Surat ul Mursilaat
Surah: 77
Verse: 1
سورة المرسلات
وَ الۡمُرۡسَلٰتِ عُرۡفًا ۙ﴿۱﴾
By those [winds] sent forth in gusts
دل خوش کن چلتی ہوئی ہواؤں کی قسم ۔
وَ الۡمُرۡسَلٰتِ عُرۡفًا ۙ﴿۱﴾
By those [winds] sent forth in gusts
دل خوش کن چلتی ہوئی ہواؤں کی قسم ۔
Allah's swearing by Different Creatures about the Occurrence of the Hereafter Ibn Abi Hatim recorded that Abu Hurayrah said, وَالْمُرْسَلَاتِ عُرْفًا By the Mursalat `Urfa. "The angels" From Masruq, Abu Ad-Duha, Mujahid in one narrations from him, As-Suddi and Ar-Rabi` bin Anas, statements similar to this have been reported. It has been reported from Abu Sa... lih that he said, "These are the Messengers." In another narration from him (Abu Salih) he said that it means the angels. فَالْعَاصِفَاتِ عَصْفًا Show more
فرشتوں اور ہواؤں کی اقسام بعض بزرگ صحابہ تابعین وغیرہ سے تو مروی ہے کہ مذکورہ بالا قسمیں ان اوصاف والے فرشتوں کی کھائی ہیں ، بعض کہتے ہیں پہلے کی چار قسمیں تو ہواؤں کی ہیں اور پانچویں قسم فرشتوں کی ہے ، بعض نے توقف کیا ہے کہ والمرسلات سے مراد یا تو فرشتے ہیں یا ہوائیں ہیں ، ہاں ( والعاصفات ) ... میں کہا ہے کہ اس سے مراد تو ہوائیں ہی ہیں ، بعض عاصفات میں یہ فرماتے ہیں اور ( ناشرات ) میں کوئی فیصلہ نہیں کرتے ، یہ بھی مروی ہے کہ ناشرات سے مراد بارش ہے ، بہ ظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ مرسلات سے مراد ہوائیں ہے ، جیسے اور جگہ فرمان باری ( وَاَرْسَلْنَا الرِّيٰحَ لَوَاقِحَ فَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَسْقَيْنٰكُمُوْهُ ۚ وَمَآ اَنْتُمْ لَهٗ بِخٰزِنِيْنَ 22 ) 15- الحجر:22 ) ، یعنی ہم نے ہوائیں چلائیں جو ابر کو بوجھل کرنے والی ہیں اور جگہ ہے ( وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ اَنْ يُّرْسِلَ الرِّيَاحَ مُبَشِّرٰتٍ وَّلِيُذِيْقَكُمْ مِّنْ رَّحْمَتِهٖ وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ بِاَمْرِهٖ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ 46 ) 30- الروم:46 ) الخ ، اپنی رحمت سے پیشتر اس کی خوشخبری دنیے والی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں وہ چلاتا ہے ، ( عاصفات ) سے بھی مراد ہوائیں ہیں ، وہ نرم ہلکی اور بھینی بھینی ہوائیں تھیں یہ ذرا تیز جھونکوں والی اور آواز والی ہوائیں ہیں ناشرات سے مراد بھی ہوائیں ہیں جو بادلوں کو آسمان میں ہر چار سو پھیلا دیتی ہیں اور جدھر اللہ کا حکم ہوتا ہے انہیں لے جاتی ہیں ( فارقات ) اور ( ملقیت ) سے مراد البتہ فرشتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے رسولوں پر وحی لے کر آتے ہیں جس سے حق و باطل حلال و حرام میں ضالت و ہدایت میں امتیاز اور فرق ہو جاتا ہے تاکہ ہے جس دن تم سب کے سب اول آخر والے اپنی اپنی قبروں سے دوبارہ زندہ کئے جاؤ گے اور اپنے کرتوت کا پھل پاؤ گے نیکی کی جزا اور بدی کی سزا پاؤ گے ، صور پھونک دیا جائے گا اور ایک چٹیل میدان میں تم سب جمع کر دئے جاؤ گے یہ وعدہ یقیناً حق ہے اور ہو کر رہنے والا اور لازمی طور پر آنے والا ہے ، اس دن ستارے بےنور ہو کر گر جائیں گے اور آسمان پھٹ جائے گا ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا اور یہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر اڑ جائیں گے یہاں تک کہ نام نشان بھی باقی نہ رہے گا جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ يَنْسِفُهَا رَبِّيْ نَسْفًا ١٠٥ۙ ) 20-طه:105 ) ، اور فرمایا آیت ( وَيَوْمَ نُسَيِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَى الْاَرْضَ بَارِزَةً ۙ وَّحَشَرْنٰهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ اَحَدًا 47ۚ ) 18- الكهف:47 ) ، یعنی پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر اڑ جائیں گے اور اس دن وہ چلنے لگیں گے بالکل نام و نشان مٹ جائے گا اور زمین ہموار بغیر اونچ نیچے کی رہ جائے گی اور رسولوں کو جمع کیا جائے گا اس وقت مقررہ پر انہیں لایا جائے گا ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( يَوْمَ يَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ فَيَقُوْلُ مَاذَآ اُجِبْتُمْ ١٠٩ ) 5- المآئدہ:109 ) ، اس دن اللہ تعالیٰ رسولوں کو جمع کرے گا اور ان سے شہادتیں لے گا جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتٰبُ وَجِايْۗءَ بِالنَّـبِيّٖنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْحَــقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ 69 ) 39- الزمر:69 ) ، زمین اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی نامہ اعمال دے دیئے جائیں گے نبیوں کو اور گواہوں کو لایا جائے گا اور حق و انصاف کے ساتھ فیصلے کئے جائیں گے اور کسی پر ظلم نہ ہو گا ، پھر فرماتا ہے کہ ان رسولوں کو ٹھہرایا گیا تھا اس لئے کہ قیامت کے دن فیصلے ہوں گے ، جیسے فرمایا آیت ( فَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ مُخْلِفَ وَعْدِهٖ رُسُلَهٗ ۭاِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ ذُو انْتِقَامٍ 47ۭ ) 14- ابراھیم:47 ) ، یہ خیال نہ کر کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں سے وعدہ خلافی کرے گا نہیں نہیں اللہ تعالیٰ بڑے غلبہ والا اور انتقام والا ہے ، جس دن یہ زمین بدل دی جائے گی اور آسمان بھی اور سب کے سب اللہ واحد و قہار کے سامنے پیش ہو جائیں گے ، اسی کو یہاں فیصلے کا دن کہا گیا ، پھر اس دن کی عظمت ظاہر کرنے کے لئے فرمایا میرے معلوم کرائے بغیر اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم بھی اس دن کی حقیقت سے باخبر نہیں ہو سکتے ، اس دن ان جھٹلانے والوں کے لئے سخت خرابی ہے ، ایک غیر صحیح حدیث میں یہ بھی گذر چکا ہے کہ ویل جہنم کی ایک وادی کا نام ہے ۔ Show more
حافظ عماد الدین ابن کثیر۔
نام نسب : اسماعیل کنیت : ابوالفداء لقب : عماد الدین اور ابن کثیر عرف ہے
سلسلہ نسب یہ ہے : اسماعیل بن عمر بن کثیر بن ضوء بن ذرع القیسی البصروی ثم الدمشقی
آپ ایک معزز اور علمی خاندان کے چشم و چراغ تھے ۔ آپ کے والد شیخ ابوحفص شہاب الدین عمر اپنی بستی خطیب تھے آپ کے بڑے بھائی شیخ عبدالوہاب ایک ممتاز عالم اور فقیہ تھے۔
ولادت و تعلیم و تربیت : آپ کی ولادت ٧٠٠ ھ میں بمقام مجدل ہوئی جو ملک شام کے مشہور بصریٰ کے اطراف میں ایک قریہ ہے ، اس وقت آپ کے والد یہاں کے خطیب تھے ، ابھی آپ تیسرے یا چوتھے برس میں ہی تھے کہ والد بزرگوار نے ٧٠٣ ھ میں وفات پائی اور نہایت ہی کم سنی میں آپ یتیمی کا داغ اٹھانا پڑا، باپ کا سایہ سر سے اٹھا تو بڑے نے اپنی آغوش تربیت میں لے لیا ۔ والد کی وفات کے تین سال بعد یعنی ٧٠٦ ھ میں آپ اپنے برادر بزرگوار کے ساتھ دمشق چلے آئے اور پھر یہیں آپ کی نشو و نما ہوئی ، ابتدا میں اپنے بڑے بھائی سے فقہ کی تعلیم پائی بعد کو شیخ برھان الدین ابراہیم بن عبدالرحمن فرازی معروف بہ ابن فرکاح شارخ تنبیہ المتوفی ٧٢٩ ھ اور شیخ کمال الدین قاضی شہبہ سے اس فن کی تکمیل کی ، اس زمانہ میں دستور تھا کہ طالب علم جس فن کو حاصل کرتا اس فن کی کوئی مختصر کتاب زبانی یاد کرلیتا۔ چناچہ آپ نے بھی فقہ کی التنبیہ فی فروع الشافعیہ ، مصنفہ شیخ ابواسحاق شیرازی المتوفی ٤٧٦ ھ کو حفظ کرکے ٧١٨ ھ میں سنادیا اور اصول فقہ میں علامہ ابن حاجب مالکی المتوفی ٧٤٦ ھ کی مختصر کو زبانی یاد کیا۔ اصول کی کتابیں آپ نے علامہ شمس الدین محمود بن عبدالرحمن اصفہانی شارح مختصر ابن حاجب المتوفی ٧٤٩ ھ سے پڑھی تھیں۔
فن حدیث کی تکمیل آپ نے اس عہد کے مشہور اساتذہ فن سے کی تھی ، علامہ سیوطی ، ذیل تذکرہ الحفاظ میں لکھتے ہیں ۔ سمع الحجازوالطبقۃ یعنی حجاز اور اس طبقہ کے علماء سے آپ نے سماع حدیث کیا۔
حجاز کے ہم طبقہ وہ علماء جن سے آپ نے علم حدیث حاصل کیا اور جن کا ذکر خصوصیت سے آپ کے تذکرہ میں علماء نے کیا ہے وہ حسب ذیل ہیں (١) عیسیٰ بن المعطعم ّ (٢) بہاؤالدین قاسم بن عساکر المتوفی ٧٢٣ ھ (٣) عفیف الدین اسحاق بن یحییٰ الامدی المتوفی ٧٢٥ ھ (٤) محمد بن زراد (٥) بدرالدین محمد بن ابراہیم معروف بہ ابن سویدی المتوفی ٧١١ ھ (٦) ابن الرضی (٧) حافظ مزی (٨) شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ (٩) حافظ ذہبی (١٠) عمادالدین محمد بن الشیرازی المتوفی ٧٤٩ ھ۔
لیکن ان تمام حضرات میں سب سے زیادہ جس سے آپ کو استفاد ہ کا موقع ملا وہ محدث شام حافظ جمال الدین یوسف بن عبدالرحمن مزی شافعی مصنف تہذیب الکمال المتوفی ٧٤٢ ھ ہیں ۔ حافظ مزی نے خصوصی تعلق کی بناء پر اپنی صاحبزادی کا آپ سے نکاح کردیا تھا ۔ اس رشتہ نے اس تعلق کو اور زیادہ استوار کردیا۔ سعادت مند شاگرد نے اپنے محترم استاذ کی شفقت سے پورا پورا فائدہ اٹھایا ، مدت مدید تک حاضر خدمت رہے اور ان کی اکثر تصانیف کا جس میں تہذیب الکمال بھی داخل ہے بھی داخل ہے ، خود ان سے سماع کیا اور اس فن کی پوری تکمیل ان ہی کی خدمت میں رہ کر کی
چنانچہ سیوطی لکھتے ہیں وتخرج بالمزی ولازمہ وبرع۔ اسی طرح شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ المتوفی ٧٢٨ ھ سے بھی آپ نے بہت کچھ علم حاصل کیا تھا اور عرصہ تک ان کی صحبت میں رہے تھے۔
حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ مصر سے آپ کو دیوسی ، وانی اور ختنی وغیرہ نے حدیث کی اجازت دی تھی۔
منزلت علمی : امام ابن کثیر کو علم حدیث کے علاوہ فقہ ، تفسیر ، تاریخ اور عربیت میں بھی کمال حاصل تھا ، چناچہ علامہ ابن العماد حنبلی ، ابن حبیب سے ناقل ہیں ۔ انتھت الیہ ریاستہ العلم فی التاریخ و الحدیث والتفسیر (ان پر تاریخ ، حدیث اور تفسیر میں ریاست علمی ختم ہوگئی۔
درس وافتاء ، ذکر الٰہی شگفتہ مزاجی :۔ حافظ ابن کثیر کی تمام عمر درس وافتاء اور تصنیف و تالیف میں بسر ہوئی ۔ حافظ ذہبی کی وفات کے بعد مدرسہ ام صالح اور مدرسہ تنکریہ (جو اس زمانہ میں علم حدیث کے مشہور مدرسے تھے ) میں آپ شیخ الحدیث کے عہدہ پر فائز رہے ، بڑے ذاکر شاغل تھے ، چناچہ ابن حبیب نے آپ کے متعلق لکھا کہ امام ذی التسبیح والتھلیل طبیعت بڑی شگفتہ پائی تھی ۔ لطیفہ گو اور بذلہ سنج تھے ، حافظ ابن حجر نے آپ کے اوصاف میں حسن الفاکہۃ کے الفاظ استعمال کئے ہیں ، یعنی بڑا پر لطف مزاح کیا کرتے تھے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ سے خصوصی تعلق : اخیر میں یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ حافظ ابن کثیر کو اپنے استاذ علامہ ابن تیمیہ سے خصوصی تعلق تھا ، جس نے آپ کی علمی زندگی پر گہرا اثر ڈالا تھا اور اسی کا نتیجہ ہے کہ آپ بعض ان مسائل میں بھی امام ابن تیمیہ سے متاثر تھے جن میں وہ جمہور سلف سے متفرد ہیں ، چناچہ ابن قاضی شہبہ اپنے طبقات میں لکھتے ہیں
'' کانت لہ خصوصیۃ بابن تیمیہ مناضلتہ عنہ و اتباع لہ فی کثیر من ارایئہ وکان یفتی برایہ فی مسئلتہ الطلاق وامتحن بسبب ذالک واوذی ''۔
ان کو ابن تیمیہ کے ساتھ خصوصی تعلق تھا اور ان کی طرف سے لڑا کرتے تھے اور بہت سی آراء میں ان کی اتباع کرتے تھے چناچہ طلاق کے مسئلہ میں بھی انہی کی رائے پر فتوی دیتے تھے جس کے نتیجے میں آزمائش میں پڑے اور ستائے گئے۔
وفات :
اخیر عمر میں بینائی جاتی رہی تھی ، جمعرات کے دن شعبان کی چھبیس تاریخ ٧٧٤ ھ میں وفات پائی (رحمتہ اللہ ) اور مقبرہ صوفیہ میں اپنے محبوب استاذ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے پہلو میں دفن کئے گئے ، آپ کے کسی شاگرد نے آپ کی وفات پر بڑا درد انگیز مرثیہ لکھا ہے، جس کے دو شعر یہ ہیں
لفقدک طلاب العلوم تاسفوا وجادوابدمع لایبیدغزیر
ومزجواماء المدامع بالدما لکان قلیلا فیک یا ابن کثیر
ترجمہ (شائقین علوم تمہارے اٹھ جانے پر متاسف ہیں ، اس کثرت سے آنسو بہا رہے ہیں کہ تھمنے ہی کو نہیں آتے اور اگر وہ آنسوؤں کے ساتھ لہو بھی ملا دیتے تب بھی اے ابن کثیر تمہارے لئے تھوڑے تھے)
پسماندگان
پسماندگان میں دو صاحبزادے بڑے نامور چھوڑے تھے ، ایک زین الدین عبدالرحمن جن کی وفات ٧٩٢ ھ میں ہوئی اور دوسرے بدرالدین ابوالبقاء محمد۔ یہ بڑے پایہ کے محدث گزرے ہیں ۔ انہوں نے ٨٠٣ ھ میں بمقام رملہ وفات پائی ، ان دونوں کا ذکر حافظ بن فہد نے اپنے ذیل میں بسلسلہ وفیات کیا ہے۔
تصنیفات :
آپ نے تفسیر ، حدیث ، سیر ت اور تاریخ میں بڑی بلند پایہ تصانیف یادگار چھوڑی ہیں، یہ آپ کے اخلاص کا ثمرہ اور حسن نیت کی برکت تھی کہ بارگاہ ایزدی سے ان کو قبول عام اور شہرت دوام کی مسند عطا ہوئی، مورخین نے آپ کے تصانیف کی افادیت اور ان کی قبولیت کا ذکر خاص طور سے کیا ہے ، ذہبی لکھتے ہیں ، ولہ تصانیف مفیدۃ ابن حجر کہتے ہیں ۔
'' سادت تصانیفہ فی البلادفی حیاتہ وانتفع الناس بھا بعد وفاتہ ''
ان کی زندگی میں ان کی تصانیف شہر شہر جا پہنچیں اور ان کی وفات کے بعد لوگ ان سے نفع اندوز ہوتے رہے۔
آپ کی جن تصانیف پر ہمیں اطلاع ملی ہے وہ حسب ذیل ہیں۔
(١) تفسیر القرآن العظیم : جس کے متعلق حافظ سیوطی تصریح کرتے ہیں کہ اس طرز پر دوسری تفسیر نہیں لکھی گئی ، یہ تفسیر بالروایہ میں سب سے زیادہ مفید ہے۔
(٢) البدایہ والنہایہ : یہ فن تاریخ میں ان کی بیش بہا تصانیف ہیں اور مصر سے طبع ہو کر شائع ہوچکی ہے اس میں ابتدائے کائنات سے لے کر احوال آخرت تک درج ہیں۔
(٣) التکمیل فی معرفتہ الثقات والضعفاء والمجاہیل :
(٤) الہدی والسنن فی احادیث المسانید والسنن : یہی کتاب ہے جو جامع المسانید کے نام سے مشہور ہے۔
(٥) طبقات الشافعیہ : اس میں فقہاء شافعیہ کا تذکرہ ہے ۔
(٦) مناقب الشافعی : یہ رسالہ امام شافعی کے حالات میں ہے ۔
(٧) تخریج احادیث ادلتہ التنبیہ۔
(٨) تخریج احادیث مختصر ابن حاجب ، التنبیہ اور مختصر یہ دونوں کتابیں وہی ہیں جن کو مصنف نے عہد طالب علمی میں حفظ کیا تھا، ان دونوں کتابوں میں کتب حدیث سے تخریج بھی لکھی ہے۔
(٩) شرح صحیح بخاری ک : اسکی تصنیف بھی شروع کی تھی مگر ناتمام رہ گئی ' کشف الطنون میں ہے کہ صرف ابتدائی ٹکڑے کی شرح ہے۔ مصنف نے اس کا ذکر اختصار علوم الحدیث میں کیا ہے۔
(١٠) الاحکام الکبیر : یہ کتاب بہت بڑے پیمانہ پر احادیث احکام میں لکھنی شروع کی تھی ' مگر کتاب الحج تک لکھ سکے تمام نہ کرسکے ' مصنف نے اختصار علوم الحدیث میں اس کتاب کا بھی ذکر کیا ہے۔
(١١) اختصار علوم الحدیث : نواب صدیق حسن خاں نے منہج الوصول فی اصطلاح احادیث الرسول میں اس کا نام الباعث الحثیث علی معرفتہ علوم الحدیث لکھا ہے ' یہ علامہ ابن صلاح المتوفی ٦٤٣ ھ کی مشہور کتاب '' علوم الحدیث '' معروف بہ مقدمہ ابن صلاح کا جو اصول حدیث میں ہے ' اختصار ہے ' مصنف نے اس میں جابجا مفید اضافے کئے ہیں ۔ حافظ ابن حجر عسقلانی اس کتاب کے متعلق لکھتے ہیں ولہ فیہ فوائد (اس کتاب میں حافظ ابن کثیر کے بہت سے افادات ہیں ۔ )
(١٢) مسند الشیخین : اس میں شیخین یعنی حضرت ابوبکر و عمر (رض) سے جو حدیثیں مروی ہیں انکو جمع کیا گیا ہے۔ مصنف نے اختصار علوم الحدیث میں اپنی ایک تصنیف مسند عمر (رض) کا ذکر کیا ہے ۔ یہ معلوم نہ ہوسکا کہ آیا وہ مستقل علیحدہ کتاب ہے یا اسی کا حصہ ثانی ہے۔
(١٣) السیرۃ النبویہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : یہ سیرت پر بڑی طویل کتاب ہے۔
(١٤) الفصول فی اختصار سیرۃ الرسول : یہ سیرت پر ایک مختصر کتاب ہے ۔ مصنف نے اس کا ذکر اپنی تفسیر میں سورة احزاب کے اندر غزوہ خندق کے بیان میں کیا ہے ۔ اس کتاب کا قلمی نسخہ مدینہ منورہ میں کتب خانہ شیخ الاسلام میں موجود ہے۔
(١٥) کتاب المقدمات : اس کا ذکر مصنف نے اختصار علوم الحدیث میں کیا ہے۔
(١٦) مختصر کتاب المدخل للبیہقی : اس کا ذکر بھی اختصار الحدیث کے مقدمہ میں کیا ہے۔
(١٧) الاجتہاد فی طلب الجہاد : جب فرنگیوں نے قلعہ ایاس کا محاصرہ کیا اس وقت آپ نے یہ رسالہ امیر منجک کے لئے لکھا ' یہ رسالہ مصر سے چھپ کر شائع ہوچکا ہے۔
(١٨) رسالتہ فی فضائل القرآن : یہ رسالہ بھی تفسیر ابن کثیر کیساتھ مطبع المنار مصر میں طبع ہوچکا ہے۔
(١٩) مسند امام احمد بن حنبل کو بھی حروف پر مرتب کیا تھا اور اسکے ساتھ طبرانی کی معجم اور ابو یعلی کی مسند سے زوائد بھی درج کئے تھے ۔ امام ابن کثیر کی تمام تصانیف میں یہ خوبی عیاں ہے کہ جو کچھ لکھتے ہیں نہایت تحقیق کیساتھ لکھتے ہیں اور مفصل لکھتے ہیں ' عبارت سہل اور پیرایہ بیان دلکش ہوتا ہے۔
1۔ 1 اس مفہوم کے اعتبار سے عرفاً کے معنی پے درپے ہوں گے، بعض نے مرسلات سے فرشتے یا انبیا مراد لئے ہیں اس صورت میں عرفاً کے معنی وحی الٰہی، یا احکام شریعت ہوں گے۔
مقدمہ
ازقلم معالی اشیخ صالح بن عبدالعزیزبن محمد آل الشیخ
وزیر اسلامی امور اوقاف اور دعوت وارشاد
نگران اعلٰی مجمع الملک فہد
خادم الحرمین الشریفین شاہ فہد بن عبدالعزیز آل سعود حفظہ اللہ نے کتاب الہٰی کی خدمت کے سلسلہ میں جو ہدایات دی ہیں ان میں قرآن مجید کی طباعت ، وسیع پیمانے پر مسلمانان عالم میں اس کی تقسیم کے اہتمام اور دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ و تفسیر کی اشاعت پر خاص طور سے زور دیا گیا ہے۔
وزارۃالشؤون الاسلامیۃ والأوقاف والدعوۃ والارشاد
کی نظرمیں عربی زبان سے ناواقف مسلمانوں کےلئےقرآن فہمی کی راہ ہموارکرنے اور تبلیغ کی اس ذمہ داری سے عہدہ برآہونےکےلئےجورسول اکرم ﷺ کےارشادگرامی : بلغوا عنی ولوآیۃ : (میری جانب سے لوگوں تک پنچاؤخواہ ایک ہی آیت کیوں نہ ہو ) میں بیان کی گئی ہے، دنیا کے تمام اہم زبانوں میں قرآن مجید کے مطا لب کو منتقل کیا جانا انتہائ ضروری ہے۔
مفسر مرحوم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مولانا عبدالرحمن کیلانی (رح)
مولانا عبدالرحمان کیلانی مرحوم بہت ہی سادہ اور دویش صفت انسان تھے انہوں نے گھر اور باہر جب بھی انہیں دیکھا سفید لباس میں دیکھا سفید لباس ' تہبند اور قمیص پر مشتمل ہو یا شلوار قمیض پر سر پر ہمیشہ سفید رومال رکھتے اور بازار جاتے وقت سیاہ رنگ کی جناح کیپ استعمال کرتے لکھنے کے لئے ہمیشہ کوئی بھی معمولی سا قلم اور سواری کے لئے سائیکل ہی استعمال کی۔ مالی طور پر خوب مستحکم تھے مگر اس کے باوجود کبھی تصنع یا بڑائی کا اظہار نہیں کیا ۔
والد مرحوم چار بھائی تھے۔ ان چار بھائیوں میں چار چار سال کا فرق تھا اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ پہلے تینوں بھائی اسی ترتیب سے چار چار سال وقفے سے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ بچپن میں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ٹیوشن پڑھا کرتے اور کبھی دکان کے ذریعہ اپنے والد صاحب کا ہاتھ بٹایا ۔ ان حالات میں ہمیشہ ہر امتحان میں اعلی کامیابی اور وظیفہ حاصل کیا۔ بی اے۔ کا امتحان گھریلو مجبوریوں کی وجہ سے نہ دے سکے ۔
محترم ابا جان نے فوج میں ملازمت کی اور فوج سے صرف اس بناء پر استعفیٰ دے دیا کہ یہ ملازمت داڑھی رکھنے سے مانع تھی جب کہ انہیں داڑھی منڈوانا منظور نہ تھا۔ حالانکہ محکمہ نے انہیں پر وموشن اور تنخواہ میں اضافے کا بھی لالچ دیا مگر یہ چیزیں سنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلہ میں ان کے سامنے ہیچ تھیں۔
استعفی کے بعد کتابت کو بطور پیشہ اختیار کیا۔ ١٩٤٧ ء سے ١٩٦٥ ء تک اردو کتابت کی اور اس وقت کے سب سے بہتر ادارے ، فیروز سنز سے منسلک رہے ۔ ١٩٦٥ ے میں قرآن مجید کی کتابت شروع کی اور تاج کمپنی کے لئے کام کرتے رہے ۔ غالبا ٥٠ کے قریب قرآن مجید کی کتابت کی سعادت حاصل کی ۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ١٩٧٢ ء میں حج کرنے گئے تو مکی سورتوں کی کتابت باب بلال (مسجد حرام ) میں بیٹھ کر کی اور مدنی سورتوں کی کتابت مسجد نبوی میں اصحاب صفہ کے چبوترہ پر بیٹھ کر کی ۔ الحمد للہ اس تفسیر میں قرآن مجید کی اسی بابرکت کتابت کو ہی بطور متن قرآن شائع کیا جارہا ہے۔ (ایں سعادت بزور بازو نیست ! )
١٩٨٠ ء کے بعد جب انہیں فکر معاش سے قدرے آزادی نصیب ہوئی تو تصنیف و تالیف کی طرف متوجہ ہوئے ۔ اس میدان میں بھی ماشاء اللہ علماء و مصنفین حضرات کی صف میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ مرحوم نے معاشرت ' معیشت ' سیاست ' عقائد اور جدید دینی مسائل پر تحقیق و تنقید کی اور علمی حلقوں میں داد تحسین پائی۔ ابا جان مرحوم کی تصانیف میں سے مترادفات القرآن ' آئینہ پرویزیت ' شریعت و طریقت ' خلافت و جمہوریت ' تجارت اور لین دین کے مسائل ' عقل پرستی اور انکار معجزات ' روح ' عذاب قبر اور سماع موتی ' احکام ستر و حجاب ' اسلام میں دولت کے مصارف اور الشمس والقمر بحسبان ہیں ۔ انکی وفات کے بعد جب ان کے مسودات وغیرہ دیکھے گئے تو کئی ایک غیر مطبوعہ کتب بھی ملیں جو وہ مکمل کرچکے تھے ۔ ان میں سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بحیثیت سپہ سالار طبع ہوچکی ہے ۔ '' محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبر و ثبات کے پیکر اعظم اور ایک مجلس کی تین طلاقیں اور انکا شرعی حل ' بھی زیور طبع سے آراستہ ہوچکی ہیں۔ اسکے علاوہ دیگر موضوعات پر بھی ان کے مفصل علمی مقالہ جات موجود ہیں۔
آخری عمر میں وہ قرآن مجید کی ایک تفسیر لکھ رہے تھے ۔ انکی خواہش تھی کہ ا سکوخود طبع کروائیں مگر عمر نے وفا نہ کی انکی وفات کے بعد الحمد للہ اس تفسیر کو چھپوانے کا اعزاز ہمیں حاصل ہوا ہے '' تیسیرالقرآن '' نے چند ہی سالوں میں دوسری متداول تفاسیر میں اپنی امتیازی حیثیت کو تسلیم کروا لیا ہے۔ اس تفسیر میں انہوں نے آیت کے ساتھ مطابقت رکھنے والی احادیث کا با حوالہ ذکر کیا ہے اور صحاح ستہ سے ہی احادیث لی ہیں۔ مروجہ اردو تفاسیر کے انداز میں لکھی جانے والی اس تفسیر کی اضافی خوبی یہ ہے کہ حاشیہ میں ذیلی سرخیوں کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ یہ تفسیر ٤ جلدوں میں ہے۔
محترم ابا جان نے دو دفعہ قومی سیرت کانفرنس میں صدارتی ایوارڈ حاصل کیا۔ یہ مقالے '' اصلاح معاشرہ '' اور '' پیغمبراسلام داعی امن و اخوت '' کے موضوعات پر تھے۔ مرحوم اپنی زندگی میں اتنا کام کرگئے کہ جید علماء جن کے پاس مستقل ادارے اور ملازمین ہیں حیران ہوتے ہیں کہ مرحوم کس طرح اکیلے یہ سارے کام کرتے ۔ ساتھ ہی ساتھ اتنی تحقیق اور معلوماتی کتب تصنیف کیں کہ جن سے آج تک علمی حلقے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
١٨ دسمبر ١٩٩٥ ء کو رات کا کھانا کھا رہے تھے کہ نماز عشاء کا وقت ہوگیا۔ وضو کیا اور مسجد کی طرف چل دئیے۔ جاکر پہلی صف میں دائیں طرف جگہ ملی پہلے سجدہ کے دوران روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ ساتھ والے نمازی نے اپنی نماز توڑ کر انکو پانی پلانے کی کوشش کی ۔ مگر بےسود۔۔۔۔۔ ایسی پرسکون ' اطمینان بخش موت کہ جس کی ہر مسلمان بجا طور تمنا کرسکتا ہے۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین
پروفیسر نجیب الرحمن کیلانی
