Surat un Naba

Surah: 78

Verse: 40

سورة النبأ

اِنَّاۤ اَنۡذَرۡنٰکُمۡ عَذَابًا قَرِیۡبًا ۬ ۚ ۖ یَّوۡمَ یَنۡظُرُ الۡمَرۡءُ مَا قَدَّمَتۡ یَدٰہُ وَ یَقُوۡلُ الۡکٰفِرُ یٰلَیۡتَنِیۡ کُنۡتُ تُرٰبًا ﴿۴۰﴾٪  2

Indeed, We have warned you of a near punishment on the Day when a man will observe what his hands have put forth and the disbeliever will say, "Oh, I wish that I were dust!"

ہم نے تمہیں عنقریب آنے والے عذاب سے ڈرا دیا ( اور چوکنا کر دیا ) ہے جس دن انسان اپنے ہاتھوں کی کمائی کو دیکھ لے گا اور کافر کہے گا کہ کاش! میں مٹی ہو جاتا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِنَّا أَنذَرْنَاكُمْ عَذَابًا قَرِيبًا ... Verily, We have warned you of a near torment, meaning, the Day of Judgment. It is mentioned here to emphasize the fact that its occurrence has become close, because everything that is coming will certainly come to pass. ... يَوْمَ يَنظُرُ الْمَرْءُ مَا قَدَّمَتْ يَدَاهُ ... the Day when man will see that which his hands have sent forth, meaning, all of his deeds will be presented to him -- the good and bad, and the old and new. This is similar to Allah's statement, وَوَجَدُواْ مَا عَمِلُواْ حَاضِرًا And they will find all that they did, placed before them. (18:49) It is also similar to His statement, يُنَبَّأُ الاِنسَـنُ يَوْمَيِذِ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ On that Day man will be informed of what he sent forward, and what he left behind. (75:13) Then Allah says, .. وَيَقُولُ الْكَافِرُ يَا لَيْتَنِي كُنتُ تُرَابًا and the disbeliever will say: "Woe to me! Would that I were dust!" meaning, the disbeliever on that Day will wish that he had only been dust in the worldly life. He will wish that he had not been created and that he had never come into existence. This will be when he sees the torment of Allah and he looks at his wicked deeds that will be written down against him by the noble righteous scribes among angels. It has been said that he will only wish for that when Allah passes judgement between all of the animals that were in the worldly life. He will rectify matters between them with His just wisdom that does not wrong anyone. Even the hornless sheep will be allowed to avenge itself against the sheep with horns. Then, when the judgement between them is finished, He (Allah) will say to them (the animals), "Be dust." So they will all become dust. Upon witnessing this the disbeliever will say, يَـلَيْتَنِى كُنتُ تُرَباً (Would that I were dust!) meaning, `I wish I was an animal so that I would be returned to dust.' Something of similar meaning to this has been reported in the well-known Hadith about the Sur. There are also narrations recorded from Abu Hurayrah, Abdullah bin Amr, and others concerning this. This is the end of the Tafsir of Surah An-Naba'. And all praise and thanks are due to Allah. He is the Giver of success and protection from error.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

40۔ 1 یعنی جب وہ اپنے لئے ہولناک عذاب دیکھے گا تو یہ آرزو کرے گا۔ بعض کہتے ہیں کہ اللہ حیوانات کے درمیان بھی عدل و انصاف کے مطابق فیصلہ فرمائے گا، حتیٰ کہ ایک سینگ والی بکری نے بےسینگ والی پر کوئی زیادتی کی ہوگی، تو اس کا بھی بدلہ دلائے گا اس سے فراغت کے بعد اللہ تعالیٰ جانوروں کو حکم دے گا کہ مٹی ہوجاؤ۔ چناچہ وہ مٹی ہوجائیں گے۔ اسوقت کافر بھی آرزو کریں گے کہ کاش وہ بھی حیوان ہوتے اور آج مٹی بن جاتے (تفسیر ابن کثیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٧] اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ میں پیدا ہی نہ کیا جاتا۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ مرنے کے بعد مٹی میں مل کر مٹی ہی بنا رہتا۔ مجھے دوبارہ زندگی نہ عطا کی جاتی اور نہ یہ سختی کا دن دیکھنا پڑتا۔ تیسرا مطلب سیدنا ابوہریرہ (رض) کی اس حدیث سے ماخوذ ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن جانور، چرند اور پرند سب کا حشر ہوگا حتیٰ کہ سینگ والی بکری کا بدلہ بےسینگ بکری سے لیا جائے گا جس نے دنیا میں اسے مارا ہوگا۔ (مسلم کتاب، البرو الصلہ ( باب تحریم الظلم) پھر ان سے کہا جائے گا کہ اب تم خاک بن جاؤ۔ اس وقت کافر آرزو کرے گا کہ کاش میں بھی ان جانوروں کی طرح خاک بن جاتا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) انا انذر نکم عذاباً قریباً…: آخرت کے عذاب کو قریب فرمایا، کیونکہ عمر خواہ کتنی بھی ہو ختم ہونے والی ہے اور ہر آنے والا وقت قریب ہی ہوتا ہے۔ قیامت کو جب اٹھیں گے تو انہیں دنیا میں قیامت اکا وقت ایسے معلوم ہوگا جیسے دن کا ایک پہر گزرا ہو۔ (دیکھیے نازعات : ٤٦) بلکہ قیامت کے دن مجرم قسم اٹھا کر کہیں گے کہ ہم دنیا میں ایک گھڑی سے زیادہ نہیں رہے۔ دیکھیے سورة روم (٥٥) ۔ (٢) یلیتنی کنت ترباً : اے کاش کہ میں مٹی ہوتا، یعنی پیدا ہی نہ ہوا ہوتا، نہ حساب ہوتا نہ کتاب۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ کاش ! میں مر کر مٹی ہوجاتا تو نہ حساب ہوتا نہ عذاب۔ بعض مفسرین نے ایک عجیب معنی کیا ہے کہ ” الکفر “ سے مراد یہاں ابلیس ہے۔ جب آدم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد کو ان کے اعمال کا ثواب ملے گا تو ابلیس کہے گا کاش ! میں مٹی ہوتا ، آگ سے بنا ہوا نہ ہوتا، کیونکہ اس نے آگ سے بنا ہوا ہونے کی وجہ سے آدم کو سجدہ کرنے کا حکم ٹھکرا دیا تھا۔ (زاد المسیر لابن جوزی) پہلے معنوں کے ساتھ یہ بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

