Surat ut Tariq

Surah: 86

Verse: 11

سورة الطارق

وَ السَّمَآءِ ذَاتِ الرَّجۡعِ ﴿ۙ۱۱﴾

By the sky which returns [rain]

بارش والے آسمان کی قسم!

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Swearing to the Truthfulness of the Qur'an and the Failure of Those Who oppose it وَالسَّمَاء ذَاتِ الرَّجْعِ By the sky (having rain clouds) which gives rain, again and again. Ibn Abbas said, "Ar-raj` means rain." It has also been narrated from him that he said, "It means the clouds that contain rain." He also said, وَالسَّمَأءِ ذَاتِ الرَّجْعِ (By the sky (having rain clouds) which gives rain, again and again. "This means that it rains and then it rains (again)." Qatadah said, "It returns the sustenance of the servants (creatures) every year. Were it not for this, they would all be destroyed and so would their cattle." وَالاْاَرْضِ ذَاتِ الصَّدْعِ

صداقت قرآن کا ذکر رجع کے معنی بارش ، بارش والے بادل ، برسنے ، ہر سال بندوں کی روزی لوٹانے جس کے بغیر انسان اور ان کے جانور ہلاک ہو جائیں سورج چاند اور ستاروں کے ادھر ادھر لوٹنے کے مروی ہیں زمین پھٹتی ہے تو دانے گھاس اور چارہ نکلتا ہے یہ قرآن حق ہے عدل کا مظہر ہے یہ کوئی عذر قصہ باتیں نہیں کافر اسے جھٹلاتے ہیں اللہ کی راہ سے لوگوں کو روکتے ہیں طرح طرح کے مکر و فریب سے لوگوں کو قرآن کے خلاف اکساتے ہیں اے نبی تو انہیں ذرا سی ڈھیل دے پھر عنقریب دیکھ لے گا کہ کیسے کیسے بدترین عذابوں میں پکڑے جاتے ہیں جیسے اور جگہ ہے آیت ( نُمَـتِّعُهُمْ قَلِيْلًا ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ اِلٰى عَذَابٍ غَلِيْظٍ 24؀ ) 31- لقمان:24 ) یعنی ہم انہیں کچھ یونہی سا فائدہ دیں گے پھر نہایت سخت عذاب کی طرف انہیں بےبس کر دیں گے الحمد اللہ سورہ طارق کی تفسیر ختم ہوئی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

11۔ 1 عرب بارش کو رجع کہتے ہیں اس لئے بارش کو رَجْع کہا اور بطور شگون عرب بارش کو کہتے تھے تاکہ وہ بار بار ہوتی رہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩] ذات الرجع رجوع کے معنی اپنی اصل کی طرف لوٹنا ہے مگر مجازاً رجع کا لفظ بارش کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے اور آسمان کو ذات الرجع کہنے کی ایک وجہ تو یہ ہوسکتی ہے کہ سمندر سے آبی بخارات اٹھتے ہیں وہ جب آسمان کی بلندیوں پر پہنچتے ہیں تو ان بلندیوں کی ٹھنڈک ان آبی بخارات کو پھر سے پانی میں تبدیل کردیتی ہے اور بارش شروع ہوتی ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ بارش برسنے کا عمل فقط ایک بار ہی نہیں ہوتا بلکہ بار بار اور وقتاً فوقتاً ہوتا ہی رہتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(والسمآء ذات الرجع…:” الرجع “ کی تفسیر مجاہد نے بارش کی ہے۔ (دیکھیے بخاری، التفسیر، باب سورة الطارق، بعد ح : ٣٩٣٠) اکثر مفسرین نے یہی معنی کیا ہے۔ ” الرجع “ کا لفظیم عن لوٹنا یا لوٹانا ہے، چونکہ بارش بار بار پلٹ کر برستی ہے، اس لئے اسے ” رجع “ کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ سمندر کا پانی بھپا بنتا ہے، وہ بھاپ پلٹ کر پھر بارش کی صورت میں برستی ہے، پھر وہ پانی اڑتا ہے پھر بسرتا ہے، اس لئے اسے ” رجع “ کہا ہے۔” الصدع “ کا معنی پھٹنا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الرَّجْعِ (I swear by the sky that rains...86:11) The word raj refers to &the rain that comes down repeatedly&. In other words, the rain that comes down and stops and then returns.

