Surat ul Infitaar

Surah: 82

Verse: 9

سورة الإنفطار

کَلَّا بَلۡ تُکَذِّبُوۡنَ بِالدِّیۡنِ ۙ﴿۹﴾

No! But you deny the Recompense.

ہرگز نہیں بلکہ تم تو جزا و سزا کے دن کو جھٹلاتے ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Nay! But you deny (the Day of) Ad-Din. meaning, `you are only compelled to oppose the Most Generous and meet Him with disobedience, by your rejection in your hearts of the Hereafter, the recompense and the reckoning.' Concerning Allah's statement, وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩] یعنی تمہارے اللہ تعالیٰ کی مہربانیوں سے انکار کی وجہ یہ نہیں کہ تمہیں بات کی سمجھ نہیں آتی۔ بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ تم جزا و سزا کے قانون الٰہی کے منکر ہو۔ تمہاری خواہش یہ ہے کہ تم جیسے بھی دنیا میں زندگی بسر کرتے رہو تم سے مرنے کے بعد کوئی محاسبہ نہ ہو اور یہ کس قدر ظلم اور بےانصافی کی بات ہے کہ...  تمہیں قوتیں اور تصرف و اختیار تو تمام مخلوق پر دیا جائے لیکن تم پر ذمہ داری کچھ بھی نہ ہو ؟ یہ دھوکا تمہیں کیسے لگ جاتا ہے ؟   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(کلا بل تکذبون بالدین : یعنی دھوکا کھانے کا سبب یہ نہیں کہ تمہیں رب کریم کی مہربانیوں پر بہت اعتماد ہے، بلکہ یہ باطل خیال ہے کہ ہمیں نہ دوبارہ زندہ ہونا ہے اور نہ اعمال کا بدلا ملنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تمام بد اعمالیوں کا اصل سبب روز جزا کو جھٹلانا ہے اور اسی کو تم جھٹلا رہے ہو۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

كَلَّا بَلْ تُكَذِّبُوْنَ بِالدِّيْنِ۝ ٩ ۙ كلا كَلَّا : ردع وزجر وإبطال لقول القائل، وذلک نقیض «إي» في الإثبات . قال تعالی: أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم/ 77- 79] وقال تعالی: لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون/ 100] إلى غير ذلک من الآیات، وقال : كَلَّا لَ... مَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس/ 23] . کلا یہ حرف روع اور زجر ہے اور ماقبل کلام کی نفی کے لئے آتا ہے اور یہ ای حرف ایجاب کی ضد ہے ۔ جیسا کہ قرآن میں ہے ۔ أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم/ 77- 79] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیتوں سے کفر کیا ۔ اور کہنے لگا اگر میں ازسر نو زندہ ہوا بھی تو یہی مال اور اولاد مجھے وہاں ملے گا کیا اس نے غیب کی خبر پالی ہے یا خدا کے یہاں ( سے ) عہد لے لیا ہے ہر گز نہیں ۔ لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون/ 100] تاکہ میں اس میں جسے چھوڑ آیا ہوں نیک کام کروں ہرگز نہیں ۔ كَلَّا لَمَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس/ 23] کچھ شک نہیں کہ خدا نے سے جو حکم دیا ۔ اس نے ابھی تک اس پر عمل نہیں کیا ۔ اور اس نوع کی اور بھی بہت آیات ہیں ۔ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے دين والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] ( د ی ن ) دين الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩{ کَلَّا بَلْ تُکَذِّبُوْنَ بِالدِّیْنِ ۔ } ” ہرگز نہیں ! بلکہ اصل میں تم جزا و سزا کا انکار کر رہے ہو۔ “ تم لوگ یہ جو اللہ تعالیٰ کی شان غفاری کے قصیدے پڑھ رہے ہو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ تم اس کی رحمت اور بخشش پر واقعتابہت پختہ یقین بھی رکھتے ہو ‘ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اپنے اس فلسفے کی آڑ...  میں تم جزا و سزاکا انکار کرنا چاہتے ہو۔ اسی طرح کے ایک ” قصیدے “ کی یہ جھلک ملاحظہ کیجیے اور پھر فیصلہ کیجیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور شان غفاری کا اقرار ہے یا اس کے فلسفہ جزا و سزا کا مذاق : ؎ عصیاں سے کبھی ہم نے کنارا نہ کیا پر تو نے دل آزردہ ہمارا نہ کیا ہم نے تو جہنم کی بہت کی تدبیر لیکن تیری رحمت نے گوارا نہ کیا ! اگر کوئی شخص واقعی پوری دیدہ دلیری سے جہنم کی تدبیر اور کوشش کر رہا ہے تو اللہ تعالیٰ کے عدل کا تقاضا تو یہی ہے کہ اس کی خواہش پوری کرتے ہوئے اسے جہنم میں جھونک دیاجائے ۔ چناچہ ایسے خیالات و نظریات کے حامل لوگ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور شان غفاری کی من مانی تشریح کر کے نہ صرف اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں ‘ بلکہ عملی طور پر جزا و سزا کے فلسفہ کا ہی انکار کر رہے ہیں۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