( تفسیر تیسیر القرآن مفصل کو مولانا عبدالرحمن کیلانی مرحوم کے چاروں بیٹوں اور چاروں بیٹوں اور ان کی دوسری زوجہ محترمہ کی طرف سے اجازت کے بعد ہم CD پر لا رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مفسر قرآن مولانا عبدالرحمن کیلانی اور ان کی پہلی زوجہ محترم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔
اس تفسیر کو محترم والد صاحب ، والدہ صاحبہ، اور ہم سب بہن بھائیوں اور ہماری دوسری والدہ محترمہ کیلئے صدقہ جاریہ بنائے ۔ عامۃ الناس کے لئے اس تفسیر کو نافع بنائے۔ آمین )
والمرسلت عرفاً …:” المرسلت “ یہ ” الریاح “ کی صفت ہے جو محذوف ہے ، وہ ہوائیں جو چھڑوی گئی ہیں، بھیجی گئی ہیں۔” عرفاً “ یہ ” نکر “ کی ضد ہے، جانی پہچانی چیز، بھلائی۔ گھوڑے کی گردن کے بالوں اور مرغ کی کلغی کو بھی ” عرف “ کہتے ہیں۔ یہ دونوں چیزیں ایک سطر میں یکے بعد دیگرے ہوتی ہیں، اس لئے ان کی مشابہت ... سے پے در پے آنے والی چیزوں پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے، مثلاً :” جاو وا عرفاً واحداً “” وہ سب پے در پے آگئے۔ “” عرفاً “ کا معنی اگر جانی پہچانی چیز کریں تو اس ہلے ” بائ “ مقدر ہوگی :” ای والمرسلات بالعرف “” یعنی ان ہواؤں کی قسم جو جانے پہچانے معمول کے مطابق چھوڑی جاتی ہیں ! “ اگر اس کا معنی بھلائی کریں تو اس ہلے ” لام “ مقدر ہوگا اور یہ مفعول لہ ہوگا : ” ای والمرسلات للعرف “ ” یعنی ان ہواؤں کی قسم جنہیں (لگووں کی) بھلائی کے لئے چھوڑا جاتا ہے ! “ اور اگر معنی پے در پے کریں تو ” عرفاً “ حال ہوگا، یعنی ” ان ہواؤں کی قسم جو پے در پے چھوڑی جاتی ہیں ! “ تینوں معنی درست ہیں۔ قرآن مجید میں مذکور قسمیں عام طور پر اس دعویٰ کی دلیل ہوتی ہیں جو بعد میں مذکور ہوتا ہے۔ ان آیات کا مطلب یہ ہے کہ ان پانچ صفات والی ہواؤں میں زبردستل شہادت ہے کہ قیامت جس کا وعدہ دیا جاتا ہے، ضرور آنے والی ہے۔ آپ دیکھیں ! ہوائیں کبھی نرم رفتار سے چلتی ہیں، پھر کبھی تند و تیز ہو کر آندھی بن جانا، پھر بادلوں کو اٹھانا، انہیں پھیلا کر برسانا اور منتشر کردینا، کہیں خوف ناک طوفان کی صورت میں عذاب بن کر آنا وغیرہ، یہ سب کچھ دیکھ کر اللہ تعالیٰ یاد آجاتا عے۔ اسی طرح یہ ہوائیں دلوں میں اللہ کے ذکر کا القا کرتی ہیں اور اللہ کی طرف توجہ مبذول کرواتی ہیں، کبھی ترغیب کے ساتھ اور کبھی ترہیب کے ساتھ۔ ہوائیں اگر خوشگوار اور نفع بخش ہیں تو اللہ کی نعمت ہیں اور ان کا اثر بندے پر یہ پڑنا چاہیے کہ وہ شکر ادا کرے اور اپنے عمل کی کوتاہی کا عذر پیش کرے اور اگر اس کے برعکس خوف ناک طوفان اور بجلیوں کی صورت میں ہیں تو ان کا اثر بندے پر یہ ہونا چاہیے کہ وہ ڈر کر گناہوں سے توبہ کی طرف متوجہ ہو۔ ان مختلف اطوار والی ہواؤں کو پیدا کرنے والے اور ان کا بندوبست کرنے والے پروردگار کے لئے قیامت برپا کرنا اور تمام فوت شدہ لوگوں کو زندہ کر کے ان سے باز پرس کرنا کون سا مشکل کام ہے ؟ Show more
ترجمہ و تفسیر القرآن الکریم
تفسیر القرآن الکریم۔ حافظ عبدالسلام بھٹوی
مصنف کا تعارف :
حافظ عبدالسلام علوم القرآن اور علوم الحدیث میں ایک مقام کے حامل ہیں۔ موصوف کا مکمل نام ابوعبدالرحمن حافظ عبدالسلام بن محمد بھٹوی ہے۔ حافظ صاحب اگست 1946 کو گوہڑ چک نمبر 8 ضلع قصور میں پیدا ہوئے۔
تعلیم :
آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم کا آغاز اپنے گھر سے ہی کیا۔ قرآن مجید حفظ کرنے کے ساتھ ساتھ ابتدائی علوم دینیہ کا بھی سلسلہ جاری رکھا۔ پھر آپ نے میٹرک کا امتحان اعلی نمبروں سے پاس کیا۔ موصوف نے میٹرک کے بعد درس نظامی، فاضل عربی، فاضل فارسی اور فاضل طب کی تعلیم حاصل کی۔
اساتذہ :
مترجم نے ابتدائی و اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بہت سے اساتذہ سے استفادہ کیا۔ مثلاً محمد گوندلوی، مولانا محمد عبدہ الفلاح، مولانا صادق خلیل، قاری اسلم اور مولانا شریف اللہ سواتی وغیر۔ حافظ صاحب نے ترجمہ قرآن کے علاوہ اور بھی کتابیں لکھیں ہیں۔ مثلاً ایک دین چار مذہب۔ چوری کے متعلق قانون الہی، مقالات طیبہ۔ احکام زکوۃ و عشر و صدقہ فطر۔ ترجمۃ القرآن الکریم۔ شرح کتاب الطہارہ من بلوغ المرا۔ شرح کتاب الجامع من بلوغ المرا وغیرہ۔
حافظ صاحب نے 17 سال کی عمر میں تدریس کا آغاز کیا۔ 1966 سے 1992 تک جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ میں پڑھایا۔ اس وقت سے لے کر تاحال تدریس کے فرائض سر انجام دے رہے ہیںَ
خصوصیات ترجمہ وتفسیر :
1 ۔ تاکید کے الفاظ کا ترجمہ بھی تاکید سے کیا گیا ہے۔
2 ۔ مبالغہ کے صیغوں کا ترجمہ بھی اضافہ سے کیا گیا ہے۔
3 ۔ صیغوں کے مطابق ترجمہ کیا گیا ہے۔
4 ترجمہ کمی و بیشی کے بغیر بامحاورہ اردو زبان میں ہے۔
5 ۔ آسان فہم اور رائج اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔
6 ۔ صرف و نحو کے اصول و قواعد کو مد نظر رکھتے ہوئے عربی میں استعمال ہونے والے حروف ربط، حروف جر، وغیرہ کا بھی موقع کی مناسبت سے ترجمہ کیا گیا ہے۔
Commentary Occasion of Revelation Sahih of Bukhari records from Sayyidna ` Abdullah Ibn Masud that he said: |"While we were with Allah&s Messenger in a cave at Mina, the Surah &wal-Mursalat& was revealed to him. He was reciting it, and I was learning it from his mouth. Verily, his mouth was moist with it, when a snake leaped out at us. The Holy Prophet said, &Kill it!& So we qu... ickly went after it, but it got away. Then the Holy Prophet said, &It was saved from your harm, just as you all were saved from its harm&.|" [ Ibn Kathir ]. Allah swears oaths in this Surah by various phenomena to assert that the Resurrection will certainly take place. The names of the phenomena are not mentioned in the Qur&an, but their five attributes are given in the following manner (The translation is given below without explanatory brackets for a better understanding of the point): [ 1] (I swear) by those that are sent one after the other, (77:1) [ 2] and by those that blow violently, (77:2) [ 3] and by those that spread all over, (77:3) [ 4] and by those who differentiate (between right and wrong) distinctly, (77:4) [ 5] then bring down the advice, (77:5) There is no traceable Hadith that gives the exact interpretation of the phenomena described. Therefore, the interpretation assigned to them by the Companions and their pupils differ. Some scholars say that all five attributes refer to angels. Others say that possibly different groups of angels are bearers of the attributes. Yet other scholars say that they refer to various types of winds. Some authorities on Tafsir say that they refer to Allah&s Prophets and Messengers. Ibn Jarir Tabari says that, in this matter, it is safer to observe silence. He says that both possibilities exist, but he prefers not to side with any particular interpretation. There is no doubt about the fact that some of the attributes are more appropriately applicable to the angels of Allah, and cannot fit the winds without unusual stretch of imagination, and others are more appropriately applicable to winds, and cannot apply to angels without a fanciful stretch of imagination. Therefore, Ibn Kathir&s approach seems to be the best. He says that in the first three verses of this Surah, Allah swears oaths by various types of winds. In verses [ 4] and [ 5], Allah swears oaths by the angels. If verses [ 4] and [ 5] are applied to the winds, then the imagination will have to be stretched far to interpret them . Likewise, if the first three verses [ mursalat, ` Asifat and nashirat ] are applied to the angels, they have no choice but to assign far-fetched interpretation. According to Ibn Kathir, the verses signify & (I swear) by those (winds) that are sent one after the other&. The word ` urfan could signify &beneficial and useful&. The winds that bring rain are obviously beneficial and useful. Another meaning of the word ` urfan is &one after another&. In this interpretation, the verse signifies &those winds that bring rain and clouds consecutively&. The word ` asifat is derived from ` asf that literally means &winds that blow violently or vehemently&. This refers to fiercely blowing winds that sometimes do occur in the world. The word nashirat refers to &winds that spread (clouds) all over after the rain is over&. The word fariqat is the attribute of the angels &who differentiate (between right and wrong) distinctly by bringing down the Divine revelation&. The phrase fal-mulqiyati dhikran also refers to the &angels&. The word dhikr &Reminder& refers to the Qur&an or revelation in general. The verse signifies &I swear by angels who [ by bringing down revelation ] separate between truth and falsehood, right and wrong, [ and the lawful and the forbidden ] &. Likewise, I swear by angels who bring down revelation or Qur&an to the Holy Prophet t. This interpretation is plain and simple, and does not require any undue stretch of imagination. In this interpretation, the question arises as to the contextual relationship between swearing oaths by various types of winds and the angels. First of all, it is not possible to fathom the Wisdom of Divine speech. However, it is possible to hypothesise. Allah swears oaths by useful winds and harmful winds. Winds that bring rain and clouds are useful, while those that blow fiercely and cause destruction are harmful. These belong to the perceptible world. All human beings can observe them. The perceptible things are mentioned first for reflection. The imperceptible world is mentioned later, such as the angels and revelation. If man reflects carefully on them, he will develop certainty of belief in them as well. Show more
خلاصہ تفسیر قسم ہے ان ہواؤں کی جو نفع پہنچانے کے لئے بھیجی جاتی ہیں پھر ان ہواؤں کی جو سختی سے چلتی ہیں (جس سے خطرات کا احتمال ہوتا ہے) اور ان ہواؤں کی جو بادلوں کو (اٹھا کر) پھیلاتی ہیں (جس کے بعد بارش ہونے لگتی ہے) پھر ان ہواؤں کی جو بادلوں کو متفرق کردیتی ہیں (جیسا بارش کے بعد ہوتا ہے) پھر ان ہ... واؤں کی جو (دل میں) اللہ کی یاد یعنی توبہ کا یا ڈرانے کا القاء کرتی ہیں (یعنی یہ ہوائیں مذکورہ حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ پر دلالت کی وجہ سے خالق کائنات کی طرف متوجہ ہوجانے کا سبب ہوجاتی ہیں اور وہ توجہ دو طور سے ہوتی ہی ایک خوف سے جبکہ ان ہواؤں سے آثار خوف کے نمایاں ہوں اور دوسرا توبہ و معذرت سے اور یہ خوف ورجاء کی دونوں صورت میں ہو سکتا ہے۔ اگر ہوائیں نفع بخش ہوں تب تو خدا کی نعمتوں کو یاد کر کے اس کا شکر اور اپنی تصقیرات سے عذر کرتے ہیں اور اگر وہ ہوائیں خوفناک ہوں تو خدا کے عذاب سے ڈر کر اپن معاصی سے توبہ کرتے ہیں، آگے جواب قسم ہے) کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ ضرور ہونے والی ہے۔ (مراد قیامت ہے اور یہ سب قسمیں قیامت کے نہایت مناسب ہیں کیونکہ نفخہ اولیٰ کے بعد تمام عالم کی فنار کا واقعہ تیز آندھیوں کے مشابہ ہے اور نفخہ ثانیہ کے بعد کے واقعات مردوں کا زندہ ہونا وغیرہ مشابہ واقعات ہوائے نافع کے ہیں جس سے بارش اور بارش سے حیات بناتی ابھرتی ہے۔ آگے اس کے وقوع پر تفریع فرماتے ہیں) سو جب ستارے بےنور ہو اویں گے اور جب آسمان پھٹ جاوے گا اور جب پہاڑ اڑتے پھریں گے اور جب سب پیغمبر وقت معین پر جمع کئے جاویں گے (اس وقت سب کا فیصلہ ہوگا، آگے اس یوم کا ہولناک ہونا مذکور ہے کہ کچھ معلوم ہے) کس دن کے لئے پیغمبروں کا معاملہ ملتوی رکھا گیا ہے (آگے جواب ہے کہ) فیصلہ کے دن کے لئے (ملتوی رکھا گیا ہے، مطلب اس سوال و جواب کا یہ معلوم ہوتا ہے کہ کفار جو رسولوں کی تکذیب کرتے آئے ہیں اور اب بھی اس امت کے کفار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کر رہے ہیں اور جب اس تکذیب پر عذاب آخرت سے ڈرائے جاتے ہیں تو آخرت کی بھی تکذیب کرتے ہیں اور یہ تکذیب فی نفسہ مقتضی اس کو ہے کہ رسولوں کا جو قصہ کفار سے پیش آ رہا ہے اس کا فیصلہ ابھی ہو جاؤے اور اس کی تاخیر سے کفار کو مزید انکار و تکذیب کا موقع ملتا ہے اور مسلمانوں کو طبی طور پر اس کے جلد ہوجانے کی خواہش ہوتی ہے پس اس آیت میں استعجال کا جواب ہے کہ حق تعالیٰ نے بعض حکمتوں سے اس کو موخر کر رکھا ہے لیکن واقع ضرور ہوگا اور (آگے اس فیصلہ کے دن کا ہولناک ہونا مذکر ہے کہ) آپ کو معلوم ہے کہ وہ فیصلہ کا دن کیسا کچھ ہے (یعنی بہت سخت ہے اور جو لوگ اس امر حق یعنی وقوع قیامت کو جھٹلا رہے ہیں سمجھ رکھیں کہ) اس روز (حق کے) جھٹلانے والوں کی بڑی خرابی ہوگی (آگے نظائر سابقہ کے ذریعہ موجودہ لوگوں کو ڈرانا ہے) کیا ہم اگلے (کافر) لوگوں کو (عذاب سے) ہلاک نہیں کرچکے پھر پچھلوں کو بھی (عذاب میں) ان پہلوؤں ہی کے ساتھ ساتھ کردیں گے (یعنی آپ کی امت کے کفار پر بھی وبال ہلاکت نازل کریں گے جیسا بدر وغیرہ غزوات میں ہوا) ہم مجرموں کے ساتھ ایسا ہی کیا کرتے ہیں (یعنی ان کے کفر پر سزا دیتے ہیں خواہ دارین میں خواہ دار آخرت میں اور جو اس امر حق یعنی کفر پر مستحق عذاب ہونے کے کو جھٹلا رہے ہیں سمجھ رکھیں کہ) اس روز (حق کے) جھٹلانے والوں کی بڑی خرابی ہوگی (آگے وقوع قیامت اور احیاء موتی کو ذہنوں کے قریب کرنے کے لئے فرمایا) کیا ہم نے تم کو ایک بےقدر پانی (یعنی نطفہ) سے نہیں بنایا (یعنی ابتداء میں تم نطفہ تھے) پھر ہم نے اس کو ایک وقت مقرر تک ایک محفوظ جگہ (یعنی عورت کے رحم) میں رکھا، غرض ہم نے (ان سب تصرفات کا) اندازہ ٹھیرایا، سو ہم کیسے اچھے اندازہ ٹھیرانے والے ہیں ( اس سے مردوں کو دوبارہ زندہ کرنے پر قدرت ثابت ہوئی، پھر جو لوگ اس امر حق یعنی قدرت علی البعث کو جھٹلا رہے ہیں سمجھ رکھیں کہ) اس روز (حق کے) جھٹلانے والوں کی بڑی خرابی ہوگی (آگے اپنی وقوع قیامت اور احیاء موتی کو ذہنوں کے قریب کرنے کے لئے فرمایا) کیا ہم نے تم کو ایک بےقدر پانی (یعنی نطفہ) سے نہیں بنایا (یعنی ابتداء میں تم نطفہ تھے) پھر ہم نے اس کو ایک وقت مقرر تک ایک محفوظ جگہ (یعنی عورت کے رحم) میں رکھا، غرض ہم نے (ان سب تصرفات کا) ایک اندازہ ٹھیرایا، سو ہم کیسے اچھے اندازہ ٹھہرانے والے ہیں (اس سے مردوں کو دوبارہ زندہ کرنے پر قدرت ثابت ہوئی، پھر جو لوگ اس امر حق یعنی قدرت علی البعث کو جھٹلا رہے ہیں سمجھ رکھیں کہ) اس روز (حق کے) جھلانے والوں کی بڑی خرابی ہوگی (آگے اپنی بعضی نعمتیں جن سے ترغیب اطاعت و ایمان ہو ذکر فرماتے ہیں یعنی) کیا ہم نے زمین کو زندہ اور مردوں کی سمیٹنے والی نہیں بنایا (کہ زندگی اسی پر بسر ہوتی ہے مرنے کے بعد دفن اور غرق ہوجانے اور جلجانے کی صورت میں بالاخر مٹی ہو کر اجزاء ارضیہ ہی میں کھپ جاتے ہیں اور اس حالت بعد الموت کا نعمت ہوتا اس طرح ہے کہ اگر مردے خاک نہ ہوجایا کرتے تو زندے پریشان ہو کر مردہ سے بدتر ہوجاتے کہ ان کو اپنے بسنے بلکہ چلنے پھرنے کی جگہ نہ ملتی) اور ہم نے اس (زمین) میں اونچے اونچے پہاڑ بنائے (جن سے بہت سے منافع متعلق ہیں) اور ہم نے تم کو میٹھا پانی پلایا (اس نعمت کو خواہ مستقل کہا جاوے یا زمین ہی کے متعلق کہا جاوے کیونکہ مرکز پانی کا بھی زمین ہی ہے اور ان نعمتوں کا مقتضاد جواب توحید ہے۔ پس جو لوگ اس امر حق یعنی وجوب توحید کو جھٹلا رہے ہیں سمجھ رکھیں کہ) اس روز (ق کے) جھٹلانے والوں کی بڑی خرابی ہوگی (آگے قیامت کی بعض سزاؤں کا بیان ہے یعنی قیامت کے روز کفار سے کہا جائے گا کہ) تم اس عذاب کی طرف چلو جس کو جھٹلایا کرتے تھے (جس میں کی ایک سزا وہ ہے جس کا بیان اس حکم میں ہے کہ) ایک سائبان کی طرف چلو جس کی تین شاخیں ہیں جس میں نہ (ٹھنڈا) سایہ ہے اور نہ وہ گرمی سے بچاتا ہے (مراد اس سائبان سے ایک دھواں ہے جو جہنم سے نکلے گا اور چونک کثرت سے ہوگا اس لئے بلند ہو کر پھٹ کر تین ٹکے ہوجاویں گے کمافی الطبری عن قتادة اور فراغ حساب تک کفار اسی دھویں کے احاطہ میں رہیں گے جیسا کہ مقبولین ظل عرش میں ہوں گے کذا فی الخازن، آگ اس دھویں کا اور حال مذکور ہے کہ) وہ انگارے برساوے گا جیسے بڑے بڑے محل جیسے کالے کالے اونٹ (قاعدہ ہے کہ جب چنگاری آگ سے جھڑتی ہے تو بڑی ہوتی ہے۔ پھر بہت سے چھوٹے ٹکڑے ہو کر زمین پر گرتی ہے پس پہلی تشبیہ ابتدائی حالت کے اعتبار سے ہے اور دوسری شبیہہ انتہائی حالت کے اعتبار سے۔ کذا فی الروح، پھر جو لوگ اس امر حق یعنی اس واقعہ کو جھٹلا رہے ہیں سمجھ رکھیں کہ) اس روز (حق کے) جھٹلانے والوں کی بڑی خربای ہوگی (آگے اور واقعہ متعلق کفار ہے یعنی) یہ وہ دن ہوگا جس میں وہ لوگ نہ بول سکیں گے اور نہ ان کو اجازت (عذر پیش کرنے کی) ہوگی سو عذر بھی نہ کرسکیں گے (کیونکہ واقع میں کوئی معقول عذر ہوگا ہی نہیں اور جو لوگ اس واقعہ حقہ کو بھی جھٹلا رہے ہیں سمجھ رکھیں کہ) اس روز (حق کے) جھٹلانے والوں کی بڑی خرابی ہوگی (آگے بھی اسی یوم کا بیان ہے کہ ان لوگوں سے کہا جاوے گا کہ) یہ ہے فیصلہ کا دن (جس کی تم تکذیب کیا کرتے تھے) ہم نے (آج) تم کو اور اگلوں کو (فیصلے کے لئے) جمع کرلیا سو اگر تمہارے پاس (ج کے نتیجے اور فیصلے سے بچنے کی) کوئی تدبیر ہو تو مجھ پر تدبیر چلا لو (اور یہ کفار اس واقعہ حقہ کی بھی تکذیب کرتے ہیں سو سمجھ رکھیں کہ) اس روز (حق کے) جھٹلانے والوں کی بڑی خرابی ہوگی (آگے کفار کے مقابلے میں اہل ایمان کے ثواب کا بیان ہے یعنی) پرہیزگار لوگوں سایوں میں اور چشموں میں اور مرغوب میووں میں ہوں گے (اور ان سے کہا جاوے گا کہ) اپنے اعمال (نیک) کے صلہ میں خوب مزے سے کھاؤ پیو ہم نیک لوگوں کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں (ور یہ کفار نعمائے جنت کی بھی تکذیب کرتے ہیں سو سمجھیں رکھیں کہ) اس روز (حق کے) جھٹلانے والوں کی بڑی خرابی ہوگی (آگے پھر توبیخ و تنبیہ ہے کفار کو، یعنی اے کافرو ! ) تم (دنیا میں) تھوڑے دن اور کھال اور برت لو (عنقریب کمبختی آنے والی ہے کیونکہ) تم بیشک مجرم ہو (اور مجرم کا یہی حال ہونے والا ہے اور جو لوگ سزائے جرم کو جھٹلاتے ہیں سمجھ رکھیں کہ) اس روز (حق کے) جھٹلانے والوں کی بڑی خرابی ہوگی اور (ان کافروں کی سرکشی اور جرم کی یہ حالت ہے کہ) جب ان سے کہا جاتا ہے کہ (خدا کی طرف) جھکو (یعنی ایمان اور عبدیت اختیار کرو) تو نہیں جھکتے (اس سے زیادہ کیا جرم ہوگا اور یہ لوگ اس کے جرم ہونے کو بھی جھٹلاتے ہیں سو سجھ رکھیں کہ) اس روز (حق کے) جھٹلانے والوں کی بڑی خربای ہوگی (اور ان تقریعات و تہدیدات قرآنیہ کا مقتضایہ تھا کہ سنتے ہی ڈر کر ایمان لے آتے مگر جب اس پر بھی ان کو اثر نہیں) تو پھر اس (قرآن بلیغ الالفاظ و الانذار) کے بعد اور کونسی بات پر ایمان لاویں گے (اس میں کفار پر تو بیخ اور ان کے ایمان سے آپ کو مایوس کرنا ہے۔ ) معارف و مسائل صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ منیٰ کے ایک غار میں تھے اچانک سورة مرسلات نازل ہوئی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو پڑھتے جانے تھے اور میں آپ کے مبارک منھ سے اس کو سنتا یاد کرتا جاتا تھا، آپ کا دہن مبارک اس سورة کی حلاوت سے رطب (شاداب) ہو رہا تھا اچانک ایک سانپ نے ہم پر حملہ کیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے قتل کا حکم دیا، ہم اس کی طرف جھپٹے وہ نکل بھاگا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس طرح تم اس کے شر سے محفوظ رہے وہ بھی تمہارے شر سے محفوظ ہوگیا (ابن کثیر) اس سورت میں حق تعالیٰ نے چند چیزوں کی قسمیں کھا کر قیامت کے یقینی طور پر آنے کا ذکر فرمایا ہے، ان چیزوں کا نام قرآن میں بیان نہیں کیا گیا البتہ ان کی اس جگہ پانچ صفتیں بیان فرمائی ہیں۔ مرسلات، عاضعات ناشرات، فارقات، ملقیت الذکر کسی حدیث مرفوع میں اس کی پوری تعیین نہیں آئی کہ ان صفات کے موضوفات کیا ہیں اس لئے صحابہ وتابعین کی تفسیریں اس معاملے میں مختلف ہوگئیں۔ بعض حضرات نے ان پانچوں صفاتک موصوف فرشتوں کو قرار دیا ہے اور یہ کہ ہوسکتا ہے کہ فرشتوں کی مختلف جماعتیں ان مختلف صفات کی حامل ہوں۔ بعض حضرات نے ان صفات کا موصوف ہواؤں کو قرار دیا ہے وہ بھی مختلف اقسام اور نوعیت کی ہوتی ہیں، اس لئے یہ صفات مختلفہ ان میں ہو سکتی ہیں۔ بعض حضرات نے ان کا موصوف خود انبیاء و رسل کو قرار دیا ہے۔ ابن جریر طبری نے اسی لئے اس معاملے میں توقف نے ان کا موصوف خود انباء ورسل کو قرار دیا ہے۔ ابن جریر طبری نے اسی لئے اس معاملے میں توقف اور سکوت کو اسلم قرار دیا کہ احتمال دونوں ہیں ہم اپنی طرف سے کسی کو متعین نہیں کرتے۔ اور اس میں شبہ نہیں کہ جو پانچ صفات اس جگہ ذکر کی گئی ہیں ان میں سے بعض تو ملائکتہ اللہ پر زیادہ چسپاں اور ان کے مناسب ہیں ان کو ریاح کی صفت بائیں تو کھنیچ تان اور تاویل کرنا پڑتی ہے اور بعض صفات ایسی ہیں جو ریاح یعنی ہواؤں پر زیادہ چسپاں اور واضح ہیں ان کو فرشتوں کی صفت بنائیں تو تاویل کے بغیر نہیں بنتی۔ اس لئے اس مقام میں بہتر فیصلہ ابن کثیر (رح) کا معلوم ہوتا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ شروع کی تین صفات ہواؤں کی صفتیں ہیں ان تین میں ریاح اور ہواؤں کی قسم ہوگئی باقی آخری دو صفتیں یہ فرشتوں کی صفات ہیں تو یہ فرشتوں کی قسم ہوگئی۔ ریاح کی صفت قرار دینے میں آخری دو صفتوں میں جو تاویل کی جاتی ہے وہ آپ خلاصہ تفسیر میں دیکھ چکے ہیں کیونکہ اس میں اسی کو اختیار کر کے تفسیر کی گئی ہے۔ اسی طرح جن حضرات نے ان سب صفات کو صفات ملائکہ قرار دیا ہے ان کو پہلی تین صفات یعنی مرسلات، عاصفات ناشرات کو فرشتوں پر چسپاں کرنے کے لئے اسی طرح کی تاویلات سے کام لینا پڑتا ہے۔ ابن کثیر کے اختیار کے مطابق معنی ان آیتوں کے یہ ہوگئے کہ قسم ہے ان ہواؤں کی جو بھیجی جاتی ہیں۔ عرفاً ، یہاں عرفاً کا مفہوم وہ بھی ہوسکتا ہے جو خلاصہ تفسیر میں اوپر مذکور ہوا یعنی جو دوسخا اور نفع رسانی۔ جو ہوائیں بارش لے کر آتی ہیں ان کی جو دوسخا اور نفع رسانی ظاہر ہے اور دوسرے معنے عرفاً کے متتابع یعنی پے در پے کے بھی آتے ہیں۔ یہ معنے لئے جاویں تو مراد وہ ہوائیں ہوں گی جو بادل اور بارش کو لئے ہوئے مسلسل اور متتابع چلتی ہیں اور عاصفات عصف سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی ہوا کے تیز چلنے کے ہیں اس سے مراد وہ آندھیاں اور تیز ہوائیں ہیں جو بعض اوقات دنیا میں آیا کرتی ہیں اور ناشرات سے مراد وہ ہوائیں ہیں جو بارش ختم ہونے کے بعد بادل کو پھاڑ کر منتشر کردیتی ہیں اور فارقات، یہ صفت فرشتوں کی ہے جو وحی الٰہی نازل کر کے حق و باطل میں فرق واضح کردیتے ہیں اور ملقیات ذکر ابھی فرشتوں کی صفت ہے اور ذکر سے مراد قرآن یا مطلق وحی ہے۔ اور مطلب یہ ہے کہ سم ہے ان فرشتوں کی جو بذریعہ وحی حق و باطل میں فرق اور امتیاز واضح کردیتے ہیں اور قسم ہے ان فرشتوں کی جو انبیاء (علیہم السلام) پر ذکر یعنی وحی اور قرآن کا القاء کرتے ہیں۔ اس طرح کسی صفت میں تاویل اور کھینچ تان کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ رہا یہ سوال کہ اس تفسیر کی بناء پر پہلے ہواؤں کی مختلف اقسام کی قسم کھائی گئی پھر فرشتوں کی، ان دونوں میں ربط اور جوڑ کیا ہے سو کلام الٰہی کی حکمتوں کا احاطہ تو کوئی کر نہیں سکتا، یہ مناسبت بھی ہو سکتی ہے کہ ہواؤں کی دونوں قسمیں بارش والی نفع بخش اور سخت آندھیاں مضرت رساں یہ سب محسوسات میں سے ہیں ہر شخص ان کو پہچانتا ہے پہلے غور و فکر کے لئے انسان کے سامنے ان کو لایا گیا، اس کے بعد فرشتوں اور وحی کو پیش کیا گیا جو محسوس نہیں مگر ذرا سے غور و فکر کرنے پر ان کا یقین ہوسکتا ہے۔ Show more