والسماء ذات الرجع، رجع کے معنے اس بارش کے ہیں جو پے درپے ہو کہ ایک مرتبہ بارش ہو کر ختم ہوجائے اور پھر لوٹے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالسَّمَاۗءِ ذَاتِ الرَّجْعِ۝ ١١ ۙ رجع الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، ( ر ج ع ) الرجوع اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١۔ ١٣) قسم ہے آسمان کی جس سے بار بار بارش ہوتی ہے، اور زمین کی جو نباتات کے لیے پھٹ جاتی ہے یا یہ کہ جو میخوں والی ہے یہ قرآن کریم ایک فیصلہ کردینے والا کلام ہے یا یہ کہ منجانب اللہ ایک حکم ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

6 The words dhat ar-raj`e have been used for the sky. Literally raj`e means to return, but metaphorically this word is used for the rain in Arabic, for rain does not fall just once, but returns over and over again in the season and of season as well. Another reason for calling the rain raj `e is that vapour from the oceans of the earth and then falls back as rain on the sometimes out water rises as the same earth.

سورة الطَّارِق حاشیہ نمبر :6 آسمان کے لیے ذات الرجع کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ۔ رجع کے لغوی معنی تو پلٹنے کے ہیں ، مگر مجازاً عربی زبان میں یہ لفظ بارش کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ، کیونکہ وہ بس ایک ہی دفعہ برس کر نہیں رہ جاتی بلکہ بار بار اپنے موسم میں اور کبھی خلاف موسم پلٹ پلٹ کر آتی ہے اور وقتاً فوقتاً برستی رہتی ہے ۔ ایک اور وجہ بارش کو رجع کہنے کی یہ بھی ہے کہ زمین کے سمندروں سے پانی بھاپ بن کر اٹھتا ہے اور پھر پلٹ کر زمین پر ہی برستا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١١۔ ١٧۔ امام المفسرین حضرت عبد اللہ بن عباس کا قول ہے کہ رجع سے مراد بارش ہے چناچہ حاکم کی روایت میں صحیح سند سے یہ قول حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کا ثابت ہوا ہے۔ اسی واسطے امام بخاری نے صحیح ١ ؎ بخاری کی کتاب التفسیر میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کے شاگرد مجاہد کی روایت سے اس قول کو لیا ہے ترجمہ میں چکر مارنے والا آسمان جو ترجمہ کیا گیا ہے سلف میں سے یہ قول عبد الرحمن بن زید بن اسلم تبع تابعی کا ہے ان عبد الرحمن نے تفسیر کی روایات اپنے باپ زید بن اسلم کوفی سے لی ہیں یہ زید بن اسلم مشہور مفسر اہل مدینہ میں سے ہیں لیکن عبد الرحمن کو بعض علماء نے ضعیف کہا ہے غرض یہ قول پہلے قول کے مرتبہ کا نہیں ہے اسی واسطے اکثر تفسیروں اور فارسی اور اردو لفظی ترجمہ میں اس قول کو نہیں لیا گیا پہلے قول کو لیا گیا ہے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کے قول کے موافق صدع کی تفسیر زمین کا وہ شق ہونا ہے جو روئیدگی کے وقت ہوتا ہے علم ہیئت کی کتابوں میں اگرچہ زمین کو گول لکھا ہے لیکن شریعت کی کتابوں میں زمین چوکھونٹی ثابت ٢ ؎ ہوئی ہے۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ بہت بڑے دائرہ میں مرکز