Surat ul Ghashiya

Surah: 88

Verse: 1

سورة الغاشية

ہَلۡ اَتٰىکَ حَدِیۡثُ الۡغَاشِیَۃِ ؕ﴿۱﴾

Has there reached you the report of the Overwhelming [event]?

کیا تجھے بھی چھپا لینے والی ( قیامت ) کی خبر پہنچی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah says; هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ Has there come to you the narration of Al-Ghashiyah (the overwhelming), The Day of Judgement and what will happen to the People of the Fire during it. Al-Ghashiyah is one of the names of the Day of Judgement. This was said by Ibn Abbas, Qatadah and Ibn Zayd. It has been called this because it will overwhelm the people and overcome them. Allah then says, وُجُوهٌ يَوْمَيِذٍ خَاشِعَةٌ

سب کو ڈھانپنے والی حقیقت غاشیہ قیامت کا نام ہے اس لیے کہ وہ سب پر آئیگی سب کو گھیرے ہوئے ہو گی اور ہر ایک کو ڈھانپ لے گی ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہیں جا رہے تھے کہ ایک عورت کی قرآن پڑھنے کی آواز آئی آپ کھڑے ہو کر سننے لگے اس نے یہی آیت ھل اتک پڑھی یعنی کیا تیرے پاس ڈھانپ لینے والی قیامت کی بات پہنچی ہے؟ تو آپ نے جواباً فرمایا نعم قد جآء نی یعنی ہاں میرے پاس پہنچ چکی ہے اس دن بہت سے لوگ ذلیل چہروں والے ہوں گے پستی ان پر برس رہی ہوں گی ان کے اعمال غارت ہو گئے ہوں گے انہوں نے تو بڑے بڑے اعمال کیے تھے سخت تکلیفیں اٹھائی تھیں وہ آج بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہو گئے ایک مرتبہ حضرت عمر ایک خانقاہ کے پاس سے گزرے وہاں کے راہب کو آواز دی وہ حاضر ہوا آپ اسے دیکھ کر روئے لوگوں نے پوچھا حضرت کیا بات ہے؟ تو فرمایا اسے دیکھ کر یہ آیت یاد آ گئی کہ عبادت اور ریاضت کرتے ہیں لیکن آخر جہنم میں جائیں گے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اس سے مراد نصرانی ہیں عکرمہ اور سدی فرماتے ہیں کہ دنیا میں گناہوں کے کام کرتے رہے اور آخرت میں عذاب کی اور مار کی تکلیفیں برداشت کریں گے یہ سخت بھڑکنے والی جلتی تپتی آگ میں جائیں گے جہاں سوائے ضریع کے اور کچھ کھانے کو نہ ملے گا جو آگ کا درخت ہے یا جہنم کا پتھر ہے یہ تھوہر کی بیل ہے اس میں زہریلے کانٹے دار پھل لگتے ہیں یہ بدترین کھانا ہے اور نہایت ہی برا نہ بدن بڑھائے نہ بھوک مٹائے یعنی نہ نفع پہنچے نہ نقصان دور ہو ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1۔ 1 غاشیہ سے مراد قیامت ہے، اس لئے کہ اس کی ہولناکیاں تمام مخلوق کو ڈھانک لیں گی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١] غَاشِیَۃً : غَشَی بمعنی ایک چیز پر دوسری چیز کا چھا کر اسے ڈھانپ لینا اور غشی ایسی حالت کو کہتے ہیں جبکہ انسان کے ہوش و حواس زائل ہوجائیں اور غاشیہ بمعنی وہ چیز جس کی ہیبت ہر شخص پر چھا جائے گی۔ ہوش و حواس گم کردینے والی اور اس سے مراد قیامت کا دن ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(ھل اتک حدیث الغاشیۃ…:” الغاشیۃ “ ” غشی یغشی “ (س) سے اسم فاعل ہے، ڈھانپ لینے والی۔ مراد قیامت ہے جو ہر چیز پر چھا جائے گی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر آپ کو اس محیط عام واقعہ کی کچھ خبر پہنچی ہے (مراد اس واقعہ سے قیامت ہے کہ تمام عالم کو اس کا اثر محیط ہوگا اور مقصود اس استفہام سے تشویق ہے جس سے کلام کے سننے کا اہتمام پیدا ہو، آگے بصورت جواب اس خبر کی تفصیل ہے یعنی) بہت سے چہرے اس روز ذلیل اور مصیبت جھلتے خستہ (اور درماندہ) ہوں گے (اور) آتش سوزاں میں داخل ہوں گے (اور) کھولتے ہوئے چشمے سے پانی پلائے جاویں گے (اور) ان کو بجز ایک خاردار جھاڑ کے اور کوئی کھانا نصیب نہ ہوگا جو نہ (تو کھانے والوں کو) فربہ کرے گا اور نہ (ان کی) بھوک کو دفع کر دے گا (یعنی انہ اس میں غذا بننے کی صلاحیت ہے نہ بھوک رفع کرنے کی، اور مصیبت جھیلنے سے مراد حشر میں پریشان پھرنا اور دوزخ میں سلاسل اور اغلال کو لادنا، دوزخ کے پہاڑوں پر چڑھنا اور اس کے اثر سے خستگی ظاہر ہے۔ اور کھولتا ہوا چشمہ وہی جس کو دوسری آیتوں میں حمیم فرمایا ہے اور اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں اس کا بھی چشمہ ہوگا، اور یہ فرمانا کہ اس کا طعام بجز ضریع کے اور نہ ہوگا اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی لذیذ کھانا نہیں ہوگا، ضریع ہی کی طرح زقوم یا غسلین کا اسکے کھانے میں شامل ہونا اسکے منافع نہیں، اور چہروں سے مراد اصحاب چہرہ ہیں یہ تو دوزخیوں کا حال ہوا، آگے اہل جنگ کا حال ہے یعنی) بہت سے چہرے اس روز بارونق (اور) اپنے نیک کاموں کی بدولت خوش ہوں گے ( اور) بہشت بریں میں ہوں گے جن میں کوئی لغوبات نہ سنیں گے (اور) اس (بہشت) میں بہتے ہوئے چشمے ہوں گے (اور) اس (بہشت) میں اونچے اونچے تخت (بچھے) ہیں اور رکھے ہوئے آنجورے (موجود) ہیں (یعنی یہ سامان اسکے سامنے ہی موجود ہوگا تاکہ جب پانی کو جی چاہیں آرام کرلیں، ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا بھی نہ پڑے یہ تفصیل ہوئی جزا کی اور ان مضامین کو سن کر جو بعضے لوگ قیامت کا نکار کرتے ہیں جس میں یہ سب واقعات ہوں گے تو ان کی غلطی ہے کیونکہ) کیا وہ لوگ اونٹ کو نہیں دیکھتے کہ کس طرح (عجیب طور پر) پیدا کیا گیا ( کہ ہیت اور خاصیت دونوں بہ نسبت دوسرے جانوروں کے اسمیں عجیب ہیں) اور آسمان کو (نہیں دیکھتے) کہ کس طرح بلند کیا گیا ہے اور پہاڑوں کو (نہیں دیکھتے) کہ کس طرح کھڑے کئے گئے اور زمین کو (نہیں دیکھتے) کس طرح بچھائی گئی ہے (یعنی ان چیزوں کو دیکھ کر قدرت الہیہ پر استدلال نہیں کرتے تاکہ اس کا بعث یعنی قیامت پر قادر ہونا سمجھ لیتے اور تخصیص ان چار چیزوں کی اسلئے ہی کہ عرب کے لوگ اکثر جنگلوں میں چلتے پھرتے رہتے تھے اس وقت انکے سامنے اونٹ ہوتے تھے اور اوپر آسمان اور نیچے زمین اور اطراف میں پہاڑ اسلئے ان علامات میں غور کرنے کیلئے ارشاد فرمایا گیا اور جب یہ لوگ باوجود قیام دلائل کے غور نہیں کرتے تو آپ بھی ان کی فکر میں زیادہ نہ پڑیئے بلکہ صرف) نصیحت کردیا کیجئے (کیونکہ) آپ تو بس صرف نصیحت کرنیوالے ہیں (اور) آپ ان پر مسلط نہیں ہیں (جو زیادہ فکر میں پڑیں) ہاں مگر جو روگردانی اور کفر کرے گا تو خدا اس کو (آخرت میں) بڑی سزا دے گا (کیونکہ) ہمارے ہی پاس ان کا آنا ہوگا پھر ہمارا ہی کام ان سے حساب لینا ہے (آپ زیادہ غم میں نہ پڑیئے)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ہَلْ اَتٰىكَ حَدِيْثُ الْغَاشِـيَۃِ۝ ١ ۭ هَلْ : حرف استخبار، إما علی سبیل الاستفهام، وذلک لا يكون من اللہ عزّ وجلّ : قال تعالی: قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنا[ الأنعام/ 148] وإمّا علی التّقریر تنبيها، أو تبكيتا، أو نفیا . نحو : هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزاً [ مریم/ 98] . وقوله : هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم/ 65] ، فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک/ 3] كلّ ذلک تنبيه علی النّفي . وقوله تعالی: هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ وَالْمَلائِكَةُ [ البقرة/ 210] ، لْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل/ 33] ، هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ [ الزخرف/ 66] ، هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا ما کانوا يَعْمَلُونَ [ سبأ/ 33] ، هَلْ هذا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ [ الأنبیاء/ 3] قيل : ذلک تنبيه علی قدرة الله، و تخویف من سطوته . ( ھل ) ھل یہ حرف استخبار اور کبھی استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جیسے قرآن پاک میں ہے : هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنا[ الأنعام/ 148] کہدو کہ تمہارے پاس کوئی سند ہے اگر ہے تو اسے ہمارے سامنے نکالو ۔ اور کبھی تنبیہ تبکیت یا نفی کے لئے چناچہ آیات : ۔ هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزاً [ مریم/ 98] بھلا تم ان میں سے کسی کو دیکھتے ہو یار کہیں ان کی بھنکسنتے ہو ۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم/ 65] بھلا ئم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو ۔ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک/ 3] ذرا آنکھ اٹھا کر دیکھو کیا تجھے ( آسمان میں ) کوئی شگاف نظر آتا ہے ۔ میں نفی کے معنی پائے جاتے ہیں ۔ اور آیات : ۔ هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ وَالْمَلائِكَةُ [ البقرة/ 210] کیا یہ لوگ اسی بات کے منتظر ہیں کہ ان پر خدا کا عذاب ) بادل کے سائبانوں میں نازل ہو اور فرشتے بھی اتر آئیں ۔ ھلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل/ 33] یہ اس کے سوا اور کسی بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں ۔ هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ [ الزخرف/ 66] یہ صرف اس بات کے منتظر ہیں کہ قیامت هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا ما کانوا يَعْمَلُونَ [ سبأ/ 33] یہ جیسے عمل کرتے ہیں ویسا ہی ان کو بدلہ ملے گا ۔ هَلْ هذا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ [ الأنبیاء/ 3] یہ شخص کچھ بھی ) نہیں ہے مگر تمہارے جیسا آدمی ہے ۔ میں اللہ تعالیٰ کی قدرت پر تنبیہ اور اس کی سطوت سے تخو یف کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے : ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل/ 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل/ 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر/ 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعرأتيت المروءة من بابها فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة/ 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء/ 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم/ 27] . يقال : أتيته وأتوته ويقال للسقاء إذا مخض وجاء زبده : قد جاء أتوه، وتحقیقه : جاء ما من شأنه أن يأتي منه، فهو مصدر في معنی الفاعل . وهذه أرض کثيرة الإتاء أي : الرّيع، وقوله تعالی: مَأْتِيًّا[ مریم/ 61] مفعول من أتيته . قال بعضهم معناه : آتیا، فجعل المفعول فاعلًا، ولیس کذلک بل يقال : أتيت الأمر وأتاني الأمر، ويقال : أتيته بکذا وآتیته كذا . قال تعالی: وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة/ 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء/ 54] .[ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف/ 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني . والإِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] . ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو { أَتَى أَمْرُ اللَّهِ } [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ { فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ } [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت { وَجَاءَ رَبُّكَ } [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) |" اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ { وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى } [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ { يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ } [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ { لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا } [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ ارض کثیرۃ الاباء ۔ زرخیز زمین جس میں بکثرت پیداوار ہو اور آیت کریمہ : {إِنَّهُ كَانَ وَعْدُهُ مَأْتِيًّا } [ مریم : 61] بیشک اس کا وعدہ آیا ہوا ہے ) میں ماتیا ( فعل ) اتیتہ سے اسم مفعول کا صیغہ ہے بعض علماء کا خیال ہے کہ یہاں ماتیا بمعنی آتیا ہے ( یعنی مفعول بمعنی فاعل ) ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ محاورہ میں اتیت الامر واتانی الامر دونوں طرح بولا جاتا ہے اتیتہ بکذا واتیتہ کذا ۔ کے معنی کوئی چیز لانا یا دینا کے ہیں قرآن میں ہے ۔ { وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا } [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ { فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا } [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ { مُلْكًا عَظِيمًا } [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ { آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ } [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔ الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی حدیث وكلّ کلام يبلغ الإنسان من جهة السمع أو الوحي في يقظته أو منامه يقال له : حدیث، قال عزّ وجلّ : وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم/ 3] ، وقال تعالی: هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية/ 1] ، وقال عزّ وجلّ : وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ [يوسف/ 101] ، أي : ما يحدّث به الإنسان في نومه، حدیث ہر وہ بات جو انسان تک سماع یا وحی کے ذریعہ پہنچے اسے حدیث کہا جاتا ہے عام اس سے کہ وہ وحی خواب میں ہو یا بحالت بیداری قرآن میں ہے ؛وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم/ 3] اور ( یاد کرو ) جب پیغمبر نے اپنی ایک بی بی سے ایک بھید کی بات کہی ۔ أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية/ 1] بھلا ترکو ڈھانپ لینے والی ( یعنی قیامت کا ) حال معلوم ہوا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ [يوسف/ 101] اور خوابوں کی تعبیر کا علم بخشا۔ میں احادیث سے رویا مراد ہیں غشي غَشِيَهُ غِشَاوَةً وغِشَاءً : أتاه إتيان ما قد غَشِيَهُ ، أي : ستره . والْغِشَاوَةُ : ما يغطّى به الشیء، قال : وَجَعَلَ عَلى بَصَرِهِ غِشاوَةً [ الجاثية/ 23] ( غ ش و ) غشیۃ غشاوۃ وغشاء اس کے پاس اس چیز کی طرح آیا جو اسے چھپائے غشاوۃ ( اسم ) پر دہ جس سے کوئی چیز ڈھانپ دی جائے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ عَلى بَصَرِهِ غِشاوَةً [ الجاثية/ 23] اور اس کی آنکھوں پر پر دہ ڈال دیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

