Surat ul Qiyama
Surah: 75
Verse: 23
سورة القيامة
اِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ ﴿ۚ۲۳﴾
Looking at their Lord.
اپنے رب کی طرف دیکھتے ہونگے ۔
اِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ ﴿ۚ۲۳﴾
Looking at their Lord.
اپنے رب کی طرف دیکھتے ہونگے ۔
Looking at their Lord.) meaning, they will see Him with their very eyes. This is just as was recorded by Al-Bukhari in his Sahih, إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّكُمْ عِيَانًا Verily, you all will see your Lord with your own eyes. The believers seeing Allah in the abode of the Hereafter has been confirmed in the authentic Hadiths from numerous routes of transmission with the scholars of Hadith. It is not possible to deny this or refuse it. Examples would be the Hadiths of Abu Sa`id and Abu Hurayrah, and they are both recorded in the Two Sahihs. They both mentioned that some people said, "O Messenger of Allah! Will we see our Lord on the Day of Judgement" The Prophet said, هَلْ تُضَارُّونَ فِي رُوْيَةِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ لَيْسَ دُونَهُمَا سَحَابٌ Are you harmed by seeing the sun and the moon when there are no clouds beneath them? They replied, "No." The Prophet then said, فَإِنَّكُمْ تَرَوْنَ رَبَّكُمْ كَذَلِك Then you will surely see your Lord like that. In the Two Sahihs it is recorded from Jabir that he said, "The Messenger of Allah looked at the moon on a night when it was full, and he said, إِنَّكُمْ تَرَوْنَ رَبَّكُمْ كَمَا تَرَوْنَ هَذَا الْقَمَرَ فَإِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ لاَ تُغْلَبُوا عَلَى صَلَةٍ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَلاَ قَبْلَ غُرُوبِهَا فَافْعَلُوا Verily, you will see your Lord just as you see this moon! So if you are able to avoid missing a prayer before the rising of the sun (Fajr prayer) or before its setting (`Asr prayer) then do so." Among the Hadiths, which Muslim was alone in recording, is a narration from Suhayb that the Prophet said, إِذَا دَخَلَ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ قَالَ يَقُولُ اللهُ تَعَالى تُرِيدُونَ شَيْيًا أَزِيدُكُمْ فَيَقُولُونَ أَلَمْ تُبَيِّضْ وُجُوهَنَا أَلَمْ تُدْخِلْنَا الْجَنَّةَ وَتُنَجِّنَا مِنَ النَّارِ قَالَ فَيَكْشِفُ الْحِجَابَ فَمَا أُعْطُوا شَيْيًا أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِنَ النَّظَرِ إِلَى رَبِّهِمْ وَهِيَ الزِّيَادَة When the people of Paradise enter the Paradise, Allah will say, `Do you want me to give you anything extra' They will say, `Haven't You whitened our faces, haven't You entered us into Paradise and saved us from the Fire' Then He will remove the veil and they will not be given anything more beloved to them than looking at their Lord, and that will be the extra (Ziyadah). Then he recited this Ayah, لِّلَّذِينَ أَحْسَنُواْ الْحُسْنَى وَزِيَادَةٌ For those who have done good is the best and extra (Ziyadah). (10:26) Also among the Hadiths, which Muslim was alone in recording, is the Hadith of Jabir in which the Prophet said, إِنَّ اللهَ يَتَجَلَّى لِلْمُوْمِنِينَ يَضْحَك Verily, Allah will appear before the believers while He is laughing. This will take place on the open plains of the Resurrection place. In some of these Hadiths, it mentions that the believers will be looking at their Lord on the open plains and some mention that this will occur in the Gardens of Paradise. If it were not due to fear of taking up a lot of space, we would present all of these Hadiths with their routes of transmission and wordings from those that are in the Sahih collections, the collections of good narrations, the Musnad collections and the Sunan collections. However, we have mentioned this in separate places in this Tafsir, and Allah is the Giver of success. This issue is something that the Companions, the Successors and the Salaf of this nation have agreed upon, and all praise is due to Allah. It is something that is agreed upon between the Imams of Islam and the guides of all mankind. Blackening of the Faces of the Disobedient People on the Day of Judgement Allah says, وَوُجُوهٌ يَوْمَيِذٍ بَاسِرَةٌ
