Surat ut Tariq

Surah: 86

Verse: 5

سورة الطارق

فَلۡیَنۡظُرِ الۡاِنۡسَانُ مِمَّ خُلِقَ ؕ﴿۵﴾

So let man observe from what he was created.

انسان کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

So, let man see from what he is created! This is alerting man to the weakness of his origin from which he was created. The intent of it is to guide man to accept (the reality of) the Hereafter, because whoever is able to begin the creation then he is also able to repeat it in the same way. This is as Allah says, وَهُوَ الَّذِى يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ And He it is Who originates the creation, then He will repeat it; and this is easier for Him. (30:27) Then Allah says, خُلِقَ مِن مَّاء دَافِقٍ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

5۔ 1 یعنی منی سے جو قضائے شہوت کے بعد زور سے نکلتی ہے۔ یہی قطرہ آب رحم عورت میں جر اللہ کے حکم سے حمل کا باعث بنتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤] عالم بالا کی طرف توجہ دلانے کے بعد اب انسان کو دعوت دی جارہی ہے کہ وہ ذرا اپنی پیدائش پر بھی غور کرلے کہ ماں کے پیٹ میں کون اس کی پرورش کرتا رہا اور کس نے اس کے حمل کو رحم مادر میں جمائے رکھا اور اتنا سخت جمایا کہ بغیر کسی شدید حادثہ کے حمل ضائع نہیں ہوسکتا تھا۔ پھر جب وہ ماں کے پیٹ سے باہر آیا تو اتنا زیادہ ناتواں اور کمزور تھا جتنا کمزور بچہ دوسری کسی جاندار مخلوق کا نہیں ہوتا۔ پھر دوسری تمام مخلوق سے بڑھ کر اس کی نشوونما کے انتظامات فرمائے۔ پھر پیدائش سے لے کر موت تک اس کی مسلسل نگرانی کرتا رہتا ہے۔ اسے بیماریوں سے، حادثات سے اور طرح طرح کی آفات سے بچاتا رہتا ہے۔ اس کی زندگی اور زندگی کی بقا کے اتنے ذرائع بہم پہنچاتا ہے جنہیں انسان شمار بھی نہیں کرسکتا بلکہ اسے ان کا شعور تک نہیں ہوتا۔ کجا وہ خود فراہم کرنے پر قادر ہو۔ تاآنکہ وہ اپنی اس مدت موت کو پہنچ جاتا ہے جو اللہ نے اس کے لیے مقرر کر رکھی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ اللہ کی تدبیر اور اس کی نگرانی کے بغیر ہونا ممکن ہے ؟۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) فلینظر الانسان مم خلق…: ایک مقرر وقت تک انسان کی ذات کی حفاظت اور اعمال کی نگہداشت یوم حسابکے لئے ہے، اگر اسے اپنا دوبارہ زندہ کیا جانا محال معلوم ہوتا ہے تو اپنی پیدائش پر غور کرلے کہ کس چیز سے ہوتی ہے ؟ ایک اچھلنے والے پانی سے۔ جب اللہ تعالیٰ نے پانی جیسی مائع چیز پر صورت گری کر کے ایک کامل انسان پیدا کردیا جس میں مکمل اعضائے جسم، حیات، قوت، عقل اور ادراک سب کچھ موجود ہے تو یقیناً وہ اس انسان کو اس کی مٹی سے دوبارہ پہلی صورت میں پیدا کرنے پر بھی قادر ہے۔ بتاؤ، انسان کو پانی سے بنانا مشکل ہے یا اسی کی خاک سے دوبارہ بنادینا ؟ اور پہلی دفعہ بغیر نمونے کے پیدا کرنا مشکل ہے یا پہلے نمونے پر دوبارہ بنادینا ؟ (٢) مٹی اگرچہ بظاہر خصیوں میں بنتی ہے، مگر جب پیدا کرنے والے نے بتادیا کہ اس کا اصل مرکز پیٹھ کی ہڈی اور پسلیوں کے درمیان ہے تو اس حقیقت میں شک کی کوئی گنجائشن ہ رہی۔ بعض اہل علم کے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ جدید طب نے بھی تسلیم کیا ہے کہ جنین کے خصے ریڑھ کی ہڈی اور پسلیوں کے درمیان گردوں کے قریب ہوتے ہیں، پھر ولادت سے پہلے اورب عض اوقات ولادت سے کچھ دیر بعد فوطوں میں اتر آتے ہیں، مگر پھر بھی ان کے اعصاب اور رگوں کا مقام وہی ” بین الصلب و الترآئب “ رہتا ہے، بلکہ ان کی شریان بھی پیٹھ کیق ریب شہ رگ (اور رطی) سے نکلتی ہے اور پورے پیٹ سے گزرتی ہوئی ان کو خون مہیا کرتی ہے۔ گویا خصیتین بھی اصل میں پیٹھ کا جز ہیں جو جسم کا زیادہ درجہ حرارت بردشات نہ کرسکنے کی وجہ سے باہر فوطوں میں منتقلک ر دیئے گئے ہیں۔ اب مادہ منویہ اگرچہ خصیتین میں پیدا ہوتا اور کیس منی میں جمع ہوتا ہے، مگر اسے خون پہنچانے اور حرکت دینے والا مرکز ” بین الصلب و الترآئب “ ہی ہے۔ دماغ سے اعصاب کے ذریعے سے جب اس مرکز کو حکم پہنچتا ہے تو اس مرکز کی تحریک سے کیسہ منی سکڑتا ہے اور ماء دافق پچکایر کی طرح اچھل کر نکلات ہے۔ الحمد للہ، جدید طب بھی اس حقیقت کو معلوم کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ بالفرض اگر وہ اس حقیقت تک نہ پہنچ پاتی تو قرآن کا بیان پھر بھی اٹل حقیقت تھا۔ قصور انسانی تجربات و مشاہدات کا تھا جو اپنی نارسائی کی وجہ سے خلاق کی بیان کردہ حقیقت تک نہ پہنچ سکے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلْيَنْظُرِ الْاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ۝ ٥ ۭ نظر النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب/ 53] أي : منتظرین، ( ن ظ ر ) النظر کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔ اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں إنس الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی: وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان/ 49] . وقیل ابن إنسک للنفس وقوله عزّ وجل : فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء/ 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه/ 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور/ 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي . ( ان س ) الانس یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ { وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا } ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ { فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا } ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا } ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥۔ ٧) انسان کو اپنے اندر غور کرنا چاہیے کہ کس چیز سے اسے پیدا کیا گیا، وہ ایک اچھلتے پانی سے پیدا کیا گیا ہے جو مرد کی پشت اور عورت کے سینہ کے درمیان سے نکلتا ہے۔ شان نزول : فَلْيَنْظُرِ الْاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ (الخ) ابن ابی حاتم نے عکرمہ سے اس آیت مبارکہ کے متعلق روایت کیا ہے کہ یہ آیت ابوالاشد کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ وہ چمڑے پر کھڑا ہو کر کہا کرتا تھا اے گروہ قریش جو مجھ کو اس پر ہٹا دے اس کے لیے اس یا ہے اور بکواس کیا کرتا تھا کہ محمد کہتے ہیں کہ دوزخ کے انیس خازن ہیں تو میں اکیلا ہی ان میں سے دس کو کافی ہوں اور نو کو تم کافی ہوجاؤ۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

2 After making man ponder over the heavens, he is now being invited to consider his ownself and see how he has been created, Who is it Who selects one spermatozoon from among billions of spermatozoa emitted by the father and combines it at some time with one ovum out of a large number of the ova produced by the mother, and thus causes a particular human being to be conceived? Then, Who is it Who after conception develops it gradually in the mother's womb Until it is delivered in the form of a living child? Then, Who is it Who in the mother's womb itself brings about a certain proportion and harmony between its bodily structure and its physical and mental capabilities? Then, Who is it Who watches over it continuously from birth till death-protects it from disease, accidents and calamities and provides him with countless means of life and opportunities for survival in the world of which he is not even conscious, not to speak of having the power to provide these for himself. Is all this happening without the planning and supervision of One God?

