Surat un Naziaat

Surah: 79

Verse: 30

سورة النازعات

وَ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ ذٰلِکَ دَحٰىہَا ﴿ؕ۳۰﴾

And after that He spread the earth.

اوراس کے بعد زمین کو ( ہموار ) بچھا دیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And after that He spread the earth, He explains this statement by the statement that follows it, أَخْرَجَ مِنْهَا مَاءهَا وَمَرْعَاهَا

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٢] دَحٰی کا معنی اور زمین کا گول ہونا :۔ دحیٰ اور طحٰی دونوں ہم معنی بلکہ ایک ہی لفظ ہے۔ صرف مختلف علاقوں کے الگ الگ تلفظ کی وجہ سے یہ دو لفظ بن گئے ہیں۔ قرآن میں یہ دونوں الفاظ صرف ایک ایک بار ہی استعمال ہوئے ہیں اور ایک ہی معنی میں آئے ہیں۔ کہتے ہیں دحی المطر الحصی یعنی بارش کنکریوں کو دور دور ... تک بہا کرلے گئی۔ گویا ان دونوں الفاظ کا معنی دور دور تک بچھا دینا یا پھیلادینا ہے نیز دحی ٰکے مفہوم میں گولائی کا تصور پایا جاتا ہے۔ دحوۃ شتر مرغ کے انڈہ کو کہتے ہیں۔ اس سے بعض لوگوں نے زمین کے گول ہونے پر استدلال کیا ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

والارض بعد ذلک دحھا…: یہاں ایک سوال ہے کہ اس جگہ آسمان بنانے کے بعد زمین بچھانے کا ذکر فرمایا ہے، جب کہ سورة بقرہ کی آیت (٢٩) اور رحم سجدہ کی آیات (٩ تا ١٢) سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے زمین پیدا کی گئی پھر آسمان، ان دونوں کے درمیان تطبیق کیا ہوگی ؟ اہل علم نے اس کے متعدد جوابات ذکر فرمائے ہیں :(١) بعض ... مفسرین کا کہنا ہے کہ پہلے زمین بنی پھر آسمان، البتہ زمین کو بچھانے۔ اس کا پانی اور چارہ نکالنے اور اس میں پہاڑ گاڑنے کا کام بعد میں ہوا۔ گویا زمین کی خلق (پیدائش) آسمان سے پہلے، البتہ ” حو “ (چھانا) بعد میں ہے۔ طبری نے یہ تفسیر علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس (رض) سے نقل کی ہے اور اسے ترجیح دی ہے۔ روایت کے الفاظ یہ ہیں :(قولہ حیث ذکر خلق الارض قبل السماء ثم ذکر السماء قبل الارض، وذلک ان اللہ خلق الارض باقوا تھا من عیران یدحوھا قبل السماء ثم استوی الی السماء فسوھن سبع سموات ثم دحا الارض بعد ذلک فذلک قولہ قبل السماء ثم استوی الی السماء فسواھن سبع سموات ثم دحا الارض بعد ذلک ، فذلک قولہ قبل السمائ، ثم استوی الی السماء فسواھن سبع سموات ثم دحا الارض بعد ذلک، فذلک قولہ : (والارض بعد ذلک دحھا) (طبری : ٢٣/٩٢، ج : ٣٦٦٣٢)” یعنی اللہ تعالیٰ نے زمین کو اس میں موجود روزیوں سمیت اسے بچھائے بغیر آسمان سے پہلے پیدا کیا، پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور انہیں درست کر کے سات آسمان بنادیا، پھر زمین کو اس کے بعد بچھا دیا، یہی اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا مطلب ہے :(والارض بعد ذلک دحھا) (النازعات : ٣٠)” اور زمین کو اس کے بعد بچھا دیا۔ “ ابن کثیر نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ” والارض بعد ذلک دحھا “ کی تفسیر بعد والی آیات :(اخرج منھا مآء ھا ومرعھا…“ کے ساتھ فرمائی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ سب کچھ زمین میں پہلے پیدا کردیا تھا، مگر انہیں آسمانوں کو پیدا کرنے کے بعد زمین سے نکالا۔ (٢) بعض مفسرین نے سورة نازعات کی زیر تفسیر آیات اور حم سجدہ کی آیات (٩ تا ١٢) کو ملا کر خلاصہ یوں نکالا ہے :” اللہ تعالیٰ نے پہلے آسمان پیدا کیا، اس حال میں کہ وہ دھوئیں کی مانند تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے زمین کپیدا کیا، پھر اس پر پہاڑوں کو رکھ دیا، پھر زمین میں سبزیاں درخت وغیرہ کی پیدائش کا اندازہ مقرر کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آسمان کو، جواب تک دھوئیں کی شکل میں تھا، سات آسمانوں میں تبدیل کیا اور آسمان کی چھت کو بلند کیا، پھر زمین کو بچھا دیا، اس میں سے پانی اور چارہ نکالا اور پہاڑوں کو زمین میں مضبوطی سے گاڑ دیا۔ “ (تفسیر قرآن عزیز، سورة النازعات) (٣) تیسری تطبیق یہ ہے کہ یہاں سورة نازعات میں زمین و آسمان پیدا کرنے کی ترتیب زمانی بیان کرنا مقصود ہی نہیں ، وہ تو وہی ہے جو سورة بقرہ اور سورة حم سجدہ میں ہے، بلکہ یہاں اللہ تعالیٰ کے انسان کو دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہونے کی دلیل کے طور پر پہلے آسمان کو ذکر کیا گیا ہے پھر زمین کو۔ واضح رہے کہ بعد کا لفظ ہر جگہ زمانے کی ترتیب کے لئے نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات ترتیب ذکری کے لئے ہوتا ہے، یعنی موقع کی مناسبت سے زیادہ اہم چیز پہلے ذکر ہوتی ہے اور دوسری بعد میں جیسا کہ فرمایا :(عتل بعد ذلک زنیم) (القلم : ١٣)” سخت مزاج اس کے بعد بدنام۔ “ ایسے موقع پر زمانی ترتیب کچھ بھی ہو لفظ بعد کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ پہلی چیز کے بعد اس کی خبر دی جا رہی ہے، اس کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ ایسے موقع پر عموماً بعد کا معنی ” مع “ (ساتھ) ہوتا ہے، یعنی سخت مزاج ہونے کے ساتھ وہ وہ بدنام بھی ہے۔ اسی طرح سورة بلد کی آیات (١١ تا ١٧) کی تفسیر بھی دیکھ لیں، جن میں ” فک رقبۃ…“ کے بعد فرمایا :(ثم کان من الذین امنوا…) یہاں بھی ” ثم “ ترتیب زمانی کے لئے نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ گردن چھڑانے اور کھانا کھلانے کے ساتھ ساتھ ایمان لانا بھی ضروری ہے۔ یہ تطبیق تقریباً تمام مفسرین نے ذکر کی ہے اور سب سے بہتر ہے، کیونکہ پہلی دونوں تطبیقوں میں چھ دن میں زمین و آسمان کی پیدائش کی تفصیل اور ترتیب پوری طرح واضح نہیں ہوتی اور نہ اصل اشکال دور ہوتا ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِكَ دَحٰىہَا۝ ٣٠ ۭ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ار... ض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ بعد البُعْد : ضد القرب، ولیس لهما حدّ محدود، وإنما ذلک بحسب اعتبار المکان بغیره، يقال ذلک في المحسوس، وهو الأكثر، وفي المعقول نحو قوله تعالی: ضَلُّوا ضَلالًابَعِيداً [ النساء/ 167] ( ب ع د ) البعد کے معنی دوری کے ہیں یہ قرب کی ضد ہے اور ان کی کوئی حد مقرر نہیں ہے بلکہ ایک ہی جگہ کے اعتبار سے ایک کو تو قریب اور دوسری کو بعید کہا جاتا ہے ۔ محسوسات میں تو ان کا استعمال بکثرت ہوتا رہتا ہے مگر کبھی کبھی معافی کے لئے بھی آجاتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ضَلُّوا ضَلالًا بَعِيداً [ النساء/ 167] وہ راہ ہدایت سے بٹھک کردور جا پڑے ۔ ۔ ان کو ( گویا ) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے ۔ دحا قال تعالی: وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذلِكَ دَحاها[ النازعات/ 30] ، أي : أزالها عن مقرّها، کقوله : يَوْمَ تَرْجُفُ الْأَرْضُ وَالْجِبالُ [ المزمل/ 14] ، وهو من قولهم : دحا المطر الحصی عن وجه الأرض، أي : جرفها، ومرّ الفرس يَدْحُو دَحْواً : إذا جرّ يده علی وجه الأرض، فيدحو ترابها، ومنه : أُدْحِيُّ النّعام، وهو أُفْعُول من دحوت، ودِحْيَة : اسم رجل . ( د ح و ) الدحو ۔ کے معنی کسی چیز کو اس کی جگہ سے زائل کردینے کے ہیں ؛ قرآن میں ہے : ۔ وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذلِكَ دَحاها[ النازعات/ 30] اور اس کے بعد زمین کو اس کے مقرر سے دور کیا یعنی اسے اس کی قرار گاہ سے زائل کردیا جیسا کہ آیت کریمہ : يَوْمَ تَرْجُفُ الْأَرْضُ وَالْجِبالُ [ المزمل/ 14] میں ہے ۔ یہ کہ بارش زمین سے کنکر بہا کرلے گئی ) کے محاورہ سے ماخوذ ہے ۔ نیز کہا جاتا ہے : ۔ گھوڑا اپنے سم زمین پر لگاتا اڑاتا چلا گیا ۔ اور اسی سے ادحی النعام ہے جس کے معنی ریت میں شتر مرغ کے انڈے دینے کی جگہ کے ہیں ۔ یہ حوت سے افعول کے وزن پر ہے دحیہ ایک مرد کا نام تھا ( جو دحیہ کلبی کے نام سے مشہور تھا  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣١{ اَخْرَجَ مِنْہَا مَآئَ ہَا وَمَرْعٰٹہَا ۔ } ” اس میں سے نکالا اس کا پانی اور اس کا چارہ۔ “ یہاں یہ نکتہ خصوصی طور پر لائق توجہ ہے کہ اس وقت دنیا میں جتنا پانی موجود ہے اس کا منبع خود زمین ہے۔ آج سائنسی معلومات کی روشنی میں ہم اس کی وضاحت یوں کرسکتے ہیں کہ ابتدا میں زمین آگ کا ایک گولا تھی۔...  جوں جوں یہ ٹھنڈی ہوتی گئی اس کے بخارات نکل کر فضا میں جمع ہوتے رہے۔ اس طرح زمین کے ارد گرد مختلف گیسوں پر مشتمل ایک غلاف سا بن گیا ‘ جسے آج ہم فضا (atmosphere) کہتے ہیں۔ پھر کسی مرحلے پر فضا میں ہائیڈروجن اور آکسیجن کے ملاپ سے پانی بنا۔ یہ پانی فضا سے بارش کی شکل میں سالہا سال تک زمین پر برستا رہا۔ اس کے بعد سورج کی تپش سے بخارات اٹھنے ‘ بادل بننے اور بارش برسنے کے معمول پر مشتمل پانی کا وہ مربوط نظام بنا جسے آج کی سائنس نے واٹر سائیکل (water cycle) کا نام دیا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے ایک خاص مقدار کے مطابق دنیا میں پانی پیدا فرما کر زمین پر موجود ” زندگی “ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اس کی رسد اور ترسیل کا ایک خوبصورت نظام (cycle) تشکیل دے دیا ہے۔ اس نظام کے تحت سمندروں کے بخارات سے بادل بنتے ہیں۔ ان بادلوں سے اللہ تعالیٰ کی مشیت اور حکمت کے تحت مختلف علاقوں میں بارش برستی ہے اور برفباری ہوتی ہے۔ پھر پہاڑوں پر برف کے وسیع ذخائر سے نالوں اور دریائوں کے ذریعے نشیبی علاقوں کو سارا سال پانی کی سپلائی جاری رہتی ہے۔ گویا بارشوں اور پہاڑی گلیشیرز کے overhead tanks سے حاصل ہونے والے پانی سے پوری دنیا میں زیرزمین پانی کے ذخیرے کو رسد بھی مہیا ہوتی رہتی ہے اور ہر طرح کی ” زندگی “ کی تمام ضروریات بھی پوری ہوتی ہیں۔ اس کے بعد جو پانی بچ رہتا ہے وہ واپس سمندر میں چلا جاتا ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