محمد آپ کو قیامت قائم ہونے کی کچھ خبر پہنچی، یا یہ کہ دوزخ کی جو کہ دوزخیوں کو گھیر لے گی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١{ ہَلْ اَتٰٹکَ حَدِیْثُ الْغَاشِیَۃِ ۔ } ” کیا پہنچ چکی ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اس ڈھانپ لینے والی (آفت) کی خبر ؟ “ یعنی قیامت کی خبر ‘ جو پوری کائنات کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

1 "The over-shadowing calamity": the Resurrection which will overshadow the whole world. One should know that here the Hereafter as a whole is being depicted, which comprehends aII the stages from the upsetting of the present system to the resurrection of all human beings and the dispensation of rewards and punishments from the Divine Court.

سورة الْغَاشِیَة حاشیہ نمبر :1 مراد ہے قیامت ، یعنی وہ آفت جو سا رے جہاں پر چھا جائے گی ۔ اس مقام پر یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ یہاں بحیثیت مجموعی پورے عالم آخرت کا ذکر ہو رہا ہے جو نظام عالم کے درہم برہم ہونے سے شروع ہو کر تمام انسانوں کے دوبارہ اٹھنے اور اللہ تعالی کی عدالت سے جزا و سزا پانے تک تمام مراحل پر حاوی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

