Surat un Naba

Surah: 78

Verse: 1

سورة النبأ

عَمَّ یَتَسَآءَلُوۡنَ ۚ﴿۱﴾

About what are they asking one another?

یہ لوگ کس چیزکے بارے میں پوچھ گچھ کر رہے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Refutation against the Idolators' Denial of the Occurrence of the Day of Judgement In rejection of the idolators' questioning about the Day of Judgement, due to their denial of its occurrence, Allah says, عَمَّ يَتَسَاءلُونَ عَنِ النَّبَإِ الْعَظِيمِ

پہاڑیوں کی تنصیب ، زمین کی سختی اور نرمی دعوت فکر ہے جو مشرک اور کفار قیامت کے آنے کے منکر تھے اور بطور انکار کے آپس میں سوالات کیا کرتے تھے اور مرنے کے بعد جی اٹھنے پر تعجب کرتے تھے ان کے جواب میں اور قیامت کے قائم ہونے کی خبر میں اور اس کے دلائل میں پروردگار عالم فرماتا ہے کہ یہ لوگ آپس میں کس چیز کے بارے میں سوالات کر رہے ہیں؟ پھر خود فرماتا ہے کہ یہ قیامت کے قائم ہونے کی بابت سوالات کرتے ہیں جو بڑا بھاری دن ہے اور نہایت دل ہلا دینے والا امر ہے ۔ حضرت قتادہ اور ابن زید نے اس نبا عظیم ( بہت بڑی خبر ) سے مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنا مراد لیا ہے ۔ مگر حضرت مجاہد سے یہ مروی ہے کہ اس سے مراد قرآن ہے ، لیکن بظاہر ٹھیک بات یہی ہے کہ اس سے مراد مرنے کے بعد جینا ہے جیسے کہ حضرت قتادہ اور حضرت ابن زید کا قول ہے ، پھر اس آیت ( الَّذِيْ هُمْ فِيْهِ مُخْـتَلِفُوْنَ Ǽ۝ۭ ) 78- النبأ:3 ) جس میں یہ لوگ آپس میں اختلاف رکھتے ہیں میں جس اختلاف کا ذکر ہے وہ یہ ہے کہ لوگ اس کے بارے میں مختلف محاذوں پر ہیں ان کا اختلاف یہ تھا کہ مومن تو مانتے تھے کہ قیامت ہو گی لیکن کفار اس کے منکر تھے ، پھر ان منکروں کو اللہ تعالیٰ دھمکاتا ہے کہ تمہیں عنقریب اس کا علم حاصل ہو جائے گا اور تم ابھی ابھی معلوم کر لو گے ، اس میں سخت ڈانٹ ڈپٹ ہے ، پھر اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کی عجیب و غریب نشانیاں بیان فرما رہا ہے جن سے قیامت کے قائم کرنے پر اس کی قدرت کا ہونا صاف طور پر ظاہر ہو رہا ہے کہ جب وہ اس تمام موجودات کو اول مرتبہ پیدا کرنے پر قادر ہے تو فنا کے بعد دوبارہ ان کا پیدا کرنا اس پر کیا مشکل ہو گا ؟ تو فرماتا ہے دیکھو کیا ہم نے زمین کو لوگوں کے لئے فرش نہیں بنایا کہ وہ بچھی ہوئی ہے ، ٹھہری ہوئی ہے حرکت نہیں کرتی تمہاری فرماں بردار ہے اور مضبوطی کے ساتھ جمی ہوئی ہے اور پہاڑوں کی میخیں بنا کر زمین میں ہم نے گاڑ دیا ہے ، تاکہ نہ وہ ہل سکے ، نہ اپنے اوپر کی چیزوں کو ہلا سکے ، زمین اور پہاڑوں کی پیدائش پر ایک نظر ڈال کر پھر تم اپنے آپ کو دیکھو کہ ہم نے تمہیں جوڑا جوڑا پیدا کیا یعنی مرد و عورت کو آپس میں ایک دوسرے سے نفع اٹھاتے ہو اور توالد تناسل ہوتا ہے بال بچے پیدا ہو رہے ہیں جیسے اور جگہ فرمایا ہے آیت ( وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْٓا اِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّرَحْمَةً ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّــقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ 21؀ ) 30- الروم:21 ) اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے خود تم ہی میں سے تمہارے جوڑے پیدا کئے تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اس نے اپنی مہربانی سے تم میں آپس میں محبت اور رحم ڈال دیا ، پھر فرماتا ہے ہم نے تمہاری نیند کو حرکت کے ختم ہونے کا سبب بنایا تاکہ آرام اور اطمینان حاصل کر لو ، اور دن بھر کی تھکان کسل اور ماندگی دور ہو جائے ، اسی معنی کی اور آیت سورہ فرقان میں بھی گزر چکی ہے ، رات کو ہم نے لباس بنایا کہ اس کا اندھیرا اور سیاہی سب لوگوں پر چھا جاتی ہے ، جیسے اور جگہ ارشاد فرمایا آیت ( وَالَّيْلِ اِذَا يَغْشٰى Ǻ۝ۙ ) 92- الليل:1 ) قسم ہے رات کی جبکہ وہ ڈھک لے ، عرب شاعر بھی اپنے شعروں میں رات کو لباس کہتے ہیں ، حضرت قتادہ نے فرمایا ہے کہ رات سکون کا باعث بن جاتی ہے اور برخلاف رات کے دن کو ہم نے روشن ، اجالے والا اور بغیر اندھیرے کے بنایا ہے ، تاکہ تم اپنا کام دھندا اس میں کر سکو جا آ سکو ۔ بیوپار ، تجارت ، لین دین کر سکو اور اپنی روزیاں حاصل کر سکو ، ہم نے جہاں تمہیں رہنے سہنے کو زمین بنا دی وہاں ہم نے تمہارے اوپر سات آسمان بنائے جو بڑے لمبے چوڑے مضبوط پختہ عمدہ اور زینت والے ہیں ، تم دیکھتے ہو کہ اس میں ہیروں کی طرح چمکتے ہوئے ستارے لگ رہے ہیں بعض چلتے پھرتے رہتے ہیں اور بعض ایک جگہ قائم ہیں ، پھر فرمایا ہم نے سورج کو چمکتا چراغ بنایا جو تمام جہان کو روشن کر دیتا ہے ہر چیز کو جگمگا دیتا ہے اور دنیا کو منور کر دیتا ہے اور دیکھو کہ ہم نے پانی کی بھری بدلیوں سے بکثرت پانی برسایا ، ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہوائیں چلتی ہے ، ادھر سے ادھر بادلوں کو لے جاتی ہیں اور پھر ان بادلوں سے خوب بارش برستی ہے اور زمین کو سیراب کرتی ہے اور بھی بہت سے مفسرین نے یہی فرمایا ہے معصرات سے مراد بعض نے تو ہوا لی ہے اور بعض نے بادل جو ایک ایک قطرہ پانی برساتے رہتے ہیں ۔ مرأۃ معصرۃ عرب میں اس عورت کو کہتے ہیں جس کے حیض کا زمانہ بالکل قریب آ گیا ہو ، لیکن اب تک حیض جاری نہ ہوا ہو ، حضرت حسن اور قتادہ نے فرمایا معصرات سے مراد آسمان ہے ، لیکن یہ قول غریب ہے سب سے زیادہ ظاہر قول یہ ہے کہ مراد اس سے بادل ہیں جیسے اور جگہ ہے آیت ( اَللّٰهُ الَّذِيْ يُرْسِلُ الرِّيٰحَ فَتُثِيْرُ سَحَابًا 48؀ۚ ) 30- الروم:48 ) اللہ تعالیٰ ہواؤں کو بھیجتا ہے جو بادلوں کو ابھارتی ہیں اور انہیں پروردگار کی منشاء کے مطابق آسمان میں پھیلا دیتی ہیں اور انہیں وہ ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے پھر تو دیکھتا ہے کہ ان کے درمیان سے پانی نکلتا ہے ۔ ثجاجاً کے معنی خوب لگاتار بہنے کے ہیں جو بکثرت بہہ رہا ہو اور خوب برس رہا ہو ، ایک حدیث میں ہے افضل حج وہ ہے جس میں لبیک خوب پکاری جائے اور خون بکثرت بہایا جائے یعنی قربانیاں زیادہ کی جائیں اس حدیث میں بھی لفظ ثج ہے ، ایک اور حدیث میں ہے کہ استحاضہ کا مسئلہ پوچھنے والی ایک صحابیہ عورت سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم روئی کا پھایا رکھ لو ، اس نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہ تو بہت زیادہ ہے میں تو ہر وقت خون بکثرت بہاتی رہتی ہوں ، اس روایت میں بھی لفظ اثج ثجا ہے یعنی بےروک برابر خون آتا رہتا ہے ، تو یہاں اس آیت میں بھی مراد یہی ہے کہ ابر سے پانی کثرت سے مسلسل برستا ہی رہتا ہے ، واللہ اعلم ، پھر ہم اس پانی سے جو پاک ، صاف ، بابرکت ، نفع بخش ہے ، اناج اور دانے پیدا کرتے ہیں جو انسان حیوان سب کے کھانے میں آتے ہیں اور سبزیاں اگاتے ہیں جو ترو تازہ کھائی جاتی ہیں اور اناج کھلیان میں رکھا جاتا ہے پھر کھایا جاتا ہے اور باغات اس پانی سے پھلتے پھولتے ہیں اور قسم قسم کے ذائقوں ، رنگوں خوشبوؤں والے میوے اور پھل پھول ان سے پیدا ہوتے ہیں گو کہ زمین کے ایک ہی ٹکڑے پر وہ ملے جلے ہیں ۔ الفاقاً کے معنی جمع کے ہیں اور جگہ ہے آیت ( وَفِي الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ وَّجَنّٰتٌ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّزَرْعٌ وَّنَخِيْلٌ صِنْوَانٌ وَّغَيْرُ صِنْوَانٍ يُّسْقٰى بِمَاۗءٍ وَّاحِدٍ ۣ وَنُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلٰي بَعْضٍ فِي الْاُكُلِ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ Ć۝ ) 13- الرعد:4 ) زمین میں مختلف ٹکڑے ہیں جو آپس میں ملے جلے ہیں اور انگور کے درخت ، کھیتیاں ، کھجور کے درخت ، بعض شاخ دار ، بعض زیادہ شاخوں کے بغیر ، سب ایک ہی پانی سے سیراب کئے جاتے ہیں اور ہم ایک سے ایک بڑھ کر میوہ میں زیادہ کرتے ہیں یقینا عقل مندوں کے لئے اس میں نشانیاں ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1۔ 1 جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خلعت نبوت سے نوازا گیا اور آپ نے توحید، قیامت وغیرہ کا بیان فرمایا اور قرآن کی تلاوت فرمائی تو کفار و مشرکین باہم ایک دوسرے سے پوچھتے کہ یہ قیامت کیا واقعی ممکن ہے، جبکہ یہ شخص دعویٰ کر رہا ہے یا یہ قرآن، واقعی اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے جیسا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہتا ہے استفہام کے ذریعے سے اللہ نے پہلے ان چیزوں کی وہ حیثیت نمایاں کی جو ان کی ہے۔ پھر خود ہی جواب دیا کہ۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١] کفار مکہ کے نزدیک قیامت کا تصور اور نظریہ ایک عجوبہ چیز تھی۔ جب قرآن نے ببانگ دہل یہ اعلان کیا کہ قیامت فی الواقع آنے والی ہے اور تمہیں تمہارے مٹی میں گل سڑ جانے کے بعد دوبارہ زندہ کرکے تمہارے اعمال کی باز پرس کی جائے گی تو اس کا مذاق اڑانے لگے۔ وہ مسلمانوں اور پیغمبر اسلام کے سامنے آپس میں ہی گفتگو کرتے کہ بھئی یہ قیامت کیا بلا ہے ؟ ہم مٹی میں مل جانے کے بعد کیونکر زندہ ہوسکتے ہیں ؟۔ آج تک تو کوئی مرا ہوا زندہ ہوا نہیں۔ پھر یہ کیسی انہونی بات ہے اور یہ آئے گی کب ؟ یہی وہ سوالات تھے جو ان کی دلچسپی کا موضوع بنے ہوئے تھے۔ وہ مسلمانوں سے بھی، نبی آخرالزمان سے بھی اور آپس میں بھی ایسے سوالات کرتے رہتے تھے اور اس بات سے ان کا مقصد مسلمانوں کو چڑانا ہوتا تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) عم یتسآء لون…: اس سورت میں قیامت کے حق ہونے کے دلائل اور اس کے کچھ احوال بیان کئے گئے ہیں۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے توحید و رسالت پر ایمان لانے کی دعوت کے ساتھ ساتھ یہ بتایا کہ ایک دن تمہیں زندہ ہو کر اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے اور تمہیں تمام نیک و بد اعمال کی جزا ملنی ہے تو سننے والوں نے آپ سے میں سوال شروع کردیئے کہ کیا واقعی قیامت ہوگی ؟ آیا یہ ممکن بھی ہے ؟ پھر وہ قیامت کس طرح ہوگی ؟ وغیرہ، اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary عَمَّ يَتَسَاءَلُونَ (About what are they asking each other?...78:1). The word ` amma is made up of two particles: [ 1] The preposition& عن an (about); and [ 2] the interrogative particle ما &ma& (what?) (the last letter, that is, &ma& has been omitted according to the grammatical composition. The sense is: About what are they asking each other?& Allah Himself replies to the question when He says:

خلاصہ تفسیر یہ (قیامت کا انکار کرنے والے) لوگ کس چیز کا حال دریافت کرتے ہیں اس بڑے واقعہ کا حال دریافت کرتے ہیں جس میں یہ لوگ (اہل حق کیساتھ) اختلاف کر رہے ہیں (مراد قیامت ہے اور دریافت کرنے سے مراد بطور انکار کے دریافت کرنا ہے اور مقصود اس سوال و جواب سے اذہان کا ادھر متوجہ کرنا اور تفسیر بعدالابہام سے اس کا اہتمام شان ظاہر کرنا ہے، آگے ان کے اختلاف کا بےوجہ اور باطل ہونا بیان کیا گیا ہے کہ جیسا یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ قیامت نہ آوے گی) ہرگز ایسا نہیں (بلکہ قیامت آوے گی اور) ان کو ابھی معلوم ہوا جاتا ہے (یعنی جب دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ان پر عذاب واقع ہوگا تب حقیقت اور حقیقت قیامت کی منکشف ہوجاوے گی اور ہم) پھر (کرر کہتے ہیں کہ جیسا یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ قیامت نہ آوے گی) ہرگز ایسا نہیں (بلکہ آوے گی اور) ان کو ابھی معلوم ہوا جاتا ہے (اور چونکہ وہ لوگ اس کو مستبعد یا محال سمجھتے ہیں، آگے اس کے امکان اور وقوع کا بیان ہے کہ اس کو محال سمجھنے سے ہماری قدرت کا انکار لازم آتا ہے اور ہماری قدرت کا انکار نہایت عجیب ہے کیونکہ کیا ہم نے زمین کو فرش اور پہاڑوں کو (زمین) کی میخیں نہیں بنایا (یعنی مثل میخوں کے بنایا، جیسا کسی چیز میں میخیں لگا دینے سے وہ چیز اپنی جگہ سے نہیں ہلتی اسی طرح زمین کہ پہاڑوں سے مستقر کردیا اس کی تحقیق سورة نحل میں گز چکی ہے) اور (اس کے علاوہ ہم نے اور بھی دلائل قدرت ظاہر فرمائے چنانچہ) ہم ہی نے تم کو جوڑا جوڑا (یعنی مرد و عورت) بنایا اور ہم ہی نے تمہاری نیند کو حراحت کی چیز بنایا اور ہم ہی نے رات کو پردہ کی چیز بنایا اور ہم ہی نے دن کو معاش کا وقت بنایا اور ہم ہی نے تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان بنائے اور ہم ہی نے (آسمان میں) ایک روشن چراغ بنایا (مراد آفتاب ہے بقولہ تعالیٰ وجعل الشمس سراجاً ) اور ہم ہی نے پانی بھرے بادلوں سے بہت پانی برسایا تاکہ ہم اس پانی کے ذریعہ سے غلہ اور سبزی اور گنجان باغ پیدا کریں (اور ان سب سے ہمارا کمال قدرت ظاہر ہے پھر قیامت پر ہمارے قادر ہونے کا کیوں انکار کیا جاتا ہے۔ یہ بیان تھا امکان کا آگے وقوع کا ذکر ہے کہ) بیشک فیصلہ کا دن ایک معین وقت ہے یعنی جس دن صور پھونکا جاوے گا پھر تم لوگ گروہ گروہ ہو کر آؤ گے (یعنی ہر امت جدا جدا ہوگی، پھر مومن جدا، کافر جدا، پھر ابرار جدا، شرار جدا، سب ایک دوسرے سے ممتاز ہو کر میدان قیامت میں حاضر ہوں گے) اور آسمان کھل جاوے گا پھر اس میں دروازے ہی دروازے ہوجاویں گے (یعنی اسقدر بہت سا کھل جاوے گا جیسے بہت سے دروازے ملا کر بہت بڑی جگہ کھلی ہوتی ہی پس لکام مبنی ہے تشبیہ پر، اب یہ شبہ نہیں ہوسکتا کہ دروازے تو آسمان میں اب بھی ہیں پھر اس دن دروازے ہونے کے کیا معنی اور یہ کھلنا نزول ملائکہ کے لئے ہوگا جیسے سورة فرقان میں تشق السماء سے تعبیر فرمایا ہے اور اس کی شرح وہاں گزری ہے) اور پہاڑ (اپنی جگہ سے) ہٹا دیئے جائیں گے سو وہ ریت کی طرح ہوجاویں گے (کقولہ تعالیٰ کثیباً مھیلاً اور یہ واقعات نفخہ ثانیہ کے وقت ہوں گے البتہ تسییر جبال میں یہاں بھی اور جہاں جہاں واقع ہوا ہے دونوں احتمال ہیں یا تو نفخہ ثانیہ کے بعد کہ اس سے عالم کی سب چیزیں اپنی ہئیت پر عود کر آویں گی، جب حساب کا وقت آوے گا پہاڑوں کو زمین کے برابر کردیا جاوے گا تاکہ زمین پر کوئی آڑ پہاڑ نہ رہے سب ایک ہی میدان میں نظر آویں، اور یا یہ نفخہ اولیٰ کا وقتہ و گا جس سے خود فنا کرنا مقصود بالذات ہوگا، پھر اس تقدیر پر یوم کو ان سب واقعات کا ظرف فرمانا اس بناء پر ہوگا کہ نفخہ اولیٰ سے نفخہ ثانیہ تک کا مجموعہ ایک یوم قرار دے لیا گیا، واللہ اعلم آگے اس یوم الفصل میں جو فیصلہ ہوگا اس کا بیان ہے یعنی) بیشک دوزخ ایک گھات کی جگہ ہے (یعنی عذاب کے فرشتے انتظار اور تاک میں ہیں کہ کافر آویں تو ان کو پکڑتے ہی عذاب دینے لگیں اور وہ) سرکشوں کا ٹھکانا (ہے) جس میں وہ بےانتہا زمانوں (پڑے) رہیں گے (اور) اس میں نہ تو وہ کسی ٹھنڈک (یعنی راحت) کا مزہ چکھیں گے (اس سے زمہریر یعنی سخت سردی کی نفی نہیں ہوئی، ) اور نہ پینے کی چیز کا (جس سے پیاس بجھے) بجز گرم پانی اور پیپ کے یہ (ان کو) پورا بدلہ ملے گا (ور وہ اعمال جن کا یہ بدلہ ہے یہ ہیں کہ) وہ لوگ حساب (قیامت) کا اندیشہ نہ رکھتے تھے اور ہماری (ان) آیتوں کو (جن میں حساب و دیگر امور حقہ کی خبر تھی) خوب جھٹلاتے تھے اور ہم نے (ان کے اعمال میں سے) ہر چیز کو (ان کے نامہ اعمال میں) لکھ کر محفوظ کر رکھا ہے سو (ان اعمال پر ان کو مطلع کر کے کہا جاوے گا کہ اب ان اعمال کا) مزہ چکھو کو ہم تم کو سزا ہی بڑھاتے چلے جائیں گے (یہ تو کافروں کا فیصلہ ہوا آگے اہل ایمان کا فیصلہ مذکور ہے کہ) خدا سے ڈرنے والوں کے لئے بیشک کامیابی ہی یعنی (کھانے اور سیر کو) باغ (جن میں طرح طرح کے میوے ہوں گے) اور انگور ( یہ تخصیص بعد التعمیم اہتمام شان کے لئے ہے) اور (دل بہلانے کو) نوخاستہ ہم عورتیں ہیں اور (پینے کو) لبالب بھرے ہوئے جام شراب (اور) وہاں نہ کوئی بیہودہ بات سنیں گے اور نہ جھوٹ (کیونکہ یہ باتیں وہاں محض معدوم ہیں) یہ (ان کو ان کی نیکیوں کا) بدلہ ملے گا جو کہ کافی انعام ہوگا آپ کے رب کی طرف سے جو مالک ہے آسمانوں اور زمین کا اور ان چیزوں کا جو دونوں کے درمیان میں ہیں (اور جو) رحمان ہے (اور) کسی کو اس کی طرف سے (مستقل) اختیارنہ ہوگا کہ (اس کے سامنے) عرض معروض کر کے س۔ جس روز تمام ذی ارواح اور فرشتے (خدا کے روبرو) صف بستہ (خشوع و خضوع کے ساتھ) کھڑے ہوں گے (اس روز) کوئی بول نہ سکے گا بجز اس کے جسکو رحمان (بولنے کی) اجازت دیدے اور وہ شخص بات بھی ٹھیک کہے (ٹھیک بات سے مراد وہ بات جس کی اجازت دی گئی ہے یعنی بولنا بھی محدود و مقید ہوگا، یہ نہیں کہ جو چاہے بولنے لگے اور مستقل اختیار سے اوپر یہی مراد ہے، آگے اوپر کے تمام مضامین کا خلاصہ ہے کہ) یہ (دن جس کا اوپر ذکر ہوا) یقینی دن ہے سو جسکا جی چاہے (اس کے حالات سن کر) اپنے رب کے پاس (اپنا) ٹھکانا بنا رکھے (یعنی نیک عمل کرے کہ وہاں نیک ٹھکانا ملے، آگے اتمام حجت ہے کہ لوگو) ہم نے تم کو ایک نزدیک آنے والے عذاب سے ڈرا دیا ہے (جو کہ ایسے دن میں واقع ہونے والا ہے) جس دن ہر شخص ان اعمال کو (اپنے سامنے حاضر) دیکھ لے گا جو اس نے اپنے ہاتھوں کئے ہوں گے اور کافر (حسرت سے) کہے گا کہ کاش میں مٹی ہوجاتا (تاکہ عذاب سے بچتا اور یہ اس وقت کہے گا جب چوپائے جانور مٹی کردیئے جاویں گے، رواہ فی الدرعن ابی ہریرة۔ ) معارف وسائل عَمَّ يَتَسَاۗءَلُوْنَ لفظ عم دو حرفوں سے مرکب عن اور ماحرف ما استفہام کے لئے آتا ہے۔ اس ترکیب میں حرف ما میں سے الف ساقط کردیا گیا ہے معنے یہ ہوئے کہ یہ لوگ کس چیز میں باہمی سوال و جواب کر رہے ہیں۔ پھر خود ہی اس کا جواب دیا گیا عَنِ النَّبَاِ الْعَظِيْمِ ۝ ۙالَّذِيْ هُمْ فِيْهِ مُخْـتَلِفُوْن، لفظ انباء کے معنے خبر کے ہیں مگر ہر خبر کو نبار نہیں بلکہ جب کوئی عظیم الشان خبر ہو اس کو نباء کہا جاتا ہے مراد اس انبا یعنی خبر عظیم الشان سے قیامت ہے اور معنے آیت کے یہ ہیں کہ یہ لوگ اہل مکہ اس عظیم الشان خبر یعنی قیاتم کے بارے میں بحث اور سوال جواب کر رہے ہیں جس میں ان کے آپس میں اختلاف ہو رہا ہے۔ حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ جب قرآن کریم نازل ہونا شروع ہوا تو کفار مکہ اپنی مجلسوں میں بیٹھ کر اس کے متعلق رائے زنی اور چہ میگوئیاں کیا کرتے تھے۔ قرآن میں قیامت کا ذکر اہمیت کیساتھ آیا ہے اور ان کے نزدیک گویا یہ محال چیز تھی اس لئے اس میں گفتگو بکثرت چلتی تھی، کوئی تصدیق کرتا کوئی انکار، اس لئے اس سورت کے شروع میں انکا یہ حال ذکر کر کے آگے قیامت کا واقع ہونا مذکور ہے اور ان کے نزدیک جو اس کے واقع ہونے میں اشکال اور استبعاد تھا اس کا جواب دیا گیا اور بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ یہ سوال جواب کوئی واقعی تحقیق کے لئے نہیں تھا بلکہ محض استہزاٗ تمسخر کے لئے تھا واللہ اعلم، قرآن کریم نے ان کے جواب میں ایک ہی جملہ کو تاکید کے لئے دو مرتبہ فرمایا ۭكَلَّا سَيَعْلَمُوْنَ ۝ ۙثُمَّ كَلَّا سَيَعْلَمُوْن، کلا کے معنی ہیں ہرگز نہیں، مراد یہ ہے کہ یہ سوال و جواب اور بحث و تحقیق سے سمجھ میں آنے والی چیز نہیں، وہ تو اجب سامنے آوے گی اس وقت حقیقت معلوم ہوگی۔ یہ ایک ایسی یقینی چیز ہے جس میں بحث وسوال اور انکار کی کوئی گنجائش نہیں۔ پھر فرمایا کہ اس کی حقیقت خود ان لوگوں پر عنقریب واضح ہوجائے گی یعنی مرنے کے بعد ان کو دوسرے عالم کی چیزوں کا انکشاف ہوگا اور وہاں کے ہولناک مناظر کو آنکھوں سے دیکھ لیں گے اس وقت حقیقت کھل جائے گی۔ اس کے بعد حق تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ اور حکمت و صنعت کے چند مناظر کا ذکر فرمایا ہے جن سے واضح ہوجاتا ہے کہ حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ سے یہ کوئی بعید نہیں کہ وہ اس سارے عالم کو ایک مرتبہ فنا کر کے دوبارہ پھر ویسا ہی پیدا کر دے، اس میں زمین اور اس کے پہاڑوں کی تخلیق پھر انسان کی تخلیق مرد و عورت کے جوڑے کی صورت میں بیان فرمائی پھر انسان کی راحت اور صحت اور کاروبار کے لئے سازگاز حالات پیدا کرنے کا ذکر فرمایا، اس میں ایک یہ ارشاد ہے ۙوَّجَعَلْنَا نَوْمَكُمْ سُبَاتا سبات سبت سے مشتق ہے جس کے معنی مونڈنے اور قطع کرنے کے ہیں، نیند کو حق تعالیٰ نے ایسی چیز بنایا ہے کہ وہ انسان کے تمام ہموم و غموم اور افکار کو قطع کر کے اس کے قلب کو دماغ کو ایسی راحت دیتی ہے کہ دنیا کی کوئی راحت اس کا بدل نہیں ہو سکتی، اس لئے سبات کا ترجمہ بعض حضرات نے راحت سے بھی کیا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

