Surat ut Tariq

Surah: 86

Verse: 17

سورة الطارق

فَمَہِّلِ الۡکٰفِرِیۡنَ اَمۡہِلۡہُمۡ رُوَیۡدًا ﴿۱۷﴾٪  11

So allow time for the disbelievers. Leave them awhile.

تو کافروں کو مہلت دے انہیں تھوڑے دنوں چھوڑ دے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَمَهِّلِ الْكَافِرِينَ ... So, give a respite to the disbelievers; meaning, wait for them and do not be in haste concerning them. ... أَمْهِلْهُمْ رُوَيْدًا deal gently with them for a while. meaning, a little while. This means that you will see what befalls them of torment, punishment and destruction. This is as Allah says, نُمَتِّعُهُمْ قَلِيلً ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ إِلَى عَذَابٍ غَلِيظٍ We let them enjoy for a little while, then in the end We shall oblige them to (enter) a great torment. (31:24) This is the end of the Tafsir Surah At-Tariq, and unto Allah is all praise and thanks.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

17۔ 1 یعنی ان کے لئے جلدی عذاب کا سوال نہ کر بلکہ انہیں کچھ مہلت دے دے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

١٣] یعنی آپ تھوڑی مدت مزید صبر سے کام لیجیے۔ کچھ زیادہ مدت نہ نہ گزرنے پائے گی کہ ان لوگوں کی کرتوتوں کا انجام سب کے سامنے آجائے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَمَــہِّلِ الْكٰفِرِيْنَ اَمْہِلْہُمْ رُوَيْدًا۝ ١٧ ۧ مهل المَهْل : التُّؤَدَةُ والسُّكونُ ، يقال : مَهَلَ في فعله، وعمل في مُهْلة، ويقال : مَهْلًا . نحو : رفقا، وقد مَهَّلْتُهُ : إذا قُلْتَ له مَهْلًا، وأَمْهَلْتُهُ : رَفَقْتُ به، قال : فَمَهِّلِ الْكافِرِينَ أَمْهِلْهُمْ رُوَيْداً [ الطارق/ 17] والمُهْلُ : دُرْدِيُّ الزَّيْت، قال : كَالْمُهْلِ يَغْلِي فِي الْبُطُونِ [ الدخان/ 45] . ( م ھ ل ) المھل کے معنی حلم و سکون کے ہیں ۔ اور مھل فی فعلہ کے معنی ہیں اس نے سکون سے کام کیا اور مھلا کے معنی رفقا کے ہیں یعنی جلدی مت کرو ۔ مھلۃ کسی کو مھلا کہنا اور امھلتہ کے معنی کسی کے ساتھ نرمی سے پیش آنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَمَهِّلِ الْكافِرِينَ أَمْهِلْهُمْ رُوَيْداً [ الطارق/ 17] تو تم کافروں کو مہلت دو پس روزی مہلت دو المھل تلچھت کو بھی کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كَالْمُهْلِ يَغْلِي فِي الْبُطُونِ [ الدخان/ 45] جیسے پگھلا ہوا تانبا پیٹوں میں اس طرح ) کھولے گا ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ ( رویدا) قيل هو تصغیر ترخیم بحذف الزوائد، وتكبيره إرواد۔ بکسر الهمزة۔ وزنه فعیل بضمّ الفاء وفتح العین .. أو هو تصغیر رود بضمّ الراء زنة عود أي مهل . وجاء في المختار : تقول : رویدک عمرا أي أمهله وهو تصغیر ترخیم من إرواد مصدر أرود يرود۔ بکسر الواو۔. ورویدا يستعمل مصدرا بدلا من اللفظ بفعله فيقال روید زيد أو رویدا زيدا أي أمهله، ويقع حالا مثل ساروا رویدا أي متمهّلين، كما يقع مفعولا مطلقا نائبا عن المصدر بکونه نعتا له أي ساروا سيرا رویدا .( الجدول في اعراب القرآن)