23۔ 1 یہ اہل ایمان کے چہرے ہونگے جو اپنے حسن انجام کی وجہ سے مطمئن، مسرور اور منور ہونگے۔ مذید دیدار الٰہی سے بھی لطف اندوز ہونگیں۔ جیسا کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے اور اہل سنت کا متفقہ عقیدہ ہے۔
[١٤] دیدار الہٰی میں لذت وسرور :۔ بیشمار احادیث سے بھی ثابت ہے کہ ایمانداروں کو آخرت میں اللہ اپنے دیدار سے مشرف فرمائے گا۔ وہ اس کو اسی طرح بےتکلف دیکھ سکیں گے جس طرح چاند کی طرف دیکھتے ہیں۔ البتہ کافر اور فاجر لوگ اللہ کے دیدار سے محروم رکھے جائیں گے۔ (٨٣: ١٥) خ دیدار الہٰی سب سے بڑی نعمت ہے :۔ کتاب و سنت میں یہ بھی صراحت سے مذکور ہے کہ اللہ کا دیدار جنت کی تمام نعمتوں سے بڑھ کر اور بڑی نعمت ہوگا اور اس دیدار میں کچھ ایسا کیف و سرور حاصل ہوگا کہ جب تک اللہ تعالیٰ اہل جنت کو اپنے دیدار سے مشرف فرمائے گا جنتی اور کسی نعمت کی طرف دیکھیں گے بھی نہیں۔ بلکہ ٹکٹکی باندھے اللہ تعالیٰ ہی کی طرف دیکھتے رہیں گے۔ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) سے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں کلام کیا تو اس کلام میں بھی اتنی لذت تھی کہ موسیٰ (علیہ السلام) چاہتے تھے کہ یہ گفتگو کے لمحات جس قدر ممکن ہو طویل سے طویل تر ہوسکیں۔ اور دیدار میں تو بہرحال سماعت سے بہت زیادہ لذت ہونا یقینی ہے۔ خ عقل پرستوں کی تاویلات :۔ بعض عقل پرستوں نے دیدار الٰہی سے متعلقہ آیات کی بھی تاویل کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ صرف اس لیے کہ اس طرح اللہ کے لئے ایک مخصوص جہت متعین کرنا پڑتی ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کی ذات جہات اور مکان کی حدود سے ماوریٰ ہے۔ ہم ان دوستوں سے یہی عرض کریں گے کہ آپ کو کس نے اس بات کا پابند بنایا ہے کہ تمام آیات اور صفات الٰہی کو اپنی عقل کے مطابق کرکے چھوڑیں۔ جو بات آپ کے بس کا روگ نہیں۔ اس میں آپ کیوں مداخلت بےجا کرتے ہیں۔ راہ صواب یہی ہے کہ جو بات اللہ اور اس کے رسول نے کہی ہے اسے جوں کا توں تسلیم کرلیا جائے۔ صفات الٰہی میں عقل انسانی کی مداخلت سے گمراہی کے سوا اور کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔ رہی یہ بات کہ مومنوں کے چہرے کس وجہ سے تروتازہ ہوں گے تو اس کی ایک معقول وجہ تو یہی دیدارِ الٰہی کی نعمت ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ قیامت کے دن کے تمام تر حالات ان کی توقعات کے مطابق واقع ہوں گے۔ اس پر وہ اتنے خوش ہوں گے کہ ان کے چہرے ہشاش بشاش نظر آئیں گے۔
اِلٰى رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ ٢٣ ۚ إلى إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران/ 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، وقال تعالی: وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ [ النور/ 22] قيل : هو يفتعل من ألوت، وقیل : هو من : آلیت : حلفت . وقیل : نزل ذلک في أبي بكر، وکان قد حلف علی مسطح أن يزوي عنه فضله وردّ هذا بعضهم بأنّ افتعل قلّما يبنی من «أفعل» ، إنما يبنی من «فعل» ، وذلک مثل : کسبت واکتسبت، وصنعت واصطنعت، ورأيت وارتأيت . وروي : «لا دریت ولا ائتلیت»وذلک : افتعلت من قولک : ما ألوته شيئا، كأنه قيل : ولا استطعت . الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ۔ ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا } ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ اور آیت کریمہ :{ وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ } ( سورة النور 22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل داور صاحب وسعت ) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ الوت سے باب افتعال ہے اور بعض نے الیت بمعنی حلفت سے مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے متعلق نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ آئندہ مسطح کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل ( مجرد ) سے بنایا جاتا ہے جیسے :۔ کبت سے اکتسبت اور صنعت سے اصطنعت اور رایت سے ارتایت اور روایت (12) لا دریت ولا ائتلیت میں بھی ماالوتہ شئیا سے افتعال کا صیغہ ہے ۔ گویا اس کے معنی ولا استطعت کے ہیں ( یعنی تونے نہ جانا اور نہ تجھے اس کی استطاعت ہوئ ) اصل میں نظر النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب/ 53] أي : منتظرین، ( ن ظ ر ) النظر کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔ اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں
آیت ٢٣{ اِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ ۔ } ” اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔ “ بعض مفسرین نے اس آیت سے یہ مفہوم مراد لیا ہے کہ وہ اپنے رب کی رحمت کے امیدوار ہوں گے۔ اس لیے کہ رویت ِ باری تعالیٰ میدانِ حشر میں نہیں ہوگی ‘ بلکہ اہل جنت ‘ جنت میں داخلے کے بعد جس سب سے بڑی نعمت سے سرشار ہوں گے وہ دیدارِ الٰہی ہوگی۔ لیکن کچھ علماء کا خیال ہے اور میری رائے بھی یہی ہے کہ اہل ایمان کو میدانِ محشر میں بھی کسی نہ کسی درجے میں رویت باری تعالیٰ سے مشرف کیا جائے گا۔ سورة المُطَفِّـفِیْن میں یہ مضمون زیادہ وضاحت کے ساتھ آئے گا۔
17 Some commentators have understood this allegorically. They say that the words "looking towards someone" are used idiomatically for having expectations from some one, awaiting his decision and hoping for his mercy and kindness: so much so that even a blind person also says that he is looking towards some one in the hope to see how he helps him. But in a large number of the Ahadith the commentary that has been reported of it from the Holy Prophet (upon whom be peace) is that on the Hereafter the illustrious servants of AIlah will be blessed with the vision of their Lord. According to a tradition in Bukhari: "You will openly see your Lord." Muslim and Tirmidhi have related on the authority of Hadrat Suhaib that the Holy Prophet said: "When the righteous people enter Paradise. Allah will ask them: Do you want that I should bless you with something more? They will answer: Have You not made our faces bright: Have You not admitted us into Paradise and saved us from Hell? Thereupon, AIIah will remove the curtain and none of the blessings that they had been blessed with until then will be dearer to them than that they should be blessed with the vision of their Lord" And this very reward is the additional reward about which the Qur'an says: "Those who have done excellent works, will get excellent rewards, and even something in addition to that." (Yunus: 26) Bukhari and Muslim have related, on the authority of Hadrat Abu Sa'id Khudri and Hadrat Abu Hurairah: "The people asked: O Messenger of Allah, shall we see our Lord on the Day of Resurrection? The Holy Messenger replied: Do you find any difficulty in seeing the sun and the moon when there is no cloud in between? They said that they did not. The Holy Messenger said: Likewise, you will see you Lord." Another tradition bearing almost on the same subject has been reported in Bukhari and Muslim from Hadrat Jarir bin `Abdullah. Imam Ahmad, Tirmidhi, Daraqutni, lbn Jarir, Ibn AIMundhir. Tabarani, BaihaqI. Ibn Abi Shaibah and some other traditionists have related, with a little variation in wordings a tradition from Hadrat `Abdullah bin 'Umar, saying: "The man of the lowest rank among the dwellers of Paradise will see the