يَوْمَ يَنظُرُ‌ الْمَرْ‌ءُ مَا قَدَّمَتْ يَدَاهُ day when one will see what his hands have sent ahead....78:40) Apparently, this refers to the Day of Judgment. Every person will see his deeds with his own eyes in the Plane of Gathering. This might happen in one of two ways: [ 1] his ledger of deeds will be given in his hands and he will see it; or [ 2] his deeds will appear in the Plane of Gathering, epitomized in a visible shape, as certain narratives confirm this. Still a third possibility exists. The word &day& may refer to &the day of death&. And the words &will see& means to see in the grave or barzakh, as explained by Mazhari. وَيَقُولُ الْكَافِرُ‌ يَا لَيْتَنِي كُنتُ تُرَ‌ابًا (and the disbeliever will say, |"0 would that I had become dust...78:40) Sayyidna ` Abdullah Ibn ` Umar (رض) reports that on the Day of Resurrection the entire earth will become a plane surface where all human beings, Jinn, domesticated animals and wild animals will be gathered. If one animal had wronged another animal in the world, it will be given the opportunity to take its revenge. If a goat with horns had wronged a goat without horns, it will be granted the opportunity to take its avenge. When this phase is over, all animals will be commanded to become dust. They will become dust. At that moment the disbelievers will wish that they were also animals and would become dust like them, so that they would have been spared the torment of reckoning and punishment of Hell. We seek refuge in Allah from it! Allah knows best! Al-hamdulillah The Commentary on Surah An-Naba& Ends here

(آیت) يَّوْمَ يَنْظُرُ الْمَرْءُ مَا قَدَّمَتْ يَدٰهُ ظاہر یہ ہے کہ اس سے مراد روز قیامت ہے اور محشر میں ہر شخص اپنے اعمال کو اپنی آنکھو سے دیکھ لے گا خواہ اس طرح کہ نامہ اعمال اس کے ہاتھ میں آجائے گا اس کو دیکھے گا، یا اس طرح کہ اعمال محشر میں مجسم اور متشکل ہو کر سامنے آجائیں گے جیسا کہ بعض روایات حدیث سے ثابت ہے اور احتمال یہ بھی ہے کہ اس روز سے مراد موت کا دن ہو اور اپنے اعمال کا دیکھنا قبر و برزخ میں مراد ہو، کمافی المظہری۔ وَيَقُوْلُ الْكٰفِرُ يٰلَيْتَــنِيْ كُنْتُ تُرٰبًا، حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ قیامت کے روز ساری زمین ایک سطح مستوی ہوجائے گی جس میں انسان، جنات، زمین پر چلنے والے پالتو جانور اور وحشی جانور سب جمع کردیئے جاویں گے اور جانوروں میں سے اگر کسی نے دوسرے پر ظلم دنیا میں کیا تھا تو اس سے اس کا انتقام دلوایا جائے گا یہاں تک کہ اگر کسی سینگ والی بکری نے بےسینگ بکری کو مارا تھا تو آج اس کا بھی بدلہ دلوایا جائیگا، جب اس سے فراغت ہوگی تو سب جانوروں کو حکم ہوگا کہ مٹی ہوجاؤ وہ سب مٹی ہوجائیں گے، اس وقت کافر لوگ یہ تمنا کریں گے کہ کاش ہم بھی جانور ہوتے اور اس وقت مٹی ہوجاتے، حساب کتاب اور جہنم کی سزا سے بچ جاتے۔ نعوذ باللہ منہ، واللہ سبحانہ، و تعالیٰ اعلم تمت سورة النبا بحمداللہ لیلتہ الجمعتہ 2 شعبان 1391 ھ