نام : معارف القرآن
مترجم و مفسر : حضرت مولانا مفتی محمد شفیع
تفسیر کا تعارف :
معارف القرآن جو پہلے ریڈیو پاکستان سے نشر کی گئی پھر بعد میں کتابی صورت میں مرتب ہوئی، اس تفسیر کے لیے قلم اٹھانے کی وجہ مولانا مفتی شفیع صاحب (رح) نے اپنے مقدمہ میں خود تحریر فرمائی ہے، چناچہ لکھتے ہیں :
" ریڈیو پاکستان کے ذمہ دار حضرات نے مجھ سے درس قرآن ریڈیو پاکستان سے نشر کرنے کی فرمائش کی؛ لیکن میں چند اعذار کی بناء پر قبول نہ کرسکا، ان کے مزید اصرار کی وجہ سے انھیں کی ایک دوسری تجویز کو بنام خدا منظور کرلیا، وہ تجویز یہی معارف القرآن کی کہ ہفتہ میں ایک روز جمعہ کے دن تفسیر نشر ہوا کرے اور اس میں پورے قرآن کی تفسیر پیش نظر نہ ہو بلکہ عام مسلمانوں کے موجودہ ضرورت کے پیش نظر خاص خاص آیات کا انتخاب کرکے ان کی تفسیر اور اس سے متعلقہ احکام و مسائل کا بیان ہوا کرے "۔
پھر آگے لکھتے ہیں :
" اطراف دنیا سے مسلمانوں کے خطوط اور آنے جانے والوں سے یہ معلوم ہوا کہ عام مسلمان اور خصوصاً تعلیم یافتہ حضرات اس درس سے کافی فائدہ اٹھاتے ہیں؛ لیکن اس سلسلہ کی دس سالہ پابندی نے ایک طرف تو ایک ضخیم جلد معارف القرآن کی غیرارادی طور پر تیار کرادی، دوسری طرف ریڈیو پر سننے والے حضرات کی طرف سے بیشمار تقاضے آنے شروع ہوئے کہ اس کو کتابی صورت میں شائع کیا جائے "۔
لوگوں کی اس قدر دلچسپی اور ان کے تقاضے کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس وقت تک اردو زبان میں جتنی تفسیریں منظرعام پر آئیں تھیں، ان میں یا تو علمی اور تحقیقی موشگافیاں زیادہ تھیں جن سے عوام پوری طرح مستفید نہیں ہوسکتی تھی، دوسرے یہ کہ اردو زبان کے اسلوب میں پہلے کے مقابلہ کافی تبدیلی آچکی تھی، اس لیے بھی پہلے کی اردو تفاسیر کا سمجھنا عام لوگوں کے لیے دشوار تھا؛ نیزبعض تفاسیر سرسری اور بہت مختصر تھیں جن سے پڑھنے والوں کی پیاس نہیں بجھ پاتی تھی۔
تفسیر معارف القرآن کی چند خصوصیات یہ ہیں :
چونکہ مصنف موصوف کے پیش نظر یہ تھا کہ عوام جو علمی اصلاحات سے واقف اور دقیق مضامین کے متحمل نہیں ہیں وہ بھی قرآن کریم کو اپنے حوصلے کے مطابق سمجھ سکیں، اس لیے تفسیر کو لکھتے ہوئے اس کی پوری رعایت کی گئی ہے کہ فنی اصطلاحات، دقیق بحثیں اور غیر معروف ومشکل الفاظ سے گریز کیا جائے، تفسیر میں سلف صالحین کی تفسیروں پر اعتماد کیا گیا ہے اور بےسندباتوں سے احتراز کیا گیا ہے؛ چناچہ جگہ بہ جگہ صحابہ وتابعین کے تفسیری اقوال اور متقدمین کی تفسیری کتب سے استفادہ کرکے ان کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔
لطائف و معارف کے ضمن میں متاخرین میں سے مستند مفسرین کے مضامین بھی لیے گئے ہیں، خصوصاً ایسے مضامین جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت ومحبت کو بڑھاتے ہوں اور ان کی وجہ سے اعمال صالحہ انجام دینے کی تحریک ہوتی ہو، متن قرآن کے ترجمہ میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رح) اور حضرت شیخ الہند قدس سرہ کے ترجموں پر اعتماد کیا گیا ہے، ترجمہ کے بعد مکمل تفسیر و تشریح سے پہلے خلاصہ تفسیر لکھ دیا گیا ہے جو حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رح) کی تفسیر بیان القرآن سے ماخوذ ہے، اسے آیات پر مختصر نوٹ کہا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی مشغول آدمی اتنا ہی دیکھ لے تو فہم قرآن کے لیے ایک حد تک کافی ہوجائے، آخر میں آیات مندرجہ سے متعلق احکام و مسائل لکھے گئے ہیں، اس میں اس کا التزام کیا گیا ہے کہ صرف وہ احکام و مسائل لئے جائیں جو کسی نہ کسی طرح الفاظ قرآن کے تحت آتے ہوں، احکام و مسائل کا بڑا حصہ تفسیر قرطبی، احکام القرآن للجصاص، احکام القرآن لابن العربی، تفسیرات احمدیہ، تفسیر محیط، روح المعانی، روح البیان اور بیان القرآن وغیرہ سے لیا گیا ہے، جن کے حوالہ جات بھی مذکور ہیں، تاہم نئے عہد کے بعض نئے مسائل کا بھی ذکر ہے، قرآن وحدیث اور مجتہدین کرام کے اصول کو پیش نظر رکھا گیا ہے اور جس طرح مسائل واحکام میں متقدمین نے اپنے اپنے عہد کے فرقوں اور اس زمانہ کے مسائل کو اہمیت دی ہے، مفتی محمد شفیع صاحب (رح) نے بھی اس کو ملحوظ رکھا ہے۔
مصنف کا تعارف :
مفتی محمد شفیع صاحب (رح) ۔ مصنف معار ف القرآن
ولادت : 25 جنوری 1897، دیوبند (موجودہ یو۔ پی) بھارت
وفات : 6 اکتوبر 1976 ۔ کراچی پاکستان
مکمل تعلیم دیوبند میں حاصل کی
خدمات :
مفتی صاحب برصغیر پاک وہند کے متاز سنی حنفی دیوبندی عالم تھے۔
قیام پاکستان سے پہلے دار العلوم دیوبند میں مدرس رہے۔
قیام پاکستان کے بعد پاکستان کراچی تشریف لے آئے اور ایک عظیم الشان مدرسہ دارالعلوم کراچی کے نام سے قائم کیا
مفتی صاحب کی تقریبا 100 سے زائد تصانیف ہیں۔ جن میں سب سے مشہور معارف القرآن ہے ۔ جو آپ کی وفات سے چار سال پہلے ، آپ ریڈیو پاکستان پر ہفتہ وار قرآن کے لیکچرز کی صورت میں نشر ہونا شروع ہوا ۔ بعد ازاں اسے کتابی شکل دی گئی۔
وَالْمُرْسَلٰتِ عُرْفًا ١ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] وقال : وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات/ 1] ... ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہیں یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ ۔ وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات/ 1] قسم ہے ان فرشتوں کی جو پیام الہی دے کر بھیجے جاتے ہیں عرف المَعْرِفَةُ والعِرْفَانُ : إدراک الشیء بتفکّر وتدبّر لأثره، وهو أخصّ من العلم، ويضادّه الإنكار، قال تعالی: فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة/ 89] ، فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف/ 58] ( ع رف ) المعرفۃ والعرفان کے معنی ہیں کسی چیز کی علامات وآثار پر غوروفکر کرکے اس کا ادراک کرلینا یہ علم سے اخص یعنی کم درجہ رکھتا ہے اور یہ الانکار کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے قرآن میں ہے ؛ فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة/ 89] پھر جس کو وہ خوب پہنچانتے تھے جب ان کے پاس آپہنچی تو اس کافر ہوگئے ۔ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف/ 58] تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ ان کو نہ پہچان سکے ۔ عرفا کے منصوب ہونے کی چار وجہیں ہوسکتی ہیں :۔ (1) مفعول لہ ہونے کی بنا پر منصوب ہے یعنی المرسلت لاجل العرف اس صورت میں عرف بمعنی خوبی و احسان ہوگا۔ (2) حال ہونے کی وجہ سے یعنی متتابعۃ۔ ( پے در پے) یعنی اس حال میں بھیجی گئیں کہ وہ پے در پے تھیں۔ (3) مفعول مطلق ہے بعمنی مصدر۔ اور ارسالا کے معنی دے بمعنی المرسلت ارسالا اس صورت میں بھی ارسالا بمعنی لگاتار اور پے در پے ہوگا۔ (4) منصوب ہے نیزع خافض ( زیر دینے والے حرف کو حذف کرنا) بمعنی المرسلت بالعرف اس صورت میں عرف بمعنی معروف ہوگا۔ Show more
نام : مفردات القرآن فی غریب القرآن
مصنف : امام راغب اصفہانی
اردو مترجم : مولانا محمد عبدہ فیروز پوری
مطبوعہ : اسلامی اکیڈیمی، الفضل مارکیٹ اردو بازار لاہور
کتاب اور مصنف کا تعارف :
مفردات القرآن ابوالقاسم حسن بن محمد المعروف علامہ راغب اصفہانی (متوفی 502 ھ - 1108 ء) کی تصنیف ہے اس کا پورا نام " المفردات فی تحقیق مواد لغات العرب المتعلقہ بالقرآن " ہے جبکہ مطبوعہ نسخوں پر " المفردات فی غریب القرآن " کا عنوان مرقوم ہے اردو میں اسے " مفردات القرآن " سے شہرت ہے۔
مفردات القرآن کے نام سے بہت سی کتابیں شائع ہوئیں لیکن جو شہرت و دوام اس کتاب کو حاصل ہے اور کسی کو نہیں۔
یہ کتاب حروف تہجی کی ترتیب کے مطابق ہے اس میں ہر کلمہ کے حروف اصلیہ میں اول حرف کی رعایت کی گئی ہے اور قرآن میں استعمال ہونے والے تمام الفاظ کی لغوی تشریح کی گئی ہے ۔
طریق بیان بڑا فلسفیانہ ہے جس میں پہلے ہر مادہ کے جوہری معنی متعین کئے جاتے ہیں پھر انہیں قرآنی آیات پر منطبق کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ شرح الفاظ کیلئے یہ طریقہ بنیادی حیثیت رکھتا ہے اس سے صحیح معنی تک رسائی ممکن ہوتی ہے اور تمام اشتباہ دور ہوجاتے ہیں۔
بہت سے مصنفین اور آئمہ لغت نے اس کتاب سے استفادہ کیا ہے۔
مصنف کا تعارف :
یہ کتاب امام راغب اصفہانی (رح) کی تصنیف ہے، امام راغب پانچویں اور چھٹی صدی کے علماء میں شمار ہوتے ہیں۔۔
ان کا پورا نام ابو القاسم حسین بن محمد بن مفضل بن محمد ہے اور راغب اصفہانی کے نام سے مشہور ہیں،
امام راغب علم و فضل میں یگانۂ روزگار تھے، مؤلفِ جامع علوم و فنون ہونے کے ساتھ بلند پایہ صوفی بھی تھے، اور ادب و فلسفہ ، جملہ علوم میں ان کا پایہ بہت بلند تھا اور انہوں نے قرآن پاک کی ایک بہت بڑی تفسیر بھی لکھی ہے۔
علامہ ذہبی (رح) نے ان کا تذکرہ “ طبقات المفسرین ” میں کیا ہے اور امام سیوطی (رح) ان کو لغت و نحو کے ائمہ میں شمار کرتے ہیں، مختلف تذکروں میں حکیم، ادیب ، مفسر، کی حیثیت سے ان کا تعارف کروایا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ موصوف ہمہ فنی امام تھے اور بیک تفسیر و لغت کے امام ہونے کے ساتھ بہت بڑے حکیم اور صوفی تھے۔
امام راغب کی وفات 502 ہجری میں ہوئی۔
تالیفات :
امام راغب کی تالیفات مندرجہ ذیل ہیں :
1 ۔ محاضرات الادباء :
2 ۔ حل متشابہات القرآن
3 ۔ حل متشابہات القرآن
4 ۔ الذریعہ الی مکارم الشریعہ
5 ۔ درۃ التاویل فی غرۃ التنزیل
6 ۔ تحقیق البیان فی تاویل القرآن
7 ۔ افانین البلاغۃ۔
8 ۔ کتاب الایمان والکفر
9 ۔ تفصیل النشاتین :
10 ۔ المفردات فی غریب القرآن
11 ۔ کتاب المعانی الاکبر
12 ۔ کتاب احتجاج القراء۔
مترجم کا تعارف۔
امام راغب افہانی کی مفردات القرآن اصل کتاب عربی میں ہے ۔ جبکہ ایزی قرآن و حدیث میں اس کا اردو ترجمہ شامل کیا گیا ہے۔
مترجم شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد عبدہٗ فیروز پوری ہیں۔ جو عبدہ الفلاح کے نام سے بھی مشہور ہیں آپ جولائی 1917 کو موضع وٹواں ضلع فیروز پور میں پیدا ہوئے۔ وٹو برادری سے تعلق تھا۔ ابتدائی تعلیم جس میں سکول اور دینیات اپنے گاؤں میں حاصل کی۔ پھر بڈھیمال میں پڑھتے رہے۔ اس کے بعد دہلی تشریف لے گئے۔ دہلی کی معروف مسجد فتح پوری میں تحصیل علم کیا۔ اور آخر میں حضرت حافظ محمد گوندلوی مرحوم سے گوجرانوالہ میں بخاری شریف پڑھی۔ فراغت کے بعد تدریس کے میدان میں آگے۔ آپ نے گوجرانوالہ ، اوڈانوالہ ، اوکاڑہ ، فیصل آباد میں تدریسی فرائض سر انجام دیئے۔ خصوصاًجامعہ سلفہ میں بڑی کتب کے علاوہ بخاری شریف پڑھاتے تھے۔ آپ کو تفہیم کا ملکہ حاصل تھا۔ مختصر مگر جامع گفتگو کرتے۔ اور تدریس کا حق ادا کردیتے۔ مشکل سے مشکل بحث کو آسانی کے ساتھ سمجھا دیتے۔ تصنیف و تالیف اور ترجمہ کا عمدہ ذوق پایا تھا۔ آپ نے کئی یادگار تصا نیف چھوڑی ہیں۔ جن میں معروف ترین اشرف الحواشی ہے۔ جو کہ قرآن حکیم پر مختصر تفسیر ہے۔ آپ دو مرتبہ جامعہ سلفیہ میں بطور شیخ الحدیث رہے ہیں۔ دوسری مرتبہ جب آپ اس منصب پر فائز ہوئے۔ تو آپ گلے کے مریض بن گئے۔ زیادہ بلند آواز میں بات نہ کرسکتے تھے۔ جس سے طلبہ آپ کی گفتگو نہ سن سکتے تھے۔ مائیک کا ا نتظام کرنے کے باوجود بات نہ بنی۔ تو پھر خود ہی مستعفی ہوگئے۔ لیکن جامعہ کی انتظامیہ نے آپ کا وظیفہ برابر جاری رکھا ۔ حاجی آباد فیصل آباد میں رحلت فرمائی۔ جامعہ سلفیہ میں نماز جنازہ ادا کی گئی ۔ اور گاؤں نز د تاندلیانوالہ میں سپرد خاک کئے گئے۔
احکام القرآن للجصاص
نام و کنیت
نام احمد بن على الرازى اوركنيت الجصاص: ابوبكراحمد بن على الرازى الجصاص سے مشہور ہیں۔
ولاد ت
امام جصاص کی ولادت رے شہر میں ہو ئی اسی نسبت سے رازى کہلاتے ہیں ولادت کا سال 305ھ بمطابق 917ء بیس سال کی عمر میں بغداد منتقل ہو گئے۔
علمی سفر
ابوبکر جصاص نے بہت سے علمی سفر کئےاور اکابر علماء سے علم حاصل کیابالخصوص علمائے احناف سے بہت استفادہ کیا اہواز نیشاپورکے سفر کئے اور اس علمی سفر کی انتہاء بغداد میں ہوئی امام کرخی کے پاس نیشا پور میں تھے کہ ان کا انتقال ہوا۔
شيوخ
ان کے مشائخ میں
ابو الحسن الكرخی جن سے زہد و ورع حاصل کیا
ابو سہل الزجاج
عبد الباقی بن قانع حديث کا علم حاصل کیا
ابوحاتم الرازی
ابوسعيد الدارمی عثمان بن سعيد الدارمي صاحب المسند
تصنیفات
شرح الجامع الكبير محمد بن الحسن الشيبانی
شرح الجامع الصغير محمد بن الحسن الشيبانى
شرح المناسك لمحمد بن الحسن الشيبانى
شرح مختصر الفقہ للطحاوی
شرح آثار الطحاوى
مختصر اختلاف الفقہاء طحاوى
شرح ادب القاضی خصاف
شرح مختصر الكرخی
شرح الاسماء الحسنى
جوابات المسائل
احكام القرآن
الفصول فی الاصول
وفات
انکی وفات 370ھ بمطابق 980ء میں بغداد میں ہوئ
(١۔ ٥) قسم ہے تیز رفتار فرشتوں کی یا یہ کہ ان فرشتوں کی جو نفع پہنچانے کے لیے بھیجے جاتے ہیں یعنی جبریل، میکائیل، اسرافیل اور پھر ان ہواؤں کی جو تندہی سے چلتی ہیں اور پھر بادلوں کی یا ان ہواؤں کی جو بادلوں کو اٹھا کر پھیلاتی ہیں یا اس سے مراد وہ فرشتے ہیں جو کتابوں کو کھولتے ہیں۔ اور پھر قسم ہے ان ... فرشتوں کی جو کہ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں یا اس سے مراد وہ آیات ہیں جو کہ حق و باطل حلال و حرام کے درمیان امتیاز کرتی ہیں اور کہا گیا ہے کہ ان تینوں قسموں سے ہوائیں مراد ہیں۔ Show more
تفسیر ابن عباس (تنویر المقب اس من تفسیر ابن عباس)
تعارف کتاب و امتیازی خصوصیات :
یہ تفسیر در اصل ایک عربی تفسیر " تنویر المقب اس من تفسیر ابن عباس " کا اردو ترجمہ ہے :
اصل عربی تفسیر کے مصنف ابو الطاہر محمد بن یعقوب بن محمد بن بن ابراہیم نجد الدین الشیرازی الشافعی ہیں۔ اور یہ تفسیر تفسیر قرآن سے متعلق حضرت ابن عباس (رض) کی روایات کا مجموعہ ہے :
ہمارے سوفٹ ویئر " ایزی قرآن و حدیث " میں اس تفسیر کا اردو ترجمہ شامل کیا گیا ہے۔ اس تفسیر کے اردو ترجمہ کا کام پر وفسیر حافظ محمد سعید احمد عاطف نے سر انجام دیا ہے۔ اور ہمارے سوفٹ ویئر میں جو نسخہ شامل کیا گیا ہے وہ " مکی دار الکتب " 37 مزنگ روڈ بک سٹریٹ، لاہور، پاکستان سے طبع شدہ ہے۔
ذیل میں ، اس کتاب کا مختصر تعارف، پیش ہے :
عربی تفسیر " تنویر المقب اس "
اس تفسیر " تنویر المقب اس " کے حوالے سے اسلاف کی آراء مختلف فیہ ہیں۔ اس کی اسناد کے متعلق بھی گفتگو کی خاصی گنجائش ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کی متعدد روایات صحاح ستہ و دیگر کتب حدیث مثلا : مسند احمد بن حنبل، مسند ابی داود الطیالسی، مسند الشافعی، مسند الحمیدی، معجم طبرانی، المنتقی لابن جارود، سنن دارمی، سنن الدارقطنی میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ صحابہ کے اقوال و آثار بھی ہیں۔ لغتِ عرب، تاریخ عرب، ایام العرب سے استشہاد و استناد بھی ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) کی روایات سے مزین ہیں۔ ان تمام شواہد اور قرائن کی موجودگی میں اس مجموعہ روایات ابن عباس سے بےاعتنائی، قرینِ انصاف نہیں۔ پھر یہ تفسیر ایک طویل عرصے سے ہزاروں کی تعداد میں دنیا کے مختلف حصوں میں زیور طبع سے آراستہ ہورہی ہے اور اہل علم اس سے استفادہ بھی کرتے رہے ہیں۔ اور ہمارے پاس ابن عباس (رض) جیسے مفسر اعظم کی تفسیری آراء کا اس کے علاوہ کوئی اور مجموعہ نہیں ہے۔ اس تفسیر کا ایک قلمی نسخہ پنجاب پبلک لائبریری لاہور میں موجود ہے۔ یہ تفسیر 1314 ھ کو امام سیوطی کی تفسیر در منثور کے حواشی پر مصر سے شائع ہوئی اور مستقل طور پر 1316 ھ کو مصر سے چھپی اور برصغیر میں کئی مرتبہ شائع ہوئی، 1285 ھ کو شاہ ولی اللہ کے ترجمہ قرآن کے ساتھ اور پھر شاہ رفیع الدین کے اردو ترجمہ کے حاشیہ پر بھی شائع ہوئی ۔ اردو ترجمہ پہلی بار 1926 ء میں آگرہ سے شائع ہوا اور 1970 میں مولانا عابد الرحمن صدیقی کے ترجمہ کو کلام کمپنی کراچی نے شائع کیا۔
تعارف مفسر :
نام و نسب
آپ کا نام عبداللہ، ابوالعباس کنیت تھا۔ آپ کے والد کا نام حضرت عباس (رض) اور والدہ کا نام امالفضل لبابہ (رض) عنہا تھا۔ آپ کا شجرہِ نسب یہ ہے۔
عبداللہ بن العباس بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف۔
آپ کے والد حضرت عباس (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سگے چچا تھے۔ اس طرح آپ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ابن عم تھے۔ آپ (رض) ام المومنین حضرت میمونہ (رض) کے خواہرزادہ تھے کیونکہ آپ (رض) کی والدہ ام الفضل (رض) اور حضرت میمونہ (رض) حقیقی بہنیں تھیں۔
پیدائش
حضرت عبداللہ ابن عباس کی پیدائش ہجرت سے 3 برس قبل شعب ابی طالب میں محصوریت کے دوران ہوئی تھی۔ آپ کی پیدائش کے بعد حضرت عباس (رض) آپ کے بارگاہِ رسالت میں لے کر آئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انکے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈال کر آپ کے حق میں دعا فرمائی۔
قبولِ اسلام
آپ کے والد محترم حضرت عباس (رض) نے اگرچہ فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کیا، لیکن آپ کی والدہ حضرت ام الفضل (رض) نے ابتدا میں ہی داعی توحید کو لبیک کہا تھا۔ اس لئے آپ کی پرورش توحید کے سائے میں ہوئی۔
ہجرت
حضرت عباس (رض) 8 ہجری میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے۔ اس وقت آپ کی عمر تقریباً 11 سال تھی۔ آپ اپنے والد کے حکم سے بیشتر اوقات بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوتے تھے۔
عہد طفویلیت میں مصاحبتِ رسول
آپ کی مصاحبت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جو زمانہ پایا، دراصل وہ آپ کے لڑکپن کا زمانہ تھا۔ تاہم آپ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت میں اکثر رہتے۔ ام المومینین حضرت میمونہ (رض) آپ کی خالہ تھی اور آپ سے بہت شفقت رکھتیں تھیں اس لیے آپ اکثر انے خدمت میں حاضر رہتے تھے اور کئی دفع رات میں انکے گھر پر ہی سو جاتے تھے۔ اس طرح انکو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت سے مستفیض ہونے کا بہترین موقع میسر تھا۔ آپ ایسے ہی ایک رات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا۔
” ایک مرتبہ میں اپنی خالہ کے پاس سو رہا تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے اور چار رکعت پڑھ کر استراحت فرما ہوئے، پھر کچھ رات باقی تھی کے آپ بیدار ہوئے اور مشکیزہ کے پانی سے وضو کر کے نماز پڑھنے لگے میں بھی اٹھ کر بائیں طرف کھڑا ہوگیا۔ آپ نے میرا سر پکڑ کر مجھے داہنی طوف کھڑا کرلیا۔ “
آپ کے حق میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا
اسی طرح ایک بار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کے لئے بیدار ہوئے تو آپ (رض) نے وضو کے لئے پنی لا کر رکھ دیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وضو سے فراخت کے بعد پوچھا کے پانی کون لایا تھا۔ حضرت میمونہ (رض) نے حضرت عبداللہ بن عباس کا نام لیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خوش ہو کر یہ دعا دی۔
” اللهم فقهه في الدين وعلمه التأويل
یعنی اے اللہ اس کو مذہب کا فقیہ بنا اور تاویل کا طریقہ سکھا “
وفات : آپ (رض) کی وفات : 68 ہجری بمطابق 687 ء میں ہوئی۔
تعارف مصنف :
1. اس تفسیری مجموعہ کے مؤلف و مرتب کا مکمل نام ابو الطاہر محمد بن یعقوب بن محمد بن ابراہیم نجد الدین بن الشیرازی الشافعی ہے۔
پیدائش : آپ شیراز شہر کے قریب ایک گاؤں " کا زشرون " میں 749 ہجری بمطابق 1339 ء کو پیدا ہوئے۔
ابتدائی تعلیم :
آپ کی تعلیم کا علاقہ اور اساتذہ کا دائرہ خاصا وسیع ہے۔ ابتداء شیراز ہی سے تعلیم حاصل بعد ازیں بغداد کا رخ کیا جو اس وقت علم و فن کا مرکز تھا۔ ازاں بعد امام ابن قیم اور امام السبکی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ پھر بیت المقدس تشریف لے گئے اور تقریبا دس سال تک تعلیم و تعلم کا یہ سلسلہ بیت المقدس میں قریباً دس سال تک چلتا رہا۔ اس کے علاوہ آپ نے حرمین شریفین، ترکی، قاہری اور ہندوستان کے شیوخ و اکابر سے بھی علم حاصل کیا۔
مقام ومرتبہ : آپ اپنے وقت کے جلیل القدر، مفسر، محدث، ماہر لغت اور اعلی پائے کے ادیب تھے۔ شخصی اعتبار سے بڑے غیرت مند، خود دار اور متقی تھے۔ زندگی کا انداز سادہ و پروقار تھا۔ ۔
آپ کی تصانیف درج ذیل ہیں :
تنویر المقب اس من تفسیر ابن عباس
بصائر ذوالتمیز فی لطائف الکتاب العزیز کے نام سے آپ نے قرآن مجید کی چھ جلدوں پر مشتمل تفسیر لکھی۔ یہ تفسیر قاہرہ و بیرت سے بار ہا چھپ چکی ہے۔
علامہ زمخشری کی کشات کے خطبہ کی ایک مستقل شرح لکھی۔
سیرت النبی پر مختصر کتاب سفر السعادۃ یا الصراط المستقیم کے نام سے لکھی۔
بخاری شریف کی ایک شرح بھی لکھی۔
آپ کی اہم اور مشہور ترین تالیف، القاموس، ہے۔ یہ جامع ترین عربی لغات میں شمار ہوتی ہے۔
البلغہ فی تاریخ ائمۃ اللغۃ۔
کتاب تحبیر الموشین فیما نقال بالسین والشین۔
آیت ١{ وَالْمُرْسَلٰتِ عُرْفًا ۔ } ” قسم ہے ان ہوائوں کی جو چلائی جاتی ہیں بڑی آہستگی سے۔ “ اللہ تعالیٰ ان ہوائوں کو خاص مقاصد کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت چلاتا ہے۔
1. بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد)
ڈاکٹر اسرار احمد ایک ممتاز پاکستانی مسلمان سکالر تھے، جو پاکستان، بھارت، مشرق وسطیٰ اور امریکہ میں اپنا دائرہ اثر رکھتے تھے۔ آپ بھارت کے ضلعہریانہ میں مؤرخہ 26 اپریل 1932 ء کو پیدا ہوئے۔
آپ تنظیم اسلامی کے بانی تھے، جو پاکستان میں نظام خلافت کے قیام کی خواہاں ہے۔ تنظیم اسلامی کا مرکزی ہیڈکوارٹر لاہور، پاکستان میں واقع ہے۔
تعلیمی پس منظر
قیام پاکستان کے بعد آپ لاہور منتقل ہوگئے اور گورمنٹ کالج سے ایف ایس سی کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا . 1954 میں انہوں سے کنگ ایڈورڈ کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد 1965 میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی سند بھی حاصل کی۔ آپ نے 1971 تک میڈیکل پریکٹس کی .
