Surat ul Infitaar

Surah: 82

Verse: 6

سورة الإنفطار

یٰۤاَیُّہَا الۡاِنۡسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الۡکَرِیۡمِ ۙ﴿۶﴾

O mankind, what has deceived you concerning your Lord, the Generous,

اے انسان! تجھے اپنے رب کریم سے کس چیز نے بہکایا؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

O man! What has made you careless about your Lord, the Most Generous? This is a threat. It is not an attempt to get a reply as some people mistakenly think. They consider it as if the Most Generous is asking them so that they will say, "His honor deceived him (or made him careless of his Lord)." rather the meaning of this Ayah is, "O Son of Adam! What has deceived you from your Lord, the Most Generous -- meaning the Most Great -- so that you went forth disobeying Him, and you met Him with that which was unbefitting." This is similar to what has been reported in the Hadith, يَقُولُ اللهُ تَعَالَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَا ابْنَ ادَمَ مَا غَرَّكَ بِي يَا ابْنَ ادَمَ مَاذَا أَجَبْتَ الْمُرْسَلِينَ Allah will say on the Day of Judgement: "O Son of Adam! What has deceived you concerning Me? O Son of Adam! What was your response to the Messengers?" Al-Baghawi mentioned that Al-Kalbi and Muqatil said, "This Ayah was revealed about Al-Aswad bin Shariq who struck the Prophet and he was not punished in retaliation. So Allah revealed, مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ (What has made you careless about your Lord, the Most Generous?)" Then Allah said, الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧] یعنی تجھ پر مہربانیاں کرنے والے پروردگار کی مہربانیوں کا تقاضا یہ تھا کہ تو اس کا احسان مند ہوتا اور اس کا فرمانبردار بن کر رہتا مگر تو اس دھوکے میں پڑگیا کہ تو جو کچھ بنا ہے از خود ہی بن گیا ہے۔ علاوہ ازیں یہ بھی تیرے رب کا کرم ہے کہ تو جو کچھ چاہے کرتا رہتا ہے اور وہ فوری طور پر تم پر کوئی عذاب نازل نہیں کردیتا۔ گویا تو نے اپنے رب کی مہربانیوں کو کمزوری پر محمول کیا اور اسی دھوکے میں پڑگیا کہ تیرے رب کی مملکت میں انصاف نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ حالانکہ وہ صرف کریم ہی نہیں بلکہ وہ عادل بھی ہے اور قہار اور جبار بھی ہے وہ پکڑتا دیر سے ہے مگر اس کی گرفت اتنی ہی شدید ہوتی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(یایھا الانسان ما غرک بربک الکریم : اتنی مہربانیوں والے رب کے متعلق دھوکا کھانے اور کفر کرنے کی تو کوئی گنجائش ہی نہ تھی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

‌ يَا أَيُّهَا الْإِنسَانُ مَا غَرَّ‌كَ (0 man! at has deceived you about your Gracious Lord...82:6) The opening of the Surah mentions the violent events that will take place at the end of this worldly life, and the current set of verses reminds us of the inceptive stages of our creation. The sum total of the verses purport to say that if man had considered carefully, he would have believed in Allah and His Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، and he would not have deviated a hair&s breadth from Divine injunctions, but he slumped into heedlessness and forgetfulness. In the present verse, he is reprimanded by a rhetorical question and by means of gentle remonstrance as to what has lured him away from His Gracious Lord, and led him to disobedience, despite he knows his beginning, and he knows his end. The verse further goes on to remind man of the inceptive stages of his creation. First, it says: خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ (who created you, then perfected you...82:7). The sense is that not only did Allah create man, but He also perfected his creation and proportioned his body, limbs and organs. Every limb and organ is well placed. The body, height, length and breadth of every limb are kept in harmony, symmetry and balance. Any deviation from the symmetrical construction of the human body, the organs will become dysfunctional. Then the verse says: فَعَدَلَكَ (...then brought you in due proportion?...82:7). Man is granted such symmetry, harmony and balance that no other animal in the world is granted to that degree. Along with physical and physiological symmetry and harmony, he has been granted well-balanced disposition, despite the fact that man is made up of opposing humours - blood, phlegm, black bile and yellow bile. Some are hot and others are cold, and yet the perfect wisdom of Allah prepared a well-balanced disposition. Thereafter a third characteristic is mentioned as follows:

(آیت) يٰٓاَيُّهَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّكَ ، اس سے پہلی آیات میں معاد اور انجام یعنی قیامت کے ہولناک معاملات کا ذکر فرمایا، اور اس آیت میں انسان کے مبدا یعنی تخلیق کے ابتدائی مراحل کا ذکر فرمایا، اس مجموعہ کا تقاضا یہ تھا کہ انسان کچھ بھی غور وفکر سے کام لیتا تو اللہ اور اسکے رسول پر ایمان لانا اور انکے احکام کی سرموخلاف ورزی نہ کرتا مگر انسان غفلت اور بھول میں پڑگیا اس پر بطور زجر و تنبیہ کے یہ سوال فرمایا کہ اے انسان تیری ابتداء و انتہا کے یہ حالات سامنے ہونے کے باوجود تجھے کس چیز نے بھول اور دھوکے میں ڈالا کہ اللہ کی نافرمانی کرنے لگا۔ یہاں بیان مبدا یعنی تخلیق انسانی کے ابتدائی مراحل کے ذکر میں پہلے فرمایا خلقک فسوک یعنی اللہ تعالیٰ نے تجھے پیدا کیا، اور صرف پیدا ہی نہیں کردیا بلکہ تیرے وجود اور تمام اعضا کو ایک خاص مناسبت کے ساتھ درست کرکے بنایا، ہر عضو کو اسکے مناسب جگہ دی، ہر عضو کی جسامت اور طول وعرض کو ایک تناسب سے بنایا کہ ذرا اس سے مختلف ہوجائے تو اعضائے انسانی کے وہ فوائد باقی نہ رہیں جو اس کی موجودہ صورت میں ہیں، اس کے بعد فرمایا فعدلک، یعنی تیرے وجود کو ایک خاص اعتدال بخشا جو دنیا کے کسی دوسرے جاندار میں نہیں۔ اعضاء کے تناسب کے اعتبار سے بھی اور مزاج و طبیعت کے اعتبار سے بھی کہ اگرچہ انسان کی تخلیق میں متضاد اور مختلف مواد شامل ہیں۔ خون، بلغم، سودا، صفرا، کوئی گرم کوئی سرد مگر حکمت ربانی نے ان متضاد چیزوں سے ایک معتدل مزاج تیار کردیا اس کے بعد ایک تیسری خصوصیت بیان فرمائی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّہَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيْمِ۝ ٦ ۙ إنس الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی: وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان/ 49] . وقیل ابن إنسک للنفس وقوله عزّ وجل : فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء/ 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه/ 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور/ 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي . ( ان س ) الانس یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ { وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا } ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ { فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا } ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا } ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔ غرر يقال : غَررْتُ فلانا : أصبت غِرَّتَهُ ونلت منه ما أريده، والغِرَّةُ : غفلة في الیقظة، والْغِرَارُ : غفلة مع غفوة، وأصل ذلک من الْغُرِّ ، وهو الأثر الظاهر من الشیء، ومنه : غُرَّةُ الفرس . وغِرَارُ السّيف أي : حدّه، وغَرُّ الثّوب : أثر کسره، وقیل : اطوه علی غَرِّهِ وغَرَّهُ كذا غُرُوراً كأنما طواه علی غَرِّهِ. قال تعالی: ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ [ الانفطار/ 6] ، لا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلادِ [ آل عمران/ 196] ، وقال : وَما يَعِدُهُمُ الشَّيْطانُ إِلَّا غُرُوراً [ النساء/ 120] ، وقال : بَلْ إِنْ يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً إِلَّا غُرُوراً [ فاطر/ 40] ، وقال : يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً [ الأنعام/ 112] ، وقال : وَمَا الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا مَتاعُ الْغُرُورِ [ آل عمران/ 185] ، وَغَرَّتْهُمُ الْحَياةُ الدُّنْيا[ الأنعام/ 70] ، ما وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُوراً [ الأحزاب/ 12] ، وَلا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ [ لقمان/ 33] ، فَالْغَرُورُ : كلّ ما يَغُرُّ الإنسان من مال وجاه وشهوة وشیطان، وقد فسّر بالشیطان إذ هو أخبث الْغَارِّينَ ، وبالدّنيا لما قيل : الدّنيا تَغُرُّ وتضرّ وتمرّ والْغَرَرُ : الخطر، وهو من الْغَرِّ ، «ونهي عن بيع الْغَرَرِ». والْغَرِيرُ : الخلق الحسن اعتبارا بأنّه يَغُرُّ ، وقیل : فلان أدبر غَرِيرُهُ وأقبل هريرة فباعتبار غُرَّةِ الفرس وشهرته بها قيل : فلان أَغَرُّ إذا کان مشهورا کريما، وقیل : الْغُرَرُ لثلاث ليال من أوّل الشّهر لکون ذلک منه كالْغُرَّةِ من الفرس، وغِرَارُ السّيفِ : حدّه، والْغِرَارُ : لَبَنٌ قلیل، وغَارَتِ النّاقةُ : قلّ لبنها بعد أن ظنّ أن لا يقلّ ، فكأنّها غَرَّتْ صاحبها . ( غ ر ر ) غررت ( ن ) فلانا ( فریب دینا ) کسی کو غافل پاکر اس سے اپنا مقصد حاصل کرنا غرۃ بیداری کی حالت میں غفلت غرار اونکھ کے ساتھ غفلت اصل میں یہ غر سے ہے جس کے معنی کسی شے پر ظاہری نشان کے ہیں ۔ اسی سے غرۃ الفرس ( کگوڑے کی پیشانی کی سفیدی ہے اور غر ار السیف کے معنی تلوار کی دھار کے ہیں غر الثواب کپڑے کی تہ اسی سے محاورہ ہے : ۔ اطوہ علی غرہ کپڑے کو اس کی تہ پر لپیٹ دو یعنی اس معاملہ کو جوں توں رہنے دو غرہ کذا غرورا سے فریب دیا گویا اسے اس کی نہ پر لپیٹ دیا ۔ قرآن میں ہے ؛ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ [ الانفطار/ 6] ای انسان تجھ کو اپنے پروردگار کرم گستر کے باب میں کس چیز نے دہو کا دیا ۔ لا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلادِ [ آل عمران/ 196]( اے پیغمبر ) کافروں کا شہروں میں چلنا پھر تمہیں دھوکا نہ دے ۔ وَما يَعِدُهُمُ الشَّيْطانُ إِلَّا غُرُوراً [ النساء/ 120] اور شیطان جو وعدہ ان سے کرتا ہے سب دھوکا ہے ۔ بَلْ إِنْ يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً إِلَّا غُرُوراً [ فاطر/ 40] بلکہ ظالم جو ایک دوسرے کو وعدہ دیتے ہیں محض فریب ہے ۔ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً [ الأنعام/ 112] وہ دھوکا دینے کے لئے ایک دوسرے کے دل میں ملمع کی باتیں ڈالنتے رہتے ہیں ۔ وَمَا الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا مَتاعُ الْغُرُورِ [ آل عمران/ 185] اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کا سامان ہے ۔ وَغَرَّتْهُمُ الْحَياةُ الدُّنْيا[ الأنعام/ 70] اور دنیا کی نے ان کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے ۔ ما وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُوراً [ الأحزاب/ 12] کہ خدا اور اس کے رسول نے ہم سے دھوکے کا وعدہ کیا تھا ۔ وَلا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ [ لقمان/ 33] اور نہ فریب دینے والا شیطان ) تمہیں خدا کے بارے میں کسی طرح کا فریب دے ۔ پس غرور سے مال وجاہ خواہش نفسانی ، شیطان اور ہر وہ چیز مراد ہے جو انسان کو فریب میں مبتلا کرے بعض نے غرور سے مراد صرف شیطان لیا ہے کیونکہ چو چیزیں انسان کو فریب میں مبتلا کرتی ہیں شیطان ان سب سے زیادہ خبیث اور بعض نے اس کی تفسیر دنیا کی ہے کیونکہ دنیا بھی انسان سے فریب کھیلتی ہے دھوکا دیتی ہے نقصان پہنچاتی ہے اور گزر جاتی ہے ۔ الغرور دھوکا ۔ یہ غر سے ہے اور ( حدیث میں ) بیع الغرر سے منع کیا گیا ہے (57) الغریر اچھا خلق ۔ کیونکہ وہ بھی دھوکے میں ڈال دیتا ہے ۔ چناچہ ( بوڑھے شخص کے متعلق محاورہ ہے ۔ فلان ادبر غریرہ واقبل ہریرہ ( اس سے حسن خلق جاتارہا اور چڑ چڑاپن آگیا ۔ اور غرہ الفرس سے تشبیہ کے طور پر مشہور معروف آدمی کو اغر کہاجاتا ہے اور مہینے کی ابتدائی تین راتوں کو غرر کہتے ہیں کیونکہ مہینہ میں ان کی حیثیت غرۃ الفرس کی وہوتی ہے غرار السیف تلوار کی دھار اور غرار کے معنی تھوڑا سا دودھ کے بھی آتے ہیں اور غارت الناقۃ کے معنی ہیں اونٹنی کا دودھ کم ہوگیا حالانکہ اس کے متعلق یہ گہان نہ تھا کہ اسکا دودھ کم ہوجائیگا گویا کہ اس اونٹنی نے مالک کو دھوکا دیا ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ كرم الكَرَمُ إذا وصف اللہ تعالیٰ به فهو اسم لإحسانه وإنعامه المتظاهر، نحو قوله : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] ، وإذا وصف به الإنسان فهو اسم للأخلاق والأفعال المحمودة التي تظهر منه، ولا يقال : هو كريم حتی يظهر ذلک منه . قال بعض العلماء : الكَرَمُ کالحرّيّة إلّا أنّ الحرّيّة قد تقال في المحاسن الصّغيرة والکبيرة، والکرم لا يقال إلا في المحاسن الکبيرة، كمن ينفق مالا في تجهيز جيش في سبیل الله، وتحمّل حمالة ترقئ دماء قوم، وقوله تعالی: إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] فإنما کان کذلک لأنّ الْكَرَمَ الأفعال المحمودة، وأكرمها وأشرفها ما يقصد به وجه اللہ تعالی، فمن قصد ذلک بمحاسن فعله فهو التّقيّ ، فإذا أكرم الناس أتقاهم، وكلّ شيء شرف في بابه فإنه يوصف بالکرم . قال تعالی: فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ، وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] ، إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] ، وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] . والإِكْرَامُ والتَّكْرِيمُ : أن يوصل إلى الإنسان إکرام، أي : نفع لا يلحقه فيه غضاضة، أو أن يجعل ما يوصل إليه شيئا كَرِيماً ، أي : شریفا، قال : هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] . وقوله : بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] أي : جعلهم کراما، قال : كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] ، وقال : بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ، وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] ، وقوله : ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] منطو علی المعنيين . ( ک ر م ) الکرم ۔ جب اللہ کی صفت ہو تو اس سے احسان وانعام مراد ہوتا ہے جو ذات باری تعالیٰ سے صادر ہوتا رہتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] تو میر اپروردگار بےپرواہ اور کرم کرنے والا ہے ۔ اور جب انسان کی صفت ہو تو پسندیدہ اخلاق اور افعال مراد ہوتے ہیں جو کسی انسان سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ اور کسی شخص کو اس وقت تک کریمہ نہیں کہاجاسکتا جب تک کہ اس سے کرم کا ظہور نہ ہوچکا ہو ۔ بعض نے علماء کہا ہے کہ حریت اور کرم ہم معنی ہیں لیکن حریت کا لفظ جھوٹی بڑی ہر قسم کی خوبیوں پر بولا جا تا ہے اور کرم صرف بڑے بڑے محاسن کو کہتے ہیں مثلا جہاد میں فوج کے لئے سازو سامان مہیا کرنا یا کیس ایسے بھاری تا وان کو اٹھا لینا جس سے قوم کے خون اور جان کی حفاظت ہوتی ہو ۔ اور آیت : ۔ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا ہے جو زیادہ پرہیز گار ہیں ۔ میں القی یعنی سب سے زیادہ پرہیز گا ۔ کو اکرم یعنی سب سے زیادہ عزت و تکریم کا مستحق ٹہھر انے کی وجہ یہ ہے کہ کرم بہترین صفات کو کہتے ہیں اور سب سے بہتر اور پسند یدہ کام وہی ہوسکتے ہیں جن سے رضا الہیٰ کے حصول کا قصد کیا جائے لہذا جو جس قدر زیادہ پرہیز گار ہوگا اسی قدر زیادہ واجب التکریم ہوگا ۔ نیز الکریم ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنی چیز کو کہتے ہیں جو اپنی ہم نوع چیزوں میں سب سے زیادہ باشرف ہو چناچہ فرمایا : ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] پھر ( اس سے ) اس میں ہر قسم کی نفیس چیزیں اگائیں ۔ وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] اور کھیتیاں اور نفیس مکان ۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا ۔ الا کرام والتکریم کے معنی ہیں کسی کو اس طرح نفع پہچانا کہ اس میں اس کی کسی طرح کی سبکی اور خفت نہ ہو یا جو نفع پہچا یا جائے وہ نہایت باشرف اور اعلٰی ہو اور المکرم کے معنی معزز اور با شرف کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] بھلا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے ؛ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] کے معنی یہ ہیں کہ وہ اللہ کے معزز بندے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] اور مجھے عزت والوں میں کیا ۔ كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] عالی قدر تمہاری باتوں کے لکھنے والے ۔ بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ( ایسے ) لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سر دار اور نیوک کار ہیں ۔ اور آیت : ۔ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] اور جو صاحب جلال اور عظمت ہے ۔ میں اکرام کا لفظ ہر دو معنی پر مشتمل ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ عزت و تکریم بھی عطا کرتا ہے اور باشرف چیزیں بھی بخشتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦{ یٰٓــاَیُّہَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِیْمِ ۔ } ” اے انسان ! تجھے کس چیز نے دھوکے میں ڈال دیا ہے اپنے ربّ کریم کے بارے میں۔ “ ظاہر ہے یہ کام شیطان لعین ہی کرتا ہے۔ وہی انسان کو اللہ تعالیٰ کے بارے میں دھوکے میں ڈالتا ہے۔ اس حوالے سے قرآن مجید میں بنی نوع انسان کو باربار خبردار کیا گیا ہے ‘ مثلاً سورة لقمان میں فرمایا : { وَلَا یَغُرَّنَّکُمْ بِاللّٰہِ الْغَـرُوْرُ ۔ } کہ وہ بڑا دھوکے باز تم لوگوں کو اللہ کے بارے میں کہیں دھوکے میں مبتلا نہ کر دے ! لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمام تر تنبیہات کے باوجود اکثر انسان شیطان کے اس جال میں پھنس جاتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے شیطان مختلف لوگوں کے ساتھ مختلف چالیں اور حربے آزماتا ہے۔ مثلاً ایک دیندار شخص کو اہم فرائض سے ہٹانے کے لیے وہ نوافل اور ذکر و اذکار کا ُ پرکشش پیکج پیش کرسکتا ہے کہ تم اقامت دین اور دوسرے فرائض دینی کا خیال چھوڑو اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے راتوں کو جاگنے اور تہجد کی پابندی پر توجہ دو ۔ عام مسلمانوں کے لیے اس کی بہت ہی تیر بہدف چال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ غفورٌ رحیم ہے ‘ وہ کوئی خوردہ گیر نہیں کہ اپنے مومن بندوں کو چھوٹی چھوٹی خطائوں پر پکڑے۔ وہ تو بہت بڑے بڑے گناہگاروں کو بھی معاف کردیتا ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں بےعملی کی سب سے بڑی وجہ شیطان کی یہی چال ہے ‘ بلکہ اس دلیل کے سہارے اکثر لوگ گناہوں کے بارے میں حیران کن حد تک جری اور بےباک ہوجاتے ہیں۔ اس لحاظ سے آیت زیر مطالعہ ہم میں سے ہر ایک کو دعوت فکر دے رہی ہے کہ اے اللہ کے بندے ! تمہاری بےعملی کی وجہ کہیں یہ تو نہیں ہے کہ شیطان نے تمہیں اللہ تعالیٰ کی شان غفاری کے نام پر دھوکے میں مبتلا کردیا ہے ؟

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(82:6) یایھا الانسان یا حرف نداء بمعنی اے۔ ای بحالت نداء منادیٰ معرف باللام کو حرف نداء سے ملاتا ہے ھا حرف تنبیہ ہے جو ای اور اپنے بعد کے اسم معرف باللام کے درمیان فصل کے لئے استعمال ہوتا ہے (یہی عمل یایتھا میں ہے) ۔ الانسان منادی۔ اس سے کس کو خطاب ہے اس میں مختلف اقوال ہیں :۔ (1) انسان سے مراد کافر ہے کیونکہ وہی قیامت کا منکر ہے۔ قیل الخطاب لمنکری البعث۔ (مدارک التنزیل) خطاب منکرین بعث سے ہے۔ (2) عطا فرماتے ہیں کہ یہ ولید بن مغیرہ کے حق میں ہے۔ (3) کلبی اور مقاتل کہتے ہیں کہ یہ ابن الاسد بن کلدہ بن اسید کافر کے حق میں ہے کہ اس نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گستاخی کی مگر اس پر خدا نے دنیا میں اس کو سزا نہ دی جس پر وہ اور بھی اترا گیا تب یہ آیت نازل ہوئی۔ (4) اور دیگر علماء فرماتے ہیں کہ یہ کافر اور گنہگار مومنوں سب کو شامل ہے۔ مومن ہی سہی لیکن جب وہ ایک گناہ کرتا ہے اور باز نہیں آتا تو گویا اس کا حال سزأ اور جزا کا برپا ہونا نہیں مانتا اور سزا کا اندیشہ دل میں نہیں۔ اور یہ اندیشہ نہ ہونا غرور اور عدالت آسمانی کا انکار ہے۔ (تفسیر حقانی) ۔ ما غرک : ما استفہامیہ ہے غر ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب غرور (باب نصر) مصدر۔ بمعنی فریب دینا۔ بہکانا۔ غرور کرنا۔ ک ضمیر واحد مذکر حاضر۔ کسی چیز نے تجھے بہکایا۔ غرور میں ڈالا۔ دھوکہ میں رکھا۔ غافل کیا۔ بربک الکریم : ب حرف جر بمعنی عن۔ ربک مضاف مضاف الیہ۔ الکریم صفت رب کی۔ بمعنی بزرگ۔ بڑی عزت والا۔ مخلوق پر احسان و کرم کرنے والا۔ مسلسل و لگاتار نعمتوں سے نوازنے والا۔ صیغہ واحد مذکر صفت مشبہ ہے۔ ترجمہ ہوگا :۔ اے انسان کسی چیز نے تجھے اپنے رب کریم کے بارے میں غرور میں رکھا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یعنی کس چیز نے تجھے اس سے غافل اور اس کی نافرمانی کی طرف مائل کردیا ؟

