Surat ul Mursilaat

Surah: 77

Verse: 27

سورة المرسلات

وَّ جَعَلۡنَا فِیۡہَا رَوَاسِیَ شٰمِخٰتٍ وَّ اَسۡقَیۡنٰکُمۡ مَّآءً فُرَاتًا ﴿ؕ۲۷﴾

And We placed therein lofty, firmly set mountains and have given you to drink sweet water.

اور ہم نے اس میں بلند و بھاری پہاڑ بنا دیئے اور تمہیں سیراب کرنے والا میٹھا پانی پلایا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَجَعَلْنَا فِيهَا رَوَاسِيَ شَامِخَاتٍ ... And have placed therein fixed towers, meaning, the mountains. The earth is held in place with them so that it does not shake and sway. ... وَأَسْقَيْنَاكُم مَّاء فُرَاتًا and have given you Furat water. meaning, cold and delicious water from the clouds or from what He causes to gush forth from the springs of the earth. وَيْلٌ يوْمَيِذٍ لِّلْمُكَذِّبِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٧] زمین سے انسان کا دائمی تعلق :۔ پھر اسی زمین میں بلند وبالا پہاڑ پیدا کردیئے جو سمندروں سے اٹھنے والے آبی بخارات کو ٹھنڈا کردینے اور بارش کے قطرے بن جانے میں مدد دیتے ہیں۔ اور ان آبی بخارات کا رخ بدل دیتے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں پہاڑوں پر برف بھی جمتی ہے اور بارشیں بھی خوب ہوتی ہیں۔ یہی پانی کچھ تو ندی، نالوں، نہروں اور دریاؤں کی صورت میں بہتا ہے اور انسانوں اور کھیتیوں کو سیراب کرتا ہے اور اسی بارش کے پانی کا کثیر حصہ زمین میں جذب ہوجاتا ہے۔ تو سطح زمین کے نیچے خاصی گہرائی میں پانی کی نہریں اور دریا رواں ہوجاتے ہیں۔ پانی کے یہ محفوظ ذخیرے اس وقت کام آتے ہیں جب بارش برسنے میں دیر ہوجائے۔ تاکہ انسان مصنوعی آبپاشی کے ذریعہ اپنے کھیتوں کو اور اپنے آپ کو سیراب کرسکے۔ علاوہ ازیں پہاڑوں سے معدنیات نکل رہی ہیں۔ زمین سے کئی طرح کے سیال اور گیس کے خزانے برآمد ہو رہے ہیں۔ جوں جوں انسان کی آبادی بڑھتی جارہی ہے زمین بھی اپنے نت نئے خزانے اگل رہی ہے۔ گویا یہی زمین زندوں کی زندگی کی بقاء کے لیے بھی بہت کافی ہے اور دنیا جہاں کے مردوں کو سنبھالنے کے لیے بھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَّجَعَلْنَا فِيْہَا رَوَاسِيَ شٰمِخٰتٍ وَّاَسْقَيْنٰكُمْ مَّاۗءً فُرَاتًا۝ ٢٧ ۭ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ رسا يقال : رَسَا الشیء يَرْسُو : ثبت، وأَرْسَاهُ غيره، قال تعالی: وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ/ 13] ، وقال : رَواسِيَ شامِخاتٍ [ المرسلات/ 27] ، أي : جبالا ثابتات، وَالْجِبالَ أَرْساها[ النازعات/ 32] ، ( ر س و ) رسا الشئی ۔ ( ن ) کے معنی کسی چیز کے کسی جگہ پر ٹھہرنے اور استوار ہونے کے ہیں اور ارسٰی کے معنی ٹھہرانے اور استوار کردینے کے ۔ قرآن میں ہے : وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ/ 13] اور بڑی بھاری بھاری دیگیں جو ایک پر جمی رہیں ۔ رَواسِيَ شامِخاتٍ [ المرسلات/ 27] اور انچے انچے پہاڑ یہاں پہاڑوں کو بوجہ ان کے ثبات اور استواری کے رواسی کہا گیا ہے ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : وَالْجِبالَ أَرْساها[ النازعات/ 32] اور پہاڑوں کو ( اس میں گاڑ کر ) پلادیا ۔ شمخ قال اللہ عزّ وجلّ : رَواسِيَ شامِخاتٍ [ المرسلات/ 27] ، أي : عالیات، ومنه : شَمَخَ بأنفه عبارة عن الکبر . ( ش م خ ) ( الشامخ ) بلند ج مونث شامخات ) قرآن میں ہے : رَواسِيَ شامِخاتٍ [ المرسلات/ 27] اونچے اونچے پہاڑ ۔ اور اسی سے شمخ بانفی کا محاورہ ہے جس کے معنی تکبر کرنے کے ہیں ۔ سقی السَّقْيُ والسُّقْيَا : أن يعطيه ما يشرب، والْإِسْقَاءُ : أن يجعل له ذلک حتی يتناوله كيف شاء، فالإسقاء أبلغ من السّقي، لأن الإسقاء هو أن تجعل له ما يسقی منه ويشرب، تقول : أَسْقَيْتُهُ نهرا، قال تعالی: وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان/ 21] ، وقال : وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد/ 15] ( س ق ی ) السقی والسقیا کے معنی پینے کی چیز دینے کے ہیں اور اسقاء کے معنی پینے کی چیز پیش کردینے کے ہیں تاکہ حسب منشا لے کر پی لے لہذا اسقاء ینسبت سقی کے زیادہ طبغ ہے کیونکہ اسقاء میں مایسقی منھ کے پیش کردینے کا مفہوم پایا جاتا ہے کہ پینے والا جس قد ر چاہے اس سے نوش فرمانے مثلا اسقیتہ نھرا کے معنی یہ ہوں ۔ گے کر میں نے اسے پانی کی نہر پر لے جاکر کھڑا کردیا چناچہ قرآن میں سقی کے متعلق فرمایا : ۔ وسقاھم وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان/ 21] اور ان کا پروردگار ان کو نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا ۔ وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد/ 15] اور ان کو کھولتا ہوا پانی پلایا جائیگا ۔ ماء قال تعالی: وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] ، وقال : وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] ، ويقال مَاهُ بني فلان، وأصل ماء مَوَهٌ ، بدلالة قولهم في جمعه : أَمْوَاهٌ ، ومِيَاهٌ. في تصغیره مُوَيْهٌ ، فحذف الهاء وقلب الواو، ( م ی ہ ) الماء کے معنی پانی کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] پاک ( اور نتھرا ہوا پانی اور محاورہ ہے : ۔ ماء بنی فلان فلاں قبیلے کا پانی یعنی ان کی آبادی ماء اصل میں موہ ہے کیونکہ اس کی جمع امراۃ اور میاہ آتی ہے ۔ اور تصغیر مویۃ پھر ہا کو حزف کر کے واؤ کو الف سے تبدیل کرلیا گیا ہے فرت الْفُرَاتُ : الماء العذب . يقال للواحد والجمع، قال تعالی: وَأَسْقَيْناكُمْ ماءً فُراتاً [ المرسلات/ 27] ، وقال : هذا عَذْبٌ فُراتٌ [ الفرقان/ 53] . ( ف ر ت ) الفرات کے معنی شیریں یا نہایت شیریں پانی کے ہیں اور یہ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَسْقَيْناكُمْ ماءً فُراتاً [ المرسلات/ 27] اور تم لوگوں کو میٹھا پانی پلایا ۔ هذا عَذْبٌ فُراتٌ [ الفرقان/ 53] ایک کا پانی شیریں ہے پیس بجھانے ولا ؛

