Surat ul Mursilaat

Surah: 77

Verse: 48

سورة المرسلات

وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمُ ارۡکَعُوۡا لَا یَرۡکَعُوۡنَ ﴿۴۸﴾

And when it is said to them, "Bow [in prayer]," they do not bow.

ان سے جب کہا جاتا ہے کہ رکوع کر لو تو نہیں کرتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And when it is said to them: "Bow down yourself!" They bow not down. meaning, when these ignorant disbelievers are ordered to pray with the congregation (of believers), they refuse and turn away from it arrogantly. Thus, Allah says, وَيْلٌ يَوْمَيِذٍ لِّلْمُكَذِّبِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

48۔ 1 یعنی جب ان کو نماز پڑھنے کا حکم دیا جاتا ہے، تو نماز نہیں پڑھتے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٧] اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جب انہیں اللہ کی آیات اور اس کے احکام کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کو کہا جاتا تو وہ تسلیم کرنے کے بجائے اکڑ بیٹھتے تھے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ جب انہیں نماز کے لیے کہا جاتا تو انکار کردیتے تھے۔ کہتے ہیں کہ یہ آیت قبیلہ بنو ثقیف کے حق میں نازل ہوئی۔ رسول اللہ (صلی اللہ ع... لیہ وآلہ وسلم) نے انہیں نماز ادا کرنے کا حکم دیا تو کہنے لگے کہ نماز میں تو جھکنا پڑتا ہے اور جھکنے میں ہمیں شرم محسوس ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے اس دن تباہی ہی تباہی ہے۔ ایسے لوگ قیامت کے دن اللہ کے حضور سجدہ کرنا چاہیں گے لیکن کر نہ سکیں گے۔ ان کی پشتوں کے پٹھے اکڑ جائیں گے جیسا کہ سورة القلم کی آیت نمبر ٤٢ اور ٤٣ میں پہلے گزر چکا ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

واذا قلیل لھم ازکعوا…: رکوع کا معنی جھکنا یعنی اللہ کے احکام کے سامنے سرتسلیم خم کردینا ہے اور رکوع بول کر نماز بھی مراد لی جاتی ہے، کیونکہ رکوع اس کا ایک حصہ ہے، یعنی ان مکذبین کے جھٹلانے کا اصل سبب یہ ہے کہ وہ اللہ کے احکام کے سامنے جھکنے کے لئے تیار نہیں اور نہ ہی وہ نمازپ ڑھنے پر آمادہ ہیں، یہی ... کبر ان کے انکار کا باعث بن گیا ہے، جس طرح شیطان کے لئے بنا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایمان کا اصل اللہ کے سامنے جھک جانا ہے اور کفر کا اصل اللہ کے سامنے جھکنے سے اناکر ہے اور ایسے لوگوں کیلئے قیامت کے دن بہت بڑی خرابی اور بربادی ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ ارْ‌كَعُوا لَا يَرْ‌كَعُونَ (And when it is said to them, |"Bow down|", they do not bow down...77:48) According to most commentators, the word ruku& is used here in its primitive sense &to bow down and submit&. The verse signifies that when they were told to submit to the Divine commands, they refused to comply. Some scholars take the word ruku` in its technical s... ense and interpret the verse to signify &when they are called to prayer, they refused to pray.& The ruku` is a part of the prayer, but it refers here to the whole prayer. [ Ruh ]  Show more

وَاِذَا قِيْلَ لَهُمُ ارْكَعُوْا لَا يَرْكَعُوْنَ ، یہاں اکثر مفسرین کے نزدیک رکوع سے مراد اس کے لغوی معنی یعنی جھکنا اور اطاعت کرنا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب دنیا میں ان کو احکام الٰہیہ کی اطاعت کے لئے کہا جاتا تھا تو یہ اطاعت نہ کرتے تھے۔ اور بعض حضرات نے رکوع کے اصطلاحی معنے بھی مراد لئے ہیں اور مطلب...  آیت کا یہ ہے کہ جب ان کو نماز کی طرف بلایا جاتا تھا تو یہ نماز نہ پڑھتے تھے۔ رکوع بول کر پوری نماز مراد لی گئی ہے۔ (روح)   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا قِيْلَ لَہُمُ ارْكَعُوْا لَا يَرْكَعُوْنَ۝ ٤٨ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت ... کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ ركع الرُّكُوعُ : الانحناء، فتارة يستعمل في الهيئة المخصوصة في الصلاة كما هي، وتارة في التّواضع والتّذلّل، إمّا في العبادة، وإمّا في غيرها نحو : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا[ الحج/ 77] ، وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَٓ [ البقرة/ 43] ، وَالْعاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ [ البقرة/ 125] ، الرَّاكِعُونَ السَّاجِدُونَ [ التوبة/ 112] ، قال الشاعر : أخبّر أخبار القرون الّتي مضت ... أدبّ كأنّي كلّما قمت راکع ( ر ک ع ) الرکوع اس کے اصل معنی انحناء یعنی جھک جانے کے ہیں اور نماز میں خاص شکل میں جھکنے پر بولا جاتا ہے اور کبھی محض عاجزی اور انکساری کے معنی میں آتا ہے خواہ بطور عبادت ہو یا بطور عبادت نہ ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا[ الحج/ 77] مسلمانوں ( خدا کے حضور ) سجدے اور رکوع کرو وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ [ البقرة/ 43] جو ہمارے حضور بوقت نماز جھکتے ہیں تم بھی انکے ساتھ جھکا کرو ۔ وَالْعاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ [ البقرة/ 125] مجاوروں اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں ( کے لئے ) الرَّاكِعُونَ السَّاجِدُونَ [ التوبة/ 112] رکوع کرنے والے اور سجدہ کرنے والے ۔ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) أخبّر أخبار القرون الّتي مضت ... أدبّ كأنّي كلّما قمت راکع میں گذشتہ لوگوں کی خبر دیتا ہوں ( میں سن رسیدہ ہونے کی وجہ سے ) رینگ کر چلتا ہوں اور خمیدہ پشت کھڑا ہوتا ہوں  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

