Surat ul Burooj
Surah: 85
Verse: 1
سورة البروج
وَ السَّمَآءِ ذَاتِ الۡبُرُوۡجِ ۙ﴿۱﴾
By the sky containing great stars
برجوں والے آسمان کی قسم!
وَ السَّمَآءِ ذَاتِ الۡبُرُوۡجِ ۙ﴿۱﴾
By the sky containing great stars
برجوں والے آسمان کی قسم!
The Explanation of the Promised Day and the Witness and the Witnessed Allah swears, وَالسَّمَاء ذَاتِ الْبُرُوجِ By the heaven holding the Buruj. Allah says, وَالْيَوْمِ الْمَوْعُودِ
سب سے افضل اور اعلیٰ دن اور ذکر ایک موحد کا بروج سے مراد بڑے بڑے ستارے ہیں جیسے کہ آیت ( جَعَلَ فِي السَّمَاۗءِ بُرُوْجًا وَّجَعَلَ فِيْهَا سِرٰجًا وَّقَمَرًا مُّنِيْرًا 61 ) 25- الفرقان:61 ) کی تفسیر میں گزر چکا ، حضرت مجاہد سے مروی ہے کہ بروج وہ ہیں جن میں حفاطت کرنے والے رہتے ہیں ۔ یحییٰ فرماتے ہیں یہ آسمانی محل ہے ، منہال بن عمرو کہتے ہیں مراد اچھی بناوٹ والے آسمان ہیں ، ابن خیثمہ فرماتے ہیں اس سے مراد سورج چاند کی منزلیں ہیں جو بارہ ہیں کہ سورج ان میں سے ہر ایک میں ایک مہینہ چلتا رہتا ہے اور چاند ان میں سے ہر ایک میں دو دن اور ایک تہائی دن چلتا ہے تو یہ اٹھائیس دن ہوئے اور دو راتوں تک وہ پوشیدہ رہتا ہے ، نہیں نکلتا ، ابن ابی حاتم کی حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں یوم موعود سے مراد قیامت کا دن ہے اور شاہد سے مراد جمعہ کا دن ہے ، سورج جن جن دنوں میں نکلتا اور ڈوبتا ہے ان میں سے سب سے اعلیٰ اور افضل دن جمعہ کا دن ہے اس میں ایک ساعت ایسی ہے کہ اس میں بندہ جو بھلائی طلب کرے مل جاتی ہے اور جس برائی سے پناہ چاہے ٹل جاتی ہے اور مشہود سے مراد عرفہ کا دن ہے ، ابن خزیمہ میں بھی یہ حدیث ہے موسیٰ بن عبید زیدی اس کے راوی ہیں اور یہ ضعیف ہیں یہ روایت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے خود ان کے قول سے مروی ہے اور یہی زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے ، مسند میں حضرت ابو ہریرہ سے بھی یہی مروی ہے اور حضرات سے بھی یہ تفسیر مروی ہے اور ان میں اختلاف نہیں فالحمد اللہ ، اور روایت میں مرفوعاً مروی ہے کہ جمعے کے دن کو جسے یہاں شاہد کہا گیا ہے یہ خاص ہمارے لیے بطور خزانے کے چھپا رکھا تھا اور حدیث میں ہے کہ تمام دنوں کا سردار جمعہ کا دن ہے ، ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ شاہد سے مراد خود ذات محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مشہود سے مراد قیامت کا دن ہے پھر آپ نے یہ آیت پڑھی ، آیت ( ذٰلِكَ يَوْمٌ مَّجْمُوْعٌ ۙ لَّهُ النَّاسُ وَذٰلِكَ يَوْمٌ مَّشْهُوْدٌ ١٠٣ ) 11-ھود:103 ) یعنی اس دن کے لیے لوگ جمع کئے گئے ہیں اور یہ دن مشہود یعنی حاضر کیا گیا ہے ایک شخص نے حضرت امام حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ شاہد اور مشہود کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا تم نے کسی اور سے بھی پوچھا ؟ اس نے کہا ہاں ابن عمر اور ابن زبیر سے ، فرمایا انہوں نے کیا جواب دیا ؟ کہا قربانی کا دن اور جمعہ کا دن ، کہا نہیں بلکہ مراد شاہد سے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں جیسے قرآن میں اور جگہ ہے آیت ( فَكَيْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍۢ بِشَهِيْدٍ وَّجِئْنَا بِكَ عَلٰي هٰٓؤُلَاۗءِ شَهِيْدًا 41ڲ ) 4- النسآء:41 ) یعنی کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت میں سے گواہ لائیں گے اور تجھے ان پر گواہ بنائیں گے اور مشہود سے مراد قیامت کا دن ہے قرآن کہتا ہے ، وذالک یوم مشھود یہ بھی مروی ہے کہ شاہد سے مراد ابن آدم اور مشہود سے مراد قیامت کا دن اور مشہود سے مراد جمعہ بھی مروی ہے اور شاہد سے مراد خود اللہ بھی ہے اور عرفہ کا دن بھی ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے جمعہ کا دن مجھ پر بکثرت درود پڑھا کرو وہ مشہود دن ہے جس پر فرشتے حاضر ہوتے ہیں ، حضرت سعید بن جیبر فرماتے ہیں شاہد اللہ ہے قرآن کہتا ہے آیت ( وَكَفٰى بِاللّٰهِ شَهِيْدًا 28ۭ ) 48- الفتح:28 ) اور مشہود ہم ہیں قیامت کے دن ہم سب اللہ کے سامنے حاضر کر دئیے جائیں گے اکثر حضرات کا یہ فرمان ہے کہ شاہد جمعہ کا دن ہے اور مشہود عرفے کا دن ہے ۔ ان قسموں کے بعد ارشاد ہوتا ہے کہ خندقوں والوں پر لعنت ہو یہ کفار کی ایک قوم تھی جنھوں نے ایمان داروں کو مغلوب کر کے انہیں دین سے ہٹانا چاہا اور ان کے انکار پر زمین میں گڑھے کھود کر ان میں لکڑیاں بھر کر آگ بھڑکائی پھر ان سے کہا کہ اب بھی دین سے پلٹ جاؤ لیکن ان بخدا لوگوں نے انکار کیا اور ان ناخدا ترس کفار نے ان مسلمانوں کو اس بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈال دیا ، اسی کو بیان کیا جاتا ہے کہ یہ لوگ ہلاک ہوئے یہ ایندھن بھری بھڑکتی ہوئی آگ کی خندقوں کے کناروں پر بیٹھے ان مومنوں کے جلنے کا تماشا دیکھ رہے تھے اور اس عداوت و عذاب کا سبب ان مومنوں کا کوئی قصور نہ تھا ، انہیں تو صرف ان کی ایمان داری پر غضب و غصہ تھا دراصل غلبہ رکھنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے اس کی پناہ میں آ جانے والا کبھی برباد نہیں ہوتا وہ اپنے تمام اقوال افعال شریعت اور تقدیر میں قابل تعریف ہے وہ اگر اپنے خاص بندوں کو کسی وقت کافروں کے ہاتھ سے تکلیف بھی پہنچا دے اور اس کا راز کسی کو معلوم نہ ہو سکے تو نہ ہو لیکن دراصل وہ مصلحت و حکمت کی بنا پر ہی ہوتا ہے ، اللہ تعالیٰ کے پاکیزہ اوصاف میں سے یہ بھی ہے کہ وہ زمینوں ، آسمانوں اور کل مخلوقات کا مالک ہے ، اور وہ ہر چیز پر حاضر ناظر ہے ، کوئی چیز اس سے مخفی نہیں ، حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ اہل فارس کا ہے ان کے بادشاہ نے یہ قانون جاری کرنا چاہا کہ محرمات ابدیہ یعنی ماں بہن بیٹی وغیرہ سب حلال ہیں اس وقت کے علماء کرام نے اس کا انکار کیا اور روکا ، اس پر اس نے خندقیں کھدوا کر اس میں آگ جلا کر ان حضرات کو اس میں ڈال دیا ، چنانچہ یہ اہل فارس آج تک ان عورتوں کو حلال ہی جانتے ہیں یہ بھی مروی ہے کہ یہ لوگ یمنی تھے ، مسلمانوں اور کافروں میں لڑائی ہوئی مسلمان غالب آ گئے پھر دوسری لڑائی میں کافر غالب آ گئے تو انہوں نے گڑھے کھدوا کر ایمان والوں کو جلا دیا ، یہ بھی مروی ہے کہ یہ واقعہ اہل حبش کا ہے یہ بھی مروی ہے کہ یہ واقعہ بنی اسرائیل کا ہے انہوں نے دانیال اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ یہ سلوک کیا تھا اور اقوال بھی ہیں مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگلے زمانے میں ایک بادشاہ تھا اس کے ہاں ایک جادوگر تھا ، جب جادوگر بوڑھا ہو گیا تو اس نے بادشاہ سے کہا کہ اب میں بوڑھا ہو گیا ہوں اور میری موت کا وقت آ رہا ہے مجھے کوئی بچہ سونپ دو تو میں اسے جادو سکھا دوں چنانچہ ایک ذہین لڑکے کو وہ تعلیم دینے لگا لڑکا اس کے پاس جاتا تو راستے میں ایک راہب کا گھر پڑتا جہاں وہ عبادت میں اور کبھی وعظ میں مشغول ہوتا یہ بھی کھڑا ہو جاتا اور اسکے طریق عبادت کو دیکھتا اور وعظ سنتا آتے جاتے یہاں رک جایا کرتا تھا ، جادوگر بھی مارتا اور ماں باپ بھی کیونکہ وہاں بھی دیر میں پہنچتا اور یہاں بھی دیر میں آتا ، ایک دن اس بچے نے راہب کے سامنے اپنی یہ شکایت بیان کی راہب نے کہا کہ جب جادوگر تجھ سے پوچھے کہ کیوں دیر لگ گئی تو کہہ دینا گھر والوں نے روک لیا تھا اور گھر والے پوچھیں تو کہہ دینا کہ آج جادوگر نے روک لیا تھا ، یونہی ایک زمانہ گزر گیا کہ ایک طرف تو جادو سیکھتا تھا اور دوسری جانب کلام اللہ اور دین اللہ سیکھتا تھا ایک دن وہ دیکھتا ہے کہ راستے میں ایک زبردست ہیبت ناک جانور پڑا ہوا ہے ، اس نے لوگوں کی آمد و رفت بند کر رکھی ہے ادھر والے ادھر اور ادھر والے ادھر نہیں آ سکتے ، اور سب لوگ ادھر ادھر حیران و پریشان کھڑے ہیں اس نے اپنے دل میں سوچا کہ آج موقعہ ہے کہ میں امتحان کر لوں کہ راہب کا دین اللہ کو پسند ہے یا جادوگر کا ؟ اس نے ایک پتھر اٹھایا اور یہ کہہ کر اس پر پھینکا کہ اللہ اگر تیرے نزدیک راہب کا دین اور اس کی تعلیم جادوگر کے امر سے زیادہ محبوب ہے تو تو اس جانور کو اس پتھر سے ہلاک کر دے تاکہ لوگوں کو اس بلا سے نجات ملے پتھر کے لگتے ہی وہ جانور مر گیا اور لوگوں کا آنا جانا شروع ہو گیا پھر جا کر راہب کو خبر دی اس نے کہا پیارے بچے تو مجھ سے افضل ہے اب اللہ کی طرف سے تیری آزمائش ہو گی اگر ایسا ہوا تو تو کسی کو میری خبر نہ کرنا ، اب اس بچے کے پاس حاجت مند لوگوں کو تانتا لگ گیا اور اس کی دعا سے مادر زاد اندھے کوڑھی جذامی اور ہر قسم کے بیمار اچھے ہونے لگے ، بادشاہ کے ایک نابینا وزیر کے کان میں بھی یہ آواز پڑی وہ بڑے تحائف لے کر حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ اگر تو مجھے شفاء دے دے تو یہ سب تجھے دے دوں گا اس نے کہا شفا میرے ہاتھ نہیں میں کسی کو شفا نہیں دے سکتا شفا دینے والا اللہ وحدہ لا شریک لہ ہے اگر تو اس پر ایمان لانے کا وعدہ کرے تو میں اس سے دعا کروں اس نے اقرار کیا بچے نے اس کے لیے دعا کی اللہ نے اسے شفاء دے دی اور بادشاہ کے دربار میں آیا اور جس طرح اندھا ہونے سے پہلے کام کرتا تھا کرنے لگا ، اور آنکھیں بالکل روشن تھیں بادشاہ نے متعجب ہو کر پوچھا کہ تجھے آنکھیں کس نے دیں؟ اس نے کہا میرے رب نے بادشاہ نے کہا ہاں یعنی میں نے ، وزیر نے کہا نہیں نہیں ، میرا اور تیرا رب اللہ ہے ، بادشاہ نے کہا اچھا تو کیا میرے سوا تیرا کوئی اور بھی رب ہے وزیر نے کہا ہاں میرا اور تیرا رب اللہ عز و جل ہے ۔ اب اس نے اسے مار پیٹ شروع کر دیا اور طرح طرح کی تکلیفیں اور ایذائیں پہنچانے لگا اور پوچھنے لگا کہ تجھے یہ تعلیم کس نے دی ؟ آخر اس نے بتا دیا کہ اس بچے کے ہاتھ پر میں نے اسلام قبول کیا اور اس نے اسے بلوایا اور کہا اب تو تم جادو میں خوب کامل ہو گئے ہو کہ اندھوں کو دیکھتا اور بیماروں کو تندرست کرنے لگ گئے اس نے کہا غلط ہے نہ میں کسی کو شفا دے سکتا ہوں نہ جادو ، شفا تو اللہ عزوجل کے ہاتھ میں ہے کہنے لگا ہاں یعنی میرے ہاتھ میں ہے ، کیونکہ اللہ تو میں ہی ہوں اس نے کہا ہرگز نہیں ، کہا پھر کیا تو میرے سوا کسی اور کو رب مانتا ہے ؟ تو وہ کہنے لگا ہاں!میرا اور تیرا رب اللہ تعالیٰ ہے اس نے اب اسے بھی طرح طرح کی سزائیں دینی شروع کیں یہاں تک کہ راہب کا پتہ لگا لیا راہب کو بلا کر اس نے کہا کہ تو اسلام کو چھوڑ دے اور اس دین سے پلٹ جا ، اس نے انکار کیا تو اس بادشاہ نے آرے سے اس کے چہرے کو چیر دیا اور ٹھیک دو ٹکڑے کر کے پھینک دیا پھر اس نوجوان سے کہا کہ تو بھی دین سے پھر جا مگر اس نے بھی انکار کر دیا تو بادشاہ نے حکم دیا کہ ہمارے سپاہی اسے فلاں فلاں پہاڑ پر لے جائیں اور اس کی بلند چوٹی پر پہنچ کر پھر اسے اس کے دین چھوڑ دینے کو کہیں اگر مان لے تو اچھا ورنہ وہیں سے لڑھکا دیں چنانچہ یہ لوگ اسے لے گئے جب وہاں سے دھکا دینا چاہا تو اس نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا کی ( اللھم اکفنیھم بما شئت ) اللہ جس طرح چاہ مجھے ان سے نجات دے ، اس دعا کے ساتھ پہاڑ ہلا اور وہ سب سپاہی لڑھک گئے صرف وہ بچہ بچا رہا ، وہاں سے وہ اترا اور ہنسی خوشی پھر اس ظالم بادشاہ کے پاس آ گیا ، بادشاہ نے کہا یہ کیا ہوا میرے سپاہی کہاں ہیں ؟ فرمایا میرے اللہ نے مجھے ان سے بچا لیا اس نے کچھ اور سپاہی بلوائے اور ان سے بھی یہی کہا کہ اسے کشتی میں بٹھا کر لے جاؤ ، اور بیچوں بیچ سمندر میں ڈبو کر چلے آؤ یہ اسے لے کر چلے اور بیچ میں پہنچ کر جب سمندر میں پھینکنا چاہا تو اس نے پھر وہی دعا کی کہ بار الہی جس طرح چاہ مجھے ان سے بچا ، موج اٹھی اور وہ سپاہی سارے کے سارے سمندر میں ڈوب گئے صرف وہ بچہ ہی باقی رہ گیا یہ پھر بادشاہ کے پاس آیا ، اور کہا میرے رب نے مجھے ان سے بھی بچا لیا اے بادشاہ تو چاہے تمام تدبیریں کر ڈال لیکن مجھے ہلاک نہیں کر سکتا ہاں جس طرح میں کہوں اس طرح اگر کرے تو البتہ میری جان نکل جائے گی ۔ اس نے کہا کیا کروں فرمایا تو لوگوں کو ایک میدان میں جمع کر پھر کھجور کے تنے پر سولی چڑھا اور میرے ترکش میں سے ایک تنکا نکال میری کمان پر چڑھا اور بسم اللہ رب ھٰذا الغلام یعنی اسی اللہ کے نام سے جو اس بچے کا رب ہے کہہ کر وہ تیر میری طرف پھینک وہ مجھے لگے اور اس سے میں مروں گا چنانچہ بادشاہ نے یہی کیا تیر بچے کی کنپٹی میں لگا اس نے اپنا ہاتھ اس جگہ رکھ لیا اور شہید ہو گیا ۔ اس کے اس طرح شہید ہوتے ہی لوگوں کو اس کے دین کی سچائی کا یقین آ گیا چاروں طرف سے یہ آوازیں اٹھنے لگیں کہ ہم سب اس بچے کے رب پر ایمان لا چکے یہ حال دیکھ کر بادشاہ کے مصاحب گھبرائے اور بادشاہ سے کہنے لگے اس لڑکے کی ترکیب ہم سمجھے ہی نہیں دیکھئے اس کا یہ اثر پڑا کہ یہ تمام لوگ اس کے مذہب پر ہو گئے ہم نے تو اسی لیے قتل کیا تھا کہ کہیں یہ مذہب پھیل نہ جائے لیکن وہ ڈر تو سامنے ہی آ گیا اور سب مسلمان ہو گئے بادشاہ نے کہا اچھا یہ کرو کہ تمام محلوں اور راستوں میں خندقیں کھدواؤ ان میں لکڑیاں بھرو اور اس میں آگ لگا دو جو اس دین سے پھر جائے اسے چھوڑ دو اور جو نہ مانے اسے اس آگ میں ڈال دو ان مسلمانوں نے صبر و ضبط کے ساتھ آگ میں جلنا منظور کر لیا اور اس میں کود کود گرنے لگے ، البتہ ایک عورت جس کی گود میں دودھ پیتا چھوٹا بچہ تھا وہ ذرا ہچکچائی تو اس بچہ کو اللہ نے بولنے کی طاقت دی اس نے کہا اماں کیا کر رہی ہو تم تو حق پر ہو صبر کرو اور اس میں کود پڑو ۔ یہ حدیث مسند احمد میں بھی ہے اور صحیح مسلم کے آخر میں بھی ہے اور نسائی میں بھی قدرت اختصار کے ساتھ ہے ، ترمذی شریف کی حدیث میں ہے حضرت صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عصر کی نماز کے بعد عموماً زیر لب کچھ فرمایا کرتے تھے تو آپ سے پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرماتے ہیں فرمایا نبیوں میں سے ایک نبی تھے جو اپنی امت پر فخر کرتے تھے کہنے لگے کہ ان کی دیکھ بھال کون کرے گا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ انہیں اختیار ہے خواہ اس بات کو پسند کریں کہ میں خود ان سے انتقام لوں خواہ اس بات کو پسند کریں کہ میں ان پر ان کے دشمنوں کو مسلط کروں ، انہوں نے انتقام کو پسند کیا چنانچہ ایک ہی دن میں ان میں سے ستر ہزار مر گئے ، اس کے ساتھ ہی آپ نے یہ حدیث بھی بیان کی جو اوپر گزری پھر آخیر میں آپ نے قتل سے مجید تک کی آیتوں کی تلاوت فرمائی ، یہ نوجوان شہید دفن کر دئیے گئے تھے اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانہ میں ان کی قبر سے انہیں نکالا گیا تھا ان کی انگلی اسی طرح ان کی کنپٹی پر رکھی ہوئی تھی جس طرح بوقت شہادت تھی ، امام ترمذی اسے حسن غریب بتلاتے ہیں لیکن اس روایت میں یہ صراحت نہیں کہ یہ واقعہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمایا تو ممکن ہے کہ حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ نے ہی اس واقعہ کو بیان فرمایا ہو ان کے پاس نصرانیوں کی ایسی حکایتیں بہت ساری تھیں واللہ اعلم ، امام محمد بن اسحاق رضی اللہ عنہ نے بھی اس قصہ کو دوسرے الفاظ میں بیان فرمایا ہے ، جو اس کے خلاف ہے وہ کہتے ہیں کہ نجرانی لوگ بت پرست مشرک تھے ، اور نجران کے پاس ایک چھوٹا سا گاؤں تھا ۔ جس میں ایک جادوگر تھا ، نجبرانیوں کو جادو سکھایا کرتا تھا ۔ فیمون نامی ایک بزرگ عالم یہاں آئے اور نجران اور اسکے گاؤں کے درمیان انہوں نے اپنا پڑاؤ ڈالا ۔ شہر کے لڑکے جو جادوگر سے جادو سیکھنے جایا کرتے تھے ان میں تاجر کا ایک لڑکا عبداللہ نامی بھی تھا اسے آتے جاتے راہب کی عبادت اور اس کی نماز وغیرہ کے دیکھنے کا موقعہ ملتا اس پر غور و خوض کرتا اور دل میں اس کے مذہب کی سچائی جگہ کرتی جاتی پھر تو اس نے یہاں آنا جانا شروع کر دیا ۔ اور مذہبی تعلیم بھی اس راہب سے لینے لگا ۔ کچھ دنوں بعد اس مذہب میں داخل ہو گیا اور اسلام قبول کر لیا توحید کا پابند ہو گیا اور ایک اللہ کی عبادت کرنے لگا اور علم دین اچھی طرح حاصل کر لیا وہ راہب اسم اعظم بھی جانتا تھا اس نے ہر چند خواہش کی کہ اسے بتا دے لیکن اس نے نہ بتایا اور کہہ دیا کہ ابھی تم میں اس کی صلاحیت نہیں آئی تم ابھی کمزور دل والے ہو اس کی طاقت میں تم میں نہیں پاتا ۔ عبداللہ کے باپ تامر کو اپنے بیٹے کے مسلمان ہو جانے کی مطلق خبر نہ تھی وہ اپنے نزدیک یہی سمجھ رہا تھا کہ میرا بیٹا جادو سیکھ رہا ہے ، اور وہیں جاتا آتا رہتا ہے عبداللہ نے جب دیکھا کہ راہب مجھے اسم اعظم نہیں سکھاتے اور انہیں میری کمزوری کا خوف ہے تو ایک دن انہوں نے تیر لئے اور جتنی نام اللہ تبارک و تعالیٰ کے انہیں یاد تھے ہر تیر پر ایک نام لکھا پھر آگ جلا کر بیٹھ گیا اور ایک ایک تیر کو اس میں ڈالنا شروع کیا جب وہ تیر آیا جس پر اسم اعظم تھا تو وہ آگ میں پڑتے ہی اچھل کر باہر نکل آیا اور اس پر آگ نے بالکل اثر نہ کیا سمجھ لیا کہ یہی اسم اعظم ہے ۔ اپنے استاد کے پاس آئے اور کہا حضرت اسم اعظم کا علم مجھے ہو گیا استاد نے پوچھا بتاؤ کیا ہے ؟ اس نے بتایا راہب نے پوچھا کیسے معلوم ہوا تو اس نے سارا واقعہ کہہ سنایا فرمایا بھئی تم نے خوب معلوم کر لیا واقعی یہی اسم اعظم ہے ۔ اسے اپنے ہی تک رکھو لیکن مجھے تو ڈر ہے کہ تم کھل جاؤ گے ان کی یہ حالت ہوئی کہ یہ نجران میں آئے یہاں جس بیمار پر جس دکھی پر جس ستم رسیدہ پر نظر پڑی اس سے کہا کہ اگر تم موحد بن جاؤ اور دین اسلام قبول کر لو تو میں رب سے دعا کرتا ہوں وہ تمھیں شفا اور نجات دے دے گا ، اور دکھ بلا کو ٹال دے گا ، وہ اسے قبول کر لیتا یہ اسم اعظم کے ساتھ دعا کرتے اللہ اسے بھلا چنگا کر دیتا اب تو نجرانیوں کے ٹھٹھ لگنے لگے اور جماعت کی جماعت روزانہ مشرف بہ اسلام اور فائزالمرام ہونے لگی آخر بادشاہ کو اس کا علم ہوا اس نے اسے بلا کر دھمکایا کہ تو نے میری رعیت کو بگاڑ دیا اور میرے اور میرے باپ دادا کے مذہب پر حملہ کیا میں اس کی سزا میں تیرے ہاتھ پاؤں کاٹ کر تجھے چوراہے پر رکھوا دوں گا ۔ عبداللہ بن تامر نے جواب دیا کہ تو ایسا نہیں کر سکتا اب بادشاہ نے اسے پہاڑ پر سے گرا دیا لیکن وہ نیچے آ کر صحیح سلامت رہا جسم پر کہیں چوٹ بھی نہ آئی نجران کے ان طوفان خیز دریاؤں میں گرداب کی جگہ انہیں لا ڈالا جہاں سے کوئی بچ نہیں سکتا لیکن یہ وہاں سے بھی صحت و سلامتی کے ساتھ واپس آ گئے غرض ہر طرح عاجز آ گیا تو پھر حضرت عبداللہ بن تامر نے فرمایا سن اے بادشاہ تو میرے قتل پر کبھی قادر نہ ہو گا یہاں تک کہ تو اس دین کو مان لے جسے میں مانتا ہوں اور ایک اللہ کی عبادت کرنے لگے اگر یہ کر لے گا تو پھر تو مجھے قتل کر سکتا ہے ، بادشاہ نے ایسا ہی کیا اس نے حضرت عبداللہ کا بتلایا ہوا کلمہ پڑھا اور مسلمان ہو کر جو لکڑی اس کے ہاتھ میں تھی اس سے حضرت عبداللہ کو مارا جس سے کچھ یونہی سے خراش آئی اور اسی سے وہ شہید ہو گئے اللہ ان سے خوش ہو اور اپنی خاص رحمتیں انہیں عنایت فرمائے ان کے ساتھ ہی بادشاہ بھی مر گیا اس واقعہ نے لوگوں کے دلوں میں یہ بات پیوست کر دی کہ دین ان کا ہی سچا ہے چنانچہ نجران کے تمام لوگ مسلمان ہو گئے اور حضرت عیسیٰ کے سچے دین پر قائم ہو گئے اور وہی مذہب اس وقت برحق بھی تھا ۔ ابھی تک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی بن کر دنیا میں آئے نہ تھے لیکن پھر ایک زمانہ کے بعد ان میں بدعتیں پیدا ہونے لگیں اور پھیل گئیں اور دین حق کا نور چھن گیا غرض نجران میں عیسائیت کے پھیلنے کا اصلی سبب یہ تھا ۔ اب ایک زمانہ کے بعد ذونواس یہودی نے اپنے لشکر سمیت ان نصرانیوں پر چڑھائی کی اور غالب آ گیا پھر ان سے کہا یا تو یہودیت قبول کر لو یا موت ، انہوں نے قتل ہونا منظور کیا اس نے خندقیں کھدوا کر آگ سے پر کر کے ان کو جلا دیا بعض کو قتل بھی کیا بعض کے ہاتھ پاؤں ناک کان کاٹ دئیے وغیرہ تقریباً بیس ہزار مسلمانوں کو سرکش نے قتل کیا اور اسکا ذکر آیت ( قتل اصحاب الاخدود ) میں ہے ذونواس کا نام زرعہ تھا اس کی بادشاہت کے زمانہ میں اسے یوسف کہا جاتا تھا اس کے باپ کا نام بیان اسعد ابی کریب تھا جو تبع مشہور ہے جس نے مدینہ میں غزوہ کیا اور کعبہ کو پردہ چڑھایا اس کے ساتھ دو یہودی عالم تھے ، یمن والے ان کے ہاتھ پر یہودی مذہب میں داخل ہوئے ذونواس نے ایک ہی دن میں صرف صبح کے وقت ان کھائیوں میں بیس ہزار ایمان والوں کو قتل کیا ان میں سے صرف ایک ہی شخص بچ نکلا جس کا نام دوس ذی ثعلبان تھا یہ گھوڑے پر بھاگ کھڑا ہوا گو اس کے پیچھے بھی گھوڑے سوار دوڑائے لیکن یہ ہاتھ نہ لگا ، یہ سیدھا شاہ روم قیصر کے پاس گیا اس نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی کو لکھا چنانچہ دوس وہاں سے حبشہ کے نصرانیوں کا لشکر لے کر یمن آیا اس کے سردار اریاط اور ابرہہ تھے یہودی مغلوب ہوئے یمن یہودیوں کے ہاتھ سے نکل گیا ۔ ذونواس بھاگ نکلا لیکن وہ پانی میں غرق ہو گیا پھر ستر سال تک یہاں حبشہ کے نصرانیوں کا قبضہ رہا بالاخر سیف بن ذی یزن حمیری نے فارس کے بادشاہ سے امدادی فوجیں اپنے ساتھ لیں اور سات سو قیدی لوگوں سے اس پر چڑھائی کر کے فتح حاصل کی اور پھر سلطنت حمیری قائم کی اس کا کچھ بیان سورہ فیل میں بھی آئے گا ، انشاء اللہ تعالیٰ ، سیرۃ ابن اسحاق میں ہے کہ ایک نجرانی نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں نجران کی ایک بنجر غیر آباد زمین اپنے کسی کام کے لیے کھودی تو دیکھا کہ حضرت عبداللہ بن تامر رحمۃ اللہ علیہ کا جسم اس میں ہے آپ بیٹھے ہوئے ہیں سر پر جس جگہ چوٹ آئی تھی وہیں ہاتھ ہے ، ہاتھ اگر ہٹاتے ہیں تو خون بہنے لگتا ہے پھر ہاتھ کو چھوڑ دیتے ہیں تو ہاتھ اپنی جگہ چلا جاتا ہے ، اور خون تھم جاتا ہے ہاتھ کی انگلی میں انگوٹھی ہے جس پر ربی اللہ لکھا ہوا ہے یعنی میرا رب اللہ ہے ۔ چنانچہ اس واقعہ کی اطلاع قصر خلافت میں دی گئی ، یہاں سے حضرت فارون اعظم رضی اللہ عنہ کا فرمان گیا کہ اسے یونہی رہنے دو اور اوپر سے مٹی وغیرہ جو ہٹائی ہے ، وہ ڈال کر جس طرح تھا اسی طرح بےنشان کر دو چنانچہ یہی کیا گیا ۔ ابن ابی الدنیا نے لکھا ہے کہ جب حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اصفہان فتح کیا تو ایک دیوار دیکھی کہ وہ گر پڑی ہے ان کے حکم پر وہ بنا دی گئی لیکن پھر گر پڑی پھر بنوائی پھر گر پڑی آخر معلوم ہوا کہ اس کے نیچے کوئی نیک بخت شخص مدفون ہیں جب زمین کھودی تو دیکھا کہ ایک شخص کا جسم کھڑا ہوا ہے ساتھ ہی ایک تلوار ہے جس پر لکھا ہے میں حارث بن مضاض ہوں میں نے کھائیوں والوں کا انتقام لیا حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس لاشے کو نکال لیا اور وہاں دیوار کھڑی کرا دی جو برابر رہی میں کہتا ہوں یہ حارث بن مضاض بن عمرو جرہی ہے جو کعبۃ اللہ کے متولی ہوئے تھے ، ثابت بن اسمٰعیل بن ابراہیم کی اولاد کے بعد اس کا لڑکا عمرو بن حاث بن مضاض تھا جو مکہ میں جرہم خاندان کا آخری بادشاہ تھا ، جس وقت کہ خزاعہ قبیلے نے انہیں یہاں سے نکال اور یمن کی طرف جلا وطن کیا ۔ یہی وہ شخص ہے جس نے پہلے پہلے عرب میں شعر کہا جس شعر میں ویران مکہ کو اپنا آباد کرنا اور زمانہ کے ہیر پھیر اور انقلابات سے پھر وہاں سے نکالا جانا اس نے بیان کیا ۔ اس واقعہ سے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ قصہ حضرت اسماعیل کے کچھ زمانہ کا اور بہت پرانا ہے جو کہ حضرت اسماعیل کے تقریباً پانچ سو سال کے بعد کا معلوم ہوتا ہے ۔ لیکن ابن اسحاق کی اس مطول روایت سے جو پہلے گزری ہے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ یہ قصہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد کا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے کا ہے زیادہ ٹھیک بھی یہی معلوم ہوتا ہے واللہ اعلم ۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ واقعہ دنیا میں کئی بار ہوا ہو ، جیسے کہ ابن ابی حاتم کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبد الرحمٰن بن جبیر فرماتے ہیں کہ تبع کے زمانہ میں یمن میں خندقیں کھدوائی گئی تھیں اور قسطنطین کے زمانہ میں قسطنطنیہ میں بھی مسلمانوں کے یہی عذاب دیا گیا تھا ۔ جبکہ نصرانیوں نے اپنا قبلہ بدل دیا دین مسیح میں بدعتیں ایجاد کرلیں توحید کو چھوڑ بیٹھے اس وقت جو سچے دیندار تھے انہوں نے ان کا ساتھ نہ دیا اور اصلی دین پر قائم رہے تو ان ظالموں نے خندقیں آگ سے بھروا کر انہیں جلا دیا اور یہی واقعہ بابل کی زمین پر عراق میں بخت نصر کے زمانہ میں ہوا جس نے ایک بت بنا لیا تھا اور لوگوں سے اسے سجدہ کراتا تھا ، حضرت دانیال اور ان کے دونوں ساتھی عزریا اور مشایل نے اس سے انکار کر دیا تو اس نے انہیں اس آگ کی خندق میں ڈال دیا اللہ تعالیٰ نے آگ کو ان پر ٹھنڈا کر دیا انہیں سلامتی عطا فرمائی صاف نجات دی اور اس سرکش کافروں کو ان خندقوں میں ڈال دیا یہ نو قبیلے تھے سب جل کر خاک ہو گئے ۔ سدی فرماتے ہیں تین جگہ یہ معاملہ ہوا عراق میں شام میں اور یمن میں ، مقاتل فرماتے ہیں کہ خندقیں تین جگہ تھیں ایک تو یمن کے شہر نجران میں ، دوسری شام میں تیسری فارس میں ۔ شام میں اس کا بانی انطنانوس رومی تھا اور فارس میں بخت نصر اور زمین عرب پر یوسف ذونواس ، فارس اور شام کی خندقیوں کا ذکر قرآن میں نہیں یہ ذکر نجران کا ہے ۔ حضرت ربیع بن انس فرماتے ہیں کہ ہم نے سنا ہے فترۃ کے زمانے میں یعنی حضرت عیسیٰ اور پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کے زمانہ میں ایک قوم تھی انہوں نے جب دیکھا کہ لوگ فتنے اور شر میں گرفتار ہو گئے ہیں اور گروہ گروہ بن گئے ہیں اور ہر گروہ اپنے خیالات میں خوش ہے تو ان لوگوں نے انہیں چھوڑ دیا یہاں سے ہجرت کر کے الگ ایک جگہ بنا کر وہیں رہنا سہنا شروع کیا اور اللہ کی مخلصانہ عبادت میں یکسوئی کے ساتھ مشغول ہو گئے نمازوں کی پابندی ذکاتوں کی ادائیگی میں لگ گئے اور ان سے الگ تھلگ رہنے لگے یہاں تک کہ ایک سرکش بادشاہ کو اس اللہ والی جماعت کا پتہ لگ گیا اس نے ان کے پاس اپنے آدمی بھیجے اور انہیں سمجھایا کہ تم بھی ہمارے ساتھ مل جاؤ اور بت پرستی شروع کر دو ان سب نے بالکل انکار کیا کہ ہم سے یہ نہیں ہو سکتا کہ اللہ وحدہ لا شریک لہ کے سوا کسی اور کی بندگی کریں بادشاہ نے کہلوایا کہ اگر یہ تمھیں منظور نہیں تو میں تمھیں قتل کرا دوں گا ، جواب ملا کہ جو چاہو کرو لیکن ہم سے دین نہیں چھوڑا جائے گا ، اس ظالم نے خندقیں کھدوائیں آگ جلوائی اور ان سب مرد و عورتوں اور بچوں کو جمع کر لیا اور ان خندقوں کے کنارے کھڑا کر کے کہا بولو یہ آخری سوال جواب ہے آیا بت پرستی قبول کرتے ہو یا آگ میں گرنا قبول کرتے ہو انہوں نے کہا ہمیں جل مرنا منظور ہے ، لیکن چھوٹے چھوٹے بچوں نے چیخ و پکار شروع کر دی بڑوں نے انہیں سمجھایا کہ بس آج کے بعد آگ نہیں ۔ نہ گھبراؤ اور اللہ کا نام لے کر کود پڑو چنانچہ سب کے سب کود پڑے انہیں آنچ بھی نہیں لگنے پائی تھی کہ اللہ نے ان کی روحیں قبض کرلیں اور آگ خندقوں سے باہر نکل پڑی اور ان بدکردار سرکشوں کو گھیر لیا اور جتنے بھی تھے سارے کے سارے جلا دئیے گئے ان کی خبر ان آیتوں قتل الخ میں ہے ۔ تو اس بنا پر فتوں کے معنی ہوئے کہ جلایا تو فرماتا ہے کہ ان لوگوں نے مسلمان مردوں عورتوں کو جلا دیا ہے اگر انہوں نے توبہ نہ کی یعنی اپنے اس فعل سے باز نہ آئے نہ اپنے اس کئے پر نادم ہوئے تو ان کے لیے جہنم ہے اور جلنے کا عذاب ہے تاکہ بدلہ بھی ان کے عمل جیسا ہو ، حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ بزرگ و برتر کے کرم و رحم اس کی مہربانی اور عنایت کو دیکھو کہ جب بدکاروں نے اس کے پیارے بندوں کو ایسے بدترین عذابوں سے مارا انہیں بھی وہ توبہ کرنے کو کہتا ہے اور ان سے بھی مغفرت اور بخشش کا وعدہ کرتا ہے ۔ اللہ ہمیں بھی اپنے وسیع رحمتوں سے بھرپور حصہ عطا فرمائے ۔ آمین ۔
1۔ 1 بروج، برج کی جمع ہے، برج کے اصل معنی ظہور کے ہیں، یہ کواکب کی منزلیں ہیں جنہیں ان کے محل اور قصور کی حثییت حاصل ہے ظاہر اور نمایاں ہونے کی وجہ سے انہیں برج کہا جاتا ہے تفصیل کے لیے دیکھیے الفرقان، 61 کا حاشیہ بعض نے بروج سے مراد ستارے لیے ہے۔ یعنی ستارے والے آسمان کی قسم، بعض کے نزدیک اس سے آسمان کے دروازے یا چاند کی منزلیں مراد ہیں (فتح القدیر)
[١] آسمان اور اسکے برج :۔ بطلیموسی نظریہ ہیئت کے مطابق فلک ہشتم کو بارہ برجوں میں تقسیم کیا گیا ہے جو دراصل ستاروں کے جھرمٹ یا مجمع النجوم (Constalations) ہیں۔ جنہیں دیکھنے سے ایک مخصوص تصور یا شکل ذہن میں آجاتی ہے۔ ان برجوں کے ناموں سے ہی ان کی شکلوں کا کچھ نہ کچھ تصور ذہن میں آجاتا ہے۔ ان کے نام درج ذیل شعر میں منظوم کیے گئے ہیں۔ حمل و ثور و جوزا، سرطان و اسد سنبلہ، میزان، عقرب، قوس، جدی دلو و حوت انہیں بروج کے متعلق اللہ تعالیٰ نے سورة الحجر کی آیت نمبر ١٠ میں فرمایا : && اور ہم نے آسمان میں برج بنائے اور اس آسمان کو دیکھنے والوں کے لیے سجا دیا && اب اگر ایک عام قاری اس آیت میں بروج کے لفظ سے وہی بارہ برج مراد لیتا ہے جو اہل ہیئت نے فلک ہشتم پر بنا رکھے ہیں تو یہ اس کی مرضی ہے ورنہ آیت کا سیاق وسباق اس بات کی تائید نہیں کرتا کیونکہ ان برجوں میں سے اکثر برجوں کی اشکال کا زینت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ بھلا سرطان، بچھو، ترازو اور ڈول کیا خوبصورتی پیدا کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر علماء نے یہاں بروج سے ستارے اور سیارے مراد لیے ہیں۔ جو رات کے وقت آسمان کو زینت بخشتے ہیں۔ لغوی لحاظ سے ہم ہر نمایاں طور پر ظاہر ہونے والی چیز کو برج کہہ سکتے ہیں۔
(والسمآء ذات البروج :” البروج “ ” برج “ کی جمع ہے، اس کا اصل معنی ہے ” نمایاں اور ظاہر ہونے والی چیز۔ “ ” تربج “ کا معنی بےپردہ ہونا، ظاہر ہونا ہے۔ اس لئے بلند محل کو برج کہتے ہیں، شہر کی فصیل کے بلند حصوں کو بھی برج کہتے ہیں اور آسمان پر ستاروں کے اجتماع سے جو صورتیں نظر آتی ہیں انہیں بروج کہتے ہیں۔ وہ آسمانی ٹھکانے بھی بروج کہلاتے ہیں جن میں شیطانوں سے آسمان کی حفاظت کے لئے فرشتے پہرا دیتے ہیں۔ سورج اور چاند کی منزلوں کو بھی بروج کہا اجتا ہے۔