5 That is, "There is no reasonable ground for you to be deluded. Your own physical existence itself tells that you did not come into being by yourself; your parents also did not make you. Man also did not come about as a result of the elements combining together by themselves accidentally; but a Wise and Powerful God has composed you into this perfect human shape and form. There are other kinds of...  animals in the world compared with which your excellent form and structure and your superior powers and faculties stand out in sharp contrast. Reason demanded that in view of all this you should have submitted gratefully and should never have dared commit disobedience of your beneficent Sustainer. You also know that your Lord and Sustainer is not only Compassionate and Bountiful but Almighty and Omnipotent as well. When an earthquake, cyclone or flood occurs by His Command, all your devices and measures tail to be effective. You also know that your Lord and Sustainer is not ignorant and foolish but Wise and knowing, and the necessary demand of wisdom and knowledge is that whoever is given intellect should also be held responsible for his acts; whoever is given powers should also be held accountable as to how he used those powers; and whoever is given the choice to do good or evil on his own responsibility, should also be rewarded for his good act and punished for his evil act. All these truths are clearly and plainly known to you; therefore, you cannot say that there exists a reasonable ground for you to be deluded concerning your Lord. Your own nature is sufficient evidence that the beneficence of the Master should never cause the servant to be fearless of Him, and be involved in the misunderstanding that he may do whatever he pleases, no one can harm him in any way. 6 That is,"You have not been deluded and beguiled by any good reason but by your foolish concept that there is going to be no meting out of rewards and punishments after the life of this world. It is this wrong and baseless concept which has made you heedless of God, fearless of His justice and irresponsible in your moral attitude. "  Show more

سورة الْاِنْفِطَار حاشیہ نمبر :5 یعنی کوئی معقول وجہ اس دھوکے میں پڑنے کی نہیں ہے ۔ تیرا وجود خود بتا رہا ہے کہ تو خود نہیں بن گیا ہے تیرے ماں باپ نے بھی تجھے نہیں بنایا ہے ، عناصر کے آپ سے آپ جڑ جانے سے بھی اتفاقاً تو انسان بن کر پیدا نہیں ہو گیا ہے ، بلکہ ایک خدائے حکیم و توانا نے تجھے اس مکمل...  انسانی شکل میں ترکیب دیا ہے ۔ تیرے سامنے ہر قسم کے جانور موجود ہیں جن کے مقابلے میں تیری بہترین ساخت اور تیری افضل و اشرف قوتیں صاف نمایاں ہیں ۔ عقل کا تقاضا یہ تھا کہ اس کو دیکھ کر تیرا سر بار احسان سے جھک جاتا اور اس رب کریم کے مقابلے میں تو کبھی نافرمانی کی جرات نہ کرتا ۔ تو یہ بھی جانتا ہے کہ تیرا رب صرف رحیم و کریم ہی نہیں ہے ، جبار و قہار بھی ہے ۔ جب اس کی طرف سے کوئی زلزلہ یا طوفان یا سیلاب آ جاتا ہے تو تیری ساری تدبیریں اس کے مقابلہ میں ناکام ہو جاتی ہیں ۔ تجھے یہ بھی معلوم ہے کہ تیرا رب جاہل و نادان نہیں بلکہ حکیم و دانا ہے ، اور حکمت و دانائی کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ جسے عقل دی جائے اسے اس کے اعمال کا ذمہ دار بھی ٹھہریا جائے ۔ جسے اختیارات دیے جائیں اس سے حساب بھی لیا جائے کہ اس نے اپنے اختیارات کو کیسے استعمال کیا ، اور جسے اپنی ذمہ داری پر نیکی اور بدی کرنے کی طاقت دی جائے اسے نیکی پر جزا اور بدی پر سزا بھی دی جائے ۔ یہ سب حقیقتیں تیرے سامنے روز روشن کی طرح عیاں ہیں اس لیے تو یہ نہیں کہہ سکتا کہ اپنے رب کریم کی طرف سے جس دھوکے میں تو پڑ گیا ہے اس کی کوئی معقول وجہ موجود ہے ۔ تو خود جب کسی کا افسر ہوتا ہے تو اپنے اس ماتحت کو کمینہ سمجھتا ہے جو تیری شرافت اور نرم دلی کو کمزوری سمجھ کر تیرے سر چڑھ جائے اس لیے تیری اپنی فطرت یہ گواہی دینے کے لیے کافی ہے کہ مالک کا کرم ہرگز اس کا موجب نہ ہونا چاہیے کہ بندہ اس کے مقابلے میں جری ہو جائے اور اس غلط فہمی میں پڑ جائے کہ میں جو کچھ چاہوں کروں ، میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔ سورة الْاِنْفِطَار حاشیہ نمبر :6 یعنی دراصل جس چیز نے تم لوگوں کو دھوکے میں ڈالا ہے وہ کوئی معقول دلیل نہیں ہے بلکہ محض تمہارا یہ احمقانہ خیال ہے کہ دنیا کے اس دارالعمل کے پیچھے کوئی دارالجز نہیں ہے ۔ اسی غلط اور بے بنیاد گمان نے تمہیں خدا سے غافل ، اس کے انصاف سے بے خوف ، اور اپنے اخلاقی رویے میں غیر ذمہ دار بنا دیا ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

