Surat ul Mursilaat

Surah: 77

Verse: 1

سورة المرسلات

وَ الۡمُرۡسَلٰتِ عُرۡفًا ۙ﴿۱﴾

By those [winds] sent forth in gusts

دل خوش کن چلتی ہوئی ہواؤں کی قسم ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah's swearing by Different Creatures about the Occurrence of the Hereafter Ibn Abi Hatim recorded that Abu Hurayrah said, وَالْمُرْسَلَاتِ عُرْفًا By the Mursalat `Urfa. "The angels" From Masruq, Abu Ad-Duha, Mujahid in one narrations from him, As-Suddi and Ar-Rabi` bin Anas, statements similar to this have been reported. It has been reported from Abu Sa... lih that he said, "These are the Messengers." In another narration from him (Abu Salih) he said that it means the angels. فَالْعَاصِفَاتِ عَصْفًا   Show more

فرشتوں اور ہواؤں کی اقسام بعض بزرگ صحابہ تابعین وغیرہ سے تو مروی ہے کہ مذکورہ بالا قسمیں ان اوصاف والے فرشتوں کی کھائی ہیں ، بعض کہتے ہیں پہلے کی چار قسمیں تو ہواؤں کی ہیں اور پانچویں قسم فرشتوں کی ہے ، بعض نے توقف کیا ہے کہ والمرسلات سے مراد یا تو فرشتے ہیں یا ہوائیں ہیں ، ہاں ( والعاصفات ) ...  میں کہا ہے کہ اس سے مراد تو ہوائیں ہی ہیں ، بعض عاصفات میں یہ فرماتے ہیں اور ( ناشرات ) میں کوئی فیصلہ نہیں کرتے ، یہ بھی مروی ہے کہ ناشرات سے مراد بارش ہے ، بہ ظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ مرسلات سے مراد ہوائیں ہے ، جیسے اور جگہ فرمان باری ( وَاَرْسَلْنَا الرِّيٰحَ لَوَاقِحَ فَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَسْقَيْنٰكُمُوْهُ ۚ وَمَآ اَنْتُمْ لَهٗ بِخٰزِنِيْنَ 22؀ ) 15- الحجر:22 ) ، یعنی ہم نے ہوائیں چلائیں جو ابر کو بوجھل کرنے والی ہیں اور جگہ ہے ( وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ اَنْ يُّرْسِلَ الرِّيَاحَ مُبَشِّرٰتٍ وَّلِيُذِيْقَكُمْ مِّنْ رَّحْمَتِهٖ وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ بِاَمْرِهٖ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ 46؀ ) 30- الروم:46 ) الخ ، اپنی رحمت سے پیشتر اس کی خوشخبری دنیے والی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں وہ چلاتا ہے ، ( عاصفات ) سے بھی مراد ہوائیں ہیں ، وہ نرم ہلکی اور بھینی بھینی ہوائیں تھیں یہ ذرا تیز جھونکوں والی اور آواز والی ہوائیں ہیں ناشرات سے مراد بھی ہوائیں ہیں جو بادلوں کو آسمان میں ہر چار سو پھیلا دیتی ہیں اور جدھر اللہ کا حکم ہوتا ہے انہیں لے جاتی ہیں ( فارقات ) اور ( ملقیت ) سے مراد البتہ فرشتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے رسولوں پر وحی لے کر آتے ہیں جس سے حق و باطل حلال و حرام میں ضالت و ہدایت میں امتیاز اور فرق ہو جاتا ہے تاکہ ہے جس دن تم سب کے سب اول آخر والے اپنی اپنی قبروں سے دوبارہ زندہ کئے جاؤ گے اور اپنے کرتوت کا پھل پاؤ گے نیکی کی جزا اور بدی کی سزا پاؤ گے ، صور پھونک دیا جائے گا اور ایک چٹیل میدان میں تم سب جمع کر دئے جاؤ گے یہ وعدہ یقیناً حق ہے اور ہو کر رہنے والا اور لازمی طور پر آنے والا ہے ، اس دن ستارے بےنور ہو کر گر جائیں گے اور آسمان پھٹ جائے گا ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا اور یہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر اڑ جائیں گے یہاں تک کہ نام نشان بھی باقی نہ رہے گا جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ يَنْسِفُهَا رَبِّيْ نَسْفًا ١٠٥؁ۙ ) 20-طه:105 ) ، اور فرمایا آیت ( وَيَوْمَ نُسَيِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَى الْاَرْضَ بَارِزَةً ۙ وَّحَشَرْنٰهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ اَحَدًا 47؀ۚ ) 18- الكهف:47 ) ، یعنی پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر اڑ جائیں گے اور اس دن وہ چلنے لگیں گے بالکل نام و نشان مٹ جائے گا اور زمین ہموار بغیر اونچ نیچے کی رہ جائے گی اور رسولوں کو جمع کیا جائے گا اس وقت مقررہ پر انہیں لایا جائے گا ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( يَوْمَ يَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ فَيَقُوْلُ مَاذَآ اُجِبْتُمْ ١٠٩؁ ) 5- المآئدہ:109 ) ، اس دن اللہ تعالیٰ رسولوں کو جمع کرے گا اور ان سے شہادتیں لے گا جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتٰبُ وَجِايْۗءَ بِالنَّـبِيّٖنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْحَــقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ 69؀ ) 39- الزمر:69 ) ، زمین اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی نامہ اعمال دے دیئے جائیں گے نبیوں کو اور گواہوں کو لایا جائے گا اور حق و انصاف کے ساتھ فیصلے کئے جائیں گے اور کسی پر ظلم نہ ہو گا ، پھر فرماتا ہے کہ ان رسولوں کو ٹھہرایا گیا تھا اس لئے کہ قیامت کے دن فیصلے ہوں گے ، جیسے فرمایا آیت ( فَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ مُخْلِفَ وَعْدِهٖ رُسُلَهٗ ۭاِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ ذُو انْتِقَامٍ 47؀ۭ ) 14- ابراھیم:47 ) ، یہ خیال نہ کر کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں سے وعدہ خلافی کرے گا نہیں نہیں اللہ تعالیٰ بڑے غلبہ والا اور انتقام والا ہے ، جس دن یہ زمین بدل دی جائے گی اور آسمان بھی اور سب کے سب اللہ واحد و قہار کے سامنے پیش ہو جائیں گے ، اسی کو یہاں فیصلے کا دن کہا گیا ، پھر اس دن کی عظمت ظاہر کرنے کے لئے فرمایا میرے معلوم کرائے بغیر اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم بھی اس دن کی حقیقت سے باخبر نہیں ہو سکتے ، اس دن ان جھٹلانے والوں کے لئے سخت خرابی ہے ، ایک غیر صحیح حدیث میں یہ بھی گذر چکا ہے کہ ویل جہنم کی ایک وادی کا نام ہے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1۔ 1 اس مفہوم کے اعتبار سے عرفاً کے معنی پے درپے ہوں گے، بعض نے مرسلات سے فرشتے یا انبیا مراد لئے ہیں اس صورت میں عرفاً کے معنی وحی الٰہی، یا احکام شریعت ہوں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

والمرسلت عرفاً …:” المرسلت “ یہ ” الریاح “ کی صفت ہے جو محذوف ہے ، وہ ہوائیں جو چھڑوی گئی ہیں، بھیجی گئی ہیں۔” عرفاً “ یہ ” نکر “ کی ضد ہے، جانی پہچانی چیز، بھلائی۔ گھوڑے کی گردن کے بالوں اور مرغ کی کلغی کو بھی ” عرف “ کہتے ہیں۔ یہ دونوں چیزیں ایک سطر میں یکے بعد دیگرے ہوتی ہیں، اس لئے ان کی مشابہت ... سے پے در پے آنے والی چیزوں پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے، مثلاً :” جاو وا عرفاً واحداً “” وہ سب پے در پے آگئے۔ “” عرفاً “ کا معنی اگر جانی پہچانی چیز کریں تو اس ہلے ” بائ “ مقدر ہوگی :” ای والمرسلات بالعرف “” یعنی ان ہواؤں کی قسم جو جانے پہچانے معمول کے مطابق چھوڑی جاتی ہیں ! “ اگر اس کا معنی بھلائی کریں تو اس ہلے ” لام “ مقدر ہوگا اور یہ مفعول لہ ہوگا : ” ای والمرسلات للعرف “ ” یعنی ان ہواؤں کی قسم جنہیں (لگووں کی) بھلائی کے لئے چھوڑا جاتا ہے ! “ اور اگر معنی پے در پے کریں تو ” عرفاً “ حال ہوگا، یعنی ” ان ہواؤں کی قسم جو پے در پے چھوڑی جاتی ہیں ! “ تینوں معنی درست ہیں۔ قرآن مجید میں مذکور قسمیں عام طور پر اس دعویٰ کی دلیل ہوتی ہیں جو بعد میں مذکور ہوتا ہے۔ ان آیات کا مطلب یہ ہے کہ ان پانچ صفات والی ہواؤں میں زبردستل شہادت ہے کہ قیامت جس کا وعدہ دیا جاتا ہے، ضرور آنے والی ہے۔ آپ دیکھیں ! ہوائیں کبھی نرم رفتار سے چلتی ہیں، پھر کبھی تند و تیز ہو کر آندھی بن جانا، پھر بادلوں کو اٹھانا، انہیں پھیلا کر برسانا اور منتشر کردینا، کہیں خوف ناک طوفان کی صورت میں عذاب بن کر آنا وغیرہ، یہ سب کچھ دیکھ کر اللہ تعالیٰ یاد آجاتا عے۔ اسی طرح یہ ہوائیں دلوں میں اللہ کے ذکر کا القا کرتی ہیں اور اللہ کی طرف توجہ مبذول کرواتی ہیں، کبھی ترغیب کے ساتھ اور کبھی ترہیب کے ساتھ۔ ہوائیں اگر خوشگوار اور نفع بخش ہیں تو اللہ کی نعمت ہیں اور ان کا اثر بندے پر یہ پڑنا چاہیے کہ وہ شکر ادا کرے اور اپنے عمل کی کوتاہی کا عذر پیش کرے اور اگر اس کے برعکس خوف ناک طوفان اور بجلیوں کی صورت میں ہیں تو ان کا اثر بندے پر یہ ہونا چاہیے کہ وہ ڈر کر گناہوں سے توبہ کی طرف متوجہ ہو۔ ان مختلف اطوار والی ہواؤں کو پیدا کرنے والے اور ان کا بندوبست کرنے والے پروردگار کے لئے قیامت برپا کرنا اور تمام فوت شدہ لوگوں کو زندہ کر کے ان سے باز پرس کرنا کون سا مشکل کام ہے ؟  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Occasion of Revelation Sahih of Bukhari records from Sayyidna ` Abdullah Ibn Masud that he said: |"While we were with Allah&s Messenger in a cave at Mina, the Surah &wal-Mursalat& was revealed to him. He was reciting it, and I was learning it from his mouth. Verily, his mouth was moist with it, when a snake leaped out at us. The Holy Prophet said, &Kill it!& So we qu... ickly went after it, but it got away. Then the Holy Prophet said, &It was saved from your harm, just as you all were saved from its harm&.|" [ Ibn Kathir ]. Allah swears oaths in this Surah by various phenomena to assert that the Resurrection will certainly take place. The names of the phenomena are not mentioned in the Qur&an, but their five attributes are given in the following manner (The translation is given below without explanatory brackets for a better understanding of the point): [ 1] (I swear) by those that are sent one after the other, (77:1) [ 2] and by those that blow violently, (77:2) [ 3] and by those that spread all over, (77:3) [ 4] and by those who differentiate (between right and wrong) distinctly, (77:4) [ 5] then bring down the advice, (77:5) There is no traceable Hadith that gives the exact interpretation of the phenomena described. Therefore, the interpretation assigned to them by the Companions and their pupils differ. Some scholars say that all five attributes refer to angels. Others say that possibly different groups of angels are bearers of the attributes. Yet other scholars say that they refer to various types of winds. Some authorities on Tafsir say that they refer to Allah&s Prophets and Messengers. Ibn Jarir Tabari says that, in this matter, it is safer to observe silence. He says that both possibilities exist, but he prefers not to side with any particular interpretation. There is no doubt about the fact that some of the attributes are more appropriately applicable to the angels of Allah, and cannot fit the winds without unusual stretch of imagination, and others are more appropriately applicable to winds, and cannot apply to angels without a fanciful stretch of imagination. Therefore, Ibn Kathir&s approach seems to be the best. He says that in the first three verses of this Surah, Allah swears oaths by various types of winds. In verses [ 4] and [ 5], Allah swears oaths by the angels. If verses [ 4] and [ 5] are applied to the winds, then the imagination will have to be stretched far to interpret them . Likewise, if the first three verses [ mursalat, ` Asifat and nashirat ] are applied to the angels, they have no choice but to assign far-fetched interpretation. According to Ibn Kathir, the verses signify & (I swear) by those (winds) that are sent one after the other&. The word ` urfan could signify &beneficial and useful&. The winds that bring rain are obviously beneficial and useful. Another meaning of the word ` urfan is &one after another&. In this interpretation, the verse signifies &those winds that bring rain and clouds consecutively&. The word ` asifat is derived from ` asf that literally means &winds that blow violently or vehemently&. This refers to fiercely blowing winds that sometimes do occur in the world. The word nashirat refers to &winds that spread (clouds) all over after the rain is over&. The word fariqat is the attribute of the angels &who differentiate (between right and wrong) distinctly by bringing down the Divine revelation&. The phrase fal-mulqiyati dhikran also refers to the &angels&. The word dhikr &Reminder& refers to the Qur&an or revelation in general. The verse signifies &I swear by angels who [ by bringing down revelation ] separate between truth and falsehood, right and wrong, [ and the lawful and the forbidden ] &. Likewise, I swear by angels who bring down revelation or Qur&an to the Holy Prophet t. This interpretation is plain and simple, and does not require any undue stretch of imagination. In this interpretation, the question arises as to the contextual relationship between swearing oaths by various types of winds and the angels. First of all, it is not possible to fathom the Wisdom of Divine speech. However, it is possible to hypothesise. Allah swears oaths by useful winds and harmful winds. Winds that bring rain and clouds are useful, while those that blow fiercely and cause destruction are harmful. These belong to the perceptible world. All human beings can observe them. The perceptible things are mentioned first for reflection. The imperceptible world is mentioned later, such as the angels and revelation. If man reflects carefully on them, he will develop certainty of belief in them as well.  Show more