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّآ اَنْذَرْنٰكُمْ عَذَابًا قَرِيْبًا۝ ٠ڂ يَّوْمَ يَنْظُرُ الْمَرْءُ مَا قَدَّمَتْ يَدٰہُ وَيَقُوْلُ الْكٰفِرُ يٰلَيْتَــنِيْ كُنْتُ تُرٰبًا۝ ٤٠ ۧ نذر وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذر الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔ النذ یر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا قرب الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة . فمن الأوّل نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة/ 35] ، وَلا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتِيمِ [ الأنعام/ 152] ، وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء/ 32] ، فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة/ 28] . وقوله : وَلا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة/ 222] ، كناية عن الجماع کقوله : فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ [ التوبة/ 28] ، وقوله : فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات/ 27] . وفي الزّمان نحو : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء/ 1] ، ( ق ر ب ) القرب القرب والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ فرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة/ 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے ۔ وَلا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتِيمِ [ الأنعام/ 152] اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جانا ۔ وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء/ 32] اور زنا کے پا س بھی نہ جانا ۔ فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة/ 28] تو اس برس کے بعد وہ خانہ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں ۔ اور آیت کریمہ ولا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة/ 222] ان سے مقاربت نہ کرو ۔ میں جماع سے کنایہ ہے ۔ فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات/ 27] اور ( کھانے کے لئے ) ان کے آگے رکھ دیا ۔ اور قرب زمانی کے متعلق فرمایا : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء/ 1] لوگوں کا حساب ( اعمال کا وقت نزدیک پہنچا ۔ نظر النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب/ 53] أي : منتظرین، ( ن ظ ر ) النظر کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔ اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ قدم وأكثر ما يستعمل القدیم باعتبار الزمان نحو : كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ [يس/ 39] ، وقوله : قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ [يونس/ 2] ، أي : سابقة فضیلة، وهو اسم مصدر، وقَدَّمْتُ كذا، قال : أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْواكُمْ صَدَقاتٍ [ المجادلة/ 13] وقوله : لا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ الحجرات/ 1] ، قيل : معناه لا تَتَقَدَّمُوهُ. وتحقیقه : لا تسبقوه بالقول والحکم بل افعلوا ما يرسمه لکم كما يفعله العباد المکرمون، وهم الملائكة حيث قال : لا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ [ الأنبیاء/ 27] ( ق د م ) القدم عموما القدیم کا لفظ قدم باعتبار زمانہ یعنی پرانی چیز کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ [يس/ 39] کھجور کی پرانی شاخ کی طرح ۔ اور آیت کریمہ : قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ [يونس/ 2] ان کے پروردگار کے ہاں ان کا سچا درجہ ہے ۔ میں قدم صدق سے سابقہ فضیلت مراد ہے ۔ اور یہ اسم مصدر ہے اور قدمت کذا کے معنی پہلے کسی کوئی کام کرچکنے یا بھیجنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْواكُمْ صَدَقاتٍ [ المجادلة/ 13] کیا تم اس سے کہ پیغمبر کے کان میں کوئی بات کہنے سے پہلے خیرات دیا کرو، ڈرگئے ہو اور آیت کریمہ : لا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ الحجرات/ 1] خدا اور اس کے رسول سے پہلے نہ بول اٹھا کرو ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لاتقدموا بمعنی لاتتقدموا کے ہے اور اس کے اصل معنی یہ ہیں ۔ کہ قول وحکم میں پیغمبر سے سبقت نہ کرو بلکہ وہی کام کرو جس کا تمہیں حکم دیتے ہیں ۔ جیسا کہ اللہ کے مکرم بندوں یعنی فرشتوں کا کردار بیان کرتے ہوئے فرمایا : لا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ [ الأنبیاء/ 27] اس کے آگے بڑھ کر بول نہیں سکتے۔ يد الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] ، ( ی د ی ) الید کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ ليت يقال : لَاتَهُ عن کذا يَلِيتُهُ : صرفه عنه، ونقصه حقّا له، لَيْتاً. قال تعالی: لا يَلِتْكُمْ مِنْ أَعْمالِكُمْ شَيْئاً [ الحجرات/ 14] أي : لا ينقصکم من أعمالکم، لات وأَلَاتَ بمعنی نقص، وأصله : ردّ اللَّيْتِ ، أي : صفحة العنق . ولَيْتَ : طمع وتمنٍّ. قال تعالی: لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلاناً خَلِيلًا [ الفرقان/ 28] ، يَقُولُ الْكافِرُ يا لَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ/ 40] ، يا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا [ الفرقان/ 27] ، وقول الشاعر : ولیلة ذات دجی سریت ... ولم يلتني عن سراها ليت «1» معناه : لم يصرفني عنه قولي : ليته کان کذا . وأعرب «ليت» هاهنا فجعله اسما، کقول الآخر :إنّ ليتا وإنّ لوّا عناء«2» وقیل : معناه : لم يلتني عن هواها لَائِتٌ. أي : صارف، فوضع المصدر موضع اسم الفاعل . ( ل ی ت ) لا تہ ( ض ) عن کذا لیتا ۔ کے معنی اسے کسی چیز سے پھیر دینا اور ہٹا دینا ہیں نیز لا تہ والا تہ کسی کا حق کم کرنا پوا را نہ دینا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لا يَلِتْكُمْ مِنْ أَعْمالِكُمْ شَيْئاً [ الحجرات/ 14] تو خدا تمہارے اعمال میں سے کچھ کم نہیں کرے گا ۔ اور اس کے اصلی معنی رد اللیت ۔ یعنی گر دن کے پہلو کو پھیر نے کے ہیں ۔ لیت یہ حرف طمع وتمنی ہے یعنی گذشتہ کوتاہی پر اظہار تاسف کے لئے آتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلاناً خَلِيلًا [ الفرقان/ 28] کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا يَقُولُ الْكافِرُ يا لَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ/ 40] اور کافر کہے کا اے کاش میں مٹی ہوتا يا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا [ الفرقان/ 27] کہے گا اے کاش میں نے پیغمبر کے ساتھ رستہ اختیار کیا ہوتا ۔ شاعر نے کہا ہے ( 406 ) ولیلۃ ذات وجی سریت ولم یلتنی عن ھوا ھا لیت بہت سی تاریک راتوں میں میں نے سفر کئے لیکن مجھے کوئی پر خطر مر حلہ بھی محبوب کی محبت سے دل بر داشت نہ کرسکا ( کہ میں کہتا کاش میں نے محبت نہ کی ہوتی ۔ یہاں لیت اسم معرب اور لم یلت کا فاعل ہے اور یہ قول لیتہ کان کذا کی تاویل میں سے جیسا کہ دوسرے شاعر نے کہا ہے ( 403 ) ان لینا وان لوا عناء ۔ کہ لیت یا لو کہنا سرا سرباعث تکلف ہے بعض نے کہا ہے کہ پہلے شعر میں لیت صدر بمعنی لائت یعنی اس فاعلی ہے اور معنی یہ ہیں کہ مجھے اس کی محبت سے کوئی چیز نہ پھیر سکی ۔ ترب التُّرَاب معروف، قال تعالی: أَإِذا كُنَّا تُراباً [ الرعد/ 5] ، وقال تعالی: خَلَقَكُمْ مِنْ تُرابٍ [ فاطر/ 11] ، الَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ/ 40] . وتَرِبَ : افتقر، كأنه لصق بالتراب، قال تعالی: أَوْ مِسْكِيناً ذا مَتْرَبَةٍ [ البلد/ 16] ، أي : ذا لصوق بالتراب لفقره . وأَتْرَبَ : استغنی، كأنه صار له المال بقدر التراب، والتَّرْبَاء : الأرض نفسها، والتَّيْرَب واحد التَّيَارب، والتَّوْرَب والتَّوْرَاب : التراب، وریح تَرِبَة : تأتي بالتراب، ومنه قوله عليه السلام : «عليك بذات الدّين تَرِبَتْ يداك» تنبيها علی أنه لا يفوتنّك ذات الدین، فلا