Surat ul Qiyama

Surah: 75

Verse: 3

سورة القيامة

اَیَحۡسَبُ الۡاِنۡسَانُ اَلَّنۡ نَّجۡمَعَ عِظَامَہٗ ؕ﴿۳﴾

Does man think that We will not assemble his bones?

کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں جمع کریں گے ہی نہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Does man think that We shall not assemble his bones? meaning, `on the Day of Judgement does he think that We are not able to return his bones and gather them from their various places' بَلَى قَادِرِينَ عَلَى أَن نُّسَوِّيَ بَنَانَهُ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

3۔ 1 یہ جواب قسم ہے انسان سے مراد یہاں کافر اور بےدین انسان ہے جو قیامت کو نہیں مانتا۔ اس کا گمان غلط ہے، اللہ تعالیٰ یقینا انسانوں کے اجزا کو جمع فرمائے گا یہاں ہڈیوں کا بطور خاص ذکر ہے، اس لیئے کہ ہڈیاں ہی پیدائش کا اصل ڈھانچہ اور قالب ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ایحسب الانسان الن نجمع عظامہ…:” قدرین “ حال ہے، اس ہلے فعل محذوف ہے : ” ای بلی نجمعھا قادرین…“ ” یعنی کیوں نہیں ہم انہیں جمع کریں گے، اس حال میں کہ ہم اس بات پر قادر ہیں…۔ “ (٢) قیامت کے منکرین یہ ماننے کیلئے تیار نہ تھے کہ جب ان کی ہڈیاں تک بوسیدہ ہو کر ذرات کی صورت میں بکھر جائیں تو انہیں پھر...  دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ (انسان اگر یہ خیال کرے کہ اس کی ہڈیاں خود بخود مع نہیں ہوسکتیں یا مخلوق میں سے کوئی انہیں دوبارہ جمع نہیں کرسکتا تو اسے یہ سمجھنے کا حق ہے، مگر) کیا وہ ہمارے متعلق گمان کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں جمع نہیں کرسکیں گے ؟ پہلی دفعہ جب اس کا نام و نشان تک نہ تھا، ہم نے ایدا کردیا تو اب اس کی ہڈیاں کیوں جمع نہیں کرسکتے ؟ یقینا ہم انہیں جمع کریں گے اور بڑی ہڈیاں ہی نہیں بلکہ ہم یہ بھی قدرت رکھتے ہیں کہ اس کے پورے ، جو نہایت باریک اور نازک ہڈیوں پر مشتمل ہیں، دوبارہ درست کر کے بنادیں۔ سورة یٰسین (٧٧ تا ٧٩) اور سورة بنی اسرائیل (٤٩ تا ٥١) میں یہ مضمون تفصیل سے بیان ہوا ہے۔ (٣) ان آیات سے صاف ظاہر ہے کہ قیامت کے دن جسم دوبارہ زندہ کئیج ائیں گے اور وہ بھی حساب، عذاب اور ثواب میں روح کے ساتھ شریک ہوں گے۔ صحیح بخاری (٣٤٨١) میں بنی اسرائیل کے ایک آدمی کا ذکر آیا ہے جس کے بیٹوں نے اس کے کہنے کے مطابق اسے مرنے کے بعد جلا کر اور ہڈیوں کو پیس کر کچھ راکھ ہوا میں اڑا دی اور کچھ پانی میں بہادی، تو اللہ تعالیٰ کے کہنے کے مطابق اسے مرنے کے بعد جلا کر اور ہڈیوں کو پیس کر کچھ راکھ ہوا میں اڑا دی اور کچھ پانی میں بہاد ی، تو اللہ تعالیٰ نے ہوا اور پانی کو حکم دے کر اس کے ذرات اکٹھے کر کے اسے دوبارہ زندہ کردیا۔ اگر روح ہی سے باز پرس ہو تو ذرات جمع کر کے اسے دوبارہ سامنے کھڑا کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَيَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَلَّنْ نَّجْمَعَ عِظَامَہٗ۝ ٣ ۭ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار...  والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) حسب ( گمان) والحِسبةُ : فعل ما يحتسب به عند اللہ تعالی. الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت/ 1- 2] ، أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ [ العنکبوت/ 4] ، وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم/ 42] ، فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم/ 47] ، أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة/ 214] ( ح س ب ) الحساب اور الحسبة جس کا معنی ہے گمان یا خیال کرنا اور آیات : ۔ الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت/ 1- 2] کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں ۔ کیا وہ لوگ جو بڑے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں : وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم/ 42] اور ( مومنو ) مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کررہے ہیں خدا ان سے بیخبر ہے ۔ فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم/ 47] تو ایسا خیال نہ کرنا کہ خدا نے جو اپنے پیغمبروں سے وعدہ کیا ہے اس کے خلاف کرے گا : أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة/ 214] کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ( یوں ہی ) جنت میں داخل ہوجاؤ گے ۔ إنس الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی: وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان/ 49] . وقیل ابن إنسک للنفس وقوله عزّ وجل : فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء/ 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه/ 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور/ 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي . ( ان س ) الانس یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ { وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا } ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ { فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا } ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا } ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔ جمع الجَمْع : ضمّ الشیء بتقریب بعضه من بعض، يقال : جَمَعْتُهُ فَاجْتَمَعَ ، وقال عزّ وجل : وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة/ 9] ، وَجَمَعَ فَأَوْعى [ المعارج/ 18] ، جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة/ 2] ، ( ج م ع ) الجمع ( ف ) کے معنی ہیں متفرق چیزوں کو ایک دوسرے کے قریب لاکر ملا دینا ۔ محاورہ ہے : ۔ چناچہ وہ اکٹھا ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة/ 9] اور سورج اور چاند جمع کردیئے جائیں گے ۔ ( مال ) جمع کیا اور بند رکھا ۔ جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة/ 2] مال جمع کرتا ہے اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے عظم العَظْمُ جمعه : عِظَام . قال تعالی: عِظاماً فَكَسَوْنَا الْعِظامَ لَحْماً [ المؤمنون/ 14] ، وقرئ : عظاما «1» فيهما، ومنه قيل : عَظْمَة الذّراع لمستغلظها، ( ع ظ م ) العظم کے معنی ہڈی کے ہیں اس کی جمع عظا م آتی ہے ۔ قرآن پا ک میں ہے : ۔ عِظاماً فَكَسَوْنَا الْعِظامَ لَحْماً [ المؤمنون/ 14] ہڈیاں ( بنائیں ) پھر ہڈیوں پر گوشت ( پوست ) چڑھا یا ۔ ایک قرات میں دونوں جگہ عظم ہے اور اسی سے عظمۃ الذراع ہے جس کے معنی بازو کا موٹا حصہ کے ہیں عظم الرجل بغیر تنگ کے پالان کی لکڑی عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے ہو یا عقل سے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣۔ ٤) کیا انسان یعنی عدی بن ربیع خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی پرانی ہڈیاں جمع کرنے پر قدرت نہیں رکھتے، ہم یقینا اس چیز پر قادر ہیں کیونکہ ہم اس پر قادر ہیں کہ اس کی انگلیوں کی پوریوں کو جمع کردیں کہ اس کا ہاتھ اونٹ کے موزے یا جانور کے کھر کی طرح ہوجائے یا یہ کہ ہم اس کا ہاٹھ اونٹ کے موزے کی طرف کرنے پر...  قادر ہیں تو پھر ہم اس کی ہڈیوں کو کیوں جمع نہیں کرسکتے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

