Surat ul Qiyama

Surah: 75

Verse: 37

سورة القيامة

اَلَمۡ یَکُ نُطۡفَۃً مِّنۡ مَّنِیٍّ یُّمۡنٰی ﴿ۙ۳۷﴾

Had he not been a sperm from semen emitted?

کیا وہ ایک گاڑھے پانی کا قطرہ نہ تھا جو ٹپکایا گیا تھا؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Was he not a Nutfah of semen emitted? meaning, was not man a weak drop of sperm from a despised fluid known as semen, that is emitted from the loins into the wombs ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّى

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَمْ يَكُ نُطْفَۃً مِّنْ مَّنِيٍّ يُّمْـنٰى۝ ٣٧ ۙ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) نطف النُّطْفَةُ : الماءُ الصافي، ويُعَبَّرُ بها عن ماء الرَّجُل . قال تعالی: ثُمَّ جَعَلْناهُ نُطْفَةً فِي قَرارٍ مَكِينٍ [ المؤمنون/ 13] ، وقال : مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشاجٍ [ الإنسان/ 2] ، أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِنْ مَنِيٍّ يُمْنى [ القیامة/ 37] ويُكَنَّى عن اللُّؤْلُؤَةِ بالنَّطَفَة، ومنه : صَبِيٌّ مُنَطَّفٌ: إذا کان في أُذُنِهِ لُؤْلُؤَةٌ ، والنَّطَفُ : اللُّؤْلُؤ . الواحدةُ : نُطْفَةٌ ، ولیلة نَطُوفٌ: يجيء فيها المطرُ حتی الصباح، والنَّاطِفُ : السائلُ من المائعات، ومنه : النَّاطِفُ المعروفُ ، وفلانٌ مَنْطِفُ المعروف، وفلان يَنْطِفُ بسُوء کذلک کقولک : يُنَدِّي به . ( ن ط ف ) النطفۃ ۔ ضمہ نون اصل میں تو آب صافی کو کہتے ہیں مگر اس سے مرد کی منی مراد لی جاتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ ثُمَّ جَعَلْناهُ نُطْفَةً فِي قَرارٍ مَكِينٍ [ المؤمنون/ 13] پھر اس کو ایک مضبوط اور محفوظ جگہ ہیں نطفہ بنا کر رکھا ۔ مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشاجٍ [ الإنسان/ 2] نطفہ مخلوط سے أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِنْ مَنِيٍّ يُمْنى [ القیامة/ 37] کیا وہ منی کا جور رحم میں ڈالی جاتی ہے ایک قطرہ نہ تھا ۔ اور کنایۃ کے طور پر موتی کو بھی نطمۃ کہا جاتا ہے اسی سے صبی منطف ہے یعنی وہ لڑکا جس نے کانوں میں موتی پہنے ہوئے ہوں ۔ النطف کے معنی ڈول کے ہیں اس کا واحد بھی نطفۃ ہی آتا ہے اور لیلۃ نطوف کے معنی بر سات کی رات کے ہیں جس میں صبح تک متواتر بارش ہوتی رہے ۔ الناطف سیال چیز کو کہتے ہیں اسی سے ناطف بمعنی شکر ینہ ہے اور فلان منطف المعروف کے معنی ہیں فلاں اچھی شہرت کا مالک ہے اور فلان ینطف بسوء کے معنی برائی کے ساتھ آلودہ ہونے کے ہیں جیسا کہ فلان یندی بہ کا محاورہ ہے ۔ منی( نطفہ) المَنَى: التّقدیر . يقال : مَنَى لک الماني، أي : قدّر لک المقدّر، ومنه : المَنَا الذي يوزن به فيما قيل، والمَنِيُّ للذي قدّر به الحیوانات . قال تعالی: أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِنْ مَنِيٍّ يُمْنى[ القیامة/ 37] ، مِنْ نُطْفَةٍ إِذا تُمْنى[ النجم/ 46] أي : تقدّر بالعزّة الإلهية ما لم يكن منه، ومنه : المَنِيَّة، وهو الأجل المقدّر للحیوان، وجمعه : مَنَايا، ( م ن ی ) المنی کے معنی اندازہ کرنے کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ منی لک المانی مقدر کنندہ نے تیرے لئے مقدر کردیا ہے اسی سے بعض کے نزدیک من ایک وزن کا نام ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِنْ مَنِيٍّ يُمْنى[ القیامة/ 37] کیا وہ منی جو رحم میں ڈالی جاتی ہے ایک قطرہ نہ تھا ؟ مِنْ نُطْفَةٍ إِذا تُمْنى[ النجم/ 46]( یعنی ) نطفے سے جو ( رحم میں ) ڈالا جاتا ہے ۔ یعنی نطفہ سے جو قدرت الہیٰ کے ساتھ اس چیز کے لئے مقدر ہوتا ہے جو اس سے پیدا ہونا ہوتا ہے اسی سے منیۃ بمعنی اجل مقدر ہے واجمع منایا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٧۔ ٣٨) کیا یہ ابوجہل ایک منی کا قطرہ نہ تھا جو عورت کے رحم میں ٹپکایا گیا پھر وہ خون کا لوتھڑا ہوگیا پھر اللہ تعالیٰ نے اسے انسان بنایا اور اس کے ہاتھ پیروں اور تمام اعضاء کو درست کر کے اس میں روح پھونکی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(75:37) الم یک نطفۃ من منی یمنی : جملہ مستانفہ ہے، انسان کے خیال بالا کے ابطال کے لئے آیا ہے۔ ا ہمزہ استفہامیہ ہے۔ لم یک مضارع نفی جحد بلم کیا وہ نہیں تھا۔ نطفۃ فعل لم یک کے فاعل سے حال ہے ایک نطفہ کی حالت میں۔ نطفہ مائع چیزکا وہ قطرہ جو بوقت مجامعت مراد کے آلہ تناصل سے اچھل کر عورت کے رحم میں ٹپک جاتا ہے۔ اس کی جمع نطاف ہے۔ من منی نطفۃ کی صفت، منی کا قطرہ۔ یمنی مضارع مجہول واحد مذکر غائب۔ جو ٹپکایا جاتا ہے جو ٹپکایا گیا۔ اس میں ضمیر نائب فاعل منی کی طرف راجع ہے۔ ترجمہ ہوگا :۔ کیا وہ نہیں تھا (ابتداء میں) معنی کا ایک (حقیر) قطرہ جو (رحم مادر میں) ٹپکایا جاتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قیامت کا انکار کرنے والے کے لیے اس کے وجود سے قیامت کی دلیل۔ قرآن مجید نے موت کے بعد زندہ ہونے کو جن دلائل کے ساتھ ثابت کیا ہے ان دلائل میں ایک بڑی دلیل انسان کے اپنے وجود میں پائی جاتی ہے۔ جو شخص قیامت کے دن زندہ ہونے کا انکار کرتا ہے کیا وہ یہ نہیں سوچتا کہ وہ منی کے ایک قطرہ تھا۔ جو رحم مادر میں ٹپکایا گیا اللہ تعالیٰ نے پھر اسے لوتھڑا بنایا پھر اسے انسانی شکل میں ڈھالا پھر اسے مرد یا عورت کی قسم میں تبدیل فرمایا۔ کیا اب اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر نہیں کہ مردوں کو زندہ کرے ؟ کیوں نہیں ! وہ اس بات پر پوری طرح قادر ہے کہ وہ مردوں کو زندہ فرما کر اپنی بارگاہ میں پیش کرے اور یہ کام ہر صورت ہو کر رہے گا۔ انسان حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق پر غور کرے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا جو بےحرکت تھی اس بےحرکت مٹی سے اللہ تعالیٰ نے حسین و جمیل اور چلتا پھرتا انسان پیدا فرما دیا۔ ہر انسان اپنی تخلیق پر غور کرے کہ جس جرثومے سے پیدا کیا گیا ہے وہ ایک بےجان سی چیز ہوتا ہے، اور یہ جرثومہ اس قدر چھوٹا ہوتا ہے کہ سوائے خاص قسم کی دوربین اسے دیکھا نہیں جاسکتا۔ اللہ تعالیٰ ہی اس جرثومے میں روح پیدا کرتا ہے، اگر اللہ تعالیٰ اس میں روح نہ ڈالے تو وہ مردہ ہی ہوتا ہے۔ جو اللہ اس مردہ جرثومے سے زندہ بچہ یا بچی پیدا کرتا ہے کیا وہ مردہ ہڈیوں سے قیامت کے دن انسان کو پیدا نہیں کرسکتا ؟ اس کا ارشاد ہے کہ میرے لیے دوسری مرتبہ پیدا کرنا پہلی مرتبہ پیدا کرنے سے زیادہ آسان ہے۔ (الروم : ٢٧) ” لوگو ! اگر تمہیں زندگی کے بعد موت کے بارے میں شک ہے تو تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ہے پھر نطفے سے پھر خون کے لوتھڑے سے پھر گوشت سے جس کی بناوٹ کامل بھی ہوتی ہے اور ناقص بھی۔ تاکہ تم پر حقیقت واضح کریں کہ ہم جس نطفے کو چاہتے ہیں ایک خاص وقت تک رحموں میں ٹھہرائے رکھتے ہیں پھر تم کو ایک بچے کی صورت میں نکالتے ہیں تاکہ انسان جوان ہوجا اور تم میں سے کوئی پہلے ہی واپس بلالیا جاتا ہے اور کوئی ناکارہ عمر کی طرف پھیر دیا جاتا ہے تاکہ سب کچھ جاننے کے بعد سب کچھ بھول جائے تم دیکھتے ہو کہ زمین خشک ہوتی ہے پھر ہم نے اس پر بارش برسائی کہ یکایک وہ ابھری اور پھول گئی اور اس نے ہر قسم کی خوش نما نباتات اگلنی شروع کردی۔ “ (الحج : ٥) (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ (رض) قَالَ حَدَّثَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَھُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوْقُ قَالَ إِنَّ أَحَدَکُمْ یُجْمَعُ خَلْقُہٗ فِیْ بَطْنِ أُمِّہٖ أَرْبَعِیْنَ یَوْمًانُطْفَۃً ثُمَّ یَکُوْنُ عَلَقَۃً مِثْلَ ذٰلِکَ ثُمَّ یَکُوْنُ مُضْغَۃً مِثْلَ ذٰلِکَ ثُمَّ یَبْعَثُ اللّٰہُ مَلَکًا فَیُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ کَلِمَاتٍ وَیُقَالُ لَہٗ أُکْتُبْ عَمَلَہٗ وَرِزْقَہٗ وَأَجَلَہٗ وَشَقِیٌّ أَوْ سَعِیْدٌ ثُمَّ یُنْفَخُ فِیْہِ الرُّوْحُ ۔۔ ) (رواہ البخاری : باب ذکر الملائکۃ) ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں صادق و مصدوق رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرمایا کہ تم میں سے ہر کوئی اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن ٹھہرتا ہے پھر جما ہوا خون بن جاتا ہے پھر چالیس دن بعد گوشت کا لوتھڑا بن جاتا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرشتہ بھیجتے ہیں اسے آدمی کا عمل، رزق، موت اور نیک وبد ہونا لکھنے کا حکم ہوتا ہے پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔۔ “ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دوسرا صور پھونکنے کا عرصہ چالیس ہوگا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے ان کے شاگردوں نے پوچھا چالیس دن ؟ حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ میں یہ نہیں جانتا۔ انہوں نے استفسار کیا چالیس ماہ ؟ حضرت ابوہریرہ (رض) نے جواباً فرمایا میرا کوئی جواب نہیں۔ انہوں نے پھر پوچھا چالیس سال ہیں ؟ ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں میں یہ بھی نہیں کہتا اس کے بعد اللہ تعالیٰ بارش نازل فرمائے گا لوگ یوں اگیں گے جس طرح انگوری اگتی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، انسان کی دمچی کے علاوہ ہر چیز مٹی ہوجائے گی اور قیامت کے دن دمچی سے تمام اعضاء کو جوڑا جائے گا۔ “ (رواہ البخاری : باب (یوم ینفخ فی الصور فتأتون أفواجا) زمرا) مسائل ١۔ انسان منی کے ایک قطرے سے پیدا ہوتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ منی کے قطرے سے انسان کا وجود اور جوڑ بناتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہی رحم مادر میں بچہ یا بچی پیدا کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ مردوں کو دوبارہ زندہ کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ تفسیر بالقرآن تخلیق انسانی کے مختلف مراحل : ١۔ ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ (المومنون : ١٢) ٢۔ ” اللہ “ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا۔ (آل عمران : ٥٩) ٣۔ حواکو آدم سے پیدا کیا۔ (النساء : ١) ٤۔” اللہ “ نے انسان کو نطفہ سے پیدا کیا۔ (النحل : ٤) ٥۔ ہم نے انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا۔ (الدھر : ٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

