Surat ul Burooj

Surah: 85

Verse: 10

سورة البروج

اِنَّ الَّذِیۡنَ فَتَنُوا الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ ثُمَّ لَمۡ یَتُوۡبُوۡا فَلَہُمۡ عَذَابُ جَہَنَّمَ وَ لَہُمۡ عَذَابُ الۡحَرِیۡقِ ﴿ؕ۱۰﴾

Indeed, those who have tortured the believing men and believing women and then have not repented will have the punishment of Hell, and they will have the punishment of the Burning Fire.

بیشک جن لوگوں نے مسلمان مردوں اور عورتوں کو ستایا پھر توبہ ( بھی ) نہ کی تو ان کے لئے جہنم کا عذاب ہے اور جلنے کا عذاب ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِنَّ الَّذِينَ فَتَنُوا الْمُوْمِنِينَ وَالْمُوْمِنَاتِ ... Verily, those who put into trial the believing men and believing women, meaning, they burned (them). This was said by Ibn Abbas, Mujahid, Qatadah, Ad-Dahhak, and Ibn Abza. ... ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا ... and then do not turn in repentance, meaning, `they do not cease from what they are doing, and do not regret what they...  had done before.' ... فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ then they will have the torment of Hell, and they will have the punishment of the burning Fire. This is because the recompense is based upon the type of deed performed. Al-Hasan Al-Basri said, "Look at this generosity and kindness. These people killed Allah's Auliya' and He still invites them to make repentance and seek forgiveness."   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦] اگرچہ احادیث میں ان اصحاب الاخدود کے انجام کے متعلق کچھ صراحت مذکور نہیں تاہم مفسرین لکھتے ہیں کہ یہی آگ ان آگ میں جلانے والوں کے کنٹرول سے باہر ہوگئی اور ان کے گھروں تک پہنچ کر ان کے گھروں کو خاکستر کر ڈالا اور یہ بھی ممکن ہے کہ (وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيْقِ 10۝ۭ ) 85 ۔ البروج :10) کا جملہ عذا... ب جہنم ہی کی صفت کے طور پر مذکور ہوا ہو۔ علاوہ ازیں یہ آیت صرف اصحاب الاخدود سے ہی تعلق نہیں رکھتی بلکہ عام ہے اور اس میں کفار مکہ کو انتباہ کیا گیا ہے کہ جو لوگ بھی مومن مردوں اور عورتوں کو صرف اس لیے ایذائیں پہنچاتے ہیں کہ وہ ایک اللہ پر ایمان لائے ہیں۔ ان کا بھی یہی انجام ہوگا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ان الذین فتنوا المومنین…:” فتنہ “ کا معین ہے، کھرے کھوٹے کی آزمائش کے لئے سونے کو آگ میں ڈالنا۔ پھر یہ لفظ جلانے، ستانے ، عذاب دینے اور حق سے برگشتہ کرنے کی کوشش کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہونے لگا۔” ان الذین فتنوا “ سے مراد اصحاب الاخدودبھی ہیں، جنہوں نے اہل ایمان کو آگ کی خندقوں میں ڈالا اور کفا... ر قریش اور بعد میں آنے والے وہ تمام ظالم بھی جو انواع و اقسام کے عذاب دے دے کر اہل ایمان کو ایمان سے ہٹانے کی کوشش کرتے رہے۔” فلھم عذاب جھنم ولھم عذاب الحریق “ جہنم میں کئی طرح کا عذاب ہے، سب سے سخت عذاب جلنے کا ہے، اس لئے اس کا ذکر خاص طور پر فرمایا، اس کے علاوہ اہل ایمان کو جلانے والوں کے حسب حال جلنے ہی کا عذاب ہے۔ “ ثم لم یتوبوا “ (پھر توبہ نہیں کی) اللہ کی شان کریمی دیکھیے کہ اہل ایمان کو جلانے والوں کو بھی جہنم کی سزا تب سنائی جب وہ توبہ کے بغیر مریں، کیونکہ توبہ کرنے سے گزشتہ تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ اس سے توبہ کی ترغیب بھی نکل رہی ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