يحصل لک ما ترومه فتفتقر من حيث لا تشعر . وبارح تَرِبٌ: ريح فيها تراب، والترائب : ضلوع الصدر، الواحدة : تَرِيبَة . قال تعالی: يَخْرُجُ مِنْ بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرائِبِ [ الطارق/ 7] ، وقوله : أَبْکاراً عُرُباً أَتْراباً [ الواقعة/ 36- 37] ، وَكَواعِبَ أَتْراباً [ النبأ/ 33] ، وَعِنْدَهُمْ قاصِراتُ الطَّرْفِ أَتْرابٌ [ ص/ 52] ، أي : لدات، تنشأن معا تشبيها في التساوي والتماثل بالترائب التي هي ضلوع الصدر، أو لوقوعهنّ معا علی الأرض، وقیل : لأنهنّ في حال الصبا يلعبن بالتراب معا . ( ت ر ب ) التراب کے معنی منی کے ہیں ۔ قرآن میں ہے خَلَقَكُمْ مِنْ تُرابٍ [ فاطر/ 11] کہ اس نے تمہیں منی سے پیدا کیا ۔ الَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ/ 40] کہ اے کاش کے میں مٹی ہوتا ۔ ترب کے معنی فقیر ہونے کے ہیں کیونکہ فقر بھی انسان کو خاک آلودہ کردیتا ہے ۔ فرمایا :۔ أَوْ مِسْكِيناً ذا مَتْرَبَةٍ [ البلد/ 16] یا فقیر خاکسار کو ۔ یعنی جو بوجہ فقر و فاقہ کے خاک آلودہ رہتا ہے ۔ اترب ( افعال ) کے معنی مال دار ہونے کے ہیں ۔ گویا اس کے پاس مٹی کی طرح مال ہے نیز تراب کے معنی زمین کے بھی آتے ہیں اور اس میں التیراب ( ج) تیارب اور التوراب والتورب والتوراب وغیرہ دس لغات ہیں ۔ ریح تربۃ خاک اڑانے والی ہو ۔ اسی سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے (50) علیک بذاب الدین تربت یداک کہ شادی کے لئے دیندار عورت تلاش کرو ۔ تیرے ہاتھ خاک آلودہ ہوں ۔ اس میں تنبیہ ہے کہ دیندار عورت تیرے ہاتھ سے نہ جانے پائے ورنہ تمہارا مقصد حاصل نہیں ہوگا اور تم غیر شعوری طورپر فقیر ہوجاو گے ۔ بارح ترب خاک اڑانے والی ہو ۔ ترائب سینہ کی پسلیاں ( مفرد ت ربیۃ ) قرآن میں ہے ۔ يَخْرُجُ مِنْ بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرائِبِ [ الطارق/ 7] جو پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ أَبْکاراً عُرُباً أَتْراباً [ الواقعة/ 36- 37] کنواریاں اور شوہروں کی پیاریاں اور ہم عمر ۔ اور ہم نوجوان عورتیں ۔ اور ان کے پاس نیچی نگاہ رکھنے والی ( اور ) ہم عمر ( عورتیں ) ہوں گی ۔ میں اتراب کے معنی ہیں ہم عمر جنہوں اکٹھی تربیت پائی ہوگی گو یا وہ عورتیں اپنے خاوندوں کے اس طرح مساوی اور مماثل یعنی ہم مزاج ہوں گی جیسے سینوں کی ہڈیوں میں یکسانیت پائی جاتی ہے اور ریا اس لئے کہ گو یا زمین پر بیک وقت واقع ہوئی ہیں اور بعض نے یہ وجہ بھی بیان کی ہے کہ وہ اکٹھی مٹی میں ایک ساتھ کھیلتی رہی ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اے مکہ والو ! ہم نے تمہیں ایک آنے والے عذاب سے ڈرایا ہے جس دن مومن یا کافر اپنی کی ہوئی نیکی یا برائی کو دیکھ لے گا اور کافر قیامت کے عذاب و سختیوں کو دیکھ کر تمنا کرے گا کہ کاش میں مٹی ہوجاتا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٠{ اِنَّآ اَنْذَرْنٰـکُمْ عَذَابًا قَرِیْبًاج } ” دیکھو ! ہم نے تو تمہیں خبردار کردیا ہے اس عذاب سے جو بالکل قریب ہے۔ “ تصور کیجیے ‘ یہ عذاب انسان کے کتنا قریب ہے ! ادھر انسان کی آنکھ بند ہوتی ہے ‘ ادھر اسے قبر میں اتارنے کا بندوبست کردیا جاتا ہے۔ اور قبر کیا ہے ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ (اِنَّمَا الْقَبْرُ رَوْضَۃٌ مِنْ رِیَاضِ الْجَنَّۃِ اَوْ حُفْرَۃٌ مِنْ حُفَرِ النَّارِ ) (١) ” قبر یا تو جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا “۔ گویا ہر زندہ انسان اس باغیچے یا گڑھے سے صرف چند گھنٹوں کے فاصلے پر بیٹھا ہے۔ { یَّوْمَ یَنْظُرُ الْمَرْئُ مَا قَدَّمَتْ یَدٰٹہُ } ” جس دن انسان دیکھ لے گا جو اس کے دونوں ہاتھوں نے آگے بھیجا تھا “ { وَیَـقُوْلُ الْکٰفِرُ یٰلَیْتَنِیْ کُنْتُ تُرٰبًا ۔ } ” اور کافر کہے گا : کاش کہ میں مٹی ہوتا ! “ کاش مجھے شرفِ انسانیت ملا ہی نہ ہوتا ! ” مرا اے کاش کہ مادر نہ زادے ! “ کاش میری ماں نے مجھے جنا ہی نہ ہوتا ! (٢)