3 The above two arguments, which have been presented in the form of the oaths, only prove two things. First, that the end of the world (i.e. the first stage of Resurrection) is a certainty; and second, that another life after death is necessary, for without it the logical and natural demands of man's being a moral being cannot be fulfilled; and this will certainly happen, for the existence of the ... Conscience in man testifies to it. Now, this third argument has been given to prove that life after death is possible. The people of Makkah who denied it, said again and again: "How can it be that the people who died hundreds of thousands of years ago, whose bodies have disintegrated into particles and mixed in the dust, whose bones decayed and were scattered away by the winds, some of whom were burnt to ashes, others devoured by the beasts of prey, still others drowned in the seas and swallowed by fish, the material constituents of their bodies should re-assemble and every man should rise up as the same person that he once was ten or twenty thousand years before? Allah has given its very rational and highly forceful reply in the form of this brief question: "Does man think that We shall not be able to put his bones together?" That is, "If you had been told that the scattered particles of your body would reunite of their own accord some time in the future, and you would come back to life by yourself with this very body, you would no doubt have been justified in regarding it as impossible. But what you have actually been told is that such a thing will not happen by itself, but Allah Almighty will do this. Now, do you really think that the Creator of the universe, Whom you yourself also regard as the Creator, would be powerless to do so?" This was such a question in answer to which nobody who believed in God to be the Creator of the universe; could say, neither then nor today, that even God Himself could not do this even if He so willed. And if a disbeliever says such a thing, he can be asked: How did God in the first instance make the body in which you at present exist, by gathering its countless particles together from the air, water and earth and many other places you know not what, and how can you say that the same God cannot gather its constituent parts together once again?  Show more