2: یعنی اﷲ تعالیٰ کی قدرت کے بارے میں یہ دھوکہ نہیں کھانا چاہئے کہ معاذاللہ وہ مردوں کو دوبارہ زندہ نہیں کرسکتا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(82ـ:9) کلا۔ یہ اللہ کے کرم سے فریب خوردہ ہونے سے باز داشت ہے (تفسیر مظہری) یعنی اگر اللہ تعالیٰ اپنی کرم نوازی سے ہماری لغزشوں کی سزا فوری نہیں دیتا اور اپنی نعمتیں باوجود ہماری ناشکری کے اور غرور کے پیہم جاری و ساری رکھتا ہے تو ہمیں کسی قسم کے غرور یا دھوکہ میں مبتلاء نہیں ہونا چاہیے۔ صاحب تفسیر...  حقانی اس کی تشریح کچھ یوں فرماتے ہیں :۔ کہ کیا جس انسان کو رب کریم نے یہ کچھ دیا یہ اس کے مقابلہ میں شکر گزاری کرتا ہے ؟ کلا ہرگز نہیں۔ (مزید ملاحظہ ہو 74:32) بل تکذبون بالدین، بل حرف اضراب ہے ماقبل کے ابطال اور مابعد کی تصحیح کے لیے آیا ہے۔ یعنی رب کریم کی کرم نوازیوں کا شکر بجالانا تو کجا بلکہ تم لوگ تو (اے انسان) دین کی تکذیب کرتے ہو۔ الدین سے مراد ہے اسلام یا جزا و سزائ۔ دین ۔ دان یدین (باب ضرب) کا مصدر ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 یعنی یہی نہیں کہ تم اپنے خالق ومالک سے غافل ہو بلکہ قیامت سے بھی انکار کرتے ہو اس لئے شتر بےمہار کی طرح جو چاہتے ہو کرتے ہو۔ اس چیز نے تمہاری زندگی کو حیوانوں سے بدتر بنادیا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

