Surat un Naba

Surah: 78

Verse: 37

سورة النبأ

رَّبِّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ مَا بَیۡنَہُمَا الرَّحۡمٰنِ لَا یَمۡلِکُوۡنَ مِنۡہُ خِطَابًا ﴿ۚ۳۷﴾

[From] the Lord of the heavens and the earth and whatever is between them, the Most Merciful. They possess not from Him [authority for] speech.

۔ ( اس رب کی طرف سے ملے گا جو کہ ) آسمانوں کا اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان کا پروردگار ہے اور بڑی بخشش کرنے والا ہے ۔ کسی کو اس سے بات چیت کرنے کا اختیار نہیں ہوگا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

No one will dare to speak before Allah -- not even the Angels - without first receiving Permission رَبِّ السَّمَاوَاتِ وَالاَْرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا الرحْمَنِ ... The Lord of the heavens and the earth, and whatsoever is in between them, the Most Gracious, Allah informs of His magnificence and His majesty, and that He is the Lord of the heavens and the earth, and whatever is in them and between them. He explains that He is the Most Gracious, Whose mercy covers all things. Then He says, ... لاَا يَمْلِكُونَ مِنْهُ خِطَابًا With Whom they cannot dare to speak. meaning, no one is able to begin addressing Him except by His permission. This is as Allah says, مَن ذَا الَّذِى يَشْفَعُ عِندَهُ إِلاَّ بِإِذْنِهِ Who is he that can intercede with Him except with His permission, (2:255) It is also similar to His statement, يَوْمَ يَأْتِ لاَ تَكَلَّمُ نَفْسٌ إِلاَّ بِإِذْنِهِ On the Day when it comes, no person shall speak except by His leave. (11:105)