سے محیط تک جو میدان ہوتا ہے اس میں گولائی باقی نہیں رہتی اسی واسطے اہل ہیئت کا ساتوں اقلیم کی مدنظر تک کی زمین کو گول کہنا صحیح نہیں ہے اوپر کی قسم کے بعد فرمایا کہ یہ قرآن دنیا میں نیک راستہ بتانے اور بدی سے روکنے اور عقبیٰ میں جزا و سزا کی خبر سنانے کا ایک فیصلہ قطعی ہے عرب کے اشعار یا قصے کہانیوں کی طرح اس میں کوئی بات ہنسی دل لگی کی نہیں ہے اس لئے یہ لوگ اگر قرآن کو جھٹلائیں تو تھوڑے دنوں تک ان سے درگزر کی جائے کوئی مکر و فریب تو ان لوگوں کا قرآن سے روکنے میں اللہ کی تدبیر کے آگے نہیں چل سکتا۔ بلکہ تھوڑے دنوں کے بعد اللہ کی تدبیر کا نتیجہ سب کی آنکھوں کے سامنے آجائے گا اللہ سچا ہے اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات میں ہی کچھ قرآن کے مخالف لوگ ذلت اور خواری سے ہلاک ہوگئے اور اکثر قرآن کے حامی بن گئے۔ (١ ؎ صحیح بخاری۔ تفسیر سورة الطارق ص ٧٣٦ ج ٢۔ ) (٢ ؎ یہ بات محل نظر ہے۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(86:11) والسماء ذات الرجع۔ جملہ قسمیہ ہے ذات الرجع مضاف مجاف الیہ مل کر صفت السماء کی۔ الرجع (باب ضرب) مصدر پھر آنا۔ لوٹ آنا۔ مینہ، بارش۔ یہاں بطور اسم بمعنی بارش۔ استعمال ہوا ہے۔ یعنی قسم ہے آسمان بارش والے کی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 اصل لفظ رجع استعمال ہوا ہے جس کے لفظ معنی پلٹنے کے ہیں۔ اکثر مفسرین نے اس سے مراد بارش ہی لی ہے کیونکہ وہ آتی ہے اور پلٹ پلٹ کر برستی ہے اور یوں بھی جو پانی آسمان سے برستا ہے وہ دراصل زمین ہی سے یعنی سمندروں اور دریائوں سے بھاپ بن کر اوپر گیا ہوتا ہے۔ اور پھر ٹھنڈا ہو کر زمین کی طرف پلٹتا ہے (قرطبی وغیرہ)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس خالق نے انسان کو پیدا کیا ہے وہ ہر صورت اسے قیامت کے دن اٹھا کر اپنی بارگاہ میں پیش کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر یہ بات فرما کر زمین و آسمان کی قسم اٹھائی ہے کہ قسم ہے اس آسمان کی جو بارش برساتا ہے اور قسم ہے اس زمین کی جو پھٹ جاتی ہے کہ ” اللہ “ کا فرمان فیصلہ کن ہے یہ کوئی بےمقصد بات نہیں ہے۔ یہاں تک جو لوگ تدبیریں اور سازشیں کررہے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم بھی تدبیر کرنے والے ہیں اور ہماری تدبیر کے مقابلے میں کسی کی تدبیر اور سازش اسے فائدہ نہیں دے سکتی لہٰذا کفار کو تھوڑی سی مزید مہلت دیں۔ اس مقام پر آسمان کے لیے ” ذات الرجع “ اور زمین کے لیے ” ذَات الصَّدْعِ “ کے الفاظ استعمال کیے ہیں جس کا مفسرین نے یہ معنی لیا ہے کہ آسمان سے بارش کی صورت میں جو پانی برستا ہے اس کا کافی حصہ بخارات کی صورت میں اڑ کر فضا میں بادلوں کی شکل اختیار کرتا ہے اور پھر وہی بارش کی صورت میں برستا ہے گویا کہ ایک سرکل (CIRCLE) چل رہا ہے۔ زمین کے لیے ” ذَات الصَّدْعِ “ کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ جب اس سے بیج نکلتا ہے تو زمین اپنا سینہ کھول دیتی ہے یعنی پھٹ جاتی ہے۔ اسی طرح ہی قیامت کے دن پھٹ جائے گی اور لوگ اس سے نکل کھڑے ہوں گے۔ زمین اور آسمان کی قسم اٹھا کر واضح کیا ہے کہ انسان کا اللہ کی طرف لوٹنا فیصلہ کن بات ہے۔ ہر انسان کو بارش کے برسنے اور زمین کے پھٹنے پر غور کرنا چاہیے کہ جس طرح بارش برسنے سے زمین سے بیج اگتے ہیں، اسی طرح ہی اللہ تعالیٰ انسان کو قیامت کے دن پیدا کرے گا۔ یہ مذاق یا فضول بات نہیں ہے۔ اگر قیامت کا انکار کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ فی الفور نہیں پکڑتا تو اس میں اس کی حکمت یہ ہے کہ کفار کو اپنی سازشیں اور شرارتیں کرنے کا موقع دیا جائے۔ اسی بات کو آل عمران میں یوں بیان کیا ہے۔ (وَ لَا یَحْزُنْکَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْکُفْرِ اِنَّہُمْ لَنْ یَّضُرُّوا اللّٰہَ شَیْءًا یُرِیْدُ اللّٰہُ اَلَّا یَجْعَلَ لَہُمْ حَظًّا فِی الْاٰخِرَۃِ وَ لَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۔ اِنَّ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الْکُفْرَ بالْاِیْمَانِ لَنْ یَّضُرُّوا اللّٰہَ شَیْءًا وَ لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۔ وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَنَّمَا نُمْلِیْ لَہُمْ خَیْرٌ لِّاَنْفُسِہِمْ اِنَّمَا نُمْلِیْ لَہُمْ لِیَزْدَادُوْٓا اِثْمًا وَ لَہُمْ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ) (آل عمران : ١٧٦ تا ١٧٨) ” آپ کو کفر میں آگے بڑھنے والے لوگ پریشان نہ کریں یہ اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اللہ چاہتا ہے کہ ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہ رہے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔ کفر کو ایمان کے بدلے خریدنے والے۔ اللہ کو ہرگز نقصان نہیں پہنچا سکتے اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ کافر ہماری دی ہوئی مہلت کو اپنے حق میں بہتر نہ سمجھیں ہم نے یہ مہلت اس لیے دی ہے کہ وہ گناہوں میں اور بڑھ جائیں اور ان کے لیے ذلیل کردینے والا عذاب ہے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ کن ارشاد ہے کہ وہ ہر انسان کو قیامت کے دن اٹھائے گا اور اس کے تمام راز آشکارہ کرے گا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان فیصلہ کن ہے یہ مذاق اور بےمقصد بات نہیں ہے۔ ٣۔ کفار اور مشرکین اسلام کے بارے میں سازشیں کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ بھی ان کے خلاف تدبیر کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن ہر صورت انسان کو اٹھنا اور اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے : ١۔ میں اسی کی طرف بلاتا ہوں اور اسی کی طرف مجھے واپس جانا ہے۔ (الرعد : ٣٦) ٢۔ ” اللہ “ کو ہی قیامت کا علم ہے اور اسی کی طرف تم نے لوٹنا ہے۔ (الزخرف : ٨٥) ٣۔ زمین اور جو کچھ اس میں ہے ہم اس کے وارث ہیں اور لوگ ہماری طرف لوٹیں گے (مریم : ٤٠) ٤۔ اللہ کے لیے زمین و آسمان کی بادشاہت ہے اور اسی کے سامنے ہر کسی کو لوٹ کر جانا ہے۔ (الزمر : ٤٤) ٥۔ وہی زندہ کرتا اور مارتا ہے اور اسی کے حضور تم نے پیش ہونا ہے (یونس : ٥٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