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٧{ فَمَہِّلِ الْکٰفِرِیْنَ اَمْہِلْہُمْ رُوَیْدًا ۔ } ” تو آپ ان کافروں کو ذرا مہلت دے دیجیے ‘ تھوڑی دیر انہیں (ان کے حال پر) چھوڑ دیجیے ! “ ابتدائی مکی دور کی سورتوں میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے یہ ہدایت بہت تکرار کے ساتھ آئی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں کے لیے جلدی نہ کریں ‘ ان کے بارے میں تھوڑی دیر انتظار کریں : { فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَّہُمْط } (الاحقاف : ٣٥) ” تو (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) آپ بھی صبر کیجیے جیسے اولوالعزم رسول (علیہ السلام) صبر کرتے رہے ہیں اور ان کے لیے جلدی نہ کیجیے ! “ اس دور میں چونکہ مشرکین ِمکہ ّنے اہل ایمان پر عرصہ حیات تنگ کیا ہوا تھا ‘ اس لیے ان آیات کے ذریعے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وساطت سے اہل ایمان کو بھی بار بار تسلی دی جاتی تھی اور سمجھایا جاتا تھا کہ ابھی ہم ان لوگوں کو کچھ مزیدمہلت دینا چاہتے ہیں۔ چناچہ آپ لوگ ان کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف پر صبر کرتے ہوئے ہمارے فیصلے کا انتظار کریں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

10 That is, "Leave them for a while to have their will. Before long the result will be before them and they will realize how far their scheming has become successful against My plan.

سورة الطَّارِق حاشیہ نمبر :10 یعنی انہیں ذرا مہلت دو کہ جو کچھ یہ کرنا چاہیں کر دیکھیں ۔ زیادہ مدت نہ گزرے گی کی نتیجہ ان کے سامنے خود آ جائے گا اور انہیں معلوم ہو جائے گا کہ میری تدبیر کے مقابلہ میں ان کی چالیں کتنی کار گر ہوئیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

4: یعنی ابھی ان کافروں کو سزا دینے کا وقت نہیں آیا۔ اس لئے ان کو فی الحال اپنی حالت پر چھوڑ دو۔ جب وقت آئے گا تو اﷲ تعالیٰ ان کو خود اپنی پکڑ میں لے لے گا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(86:17) فمہل الکفرین۔ ف سببیہ ہے مہل فعل امر واحد مذکر حاضر۔ تمہیل (تفعیل) مصدر۔ تو مہلت دے۔ یعنی چونکہ میں خود ان سے نپٹ رہا ہوں جب چاہوں گا ان کی کرتوتوں کا ان کو مزہ چکھا دوں گا آپ ان کافروں کو ذرا مہلت دیں ان کی ہلاکت کے لئے بددعا نہ کریں۔ اور ان کی فوری سزا یابی کے لئے پریشان نہ ہوں۔ امہلہم رویدا۔ یہ پہلے حکم مہلت کی تاکید ہے۔ مہل اور امہل دونوں کے ایک ہی معنی ہیں۔ محض تغیر لفظی ہے۔ رویدا تھوڑی سی مہلت۔ اسم فعل ہے۔ ابن خالویہ کہتے ہیں یہ اصل میں اردادا ہے۔ یہ رویدا اس کی تصغیر ہے۔ رویدا کے معنی مہلت دینے اور ٹھہرنے کے ہیں کہا جاتا ہے امش مشیا رویدا۔ آہستہ چل۔ جلدی نہ کر۔ علامہ سیوطی (رح) نے الاتقان میں لکھا ہے :۔ رویدا اسم ہے ہمیشہ مصغر اور مامور بہٖ ہوکر بولا جاتا ہے یہ رود کی تصغیر ہے جس کے معنی مہلت کے ہیں۔ ترجمہ ہوگا :۔ پھر تم ڈھیل دو منکروں کو ۔ ڈھیل دو ان کو ۔ صبر کرو، (ترجمہ شاہ عبد القادر دہلوی (رح))

