Surat Abas

Surah: 80

Verse: 17

سورة عبس

قُتِلَ الۡاِنۡسَانُ مَاۤ اَکۡفَرَہٗ ﴿ؕ۱۷﴾

Cursed is man; how disbelieving is he.

اللہ کی مار انسان پر کیسا ناشکرا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Refutation against Whoever denies Life after Death Allah rebukes those who deny the Resurrection and the Final Gathering. قُتِلَ الاِْنسَانُ مَا أَكْفَرَهُ Qutila mankind! How ungrateful he is! Ad-Dahhak reported from Ibn Abbas that he said, ( قُتِلَ الاِْنسَانُ Qutila mankind!) "May man be cursed." Abu Malik also made a similar statemen... t. He said, "This refers to the rejecting type of man, due to his abundant denial without any supporting argument. Rather he denies simply because he thinks it is farfetched and because he lacks knowledge of it." Ibn Jurayj said, مَأ أَكْفَرَهُ How ungrateful he is! "This means none is worse in disbelief than he is." Qatadah said, مَأ أَكْفَرَهُ How ungrateful he is! "This means none is more cursed than he is." Then Allah explains how He created him from something despised and that He is able to bring him back to life just as He created him initially. Allah says, مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ   Show more

ریڑھ کی ہڈی اور تخلیق ثانی جو لوگ مرنے کے بعد جی اٹھنے کے انکاری تھے ان کی یہاں مذمت بیان ہو رہی ہے ، ابن عباس فرماتے ہیں یعنی انسان پر لعنت ہو یہ کتنا بڑا ناشکر گزار ہے اور یہ بھی معنی بیان کئے گئے ہیں کہ عموماً تمام انسان جھٹلانے والے ہیں بلا دلیل محض اپنے خیال سے ایک چیز کو ناممکن جان کر باوجو... د علمی سرمایہ کی کمی کے جھٹ سے اللہ کی باتوں کی تکذیب کر دیتے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسے اس جھٹلانے پر کونسی چیز آمادہ کرتی ہے؟ اس کے بعد اس کی اصلیت جتائی جاتی ہے کہ وہ خیال کرے کہ کس قدر حقیر اور ذلیل چیز سے اللہ نے اسے بنایا ہے کیا وہ اسے دوبارہ پیدا کرنے پر قدرت نہیں رکھتا ؟ اس نے انسان کو منی کے قطرے سے پیدا کیا پھر اس کی تقدیر مقدر کی یعنی عمر روزی عمل اور نیک و بد ہونا لکھا ۔ پھر اس کے لیے ماں کے پیٹ سے نکلنے کا راستہ آسان کر دیا اور یہ بھی معنی ہیں کہ ہم نے اپنے دین کا راستہ آسان کر دیا یعنی واضح اور ظاہر کر دیا جیسے اور جگہ ہے آیت ( اِنَّا هَدَيْنٰهُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّاِمَّا كَفُوْرًا Ǽ۝ ) 76- الإنسان:3 ) یعنی ہم نے اسے راہ دکھائی پھر یا تو وہ شکر گزار بنے یا ناشکرا ، حسن اور ابن زید اسی کو راجح بتاتے ہیں واللہ اعلم ۔ اس کی پیدائش کے بعد پھر اسے موت دی اور پھر قبر میں لے گیا ۔ عرب کا محاورہ ہے کہ وہ جب کسی کو دفن کریں تو کہتے ہیں ۔ قبرتُ الرَّجُلَ اور کہتے ہیں اَقبَرُہُ اللہ اسی طرح کے اور بھی محاورے ہیں مطلب یہ ہے کہ اب اللہ نے اسے قبر والا بنا دیا ۔ پھر جب اللہ چاہے گا اسے دوبارہ زندہ کر دے گا ، اسی کی زندگی کو بعثت بھی کہتے ہیں اور نشور بھی ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ اَنْ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ اِذَآ اَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُوْنَ 20؀ ) 30- الروم:20 ) ۔ اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر تم انسان بن کر اٹھ بیٹھے اور جگہ ہے ( كَيْفَ نُنْشِزُھَا ثُمَّ نَكْسُوْھَا لَحْــمًا ٢٥٩؁ ) 2- البقرة:259 ) ہڈیوں کو دیکھو کہ ہم کس طرح انہیں اٹھاتے بٹھاتے ہیں ، پھر کس طرح انہیں گوشت چڑھاتے ہیں ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ انسان کے تمام اعضاء وغیرہ کو مٹی کھا جاتی ہے مگر ریڑ ھ کی ہڈی کو نہیں کھاتی ، لوگوں نے کہا وہ کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رائی کے دانے کے برابر ہے اسی سے پھر تمھاری پیدائش ہو گی ۔ یہ حدیث بغیر سوال و جواب کی زیادتی کے بخاری مسلم میں بھی ہے کہ ابن آدم گل سڑ جاتا ہے مگر ریڑھ کی ہڈی کہ اسی سے پیدا کیا گیا ہے اور اسی سے پھر ترکیب دیا جائے گا ۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس طرح یہ ناشکرا اور بےقدر انسان کہتا ہے کہ اس نے اپنی جان و مال میں اللہ کا جو حق تھا وہ ادا کر دیا لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے ۔ بلکہ ابھی تو اس نے فرائض اللہ سے بھی سبکدوشی حاصل نہیں کی ۔ حضرت مجاہد کا فرمان ہے کہ کسی شخص سے اللہ تعالیٰ کے فرائض کی پوری ادائیگی نہیں ہو سکتی ۔ حسن بصری سے بھی ایسے ہی معنی مروی ہیں متقدمین میں سے میں نے تو اس کے سوا کوئی اور کلام نہیں پایا ، ہاں مجھے اس کے یہ معنی معلوم ہوتے ہیں کہ فرمان باری کا یہ مطلب ہے کہ پھر جب چاہے دوبارہ پیدا کرے گا ، اب تک اس کے فیصلے کے مطابق وقت نہیں آیا ۔ یعنی ابھی ابھی وہ ایسا نہیں کرے گا یہاں تک کہ مدت مقررہ ختم ہو اور بنی آدم کی تقدیر پوری ہو ، ان کی قسمت میں اس دنیا میں آنا اور یہاں برا بھلا کرنا وغیرہ جو مقدر ہو چکا ہے ۔ وہ سب اللہ کے اندازے کے مطابق پورا ہو چکے اس وقت وہ خلاق کل دوبارہ زندہ کرے گا اور جیسے کہ پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اب دوسری دفعہ پھر پیدا کر دے گا ، ابن ابی حاتم میں حضرت وہب بن منبہ رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ حضرت عزیز علیہ السلام نے فرمایا میرے پاس ایک فرشتہ آیا اور اس نے مجھ سے کہا کہ قبریں زمین کا پیٹ ہیں اور زمین مخلوق کی ماں ہے جب کہ کل مخلوق پیدا ہو چکے گی پھر قبروں میں پہنچ جائے گی اور قبریں سب بھر جائیں گی اس وقت دنیا کا سلسلہ ختم ہو جائے گا اور جو بھی زمین پر ہوں گے سب مر جائیں گے ۔ اور زمین میں جو کچھ ہے اسے زمین اگل دے گی اور قبروں میں جو مردے ہیں سب باہر نکال دئیے جائیں گے یہ قول ہم اپنی اس تفسیر کی دلیل میں پیش کر سکتے ہیں ۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم ، پھر ارشاد ہوتا ہے کہ میرے اس احسان کو دیکھیں کہ میں نے انہیں کھانا دیا اس میں بھی دلیل ہے موت کے بعد جی اٹھنے کی کہ جس طرح خشک غیر آباد زمین سے ہم نے تر و تازہ درخت اگائے اور ان سے اناج وغیرہ پیدا کر کے تمھارے لیے کھانا مہیا کیا اسی طرح گلی سڑی کھوکھلی اور چورا چورا ہڈیوں کو بھی ہم ایک روز زندہ کر دیں گے اور انہیں گوشت پوست پہنا کر دوبارہ تمھیں زندہ کر دیں گے ، تم دیکھ لو کہ ہم نے آسمان سے برابر پانی برسایا پھر اسے ہم نے زمین میں پہنچا کر ٹھہرا دیا وہ بیج میں پہنچا اور زمین میں پڑے ہوئے دانوں میں سرایت کی جس سے وہ دانے اگے درخت پھوٹا اونچا ہوا اور کھیتیاں لہلہانے لگیں ، کہیں اناج پیدا ہوا کہیں انگور اور کہیں ترکاریاں ۔ حب کہتے ہیں کہ ہر دانے کو ، عنب کہتے ہیں انگور کو اور قضب کہتے ہیں اس سبز چارے کو جیسے جانور کھاتے ہیں اور زیتون پیدا کیا جو روٹی کے ساتھ سالن کا کام دیتا ہے جلایا جاتا ہے تیل نکالا جاتا ہے اور کھجوروں کے درخت پیدا کئے جو گدرائی ہوئی بھی کھائی جاتی ہے ، تر بھی کھائی جاتی ہے اور خشک بھی کھائی جاتی ہیں اور پکی بھی اور اس کا شیرہ اور سرکہ بھی بنایا جاتا ہے اور باغات پیدا کئے ۔ غالباً کے معنی کھجوروں کے بڑے بڑے میوہ دار درخت ہیں ۔ حدائق کہتے ہیں ہر اس باغ کو جو گھنا اور خوب بھرا ہوا اور گہرے سائے والا اور بڑے درختوں والا ہو ، موٹی گردن والے آدمی کو بھی عرب اغلب کہتے ہیں ، اور میوے پیدا کئے اور اب کہتے ہیں زمین کی اس سبزی کو جیسے جانور کھاتے ہیں اور انسان اسے نہیں کھاتے ، جیسے گھاس پات وغیرہ ، اب جانور کے لیے ایسا ہی ہے جیسا انسان کے لیے فَاکَھَہ یعنی پھل ، میوہ ۔ عطاء کا قول ہے کہ زمین پر جو کچھ اگتا ہے اسے اب کہتے ہیں ۔ ضحاک فرماتے ہیں سوائے میوؤں کے باقی سب اَبّ ہے ۔ ابو السائب فرماتے ہیں اَبّ آدمے کے کھانے میں بھی آتا ہے اور جانور کے کھانے میں بھی ، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے اس بابت سوال ہوتا ہے تو فرماتے ہیں کونسا آسمان مجھے اپنے تلے سایہ دے گا اور کونسی زمین مجھے اپنی پیٹھ پر اٹھائے گی ، اگر میں کتاب اللہ میں وہ کہوں جس کا مجھے علم نہ ہو لیکن یہ اثر منقطع ہے ، ابراہیم تیمی نے حضرت صدیق کو نہیں پایا ، ہاں البتہ صحیح سند سے ابن جریر میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر سورہ عبس پڑھی اور یہاں تک پہنچ کر کہا کہ فاکھہ کو تو ہم جانتے ہیں لیکن یہ اب کیا چیز ہے ؟ پھر خود ہی فرمایا اس تکلیف کو چھوڑ ، اس سے مراد یہ ہے کہ اس کی شکل و صورت اور اس کی تعیین معلوم نہیں ورنہ اتنا تو صرف آیت کے پڑھنے سے ہی صاف طور پر معلوم ہو رہا ہے کہ یہ زمین سے اگنے والی ایک چیز ہے کیونکہ پہلے یہ لفظ موجود ہے ، ( فَاَنْۢبَتْنَا فِيْهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيْمٍ 10؀ ) 31- لقمان:10 ) ، پھر فرمایا ہے تمھاری زندگی کے قائم رکھنے ، تمھیں فائدہ پہنچانے اور تمھارے جانووں کے لیے ہے کہ قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہیگا اور تم اس سے فیض یاب ہوتے رہو گے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠] اس آیت میں اگرچہ مخاطب تمام نوع انسان کو کیا گیا ہے۔ تاہم اس سے مراد انسانوں کی اکثریت یا قرآن کو جھٹلانے والے کافر ہیں۔ اور یہ قرآن کا مخصوص اور مہذبانہ انداز خطاب ہے۔ تاکہ منکرین حق ضد میں آکر مزید چڑ نہ جائیں بلکہ اصل حقائق پر غور و فکر کریں۔ [١١] اس کا ایک معنی تو وہی ہے جو ترجمہ سے واضح ہ... ے یعنی وہ کس قدر زیادہ حق کا انکار کرنے والا واقع ہوا ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ کیا چیز ہے جس نے اسے کفر پر آمادہ کیا ؟ آخر وہ کس بل بوتے پر اللہ کی آیات سے انکار کرتا اور اس کی ناشکری کرتا ہے ؟   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) قتل الانسان ما اکفرہ : پچھلی آیات میں ان متکبر کا ذکر گزرا ہے جو حق بات سننے کے لئے بھی تیار نہیں ہیں، اب انھی کافروں پر بد دعا کی گئی ہے، فرمایا :(قتل الانسان)” انسان مارا جائے “ یہ سخت سے سخت بد دعا ہے جو کسی کے لئے کی جاسکتی ہے، کیونکہ دنیا میں سب سے آخری سزا یہ ہے کہ کسی کو ختم ہی کردیا جائے... ۔ (زمخشری) (٢) سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو توبددعا کرنے کی ضرورت ہی نہیں، تو اس طرح کیوں فرمایا ؟ جواب یہ ہے کہ یہ عرب کے اسلوب پر فرمایا ہے جو ان الفاظ میں بد دعا کرتے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ اتنی نعمتوں کے باوجود یہ انسان جس طرح ناشکیر کر رہا ہے اس پر کوئی بھی غور کرے گا تو اس کے منہ سے یہ بد دعا نکلے گی۔ (٢) ” ما اکفرہ “ کا معنی ہے ” وہ کس قدر ناشکرا ہے ! “ دوسرا معنی ہے ”(اتنی نعمتوں کے باوجود) وہ کون سی چیز ہے جس نے اسے ناشکرا بنادیا ہے ؟ “ (ابن جریر)  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُتِلَ الْاِنْسَانُ مَآ اَكْفَرَہٗ۝ ١٧ ۭ قتل أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ( ق ت ل ) القتل ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل ... کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] إنس الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی: وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان/ 49] . وقیل ابن إنسک للنفس وقوله عزّ وجل : فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء/ 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه/ 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور/ 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي . ( ان س ) الانس یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ { وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا } ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ { فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا } ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا } ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔ إنس الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی: وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان/ 49] . وقیل ابن إنسک للنفس وقوله عزّ وجل : فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء/ 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه/ 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور/ 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي . ( ان س ) الانس یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ { وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا } ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ { فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا } ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا } ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔ كفر ( ناشکري) الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وكُفْرُ النّعمة وكُفْرَانُهَا : سترها بترک أداء شكرها، قال تعالی: فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء/ 94] . وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ، فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان/ 50] ويقال منهما : كَفَرَ فهو كَافِرٌ. قال في الکفران : لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] ، وقال : وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة/ 152] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ کفر یا کفر ان نعمت کی ناشکری کر کے اسے چھپانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء/ 94] ؂ تو اس کی کوشش رائگاں نہ جائے گی ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان/ 50] مگر اکثر لوگوں نے انکار کرنے کے سوا قبول نہ کیا ۔ اور فعل کفر فھوا کافر ہر دو معانی کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ معنی کفران کے متعلق فرمایا : ۔ لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] تاکہ مجھے آز مائے کر میں شکر کرتا ہوں یا کفران نعمت کرتا ہوم ۔ اور جو شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے شکر کرتا ہے ۔ اور جو ناشکری کرتا ہے ۔ تو میرا پروردگار بےپروا اور کرم کر نیوالا ہے ۔ وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة/ 152] اور میرا احسان مانتے رہنا اور ناشکری نہ کرنا ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٧۔ ٢٢) عتبہ بن ابی لہب کافر پر اللہ کی مار وہ اللہ تعالیٰ کا کیسا ناشکرا ہے، یا یہ کہ اس کا کفر کیسا سخت ہے اسے اپنے وجود پر غور کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے کیسی حقیر چیز سے پیدا کیا۔ آگے بیان ہے کہ نطفہ سے پیدا کیا پھر اس کے ہاتھ، پیر، کان اور تمام اعضاء بنائے پھر خیر اور شر کا راستہ اس کو ب... یان کردیا یا یہ کہ رحم مادر سے اس کے نکلنے کا راستہ آسان کردیا، پھر اس کے بعد اس کو موت دی اور پھر قبر میں لے گیا پھر اس کو قبر سے دوبارہ زندہ کردے گا۔ شان نزول : قُتِلَ الْاِنْسَانُ مَآ اَكْفَرَهٗ (الخ) ابن منذر نے عکرمہ سے اس آیت کے بارے میں روایت کی گئی ہے کہ یہ عتبہ بن ابی لہب کے بارے میں نازل ہوئی ہے اس نے کہا تھا کہ میں ستاروں کے رب کا انکار کرتا ہوں۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

8 From here the rebuke turns directly against the disbelievers, who were treating the message of the Truth with scant attention. Before this, from the beginning of the Surah to verse 16, the address though apparently directed to the Holy Prophet (upon whom be peace) , was actually meant to reprimand the disbelievers, as if to say: "O Prophet, why are you ignoring a seeker after truth and paying al... l your attention to those who are worthless from your mission's point of view? they do not deserve that a great Prophet like you should present a sublime thing like the Qur'an before them." 9 At all such places in the Qur'an, "man" does not imply every individual of the human race but the people whose evil traits of character are intended to be censured. At some places the word "tnan" is used because the evil traits are found in most of human beings, and at others for the reason that if the particular people are pin-pointed for censure, it engenders stubbornness. Therefore, admonition is given in general terms so as to be more effective. (For further explanation, see E.N. 65 of Ha Mim As-Sajdah, E.N. 75 of Ash-Shura) . 