Surat un Naziaat
Surah: 79
Verse: 45
سورة النازعات
اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مُنۡذِرُ مَنۡ یَّخۡشٰہَا ﴿ؕ۴۵﴾
You are only a warner for those who fear it.
آپ تو صرف اس سے ڈرتے رہنے والوں کو آگاہ کرنے والے ہیں ۔
اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مُنۡذِرُ مَنۡ یَّخۡشٰہَا ﴿ؕ۴۵﴾
You are only a warner for those who fear it.
آپ تو صرف اس سے ڈرتے رہنے والوں کو آگاہ کرنے والے ہیں ۔
You are only a Warner for those who fear it, meaning, `I sent you to warn mankind and caution them to beware of the torment and punishment of Allah. So whoever fears Allah, fears standing before Him, and His threat, then he will follow you, and thus be successful and victorious. However, whoever denies you and opposes you, then he will only suffer loss and failure.' Allah then says, كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَهَا لَمْ يَلْبَثُوا إِلاَّ عَشِيَّةً أَوْ ضُحَاهَا
45۔ 1 یعنی آپ کا کام صرف انذاز (ڈرانا) ہے، نہ کہ غیب کی خبریں دینا، جن میں قیامت کا علم بھی ہے جو اللہ نے کسی کو بھی نہیں دیا۔
انما انت منذرمن یخشھا : یعنی آپ کا کام اس کا وقت بتانا نہیں ہے بلکہ اس سے ڈرانا ہے اور اگرچہ آپ کا فریضہ تمام دنیا کو اس سے ڈرانا ہے مگر اس کا فائدہ صرف اس کو ہوگا جس کے دل میں اس کا خوف ہے اور وہ آپ کی تبلیغ سن کر تیاری کرے گا۔ جس کے دل میں قیامت پر ایمان اور اس کا خوف ہی نہیں اسے آپ کے ڈرانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، وہ اس کا وقت ہی پوچھتا رہ جائے گا۔
اِنَّمَآ اَنْتَ مُنْذِرُ مَنْ يَّخْشٰىہَا ٤٥ ۭ نذر وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذر الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔ النذ یر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔ خشی الخَشْيَة : خوف يشوبه تعظیم، وأكثر ما يكون ذلک عن علم بما يخشی منه، ولذلک خصّ العلماء بها في قوله : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ( خ ش ی ) الخشیۃ ۔ اس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل پر طاری ہوجائے ، یہ بات عام طور پر اس چیز کا علم ہونے سے ہوتی ہے جس سے انسان ڈرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ؛۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] اور خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ میں خشیت الہی کے ساتھ علماء کو خاص کیا ہے ۔
(٤٥۔ ٤٦) آپ تو صرف ایسے شخص کو ڈرانے والے ہیں جو اس سے ڈرتا ہو، جس روز قیامت کو دیکھ لیں گے تو ایسا معلوم ہوگا گو دنیا میں اور قبروں میں صرف ایک دن کے آخری حصہ میں یا اس کے اول حصہ میں رہے ہیں۔
آیت ٤٥{ اِنَّمَآ اَنْتَ مُنْذِرُ مَنْ یَّخْشٰٹہَا ۔ } ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو بس خبردار کرنے والے ہیں ‘ ہر اس شخص کو جو اس سے ڈرتا ہو۔ “ جو لوگ قیامت کے تصور سے ڈرتے ہوں یا جو اس کے ذکر سے ڈر جائیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں خبردار کرتے رہیں ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خبردار کرنے سے ایسے لوگوں کا خوف اور تقویٰ مزید بڑھے گا۔ ظاہر ہے جس شخص کی روح میں زندگی کی کوئی رمق موجود ہے اس کے دل میں قیامت کے ذکر سے ضرور خشیت پیدا ہوگی۔
23 This also we have explained in E.N. 36 of Surah Al-Mulk above. As for the words "you are only a Warner to him who fears it", they do not mean that it is not your duty to warn those who do not fear, but it means: "Your warning will benefit only him who fears the coming of that Day."