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 یعنی عنقریب وہ اپنی خفیہ سازشوں اور اسکیموں کا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے لہٰذا آپ گھبرائیں نہیں بلکہ صبر و ہمت سے دعوت کا کام جاری رکھیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فمھل ................ رویدا (17:86) ” پس چھوڑ دو اے نبی ان کافروں کو ان کو تھوڑی سی مہلت دے دو “۔ جلدی نہ کرو ، اس معرکے کا انجام دور نہیں ہے۔ آپ نے اس معرکے کی حقیقت کو دیکھ لیا ہے ، ان لوگوں کو ذرا سی مہلت بھی ایک بڑی حکمت کے تحت دی جارہی ہے ، اور یہ مہلت قلیل ہی ہے۔ اگرچہ تمہاری پوری زندگی اس میں لگ جائے اس لئے انسانوں کو جو عمر اس دنیا کے لئے دی گئی ہے ، وہ تو قلیل ہی ہے۔ انداز تعبیر محبت بھرا ہے ، اللہ تعالیٰ رسول اللہ سے فرماتا ہے کہ آپ ان کو مہلت دے دیں۔ فمھل…………رویدا (17:86) ” آپ ان کافروں کو مہلت دے دیں ایک تھوڑے وقت کے لئے “۔ گویا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ میں ہیں۔ گویا مہلت دینا آپ کے اختیارات میں ہے حالانکہ درحقیقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اختیار میں کچھ بھی نہیں ہے ، یہ ایک انداز محبت ہے۔ اور اس انداز سے حضور اکرم رحمت و شفقت کے جھونکے محسوس کرتے ہیں۔ اور آپ کی یہ خواہش کہ فوری کامیابی ہو ، اس فضا میں ڈوب جاتی ہے ، یوں اللہ آپ کے ارادے کو اپنے ارادے میں ملا دیتا ہے اور بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ شاید آپ اختیارات میں شریک ہی ، یوں آپ کے سامنے سے وہ پردے ہٹ جاتے ہیں اور آپ اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں جہاں قطعی فیصلے ہوتے ہیں۔ گویا یہ کہا جارہا ہے کہ یہ اختیارات آپ کے ہاتھ میں ہیں لیکن آپ قدرے مہلت دے دیں۔ یہ انداز محبت ہے ۔ نہایت ہی لطیف انداز انس و محبت۔ ایسے انداز گفتگو سے وہ تمام کلفتیں دور ہوجاتی ہیں جو اس راہ میں آپ کو پیش آرہی تھیں۔ تمام تھکاوٹیں ، تمام مشکلات دور ہوجاتی ہیں ، مشکلات اور مشقتوں کے پہاڑ پگھل جاتے ہیں اور فضا پر انس و محبت کے سائے چھاجاتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

8:۔ ” فمہل الکفرین “ یہ تخویف ہے ایسے شواہد و بیانات کے باوجود وہ نہیں مانتے۔ وہ ضدی اور معاند ہیں، ان سے ایمان کی توقع نہ رکھیے، نہ ان سے انتقام لینے میں عجلت سے کام لیجیے بلکہ ان کو مہلت دیجئے وقت آنے پر ہم خود ان سے انتقام لے لیں گے۔ چناچہ دنیا میں میدان بدر کے معرکہ میں ان سے انتقام لیا گیا اور آخرت کا عذاب اس سے بھی زیادہ دردناک اور ہولناک ہوگا۔ قال ابن عباس ھذا وعید من اللہ عز وجل قد اخذہم اللہ یوم بدر۔ (مظہری ج 10 ص 242) ۔ سورة الطارق ختم ہوئی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(17) سو اے پیغمبر آپ ان کو مہلت دیجئے ان کو ان کی حالت پر اور تھوڑے دنوں کی مہلت دیجئے یعنی جب میں ان کی تمام تدابیر اور مکروفریب کا توڑ کررہا ہوں تو آپ گھبرائیے نہیں اور عذاب طلب کرنے میں تعجیل نہ کیجئے اور ان کے معذب ہونے کی خواہش میں عجلت نہ کیجئے بلکہ ان کو یوں ہی رہنے دیجئے اور زیادہ دنوں کے لئے نہیں بلکہ تھوڑے دنوں کے لئے ان کو اور مہلت دے دیجئے پھر وقت آنے پر ان کو عذاب دیا جائے گا خواہ وہ دنیوی عذاب ہو اور سا کا وقوع قبل الموت ہو یا عذاب اخروی ہو اور بعد الموت ہو۔ بہرحال پیغمبر کو تسلی دی اور کفار کو وعید سنائی۔ تم تفسیر سورة الطارق