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٧۔ ٣٣) اور ہم نے اس زمین کی میخوں کے لیے اونچے اونچے پہاڑ بنائے اور اے جھٹلانے والو تمہیں میٹھا پانی یا یہ کہ دودھ پلایا تو قیامت کے دن ان جھٹلانے والوں کے لیے بڑی تباہی ہے۔ اے جھٹلانے والو تم اس عذاب کی طرف چلو جس کو تم دنیا میں جھٹلایا کرتے تھے ان سے فرشتے حساب سے فارغ ہونے کے بعد کہیں گے اور اے گروہ مکذبین تم دوزخ کے اس دھوئیں کی طرف چلو جس میں تین شاخیں ہیں جس میں نہ دوزخ کی گرمی سے ٹھنڈا سایہ ہے اور اس کی لپٹوں سے بچاتا ہے اور وہ انگارے برساتا ہے جیسا کہ بڑے درخت کے تنے جیسے کالے کالے اونٹ۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

15 This is yet another argument for the possibility and reasonableness of the Hereafter. It is this very earth which since millions and millions of years has been sustaining and providing for countless different kinds of creatures. Every kind of vegetation and every kind of animal and man are living on it, To meet the requirements of aII immeasureable treasures of provisions of different kinds are corning out of its belly. Then it is on this very earth that countless members of all kinds of creatures die every day, but there exists a wonderful arrangement in that the dead bodies of all creatures are deposited in the same earth, and it again becomes ready for sustaining life and providing home to the new members of every species. This earth has not been shaped like a smooth-surfaced ball either, but here and there on it there have been set high mountains and mountain-ranges, which play an important role in causing the change of seasons and rainfall, the birth of rivers creation of fertile valleys, growth of trees which supply timber, and provisions of a variety of minerals and stones. Then in the interior of this very earth, sweet water has been stored and on its surface rivers of sweet water have been arranged and from the saline waters of the sea also vapours of pure water are raised and caused to fall as rain from the sky. Is not all this an argument to prove that an All-Powerful Sovereign has created aII this and He is not only All-Powerful but AII-Knowing and All-Wise as well'? Now, if this earth has been thus equipped and provisioned only by His power and wisdom, why should an intelligent man trod it difficult to understand that the same Sovereign by His power can wind up this world and create another world on a new pattern, and the demand of His wisdom is that he should create another world after it so that He may call man to account for the deeds he has done in this world?

