Surat ul Mursilaat
Surah: 77
Verse: 32
سورة المرسلات
اِنَّہَا تَرۡمِیۡ بِشَرَرٍ کَالۡقَصۡرِ ﴿ۚ۳۲﴾
Indeed, it throws sparks [as huge] as a fortress,
یقیناً دوزخ چنگاریاں پھینک تی ہے جو مثل محل کے ہیں ۔
اِنَّہَا تَرۡمِیۡ بِشَرَرٍ کَالۡقَصۡرِ ﴿ۚ۳۲﴾
Indeed, it throws sparks [as huge] as a fortress,
یقیناً دوزخ چنگاریاں پھینک تی ہے جو مثل محل کے ہیں ۔
Verily, it throws sparks as Al-Qasr, meaning, its sparks will shoot out from its flame like huge castles. Ibn Mas`ud said, "Like forts." Ibn `Abbas, Mujahid, Qatadah and Malik who reported from Zayd bin Aslam and others said, "This means the trunk of trees." كَأَنَّهُ جِمَالَتٌ صُفْرٌ
32۔ 1 اس کا ایک ترجمہ ہے جو لکڑی کے بوٹے یعنی بھاری ٹکڑے کے مثل ہیں۔
إِنَّهَا تَرْمِي بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِ كَأَنَّهُ جِمَالَتٌ صُفْرٌ (It emits sparks [ as huge ] as castles...77:32) The word gasr means a &huge, magnificent castle&. The word jimalah is used in the sense of jamal, and means &camel&. The word sufr is the plural of asfar which means &yellow&. The verse describes the fire of Hell. It will emit such huge sparks of fire, as if they were huge and magnificent castles. Then they will break up into little splinters, as if they were yellowish camels. Some scholars have translated the word &sufr& as &black& because yellowish colour of camels tends to blackness. [ Ruh ].
اِنَّهَا تَرْمِيْ بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِ 32ۚكَاَنَّهٗ جِمٰلَتٌ صُفْر، قصر کے معنی بڑا عالیشان محل اور جمالہ بمعنے جمل اونٹ کو کہا جاتا ہے۔ صفر، اصفر کی جمع ہے جس کے معنے زرد کے ہیں۔ مراد آیت کی یہ ہے کہ اس جہنم کی آگ سے اتنے بڑے بڑے شرارے اٹھیں گے جو ایک مستقل محل عالیشیان کی برابر ہوں گے پھر وہ متفرق ہو کر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہوں گے وہ ٹکڑے زرد اونٹوں کہ برابر ہوں گے اور بعض حضرات نے اس جگہ صفر کا ترجمہ سیاہ کیا ہے کیونکہ زرد اونٹ کی زردی سیاہی مائل ہوتی ہے۔ (روح)
اِنَّہَا تَرْمِيْ بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِ ٣٢ ۚ رمی الرَّمْيُ يقال في الأعيان کالسّهم والحجر، نحو : وَما رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلكِنَّ اللَّهَ رَمى [ الأنفال/ 17] ، ويقال في المقال، كناية عن الشّتم کالقذف، نحو : وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْواجَهُمْ [ النور/ 6] ، يَرْمُونَ الْمُحْصَناتِ [ النور/ 4] ، وأَرْمَى فلان علی مائة، استعارة للزّيادة، وخرج يَتَرَمَّى: إذا رمی في الغرض . ( ر م ی ) الرمی ( ض ) کے معنی پھینکنے کے ہیں یہ اجسام ( مادی چیزیں ) جیسے تیر وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَما رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلكِنَّ اللَّهَ رَمى [ الأنفال/ 17] اے پیغمبر جب تو نے تیر چلائے تو تم نے تیر نہیں چلائے بلکہ اللہ تعالیٰ نے تیر چلائے ۔ اوراقوال کے متعلق استعمال ہو تو |" قذف |" کی طرح اس کے معنی سب و شتم اور تہمت طرازی کے ہوتے ہیں ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْواجَهُمْ [ النور/ 6] جو لوگ اپنی بیبیوں پر ( زنا کا ) عیب لگائیں ۔ وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَناتِ [ النور/ 4] جو لوگ پاکدامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں ۔ محاورہ ہے ارمیٰ علٰی مائۃ : وہ سو سے زائد ہیں ۔ خرج یترمٰی : وہ نکل کر نشانہ بازی کرنے لگا ۔ شر الشَّرُّ : الذي يرغب عنه الكلّ ، كما أنّ الخیر هو الذي يرغب فيه الكلّ قال تعالی: شَرٌّ مَکاناً [يوسف/ 77] ، وإِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُ [ الأنفال/ 22] الشَّرُّ : الذي يرغب عنه الكلّ ، كما أنّ الخیر هو الذي يرغب فيه الكلّ قال تعالی: شَرٌّ مَکاناً [يوسف/ 77] ، وإِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُ [ الأنفال/ 22] ، وقد تقدّم تحقیق الشّرّ مع ذکر الخیر وذکر أنواعه ورجل شَرٌّ وشِرِّيرٌ: متعاط للشّرّ ، وقوم أَشْرَارٌ ، وقد أَشْرَرْتُهُ : نسبته إلى الشّرّ ، وقیل : أَشْرَرْتُ كذا : أظهرته واحتجّ بقول الشاعر :إذا قيل : أيّ الناس شرّ قبیلة ... أشرّت كليبٌ بالأكفّ الأصابعفإن لم يكن في هذا إلّا هذا البیت فإنه يحتمل أنها نسبت الأصابع إلى الشّرّ بالإشارة إليه، فيكون من : أشررته : إذا نسبته إلى الشّرّ ، والشُّرُّ بالضّمّ خصّ بالمکروه، وشَرَارُ النّار : ما تطایر منها، وسمّيت بذلک لاعتقاد الشّرّ فيه، قال تعالی: تَرْمِي بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِ [ المرسلات/ 32] . ( ش ر ر ) الشر وہ چیز ہے جس سے ہر ایک کراہت کرتا ہو جیسا کہ خیر اسے کہتے ہیں ۔ جو ہر ایک کو مرغوب ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَرٌّ مَکاناً [يوسف/ 77] کہ مکان کس کا برا ہے وإِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُ [ الأنفال/ 22] کچھ شک نہیں کہ خدا کے نزدیک تمام جانداروں سے بدتر بہرے ہیں شر کا اصل معنی اور اس کے جملہ اقسام خیر کی بحث میں بیان ہوچکے ہیں ۔ رجل شریر و شریر شریر آدمی و قوم اشرار برے لوگ اشررتہ کسی کی طرف شر کی نسبت کرنا بعض نے کہا ہے کہ اشررت کذا کے معنی کسی چیز کو ظاہر کرنے کے بھی آتے ہیں ۔ اور شاعر کے اس قول سے استدلال کیا ہے ( الطویل ) ( 256 ) اذا قیل ای الناس شر قبیلۃ اشرت کلیب بالاکف الاصابعا جب یہ پوچھا جائے کہ کو نسا قبیلہ سب سے برا ہے تو ہاتھ انگلیوں سے بنی کلیب کی طرف اشارہ کردیتے مگر اس شعر کے علاوہ اس معنی پر اگر اور کوئی دلیل نہ ہو تو یہاں اشرت کے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں ۔ کہ ساتھ انگلیوں سے ان کی طرف شر کی نسبت کردیتے ہیں الشر ( بضمہ الشین ) شر مکروہ چیز شرار النار آگ کی چنگاری ۔ آگ کی چنگاری کو شرار اسلئے کہتے ہیں کہ اس سے بھی نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے قرآن ؎ میں ہے تَرْمِي بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِ [ المرسلات/ 32] اس سے آگ کی ( اتنی اتنی بڑی ) چنگاریاں اڑتی ہیں جیسے محل قصر القِصَرُ : خلاف الطّول، وهما من الأسماء المتضایفة التي تعتبر بغیرها، وقَصَرْتُ كذا : جعلته قَصِيراً ، والتَّقْصِيرُ : اسم للتّضجیع، وقَصَرْتُ كذا : ضممت بعضه إلى بعض، ومنه سمّي الْقَصْرُ ، وجمعه : قُصُورٌ. قال تعالی: وَقَصْرٍ مَشِيدٍ [ الحج/ 45] ، وَيَجْعَلْ لَكَ قُصُوراً [ الفرقان/ 10] ، إِنَّها تَرْمِي بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِ [ المرسلات/ 32] ، وقیل : الْقَصْرُ أصول الشّجر، الواحدة قَصْرَةٌ ، مثل : جمرة وجمر، وتشبيهها بالقصر کتشبيه ذلک في قوله : كأنّه جمالات صفر [ المرسلات/ 33] ، وقَصَرْتُه جعلته : في قصر، ومنه قوله تعالی: حُورٌ مَقْصُوراتٌ فِي الْخِيامِ [ الرحمن/ 72] ، وقَصَرَ الصلاةَ : جعلها قَصِيرَةً بترک بعض أركانها ترخیصا . قال : فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاةِ [ النساء/ 101] وقَصَرْتُ اللّقحة علی فرسي : حبست درّها عليه، وقَصَرَ السّهمِ عن الهدف، أي : لم يبلغه، وامرأة قاصِرَةُ الطَّرْفِ : لا تمدّ طرفها إلى ما لا يجوز . قال تعالی: فِيهِنَّ قاصِراتُ الطَّرْفِ [ الرحمن/ 56] . وقَصَّرَ شعره : جزّ بعضه، قال : مُحَلِّقِينَ رُؤُسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ [ الفتح/ 27] ، وقَصَّرَ في كذا، أي : توانی، وقَصَّرَ عنه لم : ينله، وأَقْصَرَ عنه : كفّ مع القدرة عليه، واقْتَصَرَ علی كذا : اکتفی بالشیء الْقَصِيرِ منه، أي : القلیل، وأَقْصَرَتِ الشاة : أسنّت حتی قَصَرَ أطراف أسنانها، وأَقْصَرَتِ المرأة : ولدت أولادا قِصَاراً ، والتِّقْصَارُ : قلادة قَصِيرَةٌ ، والْقَوْصَرَةُ معروفة «1» . ( ق ص ر ) القصر یہ طول کی ضد ہے اور یہ دونوں اسمائے نسبتی سے ہیں جو ایک دوسرے پر قیاس کے ذریعہ سمجھے جاتے ہیں ۔ قصرت کذا کے معنی کسی چیز کو کوتاہ کرنے کے ۔ ہیں اور تقصیر کے معنی اور سستی کے ہیں اور قصرت کذا کے معنی سکیٹر نے اور کسی چیز کے بعض اجزاء کو بعض کے ساتھ ملانا کے بھی آتے ہیں ۔ اسی سے قصر بمعنی محل ہے اس کی جمع قصور آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقَصْرٍ مَشِيدٍ [ الحج/ 45] اور بہت سے محل : ۔ وَيَجْعَلْ لَكَ قُصُوراً [ الفرقان/ 10] نیز تمہارے لئے محل بنادے گا ۔ إِنَّها تَرْمِي بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِ [ المرسلات/ 32] اس سے آگ کی اتنی ( بڑی بڑی ) چنگاریاں اٹھتی ہیں ۔ جیسے محل ۔ بعض نے کہا ہے کہ قصر جمع ہے اور اس کے معنی درخت کی جڑوں کے ہیں ۔ اس کا واحد قصرۃ ہے جیسے جمرۃ وجمر اور ان شراروں کو قصر کے ساتھ تشبیہ دینا ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری آیت میں ان کا ۔ كأنّه جمالات صفر [ المرسلات/ 33] گویا زور درنگ کے اونٹ ہیں ۔ کہا ہے کہ اور قصرتہ کے معنی محل میں داخل کرنے کے ہیں اور اسی سے ارشاد الہٰی ہے ۔ حُورٌ مَقْصُوراتٌ فِي الْخِيامِ [ الرحمن/ 72] وہ حوریں ہیں جو خیموں میں ستور ہیں ۔ قصرالصلٰوۃ بموجب رخصت شرعی کے نماز کے بعض ارکان کو ترک کرکے اسے کم کرکے پڑھنا ۔ قرآن پاک میں ہے : فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاةِ [ النساء/ 101] تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ نماز کو کم کر کے پڑھو ۔ قصرت اللقحتہ علٰی فرسی اونٹنی کا دودھ اپنی گھوڑی کے لئے مخصوص کردیا قصرالسھم عن الھدف ۔ تیر کا نشانے تک نہ پہنچنا ۔ امراءۃ قاصرۃ الطرف وہ عورت ناجائز نظر اٹھا کے نہ دیکھے ۔ قرآن پاک میں ہے : فِيهِنَّ قاصِراتُ الطَّرْفِ [ الرحمن/ 56] ان میں نیچی نگاہ والی عورتیں ۔ قصری شعرہ بال کتروانا قرآن پاک میں ہے : مُحَلِّقِينَ رُؤُسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ [ الفتح/ 27] اپنے سر منڈاوا کر اور بال کتروا کر ۔ قصرفی کذا : کسی کام میں سستی کرنا قصر عنہ کسی کام کے کرنے سے عاجز ہونا ۔ اقصرت عنہ ۔ باوجود قدرت کے کسی کام کرنے سے باز رہنا ۔ اقتصر علیٰ کذا تھوڑی چپز پر صبر کرنا ۔ اقتصرت الشاۃ بوڑھا ہونے کی وجہ سے بکری کے دانتوں کا کوتاہ ہوجانا ۔ اقصرت المرءۃ چھوٹی قد اولاد جننا تقصار چھوٹا سا رہا ۔ القوصرہ کھجور ڈالنے زنبیل جو کھجور پتوں یا نرکل کی بنئی ہوئی ہوتی ہے ۔
(77:32) انھا ترمی بشرر کالقصر : انھا میں ضمیر واحد مؤنث غائب ظل کی طرف راجع ہے بشرطیکہ ظل سے مراد جہنم لیا جائے۔ ورنہ اس کا مرجع مذکور نہیں ہے۔ گو رفتار کلام سے یہی معلوم ہو رہا ہے کہ مرجع جہنم ہے۔ ترمی : مضارع کا صیغہ واحد مؤنث غائب رمی (باب ضرب) مصدر سے وہ پھینکتی ہے۔ وہ پھینکے گی۔ شرر : شررۃ کی جمع۔ چنگاریاں۔ شرارے۔ کالقصر : ک تشبیہ کیلئے۔ القصر بمعنی پتھر کا مکان۔ قلعہ۔ ایک گاؤں۔ وہ (جہنم کی آگ) بڑے بڑے شرارے پھینک رہی ہوگی جیسے محل ہوں۔
انھا ترمی .................... صفر (33:77) ” وہ محل جیسی بڑی چنگاریاں پھینکے گی گویا کہ وہ زرد اونٹ ہیں “۔ شرارے یوں نکل رہے ہوں گے کہ گویا بڑے بڑے پتھروں کے محلات آگے پیچھے آکر گر رہے ہیں۔ (عرب پتھرون کے بنے ہوئے مکانات کو محلات کہتے تھے۔ ضروری نہیں ہے کہ مراد آج کے دیوہیکل محلات ہوں) اور یہ شرارے آگے پیچھے یوں لگ رہے ہوں گے جیسے زرد اونٹ۔ یہ تو ہوں گے اس آگ کے شرارے۔ اب آگ کیسی ہوگی ، اللہ ہی اس سے بچائے۔ اس خوفناک حالت میں مکرر تبصرہ آرہا ہے۔
8:۔ ” انہا “ یہ آتش جہنم کی چنگاریوں کا بیان ہے۔ جہنم اونچے اونچے محلات کی مقدار میں چنگاریاں پھینکے گی۔ اور وہ چنگاریاں قطار در قطار اڑیں گی۔ جیسے کہ زرد اونٹوں کی قطاریں ہوں۔ اس دن جھٹلانے والوں کے لیے ویل ہے۔ ” جمالۃ “ جمل کی جمع یا اس کی اسم جمع ہے (روح) ۔