Surat ul Qiyama

Surah: 75

Verse: 22

سورة القيامة

وُجُوۡہٌ یَّوۡمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ ﴿ۙ۲۲﴾

[Some] faces, that Day, will be radiant,

اس روز بہت سے چہرے ترو تازہ اور بارونق ہوں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Some faces that Day shall be Nadirah. which comes from the word Nadarah, which means splendid, radiant, glowing, delighted with goodness. إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وجوہ یومئذ ناضرۃ…:” ناضرۃ “ ’ نضر الوجہ والشجر واللون “ (ن، ک، س) چہرے یا درخت یا رنگ کا ترو تازہ ، خوبصورت اور بارونق ہونا۔ معلوم ہوا کہ قیامت کے دن نیک بندوں کو اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب ہوگا اور اس خوشی میں ان کے چہرے ترو تازہ اور چمک رہے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں انسان ہوں یا حیوان، نباتا... ت ہوں یا جمادات، ایسا ایسا حسن و جمال ہے جسے دیکھ کر خوشی سے چہروں پر تازگی اور رونق آجاتی ہے۔ جب حسن و جمال کے خلاق کی ذات کو دیکھیں گے تو ان کی خوشی اور ان کے چہروں کی تازگی کا کیا ٹھکانا ہوگا ! ! حقیقت یہ ہے کہ جنت کی سب سے بڑی نعمت ہی یہ ہوگی کہ جنتی اپنی آنکھوں سے اپنے رب تعالیٰ کا دیدار کریں گے۔ صہیب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(اذا دخل اھل الجنۃ الجنۃ قال یقول اللہ تبارک و تعالیٰ تریدون شیائاً ازیدکم ؟ فیقولون الم تبض وجودھنا ؟ الم تدخلنا الجنۃ وتنجنا من النار ؟ قال فیکشف الحجاب فما اعطوا شیئاً احب الیھم من النظر الی ربھم عزو جل، ثم تلاھذہ الآیۃ :(للذین احسنوا الحسنی و زیادۃ) (مسلم ، الایمان، باب اثبات رویۃ المومنین…: ١٨١)” جب اہل جنت جنت میں داخل ہوں گے تو اللہ تابرک و تعالیٰ فرمائے گا :” تمہیں کوئی چیز چاہیے جو میں تمہیں مزید عطا کروں ؟ “ وہ کہیں گے :” کیا تو نے ہمارے چہروں کو سفید نہیں کیا ؟ کیا تو نے ہمیں جنت میں داخل نہیں کیا اور آگ سے نجات نہیں دی ؟ “ فرمایا :” پھر اللہ تعالیٰ پر دہ ہٹا دے گا اور انہیں کوئی بھی چیز نہیں دی گئی ہوگی جو انہیں اپنے رب کو دیکھنے سے زیادہ پیاری ہو۔ “ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھی :(للذین احسنوا الحسنی و زیادۃ ) (یونس : ٢٦) ” جن لوگوں نے اچھے اعمال کئے ان کے لئے اچھا اجر ہے اور مزید بیھ (مزید سے رب تعالیٰ کا دیدار مراد ہے۔ ) “ جریر بن عبداللہ (رض) سے ریات ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(انکم سترون ربکم عیانا) (بخاری، التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ :(وجوہ یومئذ ناضرۃ…): ٨٣٣٥)” تم اپنے رب کو اپنی آنکھوں سے صاف دیکھو گے۔ “ ابوہریرہ (رض) کی حدیث میں ہے کہ لوگوں نے پوچھا :” یا رسول اللہ ! کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھیں گے ؟ “ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(ھل تض اورن فی القمر لیلۃ البدر ؟ قالوا لا یا رسول اللہ قال فھل تض اورن فی الشمس لیس دونھا سحاب ڈ قالوا لا یا رسول اللہ ! قال فانکم ترونہ کذلک) (بخاری، التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ (وجو یومئذ ناظرۃ…): ٨٣٣٨۔ مسلم : ١٨٢)” کیا تمہیں چودھویں کا چاند دیکھنے میں کوئی تکلیف ہوتی ہے ؟ “ انہوں نے کہا : ” نہیں اے اللہ کے رسول ! “ فرمایا :” کیا تمہیں سورج دیکھنے میں کوئی تکلیف ہوتی ہے جس کے سامنے بادل کی رکاوٹ بھی نہ ہو ؟ “ انہوں نے کہا :” نہیں، اے اللہ کے رسول ! “ فرمایا :”(یقین رکھو کہ) تم اپنے رب کو اسی طرح دیکھو گے۔ “ قرآن مجید میں فاجر لوگوں کے متعلق فرمایا :(کلا انھم عن ربھم یومئذ لمحجوبون) (المطففین : ١٥)” ہرگز نہیں، بیشک وہ اس دن اپنے رب سے حجاب میں رکھے جائیں گ۔ “ اللہ تعالیٰ ن ان کے دیدار الٰہی سے محروم رکھے جانے کا خاص طور پر ذکر فرمایا۔ اگر ابرار کو بھی اس دن رب کا دیدار نہ ہوا تو ان میں اور فجار میں کیا فرق رہا بڑے بدنصیب ہیں وہ لوگ جو اتنی واضح آیات و احادیث کے باوجود قیامت کے دن دیدار الٰہی کے منکر ہیں۔ اس کا انکار بدلا یہی ہے کہ انہیں قیامت کے دن اس سب سے بڑی نعمت سے محروم ہی رکھا جائے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍ نَّاضِرَةٌ اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ (Many faces, that day, will be glowing, looking towards their Lord,...75:23). The word nadirah means &fresh&. In other words, many faces that day will be happy, fresh and radiant. The words &looking towards their Lord& mean &gazing at their Lord&. This proves that the inmates of Paradise will see Allah in the Hereaf... ter with physical eyes. The scholars of Ahlus-sunnah (those following the classic way of interpreting the religion) are unanimous on this issue. The Mu&tazilites and the Kharijites deny the possibility of seeing Allah, even in Paradise. Their reasoning is philosophical scepticism. They say that there are certain conditions of distance that must be met between the one who sees with his physical eyes and the object that is seen. But these conditions cannot be met between the Creator and the created. The Ahlus-sunnah respond that in the Hereafter the Beatific Vision of Allah will be beyond the need of these conditions. He will be seen [ unlike any material being ] beyond space, direction, shape or form. Hadith narratives make the subject even clearer. The inmates of Paradise will occupy different positions. Consequently, some will see Allah on a weekly basis, on Fridays. Others will see Him daily, morning and evening. Yet others will see Him all the time under all conditions. [ Mazhari ].  Show more

وُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍ نَّاضِرَةٌ، اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ ناضرة بمعنے ترو تازہ یعنی اس روز کچھ چہرے ہشاش بشاش تروتازہ ہوں گے۔ اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ یعنی یہ چہرے اپنے رب کو دیکھ رہے ہوں گے، اس سے ثابت ہوا کہ آخرت میں اہل جنت کو حق تعالیٰ کا دیدار بچشم سر نصیب ہوگا اس پر اہل سنت والجماعت اور سب ع... لما وفقہا کا اجماع ہے، صرف معتزلہ اور خوارج منکر ہیں۔ وجہ انکار کی فلسفیانہ شبہات ہیں کہ آنکھ سے دیکھنے کے لئے دیکھنے والے اور جس کو دیکھاے جائے اور ان دونوں کے درمیان مسافت کے لئے جو شرائط ہیں خالق و مخلوق کے درمیان ان کا تحقیق نہیں ہوسکتا۔ اہل سنت والجماعت کا مسلک یہ ہے کہ آخرت میں حق تعالیٰ کی رویت وزیارت ان سب شرائط سے بےنیاز ہوگی نہ کسی جہت اور سمت سے اس کا تعلق ہوگا نہ کسی خاص شکل و صورت اور ہیت سے۔ روایات حدیث سے یہ مضمون اور بھی زیادہ وضاحت سے ثابت ہے، البتہ اس روایت وزیارت میں اہل جنت کے مختلف درجات ہوں گے، بعض کو یہ زیارت ہفتہ وار جمعہ کو حاصل ہوگی بعض کو روزانہ صبح شام اور بعض کے لئے یہ ہر وقت ہر حال میں رہے گی (مظہری)   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وُجُوْہٌ يَّوْمَىِٕذٍ نَّاضِرَۃٌ۝ ٢٢ ۙ وجه أصل الوجه الجارحة . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة/ 6] ( و ج ہ ) الوجہ کے اصل معنی چہرہ کے ہیں ۔ جمع وجوہ جیسے فرمایا : ۔ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة/ 6] تو اپنے منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو ۔ يَوْمَئِذٍ ويرك... ّب يَوْمٌ مع «إذ» ، فيقال : يَوْمَئِذٍ نحو قوله عزّ وجلّ : فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر/ 9] وربّما يعرب ويبنی، وإذا بني فللإضافة إلى إذ . اور کبھی یوم کے بعد اذ بڑھا دیاجاتا ہے اور ( اضافت کے ساتھ ) یومئذ پڑھا جاتا ہے اور یہ کسی معین زمانہ کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس صورت میں یہ معرب بھی ہوسکتا ہے اور اذ کی طرف مضاف ہونے کی وجہ سے مبنی بھی ۔ جیسے فرمایا : وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ [ النحل/ 87] اور اس روز خدا کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے ۔ فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر/ 9] وہ دن بڑی مشکل کا دن ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم/ 5] اور ان کو خدا کے دن یا ددلاؤ۔ میں ایام کی لفظ جلالت کی طرف اضافت تشریفی ہے اور ا یام سے وہ زمانہ مراد ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے فضلو انعام کے سمندر بہا دیئے تھے ۔ نضر النَّضْرَةُ : الحُسْنُ کالنَّضَارَة، قال تعالی: نَضْرَةَ النَّعِيمِ [ المطففین/ 24] أي : رَوْنَقَهُ. قال تعالی: وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُوراً [ الإنسان/ 11] ونَضَرَ وجْهُه يَنْضُرُ فهو نَاضِرٌ ، وقیل : نَضِرَ يَنْضَرُ. قال تعالی: وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ ناضِرَةٌ إِلى رَبِّها ناظِرَةٌ [ القیامة/ 22- 23] ونَضَّرَ اللَّهُ وَجْهَهُ. وأَخْضَرُ نَاضِرٌ: غُصْنٌ حَسَنٌ. والنَّضَرُ والنَّضِيرُ : الذَّهَبُ لِنَضَارَتِهِ ، وقَدَحٌ نُضَارٌ: خَالِصٌ کالتِّبْرِ ، وقَدَحُ نُضَارٍ بِالإِضَافَةِ : مُتَّخَذٌ مِنَ الشَّجَرِ. ( ن ض ر ) النضرۃ والنضارۃ کے معنی حسن اور ترو تازگی کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ نَضْرَةَ النَّعِيمِ [ المطففین/ 24] تم ان کے چہروں ہی سے راحت کی تازگی معلوم کرلو گے ۔ وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُوراً [ الإنسان/ 11] اور تازگی اور خوشدلی عنایت فر مائے گا ۔ اور یہ نضر وجھہ ینضر فھوا ناضر ( نصر ) سے آتا ہے ۔ اور بعض نے نضر ینضر یعنی باب علم سے مانا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ ناضِرَةٌ إِلى رَبِّها ناظِرَةٌ [ القیامة/ 22- 23] اسروز بہت سے منہ رونق دار ہوں گے اور اپنے پروردگار کے محو دید ار ہوں گے اللہ تعالیٰ اس کے چہرہ کو ترو تازہ ( یعنی خوش وخرم رکھے ۔ غصبن اخضر وناضر تر تازہ ٹہنی اور سونے کو بھی اس کی تر وتازگی اور حسن کے باعث نضر ونضیر کہا جاتا ہے وتدح نضا ر را ضافت کے ساتھ پیالہ کو کہتے ہیں جو عمدہ لکڑی سے بنا ہوا ہو ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٢۔ ٢٥) سچے مومنوں کے چہرے تو قیامت کے دن بارونق اور چمکدار ہوں گے اور اپنے پروردگار کی طرف دیکھتے ہوں گے اور کافروں اور منافقوں کے چہرے قیامت کے دن بےرونق ہوں گے اور دیدار خداوندی سے محروم رہیں گے اور سمجھیں گے کہ ان پر سخت عذاب نازل کیا گیا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٢{ وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ ۔ } ” بہت سے چہرے اس دن تروتازہ ہوں گے۔ “ ان آیات میں اب میدانِ محشر میں موجود لوگوں کی کیفیت کا نقشہ دکھایا گیا ہے۔ اس نقشے کو دیکھنے سے یوں لگتا ہے کہ ہر انسان کو اپنے اعمال کے مطابق اپنے نتیجے کا پہلے سے ہی علم ہوگا ۔ جیسے سکول میں اعلانِ نتائج کے موقع پر...  کچھ بچے پہلے سے مطمئن اور کچھ پہلے سے پریشان ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے ہر بچہ اپنے بارے میں خوب جانتا ہے کہ اس نے امتحان میں کیا کچھ کیا تھا۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

16 "Some faces will be fresh"; will be beaming with joy and delight, for the Hereafter which they had believed in, will be before them precisely accordingly to their belief. Thus, when they see the Hereafter for the sake of which they had given up the unlawful benefits of the world and suffered the lawful losses, actually established before their very eyes, they will have the satisfaction that the... y had trade the correct decision about their way of life, and the tithe had come when they would enjoy its best and plentiful fruits.  Show more

سورة الْقِیٰمَة حاشیہ نمبر :16 یعنی خوشی سے دمک رہے ہونگے ، کیونکہ جس آخرت پر وہ ایمان لائے تھے وہ ٹھیک ان کے یقین کے مطابق سامنے موجود ہو گی ، اور جس آخرت پر ایمان لا کر انہوں نے دنیا کے ناجائز فائدے چھوڑے اور برحق نقصان برداشت کیے تھے اس کو فی الواقع اپنی آنکھوں کے سامنے برپا ہوتے دیکھ کر انہیں...  یہ اطمینان حاصل ہو جائے گا کہ انہوں نے اپنے رویہ زندگی کے متعلق بالکل صحیح فیصلہ کیا تھا ، اب وہ وقت آ گیا ہے جب وہ اس کا بہترین انجام دیکھیں گے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(75:22) وجوہ یومئذ ناضرۃ، وجوہ مبتداء ناضیرۃ اس کی خبر۔ اور یومئذ خبر کا ظرف۔ ناضرۃ و نضر ونضارۃ (باب نصر، سمع ، کرم) مصدر سے اسم فاعل کا صیغہ واحد مؤنث۔ بمعنی تروتازہ ، پررونق۔ وجوہ : مبتداء ہے یہاں یا تو مضاف الیہ کو حذف کردیا گیا ہے یعنی اہل قرب کے چہرے یا صفت محذوف ہے : یعنی بہت سے چہرے : کیون... کہ وجوہ نکرہ ہے اور جب تک اس میں کوئی تخصیص نہ ہو مبتداء نہیں ہوسکتا۔ اس لئے یا تو مضاف الیہ کو محذوف مانا جائے گا۔ یا صفت مخصصہ کو۔ یا یوں کہا جائے کہ وجوہ سے وجوہ منھم مراد ہے یعنی انسانوں کے کچھ چہرے ہوں گے (اس وقت وجوہ خبر ہوگا اور منھم مبتداء یا منھم ظرف اور وجوہ اس کا فاعل)  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب قرآن کریم کا پیش کردہ مصور منظر جو قرآن کا منفرد اسلوب ہے۔ وجوہ ........................ ناضرة (22) الی ربھا ناظرة (75:23) ” اس روز کچھ چہرے تروہ تازہ ہوں گے۔ اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے “ یہ آیت ایک ایسی حالت کی طرف ایک جھلک کی شکل میں تیز اشارہ کررہی ہے کہ الفاظ کے اندر کسی انسان کے لئے ایس... ا اشارہ ممکن نہیں ہے۔ نہ انسان اس حالت کا حقیقی ادراک ہی کرسکتا ہے۔ کامیاب اور نیک بخت لوگوں کی حالت کی یہ ایسی تصویر ہے جس کی حالاتی تصویر کشی ممکن ہی نہیں ہے بلکہ اس حالت کے مقابلے میں جنت کی بھی کوئی حقیقت نہیں رہی۔ حالانکہ وہ نعمتوں کے انواع و اقسام سے بھری ہوئی ہے۔ یہ حالت کہ یہ چہرے تروتازہ ہوں گے ، اور اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔ رب کی طرف دیکھ رہے ہوں اور خوش اور مطمئن ہوں۔ یہ ہے بلند ترین مقام سعادت مندی ! اس جہاں میں انسان بعض اوقات اس کائنات اور نفس انسانی کے اندر پائے جانے والے حسن و جمال سے بےحد لط اندوز ہوتا ہے۔ انسان مثلاً چاندنی رات میں گم ہوتا ہے۔ اگر چاندنی نہ ہو تو اندھیری رات کا بھی ایک لطف ہوتا ہے۔ پھر نمودسپیدہ صبح کیا خوبصورتی دکھاتا ہے۔ درختوں کے طویل اور گہرے سائے ، سمندر کی پے درپے موجیں ، صحراﺅں کی درویاں ، باغات کی سرسبزیاں ، خوبصورت پھل اور پھول فرحاں و شاداں دل ، پختہ ایمانی لمحات ، مشکلات کو انگیز کرنا اور دوسری خوبصورتیاں جن سے یہ جہاں پر ہے اور انسان ان سے لطف اندوز ہوتا رہتا ہے اور تصور اور نور کے پروں کے ساتھ اس جہاں میں دوڑتا اور اڑتا پھرتا ہے۔ اور اس قدر خوشی اور سرور پاتا ہے کہ زندگی کے درد اور دکھ بھول جاتا ہے اور مادی اور جسمانی خوشیوں کو بھول جاتا ہے۔ خواہشات نفس اور مادی شوق اور لذت ایک لمحے کے لئے ذہن سے دور ہوجاتے ہیں۔ لیکن اس کی خوشیوں کا عالم ہی کیا ہوگا جب وہ اللہ کے تخلیق کردہ کمال و جمال کے بھی آگے بڑھ کر ذات باری کے کمالات کو دیکھ رہا ہو اور اللہ کی طرف اس کی نظریں ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ مقام تب حاصل ہوتا ہے جب اللہ کی خاص مدد شامل حال ہو ، پھر یہ تب حاصل ہوتا ہے کہ جب کسی کو اللہ کی جانب سے ثابت قدمی حاصل ہو۔ انسانوں کو اپنے اوپر کنٹرول حاصل ہو ، وہ استقامت کا مالک ہو اور اخروی سعادت مندی سے لطف اندوز ہورہا ہو ، وہ سعادت مندی جس کی تعریف نہیں کی جاسکتی۔ اور جس کی حقیقت کو پوری طرح سمجھنا ہی مشکل ہے۔ وجوہ ............ ناضرة (22) الی ربھا ناظرة (75:23) ” بعض چہرے اس دن تروتازہ ہوں گے اور اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے “۔ وہ تروتازہ کیوں نہ ہوں جبکہ وہ رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔ انسان اس دنیا میں اللہ کی تخلیقات کا نظارہ کرتا ہے ، خوبصورت پھل ، عجیب و غریب پھول ، خوش رنگ اور خوبصورت پرندے اور ان کے بال ویر ، خوبصورت روحیں اور اچھے کام اور ان چیزوں کو دیکھ کر اس کارواں رواں خوش ہوتا ہے۔ اور اس کے چہرے سے خوشی ٹپک رہی ہوتی ہے اور چہرہ ترو تازہ ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر انسان اللہ کے مال اور جمال اور نورذات کی طرف دیکھ رہا ہو تو اس کی خوشی اور خوش بختی کے کیا کہنے۔ انسان اس مقام تک تب ہی پہنچ سکتا ہے جب وہ ان تمام رکاوٹوں کو ایک جھٹکے کے ساتھ دور پھینک دے جو اس مقام بلند تک پہنچنے سے روک رہی ہوتی ہیں۔ یہ مقام تب ہی حاصل ہوسکتا ہے کہ انسان اپنی ذات اور اپنے ماحول سے تمام نقائص دور کردے۔ اور وہ اللہ کے سوا کسی چیز کی طرف دیکھ ہی نہ رہا ہو۔ انسان اللہ کی طرف کس طرح دیکھے گا ؟ کس عضو سے دیکھے گا ؟ کیا آلہ بینائی اسے حاصل ہوگا ؟ کیا ذریعہ ہوگا اللہ کے دیکھنے کا ؟ تو یہ وہ بات ہے جو ہمارے تصور سے ماوراء ہے۔ یہ ایک تصور ہے جو قلب مومن کو دیا جارہا ہے۔ ایک فیض ہے جس سے روح مومن فیض یاب ہوگی۔ یہ دنیا کی آلودگیوں سے پاک اور شفاف فیض سعادت ہے ، جو مومن کو حاصل ہوگا۔ رہے عقلیت پسند تو وہ اس سے خوشی اور سرور حاصل کرنے کے بجائے ایسی آیات مجادلہ شروع کردیتے ہیں۔ ان کے ہاتھ کچھ نہیں آتا ، جس طرح وہ خوشی اور اطمینان سے محروم ہوتے ہیں۔ اسی طرح فہم وادراک سے بھی محروم ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ اس جہاں کی باتیں دنیا کی مالوف عقل سے نہیں ، ایمان کی قوت مدرکہ سے معلوم کی جاسکتی ہیں۔ انسانی شخصیت کا ارتقاء اور اس کو محدود زمینی شخصیت سے علیحدہ اور بلند کرنا ہی اسے قیامت کے روز لامحدود شخصیت اور ذات برتر وبالا سے ملاسکتا ہے۔ اس کے بغیر انسان کے لئے یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ لامحدود کے ساتھ کیسے مل سکتا ہے۔ لہٰذا معتزلہ اور اہل سنت کے درمیان رویت باری کے بارے میں جو طویل بحثیں چلیں وہ بالکل لا حاصل تھیں ، کیونکہ انسان کی اس زمینی شخصیت اور اخروی شخصیت کے درمیان فرق ہوگا۔ کلمات الٰہیہ کا ہم وہی مفہوم سمجھ سکتے ہیں جو ہماری محدودذات کے اندر سماتا ہے ، جب ہماری شخصیت ہی بدل جائے اور ان محدود تصورات سے بالا ہوجائے تو پھر ان کلمات کا مزاج اور مفہوم ہی بدل جائے گا۔ کلمات تو دراصل رمز ہوتے ہیں ان مفہومات کے لئے جو انسانی تصور میں ہوتے ہیں۔ جب انسانی تصورت کے حدود وقیود بدل جائیں تو کلمات کے کے مفہوم بھی بدل جائیں گے۔ جب انسانی شخصیت بدل گئی ، اس کی قوت مدرکہ کی طاقت بدل گئی تو اس کے ساتھ ساتھ کلمات اور تصورات دونوں بدل جائیں گے۔ اس دنیا میں ان کلمات کا ہم وہ مفہوم سمجھتے ہیں جو ہمارے حال ہوتا ہے۔ لہٰذا ہمیں ایسے مفاہیم میں نہیں الجھنا چاہئے جو ہم ان کلمات سے اخذ نہیں کرسکتے۔ بس ہمیں اس سعادت مندی اور اس مقدس خوشی اور سرور کی امید رکھنا چاہئے جس کا ہم اس دنیا کے مفاہیم کے اعتبار سے تصور کرسکتے ہیں۔ اور ہمیں چاہئے کہ ہم اس قسم کے فیوض کے لئے اپنی نظریں عالم بالا کی طرف بلند رکھیں۔ اور اس سے بڑا سرور اور کوئی نہیں۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد اہل ایمان کی خوشی اور اہل کفر کی بدحالی بیان فرمائی۔ ارشاد فرمایا ﴿ وُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍ نَّاضِرَةۙا ٠٠٢٢﴾ (اس دن بہت سے چہرے ترو تازہ ہوں گے) یعنی خوش و خرم ہوں گے ان کے چہروں کی خوبی اور چمک دمک دیکھنے والوں کو بتارہی ہوگی کہ یہ لوگ بڑے خوش ہیں ان کو کوئی فکر نہیں پوری طرح ہشاش بشاش ہیں... ۔ كما قال تعالیٰ : ﴿تَعْرِفُ فِيْ وُجُوْهِهِمْ نَضْرَةَ النَّعِيْمِۚ٠٠٢٤﴾ ان میں بہت سے اشخاص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث کی خدمت کر کے دعا لینے والے بھی ہوں گے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : نضر اللہ امراء سمع مناشیئا فبلغہ کما سمعہ فرب مبلغ اوعیٰ من سامع (اللہ اس شخص کو ترو تازہ رکھے جس نے ہم سے کوئی چیز سنی پھر اس نے اسی طرح دوسروں کو پہنچا دی جیسے سنی تھی کیونکہ بہت سے افراد جن کو بات پہنچائی گئی اس سے زیادہ یاد رکھنے والے ہوتے ہیں جس نے خود سنی تھی) ۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

10:۔ ” وجوہ “ یہ بشارت اخرویہ ہے۔ ” ناضرۃ “ تروتازہ، خوش و خرم، ہشاش بشاش، قیامت کے دن کچھ چہرے (یعنی مومنوں کے چہرے) نہایت تروتازہ اور خوش وخرم ہوں گے اور دیدار خداوندی سے محظوظ ہوں گے۔ ” ووجوہ یومئذ باسرۃ “ بےرونق، ادا، بگڑے ہوئے۔ ” فاقرۃ “ کمر توڑ دینے والی سختی۔ اور کچھ چہرے (یعنی کافروں کے) اس ... دن حسرت و یاس میں بےرونق اور بگڑے ہوئے ہوں گے اور انہیں یقین ہوگا کہ آج ان کا انجام نہایت ہولناک ہوگا، وہ شدید ترین عذاب میں گرفتار ہوں گے اور کمر توڑ دینے والے مصائب کا نشانہ بنیں گے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(22) اس دن بہت سے چہ رہے بارونق اور تروتازہ ہوں گے۔