الم یک ................ یمنی (37) ثم ................ فسوی (38) فجعل ........................(39) (37:75 تا 39) ”” کیا وہ ایک حقیر پانی کا نطفہ نہ تھا جو (رحم مادر میں) ٹپکایا جاتا ہے ؟ پھر وہ ایک لو تھڑا بنا ، پھر اللہ نے اس کا جسم بنایا اور اس کے اعضا درست کیے ، پھر اس سے مرد اور عورت کی دو قسمیں بنائیں “۔ یہ انسان کیا ہے ؟ یہ کس سے بنایا گیا ہے ؟ کس طرح تھا اور کس طرح ہوگیا۔ اور زندگی کا یہ سفر اس نے کہاں سے شروع کیا اور کہاں تک پہنچا۔ اس کرہ ارض پر وہ کیسے پہنچا جو ایک چھوٹا سا ستارہ ہے۔ کیا وہ پانی کا چھوٹا سا نطفہ نہیں تھا ، پانی کی ایک بوند جو ٹپکتی ہے۔ کیا انسان ایک نہایت ہی خوردبینی نکتہ نہ تھا۔ پھر وہ ایک خلیہ بن گیا۔ پھر وہ خون کا ایک مخصوص لوتھڑا بن گیا۔ یہ لو تھڑا رحم مادر میں بڑھتا رہا۔ پہلے یہ رحم کی دیواروں کے ساتھ معلق رہا اور اس کے خون سے اپنی غذا اخذ کرتارہا۔ یہ تمام مراحل سفرا سے کس نے سکھائے ؟ اور یہ طاقت اسے کس نے دی اور یہ راستہ اسے کس نے بتایا ؟ اس کے بعد کس نے اسے ایک جنین کی شکل دی۔ جس کی قوتوں کے اندراعتدال اور جس کے اعضا باہم ہم آہنگ اور متناسب بن گئے۔ پھر کس طرح یہ ایک خلیہ اب کئی ملین خلیوں کی شکل اختیار کر گیا۔ حالانکہ پہلے یہ ایک خلیہ تھا اور ایک خوردبینی انڈا تھا۔ وہ سفر اور تغیر پذیری جو اس خلیے نے ایک جنین تک طے کی ، یہ پیدائش سے موت تک کے مراحل سے طویل تھی۔ سوال یہ ہے کہ کون ہے جو اسے ان طویل تغیرات کے لئے تیار کررہا ہے۔ حالانکہ آغاز میں وہ ایک نہایت ہی چھوٹی مخلوق تھی۔ نہ عقل اور نہ قوائے ادراک اس کے اندر تھیں۔ اور نہ دنیاوی تجربات اسے حاصل تھے۔ پھر ایک ہی مخلوق سے اللہ نے کس طرح مرد اور عورت پیدا کیے۔ کیا یہ مخلوق خود اپنے آپ کو مرد اور عورت کی شکل میں ڈھالتی ہے۔ کیا یہ مخلوق خود مذکر مونث ہونے کا فیصلہ کرتی ہے یا یہ کوئی دوسری قوت ہے جو ان تاریکیوں میں اسے مذکر ومونث بناتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک ایسی ذات کے تصور کے سوا اس جہاں کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا جو قادر مطلق ہے۔ جو مدبر ہے ، جو تمام واقعات اور حادثات کا سبب اول ہے۔ جو قدرت مطلقہ رکھتی ہے۔ یہ وہی ذات ہے جو انسان کو ایک خوردبینی ذرے سے یہاں تک لاتی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿ اَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّنْ مَّنِيٍّ يُّمْنٰىۙ٠٠٣٧﴾ (کیا وہ منی کا نطفہ نہیں تھا جسے ٹپکایا گیا) ۔ ﴿ ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوّٰىۙ٠٠٣٨﴾ (پھر وہ خون کا لوتھڑا ہوگیا پھر اللہ تعالیٰ نے اس کے اعضاء درست کردیئے) ۔ ﴿ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَ الْاُنْثٰىؕ٠٠٣٩﴾ (پھر اس نے اس کی دو قسمیں بنا دیں ایک مرد ایک عورت) ۔ ﴿ اَلَيْسَ ذٰلِكَ بِقٰدِرٍ عَلٰۤى اَنْ يُّحْيِۧ الْمَوْتٰى (رح) ٠٠٤٠﴾ (ان تصرفات اور تخلیقات والا کیا اس پر قادر نہیں ہے کہ مردوں کو زندہ فرما دے) انسان جو قیامت کا منکر ہے انکار کرتے ہوئے یوں کہتا ہے کہ بھلا مر کر بھی زندہ ہوں گے، اس کے جواب میں فرما دیا کہ دیکھ تو منی کا ایک قطرہ تھا وہ تیرے ماں کے رحم میں ڈالا گیا پھر وہ جما ہوا خون بن گیا پھر اللہ نے اس کا باقاعدہ جسم بنا دیا یعنی اس لوتھڑے میں اعضاء پیدا فرما دیئے اور پھر اس کی دو قسمیں بنا دیں ایک نر اور ایک مادہ۔ یہ سب باتیں تو جانتا ہے اور مانتا ہے جس ذات پاک نے اتنے تصرفات فرمائے اور قطرہ منی سے بہت سارے مرد و عورت بنادیئے تو کیا وہ مردوں کو زندہ کرنے پر قادر نہیں ہے ؟ اس کے لیے ابتداً پیدا فرمانا اور دوبارہ پیدا فرمانا دونوں برابر ہیں، انسان کی عقل اور قیاس میں ہدایت کے ساتھ یہ بات آجاتی ہے کہ دوبارہ پیدا کرنا بہ نسبت پہلی بات کے آسان ہونا چاہیے لیکن انسان پھر بھی معاد کا یعنی دوبارہ پیدا ہونے کا منکر ہے۔ حدیث : حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے جو شخص ﴿ وَ التِّيْنِ وَ الزَّيْتُوْنِۙ٠٠١﴾ پڑھے اور ﴿اَلَيْسَ اللّٰهُ بِاَحْكَمِ الْحٰكِمِيْنَ (رح) ٠٠٨﴾ پر پہنچے تو اس کے بعد یوں کہے : ﴿بلی وانا علی ذلک من الشاھدین﴾ (ہاں وہ احکم الحاکمین ہے اور میں اس پر گواہ ہوں) اور جو شخص سورة ٴ ﴿لَاۤ اُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيٰمَةِۙ٠٠١﴾ پڑھے اور ﴿اَلَيْسَ ذٰلِكَ بِقٰدِرٍ عَلٰۤى اَنْ يُّحْيِۧ الْمَوْتٰى (رح) ٠٠٤٠﴾ پر پہنچے تو بَلٰی ك ہے (یعنی یوں کہے کہ ہاں میں یہ مانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ کرنے پر قادر ہے) اور جو شخص سورة ٴ والمرسلت پڑھے اور ﴿ فَبِاَيِّ حَدِيْثٍۭ بَعْدَهٗ يُؤْمِنُوْنَ ٠٠١٨٥﴾ پر پہنچے تو یوں کہے : اٰمَنَّا باللّٰهِ (کہ ہم اللہ پر ایمان لائے) ۔ (رواہ ابو داؤد كما فی المشکوٰۃ صفحہ ٨١) وھذا آخر تفسیر سورة القیامہ والحمد للہ اولا و آخرا و باطنا وظاھرا