إِنَّ الَّذِينَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا (Surely, those who persecuted the believing men and the believing women, then did not repent,...85:10) This verse describes the torment of the wrong-doers who burned the Muslims in the fire pit only on account of their faith. The description points out two things: [ 1] فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ them there is the torment...  of Jahannam) and [ 2] وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ (and for them there is the torment of burning). The second sentence may be treated as explicative of the first sentence, a statement for emphasis. It signifies that they will be put into Hell and will have to suffer eternal torment of the fire. Another possible interpretation is that the second statement describes the wrong-doers& torment in this world, as is narrated in some reports. The believers, who had been cast in fire pits, were spared the torture of fire, in that the souls of the believers were taken out before the fire could touch them. Only their dead bodies were lying in the fiery furnace. After that the fire flared up so high that it spread out wildly through the city and burned all those who were watching the fun of burning the Muslims. Only Yusuf Dhu Nuwas managed to run away, and threw himself into the sea in order to save himself from the rage of the fire, but he got drowned and died. [ Mazhari ]. Attached to the torment of Hell and the torment of burning for the wrong-doers is the restrictive phrase: ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا (then did not repent). That is, this torment is for those who did not repent of their deed and did not offer taubah. Thus this part of the verse invites people to repent. Sayyidna Hasan (رض) states: |"Look at Allah&s compassion and benevolence. They burned Allah&s friends alive, yet He invites them towards repentance and forgiveness.|" [ Ibn Kathir ]. Alhamdulillah The Commentary on Surah Al-Buruj Ends here  Show more