لفظ کلا بھی زجرو توبیخ کا لفظ ہے ، اس کے ذریعہ سرزنش کی جاتی ہے کہ تم جس حال میں ہو ، یہ درست نہیں ہے۔ تمہاری سوچ غلط ہے۔ اس کے ذریعے سابقہ موضوع سے بات کو دوسرے سے بات کو دوسرے موضوع اور نکتے کی طرف منتقل کیا جاتا ہے۔ ایک نئی بات سامنے لائی جاتی ہے اور یہ تاکید اور زور دار بات کرنے کا ایک انداز ہے۔...  یہ انداز عتاب اور یاددہانی اور تصویر کشی سے الگ ہے۔ کلا بل ................ بالدین (9:82) ” ہرگز نہیں ! بلکہ (اصل بات یہ ہے کہ) تم لوگ جزا وسزا کو جھٹلاتے ہو “۔ تمہیں یہ یقین نہیں ہے کہ اس زندگی کا جواب بھی دینا ہے اور یہی ہے تمہاری غفلت کا حقیقی سبب۔ جس کی وجہ سے تم سے تقصیرات ہوتی ہیں۔ یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ ایک شخص زندگی کی جوابدہی اور حساب و کتاب پر یقین نہ رکھتا ہو اور پھر وہ سیدھے راستے پر بھی چلتا ہو ، بھلائی بھی کرتا ہو ، اور اللہ کی اطاعت بھی کرتا ہو۔ بعض اوقات ، بعض لوگوں کے دل اس قدر صاف و شفاف ہوجاتے ہیں کہ وہ رب کی اطاعت صرف رب کی محبت کی وجہ سے کرتے ہیں۔ اس وجہ سے نہیں کرتے کہ اللہ ان کو سزا دے گا یاجزاء دے گا ، اور ان کو کسی انعام کا کوئی لالچ ہی نہیں رہتا۔ لیکن ایسے لوگ بھی قیامت پر یقین رکھتے ہیں ، اللہ سے ڈرتے ہیں اور اللہ کے ساتھ ملاقات کے شائق ہوتے ہیں اور ان کی خواہش ہوتی ہے کہ جس رب کے ساتھ انہیں محبت ہے اس کو دیکھیں۔ لیکن جب کوئی قیامت کی تکذیب کرتا ہے تو وہ آداب زندگی ، اطاعت رب اور نورانیت اور روحانیت سے محروم ہوجاتا ہے۔ اس کے جسم کے اندر زندہ دل نہیں ہوتا ، اور اس کا ضمیر مردہ ہوجاتا ہے۔ تم لوگ روز جزاء کی تکذیب کرتے ہو لیکن تم دراصل قیامت کے دن کی طرف کشاں کشاں جارہے ہو ، تمہاری زندگی کا ریکارڈ تیار ہورہا ہے۔ کوئی عمل ضائع نہیں ہوتا اور نہ ضبط کیے جانے سے چھوٹ سکتا ہے۔ نہ فرشتے بھولتے ہیں۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿كَلَّا﴾ (ہرگز نہیں ! ) یعنی نفس و شیطان کے دھوکہ میں نہ آئیں دھوکہ میں پڑنا اپنی خیر خواہی کے خلاف ہے اور اس سے بڑھ کر تمہارا اپنی جانوں پر یہ ظلم ہے کہ تم جزا اور سزا ہی کو جھٹلاتے ہو (اور یہ سمجھتے ہو کہ کوئی مواخذہ اور محاسبہ ہونا ہی نہیں ہے) حالانکہ تم پر نگراں مقرر ہیں جو معزز ہیں (اللہ کے نزد... یک مکرم ہیں) اور تمہارے اعمال کو لکھنے والے ہیں اور تم جو کام کرتے ہو وہ ان کو جانتے ہیں (لہٰذا تمہاری بھلائی اسی میں ہے کہ ایمان اور اعمال صالحہ اختیار کرو اور گناہوں سے بچو) ۔ اس کے بعد قیامت کے دن کی جزا اور سزا کا اجمالی تذکرہ فرمایا۔ ﴿اِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِيْ نَعِيْمٍۚ٠٠١٣﴾ (بلاشبہ نیک لوگ نعمتوں میں ہوں گے) جن کی تفصیل دوسری آیات میں مذکور ہے۔ ﴿وَ اِنَّ الْفُجَّارَ لَفِيْ جَحِيْمٍۚۖ٠٠١٤﴾ (اور بلاشبہ بدکار لوگ دوزخ میں ہوں گے) ۔ ﴿يَّصْلَوْنَهَا يَوْمَ الدِّيْنِ ٠٠١٥﴾ (وہ بدلہ کے دن اس میں داخل ہوں گے) ۔ ﴿وَ مَا هُمْ عَنْهَا بِغَآىِٕبِيْنَؕ٠٠١٦﴾ اور وہ اس سے باہر نہ جائیں گے یعنی دائماً ابداً سرمداً دوزخ ہی میں رہیں گے اس مضمون کو سورة المائدہ میں یوں بیان فرمایا : ﴿ يُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّخْرُجُوْا مِنَ النَّارِ وَ مَا هُمْ بِخٰرِجِيْنَ مِنْهَا ١ٞ وَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّقِيْمٌ٠٠٣٧﴾ (وہ چاہیں گے کہ اس میں سے نکلیں حالانکہ وہ اس میں سے نہ نکل پائیں گے اور ان کے لیے عذاب دائمی ہے) ۔ ﴿وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا يَوْمُ الدِّيْنِۙ٠٠١٧﴾ (اور اے مخاطب تجھے معلوم ہے کہ رو زجزا کیا ہے) ۔ ﴿ثُمَّ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا يَوْمُ الدِّيْنِؕ٠٠١٨﴾ (پھر تجھ سے سوال ہے کہ بتا روز جزا کیا ہے) ۔ تجھے بار بار اس کے حالات بتائے گئے ہیں اور جزا و سزا کی تفصیل بیان کی گئی ہے ان سب کو جان کر سمجھ کر تجھے روز جزا کے لیے فکر مند ہونا چاہیے اس دن کا حال اجمالی طور پر پھر تجھے بتایا جا رہا ہے۔ ﴿يَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَيْـًٔا ١ؕ﴾ (یہ وہ دن ہوگا جس میں کسی جان کا کسی جان کے لیے کچھ بھی بس نہ چلے گا) ۔ ﴿وَ الْاَمْرُ يَوْمَىِٕذٍ لِّلّٰهِ (رح) ٠٠١٩ ﴾ (اور اس دن ساری حکومت اللہ ہی کے لیے ہوگی) دنیا میں جو مجازی حکومتیں ہیں بادشاہ ہیں اور حکام ہیں قاضی ہیں اور جج ہیں ان میں سے کسی کا کچھ بھی زور اس روز نہ چلے گا بلکہ یہ خود پکڑے ہوئے آئیں گے اور ان کی پیشیاں ہوں گی اپنے کفریہ مظالم اور غیر شرعی فیصلوں کی سزا انہیں بھگتنی ہوگی۔ وھذا آخر تفسیر سورة الانفطار والحمدللہ العلی الغفار والصلٰوة علی نبیہ سید الابرار وعلی آلہ وصحبہ المھتدین الاخیار  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