16 "After that He spread out the earth" does not mean that Allah created the earth after the creation of the heavens, but it is a style of expression just like our saying after making mention of something: "Then this is noteworthy." The object is not to express the sequence of occurrence between the two things but to draw attention from the first to the second thing although both may exist togethe... r. Several instances of this style are found in the Qur'an, e.g. in Surah Al-Qalam it is said: "(He is) oppressive, and after that, ignoble by birth." This dces not mean that first he became oppressive and then he turned ignoble by birth, but it means: "He is oppressive, and above alI, ignoble by birth." Likewise, in Surah Al-Balad it is said: "Should free a slave...then be of those who believe." This also dces not mean that first he should act righteously and then believe. but that along with doing righteous deeds he should also be characterised by belief. Here, one should also understand that at some places in the Qur'an the creation of the earth has been mentioned first and then the creation of the heavens, as in Al-Baqarah: 29, and at others the creation of the heavens has been mentioned first and then of the earth, as in these verses. There is, in fact, no contradiction in this. At no place the object is to tell what was created first and what afterwards, but wherever the context requires that the excellences of the power of AIlah be made prominent, the heavens have been mentioned first and then the earth, and where the context requires that the people be made to appreciate and acknowledge the blessings that they are benefiting by on the earth, the mention of the earth has been made before that of the heavens. (For further explanation, see E.N's 13,14 of Ha Mim As-Sajdah) .  Show more

سورة النّٰزِعٰت حاشیہ نمبر :16 اس کے بعد زمین کو بچھانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آسمان کی تخلیق کے بعد اللہ تعالی نے زمین پیدا کی ، بلکہ یہ ایسا ہی طرز بیان ہے جیسے ہم ایک بات کا ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں پھر یہ بات غور طلب ہے اس سے مقصود ان دونوں باتوں کے درمیان واقعاتی ترتیب بیان کرنا ن... ہیں ہوتا کہ پہلے یہ بات ہوئی اور اس کے بعد دوسری بات ، بلکہ مقصود ایک بات کے بعد دوسری بات کی طرف توجہ دلانا ہوتا ہے اگرچہ دونوں ایک ساتھ پائی جاتی ہوں ۔ اس طرز بیان کی متعدد نظیریں خود قرآن مجید میں موجود ہیں ۔ مثلاً سورہ قلم میں فرمایا عتل بعد ذلک زنیم جفا کار ہے اور اس کے بعد بد اصل اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پہلے وہ جفا کار بنا اور اس کے بعد بد اصل ہوا ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ شخص جفا کار ہے اور اس پر مزید یہ کہ بد اصل بھی ہے ۔ اسی طرح سورہ بلد میں فرمایا فک رقبۃ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ثم کان من الذین امنو ۔ غلام آزاد کرے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر ایمان لانے والوں میں سے ہو ۔ اس کا بھی یہ مطلب نہیں ہے کہ پہلے وہ نیک اعمال کرے ، پھر ایمان لائے ۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان نیک اعمال کے ساتھ ساتھ اس میں مومن ہونے کی صفت بھی ہو ۔ اس مقام پر یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ قرآن میں کہیں زمین کی پیدائش کا ذکر پہلے کیا گیا ہے اور آسمانوں کی پیدائش کا ذکر بعد میں کیا گیا ہے ، جیسے سورہ بقرہ آیت 29 میں ہے ۔ اور کسی جگہ آسمان کی پیدائش کا ذکر پہلے اور زمین کی پیدائش کا ذکر بعد میں کیا گیا ہے ، جیسے ان آیات میں ہم دیکھ رہے ہیں ۔ یہ دراصل تضاد نہیں ہے ۔ ان مقامات میں سے کسی جگہ بھی مقصود کلام یہ بتانا نہیں ہے کہ کسے پہلے بنایا گیا اور کسے بعد میں ، بلکہ جہاں موقع و محل یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالی کی قدرت کے کمالات کو نمایاں کیا جائے وہاں آسمانوں کا ذکر پہلے کیا گیا ہے اور زمین کا بعد میں ، اور جہاں سلسلہ کلام اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ لوگوں کو ان نعمتوں کا احساس دلایا جائے ۔ جو انہیں زمین پر حاصل ہو رہی ہیں وہاں زمین کے ذکر کو آسمانوں کے ذکر پر مقدم رکھا گیا ہے ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم ، حمٰ السجدہ ، حواشی 13 ۔ 14 ) ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(79:30) والارض بعد ذلک دحھا : الارض (آیت ہذا میں) اور الجبال آیت 32 میں منسوب ہیں کیونکہ ان سے قبل ان کے مفعل محذوف ہیں۔ ای دحی الارض اور ارسی الجبال۔ دونوں اپنے فعل محذوف کے مفعول ہونے کی وجہ سے منصوب ہیں۔ فعل محذوف کی تفسیر (ہر دو جملہ میں) دحھا۔ الکشاف میں ہے :۔ ونصب الارض والجبال باضمار دحی وار... سی وھو الاضمار علی شریطۃ التفسیر : الارض اور الجبال کا نصب دحی اور ارسی کے اضمار (محذوف ہونا) سے ہے۔ اور یہ اضمار شرائط تفسیر کے مطابق ہے۔ (الکشاف) بعد ذلک یعنی آسمان کی تخلیق کے بعد اور اس کی چھت کو بلند و بالا کرنے اور اس کو راست کرنے کے بعد۔ دحھا : دحی یدحوا، دحو (باب نصر) مصدر سے ماضی کا صیغہ واحد مذکر ہے۔ اس نے پھیلایا۔ اس نے ہموار کیا۔ ھا ضمیر مفعول واحد مؤنث الارض کے لئے ہے یعنی زمین کو ہموار بنایا۔ پھیلایا۔ بچھایا۔ صاحب تفسیر ماجدی تحریر فرماتے ہیں :۔ دحی کے معنی کسی چیز کو اس کے اصل مقر سے ہٹا دینے کے ہیں۔ دحمھا ای ازالہا عن مقرھا۔ اس کو اپنے اصلی مقر سے ہٹا دینا۔ اس سے گویا اشارہ اس طبیعیاتی حقیقت کی طرف ہوگیا کہ یہ کرہ ارض کسی اور بڑے سماوی جرم کا ٹکڑا ہے جو اس سے کٹ کر ایک مستقل وجود میں آگیا ہے۔ مطلب یہ کہ آسمان اور اس کے متعلقات کی تخلیق کے بعد اس نے کرہ ارض کو مناسب اطراف میں۔ مناسب مدارج سطح کے لحاظ سے مناسب حدود تک بچھایا یا پھیلایا۔ فائدہ : زمین اور آسمان کی تخلیق اور ان کی تکمیل میں وقت کی مدت کے لحاظ سے تعین میں علماء کے متعدد اقوال ہیں۔ اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل آیات قرآنی کو ملاحظہ کریں :۔ (1) قل ائنکم لتکفرون بالذی خلق الارض فی یومین و تجعلون لہ اندادا (41:9) اے نبی ! ان سے کہو کیا تم اس خدا سے کفر کرتے ہو اور دوسروں کو اس کا ہمسر ٹھہراتے ہو جس نے زمین کو دو دن میں بنادیا۔ (2) وقدر فیہا اقواتھا فی اربعۃ ایام ۔۔ الخ (41:10) اور ٹھہرائیں اس میں خوارا کیں اس کی چار دن میں ۔۔ الخ۔ (3) ھو الذی خلق لکم ما فی الارض جمیعا ثم استوی الی السماء فسوھن سبع سموت ۔۔ (2:29) وہی تو ہے جس نے سب چیزیں جو زمین میں ہیں تمہارے لئے پیدا کیں پھر آسمانوں کی طرف متوجہ ہوا تو ان کو ٹھیک سات آسمان بنادیا ۔۔ الخ۔ (4) ثم استوی الی السماء وہی دخان ۔۔ الخ (41:11) پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اس وقت محض دھواں تھا۔ فقضھن سبع سموت فی یومین ۔۔ الخ (41:12) تب اس نے دو دن کے اندر سات آسمان بنا دئیے۔ (5) الذی خلق السموت والارض وما بینھما فی ستۃ ایام ثم استوی علی العرش ۔۔ الخ (25:59) جس نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان میں ہے چھ دن میں پیدا کیا۔ پھر عرش پر جا ٹھہرا ۔۔ الخ۔ (6) ء انتم اشد خلقا ام السماء بنھا (79:27) بھلا تمہارا بنانا مشکل ہے یا آسمان کا ؟ اسی نے اس کو بنایا۔ والارض بعد ذلک دحھا (79:30) اور اس کے بعد زمین کو پھیلا دیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ زمین و آسمان میں سے کس کو پہلے بنایا اور کس کو بعد میں زمین و آسمان کے بنانے میں کل کتنے دن لگے۔ علماء نے اس کے متعدد جوابات دئیے ہیں :۔ (ا) علامہ پانی پتی (رح) تحریر فرماتے ہیں :۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا :۔ بغیر اس کے کہ آسمان کی تخلیق سے پہلے زمین پھیلائی جائے اللہ نے زمین کو پیدا کردیا پھر براہ راست آسمان کو بنانے کا ارادہ کیا اور دو روز میں سات آسمانوں کو ٹھیک ٹھیک بنادیا پھر دو روز میں زمین کو بچھا دیا۔ غرض زمین مع اپنی موجودات کے چار روز میں بنائی گئی۔ بعض نے کہا ہے کہ بعد ذلک کا معنی ہے مع ذلک یعنی اس کے ساتھ ہی اللہ نے زمین کو بچھا دیا۔ جیسے آیت میں آیا ہے عتل بعد ذلک زنیم (68:13) سخت خو اور اس کے علاوہ بد ذات ہے۔ بیضاوی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ لفظ بعد اس جگہ حقیقی معنی میں مستعمل ہے اور آیت ثم استوی الی السماء میں ثم (تراخی زمانی کے لئے نہیں ہے بلکہ ) بعد مرتبہ کے لئے ہے۔ آسمان و زمین کی تخلیق میں ایک عظیم الشان فرق ہے۔ جیسے آیت ثم کان من الذین امنوا (90ـ:17) (پھر وہ ان لوگوں میں بھی داخل ہوا جو ایمان لائے) میں ثم فرق مرتبہ (یعنی ادنی سے اعلیٰ کی طرف ترقی) کو ظاہر کر رہا ہے۔ ” تفسیر اول چونکہ سلف کے کلام سے ماخوذ ہے اس لئے اولیٰ ہے۔ (تفسیر مظہری) (ب) پیر محمد کرم شاہ صاحب اپنی تفسیر ضیاء القرآن میں اس موضوع پر بحث کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :۔ لیکن اس کی جو تفسیر حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہے وہ اتنی واضح ہے کہ اس کے بعد کسی اور تاویل کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ (ج) حضرت مولانا دریا بادی (رح) بعد ذلک کی تشریح کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :۔ خوب خیال رکھا جائے کہ اس خاص آیت میں ذکر زمین کی آفرنیش کا نہیں صرف اس کے بچھائے جانے کا ہے۔ (د) تفہیم القرآن میں لکھا ہے :۔ ” اس کے بعد زمین کو بچھانے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آسمان کی تخلیق کے بعد اللہ تعالیٰ نے زمین پیدا کی بلکہ یہ ایسا ہی طرز بیان ہے جیسے ہم ایک بات کا ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ :۔ ” پھر غور طلب بات یہ ہے “ اس سے مقصود ان دونوں باتوں کے درمیان واقعاتی ترتیب بیان کرنا مقصود نہیں ہوتا کہ پہلے یہ بات ہوئی اور اس کے بعد دوسری بات بلکہ مقصود ایک بات کے بعد دوسری بات کی طرف توجہ دلانا ہوتا ہے اگرچہ دونوں ایک ساتھ پائی جاتی ہوں۔ اس طرز بیان کی متعدد نظریں خود قرآن مجید میں موجود ہیں مثلاً سورة القلم میں فرمایا عتل بعد ذلک زنیم (68:13) جفا کار ہے ۔ اور اس کے بعد بد اصل۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ پہلے وہ جفا کار بنا اور اس کے بعد بداصل ہوا۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ شخص جفاکار ہے اور اس پر مزید یہ کہ وہ بد اصل بھی ہے۔ اسی طرح سورة البلد میں ہے فک رقبۃ ۔۔ ثم کان من الذین امنوا (90:17) ” غلام آزاد کرے ۔۔ پھر ایمان لانے والوں میں ہوا “ اس کا بھی یہ مطلب نہیں کہ پہلے وہ نیک اعمال کرے پھر ایمان لائے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان نیک اعمال کے ساتھ ساتھ اس میں مومن ہونے کی صفت بھی ہو۔ اس مقام پر یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ قرآن میں کہیں زمین کی پیدائش کا ذکر پہلے کیا گیا ہے اور آسمان کی پیدائش کا ذکر بعد میں جیسے کہ سورة بقرہ آیت 29 میں ہے۔ اور کسی جگہ آسمان کی پیدائش کا ذکر پہلے ہے اور زمین کی پیدائش کا ذکر بعد میں کیا گیا ہے جیسے کہ ان آیات میں ہم دیکھ رہے ہیں ۔ یہ دراصل تضاد نہیں ہے ان مقامات میں سے کسی جگہ بھی مقصود کلام یہ بتانا نہیں ہے کہ کسے پہلے بنایا گیا اور کسے بعد میں بلکہ جہاں موقع محل یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کے کمالات کو نمایاں کیا جائے وہاں آسمانوں کا ذکر پہلے کیا گیا ہے اور زمین کا بعد می اور جہاں سلسلہ کلام اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ لوگوں کو ان نعمتوں کا احساس دلایا جائے جو انہیں زمین پر حاصل ہو رہی ہیں وہاں زمین کے ذکر کو آسمانوں کے ذکر پر مقدم رکھا گیا ہے۔ (تفہیم القرآن جلد ششم سورة النازعات حاشیہ نمبر 16) ۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 16 اس سے معلوم ہوا کہ زمین کا پھیلانا، یا بچھانا آسمان کی پیدائش کے بعد ہوا ہے لیکن اس کی پیدائش آسمان سے پہلے ہوچکی تھی جیسا کہ سورة فصلت میں ہے : ثم استویٰ الی السماء۔ پھر زمین کو پیدا کرنے کے بعد) اللہ تعالیٰ آسمان کی طرف بلند ہوا۔ (آیت :11) چناچہ حضرت ابن عباس (رض) کے سامنے ایک شخص نے ان دونوں...  آیتوں میں تعافی کا اشکال پیش کیا تو انہوں نے یہی جواب دیا۔ مگر بعض نے ” ثم استویٰ الی السماء، میں کلمہ ثم کو تراخی پر محمول کیا ہے یعنی آسمان کی خلق زمین کی خلق سے زیادہ تعجب خیز ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہاں بعد ذلک سے تاخر بلحاظ زمانہ مراد نہ ہو، بلکہ تاخر بلحاظ خبر ہو جیسا کہ فرمایا : عتل بعدذلک زینم، یعنی اس کے بعد ہم زمین ومافیہا کی خلق کے متعلق خبر دیتے ہیں یوں زمین ومافیہا کی خلق آسمان سے پہلے ہے جیسا کہ آیت بقرہ اور آیت دخان سے بظاہر معلوم ہوتا ہے۔ یہ تاویل انسب سے اور اس پر علمائے تفسیر متفق ہیں۔ کیونکہ حضرت ابن عباس (رض) والی تاویل کی رو سے اصل اشکال رفع نہیں ہوتا۔ واللہ اعلم (روح)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

