Surat un Naba
Surah: 78
Verse: 8
سورة النبأ
وَّ خَلَقۡنٰکُمۡ اَزۡوَاجًا ۙ﴿۸﴾
And We created you in pairs
اور ہم نے تمہیں جوڑا جوڑا پیدا کیا ۔
وَّ خَلَقۡنٰکُمۡ اَزۡوَاجًا ۙ﴿۸﴾
And We created you in pairs
اور ہم نے تمہیں جوڑا جوڑا پیدا کیا ۔
And We have created you in pairs. meaning, male and female, both of them enjoying each other, and by this means procreation is achieved. This is similar to Allah's statement, وَمِنْ ءايَـتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَجاً لِّتَسْكُنُواْ إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً And among His signs is this that He created for you wives from among yourselves, that you may find repose in them, and He has put between you affection and mercy. (30:21) Allah says, وَجَعَلْنَا نَوْمَكُمْ سُبَاتًا
[٦] مرد وزن کی تخلیق :۔ بقائے نوع کے لیے ہم نے انسان کی دو بڑی انواع مرد اور عورت پیدا کیں۔ ان انواع میں سے ہر ایک دوسرے کے لیے فطری کشش رکھتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے راحت و سکون کا باعث بنتے ہیں۔ ان میں محبت اور مودت پیدا ہوتی ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کی لابدی ضرورت ہیں اور ایک دوسرے کے بغیر ان کا زندگی گزارنا مشکل ہے۔ بقائے نوع انسانی کا مقصد کچھ کم اہم نہ تھا۔ ان دونوں میں کشش، سکون اور محبت پیدا کرکے اللہ تعالیٰ نے انسان کی زندگی کو بڑا پر لطف بنادیا۔
وخلقنکم ازواجاً : خود اپنے آپ کو دیکھ لو، ہم نے تمہیں نر اور مادہ پیدا کیا، مختلف رنگوں، بیشمار شکلوں اور صورتوں میں پیدا کیا۔ پہلی دفعہ پیدا کرنے پر تمہاری عقل کو تعجب نہیں ہوا تو دوبارہ پیدا کرنے پر کیوں ہوتا ہے ؟” ازواجاً ” زوج “ کی جمع ہے۔
وَّخَلَقْنٰكُمْ اَزْوَاجًا ٨ ۙ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے زوج يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی: فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة/ 39] ، وقال : وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ [ البقرة/ 35] ، وزَوْجَةٌ لغة رديئة، وجمعها زَوْجَاتٌ ، قال الشاعر : فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتي وجمع الزّوج أَزْوَاجٌ. وقوله : هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس/ 56] ، احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] ، أي : أقرانهم المقتدین بهم في أفعالهم، وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر/ 88] ، أي : أشباها وأقرانا . وقوله : سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس/ 36] ، وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] ، فتنبيه أنّ الأشياء کلّها مركّبة من جو هر وعرض، ومادّة وصورة، وأن لا شيء يتعرّى من تركيب يقتضي كونه مصنوعا، وأنه لا بدّ له من صانع تنبيها أنه تعالیٰ هو الفرد، وقوله : خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] ، فبيّن أنّ كلّ ما في العالم زوج من حيث إنّ له ضدّا، أو مثلا ما، أو تركيبا مّا، بل لا ينفكّ بوجه من تركيب، وإنما ذکر هاهنا زوجین تنبيها أنّ الشیء۔ وإن لم يكن له ضدّ ، ولا مثل۔ فإنه لا ينفكّ من تركيب جو هر وعرض، وذلک زوجان، وقوله : أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه/ 53] ، أي : أنواعا متشابهة، وکذلک قوله : مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ، ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام/ 143] ، أي : أصناف . وقوله : وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة/ 7] ، أي : قرناء ثلاثا، وهم الذین فسّرهم بما بعد وقوله : وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير/ 7] ، فقد قيل : معناه : قرن کلّ شيعة بمن شایعهم في الجنّة والنار، نحو : احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] ، وقیل : قرنت الأرواح بأجسادها حسبما نبّه عليه قوله في أحد التّفسیرین : يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر/ 27- 28] ، أي : صاحبک . وقیل : قرنت النّفوس بأعمالها حسبما نبّه قوله : يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران/ 30] ، وقوله : وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان/ 54] ، أي : قرنّاهم بهنّ ، ولم يجئ في القرآن زوّجناهم حورا، كما يقال زوّجته امرأة، تنبيها أن ذلک لا يكون علی حسب المتعارف فيما بيننا من المناکحة . ( ز و ج ) الزوج جن حیوانات میں نر اور مادہ پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نر اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علاوہ دوسری اشیاء میں جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مماثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى [ القیامة/ 39] اور ( آخر کار ) اس کی دو قسمیں کیں ( یعنی ) مرد اور عورت ۔ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ [ البقرة/ 35] اور تیری بی بی جنت میں رہو ۔ اور بیوی کو زوجۃ ( تا کے ساتھ ) کہنا عامی لغت ہے اس کی جمع زوجات آتی ہے شاعر نے کہا ہے فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتیتو میری بیوی اور بیٹیاں غم سے رونے لگیں ۔ اور زوج کی جمع ازواج آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس/ 56] وہ اور ان کے جوڑے اور آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] جو لوگ ( دنیا میں ) نا فرمانیاں کرتے رہے ہیں ان کو اور ان کے ساتھیوں کو ( ایک جگہ ) اکٹھا کرو ۔ میں ازواج سے ان کے وہ ساتھی مراد ہیں جو فعل میں ان کی اقتدا کیا کرتے تھے اور آیت کریمہ : ۔ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر/ 88] اس کی طرف جو مختلف قسم کے لوگوں کو ہم نے ( دنیاوی سامان ) دے رکھے ہیں ۔ اشباہ و اقران یعنی ایک دوسرے سے ملتے جلتے لوگ مراد ہیں اور آیت : ۔ سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس/ 36] پاک ہے وہ ذات جس نے ( ہر قسم کی ) چیزیں پیدا کیں ۔ نیز : ۔ وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] اور تمام چیزیں ہم نے دو قسم کی بنائیں ۔ میں اس بات پر تنبیہ کی ہے ۔ کہ تمام چیزیں جوہر ہوں یا عرض مادہ و صورت سے مرکب ہیں اور ہر چیز اپنی ہیئت ترکیبی کے لحا ظ سے بتا رہی ہے کہ اسے کسی نے بنایا ہے اور اس کے لئے صائع ( بنانے والا ) کا ہونا ضروری ہے نیز تنبیہ کی ہے کہ ذات باری تعالیٰ ہی فرد مطلق ہے اور اس ( خلقنا زوجین ) لفظ سے واضح ہوتا ہے کہ روئے عالم کی تمام چیزیں زوج ہیں اس حیثیت سے کہ ان میں سے ہر ایک چیز کی ہم مثل یا مقابل پائی جاتی ہے یا یہ کہ اس میں ترکیب پائی جاتی ہے بلکہ نفس ترکیب سے تو کوئی چیز بھی منفک نہیں ہے ۔ پھر ہر چیز کو زوجین کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ اگر کسی چیز کی ضد یا مثل نہیں ہے تو وہ کم از کم جوہر اور عرض سے ضرور مرکب ہے لہذا ہر چیز اپنی اپنی جگہ پر زوجین ہے ۔ اور آیت أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه/ 53] طرح طرح کی مختلف روئیدگیاں ۔ میں ازواج سے مختلف انواع مراد ہیں جو ایک دوسری سے ملتی جلتی ہوں اور یہی معنی آیت : ۔ مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ہر قسم کی عمدہ چیزیں ( اگائیں ) اور آیت کریمہ : ۔ ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام/ 143]( نر اور مادہ ) آٹھ قسم کے پیدا کئے ہیں ۔ میں مراد ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة/ 7] میں ازواج کے معنی ہیں قرناء یعنی امثال ونظائر یعنی تم تین گروہ ہو جو ایک دوسرے کے قرین ہو چناچہ اس کے بعد اصحاب المیمنۃ سے اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير/ 7] اور جب لوگ باہم ملا دیئے جائیں گے ۔ میں بعض نے زوجت کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ ہر پیروکار کو اس پیشوا کے ساتھ جنت یا دوزخ میں اکٹھا کردیا جائیگا ۔ جیسا کہ آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] میں مذکور ہوچکا ہے اور بعض نے آیت کے معنی یہ کئے ہیں کہ اس روز روحوں کو ان کے جسموں کے ساتھ ملا دیا جائیگا جیسا کہ آیت يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر/ 27- 28] اے اطمینان پانے والی جان اپنے رب کی طرف لوٹ آ ۔ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ۔ میں بعض نے ربک کے معنی صاحبک یعنی بدن ہی کئے ہیں اور بعض کے نزدیک زوجت سے مراد یہ ہے کہ نفوس کو ان کے اعمال کے ساتھ جمع کردیا جائیگا جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران/ 30] جب کہ ہر شخص اپنے اچھے اور برے عملوں کو اپنے سامنے حاضر اور موجود پائیگا ۔ میں بھی اس معنی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان/ 54] اور ہم انہیں حورعین کا ساتھی بنا دیں گے ۔ میں زوجنا کے معنی باہم ساتھی اور رفیق اور رفیق بنا دینا ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جہاں بھی حور کے ساتھ اس فعل ( زوجنا ) کا ذکر کیا ہے وہاں اس کے بعد باء لائی گئی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ حوروں کے ساتھ محض رفاقت ہوگی جنسی میل جول اور ازواجی تعلقات نہیں ہوں گے کیونکہ اگر یہ مفہوم مراد ہوتا تو قرآن بحور کی بجائے زوجناھم حورا کہتا جیسا کہ زوجتہ امرءۃ کا محاورہ ہے یعنی میں نے اس عورت سے اس کا نکاح کردیا ۔
6 For explanation of the supreme wisdom that underlies the creation of men and women into pairs, see E.N. 69 of AI-Furgan, E. N.'s 28 to 30 of Ar-Rum, E.N. 31 of Ya Sin, E.N. 77 of Ash-Shura, E N.12 of Az-Zukhruf, E.N. 25 of AlQiyamah.