10 Another meaning also can be: "What caused him to be inclined to kufr?" Or, in other words: "On what strength dces he commit kufr?' Kufr?" hen means denial of the Truth as well as ingratitude for the favours of one's benefactor and also rebellious attitude against one's Creator, Providence and Master.  Show more

سورة عَبَس حاشیہ نمبر :8 یہاں سے عتاب کا رخ براہ راست ان کفار کی طرف پھرتا ہے جو حق سے بے نیازی برت رہے تھے ۔ اس سے پہلے آغاز سورہ سے آیت 16 تک خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تھا اور عتاب در پردہ کفار پر فرمایا جا رہا تھا ۔ اس کا انداز بیان یہ تھا کہ اے نبی ، ایک طالب حق کو چھوڑ کر آپ یہ کن لوگو... ں پر اپنی توجہ صرف کر رہے ہیں جو دعوت حق کے نقطہ نظر سے بالکل بے قدر و قیمت ہیں اور جن کی یہ حیثیت نہیں ہے کہ آپ جیسا عظیم القدر پیغمبر قرآن جیسی بلند مرتبہ چیز کو ان کے آگے پیش کرے ۔ سورة عَبَس حاشیہ نمبر :9 قرآن مجید میں ایسے تمام مقامات پر انسان سے مراد نوع انسانی کا ہر فرد نہیں ہوتا بلکہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی ناپسندیدہ صفات کی مذمت کرنا مقصود ہوتا ہے ۔ انسان کا لفظ کہیں تو اس لیے استعمال کیا جاتا ہے کہ نوع انسانی کے اکثر افراد میں وہ مذموم صفات پائی جاتی ہیں ، اور کہیں اس کے استعمال کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ مخصوص لوگوں کو تعین کے ساتھ اگر ملامت کی جائے تو ان میں ضد پیدا ہو جاتی ہے ، اس لیے نصیحت کا یہ طریقہ زیادہ موثر ہوتا ہے کہ عمومی انداز میں بات کہی جائے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، حمٰ السجدہ ، حاشیہ 65 ۔ الشوریٰ ، حاشیہ 75 ) ۔ سورة عَبَس حاشیہ نمبر :10 دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کس چیز نے اسے کفر پر آمادہ کیا ؟ یعنی بالفاظ دیگر کس بل بوتے پر یہ کفر کرتا ہے؟ کفر سے مراد اس جگہ حق کا انکار بھی ہے ، اپنے محسن کے احسانات کی ناشکری بھی ، اور اپنے خالق و رازق اور مالک کے مقابلہ میں باغیانہ روش بھی ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٧۔ ٣١۔ اوپر ذکر تھا کہ اہل مکہ قرآن کو کلام الٰہی جان چکے تھے مگر بجائے اس کے کہ وہ اللہ کی اس نعمت کا شکریہ ادا کرتے کہ اس نے ان لوگوں کی اصلاح اور ان کے بزرگوار حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت ابراہیمی کے پھر دنیا میں قائم ہوجانے کی مصلحت سے اپنے رسول کی معرفت ان لوگوں پر یہ کلام بھیجا۔ ان لوگو... ں نے یہ ناشکری اور اللہ کے کلام کی یہ ناقدری کی کہ اس کو جھٹلایا اب اس ناشکری کے ذکر کو پورا کرنے کے لئے ان آیتوں میں فرمایا کہ انسان کی ناشکری کچھ اس پر منحصر نہیں ہے جس کا ذکر اوپر گزرا بلکہ انسان تو ایسا بڑا ناشکرا ہے کہ اللہ نے اس کو ناچیز شے ایک پانی کی بوند سے مناسب اعضاء میں بنایا۔ پیدائش کا وقت اس پر ایک مشکل کا وقت تھا اس کو آسان کیا اور پھر طرح طرح کی چیزیں اس کی زیست بھر کی ضرورت کی پیدا کیں اور جب اس کی زیست پوری ہوگئی تو عقبیٰ کے انتظام کی مصلحت سے اس کی روح قبض کی اور اس کی لاش کو رواں دواں نہیں ہونے دیا کہ کتے کوے اسکو کھا جائیں بلکہ مردوں کو زمین میں دفن کرنے کی حکمت دنیا میں ایجاد کردی تاکہ مردہ کی لاش کا پردہ دھکا رہے۔ ان سارے انتظاموں کو آنکھوں سے دیکھ کر اور اس کی قدرت کے لاکھوں کرشموں کا تجربہ کرکے بھی ناسمجھ انسان اس صاحب قدرت کی قدرت کا انکار کرتا ہے کہ وہ صاحب قدرت اس انسان کو پھر دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے۔ یہ ناسمجھ اتنا سمجھتا کہ اللہ تو وہ حکیم ہے جس کا ثانی نہیں دنیا کے معمولی عقل و سمجھ کے آدمی بھی دنیا کا جو کام کرتے ہیں اس کا کوئی نہ کوئی انجام اپنے دل میں سوچ لیتے ہیں مثلاً مکان بنانے کا انجام اس میں رہنے کا ‘ کھیتی کرنے اور باغ لگانے کا انجام اناج کے ہاتھ آنے اور میوہ کے کھانے کا ہوتا ہے پھر اللہ کی حکمت اور تدبیر کو ان لوگوں نے کیا معمولی عقل اور سمجھ کے لوگوں کی عقل و سمجھ سے بھی کم سمجھا ہے کہ اس نے دنیا کے اتنے بڑے کارخانہ کو بغیر کسی انجام کے پیدا کیا ہے۔ دنیا میں لوگ رہیں گے کوئی اللہ کی نعمتوں کو بھول کر بتوں کو پوجے گا اور کوئی اللہ کی نعمتوں کے شکریہ میں اس کا فرمانبردار بن کر اپنی زیست بسر کرے گا پھر آخر مرنے کے بعد سب یکساں حالت میں ہوجائیں گے نہ نیکوں کا کچھ اجر نہ بدوں کی کچھ پرسش ‘ اللہ کی شان میں ایسی بدگمانی بڑی بےادبی کی بات ہے اس بےادبی سے خفا ہو کر اس بےادبی کے کرنے والوں کو یہاں قتل الانسان کے لفظوں سے خفگی فرمائی ہے اور سورة مومنون میں فرمایا افحسبتم انما خلقنکم عبثا وانکم الینا لا ترجعون فتعالی اللہ الملک الحق۔ حاصل یہ ہے کہ اللہ کی شان سے یہ بہت بعید ہے کہ وہ دنیا کو محض کھیل تماشے کے طور پر پیدا کرتا اور دنیا کے ختم ہوجانے کے بعد نیک و بد کا کچھ انجام نہ ٹھہراتا۔ اسی واسطے اس آیت میں سب انتظام انسان کو جتلا کر فرمایا کلا لما یقض ما امرہ جس کا مطلب یہ ہے کہ باوجود ان احسانات کے ان کے شکریہ میں انسان کو طاعت الٰہی بجا لانے کا جو حکم تھا بجائے اس کے اس نے طرح طرح کی نافرمانی کی اور اللہ کی قدرت کو جھٹلایا۔ صحیح ١ ؎ بخاری وغیرہ میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بنی آدم نے مجھ کو جھٹلایا اور یہ جھٹلانا اس کو مناسب نہ تھا اور وہ جھٹلانا اس کا یہ ہے کہ میں نے اپنے کلام پاک میں خبر دی کہ مرنے کے بعد بنی آدم کو پھر پیدا کرکے سب نیک و بد کا حساب و کتاب ہوگا اور بنی آدم نے اس کو جھٹلایا صحیح مسلم ١ ؎ میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب سب لوگ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے رو برو کھڑے ہوں گے تو جو لوگ عقبیٰ سے غافل تھے اللہ تعالیٰ ان کو دنیا کی طرح طرح کی نعمتیں یاد دلائے گا جب وہ ان نعمتوں کا اقرار کریں گے تو پھر ان سے فرمائے گا کہ ان نعمتوں سے خوش ہو کر کبھی تم نے مجھ کو بھی یاد کیا تھا وہ کہیں گے نہیں۔ فرمائے گا اچھا آج میں نے بھی تم کو ویسا ہی بھلا دیا جیسا تم نے مجھ کو بھلا دیا تھا اب ذرا غور کرنے کی جگہ ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ اپنی نظر رحمت سے ان دن بھلا دے اس کا انجام سوائے دوزخ میں جانے کے اور کیا ہوسکتا ہے۔ چناچہ سورة جاثیہ میں فرمایا الیوم ننسا کما نسیتم لقاء یومکم ھذا وماواکم النار و مالکم من ناصرین ذلکم بانکھ اتخذتم ایات اللہ ھزوا وغرتکم الحیاۃ الدنیا فالیوم لایخرجون منھا ولا یستعتبون۔ حاصل مطلب آیت کا یہ ہے کہ جس طرح تم نے آیات قرآنی کو مسخرا پن میں اڑا دیا اور دنیا کے عیش و آرام میں پھنس کر آج کے دن کی سزا و جزا کو تم بالکل بھول گئے ویاس ہی معاملہ خدا کی طرف سے تمہارے ساتھ آج کیا جائے گا کہ بےیارو مددگار تم کو دوزخ میں ڈال دیا جائے گا اور پھر تمہاری خبر نہ لی جائے گی کہ تمہارے اوپر کیا گزری۔ صبا زمین کی وہ پیداوار جو سال میں کئی بار کاٹی جائے جیسے ترکاری یا بعض قسم کی گھانس غلباً کے معنی موٹے اور گھنے درخت اب کے معنی خودر و چارہ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(80:17) قتل الانسان ما اکفرہ : لفظی ترجمہ ۔ مارا گیا انسان، غارت ہوا انسان۔ لعنت ہو انسان پر۔ یہ اللہ کی طرف سے انسان کے لئے برترین بددعا ہے۔ (مجاہد کہتے ہیں قرآن مجید میں جہاں بھی قتل الانسان آیا ہے وہاں انسان سے مراد کافر ہے۔ ضیاء القرآن ۔ یہ جملہ قرآن مجید میں صرف اسی جگہ آیا ہے) ۔ ما اکفرہ کی ... مندرجہ ذیل صورتیں ہیں :۔ (1) یہ استفہام توبیخی ہے۔ ای ای شیء حملہ علی الکفر۔ مرادک التنزیل، خازن (السیر التفاسیر) کسی شے نے اس کو اس کفر پر ابھارا۔ (2) یہ صیغہ تعجب ہے : ای ما اشد کفرہ وہ (انسان ) کیسا ناشکرا ہے۔ (مدارک التنزیل) ما اشد کفرہ باللہ مع کثرۃ احسانہ الیہ (الخازن) باوجود اللہ کے احسانات کی کثرت کے (انسان) کتاب ناشکرا ہے اللہ کا۔ علامہ پانی پتی لکھتے ہیں :۔ یہ (آیت) انسان کے لئے بدترین بددعا ہے۔ اور تعجب ہے کہ شکر گزاری اور ایمان کے تمام اسباب موجود ہونے کے بعد بھی انسان انتہائی ناشکری کرتا ہے یہ الفاظ انتہائی مختصر ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کے انتہائی غضب اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے پوری پوری مذمت پر دلالت کر رہے ہیں۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 مراد وہ آدمی ہے جو قرآن جیسی نعمت کی قدر نہیں کرتا اور اس سے نصیحت حاصل نہیں کرتا، یا عام لوگ مراد ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے انسان کی ہدایت کے لیے قرآن مجید نازل فرمایا ہیجس شخص نے قرآن کی نصیحت سے انکار کیا وہ تباہ ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید اس لیے نازل کیا ہے کہ انسان اس پر اخلاص کے ساتھ عمل پیرا ہو کر قیامت کی جوابدہی کی تیاری کرے اور دنیا میں رہ کر اپنے فکر وعمل کو سنوار ... لے۔ جس نے اس کا انکار کیا وہ قیامت کے دن پکڑا جائے گا اور جو قیامت کے دن پکڑا گیا وہ تباہ ہوجائے گا۔ جو لوگ قیامت کا انکار کرتے ہیں اور یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ جب انسان مٹی کے ساتھ مٹی ہوجائے گا تو پھر اسے کون پیدا کرے گا ؟ کیا انکار کرنے والے کو یہ معلوم نہیں کہ اسے کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے اسے ایک نطفے سے پیدا کیا پھر اس کی پیدائش کا وقت مقرر فرمایا اور پھر اس کے لیے رحم مادر سے نکلنے کا راستہ بنایا، پھر اسے موت دی اور قبر تک پہنچا دیا جب چاہے گا اسے اٹھا کھڑا کرے گا۔ انسان اپنی پیدائش سے لے کر قیامت کے دن اٹھنے تک اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے مجبور ہے ہر انسان نہ اپنی مرضی سے پیدا ہوتا ہے اور نہ اپنی مرضی سے مرتا ہے اور نہ ہی اپنی مرضی سے دوبارہ زندہ ہوگا۔ اللہ کی نافرمانی کرنے والے اور قیامت کے منکر اپنی زندگی کے ایک ایک مرحلے پر غور کریں تو انہیں یقین ہوجائے گا کہ واقعی قیامت کے دن زندہ ہونا اور اپنے رب کے سامنے پیش ہونا برحق ہے کیونکہ جو خالق انسان کو ایک جرثومے سے پیدا فرما کر اس کی پیدائش کا وقت اور اس کی قدوقامت، شکل و صورت اور رحم مادر میں اس کی تقدیر مقرر کرتا ہے اور پھر اس کی پیدائش کے لیے رحم مادر کا راستہ آسان کرتا ہے کیا وہ اسے قیامت کے دن نہیں اٹھا سکتا ؟ کیوں نہیں ! وہ ہر انسان کو ہر صورت قیامت کے دن اٹھائے گا جس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق زندگی بسر نہ کی اس کا کڑا حساب لیا جائے گا۔ ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں صادق و مصدوق رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم میں سے ہر کوئی اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن ٹھہرتا ہے جو جما ہوا خون بن جاتا ہے پھر چالیس دن بعد گوشت کا لوتھڑا بن جاتا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرشتہ بھیجتے ہیں اسے آدمی کا عمل، رزق، موت اور نیک وبد ہونا لکھنے کا حکم دیتے ہیں پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔ تم میں ایک بندہ عمل کرتارہتا ہے حتی کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر غالب آجاتی ہے وہ جہنمیوں والے کام شروع کردیتا ہے۔ ایسے ہی آدمی برے عمل کرتا رہتا ہے حتٰی کہ اس کے اور جہنم کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو وہ جنتیوں والے اعمال شروع کردیتا ہے۔ “ (رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب ذکر الملائکۃ) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہی انسان کو ایک نطفے سے پیدا کرتا ہے اور اسے خاص مدت تک رِ حم مادر میں ٹھہرا کر مختلف مراحل سے گزارتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہی انسان کے لیے رِ حم مادر سے نکلنے کا راستہ آسان کرتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہی انسان کو موت دیتا ہے اور پھر مٹی کے ساتھ مٹی بنا دیتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ جب چاہے گا قیامت کے دن انسان کو اٹھا کھڑا کرے گا۔ ٥۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بیشمار انسان اپنے رب کے حکم کی سرتابی کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن پیدائش سے لے کر دوبارہ پیدا ہونے تک انسان کی زندگی کا مختصر خاکہ : ١۔ کیا تو اس ذات کا انکار کرتا ہے جس نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے تجھے آدمی بنایا۔ (الکہف : ٣٧) ٢۔ اللہ نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا۔ (آل عمران : ٥٩) ٣۔ اللہ نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ (المومنون : ١٢) ٤۔ حواکو آدم سے پیدا فرمایا۔ (النساء : ١) ٥۔ اللہ نے انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا۔ (الدھر : ٢) ٦۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ، پھر لوتھڑا بنا کر تمہیں پیدا کرتا ہے کہ تم بچے ہوتے ہو۔ پھر تمہیں بوڑھا کرتا اور کچھ تم میں بڑھاپے سے پہلے فوت ہوجاتے ہیں اور کچھ اپنی عمر کو پہنچ جاتے ہیں کیا پھر بھی تم عقل نہیں کرتے۔ (المومن : ٦٧)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قتل الانسان (17:80) ” انسان قتل ہو “۔ کیونکہ وہ اپنے ان قابل تعجب اعمال کی وجہ سے اس بات کا مستحق ہے کہ اسے قتل کردیا جائے۔ یہ سرزنش اور طعن وتشنیع کا ایک انداز ہے۔ مطلب یہ ہے کہ انسان جو کچھ کررہا ہے وہ اس قدر برا ہے کہ اگر اس پر اسے سزائے موت دے دی جائے تو قابل تعجب نہ ہوگی۔ ما اکفرہ (17:80) ” کس...  قدر ناشکرا ہے “۔ وہ کفر ، انکار میں بہت شدید ہے ، اگر وہ اپنی تخلیق پر غور کرتا تو اپنے خالق کا شکرادا کرتا۔ دنیا میں تواضع اختیار کرتا اور آخرت کا خیال رکھتا۔ یہ انسان کس بات پر مست ہے۔ اپنے آپ کو بےپرواہ سمجھتا ہے ، اور ہدایت سے منہ موڑتا ہے۔ ذرا اپنی اصلیت اور آغاز وجود کے حالات پر تو غور کرے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ان آیات میں انسان کی ناشکری کا اور اس کی تخلیق کا تذکرہ فرمایا : ﴿قُتِلَ الْاِنْسَانُ﴾ (انسان پر خدا کی مار ہو) یعنی وہ اس لائق ہے کہ ذلیل ہو اور اس پر اللہ کی لعنت ہو (قال فی معالم التنزیل ای لعن الکافر) ﴿ مَاۤ اَكْفَرَهٗؕ٠٠١٧﴾ (وہ کتنا بڑا ناشکرا ہے) اللہ تعالیٰ نے اسے پیدا فرمایا کتنی نعمتوں سے ن... وازا۔ نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا اور سب سے بڑی ناشکری یہ ہے کہ ایمان کے بجائے کفر اختیار کیا۔ اسے یہ بھی معلوم ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا اور یہ بھی معلوم ہے کہ کس چیز سے پیدا کیا ہے، لیکن نافرمانی پر تلا ہوا ہے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

6:۔ ” قتل الانسان “ یہ زجر ہے۔ ” الانسان “ سے انسان کافر مراد ہے اور یہ اس پر بد دعاء ہے۔ ” قتل “ ای لعن، خدا کی رحمت سے دور ہو۔ یہ سب سے بڑی بد دعا ہے۔ ” ما اکفرہ “ فعل تعجب ہے یا استفہام برائے توبیخ ہے۔ ایمان و تسلیم کے اس قدر اسباب و دواعی کے باوجود اس کا کفر نہایت ہی قابل تعجب ہے۔ دعاء علیہ باشن... ع الدعوات و تعجب من افراطہ فی الکفر بعد ھجوم الدواعی علی التشکر والایمان (مظہری ج 10 ص 200) ۔ استفہام توبیح ای ای شیء حملہ علی الکفر او ھو تعجب ای ما اشد کفرہ (مدارک) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(17) غارت کیا جائے آدمی وہ کیسا ناشکرا اور ناسپاس ہے۔ یعنی یہ منکر انسان جو قرآن سے تذکرہ حاصل نہ کرے اور آپ کے سمجھانے اور نصیحت کرنے کے باوجود اپنی شرارت سے باز نہ آئے تو ایسے انسان پر اللہ تعالیٰ کی لعنت اور پھٹکار ہو کہ وہ کیسا ناسپاس ہے کیا اس کو اپنی حقیقت نہیں معلوم جو وہ اس قدر تکبر اور نخوت...  کا اظہار کرتا ہے اس سے مراد ابوجہل یا عتبہ ابن ابی لہب یا اور اسی قسم کا کوئی سرکش کافر ہے آگے انسانی پیدائش کا ذکر ہے۔  Show more