سورة الْقِیٰمَة حاشیہ نمبر :3 اوپر کی دو دلیلیں ، جو قسم کی صورت میں بیان کی گئی ہیں ، صرف دو باتیں ثابت کرتی ہیں ۔ ایک یہ کہ دنیا کا خاتمہ ( یعنی قیامت کا پہلا مرحلہ ) ایک یقینی امر ہے ۔ دوسرے یہ کہ موت کے بعد دوسری زندگی ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر انسان کے ایک اخلاقی وجود ہونے کے منطقی او... ر فطری تقاضے پورے نہیں ہو سکتے ، اور یہ امر ضرور واقع ہونے والا ہے کیونکہ انسان کے اندر ضمیر کی موجودگی اس پر گواہی دے رہی ہے ۔ اب یہ تیسری دلیل یہ ثابت کرنے کے لیے پیش کی گئی ہے کہ زندگی کے بعد موت ممکن ہے ۔ مکہ میں جو لوگ اس کا انکار کرتے تھے وہ بار بار یہ کہتے تھے کہ آخر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جن لوگوں کو مرے ہوئے سینکڑوں ہزاروں برس گزر چکے ہوں ، جن کے جسم کا ذرہ ذرہ خاک میں مل کر پراگندہ ہو چکا ہو ، جن کی ہڈیاں تک بوسیدہ ہو کر نہ معلوم زمین میں کہاں کہاں منتشر ہو چکی ہوں جن میں سے کوئی جل مرا ہو ، کوئی درندوں کے پیٹ میں جا چکا ہو ، کوئی سمندر میں غرق ہو کر مچھلیوں کی غذا بن چکا ہو ، ان سب کے اجزائے جسم پھر سے جمع ہو جائیں اور ہر انسان پھر وہی شخص بن کر اٹھ کھڑا ہو جو دس بیس ہزار برس پہلے بھی وہ تھا ؟ اس کا نہایت معقول اور انتہائی پر زور جواب اللہ تعالی نے اس مختصر سے سوال کی شکل میں دے دیا ہے کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو کبھی جمع نہ کر سکیں گے؟ یعنی اگر تم سے یہ کہا گیا ہوتا کہ تمہارے یہ منتشر اجزائے جسم کسی وقت آپ سے آپ جمع ہو جائیں گے اور تم آپ سے آپ اسی جسم کے ساتھ اٹھو گے ، تو بلاشبہ تمہارا اس کو ناممکن سمجھنا بجا ہوتا ۔ مگر تم سے تو کہا یہ گیا ہے کہ یہ کام خود نہیں ہو گا بلکہ اللہ تعالی ایسا کرے گا ۔ اب کیا تم واقعی یہ سمجھ رہے ہو کہ کائنات کا خالق ، جسے تم خود بھی خالق مانتے ہو ، اس کام سے عاجز ہے؟ یہ ایسا سوال تھا جس کے جواب میں کوئی شخص جو خدا کو خالق کائنات مانتا ہو ، نہ اس وقت یہ کہہ سکتا تھا اور نہ آج یہ کہہ سکتا ہے کہ خدا بھی یہ کام کرنا چاہے تو نہیں سکتا ۔ اور اگر کوئی بے وقوف ایسی بات کہے تو اس سے پوچھا جا سکتا ہے کہ تم جس جسم میں اس وقت موجود ہو اس کے بے شمار اجزاء کو ہوا اور پانی اور مٹی اور نہ معلوم کہاں کہاں سے جمع کر کے اسی خدا نے کیسے یہ جسم بنا دیا جس کے متعلق تم یہ کہہ رہے ہو کہ وہ پھر ان اجزا کو جمع نہیں کر سکتا ؟   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(75:3) ایحسب الانسان۔ استفہام انکاری و توبیخی ہے۔ یحسب مضارع معروف واحد مذکر غائب حسبان (باب سمع) مصدر۔ وہ خیال کرتا ہے وہ گمان کرتا ہے ، اس کو ایسا نہ کرنا چاہیے۔ الانسان : میں الف لام جنس کا ہے اس سے جنس انسان مراد ہے جس میں وہ شخص بھی داخل ہے جو منکر بعث و حشر تھا۔ یا الف لام عہدی ہے اور کوئی م... عین شخص مراد ہے۔ بغوی نے لکھا ہے کہ یہ آیت عدی بن ربیعہ کے حق میں نازل ہوئی۔ عدی خاندان زہرہ کا حلیف اور اخنس بن شریق ثقفی کا داماد تھا ۔ عدی اور اخنس کے سلسلہ میں ہی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا کی تھی۔ الٰہی مجھے میرے برے ہمسائے سے محفوظ رکھ۔ بات یہ ہوئی کہ عدی نے خدمت گرامی میں حاضر ہوکر عرض کی کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے بتاؤ قیامت کب ہوگی ؟ اس کے کیا احوال ہوں گے :۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو قیامت کی کیفیت بتائی تو وہ کہنے لگا کہ اگر میں قیامت کو دیکھ بھی لوں تو بھی تمہاری بات کی تصدیق نہیں کرونگا اور نہ تمہیں سچا جانوں گا۔ کیا خدا ہڈیوں کو اکٹھا کر دے گا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (تفسیر مظہری) الن نجمع عظامہ : الن مرکب ہے ان مخففہ ان سے اور لن نافیہ سے۔ لن نجمع مضارع منصوب نفی تاکید بلن۔ صیغہ جمع متکلم جمع (باب دتح) مصدر سے ہم ہرگز جمع نہیں کریں گے۔ عظامہ : عظام عظم کی جمع ہڈیاں (بحالت مفعول) مضاف ہ ضمیر واحد مذکر غائب۔ مضاف الیہ اس کی ہڈیاں۔ ترجمہ ہوگا :۔ کیا انسان گمان کرتا ہے کہ ہم ہرگز اس کی ہڈیاں جمع نہیں کریں گے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ انسان سے مراد کافر ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قیامت کا انکار کرنے والوں کی سب سے بڑی دلیل کا جواب۔ قیامت کا انکار کرنے والے جس بات کو اپنے لیے بڑی دلیل سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ جب ہم مر کر بےنام ونشان ہوجائیں گے تو پھر ہمیں کس طرح زندہ کیا جائے گا انہیں فرمایا ہے۔ ” کیا انسان دیکھتا نہیں ہے کہ ہم نے اسے نطفہ سے پیدا کیا اور...  پھر وہ واضح طور پر جھگڑالو بن جاتا ہے۔ اب وہ اپنی پیدائش کو بھول کر ہم پر باتیں بناتا ہے کہ ان ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا جب یہ بوسیدہ ہوچکی ہوں۔ ان سے کہیں کہ انہیں وہی زندہ کرے گا جس نے پہلی مرتبہ انہیں پیدا کیا ہے۔ وہ سب کچھ پیدا کرنا جانتا ہے اسی نے تمہارے لیے ہرے بھرے درخت سے آگ پیدا کی ہے اور تم اس سے آگ جلاتے ہو کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے وہ انسان کو دوبارہ پیدا کرنے پر قادر نہیں کہ ان جیسوں کو پیدا کرے ؟ کیوں نہیں وہ تو سب کچھ جاننے والا اور سب کچھ پیدا کرنے والا ہے۔ جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اسے حکم دیتا ہے کہ ہوجا اور وہ چیز ہوجاتی ہے۔ پاک ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں ہر چیز کا مکمل اختیار ہے اور اسی کی طرف تم پلٹ کر جانے والے ہو۔ “ (یٰس : ٧٧ تا ٨٣) اللہ تعالیٰ نے منکرین قیامت کے سامنے عملی اور عقلی دلائل کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ قیامت ہر صورت برپا ہوگی اور ہر انسان کو زندہ کرکے اٹھا لیا جائے گا۔ جو لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ بکھری ہوئی بوسیدہ ہڈیوں کو کس طرح اکٹھا کیا جائے گا انہوں نے کس طرح یہ گمان کرلیا ہے کہ ہم بوسیدہ ہڈیوں سے انہیں دوبارہ پیدا نہیں کرسکتے، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم نہ صرف انہیں دوبارہ پیدا کریں گے بلکہ ہم اس بات پر بھی قادر ہیں کہ ان کا جوڑ جوڑ سیدھا اور پور پور درست کرکے بنائیں گے۔ لیکن انسان دوبارہ اٹھنے کا اس لیے انکار کرتا ہے کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ میں ہمیشہ زندہ رہوں اور اپنی مرضی کے کام کرتارہوں یعنی اسے نہ دوبارہ زندہ کیا جائے اور نہ ہی اس سے بازپرس کی جائے۔ اس لیے وہ قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں، ان کے پوچھنے کا مقصد قیامت کے بارے میں یقین اور اطمینان حاصل کرنا نہیں بلکہ اس کا مذاق اڑانا ہے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ جب قیامت بر پا ہوگی تو اس دن آنکھیں چندھیا جائیں گی، چاند بےنور ہوجائے گا اور سورج اور چاند جمع کردیئے جائیں گے۔ کیونکہ یہ بےنور ہو کر نیچے گرپڑیں گے۔ ” حضرت ابو سعید خدری (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ تم سے پہلے ایک آدمی تھا اللہ تعالیٰ نے اس کو مال کی فراوانی دی تھی۔ اس نے اپنے بیٹوں کو بلاکر کہا کہ میں تمہارا کیسا باپ تھا ؟ انہوں نے کہا بہترین ! اس نے کہا یقیناً میں نے کبھی نیک عمل نہیں کیا، جب میں مرجاؤں تو تم مجھے جلا دینا پھر میری راکھ کو ہواؤں میں اڑا دینا اس کے بیٹوں نے اس کے مرنے کے بعد اس طرح کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو جمع کیا اور فرمایا تجھے کس چیزنے اس کام پر ابھارا تھا ؟ اس نے کہا تیرے خوف نے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی رحمت میں لے لیا۔ “ (رواہ البخاری : کتاب احادیث الأنبیاء) ” حضرت ابو سلمہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہمیں ابوہریرہ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن سورج اور چاند کو اکٹھاکر کے پھینک دیا جائے گا۔ حسن (رح) نے پوچھا ان کا جرم کیا ہے ؟ ابو سلمہ (رض) نے جواب دیا کہ میں تجھے نبی (رض) کی حدیث سنا رہا ہوں۔ ابو سلمہ کی بات سن کر حسن خاموش ہوگئے۔ “ (الابانۃ الکبریٰ لابن بطۃ : باب ذکر ما جاءت بہ السنۃ من طاعۃ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسائل ١۔ قیامت کا منکر سمجھتا ہے کہ اس کی بوسیدہ ہڈیوں کو اکٹھا نہیں کیا جائے گا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ہر انسان کا جوڑ جوڑ بنائے گا اور اسے زندہ کرے گا۔ ٣۔ قیامت کا انکار کرنے والے چاہتے ہیں کہ ہم اسی طرح اپنی مرضی کرتے رہیں اور ہم سے کوئی بات پرس نہ کی جائے۔ ٤۔ قیامت کے دن آنکھیں چندھیا جائیں گی، چاند بےنور ہوجائے گا اور چاند اور سورج کو اکٹھا کردیا جائے گا۔  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ایحسب ........................ بنانہ (٥٧ : ٣۔ ٤) ” کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو جمع نہ کرسکیں گے ؟ کیوں نہیں ؟ ہم تو اس کی انگلیوں کی پور پور تک ٹھیک بنادینے پر قادر ہیں “۔ مشرکین مکہ اس شعوری خلجان میں مبتلا تھے کہ پرانی ہڈیوں کو کس طرح یکجا کرکے انسان بنادیا جائے گا جبکہ یہ ریزہ ر... یزہ ہوکر مٹی میں مل گئی ہوں اور زمین میں بکھر گئی ہوں ، کس طرح انسان کو بعینہ اسی طرح دوبارہ اٹھایا جائے گا۔ اور یہ خلجان آج تک بعض دلوں میں موجود ہے۔ قرآن کریم اس کی تردید نہایت تاکید کے ساتھ کرتا ہے کہ ہاں ایسا ہی ہوگا اور لازماً ہوگا۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿اَيَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَلَّنْ نَّجْمَعَ عِظَامَهٗؕ٠٠٣﴾ (کیا انسان خیال کرتا ہے کہ ہرگز ہم اس کی ہڈیوں کو جمع نہ کریں گے) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

3:۔ ” ایحسب الانسان “ یہ سورت کا دعوی ہے اور منکرین قیامت پر زجر ہے۔ منکرین قیامت کا خیال ہے کہ ہم ان کو بوسیدہ اور مٹی میں مل کر معدوم ہوجانے والی ہڈیوں کو دوبارہ جمع نہ کرسکیں گے اس لیے وہ قیامت کا انکار کر رہے ہیں، گویا حشر و نشر کو وہ ہماری قدرت سے بعید تصور کرتے ہیں۔ بلیٰ کے بعد نجمع مقدر ہے او... ر قادرین اس کے فاعل سے حال ہے۔ بنان، بنانۃ کی جمع ہے یعنی انگلیوں کی پوریں یا خود انگلیاں (روح) کیوں نہیں ہم ضرور ہڈیاں جمع کرلیں گے۔ ہم تو اس کی انگلیوں کی پوریں بھی برابر کرلیں گے تو کیا اس کی ہڈیوں کے ڈھانچے کو ہم استوار نہ کرسکیں گے ؟۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(3) کیا انسان خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو ہرگز جمع نہ کریں گے۔ یعنی جو ہڈیاں ریزہ ریزہ ہوکر بکھر گئیں ان کا جمع کرنا اور اکٹھا کرنا اللہ تعالیٰ کے بس کی بات نہیں اور خدا تعالیٰ ان کے جمع کرنے سے عاجز ہے۔