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

26 Apparently, one might think that the people who were the audience of this verse died fourteen centuries ago, ,and even now it cannot be said how many hundreds or thousands or millions of years Resurrection will take to come. Then, in what sense has it been said: "The torment of which you have been warned, has approached near at hand?" And what is the meaning of saying in the beginning of the Surah: "Soon they shall know?" The answer is that man can have the feeling of time only until he is passing a physical life in the world within the bounds of space and time. After death when only the soul will survive, he will lose every feeling and consciousness of time, and on the Day of Resurrection when man will rise back to life, he will feel as though some one had aroused him from sleep suddenly. He will not at all be conscious that he has been resurrected after thousands of years. (For further explanation, see E.N. 26 of An-Nahl, E.N. 56 of Bani Isra'il, E.N. 80 of Ta Ha, E.N. 48 of Ya Sin) . 27 "Would ......dust": "Would that I had not been born in the world, or had become mere dust after death, and thus reduced to nothingness."

سورة النَّبَا حاشیہ نمبر :26 بظاہر ایک آدمی یہ خیال کر سکتا ہے کہ جن لوگوں کو خطاب کر کے یہ بات کہی گئی تھی ان کو مرے ہوئے اب 14 سو سال گزر چکے ہیں اور اب بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ قیامت آئندہ کتنے سو ، یا کتنے ہزار یا کتنے لاکھ برس بعد آئے گی ۔ پھر یہ بات کس معنی میں کہی گئی ہے کہ جس عذاب سے ڈرایا گیا ہے وہ قریب آ لگا ہے؟ اور سورۃ کے آغاز میں یہ کیسے کہا گیا ہے کہ عنقریب انہیں ہو جائے گا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انسان کو وقت کا احساس صرف اسی وقت تک رہتا ہے جب تک وہ اس دنیا میں زمان و مکان کی حدود کے اندر جسمانی طور پر زندگی بسر کر رہا ہے ۔ مرنے کے بعد جب صرف روح باقی رہ جائے گی ، وقت کا احساس و شعور باقی نہ رہے گا ، اور قیامت کے روز جب انسان دوبارہ زندہ ہر کر اٹھے گا اس وقت اسے یوں محسوس ہوگا کہ ابھی سوتے سوتے اسے کسی نے جگا دیا ہے ۔ اس کو یہ احساس بالکل نہیں ہو گا کہ وہ ہزار ہا سال کے بعد دوبارہ زندہ ہوا ہے ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، النحل ، حاشیہ 26 ۔ بنی اسرائیل ، حاشیہ 56 ۔ جلد سوم ۔ طٰہٰ ، حاشیہ 80 ۔ جلد چہارم ، یٰسین ، حاشیہ 48 ) ۔ سورة النَّبَا حاشیہ نمبر :27 یعنی دنیا میں پیدا ہی نہ ہوتا ، یا مر کر مٹی میں مل جاتا اور دوبارہ زندہ ہو کر اٹھنے کی نوبت نہ آتی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

################

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(78:40) انا انذرنکم عذابا قریبا : انذرنا ماضی جمع متکلم انذار (افعال) مصدر۔ کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ ہم نے تم کو ڈرایا۔ ہم نے تم کو ڈر سنایا۔ عذابا قیبا موصوف و صفت ۔ مل کر انذرنا کا مفعول ثانی۔ عذاب قریب اس سے مراد عذاب آخرت ہے۔ کیونکہ جو آنے والا ہے وہ قریب ہی ہے۔ یا اس سے مراد عذاب قبر ہے اور موت جوتے کے تسمہ سے زیادہ قریب ہے (تفسیر مظہری) یوم ینظر المرء ما قدمت یدیہ۔ اس کی تفسیر میں علامہ پانی پتی رقمطراز ہیں :۔ یوم : عذابا کا مفعول فیہ ہے۔ کیونکہ عذاب بمعنی تعذیب (مصدر) ہے ما قدمت میں ما یا تو سوالیہ ہے اور قدمت کا مفعول ہونے کی وجہ سے محل نصب میں ہے یا موصولہ ہے اور ینظر کا مفعول ہے اور صلہ میں ضمیر محذوف ہے یعنی قدمتہ مطلب یہ ہے کہ ہر شخص قیامت کے دن اپنے اس عمل کو جو پہلے اس نے دنیا میں کرکے بھیجا ہوگا اپنے اعمال نامہ میں دیکھے گا۔ یا اس کا بدلہ آخرت میں دیکھے گا یا قبر میں دیکھے گا۔ اعمال کو بھیجنے کی نسبت ہاتھوں کی طرف اس لئے کی کہ عموما کام ہاتھ سے ہی ہوتے ہیں۔ ویقول الکافر یلیتنی کنت ترابا : واؤ عاطفہ۔ یقول کا عطف ینظر پر ہے۔ لیت حرف تمنا وطمع ہے۔ گذشتہ کوتاہی پر اظہار تاسف کے لئے آتا ہے اور جگہ قرآن مجید میں آیا ہے :۔ یلیتنی اتخذت مع الرسول سبیلا (25:27) اے کاش میں نے پیغمبر کے ساتھ راستہ اختیار کیا ہوتا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یعنی آدمی نہ ہوتا تو آج اس عذاب میں مبتلا نہ ہوتا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ قیامت کے دن تمام مخلوقات حتیٰ کہ جانوروں، چرندوں اور پرندوں تک کو جمع کیا جائے گا پھر اللہ تعالیٰ کا انصاف اس قدر ہوگا کہ بن سینگ والی بکری کو بھی سینگ والی بکری سے بدلہ دلایا جائے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا کہ مٹی ہوجائو۔ اس وقت کافر کہے گا کہ کاش میں بھی آج مٹی ہوجاتا۔ بہائم کا حشر اور ان کا ایک دوسرے سے بدلہ لینا حدیث و آثار سے ثابت ہے اور جمہور اس کے قائل ہیں۔ (روح شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ اور یہ اس وقت کہے گا جب بہائم مٹی کردیئے جائیں گے۔ رواہ فی الدر عن ابی ہریرہ یا وہ معنی مراد ہوں جو سورة نساء لو تسوی بھم الارض میں گزرے ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