26 "Bowing before Allah": does not only imply worshipping Him but also means believing in the Messenger sent by Allah and in the Book revealed by Him and following and obeying His Commands.

سورة الْمُرْسَلٰت حاشیہ نمبر :26 اللہ کے آگے جھکنے سے مراد صرف اس کی عبادت کرنا ہی نہیں ہے ، بلکہ اس کے بھیجے ہوئے رسول اور اس کی نازل کردہ کتاب کو ماننا اور اس کے احکام کی اطاعت کرنا بھی اس میں شامل ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(77:48) واذا قیل لہم ارکعوا لایرکعون۔ ابن منذر نے مجاہد کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ثقیف کے نمائندوں سے کہا کہ ایمان لاؤ اور نماز پڑھو انہوں نے جواب دیا مگر تجبیہ نہیں کریں گے ۔ کیونکہ یہ گالی ہے یعنی بڑی ذلت ہے۔ تجبیہ کا معنی ہے گھٹنوں یا زمین پر ہاتھ رکھنا ی... ا سرنگوں ہونا۔ اس پر مندرجہ بالا آیت نازل ہوئی۔ واذا قیل لہم ارکعو جملہ شرط ہے۔ لایرکعون۔ اس کا جواب ارکعوا رکوع (باب فتح) مصدر سے امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے تم جھکو، تم رکوع کرو۔ لا یرکعون : مضارع منفی جمع مذکر غائب۔ وہ نہیں جھکتے ہیں۔ وہ رکوع نہیں کرتے ہیں۔ آیت کی مندرجہ ذیل صورتیں ہوسکتی ہیں :۔ (1) شان نزول متذکرہ بالا کی بنا پر اس جملہ میں کافروں کی مذمت کی گئی ہے۔ (2) یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کا عطف مجرمون پر ہو اور تفنن عبارت کے لئے خطاب سے غیبت کی طرف انتقال کیا گیا ہو اس وقت حاصل مطلب یہ ہوگا کہ :۔ تم مجرم ہو۔ تم کو نماز کے لئے بلایا جاتا ہے تم رکوع نہیں کرتے۔ (3) یہ بھی احتمال ہے کہ للمکذبین کے مفہوم پر عطف ہو۔ یعنی ان لوگوں کے لئے ویل ہے جنہوں نے تکذیب کی اور جب ان کو نماز کے لئے بلایا جاتا ہے تو نماز نہیں پڑھتے۔ واذا قیل لہم ارکعوا لاترکعون ۔ کے مندرجہ ذیل معانی لکھے گئے ہیں :۔ (1) واذا قیل لہم صلوا لایصلون۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ نماز پڑھو تو نہیں پڑھتے۔ (مدارک التنزیل، الخازن) (2) اللہ کے آگے جھکنے سے مراد صرف اس کی عبادت کرنا مراد ہی نہیں ہے بلکہ اس کے بھیجے ہوئے رسول اور اس کی نازل کردہ کتاب کو ماننا اور اس کے احکام کی اطاعت کرنا بھی اس میں شامل ہے (تفہیم القرآن) (3) یعنی جب کفار کو کہا جاتا ہے کہ سرکشی اور نافرمانی کی روش ترک کردو اور اپنے رب کے حضور میں تواضع اور انکساری اختیار کرو اور اس کے احکام کے سامنے اپنی اکڑی ہوئی گردنیں جھکا دو اور اس کے رسول کے فرمان کو قبول کرلو اور نمازیں پڑھا کرو تو انہیں یہ سچی بات سمجھ میں ہی نہیں آتی اور نماز کو ادا کرنے کے لئے ان کے دل میں شوق ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ارکعوا سے مراد پوری نماز ادا کرنا ہے۔ نماز کو رکوع سے تعبیر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ بنی ثقیف کو جب سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی اور نماز پڑھنے کا طریقہ بتایا تو کہنے لگے کوئی ایسی نماز بتائیں جس میں یہ رکوع و سجود نہ ہو۔ ہم رئیسوں کے لئے یوں جھکنا اور پھر منہ کے بل زمین پر گرپڑنا بڑے عیب کی بات ہے۔ (ضیاء القرآن)  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 جھکنے سے مراد اللہ تعالیٰ کے عام احکام کے سامنے جھکنا بھی ہوسکتا ہے، اگرچہ متب اور معنی نماز میں جھکنا ہی ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