vastness of his kingdom up to a distance covered in two thousand years, and the people of the highest rank among them will see their Lord twice daily. Then, the Holy Prophet recited this verse: `On that Day some faces shall be fresh, looking towards their Lord'." A tradition in Ibn Majah from Hadrat Jabir bin 'Abdullah is to the effect: "AIIah will look towards them, and they will look towards Allah. Then, until Allah hides Himself from them, they will not pay attention to any other blessing of Paradise, and will continue to look towards Him." On the basis of this and many other traditions, the followers of the Sunnah almost unanimously understand this verse in the meaning that in the Hereafter the Dwellers of Paradise will be blessed with the vision of Allah, and this is supported by this verse of the Qur'an too: "Nay, surely on that Day they (the sinners) shall be kept away from their Lord's vision." (AI-Mutaffifin: 15) . From this one can automatically conclude that this deprivation will be the lot of the sinners. not of the righteous. Here, the question arises how can man ever see God? A thing is seen when it is there in a particular direction, place. form and colour, and the rays of light are reflected from it to the eye of man and its image is conveyed from the eye to the sight area in the brain. Is it ever conceivable with regard to the Being of Allah, Lord of the Universe, that man would be able to see Him in this way? But this question, in fact, springs from a grave misunderstanding. It dces not take into account the distinction between two things: the essence of seeing and the specific form of the occurrence of the act of seeing with which we are familiar in the world. The essence of seeing is that the seer should be characterised by the power of sight: he should not be blind, and the thing to be seen should be manifest to him, not hidden from him. But in the world what we experience and observe is only the specific form of seeing in which a man or an animal practically sees something, and for this it is necessary that the seer should have an organ called the eye in his body, the eye should have the power of sight, it should have a physically bounded, coloured object before it, which should reflect rays of light to the eye, and the eye should be able to receive its image. Now, if a person thinks that the practical demonstration of the essence of seeing can take place only in the form with which we are familiar in the world, he would be only showing the narrowness of his own mental outlook; otherwise there can be in the Kingdom of God countless ways of seeing, which we cannot even imagine. The one who disputes this should tell us whether his God is seeing or blind. If He is seeing and sees His whole Universe and everything in it, does He see all this with an organ called the eye with which men and animals see things in the world, and dces the act of seeing issue forth from Him as it issues forth from us? Obviously, the answer to this is in the negative, and when it is so, why should a sensible man find it difficult to understand that in the Hereafter the dwellers of Paradise will not see Allah in the specific form in which man sees something in the world, but there nature of seeing will be different, which we cannot comprehend here. The fact is that it is even more difficult for us to understand the nature of the Hereafter precisely and accurately than it is for a two-year-old child to understand what matrimonial life is, whereas he himself will experience it when he grows up.