Commentary وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الْبُرُوجِ (I swear by the sky, the one having stellar formations....85:1) The word buruj is the plural of burj which means &a large mansion or fortress&. The Qur&an says: وَلَوْ كُنتُمْ فِي بُرُوجٍ مُّشَيَّدَةٍ &...even though you are in fortified castles [ 4:78] & Here the word buruj means &castles&. The primitive sense of the word barj is to become manifest&. The word tabarruj means &to display one&s beauty& as in the verse: وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ &...and do not display your beauty as it was previously displayed in the Time of Ignorance [ 33:33] & According to the majority of commentators like Sayyidna Ibn ` Abbas, Mujahid, Dahhak, Hasan Al-Basri, Qatadah, Suddi (رض) and others, the word bur, in this verse, refers to &giant stars&. Other commentators take the word bur, in this place, to refer to mansions and castles that are reserved in the sky for the guardian angels. Some of the later commentators chose the astronomical view in which the sky is divided into twelve parts, each one called a burj. The primitive philosophers believed that the thawabit (stationary) stars are fixed in these bur. The planets move with the movement of their particular sky and the planets descend in these bur. But this is absolutely incorrect. According to the Qur&an, Allah has not fixed the stars and planets in the skies. In fact, every star and planet has its own orbit and revolves by itself as in Surah YaSin: وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ &...And each one is floating in an orbit. [ 36:40] & The word falak in this verse does not refer to the sky, but rather to the orbits of the stars and planets in which they move. [ Mazhari ]
خلاصہ تفسیر شان نزول :۔ اس سورت میں ایک قصہ کا اجمالاً ذکر ہے جو صحیح مسلم میں مذکورہ ہے۔ خلاصہ اس کا یہ ہے کوئی کافر بادشاہ تھا اس کے پاس ایک کاہن تھا (کاہن اس کو کہا جاتا ہے جو شیاطین کے ذریعہ یا نجوم کے آثار کے ذریعہ کچھ مستقبل کی غیبی خبریں معلوم کر کے لوگوں کو بتائے) اس کا ہن نے بادشاہ سے کہا کہ مجھ کو ایک ہوشیار لڑکا دیا جاوے تو اس کو اپنا علم سکھا دوں، چناچہ ایک لڑکا تجویز کیا گیا، اس کے راستے میں ایک راہب یعنی عیسائی پادری رہتا تھا اور اس زمانے میں دین عیسیٰ (علیہ السلام) ہی دین حق تھا اور یہ راہب اسی پر قائم عبادت گزار تھا وہ لڑکا اس کے پاس آنے جانے لگا اور خفیہ مسلمان ہوگیا، ایک بار اس لڑکے نے دیکھا کہ کسی شیر نے راستہ روک رکھا ہے اور خلق خدا پریشان ہے تو اس نے ایک پتھر ہاتھ میں لے کر دعا کی کہ اے اللہ اگر راہب کا دین سچا ہے تو یہ جانور میرے پتھر سے مارا جاوے اور اگر کاہن سچا ہے تو نہ مارا جاوے اور یہ کہہ کر وہ پتھر مارا تو شیر کو لگا اور وہ ہلاک ہوگیا، لوگوں میں شور ہوگیا کہ اس لڑکے کو کوئی عجیب علم آتا ہے کسی اندھے نے سنا آ کر درخواست کی میری آنکھیں اچھی ہوجاویں، لڑکے نے کہا بشرطیکہ تو مسلمان ہوجاوے چناچہ اس نے قبول کیا، لڑکے نے دعا کی وہ اچھا ہوگیا اور مسلمان ہوگیا، بادشاہ کو یہ خبریں پہنچیں تو اس راہب کو اور لڑکے کو اور اس نابینا کو گرفتار کر کے بلایا، اس نے راہب اور اعمی کو تو قتل کردیا اور لڑکے کے لئے حکم دیا کہ پہاڑ کے اوپر لیجا کر گرا دیا جاوے مگر جو لوگ اس کو لے گئے تھے وہ خود گر کر ہلاک ہوگئے اور لڑکا صحیح سالم چلا آیا۔ پھر بادشاہ نے سمندر میں غرق کرنے کا حکم دیا وہ اس سے بھی بچ گیا اور جو لوگ اس کو لے گئے تھے وہ سب ڈوب گئے پھر خود لڑکے نے بادشاہ سے کہا مجھ کو بسم اللہ کہا کہ تیرے مارو تو میں مر جاؤں گا چناچہ ایسا ہی کیا گیا اور لڑکا مر گیا، پس اس واقعہ عجیبہ کو دیکھ کر یک لخت عام لوگوں کی زبان سے نعرہ بلند ہوا کہ ہم سب اللہ پر ایمان لاتے ہیں، بادشاہ بڑا پریشان ہوا اور ارکان سلطانت کے مشورے سے بڑی بڑی خندقیں آگ سے بھروا کر اشتہار دیا کہ جو شخص اسلام سے نہ پھریگا اس کو آگ میں جلا دینگے چناچہ بہت آدمی جلائے گئے، اس صورت میں ان پر غضب الٰہی نازل ہونے کا بیان قسم کے ساتھ فرمایا ہے) قسم ہے برجوں والے آسمان کی (مراد برجوں سے بڑے بڑے ستارے ہیں، کذا فی الدرالمنشور مرفوعا) اور قسم ہے وعدہ کئے ہوئے دن کی (یعنی قیامت کے دن کی) اور قسم ہے حاضر ہونے والے (دن) کی، اور قسم ہے اس (دن) کی جس میں لوگوں کی حاضری ہوتی ہے (حدیث ترمذی میں مرفوعاً ہے کہ یوم موعود قیامت کا دن ہے اور شاہد جمعہ کا دن ہے اور مشہور عرفہ کا دن ہے اور ایک دن کو شاہد اور دوسرے کو مشہور شاید اس لئے فرمایا کہ یوم جمعہ میں تو سب اپنی اپنی جگ رہتے ہیں تو گویا وہ دن خود آتا ہے اور یوم عرفہ میں حجاج اپنے اپنے مقامات سے سفر کر کے عرفات میں اس یوم کے قصد سے جمع ہوجاتے ہیں تو گویا وہ دن مقصود و مشہود اور دوسرے لوگ حاضری کا قصد کرنیوالے ہیں آگے جواب قسم ہے) کہ خندق والے یعنی بہت سے ایندھن کی آگ والے ملعون ہوئے جس وقت وہ لوگ اس (آگ) کے آس پاس بیٹھے ہئے تھے اور وہ جو کچھ مسلمانوں کے ساتھ (ظلم و ستم) کر رہے تھے اس کو دیکھ رہے تھے (ان کے ملعون ہونے کی خبر دینے سے تسلی مومنین کی ظاہر ہے کہ اسی طرح جو کافر اس وقت مسلمانوں پر ظلم کر رہے ہیں وہ بھی گرفتار لعنت ہوں گے جس کا اثر خواہ دنیا میں بھی مرتب ہو جیسے غزوہ بدر وغیرہ میں مقتول و مخذول ہوئے یا صرف آخرت میں جیسا عام کفار کے لئے یقینی ہے اور دشمن کے عذاب کی خبر سے تسلی ہونا امر طبعی ہے اور ان لوگوں کا بیٹھنا اس ظلم و ستم کے انتظام اور نگرانی کے لئے تھا اور لفظ شہود میں علاوہ نگرانی کے اشارہ ان لوگوں کی سنگدلی کی طرف بھی ہے کہ دیکھ کر بھی ترحم نہ آتا تھا اور اس کو خدا تعالیٰ کی لعنت میں خاص دخل ہے کہ یہ سنگدلی سبب لعنت ہے) اور ان کافروں نے ان مسلمانوں میں اور کوئی عیب نہیں پایا تھا بجز اس کے کہ وہ خدا پر ایمان لے آئے تھے جو زبردست (اور) سزا وار حمد ہے ایسا کہ اسی کی ہے سلطنت آسمانوں اور زمین کی ( یعنی ایمان لانے پر یہ معاملہ کیا اور ایمان لانا کوئی خطا نہیں، پس بےخطا ان پر ظلم کیا اس لئے وہ لوگ ملعون ہوئے اور آگے ظالموں کے لئے عام و عید اور مظلوموں کے لئے عام وعدہ ہے) کہ اللہ ہر چیز سے خوب واقف ہے ( مظلوم کی مظلومیت سے بھی پس اس کی نصرت کرے گا اور ظالم کی ظالمیت سے بھی تو اس کو سزا دے گا خواہ یہاں خواہ وہاں چناچہ آگے یہی مضمون ہے کہ) جنہوں نے مسلمان مردوں اور مسلمان عروتوں کو تکلیف پہنچائی اور پھر توبہ نہیں کی تو ان کے لئے جہنم کا عذاب ہے اور جہنم میں بالخصوص ان کے لئے جلنے کا عذاب ہے (عذاب میں ہر طرح کی تکلیف داخل ہے۔ سانپ، بچھو، طوق، زنجیریں، حمیم، غساق وغیرہ اور سب سے بڑھ کر جلنے کا عذاب ہے اس لئے اس کو بالتخصیص فرمایا یہ تو ظالم کے حق میں فرمایا آگے مؤمنین کے حق میں جن میں مظلوم بھی آگئے ارشاد ہے کہ) بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے ان کے لئے بہشت کے) باغ ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور یہ بڑی کامیابی ہے (اور اوپر دو مضمون تھے کفار کے لئے جہنم ہونا اور مؤمنین کے لئے جنت ہونا، آگے ان کے مناسب اپنے بعض افعال وصفات ان مضمونوں کی تقریر کے لئے ارشاد فرماتے ہیں کہ) آپ کے رب کی دارو گیر بڑی سخت ہے (پس کفار پر سزائے شدید کا واقع ہونا مستبعد نہیں اور نیز) وہی پہلی بار بھی پیدا کرتا ہے اور دوبارہ (قیامت میں بھی) پیدا کر دے گا ( پس یہ شبہ بھی نہ رہا کہ گو بطش شدید ہے مگر قیامت ہی واقع نہ ہوگی جو کہ وقت بطش کا ہے اس سے تقریر ہوگئی وعید کفار کی اور (آگے تقریر ہے وعدہ مومنین کی کہ) وہی بڑا بخشنے والا (اور) بڑی محبت کرنے والا اور عرش کا مالک (اور) عظمت والا ہے (پس ایمان والوں کے گناہ معاف کر دے گا اور ان کو اپنا محبوب بنا لیگا، اور ذوالعرش اور مجید گو تعذی بےاثابت دونوں کے ساتھ متعلق ہوسکتا ہے کہ دونوں فرع ہیں صاحب سلطنت و کمال صفات کی، لیکن یہاں مقابلے کے قرینے سے ان پر اثابت کا متفرع کرنا مقصود ہے اور آگے دونوں کے اثبات کے لئے ایک صفت ارشاد ہے کہ) وہ جو چاہے سب کچھ کر گزرتا ہے (آگے مؤمنین کی مزید تسلی اور کفار کی مزید تنبیہ کے لئے بعض خاص مغضوبین کا حال بیان فرماتے ہیں کہ) کیا آپ کو ان لشکروں کا قصہ پہنچا ہے یعنی فرعون (اور آل فرعون) اور ثمود کا (کہ کس طرح کفر کیا اور کیونکر گرفتار عذاب ہوئے اس سے مؤمنین کو تسلی حاصل کرنا چاہئے اور کفار کو ڈرنا چاہئے مگر کفار بالکل عذاب سے نہیں ڈرتے) بلکہ یہ کافر (خود قرآن کی) تکذیب میں (لگے) ہیں (پس اس کے مضمون تعذیب کو بھی اور دیگر مضامین کو بھی جھٹلاتے ہیں) اور (انجام کار اس کی سزا بھگتیں گے کیونکہ) اللہ ان کو ادھر ادھر سے گھیرے ہوئے ہے (اس کے قبضہ قدرت اور عقوبت سے بچ نہیں سکتے اور ان کا قرآن کو جھٹلانا محض حماقت ہے کیونکہ قرآن ایسی چیز نہیں جو جھٹلانے کے قابل ہو) بلکہ وہ ایک باعظمت قرآن ہے جو لوح محفوظ میں (لکھا ہوا) ہے (جس میں کوئی تغیر و تبدل متحمل نہیں، وہاں سے نہایت حفاظت کے ساتھ صاحب وحی کے پاس پہنچایا جاتا ہے کما قال تعالیٰ فی سورة الجن، فانہ یسلک من بین یدیہ ومن خلفہ رصدا پس ایسی صورت میں تکذیب قرآن کی بلاشبہ جہالت و موجب عقوبت ہے) معارف و مسائل والسمآء ذات البروج بروج، برج کی جمع ہے بڑے محل یا قلعہ کو کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں ہے ولو کنتم فی بروج مشیدة یہاں بروج سے مراد محلات و قصور ہی ہیں اور اصل مادہ برج کے لغوی معنے ظہور کے ہیں۔ تبرج کے معنے بےپردہ کھلے پھرنے کے ہیں۔ قرآن کریم میں ہے ولا تبرجن تبرج الجاھلیتہ الاولی اس آیت میں بروج سے مراد جمہور مفسرین کے نزدیک بڑے بڑے ستارے ہیں۔ حضرت ابن عباس، مجاہد، ضحاک، حسن بصری، قتادہ، سدی سب کا یہی قول ہے اور بعض دوسرے ائمہ تفسیر نے اس جگہ بروج سے مراد قصور یعنی محلات لئے ہیں اور اس سے مراد وہ مکانات ہیں جو آسمان میں پہرہ داروں اور نگراں فرشتوں کے لئے مقرر ہیں اور بعض متاخرین نے بروج سے مراد وہ بروج بتلائے ہیں جو فلاسفہ کی اصطلاح ہے کہ کل آسمان کو بارہ حصوں میں تقسیم کر کے ہر حصہ کو ایک برج کہا جاتا ہے ان کا خیال یہ ہے کہ ثوابت ستارے انہی برجوں میں اپنی جگہ مقیم ہیں اور سیا رات حرکت فلک کیساتھ متحرک ہوتے ہیں اور ان برجوں میں سیا رات کا نزول ہوتا ہے، مگر یہ سراسر غلط ہے قرآن کریم سیا رات کو آسمانوں میں مرکوز نہیں قرار دیتا بلکہ ہر سیارے کو اپنی ذاتی حرکت سے متحرک قرار دیتا ہے جیسا کہ سورة یس کی آیت میں ہے وکل فی فلک یسجون فلک سے مراد اس میں آسمان نہیں بلکہ سیارے کی مدار ہے جس میں وہ حرکت کرتا ہے۔ (مظہری)