عَمَّ يَتَسَاۗءَلُوْنَ۝ ١ ۚ ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ سأل السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. ( س ء ل ) السؤال ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١۔ ٥) یہ قریش کس چیز کے متعلق میں گفتگو کر رہے ہیں اس عظیم الشان قرآن حکیم کے متعلق جس کی یہ لوگ تکذیب اور بعض تصدیق کر رہے ہیں کیونکہ جبریل امین جس وقت حضور کے پاس قرآن کریم لے کر آئے، اور آپ نے قریش کے سامنے اس کو پڑھا تو اس بارے میں وہ لوگ گفتو و شنید کرنے لگے، چناچہ ان میں سے بعض نے تو اس کی تصدیق کی اور بعض نے تکفیر کی۔ ہرگز ایسا نہیں ان کو موت کے وقت عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ ان کے ساتھ کیا برتاؤ کیا جائے اور ان کو ابھی معلوم ہوا جاتا ہے کہ ان کے ساتھ قبر میں کیا معاملہ ہوگا۔ شان نزول : عَمَّ يَتَسَاۗءَلُوْنَ (الخ) ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے حضرت حسن سے روایت کیا ہے کہ جب رسول اکرم مبعوث کیے گئے تو کافر آپ کے بارے میں ایک دوسرے سے پوچھنے لگے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١{ عَمَّ یَتَسَآئَ لُوْنَ ۔ } ” کس چیز کے بارے میں یہ لوگ آپس میں پوچھ گچھ کر رہے ہیں ؟ “ یہ منظر کشی کا بہت خوبصورت انداز ہے ۔ ان دو الفاظ میں گویا اس بےچینی اور ہلچل کی تصویر کھینچ دی گئی ہے جو اہل مکہ کے ہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کے سبب پیدا ہوگئی تھی۔ جیسے ہر شخص کے ذہن میں ایک ہی سوال ہو کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ کیا نئی بات کردی ہے ؟ یہ بھلا کیا بات ہوئی کہ ایک دن یہ دنیا ختم ہوجائے گی ! پھر قیامت برپا ہوگی ! تمام انسانوں کو پھر سے زندہ کرلیا جائے گا ! ہر انسان سے اس کے ایک ایک عمل کا حساب ہوگا ! وہاں کوئی کسی کا ُ پرسانِ حال اور مددگار نہیں ہوگا ! بھلا یہ سب کیسے ہوسکتا ہے ؟ مرنے کے بعد سب کا پھر سے زندہ ہوجانا ؟ اتنے انسانوں کا حساب کتاب ؟ ایک ایک عمل کا محاسبہ ؟ نہیں ‘ نہیں عقل نہیں مانتی ! گویا مکہ کے ہر گھر میں یہی چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں ‘ ہر محفل اور ہر چوپال میں انہی سوالات پر تبصرے ہو رہے ہیں ‘ پورے شہر کی فضا میں ایک یہی موضوع گردش کر رہا ہے ۔ غرض جہاں کہیں چار لوگ اکٹھے ہوتے ہیں ان کی گفتگو کی تان یہیں پر آکر ٹوٹتی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١۔ ٥۔ اگرچہ مجاہد ١ ؎ کا قول یہ ہے کہ بڑی خبر سے مراد قرآن شریف ہے لیکن قتادہ ٢ ؎ اور اکثر سلف کا قول یہ ہے کہ بڑی خبر سے مراد حشر اور قیامت ہے۔ آگے کی آیتوں میں خود اللہ تعالیٰ نے بھی قیامت کا ہی ذکر فرمایا ہے۔ اس لئے یہی قول قرآن شریف کے مطلب کے موافق معلوم ہوتا ہے۔ اس واسطے حافظ ٣ ؎ ابن کثیر نے (اس قول کو ترجیح دی ہے۔ حشر اور قیامت کی بہت سی باتیں انسان کی عقل میں نہیں آتیں اس واسطے اسلام لانے سے پہلے مکہ کے لوگ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ (رض) سے حشر اور قیامت کی باتوں میں طرح طرح سے جھگڑتے تھے کبھی کہتے تھے کہ مرنے کے بعد انسان کی خاک رواں دواں ہوجائے گی ‘ پھر اس خاک کا پتلا کیوں کر بن جائے گا کبھی کہتے تھے کہ آگ میں زقوم کا پیڑ کیوں کر ہوگا۔ کبھی کچھ کہتے تھے کبھی کچھ ‘ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب یہ دیا کہ ان کے بڑے بوڑھے ان کی آنکھوں کے رو برو دنیا سے اٹھ گئے۔ اس لء یہ تو ان کو معلوم ہے کہ ایک دن یہ بھی مرجائیں گے کیونکہ دنیا ہمیشہ نہیں رہنے والی۔ اور دنیا کے فنا ہونے کے بعد آخرت کی یہ سب باتیں ان منکروں کے سامنے آجائیں گی اور اس وقت ان کو ان باتوں کا یقین آجائے گا جس وقت کا یقین انہیں کچھ فائدہ نہ دے گا۔ رہی یہ بات کہ آخرت کی باتیں ان کی عقل میں نہیں آتیں ‘ ایک بوند پانی سے انسان کا پیدا ہوجانا اور دنیا کے ہزارہا عجائبات ‘ کیا یہ سب انسان کی عقل میں آنے والی باتیں ہیں ؟ پھر جس نے دنیا میں آنکھوں کے سامنے کے عجائبات خلاف عقل کو پیدا کرکے دکھا دیا وہ آخرت میں بھی خلاف عقل عجائبات پیدا کرنے پر قادر ہے اور دنیا کے عجائبات کو آنکھوں سے دیکھنے اور تجربہ کرلینے کے بعد اس کی اس قدرت کا انکار کسی صاحب عقل کا کام نہیں ہے۔ معتبر سند سے ترمذی ٤ ؎ اور ابن ماجہ کی روایت سے حضرت شداد بن اوس کی حدیث اوپر گزر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا صاحب عقل وہی شخص ہے جو زندگی میں موت کے بعد کے لئے کچھ سامان کرلے۔ اور کم عقل وہ شخص ہے جو زندگی بھر شیطانی وسوسوں میں لگا رہے اور موت کے بعد اللہ سے راحت کی توقع رکھے یہ حدیث عبد اللہ بن عمر کی روایت سے بھی معتبر سند سے ابن ٥ ؎ ماجہ طربانی وغیرہ میں آئی ہے اور یہ تو ایک ظاہر بات ہے کہ موت کے بعد کا کچھ سامان بغیر خالص نیک عمل کے نہیں ہوسکتا۔ اور خالص نیت کا نیک عمل بغیر آخرت کے پورے یقین کے نہیں ہوسکتا اور آخرت کی بہت سی باتیں محض عقل سے سمجھ میں نہیں آسکتیں۔ اس واسطے بغیر اس کے انسان کی نجات کی صورت کوئی نہیں ہے کہ آخرت کی غیب کی باتیں جو بذریعہ وحی کے دنیا میں آئی ہیں۔ ان کو بغیرعقل کے دخل کے انسان تسلیم کرلے ‘ اس تسلیم کے بعد آخرت کا یقین دل میں پیدا ہوجائے گا جس یقین کے سبب سے خالص نیت کا نیک عمل ہونے لگے گا جو آخرت میں نجات کا باعث ہوگا اور جو شخص ان غیب کی باتوں میں عقل کو دخل دے گا عقل تو ان باتوں کے سمجھنے سے عاجز ہے۔ اس لئے اس طرح کا شخص طرح طرح کے شیطانی وسوسوں میں پڑ کر اپنی عاقبت کو ضرور خراب کرلے گا کسی بات کی تاکید منظور ہوتی ہے تو اس کو دو دفعہ کہا جاتا ہے جیسے مثلاً سانپ نکلنے کے وقت سانپ سانپ دو دفعہ کہتے ہیں اور اس واسطے کلاسیعلمون کو دو دفعہ فرمایا جس کا مطلب یہ ہے کہ جن باتوں کو خلاف عقل سمجھ کر یہ لوگ طرح طرح کی باتیں بنا رہے ہیں قریب ہے مرتے ہی ان باتوں کو ضرور یہ لوگ خوب اچھی طرح سے جان لیں گے۔ کلا کا لفظ عربی میں کلا سے پہلے کے کلام کو غلط اور کلا کے بعد کے کلام کو صحیح قرار دینے کے لئے آتا ہے یہاں حاصل مطلب یہ ہے کہ قیامت کے آنے میں اختلاف ڈالنا غلط اور اس کا آنا ایسا صحیح ہے جو قریب میں آنکھوں سے دیکھ لیا جائے گا۔ (١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٤٦٢ ج ٤۔ ) (٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٤٦٢ ج ٤۔ ) ٣ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٤٦٢ ج ٤۔ ) (٤ ؎ جامع ترمذی ابوبا صفۃ القیامۃ ص ٨٢ ج ٢۔ ) (٥ ؎ الترغیب والترہیب و الترغیب فی ذکر الموت الخ ص ٤٤٠ ج ٤۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(78:1) عم یتساء لون : عما کس چیز سے یہ اصل میں عن ما تھا نون کا میم میں ادغام کیا گیا ہے۔ کیونکہ ن اور م دونوں غنے میں شریک ہیں۔ اور ما کے الف کو اس لئے حذف کیا گیا ہے تاکہ ما استفہامیہ اور ما خبریہ میں تمیز باقی رہے۔ جس طرح سے نیم اور مم میں آیات ذیل میں ہوا ہے :۔ (1) فیم کی مثال : ان الذین توفہم الملئکۃ ظالمی انفسھم قالوا فیم کنتم قالوا کنا مستضعفین فی الارض (4: 97) ان لوگوں کی جان جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کر رکھا ہے جب فرشتے قبض کریں گے تو ان سے کہیں گے کہ تم کس کام میں تھے۔ وہ بولیں گے ہم اس ملک میں بےبس تھے ۔ (ترجمہ عبد الماجد دریا بادی (رح)) (3) مم کی مثال :۔ فلینظر الانسان مم خلق (89:15) تو انسان کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کا ہے سے پیدا ہوا۔ یتساء لون : مضارع جمع مذکر غائب تساء ل (تفاعل) مصدر۔ وہ ایک دوسرے سے پوچھیں گے۔ وہ ایک دوسرے سے سوال کریں گے۔ یتساء لون میں ضمیر جمع مذکر غائب کا مرجع کون ہے اس کے متعلق مختلف اقوال ہیں :۔ (1) جمہور کے نزدیک یہ پوچھنے والے یا چرچا کرنے والے کفار تھے۔ اس لئے کہ اس کے بعد کلا سیعلمون اور ہم فیہ مختلفون میں ضمیریں کفار کی طرف پھرتی ہیں اس لئے یتساء لون کی ضمیر بھی انہیں کی طرف پھرنی چاہیے۔ (2) دوسرا قول یہ ہے کہ مسلمان و کفار باہم ایک دوسرے سے پوچھتے تھے کہ کفار مسلمانوں پر شبہات پیش کرتے تھے۔ وہ جواب دیتے تھے۔ لہٰذا ضمیر جمع مذکر غائب ہر دو فریقین کی طرف پھر لوٹتی ہے۔ (3) تیسرا قول یہ ہے کہ مسلمان و کفار سب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کرتے تھے مسلمان اس لئے کہ اور بھی یقین قوی ہوجائے اور کفار تمسخر کی راہ سے یا شکوک و شبہات و ارد کرنے کی غرض سے (تفسیر حقانی) اول و ارجح ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یا کس چیز کے متعلق باتیں کررہے ہیں، مفسرین کہتے ہیں جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعث ہوئی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو توحید اور زندگی بعد موت کی خبر دی اور انہیں قرآن سنانا شروع کیا تو کفار آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ یہ کیا چیز ہے جسے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیش کررہے ہیں۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

سورة النبا۔ آیات ١ تا ٣٠۔ اسرار ومعارف۔ کفار اس بات کا مذاق اڑاتے ہیں کہ اور کہتے ہیں کہ بھلاقیامت کب ہوگی جس کے بارے میں اس قدر ڈرایا جارہا ہے پھر اس میں مختلف رائے رکھتے ہیں کہ کوئی کہتا ہے جواب تک مرچکے ہیں ان کی ہو کیوں نہیں جاتی اور دوسرا کہتا ہے کہ کچھ ہونے والا نہیں لیکن یاد رکھو سب لوگ خوب جان لیں گے کہ جب واقع ہوگی تو سب کی غلط فہمیاں دور ہوجائیں گی جس قادرمطلق نے زمین میں بیشمار نعمتیں رکھ کر اسے تمہارے لیے آرام دہ اور زندگی کی تمام سہولیات مہیا کرنے والی بنادیا جیسے بچھونا آرام فراہم کرتا ہے پھر اس پہاڑوں کو گاڑ دیا کہ مع دنیات سے بھرپورا اور وادیاں پھلوں سے لدی کھڑی ہیں جنگل اور جانور چوٹیوں پر برف کتنی نعمتیں اس حوالے سے بنادیں اور پھر جوڑے جوڑے بنائے کہ مرد اور خاتون مل کر زندگی کو خوبصورت رنگ دیں اور یوں بقائے نسل کا سبب بھی بنیں۔ نیند۔ پھرنیند کو تمہارے دن بھر کی تھکان دور کرنے کا سبب بنادیا کہ بجائے خود ایک عجیب و غریب نعمت ہے جس کے بعد آدمی تروتازہ اٹھ کر پھر دن بھر کے کاموں کے لیے خود کو تیار پاتا ہے۔ اس نعمت کو اس فراوانی سے تقسیم کردیا کہ شاہ وگدا کو نواز دیا۔ مگر جن سے یہ نعمت سلب ہوجاتی ہے اور خواب آور گولیوں سے بھی نیند نہیں آتی وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ کتنی بڑی نعمت ہے پھر اس قادر مطلق نے رات بنادی جوہر شے کو چھپا کر نیند کے لیے ماحول فراہم کرتی ہے کہ تاریکی وخاموشی انسان وحیوان سب کے لیے سکون مہیا کرتی ہے اور پھر ہر رات کے معقول اور انتہائی مناسب وقفے کے بعد دن بنادیا کہ نیند بیشک نعمت ہے مگر حد سے بڑھ جائے تو زندگی معطل کردے لہذا نیند کا وقت مناسب اور معقول ہوناچاہیے کہ پھر دن نکال دیا جو کاروبار حیات کے لیے ضروری اور مناسب ماحول فراہم کرتا ہے۔ سورج کی مثال۔ یہ سارا نظام اس خوش اسلوبی سے چلتا ہے کہ خدانخواستہ اگر زمین اور سورج کے رشتے میں ذرہ برابر روزانہ فرق آتا جائے تو نظام حیات تباہ ہوجائے اسی طرح نبی کریم کو شمس منیرا فرمایا کہ جس طرح زمین کا تعلق سورج سے ہے دل کی زمین کا تعلق نبی سے ہو پھر وہ اتنا مضبوط ہوا اتنی حدت وحرات پائے کہ بادل بنیں اور برس کر دل کی کھیتی کو ثمرات سے بھردیں ۔ یہی حال شیخ کا ہے پھر اگر اس میں تھوری تھوڑی بھی خرابی آنے لگی تو فوری توبہ اور علاج ضروری ہے ورنہ جہاں دل اجڑجانے کا اندیشہ ہے یہ سب نظام خود اس بات کا شاہد ہے کہ یوم حساب اور یقینا یوم حسا ب کا وقت طے شدہ ہے جب صور پھونکاجائے گا تولوگ فوج درفوج جمع ہونا شروع ہوجائیں گے اپنے اپنے حال میں آسمان کھول دیے جائیں گے اور بہت دروازے بن جائیں گے اور پہاڑ اڑا کر ذروں میں تبدیل کردیے جائیں گے تو یقینا جہنم اور اس کے فرشتے تو حد سے گزرنے والوں کی تاک میں ہیں یعنی ان کا انتظار ہی کر رہے ہیں کہ انہوں نے نبی کی بتائی ہوئی حقوق وفرائض کی حدود سے تجاوز کیا اور ان پر عمل نہ کیا اب وہ دوزخ میں کئی حقبوں تک رہیں گے۔ حقبہ۔ حقبہ ایک ایسی دراز مدت ہے جو لاکھوں صدیوں پر محیط ہوگی بعض حضرات کے نزدیک دوزخ میں رہنے کے بعد کبھی انہیں چھٹکارا مل جائے گا ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے تم میں سے جو گناہوں کی پاداش میں جہنم میں ڈالا گیا وہ کئی حق بے اس میں رہنے کے بعد ہی نکالا جائے گا اس لیے کہ اٹھاسی لاکھ سال کا بنتا ہے تو بھی یہ مدت ختم تو ہوگی جبکہ کافر کے لیے خلود یعنی ہمیشہ کا رہنا ہے اور بعض حضرات کا ارشاد ہے کہ کفار ہی کے ہی کے لیے ہے اور یہ بھی میعاد ختم نہ ہوگی بلکہ ایک حق بے کے بعد دوسرا شروع ہوجائے گا جہنم میں نہ تو ٹھنڈک کایا آرام دہ موسم کا کوئی تصور ہوگا اور نہ کوئی شے پینے کو ملے گی کہ آگ کی ٹھنڈک کا سامان کرے بلکہ پینے کو بھی انہیں ایسا کھولتا ہوا پانی ملے گاجوچہرے کی کھال اتار دے گا اور اندرجائے گا تو انتڑیوں کے ٹکڑے ٹکڑے کردے گا اور جہنمیوں کے زخموں سے بہنے والی پیپ دی جائے گی یعنی ان کے جرائم کا پورا پورا بدلہ دیاجائے گا۔ جزاء اعمال کی قسم سے ہوتی ہے۔ کہ جزا ازقسم اعمال ہوگی انہوں نے دنین کا نظام چھوڑ کر کفر کی راہ اپناء جو شے بیشمار لوگوں کو جہنم میں لانے اور ان کے بدنوں کو دوزخ میں جلانے کا سبب بنی اب ان کا بدلہ یہی ہے کہ ان زخموں سے بہنے والا خون اور پیپ ان کی غذا بن جائے کہ انہیں حساب کتاب پر اور قیامت اور آخرت پر توگمان بھی نہ گزرتا تھا اور میری آیات کو عقیدے اور عمل یعنی ضابطہ حیات کے طو رپرماننے سے بالکل انکار کردیابل کہ ایسا انکار کردیا جو لوگوں کو بھی اس رو میں بہالے گیا جبکہ ہم نے توہربات کا تحریری حساب رکھا ہے لہذا ان سے کہاجائے گا اب موج کرو اور یہ امید رکھو کہ تم پر عذاب بڑھتا ہی جائے گا جیسے اگر تم دنیا میں رہتے تو برائی اور کفر میں بڑھتے ہی چلے جاتے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن۔ عم۔ کس سے۔ کسی چیز کے متعلق ؟ ۔ یتساء لون (تساول) ۔ وہ پوچھے ہیں۔ النبا العظیم۔ ایک بڑی خبر۔ مھد۔ بچھونا۔ راحت کی چیز۔ اوتاد۔ میخیں۔ سبات۔ راحت و آرام۔ معاش۔ روزی، روز، کمائی۔ بنینا۔ ہم نے بنایا۔ سبع شداد۔ مضبوط سات (آسمان) ۔ سراج۔ چراغ۔ وھاج۔ دھکتا ہوا۔ المعصرات۔ پانی سے بھرپور بادل۔ ثجاج (ثج) ۔ تیز بہنے والی بارش۔ حب۔ غلہ ۔ نبات۔ ہریالی۔ سبزی۔ الفاق۔ گھنے پتوں والے۔ میقات۔ وقت مقرر۔ فتاتون۔ پھر وہ آئیں گے۔ سیرت۔ چلائی گئی۔ سراب۔ چمکتا ریت۔ مرصاد۔ گھات میں بیٹھنے کی جگہ۔ لبثین۔ پڑے ہوئے ہوں گے۔ وہ رہیں گے۔ احقاب۔ بہت طویل عرصہ۔ غساق۔ پیپ۔ وفاق۔ پوراپورا۔ مفاز۔ کامیابی۔ حدائق۔ باغات۔ اعناب۔ انگور۔ کو اعب۔ نوجوان عورتیں۔ اتراب۔ ہم عمر۔ کاس دھاق۔ چھلکتے جام۔ لغو۔ فضول باتیں۔ لا یملکمون۔ مالک نہ ہوں گے۔ لا یتکلمون۔ وہ کلام نہ کریں گے۔ اذن۔ اجازت دی ہوگی۔ صواب۔ ٹھیک ٹھیک ۔ اتخذ۔ بنایا۔ ماب۔ ٹھکانا۔ انذرنا۔ ہم نے آگاہ کردیا۔ ینظر۔ دیکھے گا۔ المرائ۔ آدمی۔ یلیتنی۔ اے کاش کہ میں۔ تراب۔ مٹی۔ تشریح : قریش مکہ میں سے کچھ لوگ بتوں کو اپنا سفارشی ماننے کے باوجود کسی حد تک اللہ کی ذات اور آخرت کا ایک دھندلا سا تصور رکھتے تھے۔ لیکن عقیدہ کی گندگیوں نے انہیں اور ان کی عقلوں کو اس طرح اپاہج بنا کر رکھ دیا تھا کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے سامنے ان آیات کی تلاوت کرتے جن میں قیامت کے ہولناک دن کا ذکر ہوتا تو وہ نہ صرف ان کا مذاق اڑاتے بلکہ بڑی ڈھٹائی سے کہتے کہ ہم اور ہماری عقلیں اس بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ جب ہماری ہڈیاں گل سڑ کر چورہ چورہ ہوجائیں گے اور ہمارے جسم کے ذرات کائنات میں بکھر جائیں گے تو ان ذرات کو کون جمع کرکے پھر سے انسان بنا دے گا ؟ اور سات آسمان، بلند وبالا پہاڑ، زمین اور اس میں بسنے والی مخلوق، چاند ، سورج اور ستارے یہ پورا نظام کائنات کس طرح ختم ہوسکتا ہے ؟ ہمیں قیامت کا گمان تو ہے مگر اس پر یقین نہیں آتا۔ کوئی کہتا کہ اصل میں زندگی تو بس اسی دنیا کی زندگی ہے ہم اسی زمین سے پیدا ہوتے ہیں اور اسی میں مرکھپ جاتے ہیں۔ ہمیں جو موت آتی ہے وہ دراصل گردش زمانہ کا نتیجہ ہے۔ کوئی کہتا کہ قیامت کا آنا ممکن ہی نہیں ہے۔ یہ تھیں وہ بھانت بھانت کی بولیاں جو ہر وقت بولتے رہتے تھے اور وہ سب کسی ایک بات پر متفق نہیں تھے۔ مکہ کے گلی کوچوں میں اسی بات پر بحثیں ہوتی رہتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا وہ لوگ اسی بڑی اور عظیم الشان خبر یعنی قیامت کے بارے میں باتیں بنا رہے ہیں جو بہت جلد واقعہ ہونے والی ہے جس کا آنا شک و شبہ سے بالا تر ہے جس کی حقیقت بہت جلد ان کے سامنے آنے والی ہے۔ قیامت کے بارے میں طرح طرح کی باتیں اور کسی ایک رائے پر متفق نہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ایک شدید کشمکش اور الجھن میں مبتلا ہیں جو بہت جلد دور ہونے والی ہے۔ اگر ایسے لوگ ذرا بھی نظام کائنات پر غور کرتے تو اس حقیقت کو سمجھ لینا بہت آسان ہوجاتا اور ان کی ساری الجھنیں دور ہوجاتیں۔ اللہ نے فرمایا کہ ہم نے زمین کو راحت کا ذریعہ نہیں بنایا ؟ کیا ہم نے زمین کے اوپر بلند وبالا پہاڑوں کے بوجھ رکھ کر اور میخوں کی طرح گاڑ کر ہلنے اور حرکت کرنے سے محفوط نہیں بنا دیا ہے ؟ کیا ہم نے ہر چیز کو ایک دوسرے کا جوڑا عورت، مرد، مادہ اور نر نہیں بنا دیا ہے جس سے تخلیق اور پیدائش کا نظام قائم ہے ؟ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے نیند کو راحت کا ذریعہ بنا دیا جس سے وہ تازہ دم ہو کر پھر سے کام کاج کے قابل بن جاتے ہیں۔ کیا ہم نے ہی رات کو لباس کی طرح آرام دینے والا اور دن کو روزگار حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں بنا دیا ؟ کیا وہ اپنے سروں پر سات آسمانوں کے مضبوط نظام کو نہیں دیکھتے جس کی وجہ سے نظام کائنات قائم ہے۔ کیا وہ اس سورج کو نہیں دیکھتے جس کو ہم نے دھکتا ہوا روشن چراغ بنایا ہے ؟ جس سے حرات اور روشنی حاصل ہوتی ہے۔ کیا وہ ان برسنے والی بارشوں کو نہیں دیکھتے جو برسنے کے بعد غلہ، اناج، سبزہ، سبزی، لہلہاتے کھیت اور باغوں کو ایک نئی رونق اور تازگی دیتی ہیں ؟ فرمایا کہ یہ ہے وہ نظام کائنات جسے اللہ چلا رہا ہے وہ قدر مطلب ہے۔ وہی اللہ جس نے ان تمام چیزوں کو اور انسانوں کو پیدا کیا ہے وہ دوسری مرتبہ ان کو پیدا کیوں نہیں کرسکتا ؟ فرمایا کہ یہ لوگ قیامت کے آنے میں شک کریں یا نہ کریں اللہ نے اس کا ایک دن مقرر کردیا ہے۔ وہ فیصلے کا دن ہوگا جیسے ہی صور میں پھونک ماری جائے گی تمام نظام کائنات درہم برہم ہوجائے گا۔ ہر شخص اور ہر جان دار پر موت طاری ہوجائے گی اور جب دوسری مرتبہ صور میں پھونک ماری جائے گی تو پھر سارے انسان اور جان دار دوبارہ جی اٹھیں گے۔ لوگ اپنے مدفن سے گروھوں کی شکل میں دوڑتے ہوئے اللہ کی طرف آنا شروع ہوجائیں گے۔ آسمانوں کے دروازے کھول دئیے جائیں گے اور بلند وبالا مضبوط پہاڑ چمکتے ریت کی طرح اڑتیپھریں گے۔ فرمایا کہ لوگو ! جہنم اور اس کے فرشتے بھی اسی طرح تمہارے آنے کے منتظر ہیں کہ تمہیں جہنم تک پہنچا دیں جس میں ہر شخص کو ہمیشہ ہمیشہ رہنا ہے۔ وہ جہنم جس میں ٹھنڈک اور راحت کا کوئی سامان نہ ہوگا۔ اس میں کھولتا گرم پانی اور بہتی پیپ کے سوا کچھ بھی نصیب نہ ہوگا۔ وجہ یہ ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اس بات کی امید ہی نہ تھی کہ ایک دن ان سے ان کی زندگی کے ایک ایک لمحے کا حساب لیا جائے گا اور وہ ہمیشہ ہماری آیتوں کو جھٹلاتے رہے ہیں۔ فرمایا کہ ہم نے ان کی ایک ایک بات اور عمل کو محفوط رکھا ہوا تھا۔ جس کی ان کو یہ سزا دی جا رہی ہے۔ ان سے کہا جائے گا کہ وہ اپنے کئے ہوئے اعمال کا بدلہ یعنی عذبا کا مزہ چکھیں اور اس طرح ہم عذاب پر عذاب بڑھاتے ہی چلے جائیں گے۔ ان لوگوں کے برخلاف جنہوں نے تقویٰ اور پرہیز گاری کی زندگی گزاری ہوگی ان کو ہر طرح کی کامیابیاں عطا کی جائیں گی۔ خوبصورت ہرے بھرے انگوروں کے باغات، ہم عمر بیویاں، شراب کے لبریز اور چھلکتے جام دئیے جائیں گے۔ وہاں ہر طرف سلامتی ہی سلامتی ہوگی۔ کوئی لغو، فضول، جھوٹ اور بےہودہ بات نہ سنیں گے۔ یہ درحقیقت اللہ کی طرف سے انکے بہترین اعمال کا بدلہ ہوگا۔ قیامت کے دن روح القدس جبرئیل امین اور تمام فرشتے آسمانوں، زمین اور اس کے درمیان کی ہر چیز کے پروردگار کے سامنے صفیں باندھے کھڑے ہوں گے اس دن رب العالمین کی اجازت کے بغیر کسی کو بات تک کرنے کی ہمت نہ ہوگی جو بات بھی کی جائے گی وہ برحق اور سچی بات ہی کی جائے گی اس کے سوا کسی کو کوئی بات کرنے کی اجازت نہ ہوگی۔ یہ ہے وہ سچا اور برحق دن جس کا اللہ نے وعدہ کیا تھا۔ فرمایا کہ ہم نے پہلے ہی اس عذاب سے لوگوں کو آگاہ اور خبردار کردیا تھا کہ ہر انسان اپنے آگے بھیجئے ہوئے ہر عمل کو اپنی آنکھوں سے دیکھے گا۔ اس دن ہر کافر کی زبان پر یہی ہوگا کہ کاش میں آج کا دن دیکھنے سے پہلے ہی خاک میں مل گیا ہوتا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ مراد قیامت ہے اور دریافت کرنے سے مراد بطور انکار کے دریافت کرنا ہے اور مقصود اس سوال و جواب سے اذہان کا ادھر متوجہ کرنا اور تفسیر بعد الابہام سے اس کا اہتمام شان ظاہر کرنا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط سورت : المرسلات میں ان لوگوں کی تردید کی گئی ہے جو قیامت کی تکذیب کرتے ہیں۔ سورت النّباء میں بتایا گیا ہے کہ قیامت بڑی ہولناک چیز ہے اور اس کا برپا ہونا ہر صورت یقینی ہے لیکن قیامت کا انکار کرنے والے اس کے باوجود اس کے بارے میں قیل وقال کرتے ہیں عنقریب ان لوگوں کو اس کی حقیقت کا علم ہوجائے گا۔ قرآن مجید کے مرکزی مضامین میں تیسرا بڑا مضمون قیام قیامت ہے جو اس دنیا کا آخری دن ہوگا۔ جس نے قرآن مجید کی ہدایت کے مطابق زندگی بسر کی وہ کامیاب ہوگا اور جس نے قرآن مجید کی ہدایت سے انحراف کیا وہ اپنے کیے کی سزا پائے گا۔ اس دنیا کا انجام آخرت ہے اس لیے چند سورتوں کے سوا المرسلات سے لے کر تیسویں پارے کی تمام سورتوں میں آخرت کے مختلف مراحل کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ قرآن مجید کی تلاوت کرنے والا اپنے انجام کے بارے میں غوروفکر کرسکے۔ مکہ کے لوگ قیامت کے بارے میں مختلف قسم کی باتیں کرتے تھے۔ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ انسان جب مر کر مٹی کے ساتھ مٹی ہوجاتا ہے تو اسے زندہ نہیں کیا جاسکتا ہے، کچھ لوگ قیامت کی تردید کرتے ہوئے یہ دلیل پیش کرتے تھے کہ اب تک جتنے لوگ مرچکے ہیں ان میں کوئی بھی پلٹ کر واپس نہیں آیا، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دوبارہ پیدا نہیں ہونا اور نہ ہی قیامت برپا ہوگی۔ مکہ میں یہ بات کہنے والے بھی موجود تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک شغل کے طور پر انسان اور اس کائنات کو پیدا کیا ہے، اس لیے جب انسان مرجاتا ہے تو پھر اس سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوتی۔ بس ایک سلسلہ ہے جو صدیوں سے جاری ہے اور اسی طرح جاری رہے گا، کچھ لوگ قیامت کے مسئلہ کو صرف اختلافی بات اور جھگڑا سمجھتے تھے اور یہی جھگڑا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کرتے تھے۔ اس پس منظر میں یہ سورت نازل ہوئی جس کا آغاز اس بات سے ہوا کہ لوگ آپس میں کس چیز کے بارے میں سوال کرتے ہیں ؟ کیا ایک بڑی خبر کے بارے میں یہ ایک دوسرے کے ساتھ اختلاف کرتے ہیں ؟ ان کا کہنا ہے کہ قیامت برپا نہیں ہوگی، حالانکہ ان کی بات ہر اعتبار سے غلط ہے قیامت ہر صورت برپا ہوگی اور لوگوں کو دوبارہ پیدا کیا جائے گا اور پھر انہیں پتہ چل جائے گا کہ قیامت کیا ہے ؟ جب انہیں معلوم ہوگا تو اس پر ایمان لائیں گے مگر اس وقت ایمان لانے کا انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ (النزعات : ٤٢، ٤٣) یہ لوگ قیامت کا اس لیے انکار کرتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک یہ ناممکن بات ہے، حالانکہ یہ نہیں سوچتے کہ ہم نے زمین کو مخلوق کے لیے گہوارہ بنایا اور اس پر پہاڑوں کو میخوں کے طور پر گاڑ دیا اور تمہیں جوڑے جوڑے پیدا کیا اور نیند کو تمہارے لیے باعث سکون بنایا اور دن کو معاش کے لیے بنایا۔ انسان اگر ان باتوں پر غور کرے تو ان میں ہر کام ایسا ہے جس میں قیامت کا ثبوت ملتا ہے زمین پر غور فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے پانی پر ٹھہرایا ہے لیکن آج تک نہ کہیں سے ڈھل کی ہے اور نہ پانی میں غرق ہوئی ہے، زمین کا توازن قائم رکھنے کے لیے اس پر فلک بوس پہاڑگاڑ دیئے ہیں جو اپنی چوڑائی، لمبائی اور اونچائی کے لحاظ سے اپنے خالق کی قدرت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ انسان اپنی تخلیق پر غور کرے تو اپنے رب کی قدرت کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے مٹی سے پیدا کیا، پھر اس سے اس کی بیوی کو پیدا کیا اور پھر قیامت تک تخلیق انسانی کا سلسلہ شروع فرمایا اور میاں بیوی کے درمیان ایسا رشتہ قائم کیا کہ اس سے پہلے وہ اس تعلق اور محبت کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ انسان اپنی سرگرمیوں پر غور کرے کہ سارا دن اپنی معاش کی فکر میں لگا رہتا ہے جس سے اس کا وجود اور دماغ تھک جاتا ہے لیکن جونہی رات کے تاریک لباس میں سوتا ہے تو سارے دن کی تھکن دور ہوجاتی ہے۔ کیا انسان غور نہیں کرتا کہ یہ کس کا کمال ہے جو اسے ہر صبح تازہ دم کرکے اٹھاتا ہے اور اس کی قوت کار کو بحال کرتا ہے۔ جس خالق نے یہ چیزیں پیدا کی ہیں کیا وہ قیامت کے دن انسان کو پیدا نہیں کرسکتا ؟ کوئی شک نہیں کہ وہ انسان کو نہ صرف دوبارہ پیدا کرے گا بلکہ اسے اپنی بارگاہ میں حاضر کر کے اس سے پورا پورا حساب لے گا۔ انسان غور کرے کہ قیامت کے انکار کرنے کا اس پاس کیا جواز رہ جاتا ہے ؟ اسی لیے فرمایا کہ لوگ بہت بڑی خبر کے بارے میں ایک دوسرے سے تکرار کرتے ہیں جس نے ہر صورت آکر رہنا ہے حقیقت یہ ہے کہ انسان کا یہ کام نہیں کہ وہ قیامت کے بارے میں بحث مباحثہ کرے اس کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو قیامت کے لیے تیار کرے۔ (وَعَنْ اَنَسٍ (رض) اَنَّ رَجُلاً قَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَتَی السَّاعَۃُ قَالَ وَیْلَکَ وَمَا اَعْدَدْتَ لَھَا قَالَ مَا اَعْدَدْتُّ لَھَا اِلَّا اَنِّیْ اُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ قَالَ اَنْتَ مَعَ مَنْ اَحْبَبْتَ قَالَ اَنَسٌ فَمَا رَاَیْتُ الْمُسْلِمِیْنَ فَرِحُوْا بِشَیءٍ بَعْدَ الْاِسْلَامِ فَرَحَھُمْ بِھَا۔ ) (رواہ البخاری : باب مَنَاقِبُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَبِی حَفْصٍ الْقُرَشِیِّ الْعَدَوِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ ) ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ قیامت کب آئے گی ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تجھ پرا فسوس تو نے قیامت کے لیے کیا تیاری کی ہے ؟ اس نے جواب دیا : کہ میں تو صرف اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے محبت کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا : تو اسی کے ساتھ ہوگا، جس کے ساتھ محبت کرتا ہے۔ حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے مسلمانوں کو دیکھا، وہ اسلام لانے کے بعد کسی بات پر اتنے خوش نہیں ہوئے جتنے اس بات پر خوش ہوئے تھے۔ “ مسائل ١۔ اللہ ہی نے زمین کو لوگوں کے لیے گہوارہ بنایا ہے۔ ٢۔ اللہ ہی نے زمین پر پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑ دیا ہے۔ ٣۔ اللہ ہی نے لوگوں کو جوڑا جوڑا پیدا کیا ہے۔ ٤۔ اللہ ہی نے نیند کو لوگوں کے لیے باعث سکون بنایا ہے۔ ٥۔ اللہ ہی نے رات کو سونے کے لیے لباس بنایا ہے۔ ٦۔ اللہ ہی نے دن کو معاش کا ذریعہ بنایا ہے۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دلائل : ١۔ یقیناً قیامت آنے والی ہے۔ (الحجر : ٨٥) ٢۔ یقیناً قیامت آنے والی ہے اور اللہ قبروالوں کو اٹھائے گا۔ (الحج : ٧) ٣۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت برپا ہونے میں کوئی شک نہیں۔ (الکہف : ٢١) ٤۔ بیشک قیامت آنے والی ہے۔ میں اس کو پوشیدہ رکھنا چاہتا ہوں تاکہ ہر کسی کو جزا یا سزا دی جائے۔ (طہٰ : ١٥) ٥۔ اے لوگو ! اللہ سے ڈر جاؤ بیشک قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہے۔ (الحج : ١) ٦۔ کافر ہمیشہ شک میں رہیں گے، یہاں تک کہ قیامت اچانک آجائے۔ (الحج : ٥٥) ٧۔ ہم نے قیامت کے دن جھٹلانے والوں کے لیے آگ کا عذاب تیار کیا ہے۔ (الفرقان : ١١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آغاز کلام ہی ان نام نہاد سوال کرنے والوں کے سوالات پر سرزنش سے ہوتا ہے۔ تعجب اس پر کیا جاتا ہے کہ یہ لوگ اس قدر ظاہروباہر بات کے بارے میں قیل وقال کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے سوالات دراصل قیام قیامت کے بارے میں تھے اور یہی موضوع تھا جس کے بارے میں وہ نہایت ہی شک اور خلجان میں مبتلا تھے اور سخت مجادلہ اور مباحثہ کرتے تھے۔ ان لوگوں کے تصور میں یہ بات نہ آتی تھی کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے ، حالانکہ ایسا لازمی ہونا چاہئے اور قیام قیامت بالکل ایک منطقی امر ہے۔ عم یتساءلون (1:78) ” یہ لوگ کس چیز کے بارے میں پوچھ گچھ کررہے ہیں “۔ اور کس چیز کے بارے میں یہ مباحثے کررہے ہیں اور اس کے بعد خود اس کا جواب دے دیا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ سوال برائے استفہام نہ تھا۔ نہ کچھ معلومات مطلوب تھیں۔ سوال محض ان کے حال پر تعجب کرنے کے لئے کیا گیا ہے اور متصلایہ تھا کہ ان لوگوں کی حالت قابل تعجب ہے کیونکہ ان کے سوالات ایک نہایت ہی عظیم معاملے کے بارے میں ہیں ، جس کے بارے میں یہ شک میں ہیں اور اس کی حقیقت یہ ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

یہاں سے سورة النباء شروع ہو رہی ہے اس کے ابتداء میں لفظ عم ہے یہ عن حرف جار اور ما استفہامیہ سے مرکب ہے اس میں آخر سے الف ساقط ہوگیا اور نون ساکن کا میم میں ادغام کردیا گیا۔ تفسیر قرطبی میں لکھا ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن نازل ہوتا تو قریش مکہ آپس میں بیٹھ کر باتیں کیا کرتے تھے (قرآن مجید میں قیامت کا ذکر بھی ہوتا تھا) اسے سن کر بعض لوگ تصدیق کرتے اور بعض تکذیب کرتے تھے اور معالم التنزیل میں ہے کہ وہ لوگ قیامت کی باتیں سن کر کہتے تھے : ما جاء بہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہ (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا لے کر آئے ہیں ؟ ) ان لوگوں کی اس گفتگو پر ﴿ عَمَّ يَتَسَآءَلُوْنَ۠ۚ٠٠١ ﴾ نازل ہوئی کہ یہ لوگ کس چیز کے بارے میں سوال کرتے ہیں پھر خود ہی جواب دے دیا کہ بڑی خبر کے بارے میں آپس میں سوال کرتے ہیں جس میں اختلاف کر رہے ہیں کوئی منکر اور کوئی تصدیق کر رہا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

2:۔ ” عَمَّ یَتَسَآءَلُوْنَ “۔ منکرین حشر و نشر پر زجر ہے۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل مکہ کو توحید کی دعوت دی اور ان کو بعث بعد الموت کا مسئلہ بتایا تو وہ قیامت کے بارے میں ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ کیا کہتا ہے کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جاؤ گے۔ ” عَنِ النَّبَاِ الْعَظِیْمِ “ یہ ” یَتَسَاءَلُوْنَ “ مقدر سے متعلق ہے ہاں وہ ایک عظیم خبر کے بارے میں سوال و جواب کر رہے ہیں یا آپس میں اختلاف کر رہے ہیں۔ بعض تو اس کا صاف صاف انکار کرتے ہیں اور بعض شک میں پڑتے ہیں (مظہری) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(1) منکرین قیامت باہم کسی چیز کی پوچھ گچھ کررہے ہیں اور کس چیز کا حال دریافت کررہے ہیں۔