خلاصہ تفسیر قسم ہے ان ہواؤں کی جو نفع پہنچانے کے لئے بھیجی جاتی ہیں پھر ان ہواؤں کی جو سختی سے چلتی ہیں (جس سے خطرات کا احتمال ہوتا ہے) اور ان ہواؤں کی جو بادلوں کو (اٹھا کر) پھیلاتی ہیں (جس کے بعد بارش ہونے لگتی ہے) پھر ان ہواؤں کی جو بادلوں کو متفرق کردیتی ہیں (جیسا بارش کے بعد ہوتا ہے) پھر ان ہ... واؤں کی جو (دل میں) اللہ کی یاد یعنی توبہ کا یا ڈرانے کا القاء کرتی ہیں (یعنی یہ ہوائیں مذکورہ حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ پر دلالت کی وجہ سے خالق کائنات کی طرف متوجہ ہوجانے کا سبب ہوجاتی ہیں اور وہ توجہ دو طور سے ہوتی ہی ایک خوف سے جبکہ ان ہواؤں سے آثار خوف کے نمایاں ہوں اور دوسرا توبہ و معذرت سے اور یہ خوف ورجاء کی دونوں صورت میں ہو سکتا ہے۔ اگر ہوائیں نفع بخش ہوں تب تو خدا کی نعمتوں کو یاد کر کے اس کا شکر اور اپنی تصقیرات سے عذر کرتے ہیں اور اگر وہ ہوائیں خوفناک ہوں تو خدا کے عذاب سے ڈر کر اپن معاصی سے توبہ کرتے ہیں، آگے جواب قسم ہے) کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ ضرور ہونے والی ہے۔ (مراد قیامت ہے اور یہ سب قسمیں قیامت کے نہایت مناسب ہیں کیونکہ نفخہ اولیٰ کے بعد تمام عالم کی فنار کا واقعہ تیز آندھیوں کے مشابہ ہے اور نفخہ ثانیہ کے بعد کے واقعات مردوں کا زندہ ہونا وغیرہ مشابہ واقعات ہوائے نافع کے ہیں جس سے بارش اور بارش سے حیات بناتی ابھرتی ہے۔ آگے اس کے وقوع پر تفریع فرماتے ہیں) سو جب ستارے بےنور ہو اویں گے اور جب آسمان پھٹ جاوے گا اور جب پہاڑ اڑتے پھریں گے اور جب سب پیغمبر وقت معین پر جمع کئے جاویں گے (اس وقت سب کا فیصلہ ہوگا، آگے اس یوم کا ہولناک ہونا مذکور ہے کہ کچھ معلوم ہے) کس دن کے لئے پیغمبروں کا معاملہ ملتوی رکھا گیا ہے (آگے جواب ہے کہ) فیصلہ کے دن کے لئے (ملتوی رکھا گیا ہے، مطلب اس سوال و جواب کا یہ معلوم ہوتا ہے کہ کفار جو رسولوں کی تکذیب کرتے آئے ہیں اور اب بھی اس امت کے کفار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کر رہے ہیں اور جب اس تکذیب پر عذاب آخرت سے ڈرائے جاتے ہیں تو آخرت کی بھی تکذیب کرتے ہیں اور یہ تکذیب فی نفسہ مقتضی اس کو ہے کہ رسولوں کا جو قصہ کفار سے پیش آ رہا ہے اس کا فیصلہ ابھی ہو جاؤے اور اس کی تاخیر سے کفار کو مزید انکار و تکذیب کا موقع ملتا ہے اور مسلمانوں کو طبی طور پر اس کے جلد ہوجانے کی خواہش ہوتی ہے پس اس آیت میں استعجال کا جواب ہے کہ حق تعالیٰ نے بعض حکمتوں سے اس کو موخر کر رکھا ہے لیکن واقع ضرور ہوگا اور (آگے اس فیصلہ کے دن کا ہولناک ہونا مذکر ہے کہ) آپ کو معلوم ہے کہ وہ فیصلہ کا دن کیسا کچھ ہے (یعنی بہت سخت ہے اور جو لوگ اس امر حق یعنی وقوع قیامت کو جھٹلا رہے ہیں سمجھ رکھیں کہ) اس روز (حق کے) جھٹلانے والوں کی بڑی خرابی ہوگی (آگے نظائر سابقہ کے ذریعہ موجودہ لوگوں کو ڈرانا ہے) کیا ہم اگلے (کافر) لوگوں کو (عذاب سے) ہلاک نہیں کرچکے پھر پچھلوں کو بھی (عذاب میں) ان پہلوؤں ہی کے ساتھ ساتھ کردیں گے (یعنی آپ کی امت کے کفار پر بھی وبال ہلاکت نازل کریں گے جیسا بدر وغیرہ غزوات میں ہوا) ہم مجرموں کے ساتھ ایسا ہی کیا کرتے ہیں (یعنی ان کے کفر پر سزا دیتے ہیں خواہ دارین میں خواہ دار آخرت میں اور جو اس امر حق یعنی کفر پر مستحق عذاب ہونے کے کو جھٹلا رہے ہیں سمجھ رکھیں کہ) اس روز (حق کے) جھٹلانے والوں کی بڑی خرابی ہوگی (آگے وقوع قیامت اور احیاء موتی کو ذہنوں کے قریب کرنے کے لئے فرمایا) کیا ہم نے تم کو ایک بےقدر پانی (یعنی نطفہ) سے نہیں بنایا (یعنی ابتداء میں تم نطفہ تھے) پھر ہم نے اس کو ایک وقت مقرر تک ایک محفوظ جگہ (یعنی عورت کے رحم) میں رکھا، غرض ہم نے (ان سب تصرفات کا) اندازہ ٹھیرایا، سو ہم کیسے اچھے اندازہ ٹھیرانے والے ہیں ( اس سے مردوں کو دوبارہ زندہ کرنے پر قدرت ثابت ہوئی، پھر جو لوگ اس امر حق یعنی قدرت علی البعث کو جھٹلا رہے ہیں سمجھ رکھیں کہ) اس روز (حق کے) جھٹلانے والوں کی بڑی خرابی ہوگی (آگے اپنی وقوع قیامت اور احیاء موتی کو ذہنوں کے قریب کرنے کے لئے فرمایا) کیا ہم نے تم کو ایک بےقدر پانی (یعنی نطفہ) سے نہیں بنایا (یعنی ابتداء میں تم نطفہ تھے) پھر ہم نے اس کو ایک وقت مقرر تک ایک محفوظ جگہ (یعنی عورت کے رحم) میں رکھا، غرض ہم نے (ان سب تصرفات کا) ایک اندازہ ٹھیرایا، سو ہم کیسے اچھے اندازہ ٹھہرانے والے ہیں (اس سے مردوں کو دوبارہ زندہ کرنے پر قدرت ثابت ہوئی، پھر جو لوگ اس امر حق یعنی قدرت علی البعث کو جھٹلا رہے ہیں سمجھ رکھیں کہ) اس روز (حق کے) جھلانے والوں کی بڑی خرابی ہوگی (آگے اپنی بعضی نعمتیں جن سے ترغیب اطاعت و ایمان ہو ذکر فرماتے ہیں یعنی) کیا ہم نے زمین کو زندہ اور مردوں کی سمیٹنے والی نہیں بنایا (کہ زندگی اسی پر بسر ہوتی ہے مرنے کے بعد دفن اور غرق ہوجانے اور جلجانے کی صورت میں بالاخر مٹی ہو کر اجزاء ارضیہ ہی میں کھپ جاتے ہیں اور اس حالت بعد الموت کا نعمت ہوتا اس طرح ہے کہ اگر مردے خاک نہ ہوجایا کرتے تو زندے پریشان ہو کر مردہ سے بدتر ہوجاتے کہ ان کو اپنے بسنے بلکہ چلنے پھرنے کی جگہ نہ ملتی) اور ہم نے اس (زمین) میں اونچے اونچے پہاڑ بنائے (جن سے بہت سے منافع متعلق ہیں) اور ہم نے تم کو میٹھا پانی پلایا (اس نعمت کو خواہ مستقل کہا جاوے یا زمین ہی کے متعلق کہا جاوے کیونکہ مرکز پانی کا بھی زمین ہی ہے اور ان نعمتوں کا مقتضاد جواب توحید ہے۔ پس جو لوگ اس امر حق یعنی وجوب توحید کو جھٹلا رہے ہیں سمجھ رکھیں کہ) اس روز (ق کے) جھٹلانے والوں کی بڑی خرابی ہوگی (آگے قیامت کی بعض سزاؤں کا بیان ہے یعنی قیامت کے روز کفار سے کہا جائے گا کہ) تم اس عذاب کی طرف چلو جس کو جھٹلایا کرتے تھے (جس میں کی ایک سزا وہ ہے جس کا بیان اس حکم میں ہے کہ) ایک سائبان کی طرف چلو جس کی تین شاخیں ہیں جس میں نہ (ٹھنڈا) سایہ ہے اور نہ وہ گرمی سے بچاتا ہے (مراد اس سائبان سے ایک دھواں ہے جو جہنم سے نکلے گا اور چونک کثرت سے ہوگا اس لئے بلند ہو کر پھٹ کر تین ٹکے ہوجاویں گے کمافی الطبری عن قتادة اور فراغ حساب تک کفار اسی دھویں کے احاطہ میں رہیں گے جیسا کہ مقبولین ظل عرش میں ہوں گے کذا فی الخازن، آگ اس دھویں کا اور حال مذکور ہے کہ) وہ انگارے برساوے گا جیسے بڑے بڑے محل جیسے کالے کالے اونٹ (قاعدہ ہے کہ جب چنگاری آگ سے جھڑتی ہے تو بڑی ہوتی ہے۔ پھر بہت سے چھوٹے ٹکڑے ہو کر زمین پر گرتی ہے پس پہلی تشبیہ ابتدائی حالت کے اعتبار سے ہے اور دوسری شبیہہ انتہائی حالت کے اعتبار سے۔ کذا فی الروح، پھر جو لوگ اس امر حق یعنی اس واقعہ کو جھٹلا رہے ہیں سمجھ رکھیں کہ) اس روز (حق کے) جھٹلانے والوں کی بڑی خربای ہوگی (آگے اور واقعہ متعلق کفار ہے یعنی) یہ وہ دن ہوگا جس میں وہ لوگ نہ بول سکیں گے اور نہ ان کو اجازت (عذر پیش کرنے کی) ہوگی سو عذر بھی نہ کرسکیں گے (کیونکہ واقع میں کوئی معقول عذر ہوگا ہی نہیں اور جو لوگ اس واقعہ حقہ کو بھی جھٹلا رہے ہیں سمجھ رکھیں کہ) اس روز (حق کے) جھٹلانے والوں کی بڑی خرابی ہوگی (آگے بھی اسی یوم کا بیان ہے کہ ان لوگوں سے کہا جاوے گا کہ) یہ ہے فیصلہ کا دن (جس کی تم تکذیب کیا کرتے تھے) ہم نے (آج) تم کو اور اگلوں کو (فیصلے کے لئے) جمع کرلیا سو اگر تمہارے پاس (ج کے نتیجے اور فیصلے سے بچنے کی) کوئی تدبیر ہو تو مجھ پر تدبیر چلا لو (اور یہ کفار اس واقعہ حقہ کی بھی تکذیب کرتے ہیں سو سمجھ رکھیں کہ) اس روز (حق کے) جھٹلانے والوں کی بڑی خرابی ہوگی (آگے کفار کے مقابلے میں اہل ایمان کے ثواب کا بیان ہے یعنی) پرہیزگار لوگوں سایوں میں اور چشموں میں اور مرغوب میووں میں ہوں گے (اور ان سے کہا جاوے گا کہ) اپنے اعمال (نیک) کے صلہ میں خوب مزے سے کھاؤ پیو ہم نیک لوگوں کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں (ور یہ کفار نعمائے جنت کی بھی تکذیب کرتے ہیں سو سمجھیں رکھیں کہ) اس روز (حق کے) جھٹلانے والوں کی بڑی خرابی ہوگی (آگے پھر توبیخ و تنبیہ ہے کفار کو، یعنی اے کافرو ! ) تم (دنیا میں) تھوڑے دن اور کھال اور برت لو (عنقریب کمبختی آنے والی ہے کیونکہ) تم بیشک مجرم ہو (اور مجرم کا یہی حال ہونے والا ہے اور جو لوگ سزائے جرم کو جھٹلاتے ہیں سمجھ رکھیں کہ) اس روز (حق کے) جھٹلانے والوں کی بڑی خرابی ہوگی اور (ان کافروں کی سرکشی اور جرم کی یہ حالت ہے کہ) جب ان سے کہا جاتا ہے کہ (خدا کی طرف) جھکو (یعنی ایمان اور عبدیت اختیار کرو) تو نہیں جھکتے (اس سے زیادہ کیا جرم ہوگا اور یہ لوگ اس کے جرم ہونے کو بھی جھٹلاتے ہیں سو سجھ رکھیں کہ) اس روز (حق کے) جھٹلانے والوں کی بڑی خربای ہوگی (اور ان تقریعات و تہدیدات قرآنیہ کا مقتضایہ تھا کہ سنتے ہی ڈر کر ایمان لے آتے مگر جب اس پر بھی ان کو اثر نہیں) تو پھر اس (قرآن بلیغ الالفاظ و الانذار) کے بعد اور کونسی بات پر ایمان لاویں گے (اس میں کفار پر تو بیخ اور ان کے ایمان سے آپ کو مایوس کرنا ہے۔ ) معارف و مسائل صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ منیٰ کے ایک غار میں تھے اچانک سورة مرسلات نازل ہوئی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو پڑھتے جانے تھے اور میں آپ کے مبارک منھ سے اس کو سنتا یاد کرتا جاتا تھا، آپ کا دہن مبارک اس سورة کی حلاوت سے رطب (شاداب) ہو رہا تھا اچانک ایک سانپ نے ہم پر حملہ کیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے قتل کا حکم دیا، ہم اس کی طرف جھپٹے وہ نکل بھاگا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس طرح تم اس کے شر سے محفوظ رہے وہ بھی تمہارے شر سے محفوظ ہوگیا (ابن کثیر) اس سورت میں حق تعالیٰ نے چند چیزوں کی قسمیں کھا کر قیامت کے یقینی طور پر آنے کا ذکر فرمایا ہے، ان چیزوں کا نام قرآن میں بیان نہیں کیا گیا البتہ ان کی اس جگہ پانچ صفتیں بیان فرمائی ہیں۔ مرسلات، عاضعات ناشرات، فارقات، ملقیت الذکر کسی حدیث مرفوع میں اس کی پوری تعیین نہیں آئی کہ ان صفات کے موضوفات کیا ہیں اس لئے صحابہ وتابعین کی تفسیریں اس معاملے میں مختلف ہوگئیں۔ بعض حضرات نے ان پانچوں صفاتک موصوف فرشتوں کو قرار دیا ہے اور یہ کہ ہوسکتا ہے کہ فرشتوں کی مختلف جماعتیں ان مختلف صفات کی حامل ہوں۔ بعض حضرات نے ان صفات کا موصوف ہواؤں کو قرار دیا ہے وہ بھی مختلف اقسام اور نوعیت کی ہوتی ہیں، اس لئے یہ صفات مختلفہ ان میں ہو سکتی ہیں۔ بعض حضرات نے ان کا موصوف خود انبیاء و رسل کو قرار دیا ہے۔ ابن جریر طبری نے اسی لئے اس معاملے میں توقف نے ان کا موصوف خود انباء ورسل کو قرار دیا ہے۔ ابن جریر طبری نے اسی لئے اس معاملے میں توقف اور سکوت کو اسلم قرار دیا کہ احتمال دونوں ہیں ہم اپنی طرف سے کسی کو متعین نہیں کرتے۔ اور اس میں شبہ نہیں کہ جو پانچ صفات اس جگہ ذکر کی گئی ہیں ان میں سے بعض تو ملائکتہ اللہ پر زیادہ چسپاں اور ان کے مناسب ہیں ان کو ریاح کی صفت بائیں تو کھنیچ تان اور تاویل کرنا پڑتی ہے اور بعض صفات ایسی ہیں جو ریاح یعنی ہواؤں پر زیادہ چسپاں اور واضح ہیں ان کو فرشتوں کی صفت بنائیں تو تاویل کے بغیر نہیں بنتی۔ اس لئے اس مقام میں بہتر فیصلہ ابن کثیر (رح) کا معلوم ہوتا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ شروع کی تین صفات ہواؤں کی صفتیں ہیں ان تین میں ریاح اور ہواؤں کی قسم ہوگئی باقی آخری دو صفتیں یہ فرشتوں کی صفات ہیں تو یہ فرشتوں کی قسم ہوگئی۔ ریاح کی صفت قرار دینے میں آخری دو صفتوں میں جو تاویل کی جاتی ہے وہ آپ خلاصہ تفسیر میں دیکھ چکے ہیں کیونکہ اس میں اسی کو اختیار کر کے تفسیر کی گئی ہے۔ اسی طرح جن حضرات نے ان سب صفات کو صفات ملائکہ قرار دیا ہے ان کو پہلی تین صفات یعنی مرسلات، عاصفات ناشرات کو فرشتوں پر چسپاں کرنے کے لئے اسی طرح کی تاویلات سے کام لینا پڑتا ہے۔ ابن کثیر کے اختیار کے مطابق معنی ان آیتوں کے یہ ہوگئے کہ قسم ہے ان ہواؤں کی جو بھیجی جاتی ہیں۔ عرفاً ، یہاں عرفاً کا مفہوم وہ بھی ہوسکتا ہے جو خلاصہ تفسیر میں اوپر مذکور ہوا یعنی جو دوسخا اور نفع رسانی۔ جو ہوائیں بارش لے کر آتی ہیں ان کی جو دوسخا اور نفع رسانی ظاہر ہے اور دوسرے معنے عرفاً کے متتابع یعنی پے در پے کے بھی آتے ہیں۔ یہ معنے لئے جاویں تو مراد وہ ہوائیں ہوں گی جو بادل اور بارش کو لئے ہوئے مسلسل اور متتابع چلتی ہیں اور عاصفات عصف سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی ہوا کے تیز چلنے کے ہیں اس سے مراد وہ آندھیاں اور تیز ہوائیں ہیں جو بعض اوقات دنیا میں آیا کرتی ہیں اور ناشرات سے مراد وہ ہوائیں ہیں جو بارش ختم ہونے کے بعد بادل کو پھاڑ کر منتشر کردیتی ہیں اور فارقات، یہ صفت فرشتوں کی ہے جو وحی الٰہی نازل کر کے حق و باطل میں فرق واضح کردیتے ہیں اور ملقیات ذکر ابھی فرشتوں کی صفت ہے اور ذکر سے مراد قرآن یا مطلق وحی ہے۔ اور مطلب یہ ہے کہ سم ہے ان فرشتوں کی جو بذریعہ وحی حق و باطل میں فرق اور امتیاز واضح کردیتے ہیں اور قسم ہے ان فرشتوں کی جو انبیاء (علیہم السلام) پر ذکر یعنی وحی اور قرآن کا القاء کرتے ہیں۔ اس طرح کسی صفت میں تاویل اور کھینچ تان کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ رہا یہ سوال کہ اس تفسیر کی بناء پر پہلے ہواؤں کی مختلف اقسام کی قسم کھائی گئی پھر فرشتوں کی، ان دونوں میں ربط اور جوڑ کیا ہے سو کلام الٰہی کی حکمتوں کا احاطہ تو کوئی کر نہیں سکتا، یہ مناسبت بھی ہو سکتی ہے کہ ہواؤں کی دونوں قسمیں بارش والی نفع بخش اور سخت آندھیاں مضرت رساں یہ سب محسوسات میں سے ہیں ہر شخص ان کو پہچانتا ہے پہلے غور و فکر کے لئے انسان کے سامنے ان کو لایا گیا، اس کے بعد فرشتوں اور وحی کو پیش کیا گیا جو محسوس نہیں مگر ذرا سے غور و فکر کرنے پر ان کا یقین ہوسکتا ہے۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالْمُرْسَلٰتِ عُرْفًا۝ ١ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] وقال : وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات/ 1] ... ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہیں یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ ۔ وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات/ 1] قسم ہے ان فرشتوں کی جو پیام الہی دے کر بھیجے جاتے ہیں عرف المَعْرِفَةُ والعِرْفَانُ : إدراک الشیء بتفکّر وتدبّر لأثره، وهو أخصّ من العلم، ويضادّه الإنكار، قال تعالی: فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة/ 89] ، فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف/ 58] ( ع رف ) المعرفۃ والعرفان کے معنی ہیں کسی چیز کی علامات وآثار پر غوروفکر کرکے اس کا ادراک کرلینا یہ علم سے اخص یعنی کم درجہ رکھتا ہے اور یہ الانکار کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے قرآن میں ہے ؛ فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة/ 89] پھر جس کو وہ خوب پہنچانتے تھے جب ان کے پاس آپہنچی تو اس کافر ہوگئے ۔ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف/ 58] تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ ان کو نہ پہچان سکے ۔ عرفا کے منصوب ہونے کی چار وجہیں ہوسکتی ہیں :۔ (1) مفعول لہ ہونے کی بنا پر منصوب ہے یعنی المرسلت لاجل العرف اس صورت میں عرف بمعنی خوبی و احسان ہوگا۔ (2) حال ہونے کی وجہ سے یعنی متتابعۃ۔ ( پے در پے) یعنی اس حال میں بھیجی گئیں کہ وہ پے در پے تھیں۔ (3) مفعول مطلق ہے بعمنی مصدر۔ اور ارسالا کے معنی دے بمعنی المرسلت ارسالا اس صورت میں بھی ارسالا بمعنی لگاتار اور پے در پے ہوگا۔ (4) منصوب ہے نیزع خافض ( زیر دینے والے حرف کو حذف کرنا) بمعنی المرسلت بالعرف اس صورت میں عرف بمعنی معروف ہوگا۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١۔ ٥) قسم ہے تیز رفتار فرشتوں کی یا یہ کہ ان فرشتوں کی جو نفع پہنچانے کے لیے بھیجے جاتے ہیں یعنی جبریل، میکائیل، اسرافیل اور پھر ان ہواؤں کی جو تندہی سے چلتی ہیں اور پھر بادلوں کی یا ان ہواؤں کی جو بادلوں کو اٹھا کر پھیلاتی ہیں یا اس سے مراد وہ فرشتے ہیں جو کتابوں کو کھولتے ہیں۔ اور پھر قسم ہے ان ... فرشتوں کی جو کہ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں یا اس سے مراد وہ آیات ہیں جو کہ حق و باطل حلال و حرام کے درمیان امتیاز کرتی ہیں اور کہا گیا ہے کہ ان تینوں قسموں سے ہوائیں مراد ہیں۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١{ وَالْمُرْسَلٰتِ عُرْفًا ۔ } ” قسم ہے ان ہوائوں کی جو چلائی جاتی ہیں بڑی آہستگی سے۔ “ اللہ تعالیٰ ان ہوائوں کو خاص مقاصد کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت چلاتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١۔ ١٥۔ حافظ ابن کثیر ١ ؎ نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ یہ سورة مکی ہے مفسرین ٢ ؎ نے ترجیح اسی قول کو دی ہے کہ جن پانچ چیزوں کی اللہ تعالیٰ اس سورة کے شروع میں قسم کھائی ہے ان میں اول کی تین چیزوں سے مقصود ہوائیں ہیں اور باقی کی دو سے ملائکہ عرفا کے معنی پے درپے۔ عاصفات وہ ہوائیں جن میں سناٹے کی آواز ہو۔ نا... شرات وہ ہوائیں جو بادلوں کو پھیلاتی ہیں۔ فارقات اور ملقیات کا یہ مطلب ہے کہ ملائکہ طرح طرح کے حکم وحی کے ذریعہ سے رسولوں پر لاتے ہیں۔ عذرا کا یہ مطلب ہے کہ ہر طرح کے حکم نازل ہوجانے کے بعد انجانی کا عذر کسی کو باقی نہ رہے۔ نذرا کا یہ مطلب ہے کہ نافرمانی کی حالت میں قیامت کے نافرمان لوگوں کو جو عذاب ہوگا اس سے ہر شخص ڈرا دیا جائے۔ بعض مفسروں نے کہا ہے کہ ملائکہ سے مراد جبرئیل (علیہ السلام) ہیں۔ جمع کا لفظ تعظیم کے لئے استعمال فرمایا گیا ہے قسم کا جواب یہ ہے کہ جس سزا و جزا کے دن کا اللہ نے اپنے رسولوں کی معرفت وعدہ کیا ہے وہ ضرور پیش آنے والا ہے پھر اس دن کی نشانیاں فرمائیں کہ اس دن تاروں کی روشنی جاتی رہے گی۔ حشر کے انتظام کے لئے فرشتے زمین پر آئیں گے۔ اس لئے ان کے آنے کے واسطے آسمان میں دو دروازے ہوجائیں گے۔ پہاڑوں کو اڑا دیا جائے گا اور زمین کو ایک چٹیل میدان کردیا جائے گا۔ پھر فرمایا یہی وقت ہے جس کا رسولوں سے وعدہ تھا کہ ان کا اور ان کے فرمانبردار اور نافرمان امتوں کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اس فیصلہ کی تفصیل سورة بقر اور سورة زمر میں گزر چکی ہے کہ پچھلی امتوں کے منکر شریعت لوگ یہ کہیں گے کہ یا اللہ ہم کو تو یہ حکم کسی رسول نے نہیں پہنچایا تو انبیاء اپنی رسالت ادا کردینے کی تصدیق میں امت محمدیہ کو پیش کریں گے۔ اور امت محمدیہ پچھلے رسولوں کے کلام کی تصدیق کرے گی۔ پچھلی امتوں کے لوگ جب یہ کہیں گے کہ یا اللہ امت کے محمدیہ کے تول تو ہم سے پیچھے پیدا ہوئے ان کو ہمارا حال کیا معلوم۔ اس پر امت محمدیہ کے لوگ یہ جواب دیں گے کہ قرآن مجید میں پچھلا سب حال تھا اس لئے ہم کو ان لوگوں کا حال معلوم ١ ؎ ہوگیا اس کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی امت کی گواہی کی تائید فرمائیں گے۔ اور ان سب گواہیوں پر فیصلہ اخیر ہوجائے گا۔ اسی واسطے فرمایا کہ اس فیصلہ کے دن ان لوگوں کی بڑی خرابی ہے جو اس دن کے فیصلہ کے منکر ہیں۔ (١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٤٥٨ ج ١۔ ) (٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٥٩ ج ٤۔ ) (١ ؎ صحیح بخاری تفسیر سورة بقرہ ص ٦٤٤ ج ٢۔ )  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(77:1) والمرسلت عرفا۔ واؤ تسمیہ۔ المرسلت اسم مفعول جمع مؤنث۔ المرسلۃ واحد۔ ارسال (افعال) رسل اونٹ یا بکری پیہم نرم رفتار کو کہتے ہیں۔ اگر یکے بعد دیگرے قطار در قطار ہوکر گھوڑے یا اونٹ آئیں یا آدمی آئیں تو جاء وا ارسالا کہا جاتا ہے آیت ہذا اور اگلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے پانچ چیزوں کی قسم کھائی ... ہے۔ مثلا :۔ (1) المرسلت۔ (2) العصفت۔ (3) النشرت۔ (4) الغرقت۔ (5) الملقیت۔ ان چیزوں سے جن کی قسم کھائی گئی ہے کیا مراد ہے ؟ اس میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں۔ مثلا :۔ (1) ان پانچوں چیزوں سے مراد ملائکہ ہیں۔ (مقاتل) (2) ان پانچوں چیزوں سے مراد ہوائیں ہیں۔ (مجاہد، قتادہ) (3) ان پانچوں چیزوں سے مراد ایک قسم کی چیزیں نہیں ہیں۔ بلکہ متعدد چیزیں مراد ہیں پھر اس میں بھی مختلف اقوال ہیں :۔ (1) بعض کہتے ہیں پہلی چار چیزوں سے مراد ہوائیں ہیں۔ اور پانچویں سے ملائکہ۔ (2) بعض کہتے ہیں کہ اول دونوں سے مراد ہوائیں ہیں۔ اور اخیر تینوں سے ملائکہ ہیں۔ (3) ان پانچوں چیزوں سے مراد آیات قرآنیہ ہیں۔ (فرائ) (4) یہ بھی احتمال ہے کہ ان پانچوں چیزوں سے راد نفوس انبیاء ہیں۔ چونکہ جمہور مفسرین اس طرف گئے ہیں کہ ان سے مراد ہوائیں ہیں لہٰذا ہم یہاں سے ہوائیں مراد لے کر تشریح کریں گے۔ عرفا۔ نیکی، احسان، بخشش، متواتر، پے در پے ۔ عرف کا استعمال دو معنی میں ہوتا ہے۔ ایک بمعنی معروف، یعنی نیکی اور نیک کام۔ دوسرے پے در پے۔ محاورہ ہے جاء القوم عرفا عرفا : یعنی لوگ پے در پے اور لگاتار ایک دوسرے کے پیچھے آئے۔ اس معنی میں یہ عرف الفرس سے ماخوذ ہے۔ ” عرف فرس “ گھوڑے کے ایال (گردن کے لمبے لمبے بال) کو کہتے ہیں۔ یعنی جس طرح ایال کے بال لگاتار ایک دوسرے کے پیچھے ہوتے ہیں۔ اسی طرح لوگوں کی آمدورفت ہوئی۔ آیت والمرسلت عرفا میں دونوں معنی کئے گئے ہیں۔ یعنی نیکی اور خوبی کے ساتھ بھیجی ہوئی۔ یا پے در پے بھیجی ہوئی ہوائیں۔ عرفا کے منصوب ہونے کی چار وجہیں ہوسکتی ہیں :۔ (1) مفعول لہ ہونے کی بنا پر منصوب ہے یعنی المرسلت لاجل العرف اس صورت میں عرف بمعنی خوبی و احسان ہوگا۔ (2) حال ہونے کی وجہ سے یعنی متتابعۃ۔ (پے در پے) یعنی اس حال میں بھیجی گئیں کہ وہ پے در پے تھیں۔ (3) مفعول مطلق ہے بعمنی مصدر۔ اور ارسالا کے معنی دے بمعنی المرسلت ارسالا اس صورت میں بھی ارسالا بمعنی لگاتار اور پے در پے ہوگا۔ (4) منصوب ہے نیزع خافض (زیر دینے والے حرف کو حذف کرنا) بمعنی المرسلت بالعرف اس صورت میں عرف بمعنی معروف ہوگا۔ آیت کا ترجمہ ہوگا :۔ قسم ہے ان ہواؤں کی جو پے در پے بھیجی جاتی ہیں یعنی وہ ہوائیں جو پیہم چلتی ہیں نرم نرم خوشگوار، روئیدگی میں مدد دینے والی۔ ابرا ٹھانے والی۔ بابرکت۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یعنی پے درپے چلتی ہیں۔ آیت کا یہ مطلب جمہور مفسرین نے بیان کیا ہے۔ بعض نے ” مرسلات “ سے مراد بھیجے ہوئے فرشتے یا انبیاء لئے ہیں اور ” عرفا “ کا ترجمہ ” بھلائی (یعنی اچھے احکام) دے کر کیا ہے۔ (فتح القدیر) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