وَالسَّمَاۗءِ ذَاتِ الْبُرُوْجِ ١ ۙ سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ برج البُرُوج : القصور، الواحد : بُرْج، وبه سمّي بروج السماء لمنازلها المختصة بها، قال تعالی: وَالسَّماءِ ذاتِ الْبُرُوجِ [ البروج/ 1] ، وقال تعالی: تَبارَكَ الَّذِي جَعَلَ فِي السَّماءِ بُرُوجاً [ الفرقان/ 61] ، وقوله تعالی: وَلَوْ كُنْتُمْ فِي بُرُوجٍ مُشَيَّدَةٍ [ النساء/ 78] يصح أن يراد بها بروج في الأرض، وأن يراد بها بروج النجم، ويكون استعمال لفظ المشیدة فيها علی سبیل الاستعارة، ( ب ر ج ) البروج یہ برج کی جمع ہے جس کے معنی قصر کے بین اسی مناسبت سے ستاروں کے مخصوص منازل کو بروج کہا گیا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَالسَّماءِ ذاتِ الْبُرُوجِ [ البروج/ 1] آسمان کی قسم جس میں برج ہیں ۔ الَّذِي جَعَلَ فِي السَّماءِ بُرُوجاً [ الفرقان/ 61] جس نے آسمان میں برج بنائے ۔ اور یہ آیت کریمہ ؛۔ وَلَوْ كُنْتُمْ فِي بُرُوجٍ مُشَيَّدَةٍ [ النساء/ 78] خواہ بڑے بڑے محلوں میں ہو ۔ میں بروج سے مضبوط قلعے اور محلات بھی مراد ہوسکتے ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ستاروں کی برجیں مراد ہوں اور صورت میں بروج کے ساتھ فقط مشیدۃ کا استعمال بطور استعارہ ہوگا
(١۔ ٣) قسم ہے برجوں والے آسمان کی یا یہ کہ محلوں والے آسمان کی، آسمان و زمین کے درمیان بارہ محل ہیں جن سے اللہ تعالیٰ ہی واقف ہے اور قسم ہے قیامت کے دن کی اور جمعہ کے دن کی اور عرفہ کے دن کی، یا یہ کہ یوم النحر کی اور کہا گیا ہے کہ شاہد سے انسان مراد ہیں اور مشہود قیامت کا دن ہے یا کہ شاہد رسول اکرم ہیں اور مشہود آپ کی امت ہے۔
آیت ١{ وَالسَّمَآئِ ذَاتِ الْبُرُوْجِ ۔ } ” قسم ہے آسمان کی جو برجوں والا ہے۔ “ برجوں سے مراد آسمان کے عظیم الشان ستارے اور سیارے لیے گئے ہیں۔
1 Literally: "By the heaven having constellations." Some of the commentators have interpreted it to mean the twelve signs of the zodiac in the heavens according to ancient astronomy, However, according to Ibn 'Abbas, Mujahid, Qatadah, Hasan Basri, Dahhak and Suddi it unplies the glorious stars and platters of the sky.
سورة الْبُرُوْج حاشیہ نمبر :1 اصل الفاظ ہیں ذات البروج ۔ یعنی برجوں والے آسمان کی ۔ مفسرین میں سے بعض نے اس سے مراد قدیم علم ہیبت کے مطابق آسمان کے 12 برج لیے ہیں ۔ اور ابن عباس ، مجاہد ، قتادہ ، حسن بصری ، ضحاک اور سدی کے نزدیک اس سے مراد آسمان کے عظیم الشان تارے اور سیارے ہیں ۔
١۔ ١٠۔ ان سات تاروں اور بارہ برجوں کا ذکر سورة فرقان میں گزر چکا ہے حاصل یہ ہے کہ آسمان کے بارہ حصے ہیں ان کے ہر ایک حصہ کو برج کہتے ہیں۔ چاند ‘ سورج ‘ زہرہ ‘ مریخ ‘ عطارد ‘ مشتری ‘ زحل ‘ تاروں کا دورہ جب ان برجوں میں ہوتا ہے تو اس سے مہینہ سال کی گنتی ‘ تبدیلی موسم ‘ طرح طرح کی اللہ کی قدرتیں نمودار ہوتی ہیں۔ ترمذی ١ ؎ میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس آیت میں یوم موعہد قیامت کا نام ہے اور یوم مشھود عرفہ اور شاھد جمعہ کا اس حدیث کی سند میں ایک راوی موسیٰ بن عبیدہ اگرچہ ضعیف ہے لیکن اس باب میں اور بھی متفرق روایتیں ہیں جن سے ابوہریرہ (رض) کی اس حدیث کی تقویت ہوجاتی ہے۔ علاوہ اس کے جہاں موسیٰ بن عبید کی روایت عبد اللہ بن دینار سے ہو وہاں اس میں ضعف زیادہ مشہور ہے ترمذی کی روایت میں عبد اللہ بن دینار نہیں ہیں اسی واسطے ترمذی نے اس روایت کے بعد موسیٰ بن عبیدہ کی کسی قدر توثیق کی غرض سے یہ کہا ہے کہ یہ موسیٰ ایسے شخص ہیں جن سے شعبہ اور سفیان ثوری جیسے لوگوں نے روایت جائز رکھی ہے۔ ١ ؎ اوپر کی چیزوں کی قسم کھا کر اللہ تعالیٰ نے اس سورة میں ایک بادشاہ کا قصہ لوگوں کو آگ میں جلانے کا بیان فرمایا ہے اس قصہ کی روایت صحیح ٢ ؎ مسلم ‘ ترمذی ‘ نسانی وغیرہ میں صہیب کے حوالہ سے ہے حاصل اس قصہ کا یہ ہے کہ اس بادشاہ نے اس زمانہ کے اہل ایمان سے کہا کہ تم اپنے دین سے پھر جاؤ جب ان اہل ایمان نے اس بادشاہ کی بات کو نہ مانا تو اس بادشاہ نے گلی کوچوں میں کھائیاں کھدوا کر ان میں خوب آگ دہکا دی اور بہت سے آدمیوں کو اس آگ میں ڈال کر جلا دیا۔ تفسیر کلبی وغیرہ میں ہے کہ آخر کو وہ آگ اس بادشاہ اور اس کے ساتھیوں پر پلٹ گئی اور وہ سب جل کر خاک ہوگئے متقدمین مفسرین کی تفسیروں میں ایک بہت بڑی تفسیر کلبی ہے ابن عدی نے اس تفسیر کی تعریف کی ہے اور بعض علماء نے تفسیر مقاتل سے اس تفسیر کلبی کو اچھا کہا ہے تفسیر مقاتل بن سلیمان میں جس تفسیر کو امام معتبر کہا کرتے تھے یہ لکھا ہے کہ اگرچہ تاریخ کی کتابوں کی رو سے دنیا میں تین بت پرست بادشاہوں نے لوگوں کو آگ میں جلایا ہے فارس کے ملک میں بخت نصر نے ‘ شام کے ملک میں انطنانوس رومی نے ‘ یمن کے ملک میں یوسف ذونواس نے ‘ لیکن مکہ کے لوگوں میں یمن کا قصہ زیادہ مشہور تھا۔ اس واسطے یہ اسی قصہ کا ذکر قرآن شریف میں آیا ہے ابتدائے اسلام میں مشرک لوگ مکہ میں اہل اسلام کو بڑی بڑی تکلیفیں دیتے تھے اللہ تعالیٰ ان اس قصہ کو ذکر فرما کر اہل اسلام کی یہ تسکین فرمائی کہ دنیا امتحان کی جگہ ہے کچھ تم پر یہ تکلیف نئی نہیں ہے۔ ہر زمانہ کے پابند شریعت لوگوں کو مخالف لوگوں کے ہاتھ سے تکلیف پہنچ چکی ہے لیکن اخیر کو اہل حق کا بول بالا ہوا ہے زمانہ امتحان تک ذرا صبر درکار ہے پھر آخیر کو ہمیشہ کی عادت الٰہی کے موافق اہل حق کا غلبہ ہوگا۔ اللہ سچا ہے اللہ کا وعدہ سچا ہے اخیر کو مکہ میں جو کچھ اسلام پھیلا اس کا اثر آج تک موجود ہے اس قصہ کی روایت کے بعد حضرت حسن بصری ٢ ؎ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ کی رحمت کا حال اس قصہ سے معلوم ہوسکتا ہے جن بت پرستوں نے اللہ تعالیٰ کے دوستوں کو شہید کیا ‘ اللہ تعالیٰ کو ان بت پرستوں کی توبہ قبول کرنے میں کچھ دریغ نہ تھا۔ اسی واسطے فرمایا ثم لم یتوبوا جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ لوگ توبہ کرتے تو فوراً اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول کرلیتا۔ اس توبہ کے ذکر سے ان علماء کے مذہب کی تائید ہوتی ہے جو قاتل کی توبہ قبول ہونے کے قائل ہیں۔ (١ ؎ جامع ترمذی تفسیر سورة البروج ص ١٩١ ج ٢) (٢ ؎ صحیح مسلم باب قصۃ الصحب الاخدود الخ ص ٤١٥ ج ٢ و جامع ترمذی۔ تفسیر سورة البروج ص ١٩٢ ج ٢۔ ) ١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٤٩٥ ج ٤ ٢ ؎ ایضاً ص ٣٩٦ ج ٤۔
(85:1) والسماء ذات البروج : واؤ قسمیہ، السماء مقسم بہٖ ونیز موصوف۔ ذات البروج : مضاف مضاف الیہ مل کر صفت السماء کی۔ برجوں والا۔ برجوں سے کیا مراد ہے ؟ اس کے متعلق علماء کے مختلف اقوال ہیں :۔ (1) آسمان کے بارہ حصے۔ ان کا نام برج۔ ہر ایک پرستاروں کا پتہ، حدیں رکھی ہیں حساب کو۔ (موضح القرآن از شاہ عبد القادر 25:61) ۔ علم نجوم کو جاننے والوں نے ستاروں کے حساب سے آسمان کو بارہ حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے ہر ایک برج کی اپنی خصوصیات ہیں جن کے حساب سے ماہرین علم نجوم پیشین گوئیاں کرتے ہیں یہ برج یہ ہیں :۔ برج یا دیدم کہ از مشرق برآور دند سر جملہ در تسبیح و در تہلیل حق لایموت چوں حمل چوں ثور چوں جوزاء و طان و اسد سنبلہ، میزان و عقرب، و قوس وجدی و حوت (2) بعض کے نزدیک یہ بروج منازل قمر ہیں۔ (3) بعض کا خیال ہے کہ بروج بڑے ستاروں کو کہتے ہیں ۔ کیونکہ بروج کے لغوی معنی ظہور کے ہیں اور جو ستارے روشن اور ظاہر ہوں ان کو بروج کہتے ہیں۔ یہ حضرت ابن عباس (رض) و مجاہد و ضحاک ، حسن، قتادہ اور سدی کا قول ہے۔ اور یہ معنی مذاق عرب العرباء سے زیادہ چسپاں ہیں۔ (4) منھال بن عمرو کہتے ہیں کہ اس کے معنی ہیں عمدہ پیدائش۔ آیت کا ترجمہ ہوگا :۔ اور قسم ہے آسمان برجوں والے کی۔
ف 13 برجوں سے مراد وہ منزلیں ہیں جنہیں سورج ایک سال کی مدت میں طے کرتا ہے یا وہ قلعے جن میں فرشتے پہرہ دیتے ہیں یا بڑے بڑے ستارے