سورة الْقِیٰمَة حاشیہ نمبر :17 مفسرین میں سے بعض نے اسے مجازی معنی میں لیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ کسی کی طرف دیکھنے کے الفاظ محاورے کے طور پر اس سے توقعات وابستہ کرنے ، اس کے فیصلے کا انتظار کرنے ، اس کے کرم کا امیدوار ہونے کے معنی میں بولے جاتے ہیں ، حتی کہ ایک اندھا بھی یہ کہتا ہے کہ میری نگاہیں تو فلاں شخص کی طرف لگی ہوئی ہیں کہ وہ میرے لیے کیا کرتا ہے ۔ لیکن بکثرت احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی جو تفسیر منقول ہے وہ یہ ہے کہ آخرت میں اللہ کے مکرم بندوں کو اپنے رب کا دیدار نصیب ہو گا ۔ بخاری کی روایت ہے کہ انکم سترون ربکم عیانا ۔ تم اپنے رب کو علانیہ دیکھو گے ۔ مسلم اور ترمذی میں حضرت صہیب کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب جنتی لوگ جنت میں داخل ہو جائیں گے تو اللہ تعالی ان سے دریافت فرمائے گا کہ کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں مزید کچھ دوں؟ وہ عرض کریں گے کیا آپ نے ہمارے چہرے روشن نہیں کر دیے؟ کیا آپ نے ہمیں جنت میں داخل نہیں کر دیا اور جہنم سے بچا نہیں لیا ؟ اس پر اللہ تعالی پردہ ہٹا دے گا اور ان لوگوں کو جو کچھ انعامات ملے تھے ان میں سے کوئی انعام ہے جس کے متعلق قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ للذین احسنو الحسنی و زیادۃ ۔ یعنی جن لوگوں نے نیک عمل کیا ان کے لیے اچھا اجر ہے اور اس پر مزید بھی ۔ ( یونس ۔ 26 ) ۔ بخاری و مسلم میں حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابو ہریرہ نے فرمایا کیا تمہیں سورج اور چاند کو دیکھنے میں کوئی دقت ہوتی ہے جبکہ بیچ میں بادل بھی نہ ہو؟ لوگوں نے عرض کیا ، نہیں ۔ آپ نے فرمایا اسی طرح تم اپنے رب کو دیکھو گے ۔ اسی مضمون سے ملتی جلتی ایک اور روایت بخاری و مسلم میں حضرت جریر بن عبداللہ سے مروی ہے ۔ مسند احمد ، ترمذی ، دار قطنی ، ابن جریر ، ابن المنذر ، طبرانی ، بہیقی ، ابن ابی شیبہ اور بعض دوسرے محدثین نے تھوڑے لفظی اختلاف کے ساتھ حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت نقل کی ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ اہل جنت میں سے کم درجے کا جو آدمی ہو گا وہ اپنی سلطنت کی وسعت دو ہزار سال کی مسافت تک دیکھے گا ، اور ان میں سب سے زیادہ فضیلت رکھنے والے لوگ ہر روز دو مرتبہ اپنے رب کو دیکھں گے ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت پڑھی کہ اس روز کچھ چہرے ترو تازہ ہوں گے ، اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے ۔ ابن ماجہ میں حضرت جابر بن عبداللہ کی روایت ہے کہ اللہ ان کی طرف دیکھے گا اور وہ اللہ کی طرف دیکھیں گے ، پھر جب تک اللہ ان سے پردہ نہ فرما لے گا اسوقت تک وہ جنت کی کسی نعمت کی طرف توجہ نہ کریں گے ۔ اور اسی کی طرف دیکھتے رہیں گے ۔ یہ اور دوسری بہت سی روایات ہیں جن کی بنا پر اہل السنت قریب قریب بالاتفاق اس آیت کا یہی مطلب لیتے ہیں کہ آخرت میں اہل جنت اللہ تعالی کے دیدار سے مشرف ہوں گے ۔ اور اس کی تائید قرآن مجید کی اس آیت سے بھی ہوتی ہے کہ کلا انھم عن ربھم یومیذ لمحجوبون ہر گز نہیں ، وہ ( یعنی فجار ) اس روز اپنے رب کی دید سے محروم ہوں گے ۔ ( المطففین ۔ 15 ) ۔ اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ محرومی فجار کے لیے ہو گی نہ کہ ابرار کے لیے ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر انسان خدا کو دیکھ کیسے سکتا ہے؟ دیکھنے کے لیے تو لازم ہے کہ کوئی چیز کسی خاص جہت ، مقام ، شکل اور رنگ میں سامنے موجود ہو ، روشنی کی شعاعیں اس سے منعکس ہو کر انسان کی آنکھ پر پڑیں اور آنکھ سے دماغ کے مرکز بینائی تک اس کی تصویر منتقل ہو ۔ کیا اللہ رب العالمین کی ذات کے متعلق اس طرح قابل دید ہونے کا تصور بھی کیا جا سکتا ہے کہ انسان اس کو دیکھ سکے؟ لیکن یہ سوال دراصل ایک بڑی غلط فہمی پر مبنی ہے ۔ اس میں دو چیزوں کے درمیان فرق نہیں کیا گیا ہے ۔ ایک چیز ہے دیکھنے کی حقیقت اور دوسری چیز ہے دیکھنے کا فعل صادر ہونے کی وہ خاص صورت جس سے ہم اس دنیا میں آشنا ہیں ۔ دیکھنے کی حقیقت یہ ہے کہ دیکھنے والے میں بینائی کی صفت موجود ہو ، وہ نابینا نہ ہو ، اور دیکھی جانے والی چیز اس پر عیاں ہو ، اس سے مخفی نہ ہو ۔ لیکن دنیا میں ہم کو جس چیز کا تجربہ اور مشاہدہ ہوتا ہے وہ صرف دیکھنے کی وہ خاص صورت ہے جس سے کوئی انسان یا حیوان بالفعل کسی چیز کو دیکھا کرتا ہے ، اور اس کے لیے لا محالہ یہ ضروری ہے کہ دیکھنے والے کے جسم میں آنکھ نامی ایک عضو موجود ہو ، اس عضو میں بینائی کی طاقت پائی جاتی ہو ، اور آنکھ میں اس کی شکل سما سکے ۔ اب اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ دیکھنے کی حقیقت کا عملی ظہور صرف اسی خاص صورت میں ہو سکتا ہے جس سے ہم اس دنیا میں واقف ہیں تو یہ خود اس کے اپنے دماغ کی تنگی ہے ، ورنہ در حقیقت خدا کی خدائی میں دیکھنے کی ایسی بیشمار صورتیں ممکن ہیں جن کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے ۔ اس مسئلے میں جو شخص الجھتا ہے وہ خود بتائے کہ اس کا خدا بینا ہے نابینا ؟ اگر وہ بینا ہے اور اپنی ساری کائنات اور اس کی ایک ایک چیز کو دیکھ رہا ہے تو کیا وہ اسی طرح آنکھ نامی ایک عضو سے دیکھ رہا ہے جس سے دنیا میں انسان و حیوان دیکھ رہے ہیں اور اس سے بینائی کے فعل کا صدور اسی طریقے سے ہو رہا ہے جس طرح ہم سے ہوتا ہے؟ ظاہر ہے کہ اس کا جواب نفی میں ہے اور جب اس کا جواب نفی میں ہے تو آخر کسی صاحب عقل و فہم انسان کو یہ سمجھنے میں کیوں مشکل پیش آتی ہے کہ آخرت میں اہل جنت کو اللہ تعالی کا دیداد اس مخصوص شکل میں نہیں ہو گا جس میں انسان دنیا میں کسی چیز کو دیکھتا ہے ، بلکہ وہاں دیکھنے کی حقیقت کچھ اور ہوگی جس کا ہم یہاں ادراک نہیں کر سکتے؟ واقعہ یہ ہے کہ آخرت کے معاملات کو ٹھیک ٹھیک سمجھ لینا ہمارے لیے اس سے زیادہ مشکل ہے جتنا ایک دو برس کے بچے کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ازدواجی زندگی کیا ہوتی ہے ، حالانکہ جوان ہو کر اسے خود اس سے سابقہ پیش آنا ہے ۔