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : لوگوں تک ان کے اعمال نامے پہنچنے کے بعد ہر شخص کو رب کریم کا خطاب۔ جب تمام لوگوں کو اپنے اپنے اعمال کے مطابق ان کے دائیں یا بائیں ہاتھ میں اعمال نامے تھما دیئے جائیں گے تو پھر ایک مرحلہ ایسا آئے گا۔ جب رب کریم پورے جلال کے ساتھ ان لوگوں کو مخاطب فرمائیں گے۔ جنہوں نے دنیا میں رہتے ہوئے اس کے فرامین سے روگردانی کی ہوگی۔ ہر مجرم یہی سمجھے گا کہ رب ذوالجلال صرف مجھے ہی مخاطب کر رہا ہے اس لیے خطاب ہوگا کہ اے مجرم انسان ! تجھے اپنے کریم رب کے بارے میں کس چیز نے دھوکے میں ڈال دیا تھا۔ نہ تو نے اپنے رب کی کرم نوازیوں کا شکر ادا کیا اور نہ ہی اس کی ناراضگی سے بچنے کی کوشش کی حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا اور جس طرح چاہا تیری شکل و صورت بنائی اور تیرے اعضاء میں توازن پیدا کیا۔ اس کے باوجود تمہارا حال یہ ہے کہ تم قیامت کی تکذیب کرتے ہو اور یہ سمجھ بیٹھے ہو کہ تمہارا حساب و کتاب لینے والا کوئی نہیں ہوگا حالانکہ تم پر نگران مقرر کیے گئے ہیں جو بڑے معزز اور دیانتدار ہیں، وہ تمہاری تمام حرکات و سکنات کو ضبط تحریر میں لارہے ہیں جنہیں قیامت کے دن تمہارے سامنے رکھ دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے جسم میں توازن پیدا فرمایا ہے۔ انسان کے جسم کا توازن بگڑ جائے تو اس کے لیے اٹھنا اور چلنا محال ہوجاتا ہے۔ جسمانی توازن کا ذکر فرما کر انسان کو سمجھایا ہے کہ تجھے بھی دنیا اور آخرت کے معاملات میں توازن قائم رکھنا چاہئے۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ےَتَعَاقَبُوْنَ فِےْکُمْ مَلَآءِکَۃٌ باللَّےْلِ وَمَلَآءِکَۃٌ بالنَّھَارِ وَےَجْتَمِعُوْنَ فِیْ صَلٰوۃِ الْفَجْرِ وَصَلٰوۃِ الْعَصْرِ ثُمَّ ےَعْرُجُ الَّذِےْنَ بَاتُوْا فِےْکُمْ فَےَسْأَلُھُمْ رَبُّھُمْ وَھُوَ اَعْلَمُ بِھِمْ کَےْفَ تَرَکْتُمْ عِبَادِیْ فَےَقُوْلُوْنَ تَرَکْنٰھُمْ وَھُمْ ےُصَلُّوْنَ وَاٰتَےْنٰھُمْ وَھُمْ ےُصَلُّوْنَ ) (رواہ البخاری : کتاب مواقیت الصلاۃ، باب فَضْلِ صَلاَۃِ الْعَصْر) ” حضرت ابو ہریرۃ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہارے پاس رات اور دن باری باری فرشتے آتے ہیں، اور وہ فجر اور عصر کی نماز میں جمع ہوتے ہیں، رات والے فرشتے چلے جاتے ہیں تو ان سے پروردگار سوال کرتا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑ اوہ جواب دیتے ہیں کہ جب ہم ان کے پاس پہنچے تو وہ نماز ادا کررہے تھے اور جب ہم ان سے واپس آئے تو وہ نماز ہی کی حالت میں تھے۔ (عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا مِنْکُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَسَیُکَلِّمُہُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لَیْسَ بَیْنَ اللّٰہِ وَبَیْنَہٗ تُرْجُمَانٌ ثُمَّ یَنْظُرُ فَلَا یَرٰی شَیْءًا قُدَّامَہُ ثُمَّ یَنْظُرُ بَیْنَ یَدَیْہِ فَتَسْتَقْبِلُہُ النَّارُ فَمَنْ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ أَنْ یَتَّقِیَ النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَۃٍٍ ۔۔ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَبِکَلِمَۃٍ طَیِّبَۃٍ ) (رواہ البخاری : باب کلام الرب عزوجل یوم القیامۃ مع الأنبیاء وغیرھم) ” حضرت عدی بن حاتم (رض) بیان کرتے ہیں نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے ہر کسی کے ساتھ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کلام کرے گا، اللہ اور اس شخص کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا، پھر وہ دیکھے گا اس نے کیا عمل کیے ہیں، آدمی دیکھے گا تو اسکے سامنے آگ ہوگی جو بھی تم میں سے استطاعت رکھتا ہے آگ سے بچنے کی کوشش کرے چاہے کھجور کے ایک ٹکڑے کے ساتھ۔۔ یہ نہ پائے تو وہ اچھی بات کہے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ہر مجرم کو براہ راست مخاطب فرمائے گا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے ہی انسان کی شکل و صورت بنائی اور اس کے وجود کو مناسب انداز میں جوڑا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر نگران اور کراماً کاتبین مقرر کر رکھے ہیں۔ ٤۔ کراماً کاتبین انسان کی تمام حرکات و سکنات کو ضبط تحریر میں لاتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین شکل و صورت میں پیدا فرمایا ہے : ١۔ اللہ ہی نے انسان کو بہترین شکل و صورت میں پیدا فرمایا۔ (التین : ٤) ٢۔ ” اللہ “ نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا۔ (الروم : ٢٠) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک نطفے سے پیدا کیا۔ (الدھر : ٢) ٤۔ اللہ نے ایک ہی جان سے سب انسانوں کو پیدا کیا۔ (الاعراف : ١٨٩) ٥۔ اللہ ہی پیدا کرنے والا ہے اور اس کا ہی حکم چلنا چاہیے۔ (الاعراف : ٥٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہاں انسان کو خطاب اس کی انسانیت کے حوالے سے کیا گیا ہے۔ انسان میں صف انسانیت ہی وہ صفت ہے جو اسے ممتاز اور مکرم بناتی ہے۔ اور اپنی اس صفت کی وجہ سے انسان کو تمام دوسرے حیوانات اور زندہ مخلوقات پر برتری اور فضیلت حاصل ہے۔ اور جس کی وجہ سے انسان مقام بلند تک پہنچا ہے۔ اور اس پر اللہ کا فضل وکرم ہوا ہے۔ اس کے بعد نہایت ہی ہمدردانہ اور خوبصورت تنبیہہ اور عتاب آتا ہے۔ ذرا الفاظ دیکھئے :۔ ماغرک .................... الکریم (6:82) ” کس چیز نے تجھے اپنے اس رب کریم کی طرف سے دھوکے میں ڈال دیا ہے “۔ اے انسان ، ذرا غور کر ، تمہارا مربی ، تمہارا نگہباں تمہاری کس قدر عزت افزائی کرتا ہے۔ جس نے تمہیں انسانیت بخشی جس کی وجہ سے تم غور وفکر کرتے ہو ، بات کو سمجھتے ہو ، حیوانیت سے بلند ہوتے ہو ، آخر کیا چیز ہے جس نے تمہیں اپنے رب کے بارے میں دھوکے میں ڈال دیا ہے اور تم رب کے احکام میں تقصیرات اور کو تاہیاں کرتے ہو اور سستی کرتے ہو ، اللہ کے بارے میں گستاخیاں کرتے ہو ، جبکہ وہ نہایت ہی مہربان مربی ہے ، جس نے قدم قدم پر تم پر فضل وکرم کررکھا ہے ، جس کے کرموں اور انعامات میں سے بڑی نعمت اور کرم تمہاری یہ انسانیت ہے ، اور انسانیت کا خلاصہ یہ ہے کہ تم نیک وبد کی تمیز رکھتے ہو۔ اس کے بعد اس ربانی تکریم اور عزت افزائی کی تفصیلات دی جاتی ہیں۔ پہلے نہایت ہی موثر اشاراتی اور گہرے معانی پر مشتمل ایک مجمل پکار تھی اور عزت و تکریم کے خفیہ اشارے تھے اور پوشیدہ معانی تھے جو ایک آسمانی پکار اور محبت آمیز ندا میں مضمر تھے۔ اب تفصیلات ۔ تفصیلات میں انسان کی تخلیق ، اس کی موزونیت اور اس کے غایت درجہاعتدال کے حقائق لائے جاتے ہیں۔ اگر اللہ چاہتا تو انسان کو کسی اور صورت میں بناسکتا تھا ، لیکن یہ محض اس کا فضل وکرم ہے کہ اس نے انسان کے لئے اس قدر خوبصورت شکل تجویز کی۔ اگر انسان صرف اپنی شکل و صورت اور جسمانی ساخت کی تکنیکی کمالات پر ہی غور کرے تو وہ اللہ کا شکر کرے ، مگر انسان نہ صرف یہ کہ شکر نہیں کرتا بلکہ وہ نہایت غرے کے ساتھ راہ غفلت پر سرپٹ دوڑ رہا ہے۔ ماغرک .................... فعدلک (7:82) ” اے انسان ! کس چیز نے تجھے اپنے اس رب کریم کی طرف سے دھوکے میں ڈال دیا جس نے تجھے پیدا کیا ، تجھے تک سک سے درست کیا ، تجھے متناسب بنایا “۔ یہ ایک ایسا اشارہ ہے کہ اگر انسان کی انسانیت بیدار ہو ، اور اس کا قلب ونظر پاک ہو ، تو اس سے اس کی انسانیت کا ذرہ ذرہ جاگ اٹھے اور اس کا پورا وجود کانپ اٹھے اس لئے کہ انسان کا خالق اس کی سرزنش کررہا ہے۔ اپنے احسانات بتلا کر سرزنش کرتا ہے جبکہ انسان خواب غفلت میں مدہوش ہے ، پراز تقصیرات زندگی بسر کررہا ہے ، بلکہ وہ اپنے آقا اور مولا کے بارے میں سخت گستاخ ہے حالانکہ اس آقا نے اسے اس قدر پیاری ، متناسب اور معتدل شکل و صورت اور شخصیت دی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کو موجودہ خوبصورت ، معتدل اور متناسب شکل پر پیدا کرنا اور اس اتمام اعضا کا اچھی طرح اپنے وظائف کو پورا کرتے چلے جانا ایک ایسی حقیقت ہے جس پر طویل تدبر اور جدوجہد کی ضرورت ہے ، اور اس غور وفکر کے بعد پھر شکر بجا لانا فرض ہے۔ اور اس بات کی ضرورت ہے کہ انسان ایسے خالق کے ساتھ دل کی گہرائیوں سے محبت رکھے اور اس کا احترام کرے۔ جس نے اس تخلیق کے ذریعے انسان کو مکرم بنایا ، اور یہ تکریم اور تفصیل اللہ کا محض فضل وکرم تھا ، اس لئے کہ اللہ اس بات پر قادر تھا کہ وہ انسان کو کسی بھی نئی شکل و صورت میں پیدا کرتا ، جس طرح چاہتا ، لیکن اللہ نے موجودہ خوبصورت پیاری اور معتدل اور متناسب شکل انسان کو عطا کی۔ حقیقت یہ کہ اپنی ساخت کے اعتبار سے انسان بےمثال ہے۔ اس کی شکل و صورت نہایت ہی موزوں ومعتدل ہے اور اس کی ساخت کے نقشے میں بیشمار عجائبات ہیں۔ خودانسان کو اللہ نے فہم وادراک کی جو قوت دی ہے اس کے جسم کے اندر موجود تکنیکی کمالات اور عجائبات اس کی قوت ادراک سے وراء ہیں۔ یہ تخلیق اس کائنات میں موجود دوسری تخلیقات سے بھی زیادہ عجیب ہے۔ خوبصورتی ، تناسب اور اعتدال انسان کے جسم سے بالکل عیاں ہیں ، خود انسان کو قوائے مدر کہ بھی اپنی جگہ عجائبات ہیں۔ انسانی نفسیات اور اس کی روحانی دنیا بھی عجیب تر ہے۔ اور نفسیاتی اور روحانی دنیا بھی اس کے جسمانی اعتدال اور تناسب کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔ دور جدید میں لوگوں نے صرف انسان کی جسمانی ساخت پر کئی کتابیں تصنیف کی ہیں اور ان میں تفصیلات کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ انسانی ساخت کے اندر کیا کیا تکنیکی عجائبات ہیں۔ پورا مطالعہ پیش کرنا تو ممکن نہیں ہے بعض اشارات پر ہم یہاں اکتفا کریں گے۔ انسانی جسم کے اندر جو بڑے بڑے نظام ہیں ، مثلاً ہڈیوں کا نظام ، عضلات کا نظام ، جلد کا نظام ، ہاضمے کا نظام ، دوران خون کا نظام ، سانس کا نظام ، تناسل کا نظام ، شریانوں کا نظام ، اعصاب کا نظام ، پیشاب کا نظام ، اس کی قوت ذائقہ ، قوت شامہ اور سمع وبصر کی قوتیں یہ تمام نظام اگر وقت نظر سے دیکھے جائیں تو اپنی اپنی جگہ پر سب عجائبات ہیں۔ انسان نے آج تک جس قدر پیچیدہ سے پیچیدہ تکنیکی آلات ایجاد کیے ہیں وہ ان نظاموں کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ انسان جب ان نظاموں پر غور کرتا ہے تو اس پر دہشت طاری ہوجاتی ہے اور وہ سکتے میں آجاتا ہے لیکن انسان ہے کہ اپنی ذات کے ان عظیم عجائبات سے صرف نظر کرلیتا ہے۔ سائنس کا ایک انگریزی جریدہ لکھتا ہے :” ہاتھ قدرت کے عجائبات میں سے ایک منفرد عجوبہ ہے۔ اسنانکے لئے ایسا آلہ ایجاد کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ کسی کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ ہاتھ کی طرح سادہ آلہ ایجاد کرے جس کے اندر وہ کمالات ہوں جو ہاتھ میں ہیں۔ انسان پڑھنے کے وقت کتاب کو ہاتھ سے پکڑتا ہے اور ہاتھ اسے آنکھ سے موزوں کرکے فاصل پر لے جاتے ہیں۔ یہ پوزیشن خود کار طریقے سے ہاتھ فورات طے کردیتے ہیں۔ اگر آپ کتاب کا ورق الٹنا چاہیں تو ہاتھ کی انگلی نہایت تکنیکی طریقے سے ورق پر رکھی جاتی ہے۔ اور تھوڑے سے دباﺅ سے ورق الٹ جاتا ہے۔ پھر قلم پکڑتے ہیں اور ہاتھ کے اعصاب خود بخود قلم کو چلاتے ہیں ، پھر یہ ہاتھ عجیب انداز سے انسانی ضرورت کے تمام ہتھیاروں اور اوزاروں کو استعمال کرتا ہے۔ چمچ ، چھری ، قلم اور دوسرے آلات خود بخود جس طرح ہم چاہیں ، ہاتھ کی گرفت میں آتے ہیں۔ یہ قدرتی آلہ 27 ہڈیوں اور 15 عضلات پر مشتمل ہے اور محیرالعقول ہے “۔ (اللہ اور جدید علم ، استاد عبدرازاق) انسان کا کان اور اس کا جوف دراصل چار ہزار کے لگ بھگ نصف قوس کی کمانوں پر مشتمل ہے ، یہ کمانیں نہایت عمدگی سے بنائی گئی ہیں اور باہم دگر نہایت تکنیکی اعتبار سے مربوط ہیں۔ یہ موسیقی کے آلات کے مشابہ ہیں۔ اور یہ کمانیں ہر قسم کی آواز کو ایک عجیب انداز سے عقل اور دماغ کی طرف منتقل کرتی ہیں۔ بجلی کی کڑک کی سخت آواز ہو یا درختوں کی نہایت خوشگوار سرسراہٹ ہو ، کرخت آواز ہو یا آلات موسیقی کی خوشگوار آواز ہو ، یہ نصف قوس کے بیشمار نشیب و فراز جو کان کے اندر بنے ہوئے ہیں ، اس آواز کو من وعن دماغ تک پہنچاتے ہیں “۔ ” آنکھ بھی ایک عجیب آلہ ہے ، روشنی کو اخذ کرنے والے تین کروڑ سے اوپر اعصاب کے سرے اس کے اندر موجود ہیں۔ پھر آنکھ کی حفاظت کے لئے پپوٹے اور اس کے اوپر پلکوں کا جنگلہ ہے۔ یہ نہایت خوبصورتی سے کسی بھی بیرونی چیز کو اندر آنے نہیں دیتے۔ اور خود کار طریقے سے حرکت میں رہتے ہیں۔ اور اجنبی چیزوں کو روکتے اور موڑتے ہیں۔ پلکوں کا سایہ دھوپ کی شدت کو بھی کم کرتا ہے اور پپوٹے خود کا طریقے سے آنکھ کو تر رکھتے ہیں۔ آنکھ کی صفائی کا نظام کس خوبصورتی سے کیا گیا ہے ، یہ سیال مادہ جسے آنسو کا نام دیا جاتا ہے یہ آنکھ کو ہر وقت صاف رکھتا ہے اور بہترین صفائی کرنے والا سیال ہے “۔ (علم ایمان کی دعوت دیتا ہے) ” چکھنے کا نظام انسان کی زبان میں رکھا گیا ہے۔ زبان کے لعاب دار پردے میں بیشمار چکھنے والے خلیے ہیں۔ یہ خلیے گھنڈیوں کی شکل میں ہیں۔ ان گھنڈیوں کی شکلیں مختلف ہوتی ہیں۔ کچھ ریشہ دار ہوتی ہیں ، بعض محدب ہوتی ہیں اور بعض پھٹی ہوئی ہوتی ہیں۔ اور یہ خلیے زبان کے نگلنے اور چکھنے والے پٹھوں سے غذا حاصل کرتے ہیں۔ جب انسان کوئی چیز کھاتا ہے تو اس عمل سے چکھنے والے اعصاب متاثر ہوتے ہیں اور یہ اثرات دماغ تک جاتے ہیں اور یہ پورا نظام انسانی منہ کے ابتدائی حصہ میں تخلیق کیا گیا ہے تاکہ اگر انسان کسی چیز کو ناپسند کرتا ہے تو اسے تھوک سکے۔ یوں منہ کے اندرہی انسان معلوم کرلیتا ہے کہ جو چیز کھائی جارہی ہے وہ تلخ ہے ، شیریں ہے ، گرم ہے ، سرد ہے ، نمکین ہے یا جلانے والی ہے۔ زبان کے اندر چکھنے کی تو ہزار گھنڈیاں ہیں اور پٹھوں کے ذریعہ دماغ کے ساتھ مربوط ہوتی ہیں ۔ ان کا حجم کیا ہے اور یہ کس طرح عمل کرتی ہیں ؟ یہ ایک حیرت انگیز بات ہے “۔ (اللہ اور جدید سائنس) ” اور پھر اعصاب کا نظام جو پورے جسم میں پھیلا ہوا ہے ، یہ ایسے باریک ریشوں کا مرکب ہے جو جسم کے ہر طرف پہنچے ہوئے ہیں۔ جسم کے کونے کونے سے آگے یہ بڑے اعصاف سے جڑتے جاتے ہیں۔ اور اعصاب کے مرکزی نظام سے مربوط ہوتے ہیں۔ اگر جسم کا کوئی حصہ بھی کسی طرح متاثر ہو تو یہ نظام مرکزی نظام کو اطلاع دیتا ہے ، چاہے موسم کی معمولی سی تبدیلی کیوں نہ ہو۔ یہ نظام پورے جسم سے احساسات داغ تک پہنچاتا ہے اور دماغ اس تاثر کے بعد حکم صادر کرتا ہے اور یہ نظام نہایت ہی تیزی سے پیغام رسانی کا کام کرتا ہے۔ اس پیغام رسانی کی رفتار سو میٹر فی سیکنڈ ہے “۔ ” نظام ہضم ایسا ہے جس طرح کوئی کیمیاوی لیبارٹری ہوتی ہے۔ کوئی چیز کھاتے ہی اس لیبارٹری میں ایک عجیب عمل شروع ہوتا ہے اور یہ فیکٹری ماسوائے معدے کے اس تھیلے کا سب کچھ چاٹ لیتی ہے۔ اور یہ عمل نہایت ہی حیرت انگیز طریقہ سے ہوتا ہے “۔ ” اس لیبارٹری میں ہم انواع و اقسام کے کھانے داخل کرتے ہیں ، ہمارے سامنے یہ بات نہیں ہوتی کہ ان کے ساتھ یہ لیبارٹری کیا کرے گی اور نہ ہم سوچتے ہیں کہ یہ کھانے کس طرح ہضم ہوں گے۔ گوشت ، تلی ہوئی مچھلی اور دوسری خوراکیں کچھ پانی کے ساتھ اس لیبارٹری میں داخل کردیتے ہیں “۔ (اللہ اور جدید سائنس) ” کھانوں کے اس مجموعے سے یہ لیبارٹری نفع بخش چیزیں لے لیتی ہے کہ تنور میں یہ مختلف کھانے اس طرح ٹوٹتے پھوٹتے ہیں کہ ان کے تمام اجزاء تحلیل ہوجاتے ہیں۔ وہ فضلات کو نکال کر باقی چیزوں کی پروٹین کی شکل دیتی ہے تاکہ ہو جسم کے مختلف خلیات کے لئے غذا کا کام دیں۔ یہ نظام ہضم اس ملغوبے سے ضروری اجزاء کیلشیم ، گندھک ، آیوڈین ، لوہا اور بیشمار دوسرے اجزاء اخذ کرلیتا ہے اور اس بات کا پورا خیال رکھتا ہے کہ کوئی کارآمد جزضائع نہ ہو ، تاکہ ان سے ہر مون پیدا ہوں اور انسانی زندگی کے لئے تمام ضروری مواد بقدر ضرورت مہیا ہوتا رہے اور نہایت منظم طریقے سے ہوتا رہے۔ معدہ چربی اور دوسرے بعض اجزاء کا ذخیرہ بھی کرتا ہے تاکہ ہنگامی ضروریات کے وقت یہ مواد کام آسکے۔ اور یہ لیبارٹری یہ سب کام خود کار طریقے سے کرتی ہے اور انسان کو نہ اس کے بارے میں سوچنا پڑتا ہے اور نہ کوئی کام کرنا پڑتا ہے۔ نہ انسان کو اس کے اسباب وعلل معلوم ہوتے ہیں۔ ہم بس اس کے اندر بیشمار چیزیں ڈال دیتے ہیں اور پھر یقین ہوتا ہے کہ ہماری زندگی کو جاری رکھنے کے لئے معدہ خود بخود ضروری اشیاء اخذ کرے گا۔ اور سارے کام خود کرے گا۔ جب خوراک ، نظام ہضم کے ذریعے نئی شکل اختیار کرتی ہے تو معدہ ان کو جسم کے کھربوں خلیات تک ان کی خوراک کے طور پر پہنچاتا ہے۔ اس کرہ ارض پر پوری آبادی سے زیادہ خلیات خود ایک انسان کے جسم میں ہیں۔ اور ہر خلیہ الگ خوراک مانگتا ہے جسے فراہم کیا جاتا ہے۔ ہر خلیہ تک صرف اس کی ضرورت کی غذا پہنچتی ہے۔ اور یہ خلیات پھر اعضاء کی شکل اختیار کرتے ہیں مثلاً ہڈیاں ، ناخن ، کان ، آنکھیں ، دانت اور دوسرے اعضائ “۔ ” پس معدہ ایک ایسی لیبارٹری ہے جو کسی بھی انسان تخلیق کردہ لیبارٹری سے زیادہ پیچیدہ ہے۔ اور اس کے ساتھ ترسیل کا ایک عجیب نظام ہے جو کسی بھی انسانی نظام ترسیل اور اخذ سے زیادہ ٹیکنیکل ہے۔ اور آج تک انسان نے ایسا پیچیدہ نظام نہ دیکھا ہے نہ ایجاد کیا ہے اور اس لیبارٹری کا نظام نہایت ضبط اور منصوبہ بندی سے کام کرتا ہے۔ (یہ تمام اقتباسات کتاب ” سائنس ایمان کی دعوت دیتی ہے “ سے لیے گئے ہیں) ۔ انسانی جسم کے اندر کام کرنے والے نظاموں کے بارے میں بھی بہت کچھ کہا جاتا ہے۔ لیکن ان تمام نظاموں میں انسان کے ساتھ حیوانات بھی کسی نہ کسی طرح شریک ہیں۔ اگرچہ ان میں سے ہر نظام خواہ انسانوں میں ہو یا حیوانات میں ، اپنی جگہ معجز ہے۔ لیکن انسان کی عقلی ، فکری اور روحانی خصوصیات وہ ہیں جس میں یہ منفرد ہے اور یہ وہی خصوصیات ہیں جن کے بارے میں اللہ انسان کو اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ یہ اس پر اس کا احسان عظیم ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ان آیات میں انسان کو اس کا حال بتایا ہے اور اسے توجہ دلائی ہے کہ وہ خالق ومالک کی طرف متوجہ ہو۔ انسان کچھ بھی نہیں تھا اللہ تعالیٰ شانہ نے اسے پیدا فرمایا، وجود بخشا اس کے جسم کو نہایت عمدہ ترتیب کے ساتھ ٹھیک بنایا اور اپنی حکمت کے مطابق جس صورت میں چاہا ڈھال دیا، انسان اپنے اختیار سے نہ پیدا ہوا نہ قد کی درازی میں اسے کوئی دخل ہے نہ موٹا پتلا ہونے میں نہ حسین و قبیح ہونے میں، وہ جس صورت اور حالت میں ہے سب اللہ تعالیٰ کی مشیت سے ہے ہر شخص اپنی اپنی صورت میں چلتا پھرتا ہے اسی کی طرف متوجہ رہنا اور اسی کا بھیجا ہوا دین قبول کرنا اور اسی کے احکام پر عمل پیرا ہونا لازم ہے اب انسانوں میں بہت سے لوگ تو ملحد و زندیق ہیں جو اللہ تعالیٰ کو مانتے ہی نہیں اور بہت سے ایسے ہیں جو خالق جل مجدہ کے وجود کو تو مانتے ہیں لیکن اس کے ساتھ شرک کرتے ہیں اور اس کے دین کو قبول نہیں کرتے اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو اس کا دین بھی قبول کرتے ہیں لیکن اس کے اوامرو نواہی پر عمل نہیں کرتے فرائض چھوڑتے رہتے ہیں اور گناہ کرتے رہتے ہیں اور جب کسی کے یاد دلانے سے خیال آجاتا ہے کہ گنہگاری کی زندگی اچھی نہیں ہے تو نفس اور شیطان یہ سمجھا دیتے ہیں کہ ارے میاں چلتے رہو مزے کرتے رہو تمہارا رب کریم ہے بخش دے گا بڑی زندگی پڑی ہے توبہ کرلینا وغیرہ وغیرہ حالانکہ جس ذات پاک کے اتنے بڑے بڑے احسانات اور انعامات ہیں اس کی تو ذرا سی نافرمانی کرنا بھی مقتضائے عقل کے خلاف ہے۔ بات یہ ہے کہ وفاداری کا مزاج نہیں ہے جس ذات پاک نے وجود بخشا ان گنت نعمتوں سے نوازا اس کی نافرمانی بڑی ہو یا چھوٹی (صغیرہ گناہ ہوں یا کبیرہ) سراسر بےوفائی ہے اگر گناہ پر عذاب نہ ہونا یقینی ہوتا اور بخش دیا جانا ہی متعین ہوتا تب بھی ہر چھوٹے بڑے گناہ سے بچنا لازم تھا عذاب کے ڈر سے نافرمانی سے بچنا یہ نمک حرام غلام کا خاصہ ہے جو ڈنڈے کا فرمانبردار ہوتا ہے۔ یہ آقا کا فرمانبردار نہیں، نمک حلال اور وفادار تو ذرا سی نافرمانی کے تصور سے بھی کانپ اٹھتا ہے۔ اس کے سامنے نعمتیں ہوتی ہیں جن کے استحضار سے وفاداری کا مزاج بنا ہوا ہوتا ہے وفادار کی نظر صرف حکم پر ہوتی ہے وہ یہ نہیں دیکھتا کہ حکم نہ مانا تو مار پڑے گی یا معافی ہوجائے گی بلکہ نافرمانی کی زندگی ہی کو عذاب کے برابر سمجھتا ہے ڈنڈا لگنے سے تو بظاہر جسم کو تکلیف ہوتی ہے لیکن نافرمانی کی وجہ سے جو وفاداری میں فرق آگیا اس کی ندامت میں پگھلنا وفادار بندہ کے لیے جسمانی عذاب سے زیادہ ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

3:۔ ” یا ایہا الانسان “ یہ زجر ہے۔ اے انسان تجھے اپنے رب کے بارے میں کس چیز نے دھوکہ میں ڈال رکھا ہے کہ تو اس کے احکام سے غافل ہو کر عصیان و طغیان پر کمر بستہ ہوچکا ہے وہ نہایت مہربان اور بخشش کرنے والا ہے۔ اس نے تجھے پیدا کیا، ہر عضو کو صحیح سالم بنایا اور تمام اعضاء کو متناسب بنا کر قد و قامت، نقش و نگار اور حسن و جمال کے جس مرتبہ میں چاہا تجھے ڈھالا۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت و بخشش اور اس کی شان کریمی پر تمہیں مغرور ہو کر اس کی اطاعت سے تجھے غافل نہیں ہوجانا چاہئے بلکہ اس کی نعمتوں کا شکر کرنا اور اس کی عبادت وطاعت کو اپنا شعار زندگی بنانا چاہئے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(6) اے آدمی تجھ کو تیرے پروردگار کے متعلق جو کریم اور صاحب کرم ہے کسی چیز نے فریب میں ڈال رکھا ہے یعنی کسی چیز نے تجھ کو اپنے پروردگار سے بھول میں اور دھوکے میں ڈال دیا اور کس چیز نے تجھ کو اس کے عتاب اور اس کی گرفت سے بےخوف اور مامون کردیا۔ جس نے تجھ پر کس قدر احسان کئے اس سے غافل ہوگیا اور باوجود غیر مامون ہونے کے اپنے آپ کو مامون اور حفاظت میں سمجھنے لگا آگے احسانات کا بیان ہے بعض اہل اشارات کا قول ہے کہ اور تمام اوصاف کو چھوڑ کر اپنا وصف کریم بیان فرمایا تویہاں تلقین حجت کا اظہار ہے۔ اسی بنا پر حضرت ابوبکر واراق کا قول ہے کہ اگر مجھ سے دریافت کیا گیا تو میں عرض کروں گا۔ غرنی کرم الکریم یعنی مجھ کو کریم کے کرم نے بھلایا۔ حضرت فضیل سے کسی نے دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا۔ غرنی ستورک المرخاۃ یعنی آپ کی پردہ پوشی نے مجھ کو بھول میں ڈال دیا۔ یحییٰ معاذ رازی نے فرمایا۔ اقول غرنی سالفاء الفاً ، یعنی گناہوں سے درگزر کرنے اور ذنوب سابقہ اور آنفہ پر گرفت نہ فرمانا اس نے دھوکا دیا بہرحال حضرات اہل اشارات نے جو کچھ فرمایا ہے اس میں سے کچھ عرض کردیا اہل تحقیق کا مسلک یہ ہے کہ یہاں کریم کہنے سے تلقین حجت نہیں ہے بلکہ مانع کی تقویت پہنچانے کی غرض سے فرمایا ہے یعنی کرم تقاضا اور ان کی کریمی کا مقتضا یہ ہے کہ انسان اس کی طرف زیادہ توجہ کرے اور اس کے ہر حکم کی تعمیل میں سرگرم رہے کیونکہ جس آقا کے اتنے کرم ہوں اس کی نافرمانی اور اس کی حکم عدولی انتہائی حمق اور نادانی ہے آگے کریم کے مزید احسانات فرمائے۔