سورة البروج۔ آیات ١ تا ٢٢۔ اسرار ومعارف۔ قسم ہے آسمان کی جس میں پہریداروں کے قلعے ہیں اکثر روایات میں بروج سے مراد آسمان کے چوکیدار فرشتو کے قلعے ہیں فلاسفہ نے فرضی طور پر آسمان کو بارہ حصوں میں تقسیم کرکے ہر حصے کا نام برج رکھا ہے اور کہا ہے کہ ستارے تو ان میں رہتے ہی ہیں سیارے بھی آمدورفت رکھتے ہیں ان کے ملنے سے جو شکلیں بنتی ہیں وہی ان برجوں کے نام رکھ دیے جیسے حمل ، ثور ، جوز ، وغیرہ مگر یہ سب لغویات ہیں اور دین میں ان کی کوئی حیثیت نہیں اور قسم ہے روز قیامت کی جس کا وعدہ کیا گیا ہے اور قسم ہے ہراس گواہ کی جو حق کی شہادت دیتا ہے اور ہر اس حقیقت کی جس پر شہادت دی جاتی ہے یعنی یہ سب امور اس پر گواہ ہیں آسمان بھی ، روز حشر بھی ، ھرسچاگواہ بھی اور ہر حقیقت بھی کہ خندقیں کھود کر مسلمانوں کو جلانے والے تباہ ہوگئے جب انہوں نے خندقیں ایندھن سے بھڑکادیں اور مسلمانوں کو ان میں گرا گرا کر بیٹھے تماشہ دیکھ رہے تھے۔ خندق والوں کا قصہ۔ روآیات میں ایسے کئی واقعات ملتے ہیں جن میں مسلمانوں پہ ظلم کیا گیا مگر یہاں جو واقعہ مراد ہے وہ یمن کے بادشاہ یوسف ذونواس بن شرجیل کا ہے جس کا سرکاری کاہن بوڑھا ہوگیا تو اسے ایک ذہین لڑکا دیا گیا کہ کہانت سیکھ لے مگر اس لڑکے کی ملاقات ایک ولی اللہ سے ہوگئی اور مسلمان ہو کر اللہ اللہ سیکھنے لگ گیا۔ کاہن کے پاس تو جاتامگراسی بہانے شیخ کی خدمت میں وقت لگانے پر اللہ نے اسے صاحب کرامت کردی اور بیماروں کو شفا ہونے لگی بات بادشاہ تک پہنچی اس نے شیخ کو گرفتار کروا کے قتل کردیا بچے کے قتل کی تدابیر کیں مگر وہ بچ گیا تو اس نے خود بادشاہ سے کہا اگر مجھے مارنا ہے تو لوگوں کو جمع کرو مجھے سولی پہ لٹکادو اور میرے ترکش کا تیر بسم اللہ پڑھ کر میری کنپٹی پہ مارو تب مجھے مار سکو گے بادشاہ نے لوگوں کو جمع کرلیا اور اسے لٹکاکر بسم اللہ پڑھ کر تیرمارا وہ شہید ہوگیا مگر تبلیغ کا حق ادا کرگیا اور لوگوں نے اسلام قبول کرلیا ، آمنا برب الغلام (ہم اسی لڑکے کے رب پر ایمان لائے) بادشاہ نے غصے میں ہرگلی کے سامنے خندق کھدوا کر حکم دیا کہ جو اسلام سے پھرجائے چھوڑ دو ورنہ سب کو آگ میں ڈالتے جاؤ تو کسی نے بھی اسلام سے پھر ناقبول نہ کیا شہید ہوہوکرسرفراز ہوتے گئے۔ روآیات میں ہے کہ آگ میں جانے سے قبل اللہ ان کی ارواح قبض فرمالیتے تھے مگر آگ ایسی بھڑکی کہ سب کفار کو بھسم کردیا بادشاہ بھاگ کر دریا میں جاگھسا مگر وہاں غرق کے عذاب میں گرفتار ہو کر واصل جہنم ہوا۔ قبر میں شہید کا حال۔ اس لڑکے کا نام عبداللہ بن تامر تھا ۔ محمد بن عبداللہ بن ابوبکرصدیق سے روایت ہے کہ سیدنافاروق اعظم کے زمانے میں کسی کھدائی میں عبداللہ بن تامر کا وجود ملا جو بیٹھا ہوا تھا اور کنپٹی پہ ہاتھ رکھا ہوا جب ہاتھ الگ کیا گیا توخون جاری ہوگیا جب چھوڑا گیا تو اس نے کنپٹی پہ رکھ لیا اور انگلی میں انگوٹھی تھی جس پہ کندہ تھا ، ربی اللہ ، گورنر یمن نے حضرت عمر کو لکھاتو آپ نے حکم دیا کہ اسے انگوٹھی سمیت ویسے ہی دفن کردو۔ حالانکہ مسلمانوں کا کوئی قصور نہ تھا وہ تو اپنے پروردگار حقیقی پہ ایمان لائے تھے جو زبردست ہے اور تمام تعریفیں اسی کو سزاوار ہیں ۔ ارض وسما پہ اس کی کی حکومت ہے اور وہ ہر شے سے خوب باخبر ہے جو لوگ اللہ کے ایماندار بندوں یابیبیوں کو ظلم کانشانہ بناتے ہیں اگر وہ توبہ نہیں کرتے تو ان کاٹھکانہ جہنم ہے اور ان کے لیے جلنے کا عذاب ہے۔ رحمت باری تعالیٰ جل شانہ۔ حضرت حسن بصری فرمایا کرتے تھے کہ اللہ کی رحمت بےپایاں ہے ، لوگ اس کے اولیاء کے قاتل اور ظالم ہوں تو بھی توبہ کا دروازہ بند نہیں کرتا بلکہ انہیں بھی توبہ کی دعوت دی جارہی ہے ۔ یقینی فتح۔ یقینا جو لوگ ایمان لاتے ہیں ان کے لیے جنت ہے جس میں نہریں رواں ہے اور جسے پالینا بہت بڑی کامیابی ہے یعنی مومن فاتح ہو کر بھی کامیاب اور شہید ہوکر بھی کامیاب کہ اپنی منزل سے ہمکنار ہوا یقینا تیرے رب کی گرفت سے بہت سخت ہے وہی نابود سے بود اور نیست سے ہست کرتا ہے اسی نے پہلی بار بھی پیدا کیا اور وہی دوبارہ پیدا فرمائے گا وہ بہت ہی بڑا بخشنے والا ہے اور محبت کرنے والا ہے عرش عظیم کا سلطان ہے جو چاہے کرے اسے مخاطب کیا تو نے فرعون اور ثمود کے لشکروں کی بات نہیں سنی کہ کفر کے نتیجے میں کیسے اللہ کی گرفت میں آئے ایسے جو لوگ کفر کرتے ہیں وہ اللہ کے قبضہ قدرت سے باہر نہیں ہیں اور جس کلام کا انکار کر رہے ہیں یعنی قرآن یہ بہت بڑی شان والا کلام ہے جو لوح محفوظ میں بھی لکھا ہوا ہے جس میں کسی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں۔
لغات القرآن۔ ذات البروج۔ برجوں والا۔ قلعہ والا۔ الیوم الموعود۔ جس دن کا وعدہ کیا گیا تھا۔ شاھد۔ حاضر ہونے والا۔ مشھود۔ جس میں لوگ حاضر ہوں۔ الاخدود۔ خندقیں۔ ذات الوقود۔ ایندھن والی۔ قعود۔ بیٹھے ہوئے۔ مانقموا۔ وہ بدلہ نہیں لیتے۔ فتنوا۔ آزمایا۔ عذاب الحریق۔ جلا ڈالنے والا عذاب۔ بطش۔ گرفت۔ پکڑ۔ فعال۔ کر گزرنے والا۔ تشریح : سورة البروج مکہ مکرمہ کے اس ابتدائی دور میں نازل ہوئی جب کفار قریش مسلمانوں کو طرح طرح کی اذیتیں دیتے اور ظلم و ستم کیا کرتے تھے اور کسی طرح اہل ایمان کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرام (رض) کو تسلی دیتے ہوئے کفار کی اذیتوں پر صبر کرنے اور شدید حالات کے مقابلے میں ڈتے رہنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا کہ اسی میں ان کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ وہ کسی کی طاقت و قوت کی پرواہ نہ کریں کیونکہ اہل یمان سے یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ وہی غالب رہیں گے اور ظلم و ستم کرنے والے اپنے کیفرکردار کو پہنچ کر رہیں گے۔ اس سلسلہ میں خندق والوں کا، قوم فرعوں اور قوم ثمود کا خاص طرو پر ذکر کرے ہوئے فرمایا ہے کہ ان سب نے ایمان والوں کو بری طرح ستایا۔ ذونو اس بادشاہ جو ہر شخص کو اپنے بتوں کے آگے جھکنے پر مجبور کردیتا تھا اس نے ایسی خندقیں اور گڑھے تیار کرائے تھے جو آگ اور اس میں جلائے جانے والے ایندھن سے بھرے ہوئے تھے۔ لمبے چوڑے گڑھے جن کی مقدار لمبائی میں ایک سوبیس فٹ اور چوڑائی میں چالیس فت اور بےانتہا گہرے تھے۔ جو شخص بھی اس کے بتوں کے سامنے سجدہ کرنے سے انکار کرتا اور اپنے ایمان پر قائم رہتا اس کو ان آگے سے بھرے ہوئے گڑھوں میں پھینک کر زندہ جلا دیا کرتا تھا۔ اس کے نزدیک ان کا قصور یہ تھا کہ وہ اس اللہ پر ایمان و یقین کی دولت سے مالا مال ہوچکے تھے جو آسمانوں اور زمین میں ہر طرح کی طاقت و قوت کا مالک ہے۔ جس نے ان کو پہلی مرتبہ پیدا کیا اور وہی دوبارہ پیدا کرے گا۔ وہ بخشنے والا، محبت کرنے والا، عرش کا مالک، بڑی شان والا اور ہر چیز پر اس کی ایسی قدرت ہے کہ وہ جو چاہے جیسے چاہے اس کو اسی طرح کرتا ہے۔ فرعون کا حال بیا کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ لوگوں سے کہلواتا تھا کہ وہی رب اعلیٰ ہے۔ وہ زبردستی ہر شخص کو اپنے سامنے سجدہ کراتا تھا اور جو اس سے انکار کرتا اس کو سخت اذیتیں دیا کرتا تھا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو نیچا دکھانے کے لئے جب پورے ملک کے جادوگروں کو جمع کیا اور فرعون نے ان جادوگروں سے کہا کہ جب وہ کامیاب ہوجائیں گے تو ان کو نہ صرف انعام و اکرام سے نواز اجائے گا بلکہ وہ بادشاہ کے مقرب بن جائیں گے لیکن جب ان جادوگروں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے عصا کا معجزہ دیکھا تو وہ سمجھ گئے کہ عصا کا اژدھا بن جانا معجزہ ہے جادو نہیں ہے تو سارے جادوگروں نے اس بات کا اعلان کردیا کہ وہ اللہ پر ایمان لے آئے ہیں۔ فرعون اس ذلت اور بےعزتی کو برداشت نہ کرسکا اور اس نے مومنوں سے کہا کہ اگر وہ اپنے ایمان پر قائم رہے تو وہ ان کے مخالف سمتوں سے ہاتھ پیر کاٹ کر سولی پر چڑھا دے گا۔ مومن ہوجانے والے جادوگروں نے کہا اے فرعون ہمیں اللہ نے ہدایت عطا فرما دی ہے اب ہمیں کسی سزا کی پرواہ نہیں ہے تیرا جو جی چاہے وہ کرلے ہمارے دلوں میں جو ایمان کی شمع روشن ہوچکی ہے اسے کوئی بجھا نہیں سکتا۔ خندق والوں اور فرعون کے ظلم و ستم کا ذکر کرتے ہوئے قوم ثمود کی طرف بھی اشارہ کیا کہ اللہ نے ان کو بےانتہا صلاحتیں اور مال و دولت عطا کیا تھا مگر وہ اپنے کفر وشرک میں اس قدر آگے بڑھ چکے تھے کہ جو بھی اپنے ایمان کا اعلان کرتا اس کو ذلیل و خوار کرتے اور ہر طرح کی اذیتیں دینے میں حد سے گزر جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اہل ایمان نے آگ سے بھرے ہوئے گڑھوں میں جلنا گوارا کیا، فرعون کے ظلم و ستم اور قوم ثمود کی اذیتوں کو برداشت کیا لیکن اپنے ایمان پر مضبوطی سے قائم رہے۔ یہی ثابت قدمی اور ایمان کی مضبوطی تھی جس نے انہیں اس جنت کا مستحق بنا دیا جس میں ان کو وہ تمام راحتیں اور نعمتیں عطا کی جائیں گی جن کا وہ اس دنیا میں تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اہل ایمان کو بتایا گیا کہ اہل ایمان و ظلم و ستم کرنے والے بہت جلد مٹ جائیں گے لیکن دنیا اور آخرت میں ان ہی لوگوں کو ہر طرح کی راحتیں عطا کی جائیں گی جو اپنے ایمان پر پختگی کے ساتھ قائم رہیں گے۔ زیر مطالعہ آیات میں اللہ نے آسمان کے مضبوط قلعوں، قیامت کے دن، اس میں حاضری اور قیامت کا مشاہدہ کرنے والوں کی قسم کھا کر فرمایا ہے کہ خنق والے اللہ کی لعنت کے مستحق بن گئے جنہوں نے آگ سے بھرے ہوئے گڑھے تیار کئے تھے اور وہ لوگ بھی مارے گئے جو اہل ایمان کی آگ میں پھین کر ان کا تماشا دیکھا کرتے تھے۔ ان اہل ایمان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ اس اللہ پر ایمان لے آئے تھے جو تمام قوتوں، طاقتوں کا مالک، ہر طرح کی تعریفوں کا مستحق، زمین وآسمان کی سلطنت کا مالک اور ہر چیز کو ہر آن دیکھنے والا ہے۔ فرمایا کہ جو لوگ آج اپنی قوت و طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اللہ کے مومن بندوں اور مومن بندیوں کو ستار ہے ہیں اگر انہوں نے توبہ نہ کی اور اپنی حرکتوں سے نہ آئے تو وہ وقت بہت دور نہیں ہے جب ان کو جہنم کی ایسی آگ میں جھونکا جائے گا جو ان کو جھلس کر رکھ دے گی۔ لیکن اگر وہ توبہ کر کے ایمان لے آئے اور عمل صالح کی روش اختیار کی تو ان کو ایسی جنتوں میں راحت و آرام کی نعمتیں عطا کی جائیں گی کہ ہرے بھرے باغوں کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ یہی زبردست کامیابی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے صاف صاف فرمادیا کہ اللہ ہر آدمی کو برداشت کرتا ہے اس کو ڈھیل اور مہلت دیتا رہتا ہے لیکن جو لوگ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتے جب وہ ان کو پکڑتا ہے تو پھر اس سے چھڑانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ اللہ وہ ہے جو سب کا خالق اور پیدا کرنے والا ہے وہی انسان کے مر جانے کے بعد اس کو دوبارہ زندہ کرے گا۔ اللہ کی شان یہ ہے کہ بہت بخشنے والا، بندوں سے محبت کرنے والا، عرش کا مالک اور بڑی عزت و عظمت کا مالک ہے۔ قوم فرعون اور قوم ثمود بھی اگر توبہ کرلیتے تو وہ ان کو معاف کردیا جاتا لیکن وہ تو ہر طرح سمجھانے کے باوجود انکار کرنے کی روش پر قائم رہے حالانکہ وہ اللہ کے اختیار میں تھے اور اس نے ان کو چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا بچ کر وہ کہیں نہ جاسکتے تھے اور نہ جاسکیں گے۔ اہل ایمان کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ نے جس قرآن کو نازل کیا ہے وہ اللہ کے ہاں بالکل محفوظ ہے۔ اہل ایمان اس قرآن سے مکمل رہنمائی حاصل کریں اسی میں ان کی اور ساری کائنات میں بسنے والے انسانون کی کامیابی کا رازہ چھپا ہوا ہے۔