ان الذین فتنوالمومنین یہ ان ظالموں کی سا کا بیان ہے جنہوں نے مسلمانوں کو صرف ان کے ایمان کی بناء پر اگٓ کی خندق میں ڈال کر جلایا تھا، اور سزا میں دو باتیں ارشاد فرمائیں فلھم عذاب جھنم یعنی ان کے لئے آخرت میں جہنم کا عذاب ہے، دوسرا ولھو عذاب الحریق یعنی ان کے لئے جلنے کا عذاب ہے۔ ہوسکتا ہے کہ دوسرا ... جملہ پہلے ہی جملے کا بیان اور تاکید ہو اور معنے یہ ہوں کہ جہنم میں جا کر اس کو ہمیشہ آگ میں جلتے رہنے کا عذاب ملے گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ دوسرے جملے میں ان کی اسی دنیا میں سزا کا ذکر ہو، جیسا کہ بعض روایات میں ہے کہ جن مؤمنین کو ان لوگوں نے آگ کی خندق میں ڈالا تھا اللہ تعالیٰ نے ان کو تو تکلیف سے اس طرح بچا دیا کہ آگ کے چھونے سے پہلے ہی ان کی ارواح قبض کرلی گئیں آگ میں مردہ جسم پڑے، پھر یہ آگ اتنی بھڑک اٹھی کہ خندق کے حدود سے نکل کر شہر میں پھیل گئی اور ان سب لوگوں کو جو مسلمانوں کے جلنے کا تماشا دیکھ رہے تھے اس آگ نے جلا دیا، صرف بادشاہ یوسف ذونواس بھاگ نکلا اور آگ سے بچنے کے لئے اپنے آپ کو دریا میں ڈال دیا اس میں غرق ہو کر مراد (مظہری) ان لوگوں کے لئے عذاب جہنم اور عذاب حریق کی خبر کے ساتھ قرآن کریم نے یہ قید بھی لگا دی کہ ثم لم یتوبوا یعنی یہ عذاب ان لوگوں پر پڑیگا جو اپنے اس فعل پر نادم ہو کر تائب نہیں ہوئے اس میں ان لوگوں کو توبہ کی طرف دعوت دی گئی ہے۔ حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اس جو دو کرم کو دیکھو کہ ان لوگوں نے اللہ کے اولیاء کو زندہ جلا کر ان کا تماشا دیکھا اور حق تعالیٰ اس پر بھی ان کو توبہ اور مغفرت کی طرف دعوت دے رہا ہے۔ (ابن کثیر) تمت سورة البروج والحمد اللہ 16 شعبان 1391 ھ   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوْبُوْا فَلَہُمْ عَذَابُ جَہَنَّمَ وَلَہُمْ عَذَابُ الْحَرِيْقِ۝ ١٠ ۭ فتن أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاری... ات/ 13] ( ف ت ن ) الفتن دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات/ 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ «لَمْ» وَ «لَمْ» نفي للماضي وإن کان يدخل علی الفعل المستقبل، ويدخل عليه ألف الاستفهام للتّقریر . نحو : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] ، أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی [ الضحی/ 6] ( لم ( حرف ) لم ۔ کے بعد اگرچہ فعل مستقبل آتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے وہ اسے ماضی منفی بنادیتا ہے ۔ اور اس پر ہمزہ استفہام تقریر کے لئے آنا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] کیا ہم نے لڑکپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی ۔ توب التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار، فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول : فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع : ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة/ 54] ( ت و ب ) التوب ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں ۔ پہلی صورت یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ تیسری صورت یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر شرعا توبہ جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور/ 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔ جهنم جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام وقال أبو مسلم : كهنّام ( ج ھ ن م ) جھنم ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ حرق يقال : أَحْرَقَ كذا فاحترق، والحریق : النّار، وقال تعالی: وَذُوقُوا عَذابَ الْحَرِيقِ [ الحج/ 22] ، وقال تعالی: فَأَصابَها إِعْصارٌ فِيهِ نارٌ فَاحْتَرَقَتْ [ البقرة/ 266] ، وقالُوا : حَرِّقُوهُ وَانْصُرُوا آلِهَتَكُمْ [ الأنبیاء/ 68] ، لَنُحَرِّقَنَّهُ [ طه/ 97] ، و ( لنحرقنّه) «3» ، قرئا معا، فَحَرْقُ الشیء : إيقاع حرارة في الشیء من غير لهيب، کحرق الثوب بالدّق «4» ، وحَرَقَ الشیء : إذا برده بالمبرد، وعنه استعیر : حرق الناب، وقولهم : يحرق عليّ الأرّم «5» ، وحرق الشعر : إذا انتشر، وماء حُرَاق : يحرق بملوحته، والإحراق : إيقاع نار ذات لهيب في الشیء، ومنه استعیر : أحرقني بلومه : إذا بالغ في أذيّته بلوم . ( ح ر ق ) احرق کذا ۔ کسی چیز کو جلانا ) احترق ( جلنا ) الحریق ( آگ) قرآن میں ہے :۔ وَذُوقُوا عَذابَ الْحَرِيقِ [ الحج/ 22] کہ عذاب ( آتش ) سوزاں کے مزے چکھتے رہو ۔ فَأَصابَها إِعْصارٌ فِيهِ نارٌ فَاحْتَرَقَتْ [ البقرة/ 266] تو ( ناگہاں ) اس باغ پر آگ کا بھرا ہوا بگولا چلے اور وہ جل ( کر راکھ کا ڈھیرہو ) جائے ۔ وقالُوا : حَرِّقُوهُ وَانْصُرُوا آلِهَتَكُمْ [ الأنبیاء/ 68] ( تب ) وہ کہنے لگے ۔۔۔۔ تو اس کو جلادو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو ۔ لَنُحَرِّقَنَّهُ [ طه/ 97] ہم اسے جلا دیں گے ۔ ایک قرآت میں لنحرقنہ ہے ۔ پس حرق الشئ کے معنی کسی چیز میں بغیر اشتعال کے جلن پیدا کرنے کے ہیں جیسے دھوبی کے پٹخنے سے کپڑے کا پھٹ جانا ۔ حرق ( ن ) الشئی ریتی سے رگڑنا اسی سے حرق الناب کا محاورہ ہے جس کے معنی دانت پیسنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ۔ یحرق علی الارم یعنی وہ مجھ پر دانت پیستا ہے ۔ حرق الشعر ۔ بالوں کا منتشر ہونا ۔ ماء حراق بہت کھاری پانی جو کھا ری پن سے جلا ڈالے ۔ الاحراق کسی چیز کو جلانا اسی سے استعارۃ جب کہ بہت زیادہ ملامت کرکے اذیت پہنچائے تو کہا جاتا ہے ۔ احرقبی بلومہ یعنی اس نے مجھے ملامت سے جلا ڈالا ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠{ اِنَّ الَّذِیْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَتُوْبُوْا } ” یقینا جن لوگوں نے ظلم و ستم توڑا مومن مردوں اور مومن عورتوں پر پھر انہوں نے توبہ بھی نہیں کی “ اگر ان میں سے کسی نے مرنے سے پہلے توبہ کرلی اور ایمان لے آیا تو اس کا یہ جرم معاف ہوسکتا ہے۔ { فَلَہُمْ عَ... ذَابُ جَہَنَّمَ وَلَہُمْ عَذَابُ الْحَرِیْقِ ۔ } ” تو ان کے لیے ہوگا جہنم کا عذاب اور جلا ڈالنے والا عذاب۔ “  Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