سیاسی زندگی[ترمیم ]
دوران تعلیم آپ اسلامی جمیت طلبہ سے وابستہ رہے اور فعال کردار ادا کرتے ہوئے ناظم اعلی مقرر ہوئے . تملیم سے فراغت کے بعد آپ نے جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی۔ تاہم جماعت کی انتخابی سیاست اور فکری اختلافات کے باعث آپ نے اس سے علحیدگی اختیار کرلی اور اسلامی تحقیق کا سلسلہ شروع کردیا اور 1975 میں تنظیم اسلامی کی بنیاد رکھی جس کے وہ بانی قائد مقرر ہوئے . 1981 میں آپ جنرل ضیا الحق کی مجلس شورئ کے بھی رکن رہے۔ حکومت پاکستان نے آپ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اسی سال ستارہ امتیاز سے نوازا . آپ مروجہ انتخابی سیاست کے کے مخالف تھے اور خلافت راشدہ کے طرز عمل پر یقین رکھتے تھے . آپ اسلامی ممالک میں مغربی خصوصا امریکی فوجی مداخلت کے سخت ناقد تھے .
بحیثیت اسلامی اسکالر
تنظیم اسلامی کی تشکیل کے بعد آپ نے اپنی تمام توانائیاں تحقیق و اشاعت اسلام کے لئے وقف کردی تھیں . آپ نے 100 سے زائد کتب تحریر کیں جن میں سے کئی کا دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ ہوچکا ہے۔ آپ نے قرآن کریم کی تفسیر اور سیرت نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کئی جامع کتابیں تصنیف کیں . مشہور بھارتی مسلم اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک سے ان کے قریبی تعلقات تھے اسی ضمن میں انہوں نے بھارت کے کئی دورے بھی کئے . عالمی سطح پر آپ نے مفسر قران کی حیثیت سے زبردست شہرت حاصل کی . بلا مبالغہ ان کے سیکڑوں آڈیو ، ویڈیو لیکچرز موجود ہیں جن کے دنیا کی کئی زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں . بلاشبہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اسلام کا صحیح تشخص ابھارنے میں وہ اہم ترین کردار ادا کیا جو تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا .
وفات
ڈاکٹر اسرار احمد کافی عرصے سے دل کے عارضے اور کمر کی تکلیف میں مبتلا تھے۔ بالآخر مؤرخہ 14 اپریل 2010 ء کو 78 برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ آپ کو گارڈن ٹاؤن کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کے پسماندگان میں ان کی بیوہ، چار بیٹے اور پانچ بیٹیاں شامل ہیں۔
1. ترجمہ و تفسیر تفہیم القرآن
تفہیم القرآن
یہ مشہور زمانہ تفسیر تحریک اسلامی کے قائد وموسس مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کی ہے جو پہلی بار ١٩٤٩ ء میں اشاعت پذیر ہوئی، یہ تفسیر چھ ضخیم جلدوں میں ہے اور ہندوپاک میں اس کے درجنوں ایڈیشن نکل چکے ہیں، اس تفسیر کے لکھنے کے محرکات کیا ہوئے ؟ ان کو خود مصنف نے اس طرح لکھا ہے : " اس کام میں میرے پیش نظر علماء اور محققین کی ضروریات نہیں ہیں اور نہ ان لوگوں کی ضروریات ہیں جو عربی زبان اور علوم دینیہ کی تحصیل سے فارغ ہونے کے بعد قرآن مجید کا گہرا تحقیقی مطالعہ کرنا چاہتے ہیں، ایسے حضرات کی پیاس بجھانے کے لیے بہت کچھ سامان پہلے سے موجود ہے ، میں جن لوگوں کی خدمت کرنا چاہتا ہوں وہ اوسط درجے کے تعلیم یافتہ لوگ ہیں، جو عربی سے اچھی طرح واقف نہیں ہیں اور علوم قرآن کے وسیع ذخیرے سے استفادہ کرنا جن کے لیے ممکن نہیں ہے انہی کی ضروریات کو پیش نظر رکھا ہے "۔
مصنف کو انشاء پردازی پر بڑی قدرت اور مشکل مضامین کو بھی آسان زبان اور جچے تلے انداز میں لکھنے کا ملکہ ہے؛ چناچہ اس تفسیر میں بھی یہ وصف نمایاں ہے، قرآن کی جو آیات کائناتی حقائق سے متعلق ہیں ان پر بڑی عمدہ گفتگو کی گئی ہے، اسی طرح قصص و واقعات جن کی تحقیق کے لیے علم الآثار اور تاریخی حقائق سے واقفیت مطلوب ہے، بہت اچھی بحثیں ہیں، مستشرقین کے اعتراضات وشبہات کے رد پر بھی شافی وکافی کلام ہے اور اس کو اس تفسیر کا نقطۂ امتیاز قرار دیا جاسکتا ہے، اسی طرح قرآن کا بائبل اور مذہبی صحائف سے تقابلی مطالعہ کی جہاں کہیں ضرورت ہے، وہاں بھی نہایت محققانہ اور فاضلانہ مباحث ہیں، یہ بات واضح طور پر محسوس ہوتی ہے کہ مصنف نے پہلی دوجلدوں میں اختصار کی راہ اختیار کی ہے اور تفسیر وحدیث کے مراجع کی طرف کم التفات کیا ہے، تیسری سے چھٹی جلد تک احادیث وآثار بکثرت نقل کئے گئے ہیں۔
بہت سی خوبیوں کے باوجود اس تفسیر میں بعض ایسی خامیاں بھی موجود ہیں جس کی وجہ سے اہل تحقیق علماء کو مصنف سے اختلاف ہے، ان میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ حضرات انبیاء کے تذکرہ میں بعض مواقع پر ایسی تعبیرات اختیار کی گئی ہیں جو حدِ ادب سے متجاوز محسوس ہوتی ہیں، مثلاً حضرت داؤد (علیہ السلام) کے بارے میں رقمطراز ہیں :
" جو فعل ان سے صادر ہوا تھا اس کے اندر خواہش نفس کا کچھ دخل تھا اس کا حاکمانہ اقتدار کے نامناسب استعمال سے بھی کوئی تعلق تھا اور وہ کوئی ایسا فعل تھا جو حق کے ساتھ حکومت کرنے والے کسی فرماں روا کو زیب نہ دیتا تھا "۔
(تفہیم القرآن : ٤/٣٢٧)
اس طرح کی بعض اور تعبیرات بھی اس تفسیر اور مصنف کی بعض دیگر کتب میں بھی موجود ہیں اگر یہ تفسیر اس طرح کی باتوں سے خالی ہوتی اور مصنف نے علماء کے توجہ دلانے کے بعد اہل حق کی شان کے مطابق ایسی باتوں سے علی الاعلان رجوع کرلیا ہوتا تو یقینا یہ بہت بہتر بات ہوتی، زبان سہل اور عام فہم ہے اور قدیم مآخذ کے ساتھ جدید تحقیقات سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔
تعارف مصنف :
سید ابوالاعلٰی مودودی (پیدائش :1903 ء، انتقال :1979 ء) مشہور عالم دین اور مفسر قرآن اور جماعت اسلامی کے بانی تھے۔ بیسوی صدی کے موثر ترین اسلامی مفکرین میں سے ایک تھے۔ ان کی فکر، سوچ اور ان کی تصانیف نے پوری دنیا کی اسلامی تحاریک کے ارتقاء میں گہرا اثر ڈالا اور بیسیویں صدی کے مجدد اسلام ثابت ہوئے۔
ابتدائی زندگی
سید ابوالاعلٰی مودودی 1903 ء بمطابق 1321 ھ میں اور نگ آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ آپ کے آباؤ و اجداد میں ایک مشہور بزرگ خواجہ قطب الدین مودود چشتی گذرے تھے جو خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے شیخ الشیوخ تھے۔ سید مودودی کا خاندان انہی خواجہ مودود چشتی کے نام سے منسوب ہوکر ہی مودودی کہلاتا ہے۔
آپ کا گھرانہ ایک مکمل مذہبی گھرانہ تھا۔ مودودی نے ابتدائی دور کے پورے گیارہ برس اپنے والد کی نگرانی میں رہے اور گھر پر تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں انہیں مدرسہ فرقانیہ اور نگ آباد کی آٹھویں جماعت میں براہ راست داخل کیا گیا۔
1914 ء میں انہوں نے مولوی کا امتحان دیا اور کامیاب ہوئے۔ اس وقت ان کے والدین اور نگ آباد سے حیدرآباد منتقل ہوگئے جہاں سید مودودی کو مولوی عالم کی جماعت میں داخل کرایا گیا۔
نام : توضیح القرآن ترجمہ آسان قرآن
مترجم و مفسر : مولانا مفتی تقی عثمانی
ناشر : مکتبہ معارف القرآن کراچی
زیر نظر نسخہ : طبع جدید جمادی الاول 1430 ۔ مئی 2009 ء
مختصر تعارف :
مصنف تفسیر ھذا کے پیش لفظ میں رقمطراز ہیں :
آج سے چند سال پہلے تک میرا خیال یہ تھا کہ اردو میں مستند علمائے کرام کے اتنے ترجمے موجود ہیں کہ ان کے بعد کسی نئے ترجمے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ چناچہ جب کچھ حضرات مجھ سے قرآن کریم کا ترجمہ کرنے کی فرمائش کرتے تو اس خدمت کو عظیم سعادت سمجھنے کے باوجود اول تو اپنی نااہلی کا احساس آڑے آتا، اور دوسرے کسی نئے ترجمے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی تھی۔
لیکن پھر مختلف اطراف سے احباب نے یہ خیال ظاہر فرمایا کہ اردو کے جو مستند ترجمے اس وقت موجود ہیں وہ عام مسلمانوں کی سمجھ سے بالا تر ہوگئے ہیں، اور ایسے آسان ترجمے کی واقعی ضرورت ہے جو معمولی پڑھے لکھے افراد کی سمجھ میں بھی آسکے۔ یہ مطالبہ اتنی کثرت سے ہوا کہ موجودہ ترجموں کا باقاعدہ جائزہ لینے کے بعد مجھے بھی اس مطالبے میں وزن نظر آنے لگا، اور جب میرا انگریزی ترجمہ مکمل ہوکر شائع ہوا تو یہ مطالبہ اور زیادہ زور پکڑ گیا۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ کے نام پر میں نے ترجمہ شروع کیا۔ لیکن ساتھ ہی مجھے یہ خیال تھا کہ عام مسلمانوں کو قرآن کریم کا مطلب سمجھنے کے لیے ترجمے کے ساتھ مختصر تشریحات کی بھی ضرورت ہوگی، اس خیال کے پیش نظر میں نے ترجمے کے ساتھ مختصر تشریحی حواشی بھی لکھنے کا اہتمام کیا۔
قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی وہ کتاب ہے جو بذات خود ایک عظیم معجزہ ہے، اس لیے اس کا ٹھیک ٹھیک ترجمہ جو قرآن کریم کی بلاغت اور اس کے بےمثال اسلوب اور تاثیر کو کسی دوسری زبان میں منتقل کردے، بالکل ناممکن ہے۔ لیکن اپنی بساط کی حد تک بندہ نے یہ کوشش کی ہے کہ قرآن کریم کا مطلب آسان، بامحاورہ اور رواں انداز میں واضح ہوجائے۔ یہ ترجمہ بالکل لفظی ترجمہ بھی نہیں ہے، اور اتنا آزاد بھی نہیں ہے جو قرآن کریم کے الفاظ سے دور چلا جائے۔ وضاحت کو پیش نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ حتی الوسع قرآن کریم کے الفاظ سے بھی قریب رہنے کی کوشش کی گئی ہے اور جہاں قرآن کریم کے الفاظ میں ایک سے زیادہ تفسیروں کا احتمال ہے، وہاں یہ کوشش بھی کی گئی ہے کہ ترجمے کے الفاظ میں بھی وہ احتمالات باقی رہیں۔ اور جہاں ایسا ممکن نہ ہوسکا، وہاں سلف کے مطابق جو تفسیر زیادہ راجح معلوم ہوئی، اس کے مطابق ترجمہ کیا گیا ہے۔
تشریحی حواشی میں صرف اس بات کا لحاظ رکھا گیا ہے کہ ترجمہ پڑھنے والے کو جہاں مطلب سمجھنے میں کچھ دشواری ہو، وہاں وہ حاشیہ کی تشریح سے مدد لے سکے، لمبے تفسیری مباحث اور علمی تحقیقات کو نہیں چھیڑا گیا، کیونکہ اس کے لیے بفضلہٖ تعالیٰ مفصل تفسیریں موجود ہیں۔ البہ ان مختصر حواشی میں چھنی چھنائی بات عرض کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو بہت سی کتابوں کے مطالعے کے بعد حاصل ہوئی ہے۔
تعارف مصنف :
مفتی محمد تقی عثمانی عالم اسلام کے مایہ ناز عالم اور جید فقیہ ہیں۔ آپ کا شمار عالم اسلام کی چند چوٹی کی علمی شخصیات میں ہوتا ہے۔ آپ 1980 سے 1982 تک وفاقی شرعی عدالت اور 1982 سے 2002 تک عدالت عظمی پاکستان کے شریعت ایپلیٹ بینچ کے جج رہے ہیں۔ آپ اسلامی فقہ اکیڈمی، جدہ کے نائب صدر اور جامعہ دارلعلوم، کراچی کے نائب مہتمم بھی ہیں۔ اس کے علاوہ آپ آٹھ اسلامی بینکوں میں بحیثت مشیر کام کررہے ہیں۔
•
پیدائش
مفتی محمد تقی احمد عثمانی تحریک پاکستان کے کارکن اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع عثمانی کے سب سے چھوٹے فرزند اور موجودہ مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی کے چھوٹے بھائی ہیں۔ آپ کی پیدائش سن 1943 میں ہندوستان کے صوبہ اترپردیش کے ضلع سہارنپور کے مشہور قصبہ دیوبند میں ہوئی۔
تعلیم
آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم مرکزی جامع مسجد تھانوی جیکب لائن کراچی میں حضرت مولانا احتشام الحق تھانوی صاحب کے قائم کردہ مدرسۂ اشرفیہ میں حاصل کی اور پھر آپ نے اپنے والد بزرگوار کی نگرانی میں دارالعلوم کراچی سے درس نظامی کی تعلیم مکمل کی جس کے بعد 1961 میں اسی ادارے سے ہی فقہ میں تخصص کیا۔ بعد ازاں جامعہ پنجاب میں عربی ادب میں ماسٹرز اور جامعہ کراچی سے وکالت کا امتحان نمایاں نمبروں سے پاس کیا۔
اجازت
آپ نے اپنے وقت کے تقریبا تمام جید علماء سے حدیث کی اجازت حاصل کی۔ ان علماء میں خود انکے والد مفتی محمد شفیع عثمانی کے علاوہ مولانا ادریس کاندھلوی اور مولانا زکریا کاندھلوی شامل ہیں۔
تصوف و معرفت
مفتی صاحب کے والد ہمیشہ آپ کی روحانی تربیت کے حوالے سے فکر مند رہتے تھے۔ اسی بابت آپ نے مفتی صاحب کو اپنے وقت کے سب سے بڑے شیخ اور عارف بااللہ ڈاکٹر عبدالحئی کی صحبت اختیار کرنے اور ان سے روحانی تعلق استوار کرنے کا حکم دیا۔ آپ نے والد کے حکم پر شیخ کی صحبت اختیار کی تو کچھ ہی عرصے انکی شخصیت سے اتنے متاثر ہوئے کہ فوراً ہی ان سے بیعت ہوگئے۔ کچھ ہی عرصے میں آپ اپنے شیخ کے خاص مریدوں میں شمار ہونے لگے۔ عارف باللہ ڈاکٹر عبدالحئی کے انتقال کے بعد آپ انکے خلیفہ مجاز ہیں۔
تدریس
مفتی تقی عثمانی تدریس کے شعبے سے بھی وابستہ ہیں۔ آپ دارالعلوم کراچی میں صحیح بخاری، فقہ اور اسلامی اصول معیشت پڑھاتے ہیں۔ اسکے علاوہ مختلف ملکی و غیر ملکی جامعات وقتاً فوقتاً اپنے یہاں آپ کے خطبات کا انتظام کرتی رہتی ہیں۔ آپ چند سالوں سے جامعہ دارالعلوم کراچی میں درس بخاری دے رہے، پہلے آپ ایک فقیہ کی حیثیت سے جانے جاتے تھے اور اب دنیا آپ کو ایک محدث کی حیثیت سے بھی جانتی ہے، یہی وجہ ہے کہ علماء نے آپ کو شیخ الاسلام کا لقب عطا کیا ہے۔
رکن اسلامی نطریاتی کونسل
جنرل ضیاء الحق نے 1977 میں 1973 کے دستور سنت کے مطابق ڈھالنے کے لئے 1973 کے آئین کی روشنی میں ایک مشاورتی باڈی اسلامی نظریاتی کونسل کی بنیاد رکھی، مفتی تقی احمد عثمانی اس کونسل کے بانی ارکان میں سے تھے۔ آپ نے قرآن مجید میں بیان کردہ اللہ کی حدود اور انکی سزاؤوں پر عملد درآمد کے لئے حدود آرڈینینس کی تیاری میں اہم کردا ر ادا کیا۔ آپ نے سودی نظام بینکاری کے خاتمے کے لئے بھی کئی سفارشات پیش کیں۔
بحثیت جج
مفتی تقی عثمانی جامعہ کراچی سے وکالت کی سند حاصل کرنے کے بعد طویل عرصے کے لئے پاکستان کے عدالتی نظام سے وابستہ ہوگئے۔ آپ 1980 سے 1982 تک وفاقی شرعی عدالت اور 1982 سے 2002 تک سپریم کورٹ آف پاکستان کے شریعت ایپلیٹ بینچ کے جج رہے ہیں۔ آپ شریعت ایپلیٹ بینچ کے منصف اعظم اور پاکستان کے قائم مقام منصف اعظم بھی رہے۔ آپ بحثیت جج کئی اہم فیصلے کئے جن میں سود کو غیر اسلامی قرار دیکر اس پر پابندی کا فیصلہ سب سے مشہور ہے۔ 2002 میں اسی فیصلے کی پاداش میں سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے آپ کو آپ کے عہدے سے برطرف کردیا تھا۔
اسلامی بینکاری
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ربا یعنی سود کو حرام قرار دیا ہے۔ ایسی صورت میں جب جدید معاشی نظام کی اساس جدید بینکنگ ہے جس کا پورا ڈھانچہ سود کی بنیادوں پر کھڑا ہے مسلمان ملکوں میں اللہ کی نافرمانی کی زد میں آئے بغیر معاشی سرگرمیوں کو جاری رکھنا ایک مستقل مسئلہ تھا۔ لیکن اب مفتی صاحب کی مجدادنہ کوششوں کی بدولت یہ مستقل طور پر حل ہوچکا ہے۔ مفتی صاحب نے شریعت کے حدود میں رہ کر بینکاری کا ایسا نظام وضع کیا ہے جو عصر حاضر کے تمام معاشی تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔ مفتی صاحب کے اس نظام کو اسلامی فقہ اکیڈمی کی منظوری کے بعد ساری دنیا میں نہایت تیزی سے اپنایا جارہا ہے۔
اس وقت مفتی تقی عثمانی صاحب کے اصولوں پر درجنوں اسلامی بینک کام کررہے ہیں۔ کینیڈا کے کئی اسلامی بینکوں نے ایک سال نہایت کامیابی سے کام کرتے ہوئے دو سو فیصد سے زائد منافع کمایا ہے۔ مفتی صاحب خود آٹھ اسلامی بینکوں کے مشیر کے طور پر کام کررہے ہیں۔ مفتی صاحب اسلامی مالیاتی اداروں کے اکاونٹینگ اور آڈیٹینگ اور گنائزیشن کے چیر مین بھی ہیں۔
ملی و سیاسی کردار
مفتی تقی عثمانی صاحب کا نام پہلی مرتبه اس وقت سامنے آیا جب آپ نے شیخ الحدیث حضرت مولانا یوسف بنوری کی ہدایت پر 1974 کی قادیانی مخالف تحریک میں اپنا اہم کردار ادا کیا۔ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی اس تحریک میں آپ نے مولانا سمیع الحق کے ساتھ مل کر ایک دستاویز تیار کی جو قادیانیوں کے خلاف پارلیمان میں پیش کی گئی۔ 9/11 کے بعد جب پرویز مشرف کی حکومت پاکستان کو سامراجی مقاصد کے سامنے قربانی کے بکرے کے طور پر پیش کیا گیا تو مفتی صاحب نے اس معاملے پر اپنے کالموں اور بیانوں کے زریعہ کھل کر مخالفت کی۔ آپ نے افغانستان کی اسلامی ریاست پر آمری کہ کے حملہ کو طاغوتی سامراج کا تیسری دنیا کے مما لک کی خودمختاری پر حملہ قرار دیا۔ حقوق نسواں بل میں ترمیم اور لال مسجد کے معاملے پر بھی کھل کر اظہار خیال کیا اور حکومتی موقف کو جھوٹ اور دغا کا پلندہ قرار دیا۔ آپ صلی و علیہ وسلم کی شان میں گستاخی پر سخت ردعمل کا اظہار کیا اور ٹیوی پر آکر ان شیطانی فتنوں کی مذمت کی اور عوام کو توہین کے عمل میں ملوث ممالک کا معاشی بائیکاٹ کرنے کا فتوا دیا۔ مفتی صاحب نے 18 فروری کے انتخابات کے بعد پرویز مشرف سے استعفی کا مطالبہ بھی کیا۔
کتابیں
• آسان ترجمہ قرآن (توضیح القرآن) مع تشریحات مکمل تین جلدیں
• آسان نیکیاں
• اندلس میں چند روز
• اسلام اور سیاست حاضره
• اسلام اور جدت پسندی
• اکابر دیوبند کیا تھے
• تقلید کی شرعی حیثیت
• پرنور دین
• تراشے
• بائبل کیا ہے
• جہاں دیدہ
• دنیا میرے آگے
• حضرت معاویہ اور تاریخی حقائق
• حجت حدیث
• حضور نے فرمایا
• فرد کی اصلاح
• علوم القرآن
• ہمارا معاشی نظام
• نمازیں سنت کے مطابق پڑہیں
• عدالتی فیصلے
• عیسائیت کیا ہے
• درسِ ترمذی
١۔ ١٥۔ حافظ ابن کثیر ١ ؎ نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ یہ سورة مکی ہے مفسرین ٢ ؎ نے ترجیح اسی قول کو دی ہے کہ جن پانچ چیزوں کی اللہ تعالیٰ اس سورة کے شروع میں قسم کھائی ہے ان میں اول کی تین چیزوں سے مقصود ہوائیں ہیں اور باقی کی دو سے ملائکہ عرفا کے معنی پے درپے۔ عاصفات وہ ہوائیں جن میں سناٹے کی آواز ہو۔ نا... شرات وہ ہوائیں جو بادلوں کو پھیلاتی ہیں۔ فارقات اور ملقیات کا یہ مطلب ہے کہ ملائکہ طرح طرح کے حکم وحی کے ذریعہ سے رسولوں پر لاتے ہیں۔ عذرا کا یہ مطلب ہے کہ ہر طرح کے حکم نازل ہوجانے کے بعد انجانی کا عذر کسی کو باقی نہ رہے۔ نذرا کا یہ مطلب ہے کہ نافرمانی کی حالت میں قیامت کے نافرمان لوگوں کو جو عذاب ہوگا اس سے ہر شخص ڈرا دیا جائے۔ بعض مفسروں نے کہا ہے کہ ملائکہ سے مراد جبرئیل (علیہ السلام) ہیں۔ جمع کا لفظ تعظیم کے لئے استعمال فرمایا گیا ہے قسم کا جواب یہ ہے کہ جس سزا و جزا کے دن کا اللہ نے اپنے رسولوں کی معرفت وعدہ کیا ہے وہ ضرور پیش آنے والا ہے پھر اس دن کی نشانیاں فرمائیں کہ اس دن تاروں کی روشنی جاتی رہے گی۔ حشر کے انتظام کے لئے فرشتے زمین پر آئیں گے۔ اس لئے ان کے آنے کے واسطے آسمان میں دو دروازے ہوجائیں گے۔ پہاڑوں کو اڑا دیا جائے گا اور زمین کو ایک چٹیل میدان کردیا جائے گا۔ پھر فرمایا یہی وقت ہے جس کا رسولوں سے وعدہ تھا کہ ان کا اور ان کے فرمانبردار اور نافرمان امتوں کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اس فیصلہ کی تفصیل سورة بقر اور سورة زمر میں گزر چکی ہے کہ پچھلی امتوں کے منکر شریعت لوگ یہ کہیں گے کہ یا اللہ ہم کو تو یہ حکم کسی رسول نے نہیں پہنچایا تو انبیاء اپنی رسالت ادا کردینے کی تصدیق میں امت محمدیہ کو پیش کریں گے۔ اور امت محمدیہ پچھلے رسولوں کے کلام کی تصدیق کرے گی۔ پچھلی امتوں کے لوگ جب یہ کہیں گے کہ یا اللہ امت کے محمدیہ کے تول تو ہم سے پیچھے پیدا ہوئے ان کو ہمارا حال کیا معلوم۔ اس پر امت محمدیہ کے لوگ یہ جواب دیں گے کہ قرآن مجید میں پچھلا سب حال تھا اس لئے ہم کو ان لوگوں کا حال معلوم ١ ؎ ہوگیا اس کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی امت کی گواہی کی تائید فرمائیں گے۔ اور ان سب گواہیوں پر فیصلہ اخیر ہوجائے گا۔ اسی واسطے فرمایا کہ اس فیصلہ کے دن ان لوگوں کی بڑی خرابی ہے جو اس دن کے فیصلہ کے منکر ہیں۔ (١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٤٥٨ ج ١۔ ) (٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٥٩ ج ٤۔ ) (١ ؎ صحیح بخاری تفسیر سورة بقرہ ص ٦٤٤ ج ٢۔ ) Show more