سورة المرسلات۔ آیات ١ تا ٤٠۔ اسرار ومعارف۔ و ہ ہوائیں جو انسانی زندگی کی بقا کا سبب بن کر بہت بڑا نفع پہنچاتی ہیں اور پھر وہ ہوائیں جو زور زور سے چلتی ہیں وہ بھی بیشمار ذروں کو ادھر ادھر پہنچا کر زندگی کی بہار کا باعث بنتی ہیں اور وہ ہوائیں جو بارش کے بعد بادلوں کو منتشر کردیتی ہیں یعنی مادی زندگی ک... ے اسباب وعلل کا نظام اور پھرو ہ فرشتے جو وحی لاکر حق و باطل کی تمیز کے اسباب پیدا کرتے ہیں اور دلوں تک یادالٰہی کے پہنچانے کا سبب بنتے ہیں نیز مومن کے یہ سب اس بات پر گواہ ہیں اور اس نظام کا تقاضا ہے کہ حساب کا دن مقرر ہوتولوگو تم سے جس روز حساب کا وعدہ کیا گیا ہے قرآن جس کی خبر دے رہا ہے یقینا وہ واقع ہوگا جس روز ستارے جھڑجائیں گے اور آسمان پھٹ پڑیں گے اور پہاڑ تباہ ہوجائیں گے اور اس دن انبیاء ورسول اپنی اپنی امتوں کے کردار پر گواہی کے لیے موجود ہوں گے اسی دن کے لیے جو فیصلے کا دن ہے لوگوں کو مہلت دی گئی ہے کہ زندگی میں فوری گرفت نہیں ہوپارہی اور اے مخاطب تجھے کیا خبر کہ فیصلے کی گھڑی کتنی مشکل ہوگی ۔ منکرین کے لیے سخت تباہی کا دن ہوگا پہلے کفار کو تباہ نہیں کردیا گیا یعنی آخرت کے عذابوں کا پرتو بھی اتنا سخت تھا کہ دنیا میں بھی تباہ ہوگے تو پچھلوں کا بھی یہی حال ہوگا انہی کے پیچھے جائیں گے۔ (یقینا عہد نبوی اور عہدخلفاء راشدین کے کفار اپنے انجام کو پہنچے انشاء اللہ عہد حاضر کے بھی اپنے انجام کو پہنچیں گے ) کہ مجرموں کے ساتھ یہی سلوک کیا جاتا ہے بلکہ انکار کرنے والوں کا انجام تباہی ہے۔ بھلا ہم نے ان کو ایک نطفے سے پیدا فرمایا پھر اسے مقررہ مدت تک شکم مادر میں رکھا اور پھر کس قدر خوبصورت بنادیا کہ ہم ہی سب سے اعلی بنانے والے ہیں اس کے بعد بھی ناشکری کرے تو تباہی کے علاوہ کیا حاصل کرے گا۔ کیاہم نے زمین میں بیشمار خوبیاں سمو کر اسے زندوں اور مردوں سب کی ضروریات پورا کرنے کے لیے نہیں بنایا اور پھر اس پہاڑ کا بوجھ لاد کر ان میں پانی جاری کردیا کبھی برف کی صورت اور کبھی چشموں کی کہ تم پیا کرو تو بھلا اتنی نعمتوں کی ناشکری کرنے والا کی سے تباہ نہ ہوگا ۔ آخرت کو کہاجائے گا کہ چلو دیکھ لومیدان حشر میں جن حقیقتوں کا تم انکار کیا کرتے تھے اب اس سائے میں چلو جو جہنم کے دھوئیں کا ہوگا اور جس کی تین شاخیں ہیں۔ کفر کی تین اقسام۔ کہ کفر کی بھی تین قسمیں ہیں باقی سب انہیں میں شامل ہیں ۔ (١) مشرکین (٢) مطلق کافر ، دہریے وغیرہ (٣) اور منافق۔ تو دھوئیں کی بھی تین شاخیں بن جائیں گی کہ نہ توسایے دے گا اور نہ گرمی سے بچائے گا بلکہ اس میں شرارے پھینکے جائیں گے دوزخ کے ، جو محلات جیسے بڑے ہوں گے جنہوں نے کفار کو اسلام سے روکے رکھا اور پھٹ کر بکھیریں گے تو اونٹ اونٹ کے برابر تقسیم ہوں گے کفار کے لیے یہ بہت بڑی تباہی ہوگی کہ اس روز انہیں نہ تو بات کرنے کی جرات ہوگی اور نہ بہانے کرنے کی اجازت بلکہ محض تباہی پھیری جائے گی کہ یہ فیصلے کا روز ہے لہذا اگلے پچھلے تمام انسانوں کے فیصلے کے لیے جمع کیا جائے گا ہاں اگر آج بھی کوئی داؤ پیچ کرسکتے ہوتوکرکے دیکھ لوگ مگر آج کفار کے حصے میں تباہی کے علاوہ کچھ نہ ہوگا۔  Show more

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن۔ المرسلات۔ چلنے والیاں۔ عرف۔ فائدہ پہنچانا۔ عصفت۔ تیز چلنے والیاں۔ نشرات۔ پھیلانے والیاں۔ فرقت۔ پھارنے والیاں۔ الملقیت۔ لانے والیاں۔ طمست۔ مٹا دی گئی۔ نسفت۔ ریزہ ریزہ کردی گئی۔ اقتت ۔ مقرر کی گئی۔ اجلت۔ ملتوی کردی گئی۔ یوم الفصل۔ فیصلے کا دن۔ ویل۔ خرابی ۔ بربادی۔ ماء مھین۔ حقیر پانی۔ کف... ات۔ اکٹھا کرنے والاشمخت۔ اونچے۔ فرات۔ میٹھا پانی ۔ ذی ثلث شعب۔ تین شاخوں والا ۔ ترمی۔ وہ پھینکتی ہے۔ جملت، صفر، ۔ زرد اونٹ۔ لا ینطقون۔ وہ نہ بولیں گے۔ یعتذرون۔ وہ عذر پیش کریں گے۔ ظلل۔ سائے۔ عیون (عین) ۔ چشمے۔ ای حدیث۔ کونسی بات۔ تشریح : سورة المرسلات کی ابتدائی چھ آیتوں میں ہواؤں اور ان پر متعین فرشتوں کی قسمیں کھا کر ارشاد فرمایا گیا ہے کہ قرآن کریم نے قیامت کے ہولناک دن کے متعلق جو بھی خبریں دی ہیں وہ اسی طرح واقع ہو کر رہیں گی۔ یہ دن کفار و مشرکین اور اللہ کے نافرمانوں کے لئے بہت سخت ہوگا اور اللہ کے فرماں بردار اہل ایمان بندوں سے فرمایا جائے گا کہ وہ دنیا میں زندگی بھر جو بھی اعمال کرتے رہے ہیں آج ان کے صلے اور بدلے میں وہ بہت اعلیٰ جنتوں سے ہر طرح عیش و آرام کا سامان حاصل کریں۔ فرمایا ان ہواؤں کی قسم جو نفع پہنچانے والی، زور سے چل کر طوفان بن جانے والی، بادلوں کو اٹھا کر پھیلانے والی، بادلوں کو جدا کرکے بکھیر دینے والی اور عذر سے یا ڈرواوے کے طور پر دلوں میں اللہ کی یاد کو تازہ کردینے والی ہیں وہ وعدہ جو تم سے کیا گیا ہے یعنی قیامت کا آنا وہ دن بہت جلد آنے والا ہے اور واقع ہر کر رہے گا۔ سارا نظام کائنات درہم برہم کردیا جائے گا۔ ستاروں سے روشنی چھین کر ان کو بےنور کردیا جائے گا، آسمان پھٹ جائیں گے، پہاڑ فضاؤں میں اڑتے پھریں گے۔ اس دن اللہ کے تمام پیغمبر اپنی امتوں کے معاملے میں گواہی دینے کے لئے حاضر ہوجائیں گے کہ انہوں نے اللہ کا پیغام ان تک پہنچا دیا تھا۔ یہ فیصلے کا دن ہوگا جو اللہ و رسول اور اس کے دین کو جھٹلانے والوں کے لئے بڑی تباہی و بربادی کا دن ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے نافرمانوں قوموں کے انجام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان لوگوں کو گزری ہوئی قوموں کے بدترین انجام سے عبرت حاصل کرنی چاہیے کہ جو لوگ دنیا کے ذرا سے مال و دولت پر اس قدر اترایا کرتے تھے اور ہر سچائی کے پیغام کو جھٹلا کر اپنے آپ کو بہت طاقت ور اور زور آور سمجھتے رہے تھے وہ اس دن کی ہولناکیوں کے سامنے نہایت بےبس اور عاجز نظر آئیں گے۔ ان کی آنکھیں پھٹی رہ جائیں گی۔ ان کے منہ پر ہیبت اور خوف سے تالے پڑجائیں گے اور وہ اپنی دلی کیفیات کا اظہار تک کرنے کے قابل نہ رہیں گے۔ اگر وہ کوئی عذر پیش کرنا چاہیں گے تو ان کو عذرپیش کرنے کی مہلت تک نہ مل سکے گی۔ فرمایا کہ انسان کس بات پر اتنا اتراتا اور غرور وتکبر کرتا ہے کبھی اس نے اپنی پیدائش پر غور کیا۔ وہ پانی کے ایک حقیر اور بےقدر قطرے سے پیدا نہیں کیا گیا ؟ اس کے نطفے کو ہم نے ایک محفوط مقام پر رکھ کر ایک خاص مدت میں رکھ کر جیتا جاگتا انسان نہیں بنایا ؟ فرمایا کہ کیا اس نے زمین کی پیدائش پر بھی کبھی غور کیا ہے کہ اللہ نے اس کو ہلنے اور حرکت سے بچانے کے لئے اس پر بوجھل پہاڑ بنائے۔ اسی زمین سے اللہ نے اپنی قدرت و حکمت سے میٹھا پانی پیدا کیا جس کو پی کر ہر جاندار زندہ رہتا ہے۔ زمین سر سبز و شادات رہتی ہے۔ اور آدمی اس سے ہر طرح کے فائدے حاصل کرتا ہے لیکن پھر بھی شکر ادا نہیں کرتا۔ انسان اور زمین کی پیدائش میں عبرت و نصیحت کے ہزاروں پہلو پوشیدہ ہیں۔ انسانی زندگی اور زمین پر اتار چڑھائو خود اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں کی کسی چیز کو قرار نہیں ہے آئے دن اس میں انقلاب آتے رہتے ہیں۔ اسی طرح کا ایک زبردست دھماکہ اور انقلاب اس کائنات کی تباہی کا سبب بھی بن جائے گا۔ اور قیامت آجائے گی۔ اس قیامت کے دن ان کفار سے کہا جائے گا کہ تم زندگی بھر جس قیامت کے دن کو جھٹلاتے رہے تھے وہ دن آگیا ہے اب تم دھوئیں گے کے اس سائبان کی طرف چلو جس کی تین شاخیں بن جائیں گی جس میں نہ سایہ ہوگا نہ وہ سایہ ان کو آگ کی لپیٹ سے بچا سکے گا۔ اس دھوئیں سے ایسی چنگاریاں نکل رہی ہوں گے جیسے بڑی بڑی بلڈنگیں یا زردی مائل کالے اونٹ ہیں۔ اس دن یہ کفار نہ سوال کرسکیں گے نہ ان کو عذر اور معذرت پیش کرنے کا موقع ملے گا ۔ کہا جائے گا کہ آج فیسلے کا دن آگیا ہے جس میں ہم نے اگلے پچھلے تمام لوگوں کو جمع کرلیا ہے۔ تم دنیا میں اللہ کے دین کو جھٹلانے کی ہر تدبیر کرچکے ہو۔ اب بھی اگر تمہارے اندر طاقت ہے تو یہاں بھی اپنی چالیں چل کر دیکھ لو لیکن تم اپنی چالوں میں کامیاب نہ ہوسکو گے۔ اللہ تعالیٰ نے سورة المرسلات میں بار بار ای ہی بات کو دھرایا ہے کہ اس فیصلے کے دن ان لوگوں کے لئے زبردست تباہی اور بربادی ہے جو اس کو اور اس کے دین کو جھٹلاتے رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس دن وہ لوگ عیش و آرام اور جنت کی راحتوں میں ہوں گے جنہوں نے خوف الٰہی کے ساتھ اپنے فرائض زندگی کو احسن طریقے پر پوری طرح ادا کیا ہوگا۔ وہ چشموں اور درختوں کی گھنی چھاؤں میں ہوں گے۔ ان کے لئے ہر طرح کی نعمتیں ہوں گی وہ اس جنت میں جو چاہیں گے بلا روک ٹوک ان کو عطا کیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا کہ آج تم پر کوئی پابندی نہیں ہے خوب کھائو، پیو اور عیش و آرام سے رہو۔ یہ ان کی نیکیوں کا صلہ ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ نیکو کاروں کو اسی طرح کا بدلہ دیا کرتے ہیں۔ کفار سے کہا جا رہا ہے کہ تم تھوڑے دنوں تک خوب کھا پی لو۔ فائدے حاصل کرلو لیکن اس بات کو یاد رکھو کہ تم اللہ کے مجرم ہو اور تم کسی رعایت کے مستحق نہیں ہو۔ کیونکہ جب تم سے یہ کہا جاتا تھا کہ تم اللہ کے سامنے جھکو تو تم اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے تھے کہ ہم جانوروں کی طرح جھکنے کو اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے قیامت کے دن فرمایا جائے گا کہ اگر تم دنیا میں اللہ کے سامنے اپنی گردنیں جھکا دیتے تو آج شرمندی سے تمہاری گردنیں نہ جھکتیں۔ فرمایا کہ یہ تمام باتیں ایسی سچائیاں ہیں کہ ان پر یقین کرنا چاہیے۔ اس کے باوجود بھی اگر یہ لوگ اللہ کی باتوں پر یقین نہیں کرتے تو پھر وہ کون سی بات ہوگی جس پر وہ ایمان لائیں گے ؟  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط سورت : الدّہر کے آخر میں یہ ذکر ہوا ہے کہ انسان اپنی عجلت کی وجہ سے آخرت کے مقابلے میں دنیا کو ترجیح دیتا ہے اور آخرت کو فراموش کرتا ہے حالانکہ آخرت کی زندگی ہمیشہ ہمیش رہنے والی ہے۔ سورة المرسَلٰت کی ابتداء میں آخرت کے ابتدائی مراحل کا ذکر گیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں ... اور نعمتوں میں ہوا بھی اس کی عظیم نعمت اور اس کی قدرت کی زبردست نشانی ہے جو انسان اور ہر جاندار کے لیے اس قدر ناگزیر ہے کہ اس کے بغیر انسان اور ہر جاندار چند لمحوں کا مہمان ہوتا ہے۔ عام لوگ ہوا کو ایک جیسی جانتے اور دیکھتے ہیں۔ بیشک اپنی جنس میں ہوا ایک ہے لیکن اپنی کیفیت اور اثرات کے اعتبار سے ہوا کی کئی اقسام ہیں یہاں اس کی پانچ اقسام ذکر کی گئی ہیں یہ اپنے اپنے اثرات اور حیثیت کے اعتبار سے اتنی مؤثر ہیں کہ سینکڑوں میلوں پر محیط فضا اور موسم کو یکدم بدل کر رکھ دیتی ہیں۔ کیونکہ فضا کو بدلنے میں ہوا بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس لیے ہوا کے اثرات اور کیفیت کو اجاگر کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی الگ الگ کیفیت کا نام لے کر قسمیں اٹھائی ہیں تاکہ انسان کو اس بات کا احساس ہوجائے کہ جس ہوا اور فضا میں رہتا ہے وہ رب کی عظیم نعمت اور اس کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک بہت بڑی نشانی ہے اس لیے اس کی یوں قسمیں اٹھائی ہیں۔ قسم ہے ان ہواؤں کی جو مسلسل چلی جارہی ہیں، قسم ہے ان ہواؤں کی جو طوفان کی شکل اختیار کرتی ہیں، قسم ہے ان ہواؤں کی جو بادلوں کو فضا میں پھیلاتی ہیں، قسم ہے ان ہواؤں کی جو بھاری بھرکم بادلوں کو پھاڑ کر ٹکڑیوں میں تبدیل کردیتی ہیں، قسم ہے ان ہواؤں کی جو اپنی طوفانی کیفیت سے لوگوں کے دلوں میں اللہ کا خوف اور اس کی یاد پیدا کرتی ہیں۔ جیسا کہ گرمیوں میں ٹھنڈی ہوا لوگوں کے دلوں میں بارش کی طلب پیدا کرتی ہے اور آندھی کے منفی اثرات سے بچنے کے لیے لوگ اپنے رب کی پناہ مانگتے ہیں۔ موجودہ سائنس نے ہوا کے فوائد کو بہت حد تک اجاگر کردیا ہے، اس کے لیے سائنسدان بڑی محنت اور طویل تحقیق کا سفر طے کر کے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہوا کے ذریعے نر پودے کے اثرات مادہ پودوں تک پہنچتے ہیں اور ہوا کے سبب ہی ایک آدمی کی آواز ٹیوی اور ریڈیو کے ذریعے سینکڑوں میلوں تک سنائی دیتی ہے۔ تجربات کے ذریعے یہ حقیقت بھی واضح ہوگئی ہے کہ مختلف ہو ائیں اپنے اندر مختلف اثرات رکھتی ہیں، یہ بات بھی روز روشن کی طرح واضح ہے کہ مختلف علاقوں کی ہواؤں میں مدّت اور نمی کا تناسب بھی مختلف ہوتا ہے یہاں تک ہوا کی طاقت کا معاملہ ہے۔ اگر ہوا آندھی کی شکل اختیار کرجائے تو بڑے بڑے درخت اور مکانوں کو اڑا کر رکھ دیتی ہے، اگر ہوا ایک حد سے زیادہ تیز اور مسلسل چلے تو انسان کو سانس لینا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ بعض اہل تفسیر نے اس سورت کی ابتدائی پانچ آیات کی یہ تفسیر بھی کی ہے۔ ان الفاظ میں صرف صفات بیان کی گئی ہیں، یہ صراحت نہیں کی گئی کہ یہ کس چیز یا کن چیزوں کی صفات ہیں اس لیے مفسرین کے درمیان اس بات میں اختلاف ہے کہ آیا یہ پانچوں صفات ایک ہی چیز کی ہیں یا الگ الگ چیزوں کی ہیں اور یہ چیزیں کیا ہیں، ایک گروہ کہتا ہے کہ پانچوں سے مراد ہوائیں ہیں، دوسرا فریق کہتا ہے کہ پانچوں سے مراد فرشتے ہیں، تیسرا کہتا ہے کہ پہلے تین سے مراد ہوائیں ہیں اور باقی دو سے مراد فرشتے ہیں، چوتھی جماعت کہتی ہے کہ پہلی دو سے مراد ہوائیں اور باقی تین سے مراد فرشتے ہیں اور ایک گروہ کی رائے یہ بھی ہے کہ پہلے سے مراد عام ملائکہ اور دوسرے سے مراد عذاب کے ملائکہ اور باقی تین سے مراد قرآن مجید کی آیات ہیں۔ (تفہیم القرآن جلد ٦) (عَنْ عَآءِشَۃَ (رض) قَالَتْ مَا رَاَےْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ضَاحِکًا حَتّٰی اَرٰی مِنْہُ لَھَوَاتِہٖ اِنَّمَا کَانَ ےَتَبَسَّمُ فَکَانَ اِذَا رَاٰی غَےْمًا اَوْ رِےْحًا عُرِفَ فِیْ وَجْھِہٖ ۔ ) (رواہ البخاری : باب (فَلَمَّا رَأَوْہُ عَارِضًا مُسْتَقْبِلَ أَوْدِیَتِہِمْ قَالُوا ہَذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا بَلْ ہُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُمْ بِہِ ریحٌ فیہَا عَذَابٌ أَلِیمٌ) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کبھی کھل کھلا کر ہنستے نہیں دیکھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر مسکرایا کرتے تھے۔ آندھی یا بارش کے وقت خوف کے اثرات آپ کے چہرے پر نمایاں ہوتے تھے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے ہوا کی کئی اقسام بنائی ہیں۔ ٢۔ دنیا کے مختلف خطوں میں ہوا کے مختلف اثرات اور کیفیت ہوتی ہے۔  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