حالانکہ وہ دیکھ رہے ہیں اور انہیں اس خوبصورتی کے ساتھ سمجھایا اور ڈرایا جارہا ہے۔ اگر یہ اس انداز کلام سے متاثر نہیں ہوتے جس سے پہاڑ بھی ہل جاتے ہیں اور جمادات کے اندر بھونچال برپا ہوجاتا ہے۔ تو اس کے بعد ان پر کوئی کلام کار گر نہیں ہوسکتا۔ گویا یہ لوگ نہایت شقی ، بدبخت اور برے انجام تک پہنچنے والے ... ہیں۔ اور ان کی قسمت میں ہلاکت لکھی ہوئی ہے۔ اور ان پر کلام نرم ونازک بےاثر ہے۔ یہ پوری سورت اپنے مضامین ، اپنے انداز تعبیر ، اپنے الفاظ کے ترنم ، اپنے خوفناک مشاہد ومناظر اور اپنے چبھنے والے تیز اشارات کی وجہ سے اس قدر موثر ہے کہ کوئی دل اس کے مقابلے میں اپنی جگہ ٹھہر نہیں سکتا۔ کوئی وجود متاثر ہوئے بغیر ہیں رہ سکتا۔ سخت سے سخت دل بھی پگھل جاتا ہے۔ لیکن ان لوگوں پر اگر یہ سورت بھی کارگر نہیں تو پھر ان کا خدا ہی حافظ ! سبحان اللہ ، کیا کلام ہے یہ قرآن ! کس قدر مضبوط گرفت ہے اس کی۔ کس قدر قوت ہے اس میں ! ! ٭٭٭٭٭  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

13:۔ ” واذا قیل “ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ کبر و غرور چھوڑ دو اور اللہ کے سامنے عاجزی کرو اس پر ایمان لے آؤ اور اس کے اوامرو نواہی کے سامنے سر تسلیم جھکا دو تو وہ اس پر آمادہ نہیں ہوتے اور عناد و تعنت اور غرور و استکبار سے باز نہیں آتے۔ تو بھلا ایسے معاندین و مکذبین کیلئے اس دن ہلاکت اور تباہی کے سوا...  کیا ہوگا۔ اخشعوا للہ وتواضعوا الیہ بقبول وحیہ واتباع ادینہ ودعوا ھذا الاستکبار (مدارک) ۔ یا مطلب یہ ہے آخرت میں ان سے کہا جائیگا کہ سجدہ کرو تو وہ سجدہ نہیں کرسکیں گے۔ یہ تفسیر حضرت ابن عباس سے مروی ہے۔ پہلی تفسیر حضرت قتادہ سے منقول ہے۔ وقال ابن عباس انما یقال لہم ھذا فی الاخرۃ حین یدعون الی السجود فلا یستطیعون۔ قتادۃ۔ ھذا فی الدنیا (قرطبی ج 19 ص 166) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(48) اور جب ان منکروں سے کہا جاتا ہے کہ جھکو تو نہیں جھکتے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے احکام کے سامنے جھک جائو اور ایمان اور عبدیت اختیار کرلو تو نہیں جھکتے یا یہ مطلب ہے کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ رکوع کرو اور مسلمان جس طرح نماز پڑھتے ہیں اس طرح پڑھو اور اسلام میں داخل ہوجائو تو رکوع نہیں کرتے۔ یہ شاید اس...  لئے فرمایا کہ رکوع مسلمانوں کے علاوہ کسی اور دین میں نہیں ہے قیام اور سجدہ اہل کتاب کے ہاں اور خالی ماتھا ٹیکنا منکروں میں رائج ہے۔ لیکن ایسی عبادت جس میں رکو ، سجدہ ، اور قیام ہو دوسر ملل میں نہیں پائی جاتی اور اہل عرب تو کمر جھکانے کو بہت ہی معیوب سمجھتے تھے۔ جیسا کہ بنی ثقیف کے رئیسوں نے کہا تھا کہ ہم نماز میں رکوع نہیں کریں گے یہ ہمارے ہاں بہت ہی عیب ہے کمر تو جانور جھکایا کرتے ہیں کیا ہم اس طرح کمر کو جھکائیں جس طرح جانور پو بوجھ لانے کے لئے ان کی کمر کو جھکاتے ہیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لاخیر فی دین لیس فیھا رکوع یعنی اس دین میں بہتری نہیں ہے جس میں رکوع نہیں ہے۔ اہل تفسیر نے اس آیت کی شرح میں دو باتیں فرمائیں ہیں اس لئے ہم نے دونوں کا ذکر کردیا ہے یہ رکوع سے انکار کرنے کو جرم ہی نہیں سمجھتے بلکہ اس کے جرم ہونے کی تکذیب کرتے ہیں۔  Show more