سورة النّٰزِعٰت حاشیہ نمبر :23 اس کی تشریح بھی ہم تفسیر سورہ ملک حاشیہ 36 میں کر چکے ہیں ۔ رہا یہ ارشاد کہ تم ہر اس شخص کو خبردار کر دینے والے ہو جو اس کا خوف کرے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خوف نہ کرنے والوں کو خبردار کرنا تمہارا کام نہیں ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے خبردار کرنے کا فائدہ اسی کو پہنچے گا جو اس دن کے آنے کا خوف کرے ۔
(79:45) انما انت منذر من یخشھا۔ سوال کرنے کی ممانعت جو پہلے کلام سے مستفاد ہوتی تھی اس کی یہ جملہ تاکید کرتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ :۔ لوگ فضول آپ سے پوچھتے ہیں کہ قیامت کب آئے گی آپ کو تو اس کا علم ہی نہیں یعنی آپ کو تو اس کے متعلق بتایا ہی نہیں گیا۔ (نہ آپ اس کا دعوی کرتے ہیں) اس کا علم تو صرف تیرے اللہ کے پاس ہے آپ کو تو محض اہل خشیت کو شدائد قیامت سے ڈرانے کے لئے بھیجا گیا ہے۔ انما : تحقیق، بےشک، سوائے اس کے نہیں۔ ان حرف مشبہ بالفعل اور ما کافہ ہے جو حصر کے لئے آتا ہے اور ان کو عمل لفظی سے روک دیتا ہے۔ منذر : انذار (افعال) مصدر سے اسم فاعل کا صیغہ واحد مذکر ہے ذرانے والا۔ مضاف من موصولہ ہے بمعنی جو۔ یخشی مضارع واحد مذکر غائب۔ خشیۃ (باب سمع) مصدر سے۔ جو ڈرتا ہے ھا ضمیر واحد مؤنث غائب کا مرجع الساعۃ ہے۔ من یخشھا مضاف الیہ۔ ترجمہ :۔ تحقیق آپ خبردار کرنے والے ہیں ہر اس شخص کو جو اس سے ڈرتا ہے۔
ف 6 یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام اس کا وقت بتانا نہیں ہے بلکہ اس سے ڈرانا ہے جس کے دل میں اس کا ڈر ہوگا وہ اس کے لئے تیاری کرے گا اور جس کے دل میں ڈر نہیں ہوگا وہ اس کا وقت ہی پوچھتا رہ جائے گا۔
انما ................ یخشھا (45:79) ” تم صرف خبردار کرنے والے ہو۔ ہر اس شخص کو جو اس کا خوف کرے “۔ تمہارا فریضہ بس یہی ہے۔ تمہارے حدود بھی یہاں تک ہیں کہ جو شخص قیامت سے ڈرتا ہے اس کو ڈرائیں ۔ یعنی ایسے لوگ جو یقین رکھتے ہیں کہ ایک دن ہم نے خدا کے سامنے پیش ہونا ہے۔ یہ دن ضرور آتا ہے اور اس کے وقت کا علم صرف اللہ کو ہے۔ ہاں وقت بتانے کے بجائے اس کی ہولناکیوں اور ہنگامہ خیزیاں بتادی جاتی ہیں۔ اور جب وہ برپا ہوگی تو اس وقت انسان کا شعور کیا ہوگا اور احساسات کیسے ہوں گے۔ اس کی عظمت کا اندازہ اسی سے لگا لو کہ اس وقت تم اس پوری دنیاوی زندگی کے بارے میں ان تاثرات کا اظہار کرو گے۔
﴿اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُنْذِرُ مَنْ يَّخْشٰىهَاؕ٠٠٤٥﴾ (آپ تو صرف ایسے شخص کے ڈرانے والے ہیں جو قیامت سے ڈرتا ہو) یعنی آپ کی بات مان کر ایمان لے آئے اور قیامت کے مواخذہ اور محاسبہ سے خوف زدہ ہو، جسے ماننا نہیں ہے آپ کا ڈرانا اس کے حق میں مفید نہیں۔ ﴿ كَاَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَهَا لَمْ يَلْبَثُوْۤا اِلَّا عَشِيَّةً اَوْ ضُحٰىهَا (رح) ٠٠٤٦﴾ (جس دن وہ اس کو دیکھیں گے ایسا معلوم ہوگا کہ گویا صرف ایک دن کے آخری حصہ میں رہے ہوں یا اس کے اول حصہ میں) آج تو بار بار پوچھ رہے ہیں کہ قیامت کب آئے گی اور بطور استہزا اور تمسخر یوں کہتے ہیں کہ یہ وعدہ کب پورا ہوگا جب قیامت آئے گی اس وقت دنیا والی زندگی (جس میں برسہا برس گزارے تھے) ۔ تھوڑی سی معلوم ہوگی اور یوں سمجھیں گے کہ ہم نے جو عذاب کی جلدی مچائی تھی وہ واقعی جلدی آگیا، وقوع کے وقت جلدی ہی سمجھیں گے اگرچہ اب یوں کہتے ہیں کہ یہ وعدہ کب پورا ہوگا۔ وھذا آخر تفسیر سورة النازعات والحمد للہ الذی بنعمتہ تتم الصالحات والصلوٰة والسلام علی سید الکائنات وعلی آلہ وصحبہ رواة الآیات الھداة الی الجنات
17:۔ ” انما انت “ یہ مشرکین کے سوال کا جواب ہے آپ تو قیامت کے اہوا و شدائد سے ڈرنے والوں کو ڈرانے والے اور خبردار کرنے والے ہیں یہی آپ کا فریضہ ہے آپ قیامت کا وقت معین بتانے کے لیے نہیں آئے۔ اسی لیے آپ کو اس کا علم بھی نہیں دیا گیا۔ لم تبعث لتعلمہم بوقت الساعۃ وانما بعثت لتنذر من اھوالہا من یخاف شدائدھا (مدارک) ۔
(45) بس آپ تو صرف ایسے شخص کو ڈرانے والے ہیں جو اس سے ڈرتا ہو۔ یعنی آپ تو صرف اسی شخص کو ڈرانے والے ہیں جو علم اجمالی کی وجہ سے مجازات کو جانتا ہے اور جس میں بالقوہ استعداد موجود ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ ڈرتے کو کیوں ڈراتے ہیں مطلب یہ ہے کہ آپ اخبار اجمالی سے اس شخص کو ڈراتے ہیں جو ڈرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اور ڈر کر ایمان لانے والا ہو۔