1: یہ ’’غاشیہ‘‘ کا ترجمہ ہے، اور اسی وجہ سے اس سورت کا نام غاشیہ ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١۔ ٧۔ حضرت عبد اللہ بن ٣ ؎ عباس کے قول کے موافق غاشیۃ قیامت کا نام ہے غشاء کے معنی پردے کے ہیں قیامت کی سختیاں لوگوں کی عقل اور ان کے حواس پر پردہ کی طرح چھا جائیں گی جس سے وہ بالکل بدحواس ہوجائیں گے اس لئے قیامت کو غاشیہ کہا گیا۔ آدمی کے اعضاء میں منہ ایک بڑی دکھاوے کی چیز ہے اس لئے منہ کا ذکر کرکے سارا بدن اس سے مراد لیا گیا ہے اکثر مفسرین کے نزدیک یہاں ھل کے معنی قد کے ہیں حاصل یہ ہے کہ اے نبی اللہ کے قیامت کے دن نیک و بد جو کچھ حالت گزرے گی اس کا حال تم کو اور تمہاری امت کو اکثر آیات قرآنی سے معلوم ہوچکا ہے پھر اس حالت کی تفصیل فرمائی جس کا حاصل یہ ہے کہ اہل دوزخ اس دن طرح طرح سے خوار ہوں گے اور اہل جنت طرح طرح کی عزت اور راحت پائیں گے صحیحین ٤ ؎ میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دوزخ کی آگ میں دنیا کی آگ سے ستر حصے حرارت زیادہ ہوگی۔ ترمذی ٥ ؎ میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہزار برس تک دوزخ کی آگ کو دہکایا گیا تو اس کا رنگ سرخ ہوا پھر ہزار برس تک دہکایا گیا تو سفیدی مائل رنگ ہوگیا پھر ہزار برس دہکایا گیا تو بالکل سیاہ رنگ ہوگیا اب اس کا رنگ خوفناک بالکل کالا ہے صحیح ١ ؎ مسلم میں حضرت سمرۃ بن جندب سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دوزخی وگ جو دوزخ کی آگ میں ڈالے جائیں گے تو اپنے اپنے عمل کے موافق کسی کے ٹخنوں تلک آگ ہوگی اور کسی کے گھنٹوں تلک اور کسی کی کمر تلک اور کسی کی گردن تلک دوزخ کے گرم پانی کی تفسیر ترمذی ٢ ؎ وغیرہ کی روایتوں میں ہے کہ دوزخیوں کے پلانے کے لئے جب وہ پانی ان کے منہ کے پاس لایا جائے گا تو اس پانی کی گرم بھاپ سے دوزخیوں کے منہ کی کھال اتر جائے گی اور جب وہ پانی پلایا جیائے گا تو انتڑیاں کٹ کر گر پڑیں گی اور وہی پانی ان کے سر پر ڈالا جائے گا جس سے جسم کے اندر تک حرارت پہنچ کر دل اور جگر سب نکل پڑے گا پھر ہر دوزخی کو اصلی حال پر لایا جائے گا اور گھڑی گھڑی یہی عذاب کیا جائے گا اور کانٹوں دار گھانس ان کو نگلائی جائے گی جو ان کے حلق میں پھنس جائے گی اس کو حلق سے اتارنے کے لئے جب وہ پانی مانگیں گے تو یہی گرم پانی پلایا جائے گا اور یہ گھانس کچھ پیٹ میں اترے گی تو اس سے پیٹ نہ بھرے گا مفسرین نے لکھا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ دوزخیوں کی خوراک ضریع کانٹوں دار گھانس ہوگی تو مشرکین مکہ کہنے لگے ضریع تو اچھی چیز ہے اس سے تو ہمارے اونٹ موٹے ہوجاتے ہیں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کا ٹکڑا نازل فرمایا کہ اس گھانس سے نہ کسی کا پیٹ بھرے گا اور نہ کوئی موٹا ہوگا۔ (٣ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٥٠٢ ج ٤ و تفسیر الدر المنثور ص ٣٤٢ ج ٦۔ ) (٤ ؎ صحیح بخاری باب صفۃ النار و انھا مخلوقۃ ص ٤٦١ ج ١ و صحیح مسلم باب جھنم اعازنا اللہ منھا ص ٣٨١ ج ٢) (٥ ؎ جامع ترمذی ابواب صفۃ النار ص ٩٦ ج ٢۔ ) (٢ ؎ جامع ترمذی باب ماجاء فی صفۃ شراب اھل النار ص ٩٥ ج ٢۔ ) (١ ؎ صحیح مسلم با جہنم اعاذنا اللہ منھا ص ٣٨١ ج ٢)

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(88:1) ہل اتک حدیث الغاشیۃ : ہل استفہام اقرار ہے۔ یعنی بیشک تمہارے پاس آگئی۔ یا ہل بمعنی قد بھی ہوسکتا ہے یعنی تحقیق تمہارے پاس آچکی ہے۔ اتک : اتی : اتیان (باب ضرب) مصدر سے ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب ک ضمیر مفعول واحد مذکر حاضر۔ تیرے پاس آئی۔ آچکی۔ آگئی۔ حدیث الغاشیۃ مضاف مضاف الیہ مل کر اتی کا فاعل۔ حدیث بمعنی بات الغاشیۃ : غشی وغشاء (باب سمع) مصدر سے اسم فاعل کا صیغہ واحد مؤنث ہے ۔ ہر چھپا لینے والی۔ ڈھانک لینے والی۔ چھا جانے والی چیز۔ یہ اصل و صفی معنی ہے لیکن مراد قیامت ہے۔ اس لئے کہ اس کی ہولناکیاں سب پر چھا جائیں گی۔ (جلالین ، المفردات ) حاصل مطلب یہ کہ لغوی اعتبار سے وصفی معنی تھا۔ کسی چیز کا نام نہ تھا۔ لیکن قرآنی اصطلاح میں قیامت کا علم بن گیا۔ ترجمہ ہوگا :۔ بیشک تمہارے پاس قیامت کی خبر آچکی (اس طرز سے سوال کرنے میں سامع کی پوری توجہ اور آئندہ کلام کو حضور دل سے سنوانا مقصود ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 قیامت کو ” چھا جانے والی “ اس لئے فرمایا کہ اس کی دہشت تمام دلوں پر چھا جائیگی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