احسن التفاسیر
احسن التفاسیر تفسیر بالاحادیث کا بہترین مجموعہ ہے، کئی بار چھپ چکی ہے، آخر میں پاکستان میں مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی کی توجہ اور مولانا عبدالرحمٰن گوہڑوی کی تعلیقات سے چھپی ہے۔ شاہ عبدالقادر کے ترجمہ پر مشتمل ہے، سید احمد حسن دہلوی (المتوفی ١٣٣٨ھ) تلمیذ سید نذیر حسین محدث دہلوی (المتوفی ١٣٢٠ ھ) عظیم علمی شخصیت کے مالک تھے، تنقیح الرواۃ فی تخریج احادیث المشکوٰۃ ان کی مشہور تصنیف ہے جو ان کی علمی شان و مہارت تامہ کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔ پاکستان میں المکتبہ السلفیہ لاہور نے چھاپی ہے۔
سید احمد حسن احسن التفاسیر کی تالیف کے بارے میں لکھتے ہیں۔ قرآن شریف عربی زبان میں ہے۔ اور ہر شخص کو عربی زبان کے سمجھنے کی طاقت نہیں، اس واسطے شاہ عبدالقادر صاحب مرحوم کے عام فہم اردو کے ترجمہ کے زیادہ عام فہم ہوجانے کی غرض سے اسی ترجمہ کی سلیس اردو کے ڈھنگ پر پہلے چیدہ چیدہ آیتوں کے فوائد احسن الفوائد کے نام سے تین ترجمے کے قرآن مطبوعہ مطبع فاروقی کے حاشیہ پر چھاپ دیے گئے تھے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ان فوائد سے مسلمان بھائیوں کو بہت فائدہ پہنچا جس کے سبب سے اس قرآنی ترجمہ مع فوائد کے اب بہت لوگ خواہش مند ہیں لیکن وہ قرآن نہیں ملتا۔ ان فوائد میں چیدہ چیدہ آیتوں کا مطلب تھا، اس واسطے ان فوائد سے پورے قرآن شریف کا مطلب سمجھ میں نہیں آسکتا تھا، اسی لیے ان فوائد کا یہ نقصان رفع کردینے کی غرض جسے شاہ عبدالقادر مرحوم کے ترجمہ کا یہ قرآن اس ڈھنگ سے چھاپا گیا کہ اوپر قرآن شریف کی آیتیں اور ان کا ترجمہ ہے اور نیچے احسن التفاسیر کے طور پر تمام قرآن شریف کی مختصر صحیح تفسیر ہے تاکہ ترجمہ اور اس تفسیر کی مدد سے اردو دان مسلمان مرد اور عورتیں قرآن شریف کا مطلب اچھی طرح سمجھ سکیں۔
مصنف کے احوال :
مؤلف احسن التفاسیر اللہ تعالیٰ
١٢٥٨۔۔۔۔۔۔ ١٣٣٨ ھ
مولدومسکن : آپ کا خاندان قدیم الایام سے دہلی کا رہنے والا تھا۔ ١٢٥٨ ھ میں آپ دہلی میں پیدا ہوئے قلعہ معلّٰی میں اچھے حاصے خاندانی تعلقات کے باعث بچپن قلعہ معلّٰی میں گذرا۔
حفظ قرآن : وہی قاری امیدعلی صاحب سے جن کا وطن ڈھا کہ تھا لیکن عرصہ دراز سے دہلی میں رہ رہے تھے۔ قرآن مجید حفظ شروع کیا۔ اور گیارہ سال کی عمر میں حفظ قرآن کی دولت سے مالا مال ہوگئے۔
فارسی کی ابتدائی کتابیں : چودہ سال کی عمر تک اس قدر پڑھ ڈالیں کہ فارسی کی عبارت سمجھنے کی اچھی استعداد پیدا ہوگئی۔ عام قابلیت بھی اتنی ہوچکی تھی کہ وہ خط و کتابت بخوبی کرسکتے تھے۔
ترک وطن : انہی ایام میں ١٨٥٧ ء کا ہنگامہ ہوگیا۔ اس طوفانِ رست خیز میں آپ کے والد بال بچوں سمیت پٹیالہ (حال مشرقی پنجاب ) چلے آئے۔ وہاں پہنچ کر آپ کے والد ماجدنے فارسی کتابوں کی خود تعلیم دینی شروع کی، نیز آپ کو مرزرا احمد بیگ کے بھی سپرد کردیا گیا۔ غالباً اس لئے کہ دفتر کاموں کی واقفیت پیدا ہو سکے۔ چناچہ تین ساڑھے تین سال کے عرصے میں فارسی کی تحصیل کے ساتھ ساتھ دفتری امور میں بھی مہارت حاصل ہوگئی ۔ جو حید آباد کی ملازمت کے دوران میں خوب کام آئی۔
علوم آلیہ کی تحصیل : بعدہٗ ٹونک چلے گئے جو ان دنوں صرف و نحود وغیرہ کامرکز تھا۔ صرف دنحو کی تمام کتابوں کی تکمیل یہاں کرلی اتنے میں دہلی ک حالت معمول پر آئی تو آپ کے والد ماجد پٹیالہ سے دہلی واپس آگئے۔
آپ بھی والدین کی اوقات کے لئے ٹونک سے دہلی آئے اور والد کے اصرار پر ٹونک کا ارادہ ترک کر کے دہلی میں ہی تعلیم حاصل کرنی شروع کردی۔ مگر تھوڑے عرصے کے بعد اپنے ایک ہم سبق مولوی عبد الغفور ١ جو بڑے لائق اور قابل آدمی تھے۔ کی معیت میں جناب مولانا محمد حسین ٢ خاں صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے جن کا فیض تدریس نحبی طور پر خواجہ ضلع بلند شہر (ہند) میں جاری تھا اور علوم میں اعلیٰ قابلیت کی شہرت رکھتے تھے۔ ان کے ہاں صرف ونحو کو اچھی طرح ضبط کرنے کے علاوہ منطق کی ابتدائی اور وفقہ و ا صولِ فقہ کی کتابیں خوب پڑھیں۔
اس کے بعد علی گڑھ جا کر مولانا فیض الحسن صاحب سہارن پوری سے اکتسابِ علوم کیا فقہ و اصول اور منطق وغیرہ کی بقیہ کتابوں کے ساتھ ہی تفسیر بھی ان سے پڑھی۔
تفسیر و حدیث کی تکمیل : پھر واپس آکر حضرت شیخ الکل فی الکل مولانا سید محمد نذیر حسین صاحب محدث قدس اللہ سرہ کی خدمت میں زانوئے تلمذ طے کیا اور حضرت سے اکتساب فیض کرتے ہوئے تھوڑے ہی عرصہ میں تفسیر و صحاح کی تکمیل کر ڈالی۔ چناچہ حضرت میاں صاحب a نے سند حدیث عنایت فرمائی ۔
طب : تکمیل علوم شرعیہ کے بعد حکیم امام الدین صاحب مرحوم سے پوری طب پڑھی اور حکیم حسام الدین خاں صاحب مرحوم (عرف منجھلے میاں) کے مطب میں ایک عرصے تک بفرض تجربہ حاضر رہ کر طبابت کی بھی سند حاصل کرلی۔
سند فراغت کے بعد : حضرت میاں صاحب کی خدمت میں کچھ م دت تدریس و فتویٰ میں مصروف رہے پھر حضرت ہی کے مشورہ سے جناب مولوی ڈپٹی نذیر احمد صاحب مرحوم ۔ مصنف ترجمۃ القرآن کے ہاں شادی قرار پائی۔
ان دنوں ڈپی نذیر احمد صاحب (رح) کا گورکھ پور (ہند) میں قیام تھا۔ شادی وہیں عمل میں آئی۔ پھر ٹونک چلے گئے لیکن کچھ مدت بعد ڈپٹی صاحب موصوف آپ کو حیدر آباد دکن لے گئے اور ضلع نانذیر میں آٹھ سو روپے مشاہرہ پر ڈپٹی کلکٹر کے عہدہ پر لگوایا۔ جس پر سالہا سال تک سرفراز رہے اور وہیں سے پنشن پائی۔
١٣٠٨ ھ میں حج بیت اللہ کی نعمت سے سرفراز ہوئے۔ وہاں آپ کو بھی حوادث و مصائب سے دو چار ہونا پڑا مگر آپ نے بخندہ پیشانی ان سب کو جھیلا اور ١٣٩٠ ھ کو بخیریت واپس تشریف لائے۔
علمی شغف : علمی ذوق کا اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ ڈپٹی کلکٹر کی ملازمت کے دوران میں آپ نے تین ترجموں والا قرآن مجید مرتب کیا پہلا ترجمہ فارسی فتح الرحمن از شاہ ولی اللہ صاحب (رح) دوسراؔ اردو تحت اللفظ از شاہ رفیع الدین ، تیسیرا اردو با محاورہ از شاہ عبد القادر صاحب۔ پھر اس پر ” احسن الفوائد “ کے نام سے بہترین ملحض تفسیر ی حواشی خود لکھے۔ اس قرآن مجید کو آپ نے اپنے خرچ پر طبع کرایا۔
تصانیف : احسن ١ الفوئد (اردو تفسیر ) جس کا اوپر ذکر آچکا ہے۔ دو دفعہ دہلی میں طبع ہوا۔ (با ر اوّل ١٣١٥ ھ بار دوم ١٣٤٧ ھ) ٢ تفسیر احسن التفاسیر (اردوض ہزاروں صفحات پر مشتمل بہترین اردو تفسیر ١٣٢٥ ھ میں مطبع فاروق دہلی سے سات بڑی جلدوں میں شائع ہوئی۔ یہ تفسیر بڑی قابلیت سے مرتب کی گئی ہے جس میں بہت سی تفاسیر کا خلاصہ آسان اور عام فہم انداز میں کردیا گیا ہے۔
٣ مقدمہ تفسیر احسن التفاسیر جو اعلیٰ تفسیری فوائد اور علمی نکات و مباحث پر مشتمل ہونے کی وجہ سے مستقل تصنیف کی حیثیت رکھتا ہے۔ ١٣٣٠ ھ ، ١٩١٢ ء میں طبع ہوا۔
٤ تفسیر آیات الاحکام من کلام رب الانام (اردو) صرف سورة بقرہ کا حصہ کانفرنس اہلحدیث دہلی نے شائع کیا تھا، پور ی ہوجاتی، تو اردو میں آیات احکام کی تفسیر میں اپنی نظیر آپ ہوتی۔ ٤٢٤ صفحات پر ١٩٢١ ء میں بمقام دہلی طبع ہوئی۔
٥ حاشیہ بلوغ المرام (عربی ) فقہی اور محدثانہ انداز کا جامع حاشیہ ، متن کے ساتھ کم و بیش ٥٠ ٣ صفحات پر مطبع فاروقی دہلی سے ١٣٢٥ ھ میں شائع ہوا۔ اس کا دوسرا ایڈیشن ١٩٧٨ ء میں سرگودھا سے شائع ہوا۔
٦ تنفتح الرواۃ فی تخریج احادیث المشکوٰۃ کامل محدثانہ طریق پر مشکوٰۃ کا جامع اور بےنظیر حاشیہ ، پہلی جلد خود لکھی باقی اپنی نگرانی میں اور ہدایت کے تحت استاد محترم مولانا محمد شرف الدین محدث دہلوی (متوفی ٰ ١٣٨١ ھ ) سے لکھوائی۔ پہلا ربع ١٣٢٥ ھ میں مطب انصاری دہلی سے اور دوسرا ربع ١٣٣٣ ھ میں مطبع مجتبائی دہلی سے شائع ہوا۔ دوسرا نصف مجتبائی والوں ک سر د مہری کی نذر ہوگیا تھ ا۔ تا ہم تلاش بسیار کے بعد مبطع مجتبائی والوں کے ورثاء سے اس کا کرم خوردو مسودہ دستیاب ہوگیا اور اس کا تیسیرا ربع راقم کی تصحیح و تحقیق اورا ضافوں کے ساتھ ١٤٠٤ ھ میں دار لدعوۃ السلفیہ لاہور کے اہتمام میں چھپا اور آخری ربع (جو بہت زیادہ خرا بکو کرم خوردہ ہے ) اس کی تصحیح و تحقیق اور استدراکات کا کام جاری ہے۔
٧ بحر ذخار بجوا انتصار ، مولانا انتشار حسین رام پوری نے حضرت میاں صاحب (رح) کی معرکۃ الآرا کتاب ” معیار الحق “ کے جواب میں ” انتصار الحق “ بڑی ضخیم کتاب لکھی ” بخر زخار “ کم بیش تین سوصفحات پر مشتمل اسی کتا ب کا مدلل ، معقول اور سنجیدہ جواب ہے۔
٨ صراط الاھتداء فی بیان الاقتدارء اہلحدیث کے امتیازی مسائل کی تحقیق اور اہل حدیث کی اقتداء میں نماز پڑھنے کے جواز میں مدلل یہ کتاب ١٢٨٩ میں مطبع فاروقی دہلی سے طبع ہوئی۔
٩ عمر کے آخری دور میں مسند احمد کی احادیث کی تخریج شروع کی تھی لیکن یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ کام کتنا کیا تھا ؟ اور وہ کہیں محفوظ ہے یا نہیں ؟
وفات : ١٧؍جمادی الاولیٰ ١٣٣٨ ھ (٩ مارچ ١٩٢٠ ء ) تقریباً اسی ٨٠ اسی سال کی عمر میں انتقال فرمایا :
(77:1) والمرسلت عرفا۔ واؤ تسمیہ۔ المرسلت اسم مفعول جمع مؤنث۔ المرسلۃ واحد۔ ارسال (افعال) رسل اونٹ یا بکری پیہم نرم رفتار کو کہتے ہیں۔ اگر یکے بعد دیگرے قطار در قطار ہوکر گھوڑے یا اونٹ آئیں یا آدمی آئیں تو جاء وا ارسالا کہا جاتا ہے آیت ہذا اور اگلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے پانچ چیزوں کی قسم کھائی ... ہے۔ مثلا :۔ (1) المرسلت۔ (2) العصفت۔ (3) النشرت۔ (4) الغرقت۔ (5) الملقیت۔ ان چیزوں سے جن کی قسم کھائی گئی ہے کیا مراد ہے ؟ اس میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں۔ مثلا :۔ (1) ان پانچوں چیزوں سے مراد ملائکہ ہیں۔ (مقاتل) (2) ان پانچوں چیزوں سے مراد ہوائیں ہیں۔ (مجاہد، قتادہ) (3) ان پانچوں چیزوں سے مراد ایک قسم کی چیزیں نہیں ہیں۔ بلکہ متعدد چیزیں مراد ہیں پھر اس میں بھی مختلف اقوال ہیں :۔ (1) بعض کہتے ہیں پہلی چار چیزوں سے مراد ہوائیں ہیں۔ اور پانچویں سے ملائکہ۔ (2) بعض کہتے ہیں کہ اول دونوں سے مراد ہوائیں ہیں۔ اور اخیر تینوں سے ملائکہ ہیں۔ (3) ان پانچوں چیزوں سے مراد آیات قرآنیہ ہیں۔ (فرائ) (4) یہ بھی احتمال ہے کہ ان پانچوں چیزوں سے راد نفوس انبیاء ہیں۔ چونکہ جمہور مفسرین اس طرف گئے ہیں کہ ان سے مراد ہوائیں ہیں لہٰذا ہم یہاں سے ہوائیں مراد لے کر تشریح کریں گے۔ عرفا۔ نیکی، احسان، بخشش، متواتر، پے در پے ۔ عرف کا استعمال دو معنی میں ہوتا ہے۔ ایک بمعنی معروف، یعنی نیکی اور نیک کام۔ دوسرے پے در پے۔ محاورہ ہے جاء القوم عرفا عرفا : یعنی لوگ پے در پے اور لگاتار ایک دوسرے کے پیچھے آئے۔ اس معنی میں یہ عرف الفرس سے ماخوذ ہے۔ ” عرف فرس “ گھوڑے کے ایال (گردن کے لمبے لمبے بال) کو کہتے ہیں۔ یعنی جس طرح ایال کے بال لگاتار ایک دوسرے کے پیچھے ہوتے ہیں۔ اسی طرح لوگوں کی آمدورفت ہوئی۔ آیت والمرسلت عرفا میں دونوں معنی کئے گئے ہیں۔ یعنی نیکی اور خوبی کے ساتھ بھیجی ہوئی۔ یا پے در پے بھیجی ہوئی ہوائیں۔ عرفا کے منصوب ہونے کی چار وجہیں ہوسکتی ہیں :۔ (1) مفعول لہ ہونے کی بنا پر منصوب ہے یعنی المرسلت لاجل العرف اس صورت میں عرف بمعنی خوبی و احسان ہوگا۔ (2) حال ہونے کی وجہ سے یعنی متتابعۃ۔ (پے در پے) یعنی اس حال میں بھیجی گئیں کہ وہ پے در پے تھیں۔ (3) مفعول مطلق ہے بعمنی مصدر۔ اور ارسالا کے معنی دے بمعنی المرسلت ارسالا اس صورت میں بھی ارسالا بمعنی لگاتار اور پے در پے ہوگا۔ (4) منصوب ہے نیزع خافض (زیر دینے والے حرف کو حذف کرنا) بمعنی المرسلت بالعرف اس صورت میں عرف بمعنی معروف ہوگا۔ آیت کا ترجمہ ہوگا :۔ قسم ہے ان ہواؤں کی جو پے در پے بھیجی جاتی ہیں یعنی وہ ہوائیں جو پیہم چلتی ہیں نرم نرم خوشگوار، روئیدگی میں مدد دینے والی۔ ابرا ٹھانے والی۔ بابرکت۔ Show more
یہ کتاب قرآن حکیم کے ان طالب علموں کے لیے لکھی گئی ہے جو زبان عربی کا کم از کم ابتدائی علم رکھتے ہوں اور صرف و نحو کی مبادیات سے واقف ہوں اور اس سلسلہ میں مزید معلومات کے خواہشمند ہوں۔ یہ کتاب نہ صرف ان کو قرآنی عبارت کے مختلف الفاظ اور جملوں کی تعلیل صرفی اور ترکیب نحوی میں مدد گار ثابت ہوگی بلکہ ربط الفاظ و آیات میں بھی معاونت کرے گی۔
عام لغات (ڈکشنری) کی کتابوں میں الفاظ کے مواخذ و معنی بیان کرنے پر اکتفا کیا گیا ہے اور ان کے صرفی و نحوی پہلو کو چھوڑ دیا گیا ہے اس طرح طالب علم، نہج عبارت اور نشست الفاظ کی اصولی وجوہ سے ناواقف رہ جاتا ہے، بقول مولانا محمد نذیر عرشی مصنف مفتاح العلوم شرح مثنوی مولانا روم :
" ترکیب نحوی نہ جاننے والے لوگوں کی زباندانی کی مثال اس کوتاہ نظر راہرو کی سی ہے جس کی نظر پگڈنڈی کے صرف اتنے ہی حصے پر ہے جو اس کے پاؤں کے سامنے ہے اور وہ اس تسلسل نظر کے ساتھ اپنی مسافت طے کرتا جارہا ہے بخلاف اس شخص کے جو جانتا ہے کہ یہ کلمہ فعل ہے یہ فاعل ہے یہ اسم موصول ہے یہ جملہ اس کا صلہ ہے ، یہ کلمہ مقدم آنا واجب ہے اور یہ موخر ہونا چاہیے اس کلمہ میں ضمیر کا ہونا ضروری ہے اس کا مرجع یہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس پر عبارت کا مطلب و مدعا خود بخود آئینہ ہوجاتا ہے اور جب وہ عبارت کا ترجمہ کرتا ہے تو ایک مبصر کی حیثیت سے کرتا ہے اس کی مثال اس وسیع النظر اور دور بین راہرو کی سی ہے جس نے سفر پر روانہ ہونے سے پہلے نقشہ کے ذریعہ، سفر ناموں کے مطالعہ سے اور واقفان راہ سے گفتگو کر کے تمام منازل سفر پر نظر ڈال لی ہو۔ خلاصہ یہ کہ اس کا سفر خطرات سے محفوظ ہوگا "۔
ایسی ہی وجوہات کو مد نظر رکھتے ہوئے ضروری الفاظ، جملوں اور آیات کی صرفی و نحوی لحاظ سے وضاحت کردی گئی ہے اس طرح اصطلاحا یہ کتاب نہ تو ایک لغات ( ڈکشنری) ہے نہ تفسیر نہ ترجمہ، اسی بناء پر اس کا نام " انوار البیان فی حل لغۃ القرآن " رکھا گیا ہے ۔
سورت اور اس کی آیات کو یا آیات میں مندرجہ جملوں یا الفاظ کو اس ترتیب سے لکھا گیا ہے کہ پہلے سورت کا نمبر دیا ہے اس کے بعد آیت کا نمبر ہے ۔ ازاں بعد جملہ یا الفاظ کا حوالہ ہے ۔ مثلا ١١٩: ٣ میں ٣ سورة آل عمران کو ظاہر کرتا ہے اور ١١٩ سورة آل عمران کی آیت ١١٩ کو، اور اس آیت میں مندرج مشکل الفاظ کو اس آیت کے محاظ درج کیا ہے ۔
چونکہ اس کتاب میں صرف مشکل الفاظ کی تشریح کی گئی ہے لہذا ضروری نہیں کہ ہر سورة یا ہر پارہ اس کے انہی الفاظ سے شروع ہو جو قرآن میں ہیں۔
کتاب ہذا کا مقصد طالب علم کو قرآن حکیم کے سمجھنے میں معاونت کرنا ہے لہذا ان کتب سے دل کھول کر مدد لی گئی ہے۔ مؤلف کتاب ہذا کو اپنی کوتاہی علم کا شدت سے احساس ہے۔ لہذا کتاب ہذا میں جو محاسن نظر آئیں ان کے لئے سزاوار تحسین وہ ہستیاں ہیں جن کے گلستان تصنیف سے خوشہ چینی کی گئی ہے البتہ جو خامیاں رہ گئی ہیں ان کے لئے ذمہ دار وہ خود مؤلف ہے جس کے لئے وہ بارگاہ ایزدی سے معافی کا خواستگار ہے۔
ف 4 یعنی پے درپے چلتی ہیں۔ آیت کا یہ مطلب جمہور مفسرین نے بیان کیا ہے۔ بعض نے ” مرسلات “ سے مراد بھیجے ہوئے فرشتے یا انبیاء لئے ہیں اور ” عرفا “ کا ترجمہ ” بھلائی (یعنی اچھے احکام) دے کر کیا ہے۔ (فتح القدیر) ۔
نام : اشرف الحواشی
ترجمہ اول : حضرت شاہ رفیع الدین دہلوی (رح)
ترجمہ دوم : نواب وحید الزمان خان حیدر آبادی
مرتب و مؤلف : ابوالقاسم محمد عبدہ الفلاح
ناشر : شیخ محمد اشرف ناشران قرآن مجید و تاجران کتب
مختصر تعارف و خصوصیات :
مؤلف اور ناشر تفسیر کے اخیر میں لکھتے ہیں :
1 ۔ تاریخ کے ہر دور میں علماء نے قرآن کی تشریح و تفسیر کا فریضہ ادا کیا۔ اور علماء کی ان خدمات کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ انکا احصاء ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ برصغیر میں خاندان ولی اللہی کی خدمات کو اساسی حیثیت حاصل ہے۔ ان میں شاہ رفیع الدین دہلوی (رح) کا ترجمہ اپنی سہولت اور اختصار کے سبب نہایت مقبول ہے اور یہ ترجمہ جو مسلک سلف کا مظہر ہے۔ اس پر خود حضرت النواب نے تفسیری حواشی مرتب فرمائے مگر وہ نہایت مختصر تھے۔ اس بناء پر کسی ایسے تفسیری حواشی کی ضرورت عرصہ سے محسوس ہورہی تھی جو اس ترجمہ سے ہم آہنگ ہو، اور احادیث صحیحہ، دورِ آثار صحابہ و تابعین پر حاوی ہو تاکہ سلف کے طرز پر قرآن سمجھنے والے اس سے اپنا شوق پورا کرسکیں۔ ان تفسیری حواشی میں مندرجہ ذیل اصول کو سامنے رکھا گیا ہے۔
2 ۔ کتب تفسیر میں ابن کثیر، فتح القدیر اور فتح البیان کو اصل قرار دیا گیا ہے اور ان سے تفسیر بالماثور کا حصہ نہایت اختصار کے ساتھ اخذ کیا گیا ہے۔
3 ۔ بلا واسطہ کتب حدیث سے استفادہ کیا ہے اور اس سلسلہ میں صحاح ستہ اور ان کے شروح کو سامنے رکھا گیا ہے۔
4 ۔ جن عقل پسندوں نے قرآن کی ترجمانی کے زعم میں بعض صحیح احادیث کا انکار کیا ہے، فوائد میں ان پر بھی بالاختصار تنقید کردی گئی ہے۔
5 ۔ اس تفسیر میں دوترمے ہیں۔ پہلا ترجمہ حضرت شاہ رفیع الدین دہلوی کا ہے اور دوسرا ترجمہ علامہ نواب وحید الزماں کا۔ نواب صاحب مشہور عالم اور صحاح ستہ کے مترجم ہیں۔ حواشی میں اس امر کا خاص طور پر التزام کیا گیا ہے کہ قرآن مجید کی متعلقہ آیات کی تائید میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وہ حدیث درج کی جائے جو مضمون آیات کے عین مطابق ہو۔ حواشی کو اشرف الحواشی کے نام سے موسوم کیا گیا ہے جسے آپ تفسیر قرآن بالحدیث کے نام سے تعبیر کرسکتے ہیں۔