سورة الْمُرْسَلٰت حاشیہ نمبر :15 یہ آخرت کے ممکن اور معقول ہونے پر ایک دلیل ہے ۔ یہی ایک کرہ زمین ہے جو کروڑوں اور اربوں سال سے بے حدوحساب مخلوقات کو اپنی گود میں لیے ہوئے ہے ، ہر قسم کی نباتات ، ہر قسم کے حیوانات اور انسان اس پر جی رہے ہیں اور سب کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اس کے پیٹ میں سے طرح طرح کے اتھاہ خزانے نکلتے چلے آ رہے ہیں ۔ پھر یہی زمین ہے جس پر ان تمام اقسام کی مخلوقات کے بے شمار افراد روز مرتے ہیں ، مگر ایسا بے نظیر انتظام کر دیا گیا ہے کہ سب کے لاشے اسی زمین میں ٹھکانے لگ جاتے ہیں اور یہ پھر ہر مخلوق کے نئے افراد کے جینے اور بسنے کے لیے تیار ہو جاتی ہے ۔ اس زمین کو سپاٹ گیند کی طرح بھی بنا کر نہیں رکھ دیا گیا ہے بلکہ اس میں جگہ جگہ پہاڑی سلسلے اور فلک بوس پہاڑ قائم کیے گئے ہیں جن کا موسموں کے تغیرات میں ، بارشوں کے برسنے میں ، دریاؤں کی پیدائش میں ، زرخیز وادیوں کے وجود میں ، بڑے بڑے شہتیر فراہم کرنے والے درختوں کے اگنے میں ، قسم قسم کی معدنیات اور طرح طرح کے پتھروں کی فراہمی میں بہت بڑا دخل ہے ۔ پھر اس زمین کے پیٹ میں بھی میٹھا پانی پیدا کیا گیا ہے ، اس کی پیٹھ پر بھی میٹھے پانی کی نہریں بہا دی گئی ہیں اور سمندر کے کھارے پانی سے صاف ستھرے بخارات اٹھا کر بھی نتھرا ہوا پانی آسمان سے برسانے کا انتظام کیا گیا ہے ۔ کیا یہ سب اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ایک قا در مطلق نے یہ سب کچھ بنایا ہے ، اور محض قادر ہی نہیں ہے بلکہ علیم و حکیم بھی ہے؟ اب اگر اس قدرت اور حکمت ہی سے یہ زمین اس سرد سامان کے ساتھ اور ان حکمتوں کے ساتھ بنی ہے تو ایک صاحب عقل آدمی کو یہ سمجھنے میں کیوں مشکل پیش آتی ہے کہ اسی کی قدرت اس دنیا کی بساط لپیٹ کر پھر ایک دوسری دنیا نئے طرز پر بنا سکتی ہے ، اور اس کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اس کے بعد ایک دوسری دنیا بنائے تاکہ انسان سے ان اعمال کا حساب لے جو اس نے اس دنیا میں کیے ہیں؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(77:27) وجعلنا فیہا رواسی شمخت۔ واؤ عاطفہ ہے جملہ کا عطف جملہ سابقہ الم نجعل الارض پر ہے فیہا میں ضمیر ھا واحد مؤنث غائب الارض کے لئے ہے۔ رواسی شمخت موصوف صفت مل کر جعلنا کا مفعول۔ رواسی جمع ہے راسیۃ کی بمعنی بوجھ۔ پہاڑ۔ رواسی کا استعمال ٹھیرے ہوئے پہاڑوں کے لئے ہوتا ہے۔ یہ رسو سے مشتق ہے جس کے معنی کسی چیز پر قائم رہنے اور استوار ہونے کے ہیں۔ شمخت : شموخ (باب فتح) مصدر سے۔ اسم فاعل کا صیغہ جمع مؤنث ہے، بمعنی بلند، اونچا، رواسی شمخت بلند و بالا پہاڑ جو ایک جگہ ٹھہرے ہوئے ہیں ۔ واسقینکم ماء فراتا۔ جملہ معطوف ہے اس کا عطف جملہ ماقبل پر ہے۔ اسقینا ماضی کا صیغہ جمع متکلم اسقاء (افعال) مصدر۔ بمعنی سیراب کرنا۔ پلانا۔ کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ ماء فراتا موصوف و صفت مل کر اسقینا کا مفعول ثانی فراتا فروتہ (باب کرم) مصدر سے صفت مشبہ کا صیغہ بحالت نصب ہے۔ بہت شیریں پانی ، شیریں ہونا۔ لیکن اسی مادہ ف ر ت سے (باب نصر) سے فرت یفرت مصدر سے معنی ہونگے زنا کار اور بدچلن ہونا۔ اور اباب سمع سے معنی ہوں گے بیوقوف ہونا۔ اسی سے ہے پیر فرتوت بیوقوف ، کمزور رائے والا آدمی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مزید فرمایا کہ ہم نے تمہیں میٹھا پانی پلایا یہ میٹھا پانی تمہیں سیراب کرتا ہے خوب پیتے ہو اور پیاس بجھاتے ہو۔ اس کا شکر ادا کرنا لازم ہے۔ لہٰذا تم اپنے خالق اور مالک کی طرف متوجہ ہو اس کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیق کرو اور قیامت کے دن کے لیے متفکر ہو ﴿وَيْلٌ يَّوْمَىِٕذٍ لِّلْمُكَذِّبِيْنَ ٠٠٢٨﴾ بڑی خرابی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(27) اور ہم نے اس زمین میں اونچے اونچے بوجھل پہاڑ بنائے اور ہم نے تم لوگوں کو میٹھا پانی پلایا۔ یعنی زمین زندوں کو اپنے اوپر بساتی ہے اور مرنے کے بعد مرنے والے کو اجزاء اسی زمین میں سما جاتے ہیں خواہ کوئی دفن ہو یا غرق ہو یا جل جائے، بہرحال سب کے اجزاء زمین میں ہی مل جاتے ہیں، پہاڑوں کا قائم ہونا اور میٹھے پانی کا پینا ظاہر ہی ہے یہ امور اس کی توحید کے مقتضی ہیں مگر تم توحید الٰہی کو جھٹلاتے ہو یادرکھو۔