روح الامین علیہ السلام اللہ تعالیٰ اپنی عظمت و جلال کی خبر دے رہا ہے کہ آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی تمام مخلوق کا پالنے پوسنے والا ہے ، وہ رحمان ہے ، جس کے رحم نے تمام چیزوں کو گھیر لیا ہے ، جب تک اس کی اجازت نہ ہو کوئی اس کے سامنے لب نہیں ہلا سکتا ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ۭ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ ۚ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِـيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ۚ وَلَا يَـــــُٔـــوْدُهٗ حِفْظُهُمَا ۚ وَھُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيْمُ ٢٥٥؁ ) 2- البقرة:255 ) یعنی کون ہے جو اس کی اجازت بغیر اس کی سی صورتوں والے ہیں کھاتے پیتے ہیں نہ وہ فرشتے ہیں نہ انسان ، یا مراد حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں ، حضرت جبرائیل کو اور جگہ بھی روح کہا گیا ہے ، ارشاد ہے آیت ( نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ ١٩٣؀ۙ ) 26- الشعراء:193 ) ، اسے امانت دار روح نے تیرے دل پر اتارا ہے تاکہ تو ڈرانے والا بن جائے ، یہاں مراد سے یقینا حضرت جبرائیل ہیں حضرت مقاتل فرماتے ہیں کہ تمام فرشتوں سے بزرگ ، اللہ کے مقرب اور وحی لے کر آنے والے بھی ہیں ، یا مراد روح سے قرآن ہے ، اس کی دلیل میں یہ آیت پیش کی جا سکتی ہے آیت ( وَكَذٰلِكَ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا 52؀ۙ ) 42- الشورى:52 ) یعنی ہم نے اپنے حکم سے تیری طرف روح اتاری یہاں روح سے مراد قرآن ہے ، چھٹا قول یہ ہے کہ یہ ایک فرشتہ ہے جو تمام مخلوق کے برابر ہے ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ یہ فرشتہ تمام فرشتوں سے بہت بڑا ہے ، حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ روح نامی فرشتہ چوتھے آسمان میں ہے ، تمام آسمانوں کل پہاڑوں اور سب فرشتوں سے بڑا ہے ، ہر دن بارہ ہزار تسبیحات پڑھتا ہے ہر ایک تسبیح سے ایک ایک فرشتہ پیدا ہوتا ہے ، قیامت کے دن وہ اکیلا ایک صف بن کر آئے گا ۔ لیکن یہ قول بہت ہی غریب ہے ، طبرانی میں حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہ فرشتوں میں ایک فرشتہ وہ بھی ہے کہ اگر اسے حکم ہو کہ تمام آسمانوں اور زمینوں کو لقمہ بنا لے تو وہ ایک لقمہ میں سب کو لے لے اس کی تسبیح یہ ہے سبحانک حیث کنت اللہ تو جہاں کہیں بھی ہے پاک ہے یہ حدیث بھی بہت غریب ہے بلکہ اس کے فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونے میں بھی کلام ہے ، ممکن ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس کا قول ہو ، اور بھی بنی اسرائیل سے لیا ہوا ، واللہ اعلم ۔ امام ابن جریر نے یہ سب اقوال وارد کئے ہیں لیکن کوئی فیصلہ نہیں کیا ۔ میرے نزدیک ان تمام اقوال میں سے بہتر قول یہ ہے کہ یہاں روح سے مراد کل انسان ہیں واللہ اعلم پھر فرمایا صرف وہی اس دن بات کر سکے گا جسے وہ رحمٰن اجازت دے جیسے فرمایا آیت ( يَوْمَ يَاْتِ لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ۚ فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَّسَعِيْدٌ ١٠٥؁ ) 11-ھود:105 ) یعنی جس دن وہ وقت آئے گا کوئی نفس بغیر اس کی اجازت کے کلام بھی نہیں کر سکے گا صحیح حدیث میں بھی ہے کہ اس دن سوائے رسولوں کے کوئی بات نہ کر سکے گا ، پھر فرمایا کہ اس کی بات بھی ٹھیک ٹھاک ہو ، سب سے زیادہ حق بات لا الہ الا اللہ ہے ، پھر فرمایا کہ یہ دن حق ہے یقیناً آنے والا ہے ، جو چاہے اپنے رب کے پاس اپنے لوٹنے کی جگہ اور وہ راستہ بنا لے جس پر چل کر وہ اس کے پاس سیدھا جا پہنچے ، ہم نے تمہیں بالکل قریب آئی ہوئی آفت سے آگاہ کر دیا ہے ، آنے والی چیز تو آ گئی ہوئی سمجھنی چاہئے ، اس دن نئے پرانے چھوٹے بڑے اچھے برے کل اعمال انسان کے سامنے ہوں گے جیسے فرمایا آیت ( ووجدوا ما عملوا حاضرا جو کیا اسے سامنے پا لیں گے اور جگہ ہے آیت ( يُنَبَّؤُا الْاِنْسَانُ يَوْمَىِٕذٍۢ بِمَا قَدَّمَ وَاَخَّرَ 13؀ۭ ) 75- القيامة:13 ) ہر انسان کو اس کے اگلے پچھلے اعمال سے متنبہ کیا جائے گا ، اس دن کافر آرزو کرے گا کاش کہ وہ مٹی ہوتا پیدا ہی نہ کیا جاتا وجود میں ہی نہ آتا ، اللہ کے عذاب کو آنکھ سے دیکھ لے گا اپنی بدکاریاں سامنے ہوں گی جو پاک فرشتوں کے منصب ہاتھوں کی لکھی ہوئی ہیں ، پس ایک معنی تو یہ ہوئے کہ دنیا میں ہی مٹی ہونے کی یعنی پیدا نہ ہونے کی آرزو کرے گا ، دوسرے معنی یہ ہیں کہ جب جانوروں کا فیصلہ ہو گا اور ان کے قصاص دلوائے جائیں گے یہاں تک کہ بےسینگ والی بکری کو اگر سینگ والی بکری نے مارا ہو گا تو اس سے بھی بدلہ دلوایا جائے گا پھر ان سے کہا جائے گا کہ مٹی ہو جاؤ چنانچہ وہ مٹی ہو جائیں گے ، اس وقت یہ کافر انسان بھی کہے گا کہ ہائے کاش میں بھی حیوان ہوتا اور اب مٹی بن جاتا حضور کی لمبی حدیث میں بھی یہ مضمون وارد ہوا ہے اور حضرت ابو ہریرہ اور حضرت عبداللہ بن عمرو سے بھی یہی مروی ہے ، الحمد اللہ سورہ نباء کی تفسیم ختم ہوئی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

37۔ 1 یعنی اس کی عظمت، ہیبت اور جلالت اتنی ہوگی کہ ابتداء اس سے کسی کو بات کرنے کی ہمت نہ ہوگی، اسی لئے اس کی اجازت کے بغیر کوئی شفاعت کے لئے لب کشائی نہیں کرسکے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٤] یعنی اللہ تعالیٰ کی اہل جنت کو جود و عطا کا تو وہ حال ہے جو اوپر مذکور ہوا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے جلال، رعب اور دبدبے کا یہ حال ہوگا کہ جب تمام مخلوق قیامت کی ہولناکیوں سے گھبراہٹ میں مبتلا ہوگی تو کسی کو یہ ہمت نہیں پڑے گی کہ وہ مخلوق خدا پر اللہ تعالیٰ سے رحم کے لیے سفارش کرسکے اور ہر شخص نفسی نفسی پکار رہا ہوگا۔ حتیٰ کہ انبیاء بھی رب سلّم وسلّم پکار رہے ہوں گے۔ بالآخر اللہ تعالیٰ کے سامنے سفارش کے لیے قرعہ فال رسول اللہ کے نام پر پڑے گا اور آپ اللہ کے حضور سب کے لیے سفارش کریں گے۔ اس مضمون کی طویل اور مفصل حدیث سورة بقرہ کی آیت نمبر ٢٥٥ کے تحت گزر چکی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