سورة المرسلات۔ آیات ١ تا ٤٠۔ اسرار ومعارف۔ و ہ ہوائیں جو انسانی زندگی کی بقا کا سبب بن کر بہت بڑا نفع پہنچاتی ہیں اور پھر وہ ہوائیں جو زور زور سے چلتی ہیں وہ بھی بیشمار ذروں کو ادھر ادھر پہنچا کر زندگی کی بہار کا باعث بنتی ہیں اور وہ ہوائیں جو بارش کے بعد بادلوں کو منتشر کردیتی ہیں یعنی مادی زندگی ک... ے اسباب وعلل کا نظام اور پھرو ہ فرشتے جو وحی لاکر حق و باطل کی تمیز کے اسباب پیدا کرتے ہیں اور دلوں تک یادالٰہی کے پہنچانے کا سبب بنتے ہیں نیز مومن کے یہ سب اس بات پر گواہ ہیں اور اس نظام کا تقاضا ہے کہ حساب کا دن مقرر ہوتولوگو تم سے جس روز حساب کا وعدہ کیا گیا ہے قرآن جس کی خبر دے رہا ہے یقینا وہ واقع ہوگا جس روز ستارے جھڑجائیں گے اور آسمان پھٹ پڑیں گے اور پہاڑ تباہ ہوجائیں گے اور اس دن انبیاء ورسول اپنی اپنی امتوں کے کردار پر گواہی کے لیے موجود ہوں گے اسی دن کے لیے جو فیصلے کا دن ہے لوگوں کو مہلت دی گئی ہے کہ زندگی میں فوری گرفت نہیں ہوپارہی اور اے مخاطب تجھے کیا خبر کہ فیصلے کی گھڑی کتنی مشکل ہوگی ۔ منکرین کے لیے سخت تباہی کا دن ہوگا پہلے کفار کو تباہ نہیں کردیا گیا یعنی آخرت کے عذابوں کا پرتو بھی اتنا سخت تھا کہ دنیا میں بھی تباہ ہوگے تو پچھلوں کا بھی یہی حال ہوگا انہی کے پیچھے جائیں گے۔ (یقینا عہد نبوی اور عہدخلفاء راشدین کے کفار اپنے انجام کو پہنچے انشاء اللہ عہد حاضر کے بھی اپنے انجام کو پہنچیں گے ) کہ مجرموں کے ساتھ یہی سلوک کیا جاتا ہے بلکہ انکار کرنے والوں کا انجام تباہی ہے۔ بھلا ہم نے ان کو ایک نطفے سے پیدا فرمایا پھر اسے مقررہ مدت تک شکم مادر میں رکھا اور پھر کس قدر خوبصورت بنادیا کہ ہم ہی سب سے اعلی بنانے والے ہیں اس کے بعد بھی ناشکری کرے تو تباہی کے علاوہ کیا حاصل کرے گا۔ کیاہم نے زمین میں بیشمار خوبیاں سمو کر اسے زندوں اور مردوں سب کی ضروریات پورا کرنے کے لیے نہیں بنایا اور پھر اس پہاڑ کا بوجھ لاد کر ان میں پانی جاری کردیا کبھی برف کی صورت اور کبھی چشموں کی کہ تم پیا کرو تو بھلا اتنی نعمتوں کی ناشکری کرنے والا کی سے تباہ نہ ہوگا ۔ آخرت کو کہاجائے گا کہ چلو دیکھ لومیدان حشر میں جن حقیقتوں کا تم انکار کیا کرتے تھے اب اس سائے میں چلو جو جہنم کے دھوئیں کا ہوگا اور جس کی تین شاخیں ہیں۔ کفر کی تین اقسام۔ کہ کفر کی بھی تین قسمیں ہیں باقی سب انہیں میں شامل ہیں ۔ (١) مشرکین (٢) مطلق کافر ، دہریے وغیرہ (٣) اور منافق۔ تو دھوئیں کی بھی تین شاخیں بن جائیں گی کہ نہ توسایے دے گا اور نہ گرمی سے بچائے گا بلکہ اس میں شرارے پھینکے جائیں گے دوزخ کے ، جو محلات جیسے بڑے ہوں گے جنہوں نے کفار کو اسلام سے روکے رکھا اور پھٹ کر بکھیریں گے تو اونٹ اونٹ کے برابر تقسیم ہوں گے کفار کے لیے یہ بہت بڑی تباہی ہوگی کہ اس روز انہیں نہ تو بات کرنے کی جرات ہوگی اور نہ بہانے کرنے کی اجازت بلکہ محض تباہی پھیری جائے گی کہ یہ فیصلے کا روز ہے لہذا اگلے پچھلے تمام انسانوں کے فیصلے کے لیے جمع کیا جائے گا ہاں اگر آج بھی کوئی داؤ پیچ کرسکتے ہوتوکرکے دیکھ لوگ مگر آج کفار کے حصے میں تباہی کے علاوہ کچھ نہ ہوگا۔ Show more
مصنف : امیر محمد اکرم اعوان
۔۔۔
امیر محمد اکرم اعوان مفسر قرآن اور مذہبی پیشوا ہیں جو تنظیم الاخوان کے امیر ہیں۔
آپ کا تعلق کوہسار کے خوبصورت علاقہ ونہار کے ایک معروف زمیندار خاندان سے ہے آپ نے علاّمہ مو لانا اللہ یار خان صاحب (رح) کی صحبت کی بھٹی میں پچیس سال کا عرصہ گزارا اور کندن بن کر نکلے۔ حضرت العلاّم مولانا اللہ یار خان نوّر اللہ مرقدہ نے اپنے شاگرد رشید کے سینے میں برکاتِ نبوّت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بےکراں سمندر انڈیلا اور اپنے بعد سلسلے کا شیخ نامزد فرمایا۔
حضرت امیر مکرّم مولانا محمد اکرم اعوان مد ظلہ العالی سلسلہ عالیہ نقشبندیہ اویسیہ کے فی زمانہ شیخ ہیں ۔ آپ نے اصلی حقیقی تصوّف کو واضح کرنے کے لیے ارشاد السالکین ، کنز الطّالبین، طریقِ نسبتِ اویسیہ، رموزِدلِ ، کنوزِ دل جیسی قریباً چالیس کتب سالکین کی رہنمائی کے لیے تصنیف فرمائیں۔
آپ نے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رح) کی " مسائل السلو ک من کلام الملوک " کی شرح فرمائی اور اپنے عطیم المرتبت شیخ ضرت العلام مولانا اللہ یار خان صاحب (رح) کی کتاب دلائل السلوک کی بھی شرح فرمائی۔
آپ عصرِ حاضر کی ایک عہد ساز شخصیت ہیں
آپ نے تعلیمِ بالغاں کا با قا عدہ سلیبس مقرر کر رکھا ہے۔ مختلف کو رسز کے ذریعے لوگ قرآن حدیث ، فقہ اور عربی سیکھتے ہیں۔ جن میں ایمانیات، عبادات، معاملات اور اخلاقیات کی بنیادی تعلیم کے ساتھ معاشیات، عدالت اور معاشرت کی رہنمائی ملتی ہے۔ مَردوں کی طرح خواتین کی تربیت کا نتظام ہے۔ " الا خوات " کا نام سے ان کی بھی تنظیم ہے۔
آپ نے گزشتہ ادوار ِ حکومت میں ملک کی دونوں بڑی جماعتوں کو نفاذِ اسلام کے لیے تحریری مسوّدہ پیش کیا۔ شومٔی قسمت کہ ان حکومتوں کو توفیقِ عمل نہ ہوئی۔
آپ مفسِّر قرآن ہیں۔ اللہ کریم نے آپ کو علم لَدُنّی سے نوازا ہے۔ اور قرآن پاک کا خص فہم عطا فرمایا ہے۔ یہ اسی علم لدنی کی برکت ہے کہ آپ نے ایک تفسیر " اسرار التنزیل " تحریر فرمائی ہے۔ جس میں آپ نے موقع بہ موقع تسوّف کے رموز کو آشکار کیا ہے ۔ یہ تفسیر صاحب دل حضرات کے لیے کسی نایاب تحفے سے کم نہیں۔ علاوہ ازیں زبان و بیا ن کی خوبیوں سے آراستہ اور خاص و عا م میں پسندیدہ ہے۔ آپ کی دوسری بیانیہ تفسیر " اکرم التفاسیر " ہے جو نصف سے زا ئد یعنی سولہ پا روں میں زیور طباعت سے آراستہ ہوچکی ہے۔ یہ تفسیر " وَلَقَد یَسَّرنَا القُر آنَ لِلذِّکرِ " آسان قرآن " کا اظہر من الشمس ثبوت ہے۔ آسان زبان میں ہونے کے ساتھ ساتھ موجودہ دور کے حالات کے مطابق ہونے کی وجہ سے یوں لگتا ہے کہ قرآن کریم شاید موجودہ زمانے کے لیے ہی نازل ہوا ہے۔ آپ کی ایک اور پنجابی تفسیر " رب دیاں گلاّں " " اپنا ٹیوی چینل سے ٹیلی کا سٹ ہوتی رہی ہے۔ اس کی سی ڈی اور ڈیوی ڈی وغیرہ دستیاب ہیں اور انشاء اللہ طباعت کے بعد منظر عام پر آ جائے گی۔
آپ مترجمِ قران بھی ہیں۔ آپ کا قرآن پاک کا سلیس ترجمہ " اکرم التراجم " قدرت اللہ کمپنی کی طرف سے شائع ہو کر کتب خانوں، مساجد اور گھروں کی زینت بن چکا ہے اور اپنی روانی، سلاست اور شستگی کے باعث علماء اور عوام میں یکساں مقبول ہے۔
آپ صوفی شاعر، محقق اور اور اعلیٰ پائے کے ادیب ہیں دلی کیفیات زباں پر آئیں تو گردسفر، دیدۂ تر، متاعِ فقیر، نشانِ منزل، آس جزیرہ، کونسی ایسی بات ہوئی ہے اور دِل دروازہجی سے مجموعہ ہائے کلام معرض وجود میں آئے۔
آپ کے ہزاروں بیانات آڈیو، وڈیو ریکارڈ شدہ ہیں۔ سی ڈیز وغیرہ دستیاب ہیں۔ کتب کے علاوہ بیشمار پمفلٹ ہیں کسی چیز پر رائلٹی نہیں لیتے۔
آپ الفلاح فاؤنڈیشن کے بانی ہیں جو پورے ملک میں عموماً اور شمالی علاقہ جات میں خصوصاً رفاہِ عامہ کی خدمات سر انجام دے رہی ہے۔
آپ صقارہ ایجو کیشن سسٹم کے بانی اور سرپرستِ اعلیٰ ہیں۔ صقارہ اکیڈمی جس کا افتتاح صدر جنرل ضیاء الحق صاحب نے کیا وہاں اقبال کے شاہینوں کی تربیت کی جاتی ہے ۔ صقارہ اکیڈمی دین اور علوم جدیدہ کا حسین امتزاج ہے۔
العلم علمان : علم الادیان وعلم الابدان کے مصداق spirtual ، نارمیٹو سائنسز کے علم اور فزیکل سائنسز کے علم کا شاہکار عملی نمونہ ہے۔
اس اکیڈمی کا " راولپنڈی بورڈ " میں ایک خاص مقام ہے۔ اکیڈمی کے تعلیم و تربیت یافتہ سول و آرمی کے اعلیٰ عہدوں پر ہیں نیز مختلف شعبہ ہائے زندگی میں قابل تقلید نمونہ کے حامل ہیں۔
لغات القرآن۔ المرسلات۔ چلنے والیاں۔ عرف۔ فائدہ پہنچانا۔ عصفت۔ تیز چلنے والیاں۔ نشرات۔ پھیلانے والیاں۔ فرقت۔ پھارنے والیاں۔ الملقیت۔ لانے والیاں۔ طمست۔ مٹا دی گئی۔ نسفت۔ ریزہ ریزہ کردی گئی۔ اقتت ۔ مقرر کی گئی۔ اجلت۔ ملتوی کردی گئی۔ یوم الفصل۔ فیصلے کا دن۔ ویل۔ خرابی ۔ بربادی۔ ماء مھین۔ حقیر پانی۔ کف... ات۔ اکٹھا کرنے والاشمخت۔ اونچے۔ فرات۔ میٹھا پانی ۔ ذی ثلث شعب۔ تین شاخوں والا ۔ ترمی۔ وہ پھینکتی ہے۔ جملت، صفر، ۔ زرد اونٹ۔ لا ینطقون۔ وہ نہ بولیں گے۔ یعتذرون۔ وہ عذر پیش کریں گے۔ ظلل۔ سائے۔ عیون (عین) ۔ چشمے۔ ای حدیث۔ کونسی بات۔ تشریح : سورة المرسلات کی ابتدائی چھ آیتوں میں ہواؤں اور ان پر متعین فرشتوں کی قسمیں کھا کر ارشاد فرمایا گیا ہے کہ قرآن کریم نے قیامت کے ہولناک دن کے متعلق جو بھی خبریں دی ہیں وہ اسی طرح واقع ہو کر رہیں گی۔ یہ دن کفار و مشرکین اور اللہ کے نافرمانوں کے لئے بہت سخت ہوگا اور اللہ کے فرماں بردار اہل ایمان بندوں سے فرمایا جائے گا کہ وہ دنیا میں زندگی بھر جو بھی اعمال کرتے رہے ہیں آج ان کے صلے اور بدلے میں وہ بہت اعلیٰ جنتوں سے ہر طرح عیش و آرام کا سامان حاصل کریں۔ فرمایا ان ہواؤں کی قسم جو نفع پہنچانے والی، زور سے چل کر طوفان بن جانے والی، بادلوں کو اٹھا کر پھیلانے والی، بادلوں کو جدا کرکے بکھیر دینے والی اور عذر سے یا ڈرواوے کے طور پر دلوں میں اللہ کی یاد کو تازہ کردینے والی ہیں وہ وعدہ جو تم سے کیا گیا ہے یعنی قیامت کا آنا وہ دن بہت جلد آنے والا ہے اور واقع ہر کر رہے گا۔ سارا نظام کائنات درہم برہم کردیا جائے گا۔ ستاروں سے روشنی چھین کر ان کو بےنور کردیا جائے گا، آسمان پھٹ جائیں گے، پہاڑ فضاؤں میں اڑتے پھریں گے۔ اس دن اللہ کے تمام پیغمبر اپنی امتوں کے معاملے میں گواہی دینے کے لئے حاضر ہوجائیں گے کہ انہوں نے اللہ کا پیغام ان تک پہنچا دیا تھا۔ یہ فیصلے کا دن ہوگا جو اللہ و رسول اور اس کے دین کو جھٹلانے والوں کے لئے بڑی تباہی و بربادی کا دن ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے نافرمانوں قوموں کے انجام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان لوگوں کو گزری ہوئی قوموں کے بدترین انجام سے عبرت حاصل کرنی چاہیے کہ جو لوگ دنیا کے ذرا سے مال و دولت پر اس قدر اترایا کرتے تھے اور ہر سچائی کے پیغام کو جھٹلا کر اپنے آپ کو بہت طاقت ور اور زور آور سمجھتے رہے تھے وہ اس دن کی ہولناکیوں کے سامنے نہایت بےبس اور عاجز نظر آئیں گے۔ ان کی آنکھیں پھٹی رہ جائیں گی۔ ان کے منہ پر ہیبت اور خوف سے تالے پڑجائیں گے اور وہ اپنی دلی کیفیات کا اظہار تک کرنے کے قابل نہ رہیں گے۔ اگر وہ کوئی عذر پیش کرنا چاہیں گے تو ان کو عذرپیش کرنے کی مہلت تک نہ مل سکے گی۔ فرمایا کہ انسان کس بات پر اتنا اتراتا اور غرور وتکبر کرتا ہے کبھی اس نے اپنی پیدائش پر غور کیا۔ وہ پانی کے ایک حقیر اور بےقدر قطرے سے پیدا نہیں کیا گیا ؟ اس کے نطفے کو ہم نے ایک محفوط مقام پر رکھ کر ایک خاص مدت میں رکھ کر جیتا جاگتا انسان نہیں بنایا ؟ فرمایا کہ کیا اس نے زمین کی پیدائش پر بھی کبھی غور کیا ہے کہ اللہ نے اس کو ہلنے اور حرکت سے بچانے کے لئے اس پر بوجھل پہاڑ بنائے۔ اسی زمین سے اللہ نے اپنی قدرت و حکمت سے میٹھا پانی پیدا کیا جس کو پی کر ہر جاندار زندہ رہتا ہے۔ زمین سر سبز و شادات رہتی ہے۔ اور آدمی اس سے ہر طرح کے فائدے حاصل کرتا ہے لیکن پھر بھی شکر ادا نہیں کرتا۔ انسان اور زمین کی پیدائش میں عبرت و نصیحت کے ہزاروں پہلو پوشیدہ ہیں۔ انسانی زندگی اور زمین پر اتار چڑھائو خود اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں کی کسی چیز کو قرار نہیں ہے آئے دن اس میں انقلاب آتے رہتے ہیں۔ اسی طرح کا ایک زبردست دھماکہ اور انقلاب اس کائنات کی تباہی کا سبب بھی بن جائے گا۔ اور قیامت آجائے گی۔ اس قیامت کے دن ان کفار سے کہا جائے گا کہ تم زندگی بھر جس قیامت کے دن کو جھٹلاتے رہے تھے وہ دن آگیا ہے اب تم دھوئیں گے کے اس سائبان کی طرف چلو جس کی تین شاخیں بن جائیں گی جس میں نہ سایہ ہوگا نہ وہ سایہ ان کو آگ کی لپیٹ سے بچا سکے گا۔ اس دھوئیں سے ایسی چنگاریاں نکل رہی ہوں گے جیسے بڑی بڑی بلڈنگیں یا زردی مائل کالے اونٹ ہیں۔ اس دن یہ کفار نہ سوال کرسکیں گے نہ ان کو عذر اور معذرت پیش کرنے کا موقع ملے گا ۔ کہا جائے گا کہ آج فیسلے کا دن آگیا ہے جس میں ہم نے اگلے پچھلے تمام لوگوں کو جمع کرلیا ہے۔ تم دنیا میں اللہ کے دین کو جھٹلانے کی ہر تدبیر کرچکے ہو۔ اب بھی اگر تمہارے اندر طاقت ہے تو یہاں بھی اپنی چالیں چل کر دیکھ لو لیکن تم اپنی چالوں میں کامیاب نہ ہوسکو گے۔ اللہ تعالیٰ نے سورة المرسلات میں بار بار ای ہی بات کو دھرایا ہے کہ اس فیصلے کے دن ان لوگوں کے لئے زبردست تباہی اور بربادی ہے جو اس کو اور اس کے دین کو جھٹلاتے رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس دن وہ لوگ عیش و آرام اور جنت کی راحتوں میں ہوں گے جنہوں نے خوف الٰہی کے ساتھ اپنے فرائض زندگی کو احسن طریقے پر پوری طرح ادا کیا ہوگا۔ وہ چشموں اور درختوں کی گھنی چھاؤں میں ہوں گے۔ ان کے لئے ہر طرح کی نعمتیں ہوں گی وہ اس جنت میں جو چاہیں گے بلا روک ٹوک ان کو عطا کیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا کہ آج تم پر کوئی پابندی نہیں ہے خوب کھائو، پیو اور عیش و آرام سے رہو۔ یہ ان کی نیکیوں کا صلہ ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ نیکو کاروں کو اسی طرح کا بدلہ دیا کرتے ہیں۔ کفار سے کہا جا رہا ہے کہ تم تھوڑے دنوں تک خوب کھا پی لو۔ فائدے حاصل کرلو لیکن اس بات کو یاد رکھو کہ تم اللہ کے مجرم ہو اور تم کسی رعایت کے مستحق نہیں ہو۔ کیونکہ جب تم سے یہ کہا جاتا تھا کہ تم اللہ کے سامنے جھکو تو تم اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے تھے کہ ہم جانوروں کی طرح جھکنے کو اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے قیامت کے دن فرمایا جائے گا کہ اگر تم دنیا میں اللہ کے سامنے اپنی گردنیں جھکا دیتے تو آج شرمندی سے تمہاری گردنیں نہ جھکتیں۔ فرمایا کہ یہ تمام باتیں ایسی سچائیاں ہیں کہ ان پر یقین کرنا چاہیے۔ اس کے باوجود بھی اگر یہ لوگ اللہ کی باتوں پر یقین نہیں کرتے تو پھر وہ کون سی بات ہوگی جس پر وہ ایمان لائیں گے ؟ Show more
نام : بصیرت قرآن
مترجم و مفسر : مولانا محمد آصف قاسمی
ناشر : مکتبہ بصیرت قرآن کراچی
مختصر تعارف :
زیر نظر تفسیر مولانا محمد آصف قاسمی مدظلہ کی تصنیف ہے، مولانا محمد آصف قاسمی، حضرت مولانا قاسم نانوتوی (رح) کے پڑپوتے ہیں اور کینیڈا میں مقیم ہیں۔ اور یہ تفسیری مجموعہ در اصل ان کے دروس قرآن ہیں۔ جنہیں بعد ازیں کیسٹوں سے سن کر تحریری شکل دی گئی۔ تفسیر کی خصوصیات خود مصنف کے اپنے الفاظ میں درج ذیل ہیں :
تفسیر بصیرت قرآن کی چند خصوصیات
1 ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس ترجمہ و تفسیر کے لکھنے میں میرا بنیادی جذبہ صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے راضی ہوجائیں اور اس کے صدقے میں میری مغفرت فرما دیں۔ اس سلسلہ میں میری حیثیت اس بڑھیا جیسی ہے جو مصر کے بازار میں سوت کا ایک گولہ لے کر اس جذبہ کے ساتھ آ گئی تھی کہ اس کا نام بھی یوسف کے خریداروں میں آجائے۔ کیا خبر کہ میری یہ ادنی سی کاوش و کوشش کل قیامت کے دن جب صحابہ کرام، علماء عظام اور بزرگان دین اپنا اپنا انعام حاصل کرے رہے ہوں تو ان کے صدقے میں مجھے بھی مغفرت و نجات کا پروانہ مل جائے۔
2 ۔ اس پوری تفسیر میں لفظ " خدا " نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لفظ خدا کہنے میں اللہ کی طرف سے کسی اجر و ثواب کا وعدہ نہیں ہے جب کہ لفظ اللہ قرآن کریم کا لفظ ہے اور حدیث سے ثابت ہے کہ قرآن کریم کے ایک ایک حرف پر دس نیکیاں عطا کی جاتی ہیں۔ اسی وجہ سے میں نے پوری تفسیر میں لفظ خدا لکھنے سے گریز کیا ہے۔
3 ۔ تفسیر میں اس بات کی پوری کوشش کی گئی ہے کہ آسان زبان میں بات کو سمجھایا جائے کیونکہ عام مسلمانوں کو شکوہ یہ ہے کہ تفسیروں میں اتنے مشکل الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں جن کے سمجھنے میں بڑی دشواری ور مشکل پیش آتی ہے لہذا میں نے زیادہ سے زیادہ سادہ الفاظ استعمال کرنے کی کوشش کی ہے اپنی اس کوشش میں کس حد تک کامیاب ہوا ہوں اس کا صحیح فیصلہ تو قارئین ہی کرسکتے ہیں۔
4 ۔ اس بات کی ممکن حد تک کوشش کی گئی ہے کہ فقہ حنفیہ کے مطابق بیان کیا جائے کیونکہ جب ہم مختلف فقہا کا مسلک بیان کرتے ہیں تو آسان پسند لوگ ہر فقہ سے اپنے مطلب کے مسائل نکال کر خود ہی فیصلے کرنے لگتے ہیں۔ چونکہ اس کی وجہ سے کافی الجھنیں پیدا ہو رہی ہیں اس لیے میں نے عام طور پر اسی قول کو نقل کیا ہے جو فقہ حنفی کے مطابق ہے۔
5 ۔ تفسیر کرنے میں میری کوشش یہ رہی ہے کہ جو آیت سامنے ہے اس کے مفہوم کو واضح کرکے بتادیا جائے تا کہ بات مختصر بھی ہو اور سمجھنے میں دشواری نہ ہو۔
6 ۔ ترجمہ کے ساتھ الفاظ قرآن کا الگ الگ ترجمہ بھی کردیا ہے تاکہ جو شخص قرآن کے ترجمہ و تفسیر کے ساتھ خود بھی ترجمہ سیکھنا چاہتا ہو وہ لغات القرآن اور تفسیر کے مطالعہ سے قرآن کریم کو با ترجمہ سیکھ سکے۔
7 ۔ پوری تفسیر میں میں نے اس بات کی کوشش کی ہے کہ اپنی رائے سے کوئی بات نہ لکھوں جہاں کوئی اختلافی مسئلہ ہوتا ہے اس میں مختلف مفسرین کی رائے پیش کردیتا ہوں کیونکہ ہمارے اکابر نے پوری زندگیاں لگا کر حق و صداقت کی باتوں پر تحقیق فرمائی ہے اور اس کو امت کے سامنے پیش کیا ہے۔ میں نے بھی ان ہی بزرگوں کے فیض سے روشنی حاصل کرکے ایک ادنی سی کوشش کی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرمائے ۔ آمین۔
ترجمہ و تفسیر بیان القرآن
سوفٹ وئیر میں شامل نسخہ تاج کمپنی کا ہی ہے۔
یہ ترجمہ وتفسیر مشہور دیوبندی عالم مولانا اشرف علی تھانوی المتوفی ١٩٤٣ء کا ہے جس کا پہلا ایڈیشن ١٩٠٨ء میں مطبع مجتبائی دہلی سے بارہ جلدوں میں طبع ہوا تب سے برابر چھپتا رہتا ہے۔ بعض ایڈیشن میں صرف ترجمہ ہی چھپتا ہے۔ قرآن شریف کے جو تراجم سب سے زیادہ چھپتے ہیں ان میں اس کا بہت اونچا مقام ہے۔ ترجمہ سلیس، سہل اور آسان ہے۔ تفسیر میں جن نواحی کو شامل کیا ہے اس سے عوام کم علماء زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ بعد ازاں انڈ و پاک میں لا تعداد مکاتب نے شائع کیا۔
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رح) کا نام کم سے کم برصغیر میں کسی صاحب علم کے لیے محتاجِ تعارف نہیں، آپ بلند پایہ فقہیہ، حدیث کے ذوق آشنا اور تصوف میں اپنے عہد کے گویا امام تھے، ایک خلقت کی اللہ نے آپ کے ذریعہ اصلاح فرمائی اور بڑے بڑے اہل علم وفضل آپ کے دامن تربیت سے وابستہ ہوئے، یہ تفسیر آپ ہی کی ہے اور آپ کی عمیق فکرونظر اور گہری بصیرت کی شاہد عدل ہے، آپ نے احباب کے بہت اصرار پر یہ تفسیر لکھی، جو تقریباً چھ سال کی مدت میں مکمل ہوئی اور پہلی بار ١٣٢٦ ھ میں " اشرف المطابع " تھا نہ بھون سے طبع ہوئی، اس تفسیر کی خصوصیات یہ ہیں : قرآن مجید کا نسبۃ آسان اور سلیس ترجمہ کیا ہے جو بامحاورہ ہونے کے باوجود الفاظِ قرآنی سے بھی پوری طرح ہم آہنگ ہے، دوسرے یہ کہ ترجمہ میں خالص محاورات استعمال نہیں کئے گئے ہیں؛ کیونکہ محاورات ہر جگہ ومقام کے الگ الگ ہوتے ہیں، ترجمہ شاہ رفیع الدین صاحب (رح) کے ترجمہ کے قریب ہے، تیسرے یہ کہ نفس ترجمہ کے علاوہ جس مضمون پر توضیح کی ضرورت تھی یا کوئی شبہ خود قرآن کے مضمون سے بظاہر پیدا ہوتا ہے اس جگہ " ف " بناکر اس کی تحقیق و وضاحت کردی گئی ہے، لطائف ونکات یاطویل وعریض حکایات وفضائل اور فقہی احکام کی تفصیلات سے تفسیر کو طویل نہیں کیا گیا ہے، چوتھے جس آیت کی تفسیر میں بہت سے اقوال مفسرین کے ہیں، ان میں جس کو ترجیح معلوم ہوئی صرف اس کو نقل کیا گیا ہے، پانچویں خلافیات کی تفسیر میں صرف مذہب حنفی کو لیا گیا ہے اور دوسرے مذاہب بشرط ضرورت حاشیہ میں لکھ دیئے گئے ہیں، چھٹے نفعِ عوام کے ساتھ افادہ خواص کا خیال کرتے ہوئے ایک حاشیہ عربی میں بڑھادیا گیا ہے، جس میں غیر مشہور لغات، وجوہ بلاغت، مغلق تراکیب، خفی استنباط، فقہیات وکلامیات اور اسباب نزول وغیرہ پر گفتگو کی گئی ہے، یہ نہایت ہی عالمانہ تفسیر ہے اور دینی مدارس کے اساتذہ وطلبہ کے لیے بہت ہی نفع بخش ہے؛ بلکہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ اردو کی " جلالین " ہے۔
مصنف کا تعارف :
نام نامی ولقب گرامی
نام نامی ” اشرف علی “ ہے، یہ نام اس زمانہ کے مقبول و مشہور مجذوب و بزرگ حضرت حافظ غلام مرتضیٰ صاحب پانی پتی رحمة اللہ علیہ نے تجویز فرمایا تھا۔ أپ کالقب ” حکیم الامت “ ہے، جسے عرصہ دراز سے حق تعالیٰ نے خواص و عوام میں القا فرمادیا ہے اور جو بلاد و اَمصار میں عام طور پر شائع و ذائع ہے۔
شرف نسب
