Surat un Naziaat
Surah: 79
Verse: 22
سورة النازعات
ثُمَّ اَدۡبَرَ یَسۡعٰی ﴿۲۲﴾۫ ۖ
Then he turned his back, striving.
پھر پلٹا دوڑ دھوپ کرتے ہوئے ۔
ثُمَّ اَدۡبَرَ یَسۡعٰی ﴿۲۲﴾۫ ۖ
Then he turned his back, striving.
پھر پلٹا دوڑ دھوپ کرتے ہوئے ۔
Then he turned back, striving. meaning, in responding to the truth with falsehood. This was by his gathering the group of magicians in order to confront that which Musa had come up with of spectacular miracles. فَحَشَرَ فَنَادَى
22۔ 1 یعنی اس نے ایمان و اطاعت سے انکار ہی نہیں کیا بلکہ زمین میں فساد پھیلائے اور موسیٰ (علیہ السلام) کا مقابلہ کرنے کی سعی کرتا رہا، چناچہ جادوگروں کو جمع کر کے ان کا مقابلہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کرایا تاکہ موسیٰ (علیہ السلام) کو جھوٹا ثابت کیا جاسکے۔
[١٦] فرعون کی سرکشی :۔ فرعون اور درباریوں کو یہ معجزہ دیکھ کر یقین تو آچکا تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) واقعی اللہ کا رسول ہے۔ مگر مشکل یہ تھی کہ یہ بات تسلیم کرلینے سے ان سب کو اپنے اپنے اقتدار اور مناصب سے دستبردار ہو کر سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کا مطیع فرمان بننا پڑتا تھا اور یہ بات ان کے لیے موت تھی۔ لہذا انہوں نے عوام الناس کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ یہ اللہ کی طرف سے عطا کردہ معجزہ نہیں بلکہ جادو کا کرشمہ ہے۔ اپنے اس جھوٹ کو سچا بنانے کے لیے انہوں نے یہ چال چلی کہ ملک بھر کے ماہر جادوگروں کا برسر عام موسیٰ (علیہ السلام) سے مقابلہ کروا دیا جائے۔ فرعون نے جادوگروں کو لالچ بھی بہت دیا۔ مگر جب جادوگروں نے میدان مقابلہ میں ہار کر بھرے مجمع میں یہ اعلان کردیا کہ یہ جادو کا کرشمہ نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاکردہ معجزہ ہے اور ہم موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) کے رب پر ایمان لاتے ہیں تو اس سے فرعون اور اس کے درباریوں کی بھرے مجمع میں خوب رسوائی ہوئی۔
ثُمَّ اَدْبَرَ يَسْعٰى ٢٢ ۡ ۖ دبر ( پيٹھ) دُبُرُ الشّيء : خلاف القُبُل وكنّي بهما عن، العضوین المخصوصین، ويقال : دُبْرٌ ودُبُرٌ ، وجمعه أَدْبَار، قال تعالی: وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍدُبُرَهُ [ الأنفال/ 16] ، وقال : يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال/ 50] أي : قدّامهم وخلفهم، وقال : فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال/ 15] ، وذلک نهي عن الانهزام، وقوله : وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق/ 40] : أواخر الصلوات، وقرئ : وَإِدْبارَ النُّجُومِ ( وأَدْبَار النّجوم) فإدبار مصدر مجعول ظرفا، ( د ب ر ) دبر ۔ بشت ، مقعد یہ قبل کی ضد ہے اور یہ دونوں لفظ بطور کنایہ جائے مخصوص کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور اس میں دبر ا اور دبر دولغات ہیں اس کی جمع ادبار آتی ہے قرآن میں ہے :َ وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍدُبُرَهُ [ الأنفال/ 16] اور جو شخص جنگ کے روز ان سے پیٹھ پھیرے گا ۔ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال/ 50] ان کے مونہوں اور پیٹھوں پر ( کوڑے و ہیتھوڑے وغیرہ ) مارتے ہیں ۔ فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال/ 15] تو ان سے پیٹھ نہ پھیرنا ۔ یعنی ہزیمت خوردہ ہوکر مت بھاگو ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق/ 40] اور نماز کے بعد ( بھی ) میں ادبار کے معنی نمازوں کے آخری حصے ( یا نمازوں کے بعد ) کے ہیں . وَإِدْبارَ النُّجُومِ«1»میں ایک قرات ادبارالنجوم بھی ہے ۔ اس صورت میں یہ مصدر بمعنی ظرف ہوگا یعنی ستاروں کے ڈوبنے کا وقت جیسا کہ مقدم الجام اور خفوق النجم میں ہے ۔ اور ادبار ( بفتح الحمزہ ) ہونے کی صورت میں جمع ہوگی ۔ سعی السَّعْيُ : المشي السّريع، وهو دون العدو، ويستعمل للجدّ في الأمر، خيرا کان أو شرّا، قال تعالی: وَسَعى فِي خَرابِها[ البقرة/ 114] ، وقال : نُورُهُمْ يَسْعى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ [ التحریم/ 8] ، وقال : وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَساداً [ المائدة/ 64] ، وَإِذا تَوَلَّى سَعى فِي الْأَرْضِ [ البقرة/ 205] ، وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرى [ النجم/ 39- 40] ، إِنَّ سَعْيَكُمْ لَشَتَّى [ اللیل/ 4] ، وقال تعالی: وَسَعى لَها سَعْيَها [ الإسراء/ 19] ، كانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُوراً [ الإسراء/ 19] ، وقال تعالی: فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء/ 94] . وأكثر ما يستعمل السَّعْيُ في الأفعال المحمودة، قال الشاعر : 234- إن أجز علقمة بن سعد سعيه ... لا أجزه ببلاء يوم واحد «3» وقال تعالی: فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ [ الصافات/ 102] ، أي : أدرک ما سعی في طلبه، وخصّ المشي فيما بين الصّفا والمروة بالسعي، وخصّت السّعاية بالنمیمة، وبأخذ الصّدقة، وبکسب المکاتب لعتق رقبته، والمساعاة بالفجور، والمسعاة بطلب المکرمة، قال تعالی: وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ سبأ/ 5] ، أي : اجتهدوا في أن يظهروا لنا عجزا فيما أنزلناه من الآیات . ( س ع ی ) السعی تیز چلنے کو کہتے ہیں اور یہ عدو ( سرپٹ دوڑ ) سے کم درجہ ( کی رفتار ) ہے ( مجازا ) کسی اچھے یا برے کام کے لئے کوشش کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَسَعى فِي خَرابِها[ البقرة/ 114] اور ان کی ویرانی میں ساعی ہو ۔ نُورُهُمْ يَسْعى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ [ التحریم/ 8]( بلکہ ) ان کا نور ( ایمان ) ان کے آگے ۔۔۔۔۔۔ چل رہا ہوگا ۔ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَساداً [ المائدة/ 64] اور ملک میں فساد کرنے کو ڈوڑتے بھریں ۔ وَإِذا تَوَلَّى سَعى فِي الْأَرْضِ [ البقرة/ 205] اور جب پیٹھ پھیر کر چلا جاتا ہے تو زمین میں ( فتنہ انگریزی کرنے کے لئے ) دوڑتا پھرتا ہے ۔ وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرى [ النجم/ 39- 40] اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے اور یہ کہ اس کی کوشش دیکھی جائے گی ۔ إِنَّ سَعْيَكُمْ لَشَتَّى [ اللیل/ 4] تم لوگوں کی کوشش طرح طرح کی ہے ۔ وَسَعى لَها سَعْيَها [ الإسراء/ 19] اور اس میں اتنی کوشش کرے جتنی اسے لائق ہے اور وہ مومن بھی ہو تو ایسے ہی لوگوں کی کوشش ٹھکانے لگتی ہے ۔ فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء/ 94] تو اس کی کوشش رائگاں نی جائے گی لیکن اکثر طور پر سعی کا لفظ افعال محمود میں استعمال ہوتا ہے کسی شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) 228 ) ان جز علقمہ بن سیف سعیہ لا اجزہ ببلاء یوم واحد اگر میں علقمہ بن سیف کو اس کی مساعی کا بدلہ دوں تو ایک دن کے حسن کردار کا بدلہ نہیں دے سکتا اور قرآن میں ہے : ۔ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ [ الصافات/ 102] جب ان کے ساتھ دوڑ نے کی عمر کو پہنچا ۔ یعنی اس عمر کو پہنچ گیا کہ کام کاج میں باپ کا ہاتھ بٹا سکے اور مناسب حج میں سعی کا لفظ صفا اور مردہ کے درمیان چلنے کے لئے مخصوص ہوچکا ہے اور سعاد یۃ کے معنی خاص کر چغلی کھانے اور صد قہ وصول کرنے کے آتے ہیں اور مکاتب غلام کے اپنے آپ کو آزاد کردانے کے لئے مال کمائے پر بھی سعایۃ کا لفظ بولا جاتا ہے مسا عا ۃ کا لفظ فسق و محور اور مسعادۃ کا لفظ اچھے کاموں کے لئے کوشش کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ سبأ/ 5] اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں میں اپنے زعم باطل میں ہمیں عاجز کرنے کے لئے سعی کی میں سعی کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے ہماری نازل کر آیات میں ہامرے عجز کو ظاہر کرنے کے لئے پوری طاقت صرف کر دالی ۔
آیت ٢٢{ ثُمَّ اَدْبَرَ یَسْعٰی ۔ } ” پھر وہ پلٹا بھاگ دوڑ کرنے کے لیے ۔ “ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا مقابلہ کرنے کے لیے اس نے ملک بھر سے ماہر جادوگروں کو اکٹھا کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔
10 According to the details given at other places in the Qur'an, he summoned skilful magicians from all over Egypt and made them produce serpents out of sticks and cords in front of the assembled people so that they were convinced that Moses (peace be upon him was not a Prophet but a magician, and that the miracle worked by him of turning a staff into a serpent, could also be worked by other magicians. But this device of his recoiled upon himself and the defeated magicians themselves admitted that what Moses (peace be on him) had displayed was no magic but a miracle.
سورة النّٰزِعٰت حاشیہ نمبر :10 اس کی تفصیل دوسرے مقامات پر قرآن مجید میں یہ بیان کی گئی ہے کہ اس نے تمام مصر سے ماہر جادوگروں کو بلوایا اور ایک مجمع عام میں ان لاٹھیوں اور رسیوں کے اژدھے بنوا کر دکھائے تاکہ لوگوں کو یقین آ جائے کہ موسی علیہ السلام کوئی نبی نہیں بلکہ ایک جادوگر ہیں ، اور لاٹھی کا اژدہا بنا کر جو کرشمہ انہوں نے دکھایا ہے وہ دوسرے جادوگر بھی دکھا سکتے ہیں ۔ لیکن اس کی یہ چال الٹی پڑی اور جادوگروں نے شکست کھا کر خود تسلیم کر لیا کہ موسی علیہ السلام نے جو کچھ دکھایا ہے وہ جادو نہیں بلکہ معجزہ ہے ۔
(79:22) ثم اربع یسعی : ثم تراخی فی الوقت کے لئے ہے۔ پھر۔ اس کے بعد ۔ ادبر ۔ ادبار (افعال) سے ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب۔ اس نے پیٹھ پھیری۔ دبر سے جس کے معنی پیٹھ کے ہیں۔ یسعی مضارع کا صیغہ واحد مذکر غائب ۔ سعی (باب فتح) مصدر سے ۔ وہ دوڑتا ہے۔ وہ دوڑے گا دوڑتا ہوا۔ تدبیریں کرتا ہوا یہاں ضمیر فاعل ادبر سے حال ہے پھر روگرداں ہوکر (فتنہ انگیزی میں) کوشاں ہوگیا۔ یا سانپ کو اپنی طرف آتا دیکھ کر دوڑتا ہوا پیچھے مڑا۔