لَا يَمْلِكُونَ مِنْهُ خِطَابًا (...No one will have power to address Him,...78:37) This sentence is probably connected to the preceding verse: جَزَاءً مِّن رَّ‌بِّكَ عَطَاءً حِسَابًا (this being a reward from their Lord, a sufficing grant...78:36) In this case, it would mean that when Allah grants a certain grade of reward, no one dare speak about the grade as to why someone got more and others got less. But if this sentence is treated as an isolated one, it will mean that no one in the Plane of Gathering will have the power to speak to Him without His permission. This permission will be granted in some of the positions of Gathering, and not in others.

لَا يَمْلِكُوْنَ مِنْهُ خِطَابًا اس جملہ کا تعلق پہلے جملے جَزَاۗءً مِّنْ رَّبِّكَ عَطَاۗءً حِسَابًا سے بھی ہوسکتا ہے تو معنے یہ ہوں گے کہ حق تعالیٰ جس کو جو درجہ ثواب کا عطا فرما دیں گے اس میں کسی کو گفتگو کرنے کی مجال نہ ہوگی کہ فلاں کو زیادہ فلاں کو کم کیوں دیا گیا اور اگر اس کو علیحدہ جملہ قرار دیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ محشر میں کسی کو بغیر اجازت حق تعالیٰ خطاب کرنے کا اختیار نہ ہوگا اور یہ اجازت بعض مواقف حشر میں ہوگی بعض میں نہ ہوگی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

رَّبِّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَہُمَا الرَّحْمٰنِ لَا يَمْلِكُوْنَ مِنْہُ خِطَابًا۝ ٣٧ ۚ سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ بين بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها . ( ب ی ن ) البین کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے ) ملك ( مالک) فالمُلْك ضبط الشیء المتصرّف فيه بالحکم، والمِلْكُ کالجنس للمُلْكِ ، فكلّ مُلْك مِلْك، ولیس کلّ مِلْك مُلْكا . قال : قُلِ اللَّهُمَّ مالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشاءُ [ آل عمران/ 26] ، وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان/ 3] ، وقال : أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس/ 31] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا[ الأعراف/ 188] وفي غيرها من الآیات ملک کے معنی زیر تصرف چیز پر بذیعہ حکم کنٹرول کرنے کے ہیں اور ملک بمنزلہ جنس کے ہیں لہذا ہر ملک کو ملک تو کہہ سکتے ہیں لیکن ہر ملک ملک نہیں کہہ سکتے قرآن میں ہے : ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان/ 3] اور نہ نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں اور نہ مرنا ان کے اختیار میں ہے اور نہ جینا اور نہ مر کر اٹھ کھڑے ہونا ۔ اور فرمایا : ۔ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس/ 31] یا تمہارے کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا[ الأعراف/ 188] کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ اختیار نہیں رکھتا علی بذلقیاس بہت سی آیات ہیں خطب الخَطْبُ «2» والمُخَاطَبَة والتَّخَاطُب : المراجعة في الکلام، ومنه : الخُطْبَة والخِطْبَة لکن الخطبة تختصّ بالموعظة، والخطبة بطلب المرأة قال تعالی: وَلا جُناحَ عَلَيْكُمْ فِيما عَرَّضْتُمْ بِهِ مِنْ خِطْبَةِ النِّساءِ [ البقرة/ 235] ، وأصل الخطبة : الحالة التي عليها الإنسان إذا خطب نحو الجلسة والقعدة، ويقال من الخُطْبَة : خاطب وخطیب، ومن الخِطْبَة خاطب لا غير، والفعل منهما خَطَبَ. والخَطْبُ : الأمر العظیم الذي يكثر فيه التخاطب، قال تعالی: فَما خَطْبُكَ يا سامِرِيُّ [ طه/ 95] ، فَما خَطْبُكُمْ أَيُّهَا الْمُرْسَلُونَ [ الذاریات/ 31] ، وفصل الخِطَاب : ما ينفصل به الأمر من الخطاب . ( خ ط ب ) الخطب والمخاطبۃ والتخاطب ۔ باہم گفتگو کرنا ۔ ایک دوسرے کی طرف بات لوٹانا اسی سے خطبۃ اور خطبۃ کا لفظ ہے لیکن خطبۃ وعظ و نصیحت کے معنی میں آتا ہے اور خطبۃ کے معنی ہیں نکاح کا پیغام ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلا جُناحَ عَلَيْكُمْ فِيما عَرَّضْتُمْ بِهِ مِنْ خِطْبَةِ النِّساءِ [ البقرة/ 235] اگر تم کنایہ کہ باتوں میں عورتوں کو نکاح کا پیغام بھیجو ۔۔ ۔ تم تم پر کچھ گناہ نہیں ۔ اصل میں خطبۃ اسی حالت کو کہتے ہیں جو بات کرتے وقت ہوتی ہے جیسا کہ جلسۃ اور قعدۃ پھر خطبۃ سے تو خاطب اور خطیب ( دونوں لفظ استعمال ہوتے ہیں مگر خطبۃ سے صرف خاطب کا لفظ ہی بولا جاتا ہے ۔ اور خطب فعل دونوں معنی کے لئے آتا ہے ۔ الخطب ۔ اہم معاملہ جس کے بارے میں کثرت سے تخاطب ہو ۔ قرآن میں ہے :۔ فَما خَطْبُكَ يا سامِرِيُّ [ طه/ 95] پھر سامری سے کہنے لگے ) سامری تیرا کیا حال ہے ۔ فَما خَطْبُكُمْ أَيُّهَا الْمُرْسَلُونَ [ الذاریات/ 31] کہ فرشتوں تمہارا مدعا کیا ہے ۔ فصل الخطاب دو ٹوک بات ، فیصلہ کن بات جس سے نزاع ختم ہوجائے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