انا ................ قریبا (40:78) ” ہم نے تم لوگوں کو اس عذاب سے ڈرادیا ہے جو قریب آلگا ہے “۔ وہ دور نہیں ہے۔ یہ جہنم کا عذاب ہے جو تمہارے انتظار میں ہے۔ جیسا کہ اس منظر میں تم نے دیکھ لیا۔ یہ دنیا تو ایک مختصر سفر ہے اور عمر کی کشتی ساحل پر لگنے ہی والی ہے۔ یہ اس قدر شدید عذاب ہوگا کہ کافر اپنے وجود ہی سے بیزار ہوگا اور اس بات کو پسند کرے گا کہ اے کاش اسے معدوم ہی کردیا جائے۔ یوم ینظر .................... ترابا (40:78) ” جس روز آدمی وہ سب کچھ دیکھ لے گا جو اس کے ہاتھوں نے آگے بھیجا ہے ، اور کافر پکار اٹھے گا کہ کاش وہ خاک ہوتا “۔ یہ وہ نہایت تنگ دل اور مایوسی کہے گا۔ اب فضا پر خوف اور ندامت کے بادل چھا جاتے ہیں کہ زندہ انسان یہ خواہش رکھتا ہے کہ وہ معدوم ہوجائے اور خاک و غبار بن جائے۔ وہ اپنے معدوم ہونے ہی کی صورت میں اپنے آپ کو اس خوفناک عذاب سے بچا سکتا ہے۔ یہ ہوگا ان لوگوں کا موقف جو آج اس عظیم حقیقت اور شہ سرخیوں والی حقیقت کے بارے میں تشکیک پر مشتمل سوالات کرتے ہیں اور شبہات اٹھاتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿اِنَّاۤ اَنْذَرْنٰكُمْ عَذَابًا قَرِيْبًا ١ۖۚ۬﴾ (بلاشبہ ہم نے تمہیں ایسے عذاب سے ڈرایا ہے جو عنقریب آنے والا ہے) یعنی آخرت کا عذاب، اس کو قریب اس لیے فرمایا کہ جو چیز آنے والی ہے وہ ضرور آ کر ہی رہے گا۔ ﴿ يَّوْمَ يَنْظُرُ الْمَرْءُ مَا قَدَّمَتْ يَدٰهُ﴾ (جس دن انسان دیکھ لے گا جو کچھ اس کے ہاتھوں نے آگے بھیجا) یعنی دنیا میں جو کچھ اعمال کیے ہوں گے انہیں اپنے اعمال نامہ میں پالے گا۔ سورة ٴ کہف میں فرمایا ﴿ وَ وَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا ﴾ (اور جو کچھ عمل انہوں نے کیے تھے انہیں موجود پائیں گے) اور سورة زلزال میں فرمایا : ﴿فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهٗؕ٠٠٧ وَ مَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهٗ (رح) ٠٠٨﴾ (سو جس شخص نے ذرہ کے برابر خیر کا عمل کیا ہوگا اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ کے برابر برائی کا عمل کیا ہوگا اسے دیکھ لے گا) ۔ ﴿وَ يَقُوْلُ الْكٰفِرُ يٰلَيْتَنِيْ كُنْتُ تُرٰبًا (رح) ٠٠٤٠﴾ (اور کافر کہے گا کہ ہائے كاش میں مٹی ہوجاتا) ۔ صاحب معالم التنزیل نے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے نقل کیا ہے کہ قیامت کے دن چوپائے جانور چرند پرند جمع کیے جائیں گے پھر ان کے درمیان دنیا میں جو مظالم ہوئے تھے ان کا بدلہ دلایا جائے گا یہاں تک کہ سینگ مارنے کا بدلہ سینگوں والی بکری سے بےسینگوں والی بکری کا بدلہ دلایا جائے گا۔ جب جانوروں کو ایک دوسرے سے بدلے دلا دیئے جائیں گے تو ان سے فرما دیا جائے گا کہ تم مٹی ہوجاؤ، جب کافر یہ منظر دیکھیں گے تو یہ جان کر کہ ہم سے تو جانور ہی اچھے رہے بدلے دلا کر ان کا کام تمام ہوگیا اور آگے ان کے لیے کوئی عذاب نہیں اب یہ مٹی بنا دیئے گئے ان کے لیے ثواب نہیں تو عذاب بھی نہیں ہمارے لیے عذاب ہی عذاب ہے۔ كاش ہم بھی مٹی ہوجاتے تو کیسا اچھا ہوتا۔ اور بعض مفسرین نے ﴿ يٰلَيْتَنِيْ كُنْتُ تُرٰبًا﴾كا یہ مطلب بتایا ہے کہ عذاب کو دیکھ کر کافر یوں کہیں گے کہ کاش ہم پیدا ہی نہ ہوتے، نہ ایمان کی اور اعمال کی تکلیف دی جاتی نہ نافرمان ہوتے نہ عذاب میں مبتلا ہوتے۔ وھذا آخر تفسیر سورة النبا والحمد للہ اولا وآخرا و باطنا وظاھرا