سورة الطَّارِق حاشیہ نمبر :2 عالم بالا کی طرف توجہ دلانے کے بعد اب انسان کو دعوت دی جا رہی ہے کہ وہ خود ذرا اپنی ہستی ہی پر غور کر لے وہ کس طرح پیدا کیا گیا ہے ۔ کون ہے جو باپ کے جسم سے خارج ہونے والے اربوں جرثوموں میں سے ایک جرثومے اور ماں کے اندر سے نکلنے والے بکثرت بیضوں میں سے ایک بیضے کا انتخاب کر کے دونوں کو کسی وقت جوڑ دیتا ہے اور اس سے ا یک خاص انسان کا استقرار حمل واقع ہو جاتا ہے؟ پھر کون ہے جو استقرار حمل کے بعد ماں کے پیٹ میں درجہ بدرجہ اسے نشو ونما دے کر اسے اس حد کو پہنچاتا ہے کہ وہ ایک زندہ بچے کی شکل میں پیدا ہوتا ، پھر کون ہے جو رحم مادر ہی میں اس کے جسم کی ساخت اور اس کی جسمانی و ذہنی صلاحیتوں کا تناسب قائم کرتا ہے؟ پھر کون ہے جو پیدائش سے لے کر موت کے وقت تک اس کی مسلسل نگہبانی کرتا رہتا ہے؟ اسے بیماریوں سے بچاتا ہے ۔ حادثات سے بچاتا ہے ۔ طرح طرح کی آفات سے بچاتا ہے ۔ اس کے لیے زندگی کے اتنے ذرائع بہم پہنچاتا ہے جن کا شمار نہیں ہو سکتا ۔ اور اس کے لیے ہر قدم پر دنیا میں باقی رہنے کے وہ مواقع فراہم کرتا ہے جن میں سے اکثر کا اسے شعور تک نہیں ہو تا کجا کہ وہ انہیں خود فراہم کرنے پر قادر ہو ۔ کیا یہ سب کچھ ایک خدا کی تدبیر اور نگرانی کے بغیر ہو رہا ہے؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(86:5) فلینظر الانسان مم خلق۔ ف سببیہ ہے۔ نگران فرشتوں کا وجود (اور ہر چھوٹے بڑے عمل کا اندیشہ اندراج) اس امر کا سبب ہے کہ آدمی اپنے حالات پر غور کرے۔ لینظر فعل امر واحد مذکر غائب (باب نصر) مصدر سے۔ چاہیے کہ وہ دیکھے۔ مم مرکب ہے من حرف جار اور ما استفہامیہ سے اصل میں من ما تھا۔ کسی چیز سے خلق ماضی مجہول واحد مذکر غائب ، پیدا کیا گیا۔ پس آدمی خود ہی دیکھے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے۔ جملہ مم خلق مفعول ہے ینظر کا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یعنی اپنی حقیقت اور بساط پر غور کر زنا چاہیے کہ کس برتے پر اللہ ذوالجلا والا کرام کے مقابلے میں اکڑفون دکھاتا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس خالق نے انسان پر نگران مقرر کیے ہیں وہی انسان کو ٹپکتے ہوئے پانی سے پیدا کرنے والا ہے اور اسی نے اسے قیامت کے دن زندہ کرنا اور اپنے حضور کھڑا کرنا ہے۔ قرآن مجید نے کئی مقامات پر انسان کو اس کی تخلیق کے بارے میں متوجہ کیا اور فرمایا ہے کہ اے انسان ! تجھے اپنی پیدائش پر غور کرنا چاہیے کہ تیرے رب نے تجھے کن مراحل سے گزار کر پیدا کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تیری ابتدا اچھلتے ہوئے پانی کے ایک قطرے سے ہوئی ہے جو مرد کی پیٹھ اور عورت کے سینے کی ہڈیوں سے نکلتا ہے۔ یقین جان ! کہ تیرا رب تجھے دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے نہ صرف تجھے دوبارہ پیدا کرے گا بلکہ اس دن دلوں کے تمام راز آشکارا ہوجائیں گے۔ جس کی اس کے برے اعمال کی وجہ سے گرفت کی گئی اسے کوئی بچانے والا نہیں ہوگا۔ یہاں صلب اور ترائب کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ صُلب ریڑھ کی ہڈی کو کہتے ہیں اور ترائب کے معنٰی ہیں سینے کی ہڈیاں یعنی پسلیاں۔ چونکہ عورت اور مرد دونوں کے مادۂ تولید انسان کے جسم کے اس حصہ سے خارج ہوتے ہیں جو صلب اور سینے کے درمیان واقع ہے۔ اس لیے فرمایا ہے کہ انسان اس پانی سے پیدا کیا گیا ہے جو پیٹھ اور سینے کے درمیان سے نکلتا ہے یہ مادہ اس صورت میں بھی پیدا ہوتا ہے جبکہ ہاتھ اور پاؤں کٹ جائیں۔ اس لیے یہ کہنا صحیح نہیں کہ یہ انسان کے پورے جسم سے خارج ہوتا ہے۔ درحقیقت جسم کے اعضاءِ رئیسہ اس کے ماخذ ہیں اور وہ سب آدمی کے دھڑ میں واقع ہیں۔ دماغ کا الگ ذکر اس لیے نہیں کیا گیا کہ صلب دماغ کا وہ حصہ ہے جس کی بدولت ہی جسم کے ساتھ دماغ کا تعلق قائم ہوتا ہے۔ علم الجنین (embryology) رو سے یہ ثابت شدہ حقیقت کہ جنین (Foetus) کے اندر انثیین (testes) یعنی وہ غدود جن سے مادۂ منویہ پیدا ہوتا ہے، ریڑھ کی ہڈی اور پسلیوں کے درمیان گردوں کے قریب ہوتے ہیں جہاں سے بعد میں یہ آہستہ آہستہ فوطوں میں اتر جاتے ہیں۔ یہ عمل ولادت سے پہلے اور بعض اوقات اس کے کچھ بعد ہوتا ہے۔ بلکہ ان کی شریان (Artery) پیٹھ کے قریب شہ رگ (Aorta) سے نکلتی ہے اور پورے پیٹ کا سفر طے کرتی ہوئی ان کو خون مہیا کرتی ہے۔ اسی طرح حقیقت میں انثیین میں پیٹھ ہی کا جز ہیں جو منویہ اگرچہ انثیین پیدا کرتے ہیں اور کیسۂ منویہ (Seminal Vesicles) میں جمع ہوجاتا ہے مگر اس کے اخراج کا مرکز تحریک ” بَیْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَآءِبِ “ ہی ہوتا ہے اور دماغ سے اعصابی رو جب اس مرکز کو پہنچتی ہے تب اس مرکز کی تحریک (Triger action) سے کیسۂ منویہ سکڑتا ہے اور اس سے ماء دافق پچکاری کی طرح نکلتا ہے۔ اس لیے قرآن کا بیان ٹھیک ٹھیک علم طب کی جدید تحقیقات کے مطابق ہے۔ (تفہیم القرآن تفسیر سورت ہذا) مسائل ١۔ انسان کو اچھلتے ہوئے پانی سے پیدا کیا گیا ہے جو مرد کی پیٹھ اور عورت کے سینے سے نکلتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہی انسان کو پیدا کرنے والا ہے اور وہی قیامت کے دن اسے پیدا کرے گا۔ ٣۔ قیامت کے دن تمام راز آشکارا ہوجائیں گے اور اس دن مجرم کی کوئی مدد نہیں کرسکے گا۔ تفسیر بالقرآن انسان کی تخلیق کے مختلف مراحل : ١۔ یقیناً ہم نے انسان کو کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا ہے۔ (الحجر : ٢٦) ٢۔ حواکو آدم سے پیدا فرمایا۔ (النساء : ١) ٣۔ انسان کو اللہ نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔ (آل عمران : ٥٩) ٤۔ اللہ نے انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا۔ (الدھر : ٢) ٥۔ اللہ نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ (المومنون : ١٢) ٦۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر اسے نطفہ بنایا، پھر اس سے خون کا لوتھڑا، پھر اس سے بوٹی بنا کر پیدا کیا۔ (الحج : ٥) ٧۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ، پھر لوتھڑا بنا کر تمہیں پیدا کرتا ہے کہ تم بچے ہوتے ہو۔ (المومن : ٦٧) ٨۔ کیا تو اس ذات کا کفر کرتا ہے جس نے تجھے مٹی سے پیدا فرمایا۔ (الکہف : ٣٧) ٩۔ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اس نے تمہیں مٹی سے پیدا فرمایا۔ (الروم : ٢٠) ١٠۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے، پھر تمہارے جوڑے جوڑے بنائے۔ (فاطر : ١١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