سورة النَّبَا حاشیہ نمبر :6 انسان کو مردوں اور عورتوں کے جوڑوں کی شکل میں پیدا کرنا اپنے اندر جو عظیم حکمتیں رکھتا ہے ان کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، الفرقان ، حاشیہ 69 ، الروم ، حواشی 28 تا 30 ۔ جلد چہارم ، یسین ، حاشیہ 31 ۔ الشوری ، حاشیہ 77 ۔ الزخرف ۔ حاشیہ 12 ۔ جلد ششم ، القیامہ ، حاشیہ 25 ۔
(78:8) وخلقنکم ازواجا : اس کا عطف مضارع منفی پر ہے ازواجا حال ہے خلقنکم کی ضمیر مفعول کم سے۔ اور ہم نے تم کو جوڑے جوڑے پیدا کیا۔
ف 6، ازواج، کے معنیٰ مختلف شکلیں اور رنگ بھی ہوسکتے ہیں اور یہ بھی کہ مذکر و مؤنث کے نطفہ کے اختلاط سے پیدا کیا۔
وخلقنکم ازواجا (8:78) ” اور ہم نے تمہیں مرد اور عورت کے جوڑوں کی شکل میں پیدا کیا “۔ یہ بھی اس دنیا کی ایک نہایت کھلی حقیقت ہے ، جسے انسان نہایت ہی سادگی کے ساتھ پاتا ہے کہ انسانوں کو مرد اور عورت کی شکل میں پیدا کیا گیا ہے ۔ پھر ان کو جوڑا بنایا گیا اور ان کے ملاپ سے سلسلہ حیات کو جاری رکھا گیا۔ ہر انسان اس حقیقت اور اس نظارے کو دیکھتا ہے اور پھر وہ دیکھتا ہے اور محسوس کرتا ہے کہ اس نظام کے اندر کس قدر لطف ، مزہ ، خوشی اور آرام رکھا گیا ہے اور ان امور کو سمجھنے کے لئے کسی وسیع علم کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لئے اللہ نے انسانوں کے سامنے یہ حقیقت رکھی ، ہر تہذیب و تمدن کا بیٹا بھی اسے سمجھتا ہے اور ہر بدوی اور پہاڑی بھی اس کو محسوس کرکے اس کو برتتا ہے اور اس کے مطابق زندگی کو منظم کرتا ہے۔ اس گہری حقیقت کے اس اجمالی شعور سے آگے کچھ مزید قابل غور باتیں بھی ہیں ، ان تک صرف ان لوگوں کو رسائی حاصل ہوتی ہے جو علم ومعرفت میں ذرا گہرائی تک چلے جاتے ہیں ، مثلاً انسانی جرثومے اور نطفے سے مذکر اور مونث بنا دینا حالانکہ اس جرثومے کے اندر مذکر ومونث کی کوئی شناخت نہیں ہوتی۔ یہ اللہ ہی ہے کہ جو کسی نطفے کو تذکیر کی طرف لے جاتا ہے اور کسی نطفے کو تانیت کی طرف لے جاتا ہے۔ یہ صرف دست قدرت کے کارنامے ہیں۔ اللہ کی تخلیق اور اللہ کی ہدایت جس نطفے میں جو خصائص چاہے ڈال دے تاکہ انسان ایک جوڑے کی شکل میں پیدا ہوں اور زندگی کی گاڑی آگے بڑھے۔