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

12:۔ ” اِنَّا اَنْذَرْنٰکُمْ “ عذاب قریب سے عذاب آخرت مراد ہے کیونکہ جو چیز آنے والی ہو وہ قریب ہی ہوتی ہے اور جو چیز گذر گئی وہ بعید ہے۔ و قربہ لتحقق اتیانہ فقد قیل ما ابعد ما فات و ما اقرب ما ھو اٰت (روح ج 30 ص 21) ۔ ” یَوْمَ یَنْظُرُ “ ” عَذَابًا “ سے متعلق ہے ہم تمہیں ایک ایسے عذاب سے خبردار کرچکے ہیں جو بہت جلد آنے والا ہے جس دن ہر انسان اپنا تمام کیا دھرا اپنے سامنے دیکھ لے گا اور اپنے تمام اعمال خیر و شر کا مشاہدہ کرلے گا۔ مومنین اپنے اعمال صالحہ کو دیکھ کر خوش ہوں گے لیکن کافر جب اپنی بد اعمالیوں کے پلندے اپنے سامنے دیکھیں گے اور ان کو اپنے عبرتناک انجام کا یقین ہوجائیگا تو حسرت و ندامت سے کہیں گے ہائے کاش ! ہم مٹی ہوتے اور دنیا میں پیدا ہی نہ ہوتے یا مطلب یہ ہے کہ مٹی ہوجاتے اور دوبارہ حساب کتاب کے لیے اٹھائے نہ جاتے (قرطبی، روح) سورة النبا ختم ہوئی

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(40) ہم نے تم کو ایک ایسے قریب آنے والے عذاب سے ڈرا دیا ہے جو اس دن واقع ہوگا جس دن آدمی اپنے ان اعمال کو دیکھ لے گا جو اس کے ہاتھوں کے آگے پیچھے ہوں گے اور اس دن منکر حق یوں کہے گا اے کاش میں کسی طرح مٹی ہوجاتا۔ عذاب قریب اگر قیامت کا عذاب ہو تو مطلب یہ ہے کہ قیامت قریب ہی ہے اور اگر برزخ کا عذاب مراد ہو تو اس کا قریب ہونا ظاہر ہی ہے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ شاید قیامت کے دن کا عذاب مراد ہے اس دن انسان کے تمام اعمال روبرو ہونگے اور اس کا نامہ عمل ہاتھ میں دے دیا جائیگا اور جو کچھ اس نے دنیوی زندگی میں آگے بھیجا تھا وہ سب دیکھ لے گا اس دن یہ حال ہوگا کہ دین حق کا منکر یہ خواہش کرے گا کہ اے کاش ! میں مٹی ہوتا…یعنی انسان نہ بنتا کیونکہ روح اور جسم کے تعلق سے یہ مصیبت آئی تو میں انسان بنتا ہی نہیں جو اعمال کا مکلف بنتا یا یہ کہ جب تمام جانوروں کو قیامت کے دن حکم ہوگا کہ مٹی ہوجائو تو یہ بھی تمناکریں گے کہ ہم بھی جانوروں کی طرح مٹی ہوجاتے یا وہ مطلب ہوگاجو سورة نساء میں گزر چکا ہے۔ لو تسوی بھم الارض کاش ہم زمین کا پیوند بنادیئے جاتے اور ہم کو زمین میں دفن کرکے زمین کو برابر کردیا جاتا۔ (واللہ اعلم)