انسان کو اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا اور پھر دیکھتے دیکھتے کیا بن گیا۔ ایک ایسے پانی سے پیدا کیا جو اچھل کر جسم انسانی سے نکلتا ہے اور یہ آتا کہاں سے ہے ، انسان کی پیٹھ اور سینے کے درمیان سے نکلتا ہے۔ یہ پانی مرد کی ریڑھ کی ہڈیوں سے جمع ہوتا ہے۔ اور عورت کی سینے کی بالائی ہڈیوں سے نکلتا ہے اور اس پانی کا بننا اور اس کا یوں خارج ہونا اللہ کے رازوں میں سے ایک راز تھا جسے انسان ابھی تک نہیں جانتا تھا ، گزشتہ نصف صدی میں سائنس نے اپنے اسلوب تحقیق کے مطابق اس کے بعض پہلوﺅں سے پردہ اٹھایا اور معلوم ہوا کہ انسان کی پیٹھ کی ہیوں اور عورت کے سینے کی بلائی ہڈیوں کے اندر عورت کا مادہ منوبہ بنتا ہے اور یہ دونوں مواد جب ایک نہایت ہی محفوظ جگہ میں اکٹھے ہوتے ہیں تو پھر ان سے انسان کی تخلیق ہوتی ہے۔ حقیقت ہے کہ انسان کی ابتدائی پیدائش اور آخری شکل تمام کے درمیان ایک طویل اور خوفناک سفر ہے۔ وہ پانی جو ریڑھ کی ہڈیوں اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے اس کے اور پھر ایک مکمل شکل و صورت کے انسان کے درمیان ایک طویل سفر ہے ، جو عقل بھی رکھتا ہے۔ وہ عضوی ، اعصابی ، عقلی اور نفسیاتی پیچیدہ ترکیب بھی رکھتا ہے۔ یہ سفر جو اچھلتا پانی طے کرکے ایک عاقل وبالغ انسان کی شکل اختیار کرلیتا ہے ، اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان سے باہر ایک قوت ہے جو اس مائع پانی کو ایک سمت میں چلاتی ہے ، جبکہ ابتدائی حالت میں اس پانی کے اندر نہ قدرت ہے نہ کوئی ہیولا ہے ، یہ پانی یہ طویل سفر نہایت ہی عجیب و غریب انداز میں طے کرتا ہے اور اس انجام تک پہنچتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے حکم سے اس پر ایک نگران مقرر ہے کہ وہ اس باریک نکتے کی نگرانی کرتا ہے جس کے اندر نہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے حکم سے اس پر ایک نگران مقرر ہے کہ وہ اس باریک نکتے کی نگرانی کرتا ہے جس کے اندر نہ عقل ہے اور نہ اس کے اندر کوئی ہیولا نظر آتا ہے۔ نہ قوت ہے اور نہ ارادہ ہے اور اس نکتے کے اس طویل سفر میں مسلسل نگران رہتا ہے۔ اس نکتے کے اندر اس قدر عجائب ہیں کہ انسان اپنی شعوری زندگی کے آغاز سے انتہا تک اس قدر عجائب وغرائب نہیں دیکھ سکتا۔ یہ ایک نکتہ نہایت ہی باریک نکتہ ہوتا ہے اور یہ نہایت طاقتور خوردبین سے بھی بمشکل نظر آتا ہے۔ یہ پانی جب ایک بار مرد کی پشت سے اچھل کر نکلتا ہے تو اس کے اندر ایسے کروڑوں نکتے ہوتے ہیں اور ان میں سے ایک نکتہ اپنے مقام تک پہنچتا ہے۔ یہ حقیقت کہ اس نکتے کی کوئی شکل نہیں ہوتی اس کے اندر عقل نہیں ہوتی ، اس کے اندر کوئی قوت نہیں ہوتی ، اور کوئی ارادہ نہیں ہوتا ، اس وقت معلوم ہوجاتی ہے جب یہ نکتہ رحم مادر میں جاکر ٹھہرتا ہے اور پھر غذا کا متلاشی ہوتا ہے۔ اب دست قدرت اس کی رہنمائی یوں کرتا ہے کہ یہ نکتہ اپنے ارد گرد پائے جانے والے رحم مادر کی دیواروں کو کھانا شروع کردیتا ہے اور یہ رحم مادر کے اندر اپنے لئے خون کا ایک حوض بنا لیتا ہے۔ یہ خون اس کے لئے غذا کا کام کرتا ہے۔ جونہی اسے اطمینان ہوتا ہے کہ اس کی خوراک کا انتظام ہوگیا ہے۔ یہ ایک نئی کاروائی شروع کرتا ہے۔ اب یہ تقسیم در تقسیم ہونا شروع کرتا ہے۔ اور مسلسل تقسیم ہوتا رہتا ہے۔ یہ سادہ ، بےعقل اور بےشکل اور ضعیف وناتواں اور قوت و ارادے سے محروم خلیے کو معلوم ہے کہ اسے کیا کرنا ہے اور کس طرف بڑھنا ہے۔ یہ دست قدرت ہی ہے جو اس کی حفاظت کرتا ہے اور اس کی رہنمائی کرتا ہے اور اسے قوت وا ارادہ سے نوازتا ہے کہ اسے کدھر جانا ہے اور کیا شکل اختیار کرنی ہے۔ دست قدرت اسے حکم دیتا ہے کہ وہ اس مسلسل تقسیم کے عمل سے پیدا ہونے والے خلیوں کو اس کام میں لگادے جس کے لئے انہیں پیدا کیا جارہا ہے۔ اس عمارت کے جس حصے کے لئے خلیے پیدا ہوتے ہیں وہ اس عضو کی طرف بڑھتے ہیں جبکہ جسم انسانی کی عمارت مجموعی اعتبار سے بےحد پیچیدہ عمارت ہے۔ تقسیم کے عمل سے پیدا ہونے والے یہ خلیے مسلسل چلتے ہیں اور ان اعضا کی شکل میں جمع ہوتے ہیں اور آخر کاء یہ عظیم ہیکل تیار ہوتا ہے۔ یہ خلیے انسان کے جسم کے اندر عضلاتی نظام تیار کرتے ہیں۔ پھر ان کا ایک گروپ اعضابی نظام تیار کرتا ہے۔ ان کا ایک گروپ شرائین کا جال بچھاتا ہے۔ یہ اور اس عمارت کے دوسرے پیچیدہ نظام تیار ہوتے ہیں لیکن یہ تعمیر وتشکیل کا عمل اس قدر سادہ نہیں ہے جس طرح سمجھا جاتا ہے۔ اس نظام کے اندر نہایت ہی گہری ٹیکنالوجی کام کرتی ہے۔ ہڈیوں میں سے ہر ہڈی ، عضلات میں سے ہر ایک عضلا اور اعصاب میں سے ہر ایک پٹھا ، کسی دوسری ہڈی ، پٹھے کے پوری طرح مشابہ اور یکساں نہیں ہے۔ کوئی پٹھا دوسرے اعصاب کے ساتھ یکساں نہیں ہے کیونکہ یہ عمارت بےحد پیچیدہ ہے۔ اس کی ساخت بھی نہایت عجیب ہے۔ ہر ایک کا فعل اور فریضہ الگ ہے۔ اس لئے ہر خلیہ معلم قدرت سے یہ بات سیکھتا ہے اور اخذ کرتا ہے کہ وہ کس مخصوص عضو کے لئے مخصوص ہے۔ اور اس نے اس عضو کے اندر پھر کیا ڈیوٹی سرانجام دینی ہے۔ اس لئے جسم کے اندر جو چھوٹے سے چھوٹا خلیہ بھی حرکت کرتا ہے ، معلم قدرت کی رہنمائی میں وہ اپنی راہ اچھی طرح جانتا ہے کہ اس نے کہاں جانا ہے اور اس کی ڈیوٹی کیا ہے اور اس نے کیا کرنا ہے۔ کوئی ایک خلیہ یا ان کا گروپ بھی کبھی اپنی راہ غلط نہیں کرتا۔ مثلاً جو خلیے آنکھ بناتے ہیں ، ان کو معلوم ہوتا ہے کہ آنکھ سر میں ہوتی ہے۔ یہ جائز نہیں ہے کہ وہ پیٹ یا پاﺅں یا بازوﺅں میں آنکھیں بنائیں۔ حالانکہ اگر اللہ چاہے تو وہ پیٹ ، ہاتھ اور پاﺅں میں کسی جگہ آنکھ بنا دے۔ اگر آنکھ بناننے والا پہلا خلیہ ان مقامات کی طرف چلا جائے اور وہاں آنکھ بنادے تو وہ بناسکتا ہے لیکن جب آنکھ کا خلیہ سفر کرتا ہے تو وہ اسی مقام کی طرف سفر کرتا ہے جو اس کے لئے اس انسانی پیچیدہ ہیولا کے اندر مخصوص کردیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس خلیے کو یا ان خلیات کو یہ احکام کون دیتا ہے۔ کون ہے جس نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ آنکھ کو اس جگہ ہونا چاہئے اور اس جگہ نہیں ہونا چاہئے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ یہ اللہ ہی حافظ و برتر ہے جو ان خلیات کی نگرانی کرتا ہے ، ان کو ہدایت دیتا ہے ، ان کو راہ بتاتا ہے اور ایسی تاریکیوں میں رہا بتاتا ہے جہاں الہل کے سوا کوئی اور راہ بنانے والا ہوتا ہی نہیں ہے۔ یہ تمام خلیے ، اجتماعی طور پر بھی اور انفرادی طور پر اس فریم ورک کے اندر کام کرتے ہیں جو ان کے لئے ان خلیات کا مجموعی نظم طے کرتا ہے۔ اس مجموعی نظم میں اس عضو کی شکل بھی ہوتی ہے اور اس کے اندر وراثتی خصوصیات بھی ہوتی ہیں ، مثلاً اگر انسان کی آنکھ کے خلیات ہیں تو وہ ایک تو انسانی آنکھ بنائیں گے اور دوسرے یہ کہ اس آنکھ کے اندر اس انسان کے آباء و اجداد کی مخصوص شکل و صورت بھی محفوظ ہوگی۔ اس نقشے سے معمولی انحراف بھی اس عضو کے نظام کو خراب کردیتا ہے۔ تو سوال پھر یہی ہے کہ وہ ہستی کون ہے جس نے خلیات کو یہ قدرت دی اور ان کو ایسا منظم عمل کرنے کا طریقہ سکھایا۔ حالانکہ یہ ایک سادہ خلیہ ہوتا ہے اور اس میں عقل وادراک نہیں ہوتا۔ نہ قوت اور ارادہ ہوتا ہے۔ اس سوال کا سیدھا سادھا جواب یہی ہے کہ صرف اللہ کی ذات ہے۔ یہ اللہ ہی ہے جو ان خلیات کو وہ کچھ سکھاتا ہے کہ انسان نہ اس قسم کا نقشہ بناسکتا ہے۔ نہ ایک عضوتیار کرسکتا ہے۔ نہ ہاتھ ، نہ آنکھ ، نہ ان کا کوئی حصہ۔ اس کے برعکس ایک سادہ خلیہ یا خلیات کا مجموعہ یہ کام کر دکھاتا ہے ، جہ نہایت ہی عظیم اور پیچیدہ کام ہے۔ ایک خلیے سے انسان تک اس سفر کے اس سرسری جائزے کے اندر ایک جہاں ہے عجائبات اور انوکھی چیزوں کا ، یعنی اچھلتے پانی سے انسان بننے تک کے مراحل میں۔ اعضاء کا نظام ، ان عجائب کی تفصیلات بیان کرنے سے بھی ہم عاجز ہیں۔ اور نہ ظلال القرآن کے محدود صفحات میں یہ ممکن ہے لیکن یہ سب عجائبات اس بات پر شاہد ناطق ہیں کہ ایک خفیہ دست قدرت ہے جو ان خلیوں سے یہ کام کرواتا ہے۔ ان حقائق سے ایک تو وہ حقیقت ثابت ہوتی ہے جس پر آسمان اور الطارق کی قسم اٹھائی گئی ہے اور یہ قسم اور جواب قسم دوسری عظیم حقیقت کے لئے ایک تمہید ہے کہ تمام انسانوں نے ، اسی طرح ایک بار پھر خود کار انداز سے اپنی قبروں سے اٹھنا ہے لیکن اس دوسری حقیقت کا مشرکین مکہ انکار کرتے تھے جو قرآن کے اولین مخاطب تھے ، جن کے سامنے یہ سورت سب سے پہلے اتری تھی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

3:۔ ” فلینظر الانسان “ یہ حشر و نشر کے لیے پہلا عقلی نمونہ ہے انسان اس پر غور کرے کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح اس کو کدنے والے پانی (نطفہ) سے پیدا کیا ہے جو پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان میں سے نکلتا ہے (کبیر) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(5) سو انسان کو اس امر پر غور کرنا چاہیے کہ وہ کس چیز سے بنایا گیا ہے۔