used before oath. This usage is commonplace in Arabic idiom. Such usage is sometimes employed in our language [ in Urdu ] as well [ as an answer to some objection or in repudiation of what is said before or ] to emphasize an important subject. This Surah refutes and rebuts doubts about the possibility of the Resurrection by the rejecters. The Surah first swears an oath by the Resurrection, and then by the self-reproaching conscience. The complement or subject of oath is contextually understood - the Day of Resurrection is a reality and it shall come to pass. The object of oath in verse [ 1] is to affirm and emphasize the importance of the subject about which an oath is taken. In this instance, it is the Resurrection. In verse [ 2], the object of oath is to lay emphasis on the importance of self-reproaching conscience and its acceptability in the sight of Allah. The word nafs means &soul& or &life& and the word lawwamah is derived from lawm signifying &reproach or upbraid&. The phrase refers to the human conscience that upbraids him for doing bad deeds. It upbraids him not only for doing bad deeds, but also for doing good deeds - &why did you not do more good, and attain higher stages [ of development ]?& In short, a perfect believer reproaches and upbraids himself all the time whether doing good or bad. His reproaching himself for bad deeds is quite understandable, but why should he reproach, blame or criticize himself for good deeds? He should try to reach for higher goals in life by doing better deeds. He upbraids himself for missing out on that score. This interpretation is reported from Sayyidna Ibn ` Abbas and other leading authorities on Tafsir [ Ibn Kathir and others ]. On the same basis, Sayyidna Hasan al-Basri interpreted nafs lawwamah as nafs mu&minah meaning, the &believing soul& and said that &By Allah! A believer at all times upbraids his own self. It is obvious why he should reproach himself when he commits evil. He reproaches himself when he does good deeds as well, because he feels that he has not performed his duties of servitude and Divine worship adequately. He feels that he has not fulfilled and consummated his obligations of slave-hood perfectly. Therefore, he reproaches himself for his shortcomings in the performance of his duties and obligations.&  Show more

خلاصہ تفسیر میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی اور قسم کھاتا ہوں ایسے نفس کی جو اپنے اوپر ملامت کرے (یعنی نیکی کرکے یہ کہے کہ میں نے کیا کیا ہے اس میں اخلاص نہ تھا، اس میں فلانی خرابی رہ گئی تھی اور گناہ ہوجاوے تو بہت ہی نادم ہو۔ کذافی الدر المنثور عن ابن عباس والحسن۔ پس اس معنی کے اعتبار سے یہ نفس ... مطمئنہ کو بھی شامل ہے اور جواب قسم مخدوف ہے یعنی تم ضرور مبعوث ہوگے، اور ان دونوں قسموں کا مناسب مقام ہونا ظاہر ہے قیامت کا تو اسلئے کہ وہ ظرف ہے حشر ونشرا اور نفس لوامہ کا اسلئے کہ ایسا نفس قیامت کی عملی تصدیق کرنے والا ہوتا ہے۔ آگے منکرین بعث پرر (ہے یعنی) کیا انسان خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں ہرگز جمع نہ کریں گے ( انسان سے مراد کافر اور ہڈیوں کی تخصیص اسلئے کہ اصل عماد بدن یہی ہیں۔ آگے اس انکار کا جواب ہے یعنی) ہم ضرور جمع کریں گے (اور یہ جمع کرنا ہم کو کچھ دشوار نہیں) کیونکہ ہم اس پر قادر ہیں کہ اس کی انگلیوں کی پوریوں تک درست کردیں (پوریوں کی تخصیص ذکری دو وجہ سے ہے ایک یہ کہ یہ اطراف بدن ہیں اور تکمیل ہر شئے کے بننے کی اس کے اطراف پر ہوتی ہے۔ چناچہ ہمارے محاورہ میں بھی ایسے موقع پر بولتے ہیں کہ میرے پور پور میں درد ہے یعنی تمام بدن میں۔ دوسرے یہ کہ پوریوں میں باوجوڈ چھوٹی ہونے کے صنعت کی رعایت زیادہ ہے اور عادة یہ زیادہ دشوار ہے پس جو اس پر قادر ہوگا وہ آسمان پر بدرجہ اولیٰ قادر ہوگا لیکن بعضا آدمی قدرت الٰہیہ میں غور نہیں کرتا اور قیامت کا قائل نہیں ہوتا) بلکہ (ایسا) بعضا آدمی (قیامت کا منکر ہو کر) یوں چاہتا ہے کہ اپنی آئندہ زندگی میں بھی (بےخوف وخطر ہو کر) فس و فجور کرتا رہے (اسلئے بطور انکار کے) پوچھتا ہے کہ قیامت کا دن کب آئیگا (یعنی چونکہ اپنی عمر معاصی وشہوات میں گزارنا طے کرچکا ہے اسلئے اس کو طلب حق کی نوبت ہی نہیں آتی کہ قیامت کا ہونا اس کو ثابت ہوا اسلئے انکار پر مصر ہے اور انکاراً پوچھتا ہے کہ کب آئے گی) سو جس وقت (مارے حیرت کے) آنکھیں خیرہ ہوجاویں گی (اور وجہ اس حیرت کی یہ ہوگی کہ جن امور کی تکذیب کرتا تھا وہ دفعتاً نظر آجاویں گے کذافی الجلالین) اور چاند بےنور ہوجاوے گا اور (چاند کی کیا تخصیص ہے بلکہ) سورج اور چاند (دونوں) ایک حالت کے ہوجاویں گے (یعنی دونوں بےنور ہوجاویں گے، جیسا حدیث بخاری میں آیا ہے (تکوران ومعنی کورت قال ابن عباس اظلمت، رواھمافی الدر المنثور سورة التکویر) اور چاند کو جدا بیان کرنا شاید اسلئے ہو کر عرب کی بوجہ قمری حساب رکھنے کے اس کا حال دیکھنے کا زیادہ اہتمام تھا) اس روز انسان کہے گا کہ اب کدھر بھاگوں (ارشاد ہوتا ہے کہ) ہرگز (بھاگنا ممکن) نہیں (ہوگا کیونکہ) کہیں پناہ کی جگہ نہیں (ہوگی) اس دن صرف آپ ہی کے رب کے پاس ٹھکانا (جانے کا) ہے (پھر خواہ جنت میں بھیجیں یا دوزخ میں اور رب کے سامنے جانے کے وقت) اس روز انسان کو اس کا سب اگلا پچھلا کیا ہوا جتلادیا جائے گا (اور انسان کا اپنے اعمال سے آگاہ ہونا کچھ اس جتلانے پر موقوف نہ ہوگا) بلکہ انسان خود اپنی حالت پر (بوجہ انکشاف ضروری کے) خوب مطلع ہوگا گو (با قتضائے طبیعت اس وقت بھی) اپنے حیلے (حوالے) پیش لاوے ( جیسے کفار کہیں گے (آیت) واللہ ربنا ماکنا مشرکین، مگر دل میں خود بھی جانیں گے کہ ہم جھوٹے ہیں غرض انسان اپنے سب حال کو خوب جانتا ہوگا اسلئے جتلانا اعلام کے لئے نہیں ہوگا بلکہ تنبیہ واتمام حجت وقطع جواب کے لئے ہوگا اور) اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ینبو اور بل الانسان سے دو مضمون مستفاد ہوئے ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ تمام اشیاء کے عالم اور محیط ہیں۔ دوسرا یہ کہ حق تعالیٰ کی عادت ہے کہ جب حکمت متقضی ہوتی ہے تو علوم غائبہ کثیرہ کو ذہن مخلوق میں حاضر کردیتا ہے گو ان علوم غائبہ کا حاضر ہوجانا خلاف عادت طبعی ہو جیسا کہ قیامت میں اس کا وقوع ہوگا جب یہ بات ہے تو آپ نزول وحی کے وقت جیسا کہ اب تک آپ کی عادت ہے اسقدر مشقت کہ سنتے بھی ہیں، پڑھتے بھی ہیں، دھیان بھی رکھتے ہیں محض اس احتمال سے کیوں برداشت کرتے ہیں کہ شاید کچھ مضمون میرے ذہن سے نکل جائے، کیونکہ جب ہم نے آپ کو نبی بنایا ہے اور آپ سے تبلیغ کا کام لینا ہے تو یہاں مقتضائے حکمت یہی ہوگا کہ وہ مضامین آپ کے ذہن میں حاضر رکھے جائیں اور ہمارا اس پر قادر ہونا تو ظاہر ہی ہے اسلئے آپ یہ مشقت برداشت نہ کیا کیجئے، اور جب وحی نازل ہوا کرے تو) آپ (قبل وحی ختم ہوچکنے کے) قرآن پر اپنی زبان نہ ہلایا کیجئے تاکہ آپ اس کو جلدی جلدی لیں (کیونکہ) ہمارے ذمہ ہے ( آپ کے قلب میں) اس کا جمع کردینا اور (آپ کی زبان سے) اسکا پڑھوادینا (جب یہ ہمارے ذمہ ہے) تو جب ہم اس کو پڑھنے لگا کریں (یعنی ہمارا فرشتہ پڑھنے لگا کرے) تو آپ ( اپنے ذہن سے اور فکر سے ہمہ تن) اس کے تابع ہوجایا کیجئے (یعنی ادھر ہی متوجہ ہوجایا کیجئے اور اسکے دوہرانے میں مشغول نہ ہوا کیجئے کقولہ تعالیٰ (آیت) ولا تعجل بالقرآن من قبل ان یقضی الیک وحیہ الخ) پھر (آپ کی زبان سے لوگوں کے سامنے) اس کا بیان کرا دینا (بھی) ہمارے ذمہ ہے (یعنی آپ کو یاد کرا دینا اور آپ کی زبان پر جاری کردینا پھر تبلیغ کے وقت بھی اس کا یاد رکھوانا اور لوگوں کے سامنے پڑھوا دینا یہ سب ہمارے ذمہ ہے اور یہ مضمون استطراداً آ گیا تھا۔ آگے پھر عود ہے خطاب منکرین کی طرف یعنی) اے منکرو (انسان کا اعمال متقدمہ ومتاخرہ پر مطلع کیا جانا قیامت میں ضرور ہے اور جیسا تم سمجھ رہے ہو کہ قیامت نہ ہوگی جو ہرگز ایسا نہیں اور نہ تمہارے پاس اس نفی کی کوئی دلیل ہے) بلکہ (صرف بات یہ ہے کہ) تم دنیا سے محبت رکھتے ہو اور (اس محبت میں منہمک ہو کر) آخرت ( سے غافل ہو اور غفلت کے سبب اس) کو چھوڑ بیٹھے ہو ( پس بناؤ تمہاری اس نفی کی محض فاسد سے سو قیامت ضرور ہوگی اور ہر ایک کو اس کے اعمال پر مطلع کرکے ان اعمال کے مناسب جزا ملے گی جس کی تفصیل یہ ہے) بہت سے چہرے تو اس روز با رونق ہوں گے اپنے پروردگار کی طرف دیکھتے ہوں گے اور بہت سے چہرے اس روز بدرونق ہوں گے ( اور وہ لوگ) خیال کر رہے ہوں گے کہ ان کے ساتھ کمر توڑ دینے والا معاملہ کیا جائے گا ( یعنی اس کو عذاب شدید ہوگا، آگے دنیا کی محبت پر زجر ہے کہ تم جو دنیا کو محبوب اور آخرت کو متروک ہونے کے قابل سمجھ رہے ہو) ہرگز ایسا نہیں (کیونکہ دنیا سے ایک روز مفارقت ہونیوالی ہے اور بالآخر آخرت میں جانا ہے جسکا بیان یہ ہے کہ) جب جان ہنسلی تک پہنچ جاتی ہے اور (نہایت حسرت سے اس وقت) کہا جاتا ہے (یعنی تیماردار کہتے ہیں) کہ (ارے ض کوئی جھاڑ ( پھونک کرنے) والا بھی ہے (مراد مطلغ معالج ہے چونکہ عرب میں جھاڑ پھونک کا زیادہ چرچا تھا اسلئے راق سے تعبیر کیا) اور (اس وقت) وہ (مردہ) یقین کرلیتا ہے کہ یہ مفارقت (دنیا) کا وقت ہے اور (شدت سکرات موت سے) ایک پنڈلی دوسری پنڈلی سے لپٹ لپٹ جاتی ہے (مراد اس سے ظہور آثار اسکراث موت ہے کچھ تخصیص ساقین کے لپٹ جانے کی نہیں اس کا ذکر تمثیلاً ہے) جب یہ حالتیں پیش آتی ہیں تو اے شخص) اس روز تیرے رب کی طرف جانا ہوتا ہے (پس ایسی حالت میں حب عاجلہ وترک آخرت کس درجہ نادانی ہے پھر خدا کے پاس پہنچنے کے بعد اگر وہ کافر ہے) تو (اس کا برا حال ہوگا کیونکہ) اس نے نہ تو (خدا اور رسول کی) تصدیق کی تھی اور نہ نماز پڑھی تھی لیکن (خدا اور رسول کی) تکذیب کی تھی اور (احکام سے) منہ موڑا تھا پھر ( اس پر طرہ یہ کہ داعی حق سے منہ موڑ کر اس پر افتخار اور) ناز کرتا ہوا اپنے گھر چل دیتا تھا (مطلب یہ کہ اول تو کفر وعصیان پر پھر اس پر ندامت نہیں بلکہ اور الٹا فخر کرتا تھا کہ ہمے اس طرح حق کو رد کیا اور باطل پر جمے رہے اور پھر اس کے بعد طلب حق نہیں بلکہ اپنے خدم وحشم میں جاکر اور زیادہ مغرور اور غافل ہوجاتا، آگے اس کافر کی بدحالی کا بیان ہے کہ ایسے شخص سے کہا جاوے گا کہ) تیری کمبختی آنے والی ہے پھر (مکرر سن لے کہ) تیری کمبختی پر کمبختی آنے والی ہے (تکریر مفرد سے مقدار کی زیادتی مستفاد ہوئی اور تکریر مجموعی سے کیفیت کی زیادتی، اور چونکہ وقوع جزائے مذکور موقوف ہے دو امر پر، ایک انسان کا مکلف ہونا دوسرے اس کا مر کر دوبارہ زندہ ہونا جس کے امکان میں ان کو کلام تھا اسلئے آگے دونوں مضمون ہیں یعنی) کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ یوں ہی مہمل چھوڑ دیا جاوے گا۔ (نہ اس پر احکام عائد کئے جاویں گے اور نہ اس حساب کتاب ہوگا بلکہ مکلف ہونا بھی یقینی ہے اور اس پر باز پرس ہونا بھی یقینی، اور یہ جو بعث کو محال سمجھتا ہے یہ بھی اس کی حماقت ہے) کیا یہ شخص (ابتداء میں محض) ایک قطرہ منی نہ تھا جو (عورت کے رحم میں) ٹپکایا گیا تھا پھر وہ خون کا لوتھڑا ہوگیا، پھر اللہ تعالیٰ نے (اس کو انسان) بنایا، پھر اعضا درست کئے پھر اس (انسان) کی دو قسمیں کردیں مرد اور عورت (اور یہ فاتفسیر یہ ہے تو) کیا وہ (خدا جس نے ابتداء میں اپنی قدرت سے یہ سب کچھ کیا) اس بات پر قدرت نہیں رکھتا کہ (قیامت میں) مردوں کو زندہ کردے (حالانکہ دوبارہ پیدا کرنا پہلے پیدا کرنے کی نسبت آسان ہے) معارف ومسائل للَآ اُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ ۝ ۙوَلَآ اُقْسِمُ بالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ یہاں قسم سے پہلے حرف لا زائد ہے۔ جب قسم کسی مخالف کی بات رد کرنے کے لئے کھائی جاتی ہے تو اس کے شروع میں صرف لا اس شخص کے خیال باطل کی نفی کے لئے زائد استعمال ہوتا ہے اور محاورات عرب میں یہ استعمال معروف و مشہور ہے۔ ہماری زبان میں بھی بعض اوقات کسی قابل تاکید مضمون کے بیان سے پہلے کہا جاتا ہے، نہیں آگے اپنا مقصد بیان کیا جاتا ہے۔ اس سورت میں قیامت وآخرت کے منکروں کو تنبیہ اور ان کے شکوک و شبہات کا جواب ہے۔ سورت کو اول قیامت پھر نفس لوامہ کی قسموں سے شروع فرمایا ہے اور جب قسم بقرینہ مقام مخدوف ہے یعنی قیامت ضرور آکر رہے گی۔ قیامت کی قسم تو اس کی عظمت کے اثبات کے لئے مناسب مقام ہونا ظاہر ہے اسی طرح نفس لوامہ کی قسم میں بھی اس کی عظمت اور مقبولیت عنداللہ کا اظہار ہے نفس کے معنے جان یا روح کے معروف ہیں اور لوامہ لوم بفتح اللام سے مشتق ہے جس کے معنے ملامت اور سرزنش کرنے کے ہیں۔ نفس لوامہ سے مراد وہ نفس ہے جو خود اپنے اعمال کا محاسبہ کرکے اپنے آپ کو ملامت کرتا رہے یعنی جو گناہ سرزد ہوا یا عمل واجب میں کوتاہی ہوئی اس پر خود اپنے آپ کو ملامت کرتا ہے کہ تو نے ایسا کیوں کیا اور اعمال خیر اور حسنات کے متعلق بھی اپنے آپ کو اس پر ملامت کرے کہ اس سے زیادہ نیک کام کرکے اعلیٰ درجات کیوں نہ حاصل کئے۔ غرض مومن کامل اپنے ہر عمل خیروشر اور حسنات وسیئات میں اپنے آپ کو ہمیشہ ملامت ہی کرتا ہے۔ گناہ یا واجب میں کوتاہی پر ملامت تو ظاہر ہے حسنات اور نیک کاموں میں ملامت کی وجہ یہ ہے کہ اے نفس تو یہ نیکی اس سے زیادہ بھی تو کرسکتا تھا اس پر زیادتی سے کیوں محروم رہا۔ یہ تفسیر حضرت ابن عباس اور دوسرے ائمہ تفسیر سے منقول ہے (ابن کثیر وغیرہ) اور اسی مفہوم کیوجہ سے حضرت حسن بصری (رح) نے نفس لوامہ کی تفسیر نفس مومنہ سے کی ہے۔ اور فرمایا کہ واللہ مومن تو ہمیشہ ہر حال میں اپنے نفس کو ملامت ہی کرتا ہے۔ سیئات پر تو ظاہر ہی ہے اپنے حسنات اور نیک کاموں میں بھی وہ مقابلہ شان حق سبحانہ وتعالیٰ کے کمی اور کوتاہی محسوس کرتا ہے کیونکہ حق عبادت کو پورا ادا کرنا تو کسی کے بس میں نہیں اسلئے ادائے حق میں تقصیر اس کے سامنے رہتی ہے اس پر ملامت کرتا ہے۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَآ اُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيٰمَۃِ۝ ١ لا «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت . ويكون...  قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] لا وأبيك ابنة العامريّ «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] وقوله : ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] . فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه : مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة : لا حدّ. أي : لا أحد . ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔ قْسَمَ ( حلف) حلف، وأصله من الْقَسَامَةُ ، وهي أيمان تُقْسَمُ علی أولیاء المقتول، ثم صار اسما لكلّ حلف . قال : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام/ 109] ، أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف/ 49] ، وقال : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة/ 1- 2] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] ، إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم/ 17] ، فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة/ 106] اقسم ( افعال کے معنی حلف اٹھانے کے ہیں یہ دروصل قسامۃ سے مشتق ہے اور قسیا مۃ ان قسموں کو کہا جاتا ہے جو او لیائے مقتول پر تقسیم کی جاتی ہیں پھر مطلق کے معنی استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام/ 109] اور یہ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں ۔ أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف/ 49] کیا یہ وہی لوگ ہیں جن کے مارے میں تم قسمیں کھایا کرتی تھے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة/ 1- 2] ہم کو روز قیامت کی قسم اور نفس لوامہ کی ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] ہمیں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم ۔ إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم/ 17] جب انہوں نے قسمیں کھا کھا کر کہا کہ ہم صبح ہوتے اس کا میوہ توڑلیں گے ۔ فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة/ 106] اور دونوں خدا کی قسمیں کھائیں ۔ ماسمعتہ وتقاسما باہم قسمیں اٹھانا ۔ قرآن میں ہے : وَقاسَمَهُما إِنِّي لَكُما لَمِنَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف/ 21] اور ان کی قسم کھاکر کہا کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں ۔ قِيامَةُ والقِيامَةُ : عبارة عن قيام الساعة المذکور في قوله : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] ، يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] ، وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] ، والْقِيَامَةُ أصلها ما يكون من الإنسان من القیام دُفْعَةً واحدة، أدخل فيها الهاء تنبيها علی وقوعها دُفْعَة، والمَقامُ يكون مصدرا، واسم مکان القیام، وزمانه . نحو : إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس/ 71] ، القیامتہ سے مراد وہ ساعت ( گھڑی ) ہے جس کا ذکر کہ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] اور جس روز قیامت برپا ہوگی ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ وغیرہ آیات میں پایاجاتا ہے ۔ اصل میں قیامتہ کے معنی انسان یکبارگی قیام یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ھاء ( ۃ ) کا اضافہ کیا گیا ہے ۔ المقام یہ قیام سے کبھی بطور مصدر میمی اور کبھی بطور ظرف مکان اور ظرف زمان کے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس/ 71] اگر تم کو میرا رہنا اور ۔ نصیحت کرنا ناگوار ہو ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١۔ ٢) میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی کہ وہ ضرور ہوگی اور قسم کھاتا ہوں ایسے نفس کی خواہ نیک ہو یا گناہ گار جو کہ قیامت کے دن اپنے آپ کو ملامت کرے گا۔ نیک انسان تو عذاب وثواب کا مشاہدہ کر کے کہے گا کاش میں اور نیکیاں کرتا اور بدکار کہے گا کاش میں گناہوں سے پاک صاف ہوتا۔ اور کہا گیا ہے کہ اس سے م... راد نفس نامہ ہے یا یہ کہ وہ نفس جو کہ گناہوں سے توبہ کرے اور اپنے کو اس پر ملامت کرے یا یہ کہ اس سے نفس کافر اور فاجر مراد ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١{ لَآ اُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ۔ } ” نہیں ! میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی۔ “ لَا یہاں پر معترضین کے دلائل کی نفی کے لیے آیا ہے ۔ مطلب یہ کہ تمہیں تو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا ناممکن نظرآ رہا ہے اور اس بنیاد پر تم لوگ وقوع قیامت کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہو ‘ مگر مجھے...  اس کے وقوع کے بارے میں اس قدر یقین ہے کہ میں اس کی قسم کھارہا ہوں۔ موقف کے موکد اور موقر ّہونے کے اعتبار سے یہ آیت سورة التغابن کی اس آیت سے گہری مشابہت رکھتی ہے : { قُلْ بَلٰی وَرَبِّیْ لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَـبَّـؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْط } (آیت ٧) ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) آپ کہہ دیجیے : کیوں نہیں ! مجھے میرے رب کی قسم ہے ‘ تم لازماً اٹھائے جائو گے ‘ پھر تمہیں لازماً جتا دیا جائے گا ان اعمال کے بارے میں جو تم نے کیے ہیں “۔ سورة التغابن کی اس آیت کا اسلوب اور انداز بہت پرزور ہے ‘ لیکن دیکھا جائے تو اس میں خارجی دلیل اور منطق کوئی بھی نہیں۔ البتہ ایک شخص اپنے موقف کے حق میں اپنی شخصیت اور اپنے یقین کو دلیل کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ لیکن یہ شخصیت وہ ہے جس کے قول و کردار کی سچائی کو اپنے پرائے سب نے مثالی مانا ہے اور یہی اس قول کے سچا ہونے کی سب سے قوی دلیل ہے۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ کے معاملے میں بھی وقوع قیامت کے دعوے کی دلیل محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شخصیت اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

1 To begin the discourse with "Nay" by itself indicates that the Surah was sent down to refute some argument which was already in progress. The theme that follows shows that the argument was about Resurrection and life after death, which the people of Makkah were denying and also mocking at it at the same time. This can be understood by an example. If a person only wants to affirm the truth of the...  Messenger, he will say: "By God, the Messenger has come with the truth." But if some people might be denying the truth of the Messenger, he in response would rejoin, thus: ' Nay, by God, the Messenger has come with the truth." It would mean: "That which you say is not true. I swear that the truth is this and this."  Show more

سورة الْقِیٰمَة حاشیہ نمبر :1 کلام کی ابتدا نہیں سے کرنا خود بخود اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ پہلے سے کوئی بات چل رہی تھی جس کی تردید میں یہ سورۃ نازل ہوئی ہے اور آگے کا مضمون آپ ہی ظاہر کر دیتا ہے کہ وہ بات قیامت اور آخرت کی زندگی کے بارے میں تھی جس کا اہل مکہ انکار کرر ہے تھے بلکہ ساتھ ساتھ مذاق ب... ھی اڑا رہے تھے ۔ اس طرز بیان کو اس مثال سے اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر آپ محض رسول کی صداقت کا اقرار کرنا چاہتے ہوں تو آپ کہیں گے خدا کی قسم رسول برحق ہے ۔ لیکن اگر کچھ رسول کی صداقت کا انکار کر رہے ہوں تو آپ جواب میں اپنی بات یوں شروع کریں گے کہ نہیں ، خدا کی قسم رسول برحق ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ تم جو کچھ کہہ رہے ہوں وہ صحیح نہیں ہے ، میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اصل بات یہ ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١۔ ١٥۔ عربی زبان کے محاورہ کے موافق ایسی قسم کھانے کی جگہ پر لا زائد بڑھا دیا جاتا ہے جیسے لا واللہ۔ اکثر سلف کے نزدیک نفس لوامہ میں وہ نفس ہے جو اپنی خطا پر خود اپنے آپ کو ملامت کرے اور اس طرح کا نفس آدمی کے ایماندار ہونے کی نشانی ہے چناچہ مسند ٣ ؎ امام احمد میں ابی امامہ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ... ہے کہ ایک شخص نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا۔ حضرت آدمی کے ایماندار ہونے کی کیا نشانی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تو نیکی کرکے خوش ہو اور برائی کرکے پچھتائے تو یہی ایمانداری کی نشانی ہے شرح جامع الصغیر میں اس حدیث کو صحیح بتایا ہے۔ ایحسب الانسان سے علی ان نسوی بنانہ تک قسم کے جواب کا مضمون ہے۔ حاصل اس کا یہ ہے کہ ہڈیوں کی خاک کو جمع کرکے پھر ان کو ہڈیاں بنا دینا یہ تو انسان کی پیدائش کے موافق ایک بات ہے ہم تو پہلی پیدائش سے نیو چیز پر بھی قادر ہیں کہ ابھی دنیا میں چاہیں تو اس کی انگلیوں کی پوروں کی ہڈیوں کو ایک ہڈی کردیں جس سے اس کا پنجہ اونٹ کا سا ہوجائے پھر وہ کوئی چیز ہاتھ سے نہ پکڑ سکے۔ سورة یٰسین میں گزر چکا ہے کہ ایک شخص عاص بن وائل ایک بوسیدہ ہڈی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لایا اور اس ہڈی کو مل کر اس کی خاک ہوا میں اڑائی اور اس اڑی ہوئی خاک کے جمع ہوجانے اور اس سے پھر ہڈی کے بن جانے میں طرح طرح کی بحث کی۔ اس کی ایک بحث کا جواب کا ذکر فرمایا ہے۔ پھر فرمایا کہ ایک حق بات جو انسان کے سامنے آنے والی ہے کہ مرنے کے بعد پھر جینا ہے اور نیک اور بد کی جزا و سزا ہونی ہے یہ اس کا منکر ہے اور اس لئے پوچھتا ہے کہ آخر وہ مر کر پھر جینے کا دن کب ہے ؟ یہ نہیں جانتا کہ جب وہ دن آئے گا تو سورج کے قریب آجانے ‘ دوزخ کو آنکھوں کے سامنے لا کر کھڑا کردیئے جانے ‘ دوزخ کی آگ کے پیچھے لگ جانے سے اس کی آنکھیں چندھیا جائیں گی۔ صحیح بخاری ١ ؎ وغیرہ میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سورج اور چاند کو قیامت کے دن لپیٹ کر دوزخ میں ڈال دیا جائے گا جس سے دوزخ کی آگ کی تیزی بڑھ جائے گی۔ مقداد سے صحیح ٢ ؎ مسلم میں روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ سورج حشر کے وقت ایک میل کے فاصلہ کی بلندی پر آجائے گا اور لوگ اپنے اپنے اعمال کے موافق پسینے میں ڈوبے ہوئے ہوں گے۔ کوئی ٹخنوں تک ‘ کوئی گھنٹوں تک ‘ کوئی گلے تک اور کسی کا پسینہ تو سر سے بھی اونچا ہوجائے گا۔ صحیح ٣ ؎ بخاری و مسلم میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نافرمان لوگ جب قبروں سے اٹھیں گے تو ان کو محشر کے میدان تک ایک آگ گھیر کرلے جائے گی۔ جو دوزخ میں جانے تک ان کے ساتھ رہے گی۔ صحیح ١ ؎ مسلم ترمذی وغیرہ میں عبد اللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ستر ہزار نکیلیں لگا کر دوزخ کو محشر کے میدان میں لوگوں کی آنکھوں کے سامنے لا کر کھڑا کیا جائیگا۔ غرض جن آفتوں کا ذکر ان حدیثوں میں ہے ‘ یہ اور اسی طرح کی اس دن کی اور آفتیں دیکھ کر انسان اپنے دل میں کہیں بھاگ جانے کے منصوبے باندھے گا۔ لیکن سوا اللہ کے رو برو کھڑے ہونے کے اور کوئی چارہ اس کو نہ ہوگا اور تمام عمر کے اعمال کا اس سے حساب لیا جائے گا اور اس دن وہ چاہے کہ کسی برے کام سے مکر جائے تو یہ بھی نہ ہو سکے گا۔ کیونکہ اور گواہوں کے علاوہ اس کے ہاتھ پیر بھی اس کے مخالف شہادت ادا کریں گے۔ چناچہ فرمایا وتکلمنا ایدیہم و تشھد ارجلہھم بما کانوا یکسبون۔ صحیح ٢ ؎ مسلم میں انس بن مالک کی روایت سے جو حدیث ہے اس میں بھی ہاتھ پیروں کی اس شہادت کا ذکر ہے اس لئے فرمایا کہ اس دن آدمی کے بھاگنے کے منصوبے کچھ کام نہ آئیں گے اور اپنے کئے پر خود اس کو سوجھ ہو کر آنکھیں کھل جائیں گی کہ عمر بھر اس نے کیا کیا۔ وزر کے معنی پناہ کی جگہ کے ہیں۔ ١ ؎ صحیح مسلم باب جھنم اعاذنا اللہ منھا ص ٣٨١ ج ٢۔ ٢ ؎ صحیح مسلم فصل بیان ان الاعضاء منطقۃ شاھدۃ یوم القیمۃ الخ ص ٤٠٩ ج ٢۔ (٣ ؎ مسند امام احمد ص ٢٥١‘ ٢٥٢‘ ٢٥٦ ج ٥۔ ) (١ ؎ صحیح بخاری باب صفۃ الشمس والقمر بحسبان الخ ص ٤٥٤ ج ١۔ ) (٢ ؎ صحیح مسلم باب فی صفۃ یوم القیامۃ الخ ص ٣٨٤ ج ٢۔ ) (٣ ؎ صحیح بخاری باب کیف الحشر ص ٩٦٥ ج ٢۔ )  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(75:1) لا اقسم بیوم القیمۃ : لا زائدہ ہے اور کلام کو مزین و آراستہ کرنے اور مزین کرنے کے لئے لایا گیا ہے۔ بعض کے نزدیک کفار کے انکار قیامت کا رد ہے، عرب جب کہتے ہیں : لا واللہ لا افعل فلا رد لکلام قد مضی وفائدتھا توکید القسم فی الرد۔ یعنی لا سے پہلے کلام کا رد وابطال مقصود ہوتا ہے۔ اور بعد میں قسم...  اٹھائی جاتی ہے اور اس کا فائدہ یہ ہے کہ قسم مؤکد ہوجائے ۔ (ضیاء القرآن) اقسم مضارع واحد متکلم اقسام (افعال) مصدر سے ، جس کے معنی قسم کھانا کے ہیں۔ میں قسم کھاتا ہوں۔ (نیز ملاحظہ ہو 69:38 بیوم القیامۃ : روز قیامت کی۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 مفسرینتقریباً اس پر متفق ہیں کہ یہاں لا زائدہ ہے اور کلام بلیغ میں ” لا “ ‘ کا زائدہ آنا شائع و ذائع ہے۔ دیکھیے سورة اعراف 12 و سورة الحدید : 29) شوکانی

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

سورة القیامہ۔ آیات ١ تا ٣٠۔ اسرار ومعارف۔ قیامت کے دن کی قسم یعنی قیامت کا دن خود اپنے واقع ہونے پر گواہ ہے کہ جب پیدا کیا عقل و شعور دیا ، نبی بھیجے اور اختیار دیا تو اب ضروری ہے کہ محاسبہ بھی کرے نیز وہ نفس کہ اپنا احتساب کرتا ہے یعنی وہ لوگ بھی گواہ ہیں جو زندگی بھر پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہیں ا... للہ کی نافرمانی نہ ہو اور کفار کی طرح عیش نہیں کرتے یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ حساب کتاب ضرور ہوناچاہیے۔ نفس اور اس کی اقسام۔ عناصر اربع کے ملنے سے نفس بنتا ہے چونکہ مادہ سے بنا ہے مادی لذات کی طرف کھینچتا ہے قرآن نے اسے نفس امارہ کہا ہے یعنی برائی کرنے والا کو جب ایمان نصیب ہوتا ہے اور بھلائی برائی میں تمیز کا پتہ چلتا ہے تو مومن کا نفس اپنامحاسبہ کرتا رہتا ہے اور جہاں خطا ہوجائے توبہ کرکے اپنی اصطلاح کی فکر کرتا ہے اسے قرآن میں نفس لوامہ کہا گیا ہے کہ خود کو گناہ پر ملامت کرتا ہے اور اتباع رسالت میں برکات نبوی سے ایسی صفائے قلب نصیب ہو کہ نیکی طبیعت ثانیہ بن جائے اور گناہ سے نفرت ہوجائے تو اسے نفس مطمئنہ کہا گیا ہے اللہ کریم سب مسلمانوں کو یہ نعمت نصیب فرمائے۔ آمین۔ کیابنی آدم نے یہ گمان کرلیا ہیی جب مرکرمٹی ہوجائے گ اور ہڈیاں گل سڑ جائیں گی پھرن ہ بن سکیں گی بلکہ ہم تو ایسے قادر ہیں کہ ہر ایک کے انگلیوں کے پور بھی ویسے بنائیں گے جیسے دنیا میں تھے۔ انگلی کے نشان ہر انسان کے الگ ہیں۔ عجیب بات ہے کہ کسی انسان کی انگلی کے نشانات دوسرے سے نہیں ملتے قرآن نے یہ تب بتادی تھی جسے صدیوں بعد سائنس دانوں نے اب ثابت کیا ہے یہاں دوبارہ پیدا کرنے کو پہلے پیدا کرنے سے ثابت فرمایا ہے کہ ہر بدن کے ذرات روئے زمین پر منتشر ہوتے ہیں پھر غذا دوا وغیرہ کے ذریعہ صلب پدر میں پھر نطفے پھر ممکن ہے کسی کو کسی سے مشابہت ہومگرانگلیوں کے نشانات قطعی سب کے الگ الگ بنائے لہذا یہاں فرمایا ہم تو ہر ایک کے انگلیوں کے پور تک پہلے جیسے ہی بنائیں گے آدمی اللہ کے سامنے ڈھٹائی سے پیش آتا ہے کہ اس کے رسول سے کہتا ہے کہ قیامت کا روز کون سا ہوگا تو سن جب نگاہیں چندھیا جائیں گی اور شمس وقمر بےنور ہوکرجھڑجائیں گے اور جب ہیبت سے کافر کہے گا کدھر کو بھاگوں تو اس کو پتہ چلے گا کہ بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں بلکہ پروردگار کی بارگاہ میں جمع ہونا ہے اور تب سب کو ان کے اعمال نامے سنائے جائیں گے کہ کس نے کون سا عمل آگے بھیجا اور کون کتنی نیکیوں سے محروم رہا یقینا انسان اپنے حال سے پوری طرح باخبر ہوتا ہے ہاں بہانے بیشک کرتا رہے۔ چونکہ یہ سب احوال کتاب اللہ بیان کرتی ہے تو آپ پر جب وحی نازل ہو تو پڑھنے میں اور یاد کرنے میں جلدی نہ کریں بلکہ جبرائیل امین جو اللہ کی طرف سے پڑھتے ہیں پڑھ چکیں تو آپ پڑھا کریں کہ اسے آپ کو یاد کرانا اور آپ سے دوبارہ پڑھوانا ہمارا کام ہے پھر اس کا مفہوم بیان کرانا آپ کی زبان مبارک سے بھی ہمارا کام ہے۔ مسئلہ : آئمہ نے یہاں سے اخذ فرمایا ہے کہ امام قرات کررہا ہوتومقتدی خاموش رہے۔ مسئلہ : جس طرح قرآن کے الفاظ بتانامنصب نبوت ہے اسی طرح قرآن کا مفہوم بیان کرنا بھی نبی (علیہ السلام) کامنصب ہے کوئی شخص اپنی طرف سے مقرر کرنے کا مجاز نہیں۔ اللہ کو میدان حشر میں دیکھ سکیں گے۔ لیکن یہ کفار تو دنیا کی لذات کے اسیر ہیں اور آخرت کو پس پشت ڈال دیا ہے لیکن اس روز کتنے لوگ ہوں گے جن کے چہروں سے بشاشت ٹپکتی ہوگی اور اپنے رب کو واقعی دیکھ رہے ہوں گے آخرت میں آنکھ میں وہ قوت آجائے گی کہ دیدار باری کرسکے اور میدان حشر میں اللہ کے بندے دیدار سے مشرف ہوں گے ہاں کیفیات سب کی اپنی استعداد کے مطابق ہوگی اس پر اہل سنت کا اجماع ہے اور کفار کے چہرے لٹکے ہوئے ہوں گے دیدار سے محروم اور عذاب کی فکر میں گرفتار ہوں گے انسان کی طاقت کا پتہ توعندالموت چل جاتا ہے کہ جب جان حلق میں اٹکی ہوتی ہے یعنی موت قریب تر ہوجاتی ہے اور کوئی حیلہ اس سے بچنے کا نہیں ملتا تب پتہ چلتا ہے کہ دنیا سے جدائی کی گھڑی آپہنچی اور انسان تڑپتا ہے کہ ٹانگیں آپس میں لپٹ جاتی ہیں یہ اپنے رب کی طرف چل چلاؤ کی گھڑی ہوتی ہے۔  Show more