فہم القرآن ربط سورت : سورة الانشقاق کے آخر میں دو کردار اور ان کا الگ الگ انجام بیان ہوا۔ اسی بات کو البروج میں تھوڑی سی تفصیل کے ساتھ ذکر فرما کر یہ واضح کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نیک لوگوں پر بڑا مہربان ہے، فرعون اور ثمود جیسا کردار رکھنے والوں کے لیے بڑا سخت ہے۔ فلکیات کے ماہرین نے آسمان دنیا کے بارہ برج متعین کر رکھے ہیں مگر قرآن مجید کے بروج سے مراد یہ برج نہیں ہیں۔ کچھ اہل علم نے قرآنی بروج سے مراد پہلے آسمان کے دروازے لیے ہیں جن دروازوں کے ذریعے ملائکہ زمین پر اترتے اور پھر آسمان میں داخل ہوتے ہیں۔ قرآن مجید کے الفاظ سے یہ نتیجہ اخذ کرنے کی گنجائش ہے کہ بروج سے مراد آسمان کے دروازوں میں ڈیوٹی دینے والے ملائکہ ہو، جن کو اللہ تعالیٰ نے شہاب ثاقب کی صورت میں اسلحہ دے رکھا ہے جن سے وہ شیاطین کو مارتے اور بھگاتے ہیں۔ اکثر علماء نے بروج سے مراد ستارے اور سیارے لیے ہیں۔ جن سے آسمان کو خوبصورت اور محفوظ بنایا گیا ہے۔ تاہم سرور دوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہمیں بروج کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں ملتی البتہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آسمان کی حفاظت اور شیاطین کے تعاقب کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) یَبْلُغُ بِہِ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِذَا قَضَی اللَّہُ الأَمْرَ فِی السَّمَاءِ ضَرَبَتِ الْمَلاَءِکَۃُ بِأَجْنِحَتِہَا خُضْعَانًا لِقَوْلِہِ کَالسِّلْسِلَۃِ عَلَی صَفْوَانٍ قَالَ عَلِیٌّ وَقَالَ غَیْرُہُ صَفْوَانٍ یَنْفُذُہُمْ ذَلِکَ فَإِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِہِمْ قَالُوا ماذَا قَالَ رَبُّکُمْ ، قَالُوا لِلَّذِی قَالَ الْحَقَّ وَہْوَ الْعَلِیُّ الْکَبِیرُ ) (رواہ البخاری : باب قَوْلِہِ (إِلاَّ مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَأَتْبَعَہُ شِہَابٌ مُبِینٌ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ آسمان پر کوئی فیصلہ صادر فرماتا ہے تو اللہ کے فرمان کے جلال کی وجہ سے فرشتوں کے پروں سے آواز پیدا ہوتی ہے جیسے صاف پتھر پر لوہے کی زنجیر کھنچنے سے آواز پیدا ہوتی ہے۔ جب ملائکہ کے دلوں سے گھبراہٹ دورہوجاتی ہے تو وہ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں ‘ آپ کے پروردگار نے کیا ارشاد فرمایا ؟ اوپر والے ملائکہ اللہ کا ارشاد کا ذکر کرتے اور اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہتے ہیں یہ ہے اللہ کا ارشاد جو بلند اور بڑا ہے۔ “ اَلْیَوْمِ الْمَوْعُوْدِ : قیامت کا دن پچاس ہزار سال پر مشتمل ہوگا اور اس میں لوگوں کو کئی مراحل سے گزرنا پڑے گا، قرآن مجید نے انہیں مراحل کے حوالے سے قیامت کا ذکر کیا ہے۔ یہاں قیامت کے دن کو الیوم الموعود کہا گیا ہے جس کا معنٰی ہے وعدے کا دن۔ یعنی وہ دن جس کے قائم کرنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے۔ شَاھِدٍ وَّ مَشْھُوْدٍ : حاضر ہونے والے اور حاضر کیے جانے والے۔ مفسرین نے ان الفاظ کے دو مفہوم بیان فرمائے ہیں۔ ١۔ قیامت کے دن انبیائے کرام (علیہ السلام) اور ان کی امتوں کا حاضر کیا جانا۔ ٢۔ حاضر ہونے والوں سے مرادوہ ظالم ہیں جنہوں نے مومنوں کو آگ کی خندقوں میں ڈالا، حاضر کیے جانے والوں سے مراد وہ مظلوم ایماندار ہیں جنہیں آگ میں جلایا گیا جن کا ذکر اگلی آیات میں آرہا ہے۔ ان کا اس کے سوا کوئی قصور نہیں تھا کہ وہ ” اللہ “ پر ایمان لائے جو ہر اعتبار سے غالب اور قابل تعریف ہے۔ اسی کے لیے زمین و آسمانوں کی بادشاہت ہے اور وہ ہر چیز سے واقف ہے۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے اپنی تین صفات کا ذکر کیا ہے۔ غالب کی صفت لاکر یہ ثابت کیا ہے کہ مومنوں پر ظلم ہونے کا یہ معنٰی نہیں کہ یہ ظلم کرنے والے اللہ تعالیٰ سے زیادہ طاقتور تھے۔ ایسا ہرگز نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے غالب ہے اور غالب رہنے والا ہے لیکن اس نے ایک طرف موحّدوں کا امتحان لیا اور دوسری طرف ظالموں کو ظلم کے لیے کھلا چھوڑ دیا تاکہ ایمانداروں کی استقامت ہمیشہ کے لیے مومنوں کے لیے مثال بن جائے اور ظالموں کو اذّیت ناک سزادی جائے۔ شہید کا لفظ بول کر یہ بتلایا ہے کہ اللہ تعالیٰ مظلوموں کے حال کو پوری طرح دیکھ رہا تھا کیونکہ وہ ہر بات کو جانتا ہے اور ہر چیز پر نگران ہے۔ الحمید کی صفت لاکر یہ اشارہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور صفات کے لحاظ سے اس قدر قابل تعریف ہے کہ اس کے لیے ہر چیز قربان کر دینی چاہیے اور جو اس کے لیے قربانی دے گا اللہ تعالیٰ اسے بھی تعریف کے قابل بنادے گا کیونکہ زمین و آسمانوں کے تمام اختیارات اسی کے پاس ہیں وہی اپنے بندوں کو جزا دینے والا اور مجرموں کو سزا دینے والا ہے۔ اصحاب الاخدود کا علاقہ سعودی مملکت میں نجران سے تقریباً آٹھ دس کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ نجران سعودی عرب کے جنوبی صوبہ کا ہیڈ کو ارٹر ہے اور یمن کی سرحد پر واقع ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کی توحید پر مرنے والوں کا مقام ہے کہ اس نے تین قسمیں کھا کر اصحاب الاخدود کی تاریخ بیان کی ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جانتا ہے اور ہر چیز پر نگران ہے : ١۔ تم جو بھی عمل کرتے ہو وہ اللہ کے علم میں ہوتا ہے۔ (یونس : ٦١) ٢۔ اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات کو جاننے والا ہے۔ (یٰس : ٧٩) ٣۔ جو لوگ جہالت کی وجہ سے برائی کرتے ہیں، پھر جلدی سے توبہ کرلیتے ہیں اللہ ان کی توبہ قبول کرتا ہے اور اللہ ہر چیز کو جاننے اور حکمت والا ہے۔ (النساء : ١٧) ٤۔ اللہ سے اس کے فضل کا سوال کرو یقیناً اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ (النساء : ٣٢) ٥۔ جو کچھ تم اللہ کے دیے ہوئے میں سے خرچ کرتے ہو اللہ اس کو جاننے والا ہے۔ (النساء : ٣٩) ٦۔ قیامت کا، بارش کے نازل ہونے کا، اور جو کچھ رحموں میں ہے اور انسان کل کیا کمائے گا اور اسے کہاں موت آئے گی اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔ (لقمان : ٣٤) ٧۔ فرشتوں نے کہا تو پاک ہے ہمیں تو اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھلایا ہے اور تو جاننے والا، حکمت والا ہے۔ (البقرۃ : ٣٢) ٨۔ اللہ جانتا ہے جو تم ظاہر کرتے ہو اور چھپاتے ہو وہ تو سینے کے رازوں کو بھی جاننے والا ہے۔ (ہود : ٥)
واقعہ اصحاب الاخدود کی طرف آنے سے قبل سورت کا آغاز اس قسم سے ہوتا ہے ” قسم ہے مضبوط قلعوں والے آسمان کی “۔” بروج “ سے مراد یا تو عظیم الجثہ اجرام فلکی ہیں ، گویا وہ آسمانوں کے عظیم الشان قلعے ہیں ، سورة ذاریات میں کہا گیا۔ والسماء .................... لموسعون (47:79) ” اور آسمان کو ہم نے ہاتھوں سے بنایا اور ہم بہت وسعت دینے والے ہیں “۔ اور سورة نازعات میں فرمایا : ءانتم .................... بنھا (27:79) ” کیا تخلیق کے لحاظ سے تم مضبوط ہو یا آسمان جسے ہم نے بنایا “۔ اور یا بروج سے مراد وہ منزلیں ہیں جن کے اندر یہ اجرام گردش کرتے ہیں یعنی جب یہ اجرام اپنے ایک مدار کے اندر گردش کرتے ہیں اور اس سے سرموتجاوز نہیں کرسکتے اور بروج کے لفظ سے ان کی ضخامت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ، یہاں اس سورت کی فضا پر ضخامت کا سایہ ڈالنا مقصود ہے۔
ان آیات میں اللہ جل شانہ نے آسمان کی قسم کھائی ہے اور اس کی صفت ذات البروج بتائی ہے (ان بروج سے بڑے بڑے ستارے مراد ہیں) نیز ﴿وَ الْيَوْمِ الْمَوْعُوْدِۙ٠٠٢﴾ کی اور شاہد اور مشہود کی بھی قسمیں کھائی ہیں، سنن ترمذی (ابواب التفسیر من سورة البروج) میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ﴿وَ الْيَوْمِ الْمَوْعُوْدِ﴾ سے یوم القیامة اور الیوم المشھود سے یوم عرفہ اور الشاھد سے یوم الجمعہ مراد ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بھی فرمایا کہ کوئی دن ایسا نہیں جس پر سورج نکلتا چھپتا ہو جو یوم جمعہ سے افضل ہو، اس دن میں ایسی گھڑی ہے کہ جو بھی کوئی مومن بندہ اس میں اللہ تعالیٰ سے خیر کا سوال کرے گا تعالیٰ اسے ضرور قبول فرمائے گا اور جس چیز سے بھی اللہ کی پناہ طلب کرے گا اللہ تعالیٰ اس سے ضرور پناہ دے گا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جو قسمیں کھائی ہیں جس میں امکنہ وازمنہ دونوں کا ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام امکنہ وازمنہ کا مالک ہے، ایسی ذات کی مخالفت کرنے والے بہرحال لعنت اور عقوبت کے مستحق ہیں۔ قسموں کے بعد ارشاد فرمایا کہ خندق والے ملعون ہوئے، یہ خندق سراپا آگ بنی ہوئی تھی خوب زیادہ ایندھن والی تھی جبکہ یہ لوگ اس خندق کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور اہل ایمان کے ساتھ جو حرکتیں کر رہے تھے انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے، اس خندق میں انہوں نے بہت زیادہ ایندھن ڈال رکھا تھا، آگ جل رہی تھی اور اس میں اہل ایمان کو ڈالتے جا رہے تھے۔ صحیح مسلم (صفحہ ٤١٥، ج ٢) میں ہے کہ حضرت صہیب (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرمایا کہ تم سے پہلے جو امتیں گزری ہیں ان میں سے ایک بادشا تھا اس کا ایک جادوگر تھا، وہ جادوگر بوڑھا ہوگیا تو اس نے بادشاہ سے کہا کہ میری عمر تو زیادہ ہوگئی میرے پاس کوئی لڑکا بھیج دے اسے میں جادو سکھا دوں، بادشاہ نے اس کے پاس جادو سیکھنے کے لیے ایک لڑکا بھیج دیا، یہ لڑکا جادو سیکھنے جاتا تو راستہ میں ایک راہب کے پاس سے گزرتا تھا، ایک مرتبہ اس کے پاس بیٹھ گیا اس کی باتیں سنیں تو اسے پسند آئیں، اب اس کے بعد بھی جب جادوگر کی طرف جاتا تو راہب پر گزرتا اور اس کے پاس بیٹھ جاتا پھر جب جادو گر کے پاس جاتا تو وہ اس کی پٹائی کرتا تھا کہ دیر سے کیوں آیا اس نے اپنی یہ مصیبت راہب کو بتائی، راہب نے کہا کہ تو ایسا کر کہ جب جادوگر کی طرف سے تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہو تو یوں کہہ دیا کر کہ مجھے گھر والوں نے روک لیا تھا اور جب گھر والوں کی طرف سے پوچھ تاچھ کا اندیشہ ہو تو یہ کہہ دیا کر کہ جادوگر نے روک لیا تھا، اسی طرح سلسلہ چلتا رہا ایک دن یہ واقعہ پیش آیا کہ راستے میں جاتے ہوئے ایک بڑا جانور سامنے آگیا جو لوگوں کا راستے روکے ہوئے تھے اس لڑکے نے کہا کہ آج پتہ چل جائے گا کہ جادوگر افضل ہے یا راہب، یہ سوچ کر اس نے ایک پتھر لیا اور یہ دعا کر کے اس جانور کو مار دیا کہ : اللھم ان کان امر الراھب احب الیک من امر الساحر فاقتل ھذا الدابة حتی یمضی الناس (اے اللہ راہب کا طریق کار آپ کے نزدیک جادوگر کے طریق کار کے مقابلہ میں محبوب ہے تو اس جانور کو قتل کر دیجئے تاکہ لوگ گزر جائیں) ۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ اس پتھر سے وہ جانور قتل ہوگیا اور جن لوگوں کا راستہ روکے ہوئے تھا وہ وہاں سے گزر گئے، اس کے بعدیہ ہوا کہ یہ لڑکا راہب کے پاس پہنچا اور اسے صورت حال کی خبر دی، راہب نے کہا اے پیارے بیٹے، اب تو تو مجھ سے افضل ہوگیا تو اس درجہ پر پہنچ گیا جو میں دیکھ رہا ہوں تو اگلی بات سن لے اور وہ یہ کہ اب تیرا امتحان لیا جائے گا (اور تو مصیبت میں مبتلا ہوگا) ایسی صورت پیش آئے تو میرے بارے میں کسی کو نہ بتانا۔ اب اس لڑکے کو اللہ تعالیٰ نے (مزید یوں نوازا) کہ وہ مادر زاد اندھے کو اور برص والوں کو اچھا کرتا تھا (یعنی ان کے حق میں دعا کردیتا تھا اور ان کو شفا ہوجاتی تھی) اس کا یہ حال بادشاہ کے پاس بیٹھنے والے ایک شخص نے سن لیا جو نابینا ہوچکا تھا۔ یہ شخص لڑکے کے پاس بہت سے ہدایا لایا اور اس سے کہا کہ اگر تو مجھ کو شفا دے دے تو یہ سب تیرے لیے ہیں لڑکے نے کہا کہ میں تو کسی کو شفا نہیں دیتا شفا تو اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ اگر تو اللہ پر ایمان لائے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کر دوں گا وہ تجھے شفا دے دے گا۔ وہ شخص اللہ پر ایمان لے آیا، اللہ نے اسے شفا دے دی، اب وہ بادشاہ کے پاس پہنچا اور حسب دستور بادشاہ نے کہا کہ میرے علاوہ تیرا کوئی رب ہے، اس شخص نے کہا کہ میرا اور تیرا رب اللہ تعالیٰ ہے اس پر اس شخص کو پکڑ لیا اور اسے برابر تکلیف پہنچاتا رہا یہاں تک کہ اس نے لڑکے کا نام بتادیا۔ اب لڑکے کو لایا گیا اس بادشاہ نے کہا کہ اے بیٹا تیرا جادو اس درجہ کو پہنچ گیا کہ تو مادر زاد اندھے کو اور برص والے کو اچھا کرتا ہے اور ایسے ایسے کام کرتا ہے، لڑکے نے کہا کہ میں تو کسی کو شفاء نہیں دیتا شفاء صرف اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے، اس پر بادشاہ نے اسے پکڑ لیا اور اسے برابر تکلیف دیتا رہا، حتیٰ کہ اس نے یہ بتادیا کہ فلاں راہب سے میرا تعلق ہے (اور اس کے پاس آنے جانے کی وجہ سے مجھے یہ بات حاصل ہوئی ہے) اس کے بعد راہب کو لایا گیا اور اس سے کہا گیا کہ تو اپنے دین کو چھوڑ دے اس نے انکار کردیا، لہٰذا ایک آرہ منگایا گیا جو اس کے سر کے درمیان میں رکھ دیا گیا اور اسے درمیان سے چیر کر دو ٹکڑے کردیا گیا، دونوں ٹکڑے زمین پر گرگئے، اس کے بعد بادشاہ کے اسی ہمنشیں کو لایا گیا (جو اس لڑکے کے دعوت دینے سے ایمان قبول کرچکا تھا اور لڑکے کی دعا سے اس کی بینائی واپس آگئی تھی) اس سے کہا گیا کہ تو ایمان سے پھر جا اس نے بھی انکار کردیا لہٰذا اس کے سر کے درمیان آرہ رکھ کر چیر دیا گیا اس کے دو ٹکڑے ہوگئے اور وہ زمین پر گرپڑا، اس کے بعد اس لڑکے کو لایا گیا اس سے کہا گیا کہ تو اپنے دین کو چھوڑ دے (یعنی ایمان سے پھر جا جو راہب کی صحبت میں آنے جانے سے حاصل ہوا تھا) لڑکے نے بھی ایمان سے پھرنے سے انکار کردیا، لہٰذا اسے بادشاہ نے اپنے چند آدمیوں کے حوالہ کیا اور ان سے کہا کہ اسے فلاں فلاں پہاڑ پر لے جاؤ، اسے پہاڑ پر لیکر چڑھو جب پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ جاؤ تو اس سے کہو کہ اپنے دین سے پھر جا، اگر یہ بات مان لے تو چھوڑ دینا ورنہ اسے وہیں سے نیچے پھینک دینا، وہ لوگ اس لڑکے کو پہاڑ پر لے کر چڑھے لڑکے نے دعا کی : اللھم اکفنیھم بما شئت (اے اللہ ! تو جس طرح چاہے ان لوگوں (کے شر) سے میرے لیے کافی ہوجا) اس کا دعا کرنا تھا کہ پہاڑ میں زلزلہ آگیا اور جو لوگ اسے لے کر گئے تھے وہ سب ہلاک ہوگئے اور لڑکا بچ گیا اور بادشاہ کے پاس چل کر آگیا، بادشاہ نے پوچھا کہ ان لوگوں کا کیا ہوا جو تجھے لے کر گئے تھے، لڑکے نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ان کے شر سے محفوظ فرما لیا۔ اس کے بعد چند دیگر افراد کے حوالہ کیا اور کہا اس لڑکے کو لے جاؤ اور ایک کشتی میں سوار کرو اور کشتی کو سمندر کے بیچ میں لے جاؤ اگر یہ اپنا دین چھوڑ دے تو کوئی بات نہیں ورنہ اسے سمندر میں پھینک دینا وہ لوگ اسے لے گئے اور کشتی میں بٹھا کر سمندر کے درمیان پہنچ گئے اس لڑکے نے وہی دعا کی : اللھم اکفنیھم بما شئت دعا کرنا تھا کہ کشتی الٹ گئی اور وہ لوگ غرق ہوگئے لڑکا بچ گیا اور بادشاہ کے پاس پہنچ گیا، بادشاہ نے کہا کہ ان لوگوں کا کیا ہوا جو تجھے لے گئے تھے، لڑکے نے کہا کہ اللہ میرے لیے کافی ہوگیا اس نے مجھے ان کے شر سے بچا لیا۔ اس کے بعد لڑکے نے کہا کہ تو مجھے (اپنی تدبیر سے) قتل نہیں کرسکتا ہاں قتل کا ایک راستہ ہے وہ میں تجھے بتاتا ہوں، بادشاہ نے کہا وہ کیا طریقہ ہے ؟ لڑکے نے کہا وہ یہ طریقہ ہے کہ تو لوگوں کو ایک میدان میں جمع کر اور مجھے درخت کے تنے پر لٹکا دے اور میرے اس ترکش سے ایک تیر لے اور پھر اسے کمان میں رکھ کر بسم اللّٰہ رب الغلام کہتے ہوئے میرے طرف پھنک دے (لڑکے نے یہ سمجھ کر کہ مجھے مرنا تو ہے ہی اپنی موت کو دعوت ایمان کا ذریعہ کیوں نہ بنا دوں لہٰذا اس نے یہ تدبیر بتائی کہ لوگوں کے سامنے میرا قتل ہو اور اللہ کا نام لے کر قتل کیا جاؤں، بادشاہ بدھو تھا اس تدبیر کو سمجھ نہ سکا) چناچہ اس نے لوگوں کو ایک میدان میں جمع کیا اور لڑکے کو درخت کے تنے سے لٹکا دیا اور اس کے ترکش سے ایک تیر لیا اور کمان میں تیر رکھ کر بسم اللہ رب الغلام کہہ کر لڑکے کو تیر مار دیا، تیر اس کی کنپٹی پر لگا، لڑکے نے تیر کی جگہ ہاتھ رکھا اور مرگیا، لوگوں نے جو یہ ماجرا دیکھا تو امنا برب الغلام کی رٹ لگانے لگے (یعنی ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لائے) ۔ اب بادشاہ کے پاس اس کے آدمی آئے اور انہوں نے کہا کہ تجھے جس بات کا خطرہ تھا (کہ اس لڑکے کی وجہ سے حکومت نہ چلی جائے) وہ تو اب حقیقت بن کر سامنے آگیا۔ اس پر بادشاہ نے حکم دیا کہ گلی کوچوں کے ابتدائی راستوں میں خندقیں کھودی جائیں، چناچہ خندقیں کھودی گئیں اور ان میں خوب آگ جلائی گئی، بادشاہ نے اپنے کارندوں سے کہا کہ جو شخص اپنے دین ایمان سے نہ لوٹے اسے آگ میں ڈال دو ، چناچہ ایسا ہی ہوتا رہا، اہل ایمان لائے جاتے رہے، ان سے کہا جاتا تھا کہ ایمان سے پھر جاؤ وہ انکار کردیتے تو انہیں زبردستی جلتی ہوئی آگ میں جھونک دیا جاتا تھا، یہاں تک کہ ایک عورت آئی اس کے ساتھ ایک بچہ تھا وہ آگ کو دیکھ کر پیچھے ہٹنے لگی اس کے بچے نے کہا کہ اے امی آپ صبر کیجئے کیونکہ آپ حق پر ہیں۔ سنن ترمذی (ابواب التفسیر) میں بھی یہ واقعہ مروی ہے اس کے شروع میں یہ بھی ہے کہ بادشاہ کا ایک کاہن تھا جو بطور کہانت آئندہ آنے والی باتیں بتایا کرتا تھا (ان باتوں میں سے یہ بھی تھا کہ تیری حکومت جانے والی ہے) اور اسی کاہن نے یہ بھی کہا کہ کوئی سمجھدار لڑکا تلاش کرو، جسے اپنا علم سکھا دوں اور ختم کے قریب یہ بھی ہے کہ جب عامۃ الناس نومن برب الغلام کہہ کر مسلمان ہوگئے تو بادشاہ سے کہا گیا کہ تو تو تین آدمیوں کی مخالفت سے گھبرا اٹھا تھا (یعنی راہب اور لڑکا اور بادشاہ کا ہم نشین) دیکھ اب تو یہ سارا جہاں تیرا مخالف ہوگیا اس پر اس نے خندقیں کھدوائیں ان میں لکڑیاں ڈالیں اور اعلان کیا کہ جو شخص اپنے دین (یعنی اسلام) کو چھوڑ دے گا ہم اسے کچھ نہ کہیں گے اور جو اپنے دین سے واپس نہ ہوگا اسے ہم آگ میں ڈال دیں گے لہٰذا وہ اہل ایمان کو ان خندقوں میں ڈالتا رہا، اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کو ﴿ قُتِلَ اَصْحٰبُ الْاُخْدُوْدِۙ٠٠٤﴾ میں بیان فرمایا ہے۔ سنن ترمذی میں قصہ کے آخر میں یہ بھی ہے کہ اس لڑکے کو دفن کردیا گیا تھا پھر اسے حضرت عمر بن الخطاب (رض) کے زمانہ میں نکالا گیا تو اس کی انگلی اسی طرح کنپٹی پر رکھی ہوئی تھی جیسا کہ اس نے قتل ہوتے وقت رکھی تھی۔ حافظ ابن کثیر (رض) نے مقاتل (رح) سے نقل کیا ہے کہ خندقوں کا واقعہ تین مرتبہ پیش آیا ہے ایک مرتبہ یمن میں اور ایک مرتبہ شام میں اور ایک مرتبہ فارس میں شام میں جو بادشاہ تھا وہ الطنایوس رومی تھا اور فارس میں جو واقعہ پیش آیا وہ بخت نصر کے زمانہ میں تھا عرب کی سرزمین (یعنی یمن نجران) میں جو واقعہ پیش آیا وہ یوسف ذونواس بادشاہ کے زمانہ کا واقعہ ہے پہلے دو واقعوں کا قرآن مجید میں ذکر نہیں اور نجران والے واقعہ کے بارے میں سورة البروج کی آیات نازل ہوئیں، اس کے بعد بحوالہ ابن ابی حاتم، حضرت ربیع بن انس سے نقل کیا ہے کہ اصحاب الاخدود کا واقعہ زمانہ فترہ میں پیش آیا یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے رفع الی السماء کے بعد اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے۔ واللہ تعالیٰ اعلم (ابن کثیر)
2:۔ ” والسماء “۔ یہ ثبوت قیامت پر شاہد اول ہے اور جواب قسم محذوف ہے۔ یہ آسمان جو تمہیں احاطہ کیے ہوئے ہے اور جس کے گھیرے سے تم نکل کر کہیں نہیں جاسکتے یہ اس پر شاہد ہے کہ اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہیں محیط ہے اور قیامت کے دن تم اس کے عذاب سے کہیں نکل بھاگ نہیں سکو گے۔ بروج سے بارہ برج مراد ہیں جن کو سورج سال بھر میں اور چاند ایک ماہ میں طے کرلیتا ہے یا اس سے اٹھائیس منازل قمر مراد ہیں (کبیر) ۔