حضرت حکیم الامت رحمة اللہ علیہ والد کی طرف سے فاروقی اور والدہ کی طرف سے علوی النسب ہونے کا شرف رکھتے ہیں۔ والد ماجد کا نام ” عبدالحق “ تھا، آپ قصبہ تھا نہ بھون ضلع مظفر نگر کے ایک مقتدر رئیس ، صاحب نقد و جائیدا د تھے۔ حضرت رحمة اللہ علیہ کی والدہ صاحبہ محترمہ بھی ایک باخدا اور صاحب نسبت بی بی تھیں، نیز ان کی عقل و فراست اور فہم و بصیرت کی تصدیق حضرت حافظ غلام مرتضیٰ صاحب مجذوب رحمة اللہ علیہ نے بھی فرمائی۔
وطن مالوف
حضرت حکیم الامت رحمة اللہ علیہ کا وطن مالوف قصبہ تھا نہ بھون ہے، جو ضلع مظفر نگر ہندوستان میں واقع ہے، اس کا اصل نام ” تھا نہ بھیم “ تھا، کیوں کہ یہ کسی زمانہ میں راجا بھیم کا تھا نہ تھا، کثرت استعمال سے تھا نہ بھون ہوگیا، البتہ جب مسلمان یہاں آکر آباد ہوئے تو شرفائے قصبہ کے بعض اجداد نے اپنے ایک فرزند ” فتح محمد “ کے نام سے اس کا نام ” محمد پور “ رکھا، جو کاغذات شاہی میں بھی پایا جاتا ہے، لیکن عام طور پر پرانا نام ” تھا نہ بھون “ ہی مشہور ہے۔
ولادت باسعادت
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ کی ولادت باسعادت 15 ربیع الثانی 1280 ھجری کو چار شنبہ کے دن بوقت صبح صادق ہوئی۔
بچپن کے حالات
حضرت رحمة اللہ علیہ بچپن ہی سے اعزہ و اقارب ، اپنوں اور بیگانوں سب میں محبوب رہے، بچپن میں شوخیاں بہت فرمائیں، مگر ایسی کوئی شرارت نہیں کی جس سے دوسروں کو تکلیف وایذا پہنچے ، شروع ہی سے نماز کا بہت شوق تھا، فرائض کے اہتمام کے علاوہ صرف 13-12 برس ہی کی عمر سے رات تہجد میں اٹھتے اور نوافل و وظائف پڑھا کرتے تھے۔
تحصیل علوم
حضرت حکیم الامت رحمة اللہ علیہ نے قرآن شریف زیادہ تر دہلی کے حافظ حسین علی رحمة اللہ علیہ سے حفظ کیا، البتہ شروع کے چند پارے ضلع میرٹھ کے آخون جی صاحب رحمة اللہ علیہ سے پڑھے تھے۔
ابتدائی فارسی میرٹھ میں مختلف استادوں سے پڑھی، پھر تھا نہ بھون میں فارسی کی متوسطات حضرت مولانافتح محمد صاحب رحمة اللہ علیہ سے پڑھیں اور انتہائی کتب اپنے ماموں واحد علی صاحب رحمة اللہ علیہ سے پڑھیں، جو ادب فارسی کے استاد کامل تھے۔ تحصیل عربی کے لیے دیوبند تشریف لیے گئے، وہاں بقیہ کتب فارسی مولانا منفعت علی صاحب دیوبندی رحمة اللہ علیہ سے پڑھیں۔ عربی کی پوری تکمیل دیوبند ہی میں فرمائی اور صرف 19 یا 20 سال کی عمر میں بفضلہ تعالیٰ فارغ التحصیل ہوگئے ۔
اساتذہ کرام
آپ کے تمام اساتذہ ہر فن ماہر ہونے کے ساتھ بڑے صاحب باطن اور کامل بھی تھے ، گویا ان میں ہر ایک غزالی اور رازی وقت تھا۔ اساتذہ کرام میں حضرت مولانا یعقوب صاحب، مولانا سید احمد صاحب، مولانا محمود صاحب، مولانا عبدالعلی صاحب اور حضرت شیخ الہند محمود حسن صاحب رحمھم اللہ شامل ہیں۔ قراءت کی مشق شہرہ آفاق قاری ، جناب قاری محمد عبداللہ صاحب مہاجر مکی رحمة اللہ علیہ سے بمقام مکہ معظمہ فرمائی۔
درس و تدریس
مروجہ علوم سے فراغت کے بعد حضرت حکیم الامت رحمة اللہ علیہ صفر 1301 ھ سے 1315 ھ تقریبا 14 سال تک کان پور میں مدرسہ فیض عام میں درس و تدریس میں مشغول رہے اور اپنے مواعظ حسنہ اور تصانیف مفیدہ سے وہاں کے مسلمانوں کو مستفید فرماتے رہے، علاوہ بریں افتاء کا کام بھی اپنے ذمہ لے رکھا تھا، 14 سال کے بعد اپنے پیرو مرشد کے حکم سے دوبارہ اپنے وطن تھا نہ بھون میں قیام پذیر ہوگئے۔
تلامذہ
قیام کان پور کے زمانہ میں نزدیک و دور کے صدہا طلبہ نے حضرت رحمة اللہ علیہ سے علوم فاضلہ حاصل کیے ، سب کا استقصا تو ممکن نہیں ، البتہ چند مخصوص حضرات قابل ذکر یہ ہیں : مولانا قاری محمد اسحاق صاحب برودانی، مولانا محمد رشید صاحب کان پوری ، مولانا احمد علی صاحب فتح پوری، مولانا صادق الیقین صاحب کرسوی، مولانا فضل حق صاحب الہ آبادی ، مولانا شاہ لطف رسول صاحب فتح پوری، مولانا حکیم محمد مصطفیٰ صاحب بجنوری، مولانا اسحاق علی صاحب کان پوری ، مولانامظہر الحق چاٹ گامی، مولانا سعید احمد اٹاوی ، حضرت مولانا ظفر احمد صاحب تھانوی ، مولانا سعید صاحب، مولانا مظہر علی صاحب تھانوی وغیرہ رحمھم اللہ کے علاوہ پاک ہند کے بیشمار حضرات نے حضرت رحمة اللہ علیہ سے فیض پایا ہے۔
حضرت حاجی صاحب سے بیعت اور خلافت و اجازت
1301 ھ میں حضرت حج کے لیے تشریف لیے گئے تو آپ کو حضرت حاجی صاحب رحمة اللہ علیہ سے بیعت ہونے کا شرف حاصل ہوا، 1310 ھجری میں دوسری بار حج کے لیے تشریف لے گئے اور اپنی طلب صادق اور حضرت شیخ کی منشا اور ان کی خواہش کے مطابق وہاں چھ ماہ قیام فرمایا۔ حضرت حاجی صاحب رحمة اللہ علیہ نہایت شفقت و محبت کے ساتھ اپنے مرید صادق کی تربیت باطنی کی طرف متوجہ ہوگئے اور وہ تمام علوم باطنی اور اسرار و رموز روحانی جو اللہ تعالیٰ نے ان کے قلب پاک پر وارد و القا فرمائے تھے حضرت کے قلب مصفیٰ میں منتقل فرماتے رہے ؛نتیجہ یہ ہوا کہ قلیل عرصہ میں حضرت شیخ کی توجہات خاص سے حضرت کا سینہ مبارک معارف و حقائق باطنی کا خزینہ اور انوار وتجلیات روحانی کا آئینہ بن گیا اور محبت حق سبحانہ وتعالیٰ اور محبت نبی الرحمہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوزو گداز رگ و پے میں سرایت کرگئے۔
بالآخر ہر صورت سے مطمئن ہو کر حضرت حاجی صاحب نے خلعت خلافت اور منصب ارشاد و ہدایت سے سرفراز فرمایا اور خلق اللہ کی راہ نمائی کے لیے تعلیم و تلقین کی اجازت مرحمت فرمائی اور فرمایا : ” میاں اشرف علی ! میں دیکھتا ہوں کہ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے تم کو تمام معاصرین پر خاص فضیلت عطا فرمائی ہی “ ،” ذلک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشآء “․
تھانہ بھون میں مستقل قیام
1310 ھجری میں کان پور سے سبک دوشی اختیار کرکے اپنے وطن تھا نہ بھون تشریف لائے اور اپنے شیخ کو اطلاع دی ، تو انہوں نے جواب میں فرمایا : ” بہتر ہوا آپ تھا نہ بھون تشریف لیے گئے ، امید ہے کہ آپ سے خلق کثیر کو فائدہ ظاہری و باطنی ہوگا اور آپ ہمارے مدرسہ اور خانقاہ کو ازسر نو آباد کریں گے، میں ہر وقت آپ کے حق میں دعا کرتا ہوں اور آپ کا مجھے خیال رہتا ہے “۔
چناں چہ حضرت رحمة اللہ علیہ نے حضرت حافظ محمد ضامن صاحب شہید، حضرت مولانا شیخ محمد صاحب اور حضرت حاجی امداد اللہ صاحب رحمھم اللہ کی خانقاہ میں مستقل سکونت اختیار کی اور خلق خدا کو مستفید فرمانے لگے۔
حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ کے چند مشہور خلفاء
(1) حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی رحمة اللہ علیہ (2) حضرت ڈاکٹر عبدالحئ صاحب عارفی رحمة اللہ علیہ (3) حضرت مولانا فقیر محمد صاحب رحمة اللہ علیہ (4) حضرت مولانا مسیح اللہ خان صاحب رحمة اللہ علیہ (5) مولانا ولی محمد صاحب بٹالوی رحمة اللہ علیہ (6) مولانا ابرارالحق صاحب حقی رحمة اللہ علیہ (7) حضرت مولانا رسول خان صاحب رحمة اللہ علیہ (8) حضرت مولانا کفایت اللہ شاہ جہان پوری رحمة اللہ علیہ (9) حضرت مولاناشیر محمد صاحب مہاجر مدنی رحمة اللہ علیہ (10) حضرت مولانا شاہ وصی اللہ رحمة اللہ علیہ (11) حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمة اللہ علیہ (12) حضرت مولانا علامہ سید سلیمان ندوی رحمة اللہ علیہ (13) حضرت مولانا عبدالغنی پھول پوری رحمة اللہ علیہ (14) حضرت مولانا محمد انوار الحسن صاحب کا کو روی رحمة اللہ علیہ (15) حضرت مولانا محمد موسیٰ سرحدی رحمة اللہ علیہ (16) حضرت مولانا سید مرتضیٰ حسن صاحب چاندپوری رحمة اللہ علیہ (17) حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحب کیمبل پوری رحمة اللہ علیہ (18) حضرت مولانا عبدالرحمن کان پوری رحمة اللہ علیہ (19) حضرت مولانا عبدالکریم گھمتھلوی رحمة اللہ علیہ (20) حضرت مولانا عبدالباری ندوی رحمة اللہ علیہ (21 ) حضرت خواجہ عزیز الحسن صاحب مجذوب رحمة اللہ علیہ۔
علوم دینیہ میں خدمات اور تصانیف
علوم دینیہ سے متعلق قرآن مجید کی تفاسیر میں احادیث سے استنباط میں، فقہ کی توجیہات میں، تصوف کی غایات میں ، جہاں عوام و خواص غلط فہمیوں اور غلط کاریوں میں مبتلا ہوگئے تھے، وہاں اس مجدّد عصر کی نظر اصلاح کار فرما نظر آتی ہے اور ان علوم کے ہر باب میں مفصل تصانیف موجود ہیں۔
حضرت حکیم الامت رحمة اللہ علیہ کی تصانیف کی تعداد تقریباً ایک ہزار سے متجاوز ہے، حضرت رحمة اللہ علیہ کی تمام تصانیف و تالیفات ، تمام مواعظ و ملفوظات ، تحریری و تقریری کارناموں کو ملاحظہ کیا جائے تو یہ بات نمایاں طور سے آشکار ا ہوتی ہے کہ دین مبین کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو حکیم الامت ، مصلح شریعت و طریقت کی اصلاحی و تجدید ی جدوجہد کے احاطہ میں نہ آیا ہو۔
وفات وتدفین
آخر عمر میں کئی ماہ علیل رہ کر 16 رجب المرجب 1362 بمطابق 20 جو لاائی 1943 ء کی شب آپ رحلت فرماگئے اور تھا نہ بھون میں آپ ہی کی وقف کردہ زمین ” قبرستان عشق بازاں “ میں آپ کی تدفین ہوئی۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون !
فہم القرآن ربط سورت : الدّہر کے آخر میں یہ ذکر ہوا ہے کہ انسان اپنی عجلت کی وجہ سے آخرت کے مقابلے میں دنیا کو ترجیح دیتا ہے اور آخرت کو فراموش کرتا ہے حالانکہ آخرت کی زندگی ہمیشہ ہمیش رہنے والی ہے۔ سورة المرسَلٰت کی ابتداء میں آخرت کے ابتدائی مراحل کا ذکر گیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں ... اور نعمتوں میں ہوا بھی اس کی عظیم نعمت اور اس کی قدرت کی زبردست نشانی ہے جو انسان اور ہر جاندار کے لیے اس قدر ناگزیر ہے کہ اس کے بغیر انسان اور ہر جاندار چند لمحوں کا مہمان ہوتا ہے۔ عام لوگ ہوا کو ایک جیسی جانتے اور دیکھتے ہیں۔ بیشک اپنی جنس میں ہوا ایک ہے لیکن اپنی کیفیت اور اثرات کے اعتبار سے ہوا کی کئی اقسام ہیں یہاں اس کی پانچ اقسام ذکر کی گئی ہیں یہ اپنے اپنے اثرات اور حیثیت کے اعتبار سے اتنی مؤثر ہیں کہ سینکڑوں میلوں پر محیط فضا اور موسم کو یکدم بدل کر رکھ دیتی ہیں۔ کیونکہ فضا کو بدلنے میں ہوا بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس لیے ہوا کے اثرات اور کیفیت کو اجاگر کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی الگ الگ کیفیت کا نام لے کر قسمیں اٹھائی ہیں تاکہ انسان کو اس بات کا احساس ہوجائے کہ جس ہوا اور فضا میں رہتا ہے وہ رب کی عظیم نعمت اور اس کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک بہت بڑی نشانی ہے اس لیے اس کی یوں قسمیں اٹھائی ہیں۔ قسم ہے ان ہواؤں کی جو مسلسل چلی جارہی ہیں، قسم ہے ان ہواؤں کی جو طوفان کی شکل اختیار کرتی ہیں، قسم ہے ان ہواؤں کی جو بادلوں کو فضا میں پھیلاتی ہیں، قسم ہے ان ہواؤں کی جو بھاری بھرکم بادلوں کو پھاڑ کر ٹکڑیوں میں تبدیل کردیتی ہیں، قسم ہے ان ہواؤں کی جو اپنی طوفانی کیفیت سے لوگوں کے دلوں میں اللہ کا خوف اور اس کی یاد پیدا کرتی ہیں۔ جیسا کہ گرمیوں میں ٹھنڈی ہوا لوگوں کے دلوں میں بارش کی طلب پیدا کرتی ہے اور آندھی کے منفی اثرات سے بچنے کے لیے لوگ اپنے رب کی پناہ مانگتے ہیں۔ موجودہ سائنس نے ہوا کے فوائد کو بہت حد تک اجاگر کردیا ہے، اس کے لیے سائنسدان بڑی محنت اور طویل تحقیق کا سفر طے کر کے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہوا کے ذریعے نر پودے کے اثرات مادہ پودوں تک پہنچتے ہیں اور ہوا کے سبب ہی ایک آدمی کی آواز ٹیوی اور ریڈیو کے ذریعے سینکڑوں میلوں تک سنائی دیتی ہے۔ تجربات کے ذریعے یہ حقیقت بھی واضح ہوگئی ہے کہ مختلف ہو ائیں اپنے اندر مختلف اثرات رکھتی ہیں، یہ بات بھی روز روشن کی طرح واضح ہے کہ مختلف علاقوں کی ہواؤں میں مدّت اور نمی کا تناسب بھی مختلف ہوتا ہے یہاں تک ہوا کی طاقت کا معاملہ ہے۔ اگر ہوا آندھی کی شکل اختیار کرجائے تو بڑے بڑے درخت اور مکانوں کو اڑا کر رکھ دیتی ہے، اگر ہوا ایک حد سے زیادہ تیز اور مسلسل چلے تو انسان کو سانس لینا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ بعض اہل تفسیر نے اس سورت کی ابتدائی پانچ آیات کی یہ تفسیر بھی کی ہے۔ ان الفاظ میں صرف صفات بیان کی گئی ہیں، یہ صراحت نہیں کی گئی کہ یہ کس چیز یا کن چیزوں کی صفات ہیں اس لیے مفسرین کے درمیان اس بات میں اختلاف ہے کہ آیا یہ پانچوں صفات ایک ہی چیز کی ہیں یا الگ الگ چیزوں کی ہیں اور یہ چیزیں کیا ہیں، ایک گروہ کہتا ہے کہ پانچوں سے مراد ہوائیں ہیں، دوسرا فریق کہتا ہے کہ پانچوں سے مراد فرشتے ہیں، تیسرا کہتا ہے کہ پہلے تین سے مراد ہوائیں ہیں اور باقی دو سے مراد فرشتے ہیں، چوتھی جماعت کہتی ہے کہ پہلی دو سے مراد ہوائیں اور باقی تین سے مراد فرشتے ہیں اور ایک گروہ کی رائے یہ بھی ہے کہ پہلے سے مراد عام ملائکہ اور دوسرے سے مراد عذاب کے ملائکہ اور باقی تین سے مراد قرآن مجید کی آیات ہیں۔ (تفہیم القرآن جلد ٦) (عَنْ عَآءِشَۃَ (رض) قَالَتْ مَا رَاَےْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ضَاحِکًا حَتّٰی اَرٰی مِنْہُ لَھَوَاتِہٖ اِنَّمَا کَانَ ےَتَبَسَّمُ فَکَانَ اِذَا رَاٰی غَےْمًا اَوْ رِےْحًا عُرِفَ فِیْ وَجْھِہٖ ۔ ) (رواہ البخاری : باب (فَلَمَّا رَأَوْہُ عَارِضًا مُسْتَقْبِلَ أَوْدِیَتِہِمْ قَالُوا ہَذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا بَلْ ہُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُمْ بِہِ ریحٌ فیہَا عَذَابٌ أَلِیمٌ) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کبھی کھل کھلا کر ہنستے نہیں دیکھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر مسکرایا کرتے تھے۔ آندھی یا بارش کے وقت خوف کے اثرات آپ کے چہرے پر نمایاں ہوتے تھے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے ہوا کی کئی اقسام بنائی ہیں۔ ٢۔ دنیا کے مختلف خطوں میں ہوا کے مختلف اثرات اور کیفیت ہوتی ہے۔ Show more
فہم القرآن
ہمارے سوفٹ وئیر میں ایک تفسیر " فہم القرآن " بھی شامل ہے جو ابوہریرہ اکیڈمی 37 ۔ کمرشل کریم بلاک اقبال ٹاؤن لاہور والوں کی شائع کردہ ہے اور اس کے مصنف میاں محمد جمیل بن میاں محمد ابراہیم ہیں۔ تفسیر کا مختصر تعارف پیش ہے۔۔
مصنف تفسیر کے آغاز میں " فہم القران اور اعتراف حقیقت " کے عنوان کے تحت رقمطراز ہیں :
رسولِ محترم e کی بعثت کے مقاصد میں سے مرکزی مقصد یہ بھی تھا کہ آپ قرآن کے مطابق لوگوں کے سامنے عملی نمونہ پیش کریں اور اپنی زبان اطہر سے قرآن مجید کی تشریح اور تفسیر فرمائیں۔ جس کو صحابہ کرام y نے آپ سے براہ راست سیکھا ‘ سمجھا اور اس پر عمل کیا۔ جہاں تک تفسیر قرآن کا تعلق ہے آپ نے حضرت عبداللہ بن عباس w کو قرآن فہمی کی دعا سے سرفراز فرمایا۔ حضرت عبداللہ بن عباس w اور صحابہ کرام y نے اپنی اولاد اور شاگردوں کو قرآن پڑھایا اور سمجھایا۔ اس طرح قرآن مجید کی تبلیغ تحریر ، تقریر اور تدریس کے ذریعے نسل در نسل جاری رہی تاآنکہ 270 ہجری میں جامع البیان کے نام پر علامہ ابو جعفر بن جریر طبری نے چالیس سال کی جدوجہد سے کتبات ‘ مسوّدات اور مختلف اہل علم سے استفادہ فرما کر تیس جلدوں پر محیط تفسیر جامع البیان لکھی جو تفسیر ابن جریر کے نام سے معروف ہے۔ ان کے بعد حافظ عماد الدین ابو الفداء اسمعیل بن کثیر المعروف امام ابن کثیر نے تفسیر ابن کثیر رقم فرمائی جو تمام مسالک کے نزدیک ممتاز اور منفرد تفسیر سمجھی جاتی ہے۔ بعد ازاں ہر دور اور ہر زبان میں قرآن مجید کی تفاسیر لکھی گئی ہیں۔ یہاں تک کہ برصغیر میں انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کی ابتدا میں تراجم اور تفاسیر کا بیشمار ذخیرہ اردو زبان میں پیش کیا گیا جو علمی اور اسنادی اعتبار سے عربی کے سوا تمام زبانوں میں لکھی جانے والی تفاسیر پر حاوی ہے۔ ماضی قریب میں تفہیم القرآن ‘ تدبر قرآن ‘ معارف القرآن ‘ تفسیر ثنائی ‘ تیسیرالقرآن ‘ ضیاء القرآن کے مؤلفین نے اپنے اپنے انداز اور نقطۂ نگاہ سے فرقانِ حمید کی تفسیریں لکھیں جو اردو زبان میں ممتاز تفاسیر شمار ہوتی ہیں۔
فہم القرآن اور اعترافِ حقیقت
تفسیر کا نام سورة الانبیاء کی آیت 79{ فَفَھَّمْنٰـھَا سُلَیْمٰنَ } سے لیا گیا ہے ۔ میں اس سچائی کا محض روایتی اور عاجزانہ نہیں بلکہ حقیقت پسندانہ اعتراف کرتا ہوں کہ خدمت قرآن کی چودہ سو سالہ تاریخ میں مجھ سے کم علم آدمی کوئی نہیں گزرا ہوگا کہ جس نے قرآن مجدی کے کسی پہلو پر قلم اٹھایا ہو۔ میں نے بزرگوں کی خوشہ چینی کے سوا کچھ نہیں کیا۔ میرے کام میں حسن و خوبی کا کوئی پہلو دکھائی دے تو وہ اللہ کے فضل و کرم کا نتیجہ اور متقدمین کی پر خلوص کوششوں کا ثمرہ ہے۔ کوتاہی اور کمزوری کو میری کم علمی اور کوتاہ فہمی تصور کرتے ہوئے آگاہ کیا جائے تاکہ اس کی تصحیح کی جائے ۔ اپنے مختصر تدریسی تجربہ اور تفاسیر کا مطالعہ کرتے ہوئے چند باتوں کی ضرورت محسوس کی جس بنا پر ضروری سمجھا کہ اگر درج ذیل باتیں تفسیر میں جمع کردی جائیں تو عوام الناس ‘ طلبہ اور مبتدی خطباء کے لیے نہایت مفید اور بہتر ہوگا۔
(١) ۔ لفظی اور بامحاورہ ترجمہ (٢) ربطِ کلام (٣) ۔ ہر آیت کے الگ الگ مسائل کا بیان
(٤) ۔ تفسیر بالقرآن کے حوالے سے ہر آیت کے مرکزی مضمون سے متعلقہ چند آیات جمع کرنا۔
اللہ تعالیٰ اسے قبولیت کے شرف سے نوازے اور تعاون کرنے والوں کے لیے توشۂ آخرت بنائے۔ آمین یا رب العٰلمین۔
نوٹ : (قاری حضرات سے گزارش ہے کہ وہ لفظی ترجمہ کی بجائے رواں ترجمہ سے استفادہ کریں کیونکہ لفظی ترجمہ میں باہم ربط نہ ہونے کی وجہ سے الجھن پیش آسکتی ہے ۔ لفظی ترجمہ تعلیم و تعلم کے لیے زیادہ مفید ہوتا ہے ۔ )
مفسّر کا تعارف
میاں محمد جمیل بن میاں محمد ابراہیم گوہڑ چک 8 پتو کی (قصور) اپریل 1947 ء آرائیں فیملی میں پیدا ہوئے۔ حفظِ قرآن اور سکول کی تعلیم اپنے گائوں میں حاصل کی۔ تجویدِ قرآن جامعہ محمدیہ اور درس نظامی کی تعلیم جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ سے پائی بعد ازاں وفاق المدارس کیا اور دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ ایم۔ اے اسلامیات اور فاضل اردو کی ڈگریاں حاصل کیں۔ فراغت ِ تعلیم کے بعد لاہور میں کاروبار کرنے کے ساتھ ساتھ جون 1986 ء میں جامع مسجد ابوہریرہ (رض) کی بنیاد کریم بلاک اقبال ٹائون میں رکھی اور اعزازی خطابت کی ذمہ داری سنبھالی۔ 1997 ء میں ابوہریرہ (رض) شریعہ کالج کا آغاز کیا جو اب تک ملک میں واحد ادارہ ہے جس میں طلبہ کو چار سال میں درس نظامی اور بی ۔ اے (Compulsoy) کروایا جاتا ہے۔ 1987 ء میں مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے سیکرٹری اطلاعات اور 1996 ء سے لے کر 2002 تک مرکزی جمعیت اہلحدیث کے سیکرٹری جنرل رہے۔ سیکرٹری شپ کا دوسرا ٹینور پورا ہونے پر آئندہ ذمہ داری سنبھالنے سے معذرت کی اور اپنے آپ کو تعلیم و تصنیف کے لیے وقف کیا۔ دیگر کتب تحریک کے بارے میں تالیف کرنے کے بعد 2005 ء میں تفسیر فہم القرآن لکھنے کا آغاز کیا۔ ہر سال پانچ پاروں پر مشتمل منظر عام پر منظر عام پر آتی رہی اور الحمدللہ 6 سال کے عرصہ میں مکمل ہوئی اور زیور طباعت سے آراستہ ہوئی ۔ اس تفسیر کی اہم خصوصیات یہ ہیں۔
١۔ تفسیر رازی، ابن کثیر ، تفہیم القرآن، ضیاء القرآن، معارف القرآن اس کے علاوہ دیگر عربی تفاسیر کے اہم نکات پر مشتمل ہے۔