4:۔ ” کلا “ یہ ماقبل سے ردع کہ تمہیں اللہ تعالیٰ کی شان کریمی سے مغرور ہو کر اس سے غافل نہیں ہونا چاہئے۔ ” بل تکذبون بالدین “ یہ ماقبل سے ترقی ہے کہ تم اللہ کے احکام سے غفلت کو ختم کرنے کے بجائے ایک اور بہت بڑے گناہ کا ارتکاب کر رہے اور سرے سے جزاء و سزاء کو جھٹلا رہے ہو۔ انتم لا ترتدعون عن ذلک بل ت... جترءون علی اعظم منہ حیث تکذبون بالجزاء والبعث راسا (روح ج 30 ص 65) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(9) نہیں نہیں بلکہ تم تو جزاوسزا کی ہی تکذیب کرتے ہو اور قیامت ہی کو جھٹلاتے ہو۔ اوپر کی تمام آیتیں بلکہ لفظ کریم ہی ایک مستقل دلیل ہے قیامت کی لیکن تم اس قدر غرور اور بھول اور غفلت میں پڑے ہوئے ہو کہ جزا اور سزا ہی کو جھٹلاتے ہو اور کسی ایسے دن کو مانتے ہی نہیں جس دن ظالم سے مظلوم کا بدلہ لیا جائی ... اس دن پر اگر ایمان رکھتے تو تم اغترار میں مبتلا نہ ہوتے کیونکہ قیامت پر ایمان لانا ہی تو دافع اغترار ہے اور تم اس پر یقین نہیں رکھتے تم اس دن کو جھٹلاتے اور اس دن کی تکذیب کرتے ہو۔ آگے فرمایا کہ اچھا ہم نے بھی اپنے فرشتے تم پر مقرر کر رکھے ہیں تم جو اعمال کرتے ہو اس پر ہمارے فرشتے نگہبان ہیں تم کو تکذیب کی ضرور سزا دی جائیگی ۔ چناچہ ارشاد فرماتے ہیں۔  Show more