والمرسلت ........................................ لواقع مسئلہ دراصل وقوع قیامت کا ہے۔ مشرکین مکہ کے لئے اس کا سمجھنا مشکل ہورہا تھا کہ آیا یہ کس طرح واقع ہوگی۔ قرآن کریم نے اس مسئلہ کو مختلف اسالیب میں ، مختلف دلائل و شواہد کے ساتھ بیان فرمایا۔ یہ مسئلہ ان لوگوں کے ذہن میں اٹھانا بہت ہی ضروری تھا ... ، اس لئے کہ اس کے سوا اسلامی نظریہ حیات ان کے ذہن میں بیٹھ ہی نہ سکتا تھا۔ اور نہ ان کی زندگی کی قدریں صحیح طرح متعین ہوسکتی تھیں۔ اور نہ زندگی کے اصول اور فروغ وضع ہوسکتے تھے۔ تمام آسمانی کتب اور عقائد میں وقوع قیامت کا عقیدہ پہلا زینہ رہا ہے۔ دراصل انسانی زندگی کی اصلاح اور صحیح تعمیر اس کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ انسان کی زندگی اور اس کے اعمال کا دارومدار اسی عقیدے پر ہے۔ انسانی زندگی کے مختلف پہلوﺅں کو صرف اس عقیدے کے ذریعہ ہی درست کیا جاسکتا ہے۔ اور انسان کے لئے صحیح قیامت کی جوابدہی کے تصور ہی سے کی جاسکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اس عقیدے کو عربوں کے ذہن میں بٹھانے کے لئے اس قدر طویل جدوجہد کی تاکہ وہ اس پر اچھی طرح یقین پیدا کرلیں۔ سورت کے آغاز میں اللہ کی قسم اٹھاتا ہے کہ آخرت کا وعدہ پورا ہونے والا ہے۔ اور قسم کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ جن امور پر اللہ نے قسم اٹھائی ہے وہ بھی غیبی حقائق ہیں۔ ایسی قوتیں ہی پوشیدہ ہیں اور اس کائنات کے نظام میں وہ بہت ہی موثر ہیں جس طرح انسانی زندگی کے اندر بھی موثر ہیں۔ سلف صالحین نے ان کے مفہوم کے تعین میں اختلاف کیا ہے۔ بعض نے یہ کہا ہے کہ ان تمام الفاظ سے مراد ہوائیں ہیں ، بعض نے کہا کہ ان سے مراد ملائکہ ہیں۔ بعض نے کہا کہ بعض الفاظ سے مراد ہوائیں ہیں اور بعض سے مراد ملائکہ ہیں۔ ان تعبیرات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مفہوم اور مدلول بہرحال مجمل اور پوشیدہ ہے۔ اور یہاجمال ، غموض اور عدم وضاحت اس حقیقت کے زیادہ مناسب ہے۔ جس پر قسم اٹھائی جارہی ہے کیونکہ وہ بھی غیبی حقیقت ہے اور جس طرح وہ چیزیں جن کی قسم اٹھائی جارہی ہے ، خواہ فرشتے ہوں یا ہوائیں ہوں ، انسانی زندگی میں موثر ہیں۔ اسی طرح قیامت بھی انسانی زندگی میں موثر ہوگی۔ والمرسلت عرفا (1:77) ” قسم ہے ان کی جو پے درپے بھیجے جاتے ہیں “۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ان سے مراد ملائکہ ہیں۔ مسروق ، ابوالضحیٰ ، مجاہد سے ایک روایت کے مطابق : سدی ، ربیع ابن انس ابو صالح (ایک روایت کے مطابق) سے بھی ایسی ہی روایت ہے۔ اس صورت میں معنی یہ ہوگا کہ قسم ہے ان فرشتوں کی جن کو احکامات الٰہیہ کے ساتھ پے درپے بھیجا جاتا ہے۔ جس طرح گھوڑے کی گردن کے بال (ایال) لمبے اور مسلسل ہوتے ہیں۔ ایک لائن میں اسی طرح یہ فرشتے پے درپے آتے ہیں۔ یہی بات انہوں نے عاصفات ، ناشرات ، فارقات اور ملقلیت کے بارے میں کہی ہے کہ ان سے مراد فرشتے ہیں۔ اور حضرت ابن سعود سے روایت ہے کہ المرسلات عرفا سے مراد ہوئیں ہیں ، اس صورت میں معنی یہ ہوگا کہ وہ مسلسل اور پے درپے چلتی ہیں جس طرح گھوڑے کے ایال چلتے ہیں۔ یہی رائے انکی عاصفات اور ناشرات کے بارے میں ہے۔ حضرت ابن عباس ، مجاہد ، قتادہ اور ابوصالح نے (ایک روایت کے مطابق) بھی اس کی تائید کی۔ ابن جریر نے المرسلات کے بارے میں توقف کیا ہے کہ اس سے مراد ملائکہ ہیں یا ہوائیں اللہ ہی جانتا ہے۔ لیکن عاصفات سے انہوں نے قطعاً مراد ہوائیں لی ہیں۔ یہی بات انہوں نے ناشرات کے بارے میں کہی کہ یہ ہوائیں ہیں جو بادلوں کو بکھیرتی ہیں۔ اور حضرت ابن مسعود سے روایت ہے (الفارقات فرقا ، الملقیات ذکرا ، عذرا ونذرا) سے مراد فرشتے ہیں۔ یہی رائے حضرت ابن عباس ، مسروق ، مجاہد ، قتادہ ربیع ابن انس ، سدی اور ثوری سے منقول ہے۔ اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ یہ فرشتے اللہ کے احکام لے کر رسولوں پر آتے ہیں اور حق و باطل کے درمیان فرق کرتے ہیں۔ رسولوں پر وحی کا القا کرتے ہیں ، جس کے اندر لوگوں کے لئے ذرا اوالورا تمام حجت ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ ان الفاظ یا ان کے اس مفہوم کو ارادتاً مجہول رکھا گیا ہے جس کی قسم اٹھائی گئی ہے مثلاً (الذاریات ذروا) اور (النازغات غرقا) کے مفہوم کو ارادتاً مجمل رکھا گیا ہے۔ نیز متقدمین نے ان کے مفہوم میں جو اختلاف کیا ہے یہ بھی دلیل ہے اس امرپر کہ ان الفاظ کے مفہوم مقسم بہ کو مہم رکھا گیا ہے اور ان مقامات پر ابہام اصل مقصود تھا۔ لہٰذا اشاراتی انداز ہی اس مقام پر زیادہ موزوں ہے۔ یہ الفاظ اور ان کی مبہم اشارات اور ان کا تسلسل اور ترنم اور ان کی پدا کردہ فضا انسانی شعور کے اندر ایک ارتعاش پیدا کرتی ہے۔ اور یہ ارتعاش اور کام ابھارنا اس سورت کے موضوع اور سورت کے رخ کے ساتھ زیادہ ہم آہنگ ہیں۔ اس سورت کا ہر مقطع دراصل انسان کو ایک شدید جھٹکا دیتا اور جھنجھوڑتا ہے کہ باز آجاﺅ ان بداعمالیوں سے اور اللہ کی ظاہر اور باہر اور حقیقی آیات ونشانات کا انکار نہ کرو۔ اور اگر تم باز نہیں آتے تو پھر تکذیب پر اصرار کرنے والوں کے متعین انجام کے لئے تیار ہوجاﺅ۔ ویل ............................ للمکذبین ” اس دن انکار کرنے والوں کے لئے ہلاکت ہے “۔ اس کے بعد انسانی فکر ونظر اور شعور کو ایک شدید جھٹکا دیا جاتا ہے کہ جب وہ دن آئے گا جس کا تمام رسولوں کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے۔ جس دن تمام رسول اپنی کارکردگی پیش کریں گے اور جس دن لوگوں کی اعمال کے فیصلے ہوں گے تو وہ کیسا دن ہوگا۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قیامت ضرور واقع ہوگی، رسولوں کو وقت معین پر جمع کیا جائے گا، فیصلہ کے دن کیلئے مہلت دی گئی ہے مذکورہ بالا آیات میں ہواؤں کی قسمیں کھائیں اور قسمیں کھا کر یہ بتایا کہ تم سے جس چیز کا وعدہ کیا جا رہا ہے وہ چیز ضرور واقع ہوگی یعنی قیامت ضرور ہی آئے گی انکار کرنے سے ٹلنے والی نہیں ہواؤں کی جو قسمیں کھ... ائیں اس میں دونوں قسم کی ہوائیں مذکور ہیں۔ فائدہ پہنچانے والی بھی اور ضرر دینے والی بھی۔ بادلوں کو لانے والی فائدہ پہنچانے والی ہیں اور تیزی اور تندی سے چلنے والی تکلیف پہنچانے والی ہیں پہلی ہوائیں شکر ادا کرنے کا ذریعہ ہیں اور خوفناک ہوائیں اللہ کی گرفت اور نعمت یاد دلانے والی ہیں انسان کو دنیا میں دونوں حالتیں پیش آتی ہیں۔ اسے سمجھ لینا چاہیے کہ قیامت کا دن آنے والا ہے اس روز شکر کا ثواب ملے گا اور توبہ کرنے والوں کو فائدہ پہنچے گا۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

2:۔ ” والمرسلات عرفا “ مرسلات اور باقی الفاظ سے بعض نے فرشتے مراد لیے ہیں اور بعض کے نزدیک ان سے ہوائیں مراد ہیں۔ امام ابن کثیر (رح) فرماتے ہیں زیادہ ظاہر یہی ہے۔ والاظہر ان المرسلاتھی الریاح الخ (ابن کثیر ج 4 ص 459) ۔ حضرت ابن مسعود، ابن عباس، مجاہد، قتادہ اور ابو صالح رحمہم اللہ سے بھی منقول ہے۔ (... ایضاً ) ۔ ” عرفا “ حال ہے بمعنی متتابعۃ (کبیر) ۔ یا ” عرفا “ سے احسان و معروف مراد ہے (بیضاوی) ۔ قسم ہے ان ہواؤں کی جو چھوڑی جاتی ہیں احسان و معروف کے ساتھ، مراد رحمت کی ہوائیں ہیں جو نرم و خنک ہوتی ہیں۔ ” فالعصفت عصفا “ پھر قسم ہے ان ہواؤں کی جو نہایت تند ہوتی ہیں۔ ” والنشرات نشرا “ قسم ہے ان ہواؤں کی جو بادلوں کو لے کر چلتی ہیں۔ ” فالفرقت فرقا “ پھر بادلوں کو تقسیم کردیتی اور جدا جدا کردیتی ہیں۔ ” فالملقیت ذکرا “ پھر ڈالنے والی ہیں نصیحت کو۔ ان ہواؤں میں بھی عبرت اور نصیحت ہے جس طرح یہ ہوائیں نرم بھی چلتی ہیں اور تند بھی۔ رحمت بھی لاتی ہیں اور عذاب بھی، بس ان شواہد کو دیکھ کر سمجھ لو کہ آخرت میں بھی کسی کے ساتھ نرمی ہوگی اور کسی کے ساتھ سختی ہوگی کوئی مورد رحمت ہوگا اور کوئی مورد عذاب۔ ” عذرا “ واسطے دفع کرنے عذر کے تاکہ کوئی عذر نہ کرسکے اس لیے دنیا میں اس کا نمونہ بتا دیا تیا۔ ” نذرا “ کافروں کو ڈرانے کے لیے۔ اگر کفار بارش کو سیاروں سے منسوب کردیں تو ہوائیں بھی ان کے عذاب کا سبب بن جاتی ہیں۔ ” نذرا للکافر تخویفا لہم والریاح سبب لوعید الکفار بالعذاب اذا اسندوا المطر الی النواء مثلا (مظہری ج 10 ص 165) ۔ ” انما توعدون لواقع “ یہ جواب قس ہے۔ یہ شواہد اس کی دلیل ہیں کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے یعنی ثواب و عذاب وہ ضرور واقع ہوگا یہ سورت کا دعوی ہے علی سبیل الترقی۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(1) قسم ہے ان ہوائوں کی جو خلق کی نفع رسانی کے لئے بھیجی جاتی ہیں۔