٢۔ لفظی ترجمہ کے ساتھ ساتھ سلیس بامحاورہ ترجمہ جو دل میں اتر جائے۔
٣۔ علم وادب کا مرقع اور ہر آیت کی تفسیر حدیث رسول e کے ساتھ ہے۔
٤۔ ہر آیت کے الگ الگ مسائل کی نشاندہی جو ذہن پر منقش ہوجائیں۔
٥۔ آیت کے مرکزی مضمون کی تفسیر دیگر آیات کے ساتھ ایک مکمل تقریر جو علماء اور لیکچرار حضرات کے لیے عظیم تحفہ ہے۔
والمرسلت ........................................ لواقع مسئلہ دراصل وقوع قیامت کا ہے۔ مشرکین مکہ کے لئے اس کا سمجھنا مشکل ہورہا تھا کہ آیا یہ کس طرح واقع ہوگی۔ قرآن کریم نے اس مسئلہ کو مختلف اسالیب میں ، مختلف دلائل و شواہد کے ساتھ بیان فرمایا۔ یہ مسئلہ ان لوگوں کے ذہن میں اٹھانا بہت ہی ضروری تھا ... ، اس لئے کہ اس کے سوا اسلامی نظریہ حیات ان کے ذہن میں بیٹھ ہی نہ سکتا تھا۔ اور نہ ان کی زندگی کی قدریں صحیح طرح متعین ہوسکتی تھیں۔ اور نہ زندگی کے اصول اور فروغ وضع ہوسکتے تھے۔ تمام آسمانی کتب اور عقائد میں وقوع قیامت کا عقیدہ پہلا زینہ رہا ہے۔ دراصل انسانی زندگی کی اصلاح اور صحیح تعمیر اس کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ انسان کی زندگی اور اس کے اعمال کا دارومدار اسی عقیدے پر ہے۔ انسانی زندگی کے مختلف پہلوﺅں کو صرف اس عقیدے کے ذریعہ ہی درست کیا جاسکتا ہے۔ اور انسان کے لئے صحیح قیامت کی جوابدہی کے تصور ہی سے کی جاسکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اس عقیدے کو عربوں کے ذہن میں بٹھانے کے لئے اس قدر طویل جدوجہد کی تاکہ وہ اس پر اچھی طرح یقین پیدا کرلیں۔ سورت کے آغاز میں اللہ کی قسم اٹھاتا ہے کہ آخرت کا وعدہ پورا ہونے والا ہے۔ اور قسم کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ جن امور پر اللہ نے قسم اٹھائی ہے وہ بھی غیبی حقائق ہیں۔ ایسی قوتیں ہی پوشیدہ ہیں اور اس کائنات کے نظام میں وہ بہت ہی موثر ہیں جس طرح انسانی زندگی کے اندر بھی موثر ہیں۔ سلف صالحین نے ان کے مفہوم کے تعین میں اختلاف کیا ہے۔ بعض نے یہ کہا ہے کہ ان تمام الفاظ سے مراد ہوائیں ہیں ، بعض نے کہا کہ ان سے مراد ملائکہ ہیں۔ بعض نے کہا کہ بعض الفاظ سے مراد ہوائیں ہیں اور بعض سے مراد ملائکہ ہیں۔ ان تعبیرات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مفہوم اور مدلول بہرحال مجمل اور پوشیدہ ہے۔ اور یہاجمال ، غموض اور عدم وضاحت اس حقیقت کے زیادہ مناسب ہے۔ جس پر قسم اٹھائی جارہی ہے کیونکہ وہ بھی غیبی حقیقت ہے اور جس طرح وہ چیزیں جن کی قسم اٹھائی جارہی ہے ، خواہ فرشتے ہوں یا ہوائیں ہوں ، انسانی زندگی میں موثر ہیں۔ اسی طرح قیامت بھی انسانی زندگی میں موثر ہوگی۔ والمرسلت عرفا (1:77) ” قسم ہے ان کی جو پے درپے بھیجے جاتے ہیں “۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ان سے مراد ملائکہ ہیں۔ مسروق ، ابوالضحیٰ ، مجاہد سے ایک روایت کے مطابق : سدی ، ربیع ابن انس ابو صالح (ایک روایت کے مطابق) سے بھی ایسی ہی روایت ہے۔ اس صورت میں معنی یہ ہوگا کہ قسم ہے ان فرشتوں کی جن کو احکامات الٰہیہ کے ساتھ پے درپے بھیجا جاتا ہے۔ جس طرح گھوڑے کی گردن کے بال (ایال) لمبے اور مسلسل ہوتے ہیں۔ ایک لائن میں اسی طرح یہ فرشتے پے درپے آتے ہیں۔ یہی بات انہوں نے عاصفات ، ناشرات ، فارقات اور ملقلیت کے بارے میں کہی ہے کہ ان سے مراد فرشتے ہیں۔ اور حضرت ابن سعود سے روایت ہے کہ المرسلات عرفا سے مراد ہوئیں ہیں ، اس صورت میں معنی یہ ہوگا کہ وہ مسلسل اور پے درپے چلتی ہیں جس طرح گھوڑے کے ایال چلتے ہیں۔ یہی رائے انکی عاصفات اور ناشرات کے بارے میں ہے۔ حضرت ابن عباس ، مجاہد ، قتادہ اور ابوصالح نے (ایک روایت کے مطابق) بھی اس کی تائید کی۔ ابن جریر نے المرسلات کے بارے میں توقف کیا ہے کہ اس سے مراد ملائکہ ہیں یا ہوائیں اللہ ہی جانتا ہے۔ لیکن عاصفات سے انہوں نے قطعاً مراد ہوائیں لی ہیں۔ یہی بات انہوں نے ناشرات کے بارے میں کہی کہ یہ ہوائیں ہیں جو بادلوں کو بکھیرتی ہیں۔ اور حضرت ابن مسعود سے روایت ہے (الفارقات فرقا ، الملقیات ذکرا ، عذرا ونذرا) سے مراد فرشتے ہیں۔ یہی رائے حضرت ابن عباس ، مسروق ، مجاہد ، قتادہ ربیع ابن انس ، سدی اور ثوری سے منقول ہے۔ اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ یہ فرشتے اللہ کے احکام لے کر رسولوں پر آتے ہیں اور حق و باطل کے درمیان فرق کرتے ہیں۔ رسولوں پر وحی کا القا کرتے ہیں ، جس کے اندر لوگوں کے لئے ذرا اوالورا تمام حجت ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ ان الفاظ یا ان کے اس مفہوم کو ارادتاً مجہول رکھا گیا ہے جس کی قسم اٹھائی گئی ہے مثلاً (الذاریات ذروا) اور (النازغات غرقا) کے مفہوم کو ارادتاً مجمل رکھا گیا ہے۔ نیز متقدمین نے ان کے مفہوم میں جو اختلاف کیا ہے یہ بھی دلیل ہے اس امرپر کہ ان الفاظ کے مفہوم مقسم بہ کو مہم رکھا گیا ہے اور ان مقامات پر ابہام اصل مقصود تھا۔ لہٰذا اشاراتی انداز ہی اس مقام پر زیادہ موزوں ہے۔ یہ الفاظ اور ان کی مبہم اشارات اور ان کا تسلسل اور ترنم اور ان کی پدا کردہ فضا انسانی شعور کے اندر ایک ارتعاش پیدا کرتی ہے۔ اور یہ ارتعاش اور کام ابھارنا اس سورت کے موضوع اور سورت کے رخ کے ساتھ زیادہ ہم آہنگ ہیں۔ اس سورت کا ہر مقطع دراصل انسان کو ایک شدید جھٹکا دیتا اور جھنجھوڑتا ہے کہ باز آجاﺅ ان بداعمالیوں سے اور اللہ کی ظاہر اور باہر اور حقیقی آیات ونشانات کا انکار نہ کرو۔ اور اگر تم باز نہیں آتے تو پھر تکذیب پر اصرار کرنے والوں کے متعین انجام کے لئے تیار ہوجاﺅ۔ ویل ............................ للمکذبین ” اس دن انکار کرنے والوں کے لئے ہلاکت ہے “۔ اس کے بعد انسانی فکر ونظر اور شعور کو ایک شدید جھٹکا دیا جاتا ہے کہ جب وہ دن آئے گا جس کا تمام رسولوں کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے۔ جس دن تمام رسول اپنی کارکردگی پیش کریں گے اور جس دن لوگوں کی اعمال کے فیصلے ہوں گے تو وہ کیسا دن ہوگا۔ Show more
مصنف کے حالات :
سید قطب 1902 ء میں مصر کے ایک صوبہ اسیوط کے ایک گاؤں موشاء میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام حاجی قطب ابراہیم اور والدہ کا نام فاطمہ حسین عثمان تھا۔ دونوں عربی النسل تھے۔ سید قطب اپنے والدین کے سب سے بڑے لڑکے تھے۔
آپ نے ثانوی تعلیم تجہیزیہ دار العلوم نامی ایک اسکول میں حاصل کی۔ اس اسکول میں طلباء کو دار العلوم میں داخلہ کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ وہاں سے فارغ ہوکر آپ 1929 میں قاہرہ کے دار العلوم میں داخل ہوئے۔ 1933 میں آپ نے بی۔ اے کی ڈگری اور ڈپلومہ ان ایجوکیشن حاصل کیا۔ تعلیم سے فراغت کے بعد آپ نے محکمہ تعلیم میں بحیثیت انسپکٹر تعلیم ملازمت اختیار کرلی اور 1952 ء تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ اسی دوران 1954 ء میں آپ اخوان المسلمون سے متعارف ہوئے۔ اور 2 جولائی 1954 ء میں آپ کو اخوان کے شعبہ نشر و اشاعت نے اخبار الاخوان المسلمون کا ایڈیٹر مقرر کیا۔
شہید اسلام سید قطب 1954 سے لے کر 1964 تک جیل میں رہے اور اگست 1964 ء میں مرحوم عبدالسلام عارف صدر عراق کی کوششوں سے رہا ہوئے۔ رہا ہوتے ہی پوری دنیا کے نوجوانوں نے آپ کی طرف رجوع کیا اور آپ کا لٹریچر جنگل کی آگ کی طرح پوری دنیا میں پھیلنے لگا۔ چناچہ لادین مغرب پرست کمیونسٹ اور سوشلسٹ عناصر چیخ اٹھے اور بیک وقت ماسکو اور واشنگٹن سے ان کے خلاف سازشیں ہونے لگیں۔ چناچہ آپ کو ایک سال بعد اگست 1965 ء میں دوبارہ گرفتار کرلیا گیا اور ایک سال بعد 29 اگست 1966 ء میں آپ کو شہید کردیا گیا۔ اللہ آپ کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔
قیامت ضرور واقع ہوگی، رسولوں کو وقت معین پر جمع کیا جائے گا، فیصلہ کے دن کیلئے مہلت دی گئی ہے مذکورہ بالا آیات میں ہواؤں کی قسمیں کھائیں اور قسمیں کھا کر یہ بتایا کہ تم سے جس چیز کا وعدہ کیا جا رہا ہے وہ چیز ضرور واقع ہوگی یعنی قیامت ضرور ہی آئے گی انکار کرنے سے ٹلنے والی نہیں ہواؤں کی جو قسمیں کھ... ائیں اس میں دونوں قسم کی ہوائیں مذکور ہیں۔ فائدہ پہنچانے والی بھی اور ضرر دینے والی بھی۔ بادلوں کو لانے والی فائدہ پہنچانے والی ہیں اور تیزی اور تندی سے چلنے والی تکلیف پہنچانے والی ہیں پہلی ہوائیں شکر ادا کرنے کا ذریعہ ہیں اور خوفناک ہوائیں اللہ کی گرفت اور نعمت یاد دلانے والی ہیں انسان کو دنیا میں دونوں حالتیں پیش آتی ہیں۔ اسے سمجھ لینا چاہیے کہ قیامت کا دن آنے والا ہے اس روز شکر کا ثواب ملے گا اور توبہ کرنے والوں کو فائدہ پہنچے گا۔ Show more
نام : انوار البیان فی کشف اسرار القرآن
مترجم و مفسر : حضرت مولانا مفتی محمد عاشق الہی مہاجر مدنی (رح)
ناشر : نوید احمد خاں۔ مکتبہ زکریا۔ رحمان پلازہ مچھلی منڈی اردو بازار لاہور۔
زیر نظر نسخہ : اشاعت اول۔ 2009 ء۔ 1430 ھ
کتاب کا مختصر تعارف :
" ایزی قرآن و حدیث " میں شامل چھ جلدوں پر مشتمل ایک اہم اردو تفسیر حضرت مولانا عاشق الہی بلند شہری (رح) کی بھی ہے۔ اس کا مختصر تعارف ، امتیازی خصوصیات اور سبب تالیف انہی کے اپنے الفاظ میں درج ذیل ہے :
" اما بعد ! 1374 ھ یا 1375 ھ کی بات ہے کہ راقم الحروف کلکتہ میں مقیم تھا۔ وہاں میعادی بخار میں مبتلا ہوگیا اور شدت تکلیف کے باعث ایک رات ایسی گزری کہ صبح تک زندہ رہ جانے کی امید نہ تھی، میں نے اللہ جل شانہ سے ناز کے انداز میں عرض کردیا کہ اے اللہ ! میں ابھی مر رہا ہوں حالانکہ میں نے ابھی تفسیر بھی نہیں لکھی، اللہ جل شانہ کا فضل ہوا کہ میں اچھا ہوگیا، اور اس کے بعد سے کبھی شدید بیماری میں بھی مبتلا نہیں ہوا، لیکن تدریسی مشاگل کے باعث اور دوسری چھوٹی موٹی تالیفات میں لگنے کی وجہ سے تفسیر لکھنے کا موقعہ نہیں آیا، اب جبکہ عمر ستر سال کے قریب پہنچ گئی تو موت کا ڈر لاحق ہوا، اور ساتھ یہ فکر دامنگیر ہوئی کہ تفسیر لکھنے کا وعدہ جو اللہ جل شانہ سے کیا تھا وہ پورا کرنا چاہیے، تفسیر لکھنا شروع کردیا، مجھے علم بھی زیادہ نہیں ہے، جگہ جگہ مشکلات پیش آئیں اللہ جل شانہ سے دعائیں کی، مشکلات حل ہوتی گئیں اور برابر شرح صدر ہوتا گیا اگر کوئی شخص یہ سوال کرے کہ اردو میں اکابر کی متعدد تفسیریں موجود ہیں تجھے نئی تفسیر لکھنے کی کیا ضرورت تھی ؟ تو میں اس کا جواب دینے سے قاصر ہوں البتہ مجھے اپنے طور پر اس بات کی خوشی ہے کہ میری عمر کے آخری چند سال قرآن کریم کی خدمت میں خرچ ہوگئے، عام فہم اردو زبان میں شرح اور بسط کے ساتھ قرآن مجید کے معانی اور مطالب بیان کردئیے ہیں اور ساتھ ہی مسلمانوں کو جگہ جگہ جھنجھوڑا بھی ہے کہ قرآن مجید کا تم سے کیا مطالبہ ہے اور تمہاری اجتماعی وانفرادی زندگی کس رخ پر ہے، کوشش کی ہے کہ تفسیر و حدیث کے اصل ماخذ کی طرف رجوع کیا جائے، اور تفسیر القرآن بالقرآن، اور تفسیر القرآن بالحدیث کو اختیار کیا جائے۔ یہ تفسیر انشاء اللہ ہر طبقہ کے مسلمانوں کے لیے مفید ہوگی۔ لیکن خصوصیت کے ساتھ ترجمہ اور تفسیر پڑھنے والے طلبہ کی زیادہ رعایت کی گئی ہے۔ سبب نزول لکھنے کا خاص اہتمام کیا گیا ہے۔ اور کوشش کی گئی ہے کہ ترجمہ تحت اللفظ ہو اور بامحاورہ بھی، میری کوشش انشاء اللہ تعالیٰ کامیاب ہے۔ اللہ جل شانہ سے امید کرتا ہوں کہ اس تفسیر کو شرف قبولیت بخشے، اور اپنے بندوں میں بھی قبولیت عامہ عطا فرمائے ۔ آمین
کچھ مصنف کے بارے میں
حضرت مولانا عاشق الہی بلند شہری مہاجر مدنی ، اتر پر دیش، انڈیا کے ایک شہر بلند شہر میں ، 1343 ھجری میں پیدا ہوئے ۔
آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم مدرسہ امدادیہ مرادآباد اور جامی مسجد علی گڑھ میں مکمل کی۔
مکمل دینی تعلیم مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور سے حاصل کی۔
آپ نے مدرسہ حیات العلوم فیروز پور اور کلکتہ کے کئی مدارس میں تدریس کی خدمت سر انجام دی۔
بعد ازاں ، مفتی محمد شفیع (رح) کی درخواست پر دارالعلوم کراچی تشریف لے آئے ۔ اور یہاں کئی سال تک شیخ الحدیث ، شیخ التفسیر کے طور پر تدریس کی، اور دارالافتاء میں بھی نمایاں کام کیا۔
چند سال بعد آپ مدینہ منورہ منتقل ہوگئے جہاں آپ نے اپنی زندگی کے آخری 25 سال گزارے ۔
آپ کی وفات 1999 میں ہوئی اور آپ جنت البقیع میں مدفون ہیں۔
آپ کی متعدد تصانیف ہیں جن میں سے مشہور کتب ۔ انوار البیان، زاد الطالبین ، فوائد الثنیہ فی شرح علوم النبویہ اور تسہیل الضروری شرح قدوری ہیں۔
2:۔ ” والمرسلات عرفا “ مرسلات اور باقی الفاظ سے بعض نے فرشتے مراد لیے ہیں اور بعض کے نزدیک ان سے ہوائیں مراد ہیں۔ امام ابن کثیر (رح) فرماتے ہیں زیادہ ظاہر یہی ہے۔ والاظہر ان المرسلاتھی الریاح الخ (ابن کثیر ج 4 ص 459) ۔ حضرت ابن مسعود، ابن عباس، مجاہد، قتادہ اور ابو صالح رحمہم اللہ سے بھی منقول ہے۔ (... ایضاً ) ۔ ” عرفا “ حال ہے بمعنی متتابعۃ (کبیر) ۔ یا ” عرفا “ سے احسان و معروف مراد ہے (بیضاوی) ۔ قسم ہے ان ہواؤں کی جو چھوڑی جاتی ہیں احسان و معروف کے ساتھ، مراد رحمت کی ہوائیں ہیں جو نرم و خنک ہوتی ہیں۔ ” فالعصفت عصفا “ پھر قسم ہے ان ہواؤں کی جو نہایت تند ہوتی ہیں۔ ” والنشرات نشرا “ قسم ہے ان ہواؤں کی جو بادلوں کو لے کر چلتی ہیں۔ ” فالفرقت فرقا “ پھر بادلوں کو تقسیم کردیتی اور جدا جدا کردیتی ہیں۔ ” فالملقیت ذکرا “ پھر ڈالنے والی ہیں نصیحت کو۔ ان ہواؤں میں بھی عبرت اور نصیحت ہے جس طرح یہ ہوائیں نرم بھی چلتی ہیں اور تند بھی۔ رحمت بھی لاتی ہیں اور عذاب بھی، بس ان شواہد کو دیکھ کر سمجھ لو کہ آخرت میں بھی کسی کے ساتھ نرمی ہوگی اور کسی کے ساتھ سختی ہوگی کوئی مورد رحمت ہوگا اور کوئی مورد عذاب۔ ” عذرا “ واسطے دفع کرنے عذر کے تاکہ کوئی عذر نہ کرسکے اس لیے دنیا میں اس کا نمونہ بتا دیا تیا۔ ” نذرا “ کافروں کو ڈرانے کے لیے۔ اگر کفار بارش کو سیاروں سے منسوب کردیں تو ہوائیں بھی ان کے عذاب کا سبب بن جاتی ہیں۔ ” نذرا للکافر تخویفا لہم والریاح سبب لوعید الکفار بالعذاب اذا اسندوا المطر الی النواء مثلا (مظہری ج 10 ص 165) ۔ ” انما توعدون لواقع “ یہ جواب قس ہے۔ یہ شواہد اس کی دلیل ہیں کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے یعنی ثواب و عذاب وہ ضرور واقع ہوگا یہ سورت کا دعوی ہے علی سبیل الترقی۔ Show more
حضرت مولانا غلام اللہ خان
حضرت مولانا غلام اللہ خان صاحب (رح)
خاندان : آپ 1909 ء کو جناب فیروزخان صاحب کے گھر ” وریہ “ متصل حضرو ضلع کمیلپور میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والدصاحب دیندار اورگاؤں کے نمبردار تھے ۔ قومیت کے لحاظ سے ” اعوان “ ہیں۔ تعلیم : حضروہائی سکول سے مڈل کا امتحان پاس کیا اور پھر دینی طلباء کو دیکھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کا شوق پیدا ہوا۔ پہلا سے ابتدائی فارسی اور صرف ونحو کی کتابیں پڑھیں ۔ پھر شاہ محمد ہری پور ہزارہ میں مولانا سکندر علی صاحب اور انکے بڑے بھائی مولانا محمداسماعیل صاحب ساکن کو کل ، ہزارہ سے مختلف کتب کا درس لے، فنون کی کتابیں مولانا عبداللہ پٹھو اورمولانا محمد دین صاحب سے پڑھیں، پھر انہی ضلع گجرات کے مولانا غلام رسول صاحب اور ان کے داماد مولانا ولی اللہ صاحب سے معقولات کی آخری کتابیں پڑھیں، مشکوٰۃ ، جلالین ، بیضاوی اور ترجمہ قرآن کریم بھی یہیں پڑھا۔ بعدا زاں حضرت مولانا حسین علی صاحب (رح) ساکن واں بچھراں ضلع میانوالی کی خدمت میں پہنچے ۔ ان سے تفسیر قرآن کریم کا درس لیا اور انہی کے ارشاد پر دارالعلوم دیوبند کیلئے رخت سفر باندھا۔ امتحان داخلہ حضرت مولانا رسول خان صاحب ہزاروی (رح) نے لیا۔ وہاں زیادہ تر علم ادب کی کتابیں پڑھیں ۔ پھر ڈابھیل پہنچے اور وہاں 1933 ء میں دورۂ حدیث پڑھ کر سند الفراغ حاصل کی، پھر حضرت علامہ محمدانور شاہ کشمیری (رح) کے ارشاد پر آپ وہاں ایک سال بطور معین درس پڑھاتے رہے ، اسی دوران اپنے شیخ حضرت مولانا حسین علی صاحب (رح) کے ارشاد پر واپس آگئے اور مدرسہ ” برکات الاسلام “ وزیر آباد میں تدریس پر مامور ہوئے اور ایک عرصہ تک معقولات و منقولات کی تدریس کرتے رہے۔ پھر شیخ عبدالغنی صاحب آپ کو 1939 ء میں وزیرآباد سے راولپنڈی لے آئے ۔ یہاں پانچ سات ماہ تک ہائی سکول میں کام کیا ، اسی دوران لوگوں کی استدعا پر پرانے قلعہ کی مسجد میں مشروط خطابت قبول کی کہ تنخواہ نہیں لوں گا ۔ سکول چھوڑ کر مسجد میں درس شروع کردیا اور مختلف جگہ تقاریر کے علاوہ درس قرآن کریم کا سلسلہ شروع کیا ۔ پہلی مرتبہ جب دورۂ تفسیر شروع کیا تو کل نو طالب علم تھے پھر رفتہ رفتہ حلقہ بڑھتا گیا اور اب تک پاکستان کے ممتاز دارالعلوم میں شمار ہے ۔
(1) قسم ہے ان ہوائوں کی جو خلق کی نفع رسانی کے لئے بھیجی جاتی ہیں۔
نام : کشف الرحمن فی تفسیر القرآن
مصنف : حضرت مولانا احمد سعید دہلوی (رح)
ناشر : مکتبہ رشیدیہ۔ کراچی
یہ تفسیر مصنف کی اٹھارہ سالہ محنت کا نتیجہ ہے۔ اس کے مصنف پاک و ہند کے مشہور عالم سحبان الہند مولانا احمد سعید دہلوی (رح) ہیں۔ ترجمہ کا نام کشف الرحمن اور تفسیر کا نام تیسیر القرآن ہے۔ موصوف کی یہ تفسیر شستہ زبان، عام فہم طرز اداء اور اپنی خصوصیات کے اعتبار سے نہایت قابل قدر ہے، اور ممتاز حیثیت رکھتی ہے۔ مصنف نے اس ترجمہ اور تفسیر کی تالیف میں بہت محنت کی ہے اور بڑی بڑی معتبر کتابوں کی زمانہ دراز تک ورق گردانی کرکے یہ ذخیرہ جمع کیا ہے اور اس کو ایسے طریقے پر مرتب کیا ہے کہ ہر طقبہ کے لوگ اس سے مستفید ہوسکیں، یہ اہل علم کے لیے بھی مفید ہے اور عوام کے لیے بھی، بڑی خوبی اس میں یہ ہے کہ زبان کو آسان اور سہل کرنے کے ساتھ ساتھ سلفِ صالحین کے مسلک کو بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور زبان کی شگفتگی کو بھی برقرار رکھا۔
مصنف کا تعارف :
سحبان الہند حضرت مولانا احمد سعید دہلوی ربیع الثانی 1306 ہجری بمطابق دسمبر 1888 ہجری میں پیدا ہوئے۔
ابتدائی تعلیم مولانا عبدالمجید مصطفیٰ آبادی مرحوم سے حاصل کی، اور تکمیل حفظِ قرآن کی دستار بندی مدرسہ حسینیہ دلی میں ہوئی۔
اعلی تعلیم مدرسہ امینیہ میں حاصل کی۔ اور اس کے بعد مدرسہ امینیہ میں کئی برس تک تدریس کی خدمات سر انجام دیں۔ اور دین کے مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں سر انجام دیے ۔
آپ جمعیت العلماء ہند کے صدر ، عالم دین اور ایک محب وطن شخصیت تھے۔
1920 ء سے قومی تحریکات میں حصہ لینا شروع کیا اور آٹھ مرتبہ جیل گئے۔ خوش بیان مقرر تھے اور سبحان الہند کہلاتے تھے۔ مولانا حسین احمد مدنی کی وفات کے بعد جمعیت العلماء ہند کے صدر مقرر ہوئے۔ اس سے قبل آپ اس جماعت کے ناظم اعلٰی تھے۔ دینی اور علمی موضوعات پر تقریباً بیس کتابیں یادگار چھوڑیں۔
آپ کی تصنیفات و تالیفات میں ١۔ کشف الرحمن فی ترجمۃ القرآن۔ ٢۔ تقاریر سیرت۔ ٣۔ خدا کی باتیں۔ ٤۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتیں۔ ٥، معجزاتِ رسول۔ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ وغیرہ زیادہ مشہور ہیں۔
آپ کو وفات 3 جمادی الثانی 1379 ہجری بمطابق دسمبر 1959 ء میں ہوئی۔