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن۔ النفس اللوامۃ۔ ملامت کرنے والا نفس۔ لن نجمع۔ ہم ہرگز جمع نہ کریں گے۔ عظام۔ ہڈیاں۔ نسوی۔ ہم برابر بٹھا دیں گے۔ ٹھیک بٹھا دیں گے۔ بنانہ۔ اس کی پور پور۔ لیفجر۔ تاکہ وہ بدکاری کرے۔ امام۔ سامنے۔ ایان۔ کب۔ برق البصر۔ آنکھ کھلی کی کھلی رہ جائے گی۔ خسف القمر۔ چاند کو گہن لگ جائے گا۔ المفر۔ بھا... گنے کی جگہ۔ وزر۔ پہاڑ۔ بوجھ۔ المستقر۔ ٹھکانا۔ معازیر۔ حیلے بہانے۔ تشریح : ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے قیامت اور نفس لوامہ کی قسم کھا کر فرمایا ہے کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جب ہماری ہڈیاں گلی سڑ جائی گی، چورہ چورہ ہوجائیں گی اور ہمارے جسم کے تمام اجزاء اور ذرات بکھر کرنا پید ہوجائیں گے کیا ہم دوبارہ پیدا کئے جاسکیں گے ؟ اور کس طرح اسی جسم کے ذرات مل کر انسانی شکل اختیار کرسکیں گے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا آدمی یہ سمجھتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو دوبارہ پیدا نہ کرسکیں گے ؟ وہ اس غلط فہمی کو دور کرلے کیونکہ ہماری قدرت اتنی وسیع ہے کہ ہم تو انسان کی انگلیوں کے پوروے جو انسانی جسم میں سب سے نازک چیز ہے اس کو بھی پیدا کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ کفار جس بات پر اعتراض کررہے ہیں ان کے دل بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس پوری کائنات میں ساری طاقت و قوت اللہ ہی کے لئے ہے دراصل یہ بہانے بنا کر اپنی آئندہ زندگی گناہوں اور معصیتوں میں گزارنے کی آزادی چاہتے ہیں۔ اسی لئے وہ کفار مذاق اڑانے کے لئے پوچھتے ہیں کہ وہ قیامت جس کا وعدہ کیا گیا ہے آخر وہ کب آئے گی ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب قیامت قائم کی جائے گی اس دن لوگوں کی آنکھیں چندھیا جائیں گی۔ چاند کا نور سلب کرلیا جائے گا، سورج بھی بےنور ہوگا اور چاند سورج کی روشنی اس طرح ختم کردی جائے گی کہ وہ دونوں بےنوری کی کیفیت میں ایک جیسے ہوجائیں گے۔ جب قیامت کو ہولناک دن آئے گا اور نظام کائنات کو درہم برہم کردیا جائے گا تو اس عظیم انقلاب کو دیکھ کر اس سے بچنے کے لئے آدمی پناہ تلاش کرنے کی کوشش کرے گا اور کہے گا کہ آج کہیں بھاگ کر پناہ مل سکتی ہے ؟ مگر اس کو کہیں پناہ نہ مل سکے گی۔ ہاں البتہ اللہ کے نیک بندوں کے لئے اللہ ہی کے پاس ٹھکانا مل سکے گا۔ قیامت کے دن ہر انسان کو اس کے کئے ہوئے اگلے پچھلے تمام اعمال سے آگاہ کردیا جائے گا۔ اور وہ اپنے کسی عمل سے انکار نہ کرسکے گا کیونکہ اس کا اپنا وجود اور اس کے تمام اعضاء اس کے اعمال پر گواہی دیں گے۔ وہ اس دن کتنے ہی بہانے بنائے مگر وہ اپنی بدعملیوں کی وجہ سے چھوٹ نہ سکے گا۔ سورۃ القیامۃ کی ان آیات سے متعلق چند باتیں۔ 1۔ ان آیات میں سب سے پہلے تو قیامت کے دن کی اور دوسری قسم نفس لوامہ کی کھائی ہے۔ قیامت اور نفس لوامہ کی قسم کھانے کی وجہ یہ ہے کہ نفس لوامہ نفس کی اس کیفیت کا نام ہے جس میں آدمی کا نفس اپنی کوتاہیوں، خطاؤں اور گناہوں پر ندامت اور شرمندگی کے ساتھ پچھتاتا ہے۔ چونکہ قیامت کے دن یہ شرمندگی انتہا درجہ پر ہوگی اس لئے نفس لوامہ کی قسم کھا کر فرمایا کہ انسان سے قیامت دور نہیں ہے۔ اگر اس کو اپنے نفس کی کوتاہیوں پر شرمندگی ہے اور وہ توبہ کرت ا ہے تو قیامت میں اس کے لئے ہر راحت و آرام کا سامان ہوگا اور اگر زندگی بھر خطاؤں اور گناہوں میں ملوث رہنے کے باوجود اس کو توبہ کی توفیق نصیب نہ ہوئی اور وہ اپنے فسق و فجور میں مبتلا رہا تو پھر وہ اس کے لئے بڑی حسرتوں کا دن ہوگا جس میں ہزار بہانوں کے باوجود خود اس کا اپنا وجود ہی اس کے خلاف گواہی دینے کے لئے کافی ہوگا۔ 2۔ قرآن کریم میں نفس انسانی کی تین حالتوں کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ نفس امارہ، نفس لوامہ اور نفس مطمئنہ۔ نفس کے معنی جان، روح اور انسانی ضمیر کے آتے ہیں۔ نفس امارہ۔ اگر کسی کا نفس اس کو بدترین خواہشوں، ناجائز لذتوں اور برائی کے کاموں پر اس طرح اکساتا اور رغبت دلاتا ہے کہ وہ اپنی نفسانی خواہشوں کے مقابلے میں اللہ و رسول کے احکامات کی پرواہ نہیں کرتا اور اس پر بےحسی اس طرح غالب آجاتی ہے کہ اس کے دل سے احساس گناہ مٹ جاتا ہے تو ایسے نفس پر اگر اللہ کا کرم نہ ہو تو وہ اس کو جہنم تک پہنچا کر چھوڑتا ہے۔ سورة یوسف میں حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا ہے ” ان النفس…… ربی “ کہ اگر میرے اللہ کا رحم و کرم نہ ہو تو نفس برائی کی طرف ہی رغبت دلاتا ہے۔ اسی کو نفس امارہ کہا جاتا ہے۔ نفس لوامہ۔ نفس کا کام تو یہی ہوت ا ہے کہ وہ آدمی کو برائیوں اور گناہوں پر اکساتا ہے لیکن اگر آدمی کسی خطا اور گناہ میں پڑنے کے باوجود اس پر شرمندہ ہو کر اپنا محسابہ کرنے لگتا ہے یعنی اس کے اندر نیکی اور گناہ کا احساس زندہ رہتا ہے۔ وہ اپنے گناہوں پر ندامت کے آنسو بہاتا ہے اور دل میں سوچتا ہے کہ اگر میں نے ایسا نہ کیا ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا اور اگر میں کوئی اچھا کام کرتا تو اس سے مجھے آخرت میں کتنا فائدہ ہوتا۔ اس کو نفس لوامہ یعنی ملامت کرنے والا نفس فرمایا گیا ہے جس کی قسم اللہ نے کھائی ہے۔ اصل میں جس دل میں گناہ اور ثواب کا احساس زندہ رہتا ہے جب بھی اس سے کوئی گناہ سرزد ہوتا ہے تو وہ اللہ کے سامنے شرمندگی کا اظہار کرتا ہے نیکیوں پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہے تو ایسے آدمی کو آخر کار توبہ کی توفیق مل جاتی ہے اور اگر وہ اس پر کچھ محنت کرے تو وہ نفس مطمنہ کے لقب تک کا مستحق بن جاتا ہے۔ نفس مطمنہ۔ جب آدمی ایمان، عمل صالح اور اللہ کا قرب حاصل کرنے کی جدوجہد میں اللہ و رسول کے ہر حکم کے آگے اپنا سرجھکا دیتا ہے، اس کو نیکیوں سے محبت اور گناہوں سے نفرت ہوجاتی ہے، شریعت اس کے مزاج کا حصہ بن جاتی ہے وہ اپنے نفس پر خواہشات کو غالب نہیں آنے دیتا، اس کے ہر کام میں اللہ کی رضا و خوشنودی کا جذبہ غالب ہوتا ہے تو اس کو نفس مطمئنہ کی دولت سے مالامال کردیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ نے سورة فجر میں فرمایا ہے کہ ” اے نفس مطمئن چل اپنے رب کی طرف تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی، پھر میرے بندوں میں شامل ہو اور میری جنت میں داخل ہوجا “۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے اربوں کھربوں انسانوں کو پیدا کرکے ہر ایک کو دوسرے سے مختلف بنایا ہے۔ صورت، شکل، مزاج، آواز اور یہاں تک کہ اس کے ہاتھوں کی لکیروں کو اس قدر مختلف بنایا ہے کہ دوسرے انسان ہی سے نہیں بلکہ خود ایک ہاتھ کی انگلی، دوسرے ہاتھ کی انگلی اور لکیریں قطعاً الگ الگ ہیں۔ فنگر پرنٹ سے مجرموں کو پکڑ لیا جاتا ہے اور نشان انگوٹھا تو ابتداء سے آج تک ایک حقیقت ہے۔ عدالتوں تک میں فیصلے انگوٹھے کے نشان پر کر دئیے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو صرف اسی بات کی قدرت حاصل نہیں ہے کہ وہ چھوٹی بڑی ہڈیوں کو جوڑ کر انسانی ڈھانچہ پھر سے بنا سکتا ہے بلکہ انگلیوں کے جوڑوں، لکیروں اور خطوط تک کو پھر سے بنا دے گا۔ یہ چیزیں اس کی قدرت سے باہر نہیں ہیں کیونکہ ان سب چیزوں کا پیدا کرنے والا اللہ ہے جس نے پہلے مرتبہ بنایا ہے وہ دوبارہ بنانے پر قدرت کیوں نہیں رکھتا ؟ یقینا اللہ کی ذات ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والی ہے۔ 4۔ قیامت کا دن بڑا ہی ہولناک دن ہوگا۔ پورا نظام کائنات درہم برہم کردیا جائے گا اور سوائے اللہ کی طرف لوٹنے کے انسان کے لئے اور کوئی جائے پناہ نہ ہوگی۔ سورج اور چاند دونوں روشنی سے محروم کر دئیے جائیں گے ، ستارے بکھر جائیں گے، پہاڑ غبار بن کر اڑتے پھریں گے، میدان حشر قائم ہوگا اور اس میں آدمی کے کئے ہوئے ہر عمل پر جزا یا سزا دی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قیامت کے دن ہر طرح کی رسوائیوں اور عذاب سے محفوظ فرمائے۔ آمین۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط سورت : انسان کی گمراہی کے اسباب میں سب سے بڑا سبب آخرت کی جوابدہی سے لاپرواہ ہونا اور اس کا انکار کرنا ہے اس لیے سورة القیامہ کی ابتدا لفظ ” لا “ سے کی گئی ہے۔ اس میں قیامت کا انکار کرنے والوں کے عقیدہ اور ان کے دلائل کی تردید کی گئی ہے۔ قیامت کا انکار کرنے والوں کے عقیدہ اور دلائل ک... ی نفی کرنے کے لیے اس سورت کی ابتدا لفظ ” لا “ سے کی گئی ہے۔ ارشاد ہوا کہ قیامت کے دن کی قسم ! جو لوگ قیامت قائم ہونے کا انکار کرتے ہیں وہ اپنے عقیدہ اور دلائل میں جھوٹے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر قیامت کی قسم اٹھائی ہے ظاہر ہے کہ اگر قیامت کا کوئی وجود نہیں تو اللہ تعالیٰ کو اس کی قسم اٹھانے کی کیا ضرورت تھی ؟ اس کے ساتھ ہی اس نے نفس لوّامہ کی قسم کھائی ہے جس میں لطیف اشارہ ہے کہ جس طرح تم اپنے نفسِ لوّامہ کا انکار نہیں کرسکتے اسی طرح قیامت کا انکار کرنے کی بھی کوئی گنجائش نہیں باالفاظ دیگر انکار قیامت پر نفس لوامہ بھی تمہیں ملامت کرتا ہے۔ قسم کے بارے میں پہلے بھی عرض ہوچکا ہے کہ یہ کسی بات کو پکا کرنے کے لیے اٹھائی جاتی ہے عربوں کے ہاں رواج تھا اور ہے کہ وہ دوسری اقوام کی نسبت قسمیں زیادہ اٹھاتے ہیں۔ قرآن مجید انہی کی زبان میں نازل ہوا ہے اور عرب ہی قرآن مجید کے اولین مخاطب تھے۔ ان کے طرز تکلم کا خیال رکھتے ہوئے اہم باتوں کی اہمیت اور فرضیت اجاگر کرنے کے لیے قسمیں اٹھائی گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نفس انسانی کی تین حالتیں بیان کی ہیں : ١۔ نفس مطمئنّہ : ہر حال میں مطمئن یعنی نیکی پر قائم رہنے والا۔ (الفجر : ٢٧) ٢۔ نفسِ لوّامہ : گناہ پر ملامت کرنے والا۔ (القیامہ : ٢) ٣۔ نفسِِ امّارہ : گناہ پر ابھارنے والا۔ (یوسف : ٥٣) یہ انسان کے دل کی تین حالتیں ہیں نفس مطمئنّہ صرف انبیاء کو نصیب ہوتا ہے باقی انسانوں کے نفس کی دو ہی کیفیتیں ہوتی ہیں۔ (١) نفس امّارہ اور نفس لوّامہ۔ ان دونوں کے درمیان مقابلہ رہتا ہے اگر نفس لوّامہ جیت جائے تو انسان کو نیک اعمال کی توفیق ملتی ہے۔ اگر نفسِ امّارہ غالب آجائے تو آدمی برائی کا مرتکب ہوتا ہے لیکن برائی کا خمار اتر جانے کے بعد مجرم کو پریشانی ضرور لاحق ہوتی ہے اس لیے قرآن مجید نے ہابیل اور قابیل کا واقعہ بیان کرتے ہوئے قابیل کی کیفیت بیان کی ہے کہ اپنے بھائی کو قتل کرنے کے بعد قابیل کے دل کا سکون جاتا رہا۔ (المائدۃ : ٣١) رہتی دنیا تک بدنامی اس کے مقدر میں آئی اور اس نے ظلم و زیادتی کی بری روایت قائم کی، آخرت میں جہنم کا ایندھن بنا اور ظالموں کا ساتھی قرار پایا۔ اس سے زیادہ اور نقصان کیا ہوسکتا ہے کہ جب بھی کوئی شخص ظلم کرتا ہے تو اسے ایسی ہی کیفیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ نیکی میں اطمینان ہے اور برائی میں پریشانی اور پشیمانی ہوتی ہے۔ (عَنِ النَّوَّاسِ بْنِ سِمْعَانَ الْأَنْصَارِیِّ (رض) قَالَ سَأَلْتُ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَنِ الْبِرِّ وَالْإِثْمِ فَقَالَ الْبِرُّ حُسْنُ الْخُلُقِ وَالْإِثْمُ مَا حَاکَ فِی صَدْرِکَ وَکَرِہْتَ أَنْ یَطَّلِعَ عَلَیْہِ النَّاسُ ) (رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ، باب تفسیر البر والاثم) ” حضرت نواس بن سمعان انصاری (رض) کہتے ہیں میں نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نیکی اور گناہ کے بارے میں پوچھا آپ نے فرمایا نیکی حسن اخلاق ہے اور برائی جو تمہارے دل میں کھٹکے اور تو ناپسند کرے کہ اس کے متعلق لوگوں کو پتا چل جائے۔ “ ( فِیْ طُغْیَانِھِمْ یَعْمَھُوْن) (البقرۃ : ١٥) ” وہ اپنی نافرمانیوں میں بھٹک رہے ہیں۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کا قیامت کی قسم اٹھانا اس بات کا دوٹوک ثبوت ہے کہ قیامت کا واقع ہونا برحق ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کا نفس لوّامہ کی قسم اٹھانا اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان کا نفس بھی اسے برائی سے روکتا ہے۔ تفسیر بالقرآن نفس انسانی کی تین حالتیں : ١۔ نفس مطمئنہ۔ ہر حال میں مطمئن یعنی نیکی پر قائم رہنے والا نفس۔ (الفجر : ٢٧) ٢۔ نفس لوّامہ۔ گناہ پر ملامت کرنے والا۔ (القیامہ : ٢) ٣۔ نفس امّارہ۔ گناہ پر ابھارنے والا۔ (یوسف : ٥٣) (تفصیل کے لیے دیکھیے فہم القرآن ج ٢، ص ١٣٠)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قسم کی طرف اشارہ کرنا اور قسم نہ کھانا زیادہ اثر انگیز ہوتا ہے اور یہی اثر آفرینی یہاں مقصود ہے۔ اور اس انداز سے یہ مقصد اچھی طرح حاصل ہوتا ہے اور یہ انداز قرآن کریم میں بار بار دہرایا جاتا ہے اور اس کے بعد پھر حقیقت قیامت اور ملامت کرنے والے نفس کی حقیقت بیان کی جاتی ہے۔ قیامت کی حقیقت کے بارے میں...  اس سورت میں مکرر بات کی گئی ہے۔ لیکن نفس لوامہ کیا ہے ؟ اس کے بارے میں تفاسیر ماثورہ میں کئی اقوال مذکور ہیں۔ حضرت حسن بصری سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں : کہ تم جب بھی دیکھو ایک سچا آدمی ہمیشہ اپنے آپ کو ملامت کرے گا کہ میری بات کا کیا مطلب تھا ؟ میرے کھانے کا مقصد کیا ہے ؟ اور میری بات کا فائدہ کیا ہے ؟ رہا فاجر تو اپنی راہ پر آگے ہی بڑھتا ہے اور اپنے آپ کو کسی مرحلے پر بھی ملامت نہیں کرتا۔ اور حضرت حسن سے روایت ہے کہ زمین و آسمان کے باشندوں میں سے کوئی ایسا نہ ہوگا ، جو اپنے آپ کو قیامت کے دن ملامت نہ کرے گا۔ حضرت عکرمہ سے روایت ہے کہ تم خیر اور شر دونوں پر ایک دوسرے کو ملامت کرو گے کہ اے کاش کہ میں ایسا ایسا کرتا۔ اور یہی روایت سعید ابن جبیر سے ہے اور حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ اس سے نفس لوم مراد ہے۔ اور ان ہی سے روایت ہے کہ وہ ملامت زدہ نفس جو کسی مذموم بات پر ملامت کیا جائے اور مجاہد سے روایت ہے کہ ہر نفس جو ان امور پر نادم ہو جو فوت ہوگئے ہوں اور اپنے آپ کو ملامت کرے۔ قتادہ کہتے ہیں لوامہ وہ نفس ہے ، جو فجور کا ارتکاب کرے۔ ابن جریر کہتے ہیں یہ سب اقوال قریب المعنی ہیں اور زیادہ قریب یہ مفہوم ہے کہ نفس لوامہ سے وہ نفس مراد ہے جو اپنے آپ کو خیر اور شر پر ملامت کرے اور جو خیر رہ جائے اس پر نادم ہو۔ ہمارے خیال میں حسن بصری کا قول زیادہ بہتر ہے کہ نفس لوامہ وہ ہے جو ملامت کرتا ہے کہ ” خدا کی قسم ایک مومن کو جب بھی تم دیکھو وہ اپنے آپ کو ملامت ہی کرتا ہے کہ میں نے جو بات کی اس کا کیا مقصد ہے ؟ میں نے جو کھایا اس کا کیا مقصد ہے ، اور میں نے جو کچھ سوچا اس کا کیا مقصد ہے۔ اور فاسق وفاجر بس آگے ہی بڑھتا جاتا ہے۔ اپنی کسی بات پر اپنے آپ کو ملامت کرتا “۔ تو نفس لوامہ وہ ہے جو بیدار ہے ، خدا کا خوف رکھنے والا ہے ، ہر وقت محتاط اور اپنا حساب رکھنے والا ، جو اپنے ماحول پر نظر رکھتا ہو ، وہ اپنی خواہشات پر نظر رکھتا ہو اور ہر وقت اس بات سے محتاط ہو کہ کہیں دھوکہ نہ کھاجائے۔ یہ نفس اللہ کے فاجرہ کے بالمقابل ہوتا ہے۔ نفس فاجرہ وہ ہوتا ہے جو آگے بڑھتا رہتا ہے۔ فسق وفجور میں گم ہوتا ہے ، جس کی صفات یہ ہوتی ہیں کہ وہ جھوٹ بولتا ہے ، روگردانی کرتا ہے ، اور نہایت غرور سے اپنے اہالی وموالی کی طرف رجوع کرتا ہے اور اپنا محاسبہ نہیں کرتا۔ لا اقسم ............................ اللوامة (75:1 ۔ 2) ”” میں قسم نہیں کھاتا ہوں قیامت کے دن کی ، اور میں قسم نہیں کھاتا ہوں ملامت کرنے والے نفس کی “۔ یعنی وقوع قیامت پر قسم نہیں اٹھاتا ، یہاں اللہ نے قسم اٹھانے کی بھی نفی کی اور اس بات کو بھی حذف کردیا کہ کس بات پر قسم نہیں اٹھائی جارہی لیکن جس بات کی قسم اٹھائی جارہی ہے اس کا ذکر ایک دوسرے انداز میں کردیا گیا۔ گویا یہ نئی بات ہے اور قسم کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

انسان قیامت کا انکار کرتا ہے تاکہ فسق و فجور میں لگا رہے، اسے اپنے اعمال کی خبر ہے اگرچہ بہانہ بازی کرے، قیامت کے دن بھاگنے کی کوئی جگہ نہ ہو گی یہاں سے سورة القیامہ شروع ہو رہی ہے اس میں قیامت کے احوال بیان فرمائے ہیں اور انسان کی موت کے وقت کی حالت بتائی ہے اور انسانوں کو آخرت کے لیے فکر مند ہون... ے کی تنبیہ فرمائی ہے۔ مشرکین وقوع قیامت کا انکار کرتے تھے اور یوں کہتے تھے کہ مردہ ہڈیوں میں جان کیسے پڑے گی ؟ اور ہڈیاں کیسے جمع کی جائیں گی اسی طرح ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ عدی بن ربیعہ ایک آدمی تھا وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور اس نے کہا اے محمد مجھے بتا دیجئے قیامت کب ہوگی کیسے ہوگی کیا کیا احوال گزریں گے ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے قیامت کا حال بتادیا وہ سن کر کہنے لگا کہ اگر میں اس دن کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں تب بھی تمہاری تصدیق نہ کروں گا اور تم پر ایمان نہ لاؤ گا مگر اس صورت میں کہ اللہ ہڈیوں کو جمع فرما دے اور بعض حضرات نے لکھا ہے کہ ابو جہل نے انکار کے طور پر یوں کہا تھا کہ کیا محمد یہ خیال کرتے ہیں کہ ہڈیاں جب گل جائیں گی تو اللہ تعالیٰ ان کو جمع فرما دے گا ؟ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے ان کی تردید فرمائی اور قیامت کے دن کی اور ایسے نفس کی قسم کھائی جو اپنے اوپر ملامت کرے یعنی گناہ ہوجانے پر نادم ہو اور نیکی کر کے بھی اپنے نفس پر ملامت کرے کہ اس میں اخلاص کی یا فلاں فلاں آداب کی کمی رہ گئی، جواب قسم لتبعثن محذوف ہے یعنی قیامت کے دن کی اور نفس لوامہ کی قسم کھاتا ہوں کہ تم قیامت کے دن ضرور بالضرور اٹھائے جاؤ گے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

2:۔ ” لا اقسم “ لا زائدہ ہے جو کلام عرب میں تاکید کے لیے آتا ہے جواب قسم محذوف ہے بقرینہ ما بعد ای لتبعثن ولتحاسبن (مظہری) ۔ یعنی تم ضرور دوبارہ زندہ کیے جاؤ گے اور تم سے ضرور حساب لیا جائے گا۔ اس لیے قیامت کو مان لو اور اعراض نہ کرو۔ یہ تخویف اخروی ہے اور اس میں ثبوت قیامت پر دو قسمیں بطور شہادت پی... ش کی گئی ہیں۔ اول خود یوم قیامت کو قیامت پر بطور شاہد پیش فرمایا ہے۔ ہزاروں لاکھوں انسان قیامت کے ہول اور اس کے شدائد سے ترساں ولرزاں رہتے ہیں تو آخر وہ کوئی چیز تو ہے ہی جس سے وہ خائف ہیں۔ تائید : ” رجال لا تلہیہم تجارۃ ولا بیع عن ذکر اللہ۔ تا۔ یخافون یوما تتقلب فیہ القلوب والابصار “ (نور رکوع 5) ۔ دوم، نفس لوامہ بھی قیامت پر شاہد کیونکہ لاکھوں بندگان خدا کے نفوس لوامہ ان کو قیامت کے ڈر سے اعمال صالحہ میں کوتاہی پر ملامت کر رہے ہیں۔ تو کیا یہ بات اس امر کی دلیل نہیں کہ قیامت ایک حقیقت ہے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(1) میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی۔