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

14:۔ ” الم یک “ یہ ثبوت قیامت پر عقلی دلیل ہے۔ انسان اپنی پیدائش سے پہلے منی کا ایک قطرہ تھا جو باپ کی پشت سے رحم مادر میں آیا نطفہ نے قدرت خداوندی سے جمے ہوئے خون اور پھر گوشت کی صورت اختیار کی پھر اللہ نے اس کامل و مکمل انسان کی شکل میں پیدا فرمایا اور اس کی قدرت کاملہ کا کرشمہ دیکھو کہ ایک ہی نطفہ سے نر و مادہ کو پیدا کیا۔ تو کیا جو ایسا قادر وعلیم اور صانع و حکیم ہے وہ مردوں کو دوبارہ زندہ کرنے کی قدرت نہیں رکھتا ؟ استفہام انکاری ہے یعنی مردوں کو دوبارہ زندہ کرنا ایسے قادر مطلق کی قدرت سے باہر نہیں۔ انسان کی پیدائش کو تسلیم کرنا حالانکہ وہ حشر و نشر سے زیادہ عجیب و غریب ہے اور قیامت کا انکار کرنا کمال حماقت یا کمال عناد کا نتیجہ ہے۔ انکار جوار البعث مع مشاھدۃ ما ھو اعجب منہ یقتضی کمال الحمق او العناد (مظہری ج 10 ص 146) ۔ سورة قیامت ختم ہوئی

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(37) کیا وہ ایک منی کا قطرہ نہ تھا اور ایک بوندنہ تھی جو ٹپکائی گئی۔ یعنی عورت کے رحم میں وہ منی کا قطرہ ڈالا گیا۔