23 That is, the Court of Allah Almighty will be so awe-inspiring that no one, whether belonging to the earth or to the heavens, will dare open his mouth of his own will before Allah, nor interfere in the Court's work and proceedings.

سورة النَّبَا حاشیہ نمبر :23 یعنی میدان حشر میں دربار الہی کے رعب کا یہ عالم ہو گا کہ اہل زمین ہوں یا اہل آسمان ، کسی کی بھی یہ مجال نہ ہو گی کہ از خود اللہ تعالی کے حضور زبان کھول سکے ، یا عدالت کے کام میں مداخلت کر سکے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

################

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٧۔ ٤٠۔ اوپر ذکر تھا کہ جس شخص کو نیک عملوں کے بدلہ میں جنت ملے گی وہ محض عطائے الٰہی کے طور پر ملے گی ان آیتوں میں اس بیشمار عطا کی صراحت یوں فرمائی کہ زمین آسمان جنت اور نیکی کے ثواب کے درجہ کو بڑھانا سب کچھ اللہ کے اختیار میں ہے وہ جس کو جو کچھ چاہے عطا کے طور پردے دیوے اس کی بارگاہ میں کچھ کمی نہیں۔ وہ رحمن ہے اس کی رحمت بندوں پر عام ہے پھر فرمایا باوجود اس عام رحمت کے اس کا جلال بھی ایسا ہے کہ قیامت کو جب اس سے آمنا سامنا ہوگا تو بغیر اس کے حکم کے اس سے کوئی بات نہ کرسکے گا۔ حضرت عبد اللہ ٣ ؎ بن عباس (رض) کا مشہور قول ہے کہ اس آیت میں روح سے مراد بنی آدم ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ حشر کے دن بنی آدم اور ملائکہ اللہ کے رو برو صف باندھ کر کھڑے ہوں گے۔ صحیح حدیثوں کے موافق یہ ذکر اس وقت کا ہے جب اللہ تعالیٰ نیک و بد کے فیصلہ کے لئے آسمان سے زمین پر میدان محشر میں نزول فرمائے گا اور لوگ سورج کی گرمی اور پسینہ سے گھبرائیں گے اور حضرت آدم سے لے کر حضرت عیسیٰ تک سب انبیاء کے پاس حساب و کتاب شروع ہوجانے کے لئے جائیں گے اور کسی نبی کی جرأت اور طاقت اللہ تعالیٰ سے بات کرنے کی نہ ہوگی آخر خاتم النبیین محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بات کرنے کا حکم ہوگا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت سے سب لوگوں کا حساب و کتاب شروع ہوگا۔ چناچہ اس کا ذکر تفصیل سے اوپر گزر چکا ہے۔ وقال صواباً کے یہ معنی ہیں کہ جس طر اس دن بغیر حکم اللہ تعالیٰ کے اس سے کوئی بات نہ کرسکے گا اسی طرح اس کی مرضی کے خلاف کوئی کسی کی سفارش بھی نہیں کرسکتا۔ حاصل کلام یہ ہے کہ مثلاً حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اللہ کی مرضی کے خلاف اپنے باپ آذر کی بخشش یا تخفیف عذاب کی سفارش نہ کرسکیں گے سورة انبیاء میں ولا یشفعون الا لمن ارتضی۔ وقال صوابا کی گویا تفسیر ہے ہے پھر فرمایا جس دن کے حساب و کتاب اور عذاب سے ان لوگوں کو ڈرایا جاتا ہے اس دن کا پیش آنا ایسا یقینی اور اس کی صداقت ایسی ایک حق بات ہے کہ جس کو کوئی جھٹلا نہیں کستا کس لئے کہ جن آیات قرآنی میں قیامت کے آنے کا ذکر ہے ان آیتوں کو یہ قیامت کے منکر لوگ محض ہٹ دھرمی سے جھٹلا رہے ہیں اگر اس ہٹ دھرمی کو چھوڑ کر اپنی آنکھوں کے سامنے کے انتظام دنیا پر بھی یہ لوگ ذرا غور کریں تو ان کی سمجھ میں اچھی طرح یہ بات آسکتی ہے کہ خود موجودہ انتظام اس کا مقتضی ہے کہ دنیا کے ختم کے بعد قیامت جیسے ایک دن کی سخت ضرورت ہے کیونکہ دنیا میں بہت سے نیک لوگ ایسے ہیں کہ عمر بھر دنیا کی اکثر راحتوں سے محروم رہے اور بہت سے بد لوگ ایسے ہیں کہ دنیا کی ہر طرح کی راحت میں ان کی ساری زندگی بسر ہوئی اب دنیا کے چھوٹے چھوٹے حاکم و آقا تو اس بات کو بڑی ناانصافی گنتے ہیں کہ نیک و بد نوکر یا غلام کو ہمیشہ ایک حالت میں رکھا جائے اس احکم الحاکمین کے انصاف پر یہ دھبہ کون لگا سکتا ہے کہ اس کی بارگاہ میں نہ نیکی کا کچھ ثمرہ ہے نہ بدی کی کوئی پرسش۔ چناچہ اسی مطلب کو سورة جائیہ میں ان لفظوں سے ادا فرمایا ہے۔ ام حسب الذی اجتر حوا السیات ان نجعلہم کالذین امنوا و عملوا الصحلت سواء محیاھم و مماتھم ساء مایحکمون و خلق اللہ السموت والارض باحلق و لتجزی کل نفس بما کسبت وھم لا یظلمون اور اسی مطلب کی تاکید سورة نون میں ان لفظوں سے فرمائی ہے افنجعل المسلمین کا لمجرمین مالکم کیف تحکمون۔ ان آیتوں کے اصلی معنی تو سورة جاثیہ اور سورة نون میں گزر چکے۔ یہاں حاصل مطلب اسی قدر ہے کہ آخرت کا حال کسی نے آنکھ سے تو ابھی تک دیکھا نہیں ہاں وہاں کا حال دنیا میں اسی قدر کسی کو معلوم ہوسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ اپنے رسول کو بتایا ہے وہ حال تو یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے انصاف میں یہ بات ہرگز جائز نہیں کہ وہ دنیا کو دنیا کی ہی حالت پر رکھے اور ختم دنیا کے بعد دوسرا جہان سزا اور جزا کے لئے نہ پیدا کرے اور فرمانبرداروں اور نافرمانبرداروں کو یکساں کر دے اس کے سوا اٹکل پچو باتیں جو یہ نافرمان لوگ بناتے ہیں وہ اس کی باتیں بالکل بےٹھکانے ہیں پھر فرمایا جب قیامت کا آنا یقینی ہے تو آدمی کو چاہئے کہ اس دن خدا کو اچھی طرح منہ دکھانے کے ارادہ سے جہاں تک ہو سکے نیکی کرے اور جس عذاب سے اس کو ڈرایا گیا ہے اس سے ڈر کر برے کاموں سے پرہیز کرے اور یہ خوب جان لے کہ دنیا میں نیک و بد جو کچھ کرے گا اس دن وہ سب اس کے سامنے آنے والا ہے۔ دو روز نامچہ نویس خدا کی طرف سے ہر ایک شخص پر مقرر ہیں۔ رات دن انسان کے ہر قول و فعل کو لکھ لینا یہی ان کا کام ہے۔ شداد ١ ؎ بن اوس اور عبد اللہ بن عمر کی روایتیں اوپر گزر چکی ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا صاحب عقل وہی ہے جو زندگی میں موت کے بعد کا کچھ سامان کرلے اور کم عقل وہ ہے جو عمر بھر برے کاموں میں لگا رہے اور موت کے بعد پھر راحت کی توقع رکھی۔ بخاری ٢ ؎ اور ترمذی میں حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا صحت اور فارغ البالی اللہ تعالیٰ کی دو بڑی نعمتیں ہیں جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے یہ دو نعمتیں دیں اور پھر وہ اللہ کی عبادت سے غافل رہے تو ایسے لوگ بڑے ٹوٹے میں ہیں ترمذی نے اس حدیث کو صحیح کہا ٣ ؎ ہے پھر فرمایا جو کوئی اس فہمایش کے بعد بھی عقبیٰ کے انکار پر اڑا رہے گا تو اس کو وہاں ایسا پچھتاوا ہوگا کہ وہ عذاب کی سختی کے خیال سے یہ آرزو کرے گا وہ خاک ہوجاتا تو اچھا ہوتا۔ صحیح ٤ ؎ مسلم ترمذی ‘ مسند امام احمد میں جو حضرت ابوہریرہ سے روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ قیامت کے دن یہاں تک انصاف ہوگا کہ اگر کوئی سینگ والا جانور بغیر سینگ والے جانور کو مار بیٹھا ہوگا تو اس سے بھی بدلہ لیا جائے گا۔ بیہقی ‘ تفسیر ابن ٥ ؎ جریر ابن ابی حاتم کی روایتوں میں اتنا اور زیادہ ہے کہ اس بدلہ کے بعد سب جانوروں کو خاک ہوجانے کا حکم ہوگا اور وہ خاک ہوجائیں گے جانوروں کی یہ حالت دیکھ کر حشر کے منکر لوگ یہ آرزو کریں گے کہ وہ بھی اسی طرح خاک ہوجاتے تو عذاب سے بچ جاتے۔ ١ ؎ مشکوۃ شریف باب فی استحباب المال و العمر للطاعۃ فصل ثانی ص ٤٥١۔ والترغیب والترھیب فی ذکر الموت الخ ص ٤٤٠ ج ٤ جامع ترمذی ابواب صفۃ القیمۃ ٨٢ ص ج ٤ ٢ ؎ صحیح بخاری کتاب الرقاق ص ٩٤٩ ج ٢ ٣ ؎ جامع ترمذی ابواب الزھد ص ٦٥ ج ٢ ٤ ؎ صحیح مسلم باب تحریم الظلم ص ٣٢٠ ج ٢ ٥ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ٣١٠ ج ٦۔ (٣ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٤٦٥ ج ٤)