والارض ........................ ارسھا (32:79) ” اس کے بعد زمین کو اس نے بچھایا ، اس کے اندر سے اس کا پانی اور چارہ نکالا اور پہاڑ اس میں گاڑ دیئے “۔ دحوالارض کے معنی ہیں زمین کو تیار کرنا اور اس کے چھلکے کو بچھانا ہے۔ اس طرح کہ انسان اس کے اوپر چل بھی سکیں۔ اس کے اوپر جمع ہونے والی مٹی نباتات اگانے...  کے قابل ہو۔ اور اس کے اوپر پہاڑوں کا جمانا ، یہ سب امور اسی طرح انجام پائے کہ اللہ سطح زمین کو اس اس طرح سکون وقرار عطا کیا اور اس کے اوپر درجہ حرارت اس مقدار میں پیدا کیا کہ یہاں حیوانی اور نباتاتی زندگی ممکن ہوئی۔ اور اللہ نے زمین سے پانی نکالا ، چاہے اس سے مراد وہ پانی ہو جو چشموں کی صورت میں نکلتا ہے یا آسمانوں سے برستا ہے اور ندیوں کی صورت میں بہتا ہے۔ اور اللہ نے اس کے ذریعہ وہ تمام نباتات اگائے جس سے انسانی خوراک اور حیوانوں کی خوراک نکلی۔ بعض جانور براہ راست اس سے کھاتے ہیں اور بعض بالواسطہ۔ یہ سب انتظام اس وقت ہوا ، جب اللہ نے زمین و آسمان کا موجودہ نظام تعمیر کیا۔ رات اور دن کو پیدا کیا۔ زمین و آسمان کے بارے میں جدید نظریات اس آیت کے مفہوم کی مکمل تائید کرتے ہیں کہ زمین پر کئی سال گزرے اور اسی طرح گردش لیل ونہار کا نظام جاری رہا اور بعد میں وہ جاکر انسانی زندگی اور زراعت کے قابل بنی اور اس کا چھلکا سخت ہوا اور سکڑ کر پہاڑ نمودار ہوئے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

12:۔ ” والارض “ اور پھر اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو بچھا دیا۔ زمین سے پانی کے چشمے جاری کردئیے اور اس میں سے ہر قسم کا سبزہ پیدا کیا اور اس پر پہاڑ رکھ دئیے۔ یہ ساری چیزیں تمہارے لیے اور تمہارے چوپایوں کے مفاد کے لیے ہیں۔ کل ذلک متاعا لخلقہ ولما یحتاجون الیہ من الانعام التی یاکلونھا و یرکبونہ... ا مدۃ احتیاجہم الیھا الخ (ابن کثیر ج 4 ص 469) ۔ جس قادر و توانا اور قیوم و دانا نے یہ ساری کائنات پیدا فرما لی۔ اس کے لیے تمہیں دوبارہ پیدا کرنا کوئی مشکل نہیں۔ ” والارض بعد ذلک دحہا “ سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ آسمانوں کو پہلے اور زمین کو اس کے بعد پیدا کیا گیا حالانکہ معاملہ اس کے برعکس ہے جیسا کہ سورة حم السجدہ (رکوع 2) میں ہے ” خَلَقَ الْاَرْضَ فِیْ یَوْمَیْنِ “ تا ” ثُمَّ اسْتَوٰی اِلَی السَّمَاءِ وَھِیَ دُخَانٌ الایۃ “۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں سورة النازعات کی آیت میں ” بعد ذلک “ سے تعقیب ذکری مراد ہے یعنی اس کے بعد یہ بھی سن لو کہ اس نے زمین کو بھی بچھا دیا۔ یا ” بعد “ بمعنی ” مع “ ہے، معناہ الارض مع ذلک دحہا (مظہری) ۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے پہلے زمین کو اس کی اقوات کے ساتھ دو دنوں میں پیدا فرمایا مگر اسے پھیلایا نہیں۔ اس کے بعد دو دنوں میں ساتوں آسمانوں کو پیدا کیا پھر اس کے بعد زمین کو بچھایا اور پھیلایا (روح، مظہری) ۔ اس پر رازی (رح) نے اعتراض کیا ہے کہ ایک جسم کو پیدا کرنا اور اس کو بچھانا دونوں بیک وقت ہوتے ہیں یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ مخلوق ہو اور مبسوط و مدحو نہ ہو۔ امام آلوسی (رح) نے اس کا جواب دیا ہے کہ پیدا کرنے سے اس کے مخصوص مادہ کا پیدا کرنا مراد ہے اور دحو سے اس کو موجودہ مخصوص شکل و صورت میں بچھانا مراد ہے۔ جس طرح پہلے آسمان کا مادہ بصورت دخان پیدا کیا گیا پھر اس سے آسمان پیدا کیے گئے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(30) اور اس کے بعدزمین کو بچھایا اور پھیلایا۔