6 "Punishment by burning" has been mentioned separately from the torment of Hell because they had burnt the oppressed people to death by casting them into the pits of fire. Probably this will be a different and severer kind of fire from the fire of Hell in which those people will be burnt.

سورة الْبُرُوْج حاشیہ نمبر :6 جہنم کے عذاب سے الگ جلائے جانے کی سزا کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ انہوں نے مظلوم لوگوں کو آگ کے گڑھے میں پھینک کر زندہ جلایا تھا ۔ غالباً یہ جہنم کی عام آگ سے مختلف اور اس سے زیادہ سخت کوئی آگ ہو گی جس میں وہ جلائے جائیں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

################

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(85:10) ان الذین فتنوا المومنین والمؤمنت : ان حرف تحقیق حرف مشبہ بالفعل۔ الذین اسم موصول فتنوا المؤمنین والمؤمنت اس کا صلہ موصول مل کر اسم ان۔ ثم لم یتولوا اسم ان کے متعلق۔ فلہم عذاب جنھم : ان کی خبر۔ ولہم عذاب الحریق اس جملہ کا عطف جملہ سابقہ پر ہے یہ پہلے جملہ کا تاکید ہے۔ فتنوا ماضی جمع مذ... کر غائب فتنۃ (باب ضرب) مصدر۔ انہوں نے دکھ دیا ، انہوں نے ایذا دی۔ انہوں نے عذاب دیا۔ فتن کے لغوی معنی ہیں سونے کو آگ میں تپا کر کھوٹا کھرا جانچنا۔ یا آگ میں ڈالنا۔ قرآن مجید میں فتنۃ کے لفظ اور اس کے مشتقات کو مختلف معانی کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ مثلاً :۔ آزمائش کرنا۔ آزمائش میں ڈالنا۔ آفت۔ مصیبت۔ فساد ، ایذاء دکھ عذاب وغیرہ۔ المؤمنین والمؤمنات دونوں فتنوا کے مفعول ہیں۔ ثم لم یتبوا۔ ثم تراخی وقت کے لئے ہے۔ لم یتوبوا مضارع نفی جحد بلم صیغہ جمع مذکر غائب۔ توب (باب نصر) مصدر۔ پھر توبہ نہیں کی۔ فلہم : ف بمعنی پھر۔ انجام کار۔ تو۔ عذاب الحریق : مضاف مضاف الیہ۔ حریق۔ آگ جلانے والی ۔ حرق باب نصر) مصدر سے بروزن فعیل صفت مشبہ کا صیغہ واحد مذکر ہے فاعل مفعول دونوں کے معنی دیتا ہے۔ یہاں اس آیت میں بمعنی آگ مستعمل ہے۔ ترجمہ ہوگا :۔ بیشک جن لوگوں نے ایداء دی مومن مردوں اور مومن عورتوں کو پھر تو بہ بھی نہ کی ۔ تو ان کے لئے جہنم کا عذاب اور جلانے والا عذاب بھی ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 ’ دفتنوا “ یہ فتنہ “ سے مشتق ہے اور فتنہ کے اصل معنی ہیں کسی چیز کو آگ میں گلانا تاکہ کھوٹا الگ ہوجائے پھر یہ لفظ آگ میں جلانے کے معنی میں بھی اسعتمال ہونے لگا ہے اور سکی کو حق سے برگشتہ کرنے کے لئے ’ ستانا “ کے لئے بھی آجاتا ہے۔ اصحاب تفاسیر نے یہ دونوں معنی بیان کئے ہیں۔ یعنی جلانا اور ستانا پ... ہلے معنی ابن عباس کی طرف منسوب ہیں اور دوسرے معنی امام شوکانی نے قیل کے ساتھ بیان کئے ہیں۔ (ملاحظہ موقع القدیر و ابن کثیر)3 جیسا کہ کہتے ہیں کہ کھائیاں کھودنے والوں کا حشر ہوا۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں :’ داللہ کا غضب آیا وہی آگ پھیل پڑی اور بادشاہ اور امیروں کے گھر سارے پھونک دیئے۔ “ (موضح) لیکن اس کا اصل مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے لئے آخرت میں دوزخ کا عذاب ہے۔  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جن ظالموں نے مومنوں اور مومنات کو آگ کی خندقوں میں ڈالا ان کی سزا اور انجام۔ مفسرین نے اس واقعہ کے بارے میں کئی قسم کے خیالات کا اظہار فرمایا ہے لیکن ان میں مستند واقعہ وہ ہے جس کا ذکر حدیث کی معتبر کتاب جامع ترمذی میں پایا جاتا ہے۔ حضرت صہیب (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن اللہ ... کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ واقعہ بیان فرمایا کہ ایک بادشاہ کے پاس ایک جادوگر تھا اس نے اپنے بڑھاپے میں بادشاہ سے کہا کہ مجھے کوئی ایسا لڑکا دیں جو مجھ سے جادو سیکھ لے بادشاہ نے ایک لڑکے کو مقرر کردیا مگر وہ لڑکا جادوگر کے پاس آتے جاتے ایک راہب سے بھی ملنے لگا اور اس کی باتوں سے متاثر ہو کر ایمان لے آیا حتی کہ اس کی تربیت سے اس کا ایمان اس قدر پختہ ہوگیا کہ وہ اللہ سے اندھوں کو بینا اور کوڑیوں کو تندرست کرنے کی دعا کرتا اور اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو قبول فرماتے۔ بادشاہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ یہ لڑکا توحید پر ایمان لے آیا ہے تو اس نے پہلے راہب کو قتل کیا پھر اس لڑکے کو قتل کرنا چاہا مگر کوئی حربہ کارگر ثابت نہ ہوا۔ آخر کار لڑکے نے کہا کہ کہ اگر تو مجھے ہر صورت قتل کرنا چاہتا ہے تو مجمع عام میں ” بِاسْمِ رَبِّ الْغُلَامِ “ (اس لڑکے کے رب کے نام پر) کہہ کر تیر مار تو میں مرجاؤں گا۔ بادشاہ نے ایسا ہی کیا اور وہ لڑکا مرگیا اس پر لوگ اس لڑکے کے رب پر ایمان لے آئے۔ بادشاہ کے مصاحبوں نے اس سے کہا کہ یہ تو وہی کچھ ہوا جس سے آپ بچنا چاہتے تھے۔ لوگ آپ کے دین کو چھوڑ کر اس لڑکے دین ایمان لا رہے ہیں۔ بادشاہ اس صورتحال پر غضب ناک ہوا۔ اس نے سڑکوں کے کنارے گڑھے کھدوائے اور ان میں آگ جلوائی۔ جس شخص نے ایمان سے پھرنا قبول نہ کیا اس کو آگ میں پھینکوا دیا۔ “ (رواہ الترمذی : باب ومن سورة البروج، قال الالبانی ھٰذا حدیث صحیح) (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إنَّّ اللّٰہَ قَالَ مَنْ عَادٰی لِیْ وَلِیًّا فَقَدْ آذَنْتُہٗ بالْحَرْب) (رواہ البخاری : باب التواضع ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس نے میرے دوست سے دشمنی کی، میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں۔ “ (اِِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْہَادُ ) (المومن : ٥١) ” یقین جانو کہ ہم اپنے رسولوں اور ایمان لانے والوں کی مدد ان کی زندگی میں بھی کرتے ہیں اور آخرت میں بھی کریں گے جب گواہ کھڑے کیے جائیں گے۔ “ مسائل ١۔ جو لوگ مومن اور مومنات کو تنگ کریں گے ان کے لیے جہنم کا جلا دینے والا عذاب ہوگا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے نیک اعمال کرنے والے مومنوں کے لیے باغات تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ ٣۔ جو جنت میں داخل کردیا گیا اسے بڑی کامیابی حاصل ہوئی۔ تفسیر بالقرآن ظالموں کی سزا اور نیک لوگوں کی جزا : ١۔ جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔ جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ بھی اس کو دیکھ لے گا۔ (الزلزال : ٧، ٨) ٢۔ برائیوں میں مرنے والے کے لیے جہنم ہے۔ (البقرۃ : ٧١) ٣۔ جو ایک نیکی کرے گا اس کو دس نیکیوں کا بدلہ ملے گا جو برائی کرے گا اس کی سزا صرف اتنی ہی ہوگی۔ (الانعام : ١٦٠) ٤۔ برائی کا بدلہ اس کی مثل ہی ہوگا۔ (القصص : ٨٤) ٥۔ جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی اس کی سزا جہنم ہے۔ (النازعات : ٣٧) ٦۔ نافرمانوں کو ہمیشہ کے عذاب کی سزادی جائے گی۔ (یونس : ٥٢) ٧۔ تکبر کرنے والوں کو ذلّت آمیز سزا دی جائے گی۔ (احقاف : ٢٠) ٨۔ شیطان اور اس کے پیروکاروں کو جہنم کی سزا دی جائے گی۔ (بنی اسرائیل : ٦٣) ٩۔ صبر کرنے والوں کے لیے جنت جزا ہوگی۔ (الدھر : ١٢)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