ف 13 یعنی مجھ سے اوپر کون خڈا ہے جس کے متعلق موسیٰ ( علیہ السلام) دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اس کا بھیجا ہوا ہے ؟
ثم ادبر ........................ الاعلی (24:79) ” پھر چال بازیاں کرنے کے لئے پلٹا اور لوگوں کو جمع کرکے اس نے پکار کر کہا ” میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں “۔ سیاق کلام میں یہاں اس سرکش کافر کی بات کو نہایت سرعت کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے اور اس کی مساعی کی تفصیلات ، جادوگروں کا جمع کیا جانا ، اور مقابلہ آرائی کی تفصیلات کو یہاں حذف کردیا جاتا ہے۔ پس اتنا ہی کہا جاتا ہے کہ وہ حضرت موسیٰ کو چھوڑ کر چلا گیا۔ اپنی سعی اور تدبیریں کرتا رہا اور عوام کو بھی جمع کیا اور جادوگروں کو بھی جمع کرلایا۔ اور پس یہاں یہاں اس کی ایک ہی مکروہ اور گندی بات کو نقل کردی ، جو جہالت اور غزور اور سرکش سے اٹی پڑی ہے کہ ” میں ہوں تمہارا رب اعلیٰ “ نعوذ باللہ۔ یہ بات اس سرکش نے اس بل بوتے پر کہی کہ اسے یقین تھا کہ عوام تو جاہل ہیں اور انہوں نے اس بات پر لبیک کہنا ہے جو وہ کہہ دے۔ حقیقت یہ ہے کہ تمام سرکشوں اور ڈکٹیٹروں کو عوام کی جہالت ، عوام کی ذلت اور عوام کی غیر مشروط اطاعت سخت دھوکے میں ڈال دیتی ہے۔ حالانکہ ہر سرکش اور ڈکٹیٹر تو دراصل ایک شخص ہوتا ہے۔ اس کے پاس نہ قوت ہوتی ہے اور نہ دلیل۔ بلکہ اس کی قوت اور دلیل یہی ہوتی ہے کہ ذلیل اور جاہل عوام اس کے سامنے بچھ جاتے ہیں وہ اپنے کاندھوں کو اس کے سامنے جھکاتے ہیں اور وہ ان پر سوار ہوجاتا ہے اور ان کی گردنیں لمبی ہوتی جاتی ہیں اور وہ ان میں رسی ڈال کر مزید کھینچتا رہتا ہے۔ لوگ اس کے سامنے سرجھکاتے ہیں اور وہ مزید سر بلند کرتا ہے۔ لوگ اس کے مقابلے میں اپنے حقوق اور اپنی عزت سے دست بردار ہوتے ہیں اور وہ مزید سرکش ہوتا رہتا ہے۔ عوام الناس یہ کام کیوں کرتے ہیں ، ایک طرف سے وہ دھوکے میں ہوتے رہیں اور دوسری جانب سے وہ ڈرتے ہیں۔ رہا ان کا خوف تو وہ محض وہم یا گمان پر مبنی ہوتا ہے۔ اس لئے کہ ہر ڈکٹیٹر اور سرکش تو ایک فرد ہوتا ہے ، وہ ہزاروں اور لاکھوں عوام کا کیا بگاڑ سکتا ہے۔ اگر لوگوں کے اندر اپنی انسانیت ، اپنی کرامت ، عزت نفس ، اپنی آزادیوں کا احساس ہو تو پھر ان ہزاروں اور لاکھوں عوام میں سے ایک شخص اس ڈکٹیٹر کے مقابلے کے لئے کافی ہوتا ہے لیکن یہ ڈکٹیٹر اور سرکش ان کو دھوکہ دیتا ہے ، وہ کہتا ہے کہ وہ اختیارات کا سرچشمہ ہے۔ حالانکہ کسی قوم میں سے ایک فرد اٹھ کر کبھی بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ میں تمہارا رب اعلیٰ اور ڈکٹیٹر اور سرکش ہوں۔ اگر قوم بیدار ہو اور اسے نیک وبد کا علم ہو تو اس میں سے کبھی بھی سرکش ڈکٹیٹر پیدا نہیں ہوسکتا ، پھر جو امت اپنے حقیقی رب اعلیٰ سے واقف ہو تو اس کے اندر کوئی اس قسم کا فرعونی ڈکٹیٹر سر نہیں اٹھا سکتا۔ نیز اگر کوئی قوم یہ فیصلہ کرلے کہ اس نے صرف رب واحد کی بندگی کرنی ہے اور اس رب کے سوا کوئی نہیں ہے کہ اسے نفع دے سکے یا نقصان۔ تو ایسی قوم میں کوئی مطلق العنان سر نہیں اٹھاسکتا۔ فرعون کو معلوم تھا کہ اس کی قوم غافل اور ذلیل ہے۔ اور اس کی رعیت کے لوگوں کے دل ذوق ایمان سے خالی ہیں۔ اس لئے اسے اس قدر جرات ہوگئی کہ وہ کہے۔