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(78:37) رب السموت والارض وما بینھما الرحمن : جملہ رب السموت والارض وما بینھما بدل ہے ربک سے الرحمن بھی ربک سے بدل ہے یا اس کی صفت۔ ترجمہ ہوگا :۔ جو رب ہے آسمانوں کا اور زمین کا اور ان دونوں کے اندر کی سب چیزوں کا جو بڑا رحم و کرم کرنے والا ہے۔ لایملکون منہ خطابا۔ یہ جملہ مستانفہ ہے۔ لا یملکون مضارع منفی جمع مذکر غائب۔ ملک (باب ضرب) مصدر۔ وہ اختیار نہیں رکھتے۔ وہ رب السموت والارض وما فیہا ہے اور حمن بھی ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ یہ ہیبت اور جبروت بھی ہے کہ کوئی بھی بغیر اذن کے اس سے بات نہیں کرسکتا۔ صاحب تفسیر حقانی رقمطراز ہیں :َ اور کوئی اپنے استحقاق کی بابت اس سے کچھ بھی نہیں کہہ سکتا ۔ جس کو جو کچھ بھی دیا وہ محض فضل ہی فضل ہے۔ جس کو نہیں دیا وہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ چیز مجھے کیوں نہیں دی۔ کیونکہ اس کو کسی کا دینا نہیں آتا جو وہ اپنا حق جتلائے اور گلہ کرے۔ لایملکون میں ضمیر فاعل جمع مذکر غائب تمام اہل سموت والارض کے لئے ہے اور منہ کی ضمیر واحد مزکر غائب اللہ کے لئے ہے (مدارک) ۔ خطابا۔ کلام۔ بات۔ گفتگو۔ مصدر۔ منصوب بوجہ تمیز،۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی انتہائی لطف و رحمت کے باوجود قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کا جلال اس قدر ہوگا کہ کوئی اس کے سامنے لب کشائی نہ کرسکے گا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جہنمی کے عقیدے کی تمیز۔ جہنم میں جانے والوں کے جرائم میں ایک جرم یہ ہوگا کہ وہ دنیا میں یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ قیامت کے دن ان کے پیر، فقیر اور معبود انہیں اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچالیں گے لیکن وہاں صورت حال یہ ہوگی کہ کسی کو رب ذوالجلال کی گرفت سے بچانا تو درکنار کوئی اس کے سامنے بات کرنے کی جرأت نہیں کرسکے گا کیونکہ وہی زمین و آسمانوں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان کا پیدا کرنے والا اور مالک ہے۔ دنیا میں اس نے ہر انسان کو ایک حد تک اپنی مرضی کرنے کی اجازت دے رکھی ہے لیکن قیامت کے دن اس کے سا منے کوئی دم نہیں مار سکے گا۔ اس دن حالت یہ ہوگی کہ جبریل امین اور تمام ملائکہ اپنے رب کے حضور قطار اندر قطار کھڑے ہوں گے، کوئی فرشتہ ہو یا انسان گنہگار ہو یا پاکباز، ولی ہو یا نبی کوئی بھی رب ذوالجلال کی اجازت کے بغیر بات کرنے کی جرأت نہیں پائے گا۔ اس کے حضور وہی بات کرسکے گا جسے وہ اجازت عطا فرمائے گا اور جسے اجازت دی جائے گی وہ وہی بات اور الفاظ استعمال کرے گا جو صحیح ہوں گے، اس دن کا آنا اور قیامت کا قائم ہونا برحق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو بتلا دیا ہے کہ وہ دن اور اس کا عذاب دور نہیں بلکہ بالکل قریب ہے اب جس کا دل چاہے وہ اپنے رب کی طرف واپس جانے کا صحیح راستہ اختیار کرلے اور جو چاہے اپنی مرضی کرتا رہے۔ جس نے اپنی مرضی کا راستہ اختیار کیا وہ کہے گا کہ کاش ! میں مٹی کے ساتھ مٹی ہوجاؤں۔ ” ہم نے تمہیں اس عذاب سے ڈرادیا ہے جو قریب آچکا ہے جس دن آدمی سب کچھ دیکھ لے گا جو اس کے ہاتھوں نے آگے بھیجا ہے اور کافر پکار اٹھے گا کہ کاش میں مٹی بنا رہتا۔ “ (النبا : ٤٠) (عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَتُؤَدُّنَّ الْحُقُوْقَ إِلٰی أَھْلِھَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ حَتّٰی یُقَاد للشَّاۃِ الْجَلْحَاءِ مِنَ الشَّاۃِ الْقَرْنَاءِ ) (رواہ مسلم : کتاب البروالصلۃ، باب تحریم الظلم) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہیں قیامت کے دن لوگوں کے حقوق ان کے مالکوں کو ادا کرنا پڑیں گے، یہاں تک کہ جس بکری کے سینگ نہیں ہیں اس کو سینگ والی بکری سے بدلہ دلایا جائے گا۔ “ مسائل ١۔ قیامت کے دن جبریل امین اور تمام ملائکہ قطار اندر قطار کھڑے ہوں گے۔ ٢۔ قیامت کے دن الرحمن کی اجازت کے بغیر کوئی بات نہیں کرسکے گا۔ ٣۔ قیامت کے دن جسے بات کرنے کی اجازت ہوگی وہ صحیح بات کرئے گا۔ ٤۔ قیامت کا دن ہر صورت برپا ہو کر رہے گا اس کے برپا ہونے میں کوئی شک نہیں۔ ٥۔ قیامت کے دن ہر شخص اپنے اعمال کو اپنے سامنے پائے گا۔ ٦۔ قیامت کے دن کافر اس بات کی تمنا کرے گا کہ کاش ! میں مٹی کے ساتھ مٹی بنا رہتا۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ نے قیامت کے قائم ہونے کے ٹھوس دلائل دیئے ہیں۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن کوئی شخص رب رحمن کی اجازت کے بغیر بات نہیں کرسکے گا : ١۔ کون ہے جو اس کے حکم کے بغیر سفارش کرے۔ (البقرۃ : ٢٥٥) ٢۔ قیامت کے دن سفارشی کسی کو فائدہ یا نقصان نہیں دیں گے۔ (یونس : ١٨) ٣۔ سفارش بھی اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہوگی۔ (الانبیاء : ٣٨) (المدثر : ٣٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ جزاء وسزا جو اہل تقویٰ اور اہل ضلالت کے لئے ، اس سے قبل مفصل طور پر بیان ہوئی ، یہ تیرے رب کی طرف سے ہے۔ اور رب السموت ........................ الرحمن (37:78) ہے (اس نہایت مہربان خدا کی طرف سے جو زمین اور آسمانوں اور ان کے درمیان کی ہر چیز کا مالک ہے) اس آخری ٹچ اور اس عظیم حقیقت کے بیان کے لئے اب یہ مناسب وقت ہے ، یعنی یہ کہ اللہ کی ربوبیت زمین و آسمانوں پر حاوی ہے ، اس کے اندر یہ دنیا بھی ہے اور آخرت بھی ہے۔ یہ اہل تقویٰ کو جزاء دیتی ہے اور اہل ضلالت اور بدکاروں کو سزا دیتی ہے اور دنیا وآخرت کے تمام فیصلے اللہ کی طرف رجوع ہوتے ہی۔ پھر یہ ربوبیت نہایت رحیمانہ ہے۔ یہ جزاء بھی اس کی رحمت کا نتیجہ ہے اور سزا بھی اس کی رحمت کا تقاضا ہے۔ یہ اس کی رحمت ہی کا تقاضا ہے کہ سرکشوں کو جہنم میں جلایا جائے۔ کیونکہ یہ عین رحمت ہے کہ شر کو سزا ملے اور خیروشر برابر نہ ہوں ورنہ یہ تو ظلم ہوگا۔ پھر یہ رحمت اپنے اندر جلال لئے ہوئے ہے۔ اس خوفناک دن میں اس دربار رحمت میں کوئی بات نہ کرسکے گا۔ جبرائیل (علیہ السلام) اور دوسرے سربرآور دو فرشتے بھی صف بستہ خاموش کھڑے ہوں گے۔ صرف اجازت سے کچھ عرض کرنا ہوگا اور بات ہوگی۔ لیکن بات بھی درست ہوگی ورنہ رحمن تو دل کی بات جانتا ہے ، بری بات کہنے کی اجازت ہی نہ ہوگی۔ یہ منظر کہ بےگناہ لوگ اور سرکردہ فرشتے بھی اس بارگاہ میں خاموش کھڑے ہی ، کوئی شخص بات بھی نہیں کرتا ، سا ہواکھڑا ہے ، فضا پر رعب ، خوف ، جلالت اور وقار کے گہرے بادل پھیلا دیتا ہے۔ ایسے حالات میں جبکہ خوف کے بادل چھائے ہوئے ہوں ، دنیا کے غافلوں اور بری راہوں پر سرپٹ بھاگنے والوڈ کو ایک بار پھر ڈرایا جاتا ہے ، ایک زبردست چیخ آتی ہے اور مدہوش لوگوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿رَّبِّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَيْنَهُمَا الرَّحْمٰنِ ﴾ (متقی حضرات کو جو صلہ ملے گا وہ پر ورگار جل مجدہ کی طرف سے عطیہ ہوگا، وہ آسمانوں کا اور زمین کا اور جو کچھ اس کے درمیان ہے اس کا مالک ہے اور رحمٰن ہے) ﴿لَا يَمْلِكُوْنَ مِنْهُ خِطَابًاۚ٠٠٣٧﴾ (اس دن کوئی بھی اس سے خطاب نہ کرسکے گا) صاحب روح المعانی لکھتے ہیں : والمراد نفی قدرتھم علٰی ان یخاطبوہ عزوجل بشی من نقص الاوزارو زیادة الثواب من غیر اذنہ تعالیٰ ۔ یعنی جو عذاب میں مبتلا کردیا گیا وہ عذاب کم کرنے کی درخواست نہ کرسکے گا اور جسے ثوب دے دیا گیا وہ اور زیادہ طلب کرنے لگے اس بارے میں کسی کی ہمت نہ ہوگی ہاں اگر اللہ تعالیٰ کسی کو اجازت دے دے تو وہ بات کرسکے گا جیسا کہ آئندہ آیت میں آ رہا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(37) جو آسمانوں کا اور زمین کا اور جو کچھ ان دونوں کے مابین ہے اس کا مالک ہے وہ بےحد مہربان ہے کسی کی مجال نہ ہوگی اور کسی کو اختیار نہ ہوگا کہ اس سے خطاب کرسکے۔ مطلب یہ ہے کہ انعامات اور متقیوں کے مراتب بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ متقیوں کو ان کے نیک اعمال کے بدلے میں صلہ دیا جائے گا، یہ صلہ آپ کے پروردگار کی جانب سے ایک بخشش اور انعام ہوگا جو ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ ہوگا۔ حساب کے مفسرین اور محققین نے کئی معنی بیان کئے ہیں، کافی اور کفایت کرنیوالی عطا۔ قدر اور اندازہ، بہرحال ہم نے ایک معنی اختیار کرلئے جو عرب کے محاورے اعطافی مااحسبنی سے لئے گئے ہیں۔ بہرحال ! یہ کامل انعام آپ کے پروردگار کی جانب سے ان پرہیزگاروں کو دیا جائیگا پھر فرمایا آپ کا پروردگار وہ پروردگار ہے جو آسمان و زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے اس کا مالک اور پروردگار ہے ۔ وہ رحمن یعنی بےحد مہربان ہے قیامت کے دن اس کی ہیبت اور اس کے جلال کا یہ حال ہوگا کہ کسی کو اس کے روبرو مجال دم زون نہ ہوگا اور کسی کو ایسا اختیار نہ ہوگا کہ وہ کوئی مرض ومعروض کرسکتے۔