جو کچھ اس زمین پر ہوا ، وہ یہاں ختم نہیں ہوجاتا کہ جو ہونا تھا بس ہوچکا اور اس کے آثار بھی یہاں ختم ہوگئے۔ اس کے آثار باقی ہوتے ہیں۔ ہر کام کی سزا اور جزاء ہوتی ہے جس کے واقع ہونے پر ہی واقعہ ختم ہوتا ہے۔ اس لئے ان سرکشوں نے اہل ایمان کے ساتھ جو سلوک کیا اس کا نتیجہ ابھی نکلنے والا ہے۔ اور اللہ قیام... ت کے دن فیصلہ کرنے والا ہے۔ ان الذین ............................ والمومنت (10:85) ” جن لوگوں نے مومن مردوں اور عورتوں پر ظلم کیا “۔ اور وہ اپنی گمراہی میں آگے ہی بڑھتے رہے۔ ان کو کوئی شرمندگی لاحق نہ ہوئی۔ ثم لم ........................ الحریق (10:85) ” اور پھر اس سے تائب نہ ہوئے یقینا ان کے لئے جہنم کا عذاب ہے اور ان کے لئے جلائے جانے کی سزا ہے “۔ یہاں قرآن کریم نے حریق ، جلانے کی صراحت کی ہے ، معنی تو وہی ہے جو عذاب جہنم کا ہے لیکن لفظ حریق کو اس لئے لایا گیا ہے تاکہ اصحاب الاخدود کو دیئے جانے والی سزا کے بالمقابل یہاں بھی جلنے کا لفظ آجائے کیونکہ اہل ایمان کی سزا کے لئے حریق کا لفظ استعمال ہوا تھا لیکن دنیا کے جلنے اور آخرت کے جلنے میں بڑا فرق ہے۔ دونوں کے جلنے کی شدت اور مدت دونوں میں فرق ہے۔ دنیا میں جلانے والی آگ کو انسان جلاتے ہیں ، جبکہ آخرت کی آگ کو اللہ نے تیار کیا ہے۔ دنیا کی آگ تو چند لمحات تک جلاتی ہے اور پھر ختم ہوجاتی ہے لیکن آخرت کی آگ میں تو لاانتہا زمانوں تک جلتے رہیں گے۔ دنیا کے جلنے میں اللہ کی رضا پنہاں ہے اور اعلیٰ قدروں کی فتح ہے لیکن جب وہ آخرت میں جلیں گے تو اللہ کے دائمی عذاب اور غضب میں ہوں گے اور پستی ، گراوٹ اور مذمت ان کے ساتھ لازم ہوگی۔ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کیے وہ جنت میں ہوں گے اور وہاں اللہ کے انعامات انہیں میسر ہوں گے اور اللہ ان سے راضی ہوگا۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