9: مؤمنوں کو جنت میں اﷲ تعالیٰ کا دِیدار بھی نصیب ہوگا جو جنت کی تمام دوسری نعمتوں سے بڑی نعمت ہوگی۔
(75:23) الی ربھا ناظرۃ : ناظرۃ خبر الی ربھا متعلق خبر۔ ناظرۃ نظر باب ضرب و سمع۔ مصدر سے۔ اسم فاعل کا صیغہ واحد مؤنث بمعنی دیکھنے والی۔ ترجمہ آیات 2223 ۔ کئی چہرے (یا اہل قرب کے چہرے) تروتازہ ہوں گے اور اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔
ف 7 آیت کے اس معنی کی تائید متواتر صحیح احادیث سے ہوتی ہے جن میں واضح طور پر یہ بیان کیا گیا ہے کہ قیامت کے دن مومن اپنے پروردگار کو اس طرح دیکھیں گے جس طرح دنیا میں سورج اور چاند کو دیکھتے ہیں جبکہ مطلع صاف ہو۔ آخرت میں اس رئویت باری تعالیٰ پر تمام صحابہ وتابعین اور علمائے سلف کا اجماع ہے اور ائمہ سنت میں سے کسی امام نے بھی اس سے انکار نہیں کیا۔ (ابن کثیر) صرف بعض اہل بدعت (معتزلہ وغیرہ) اس رئویت کا انکار کرتے ہوئے احادیث کی صراحت کے خلاف اس آیت کیتاویل کرتے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ” یقین ہے کہ آخرت میں اللہ کو دیکھنا ہے۔ گمراہ لوگ منکر ہیں کہ ان کے نصیب میں نہیں (موضح)
﴿ اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌۚ٠٠٢٣﴾ یہ چہرے جو ترو تازہ ہوں گے اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔ دنیا میں اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتے جنت میں اللہ تعالیٰ شانہٗ کا دیدار ہوگا جیسا کہ آیت شریف سے ظاہر ہے، حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ ادنیٰ درجہ والا جنتی وہ ہوگا جو اپنے باغوں اور بیویوں اور نعمتوں اور خادموں اور تختوں کو ہزار سال کی مسافت کے اندر دیکھے گا (یعنی اس کی نعمتیں اتنی دور تک پھیلی ہوئی ہوں گی کہ کوئی شخص اول سے آخر تک ان کے پاس سے گزرنا چاہے تو ہزار سال میں چل کر پہنچے) اور ان میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ معزز وہ ہوگا جو صبح شام اللہ تعالیٰ کا دیدار کرے گا اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (مذکورہ بالا آیتوں) ﴿ وُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍ نَّاضِرَةٌۙ٠٠٢٢ اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌۚ٠٠٢٣﴾ کی تلاوت فرمائی۔ (رواہ الترمذی و احمد کما فی المشکوٰۃ صفحہ ٥٠١)
(23) وہ اپنے پروردگار کی تجلی کا مشاہدہ کرتے ہوں گے۔ یعنی اپنے پروردگار کی طرف دیکھتے ہوں گے خوش کے آثار ان کے چہروں پر نمایاں ہوں گے اس دن اللہ تعالیٰ کا دیدار ہوگا بعض فرق ضالہ معتزلہ وغیرہ آخرت میں بھی دیدار کے منکر ہیں ان کا بہت تفصیلی جواب صاحب تفسیر عزیزی نے دیا ہے جس کو شوق ہو وہ تفسیر عزیزی کو ملاحظہ کرے۔ اس موقعہ پر بعض حضرات نے قرآن میں تحریف کی کوشش کی ہے اور الی کو الی پڑھ کر نعمت کے معنی کئے ہیں حضرت شاہ عبدالعزیز (رح) نے اس تحریف کا بھی مفصل جواب دیا ہے ہم نے تطویل کے خوف سے وہ عبارت یہاں نقل نہیں کی۔