الرجع کے معنی ہیں لوٹنے کے ، آسمان بار بار بارش برساتا ہے اور الصدع کے معنی پھٹنے کے ہیں اور بارش کے بعد جب زمین سے نباتات اگتے ہیں تو وہ پھٹتی ہے اور اس سے پودے پھوٹتے ہیں۔ یہ دونوں باتیں زندگی کی ایک قسم کا اظہار کرتی ہیں۔ یعنی نباتات اور ان کی پہلی زندگی کہ آسمانوں سے پانی برستا ہے اور پھر نباتات اگتے ہیں۔ یہ تمثیل اس سے زیادہ مشابہت رکھتی ہے کہ نطفے کا پانی اچھل کر برسے ، اور آسمان کے بجائے ریڑھ اور سینے کی ہڈیوں سے نکلے اور رحم کے اندھیروں سے بچہ نمودار ہو۔ گویا ایک ہی زندگی ہے اور ایک ہی منظر ہے ، ایک ہی قسم کی حرکت ، ایک ہی نظام اور ایک ہی قسم کی تخلیق ہے اور دونوں سے ثابت ہوتا ہے کہ دونوں کا صانع ایک ہے۔ اور کوئی معقول انسان یہ دعویٰ نہیں کرسکتا ہے کہ وہ ایسی کوئی تخلیق کرسکتا ہے اور ان تخلیقات کے ہم شکل کوئی مخلوق بناسکتا ہے۔ یہ منظر چمکتے ہوئے ستارے کے منظر کے بھی ہم رنگ ہے۔ ایسے ستارے کی روشنی بھی ظلمتوں کے پردے پھاڑ کر سامنے آتی ہے اور جس طرح یہ روشنی نمودار ہوتی ہے اس طرح چھپے ہوئے راز بھی نمودار ہوں گے گویا یہ مناظر بھی ہم رنگ ہیں۔ اور ان سے بھی ایک ہی صانع کی قدرت کا پتہ چلتا ہے۔ یہ دوکائناتی مخلوقات ہیں جن کی قسم اٹھائی جارہی ہے یا کائناتی حادثات ہیں جن کی قسم اٹھائی جارہی ہے آسمان جو بار بار بارش برساتا ہے اور زمین جو نباتات کے اگنے کی وجہ سے با ربار پھٹتی ہے۔ ان دونوں واقعات یا حادثات کا منظر ، اس منظر کے اندر پوشیدہ اشارات اور خود ان الفاظ صدع اور رجع کی قطعیت اور سختی اور پھر ان کے ساتھ اللہ کی قسم اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ دوبارہ زندگی اور باز پرس قطعی بات ہے۔ مذاق نہیں ہے۔ یا یہ کہ یہ پورا قرآن مجید ایک قطعی بات کرتا ہے اور اس کے اندر کوئی بات محض بات کے لئے نہیں کی گئی۔ اس میں جو تصورات بیان کیے گئے ہیں وہ فیصلہ کن خیالات اور نظریات ہیں اور وہ حق اور سچائی ہیں جن کے اندر کوئی شبہ اور شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ یہ آخری بات ہے ، اللہ کا آخری کلام ہے۔ اس کے بعد کوئی لکام نہیں ہے۔ اور اس کے حقائق میں کوئی کلام نہیں ہے۔ اور زمین وآسماناس پر شاہدعادل ہیں خصوصاً بارش برسانے والا آسمان اور فصلیں اگانے والی زمین۔ ان حقائق کے بیان کے سایہ میں ، کہ تمام انسانوں کو اٹھایا جائے گا اور ان سے باز پرس ہوگی ، روئے سخن حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس مٹھی بھر جماعت کی طرف پھرجاتا ہے جو مکہ مکرمہ میں نہایت ہی کٹھن حالات سے گزر رہے تھے۔ اور ان کے خلاف اور ان کی دعوت اور تحریک کے خلاف رات دن کی سازشیں ہورہی تھیں۔ اور اس کام کے لئے یہ ہر وقت گھات میں بیٹھے رہتے تھے ، اور اسلامی تحریک کے مقابلے میں مختلف تدابیر اختیار کرتے تھے اور دعوت اسلامی کے پھیلنے کے راستے بند کرتے تھے۔ اس سلسلے میں وہ نئے ہتھکنڈے استعمال کرتے تھے۔ چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تلقین کی جاتی ہے کہ آپ ثابت قدر رہیں اور ان لوگوں کی سازشوں کو کوئی اہمیت نہ دیں۔ ایک وقت تک یہ مخالفت ہوگی اور آخرکار کامیابی آپ کے قدم چومے گی ، اس دعوت کی قیادت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ آپ صبر اور اطمینان سے کام جاری رکھیں۔ اللہ خود تدابیر اختیار کررہا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

5:۔ ” والسماء ذات الرجع “ یہ حشر و نشر پر دوسرا عقلی شاہد ہے۔ ” ذات الرجع “ بارش والا۔ کیونکہ بارش آسمان کی طرف سے برستی ہے۔ ” ذات الصدع “ نباتات والی۔ کیونکہ زمین کے شق ہونے سے نباتات اگتی ہے۔ جواب قسم محذوف ہے ای کذلک تخرجون۔ یعنی جس طرح ہم آسمان سے بارش برساتے ہیں اور زمین سے نباتات اگاتے ہیں اسی طرح قیامت کے دن تمہیں بھی پیدا کرکے زمین سے نکال لیں گے۔ قالہ الشیخ (رح) تعالی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(11) قسم ہے آسمان بارش والے کی۔