یہ دو آیتوں کا ترجمہ ہے پہلی آیت میں ان لوگوں کے لیے وعید ہے جن لوگوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو تکلیف میں ڈالا الفاظ کا عموم اصحاب الاخدود کو بھی شامل ہے اور ان کے علاوہ دیگر دشمنان اہل ایمان کو بھی۔ ارشاد فرمایا : ان لوگوں کے لیے جہنم کا عذاب ہے اور جلنے کا عذاب ہے درمیان میں ﴿ ثُمَّ لَمْ يَ... تُوْبُوْا فَلَهُمْ﴾ بھی فرمایا، یعنی ان لوگوں کے لیے مذکورہ عذاب اس صورت میں ہے جبکہ موت سے پہلے توبہ نہ کی ہو، کسی بھی کافر نے کسی بھی مومن کو کچھ بھی اور کیسی بھی تکلیف دی ہو اور کیسے بھی گناہ کیے ہوں اگر توبہ کرلی، ایمان قبول کرلیا تو زمانہ کفر میں جو کچھ کیا وہ سب ختم ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی مہربانی ہے ایمان لانے کے بعد کافر کا سب کچھ معاف ہوجاتا ہے چونکہ یہاں اصحاب اخدود کے قصہ کے بعد یہ مغفرت والی بات بیان فرمائی ہے اس لیے حضرت حسن بصری (رض) نے فرمایا : انظروا الٰی ھذا الکرم والجود قتلوا اولیاء وھو یدعوھم الٰی التوبة والمغفرة۔ (اللہ تعالیٰ کے کرم اور جود کو دیکھو ان لوگوں نے اس کے اولیاء کو قتل کردیا اور اس کی طرف سے توبہ اور مغفرت کی دعوت دی جا رہی ہے) ۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

6:۔ ” ان الذین فتنوا “ یہ تخویف اخروی ہے۔ جن کفار و مشرکین نے مومن مردوں اور عورتوں کو محض توحید کی وجہ سے مختلف قسم کی تکلیفوں اور ایذاؤں میں مبتلا کیا اور پھر اس کے بعد توبہ نہیں کی اور ایمان نہیں لائے ان کے لیے جہنم کا اور سخت ترین عذاب آگ کا ہے۔ فلھم عذاب جہنم بسبب کفرہم ولھم عذاب الحریق بسفتنتہ... م المومنین والمومنات (روح ج 30 ص 91) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(10) بلا شبہ جن لوگوں نے مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو ایذاء پہنچائی پھر ظلم سے توبہ نہ کی تو ان کے لئے جہنم کا عذاب ہے اور نیز ان کے لئے سخت جلنے کا عذاب ہے۔ یعنی اصحاب اخدود پر کیا موقوف ہے جو بھی مسلمان مردوں اور عورتوں کو ایذاپہنچائیں گے اور ان کو اسلام سے بچلائیں گے اور ان کو آزمائش اور امت... حان میں مبتلا کریں گے اور پھر توبہ بھی نہیں کریں گے تو ان کے لئے جہنم کا عذاب ہیں ان میں جلنے کا بھی ہے اس لئے آگ سے جلنے کا عذاب کا خاصہ طور پر ذکر فرمایا زمہریر کا عذاب ، سانپ بچھو کا عذاب ، طوق سلاسل کا عذاب وغیرہ وغیرہ۔ یہ وعید کفار مکہ کو سنائی کیونکہ یہ لوگ مسلمانوں کو انواع و اقسام کی تکالیف پہنچاتے تھے اور خاص طور پر ان کو اسلام سے برگشتہ کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے یہاں تک ظالموں کے حق میں فرمایا آگے مسلمانوں کا ذکر فرمایا۔  Show more