سورة الغاشیہ۔ آیات ١ تا ٢٦۔ اسرار ومعارف۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قیامت کا حال سنائیں جو سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی اس روز بہت سے چہروں پر ذلت چھارہی ہوگی جو دنیا میں محنت ومشقت اور مجاہدوں اور ریاضات کی تھکن سے چور ہوکرحشر میں پہنچیں گے تو جہنم کی دہکتی ہوئی آگ میں ڈالے جائیں گے اور کھولتا ہواپانی پینے کو اور اذیت ناک چیزیں کھانے کو دی جائیں گی جن سے نہ تو بھوک ہی ختم ہوگی اور نہ بدن کی تعمیر کا کام کریں۔ شریعت حقا کے خلاف مجاہدے دنیا میں مشقت اور آخرت میں عذاب کی ذلت کا سبب ہیں۔ یعنی غذا بھی ایک صورت عذاب ہی کی ہوگی مراد کفار ہیں جو زندگی بھر مشقت اٹھا کر دنیاحاصل کرتے ہیں اور آخرصرف تباہی نصیب ہوتی ہے یا وہ عبادت گزار جوگی ، راہب ، اور آتش پرست وغیرہ سب باطل فرقوں میں لوگ کمالات حاصل کرنے کے لیے بہت سخت مشقت کرتے ہیں کہ ان کے چہرے اور حلیے تک بگڑجاتے ہیں اور وہ نام نہاد مسلمان بھی جو تسخیرجنات یاحصول دولت وشہرت کے لیے مبہم کلاموں اور ناجائز باتوں کے چلے کاٹتے رہتے ہیں انجام کار سب تباہی سے دوچار ہوں گے۔ العیاذ باللہ۔ اور اسی روز کتنے چہروں سے مسرت پھوٹی پڑتی ہوگی کہ ان کی محنت ٹھکانے لگی ، اتباع شریعت میں جس مشقت کو انہوں نے جھیلا ، اب اس پر عطا کا وقت آیا وہ اعلی درجے کے باغوں میں ہوں گے جہاں خلاف مزاج کچھ نہ پائیں گے کہ کوئی زبان تک ان کے مزاج کے خلاف نہ کھولے گا اور ان کے شاندار بلند تخت بچھے ہوں گے اور خوبصورت برتن سجے ہوں گے اور برابر آرام دہ بستر لگے ہوں گے اور ہر طرف قیمتی قالین بچھے ہوں گے۔ ذرامنکرین قیامت اونٹ ہی کو دیکھ لیں کہ کیسی عجیب تخلیق ہے اتنا طاقتور جانور ایک بچہ لیے لیے پھرتا ہے کام سب سے زیادہ کرتا ہے اور غذا کا بوجھ نہیں کہ جھاڑ جھنکار کھاکر پیٹ بھرلیتا ہے ہفتوں بغیر پانی کے گزارتا ہے اور بوجھ اٹھا کر ساری ساری رات چلتا ہے پھر گوشت اور چمڑا مہیا کرتا ہے دودھ پلاتا ہے یا آسمان کو دیکھ لیں کیسی عجیب چھت ہے اور کتنے بےحساب فوائد کے حامل یا پہاڑوں کو دیکھ لیں کیسے گڑے ہوئے ہیں اور کس قدر اسباب حیات بانٹ رہے ہیں اور زمین ہی کو دیکھ لیں جو بچھونا بنادی گئی کہ زندگی کی تمام راحتیں لیے ہوئے مسلسل لٹائے جارہی ہے۔ مبلغ۔ مبلغ میں یہ چار صفات ہوناچاہئیں کہ اونٹ کی طرح کام بغیر تھکن کے کرے اور روکھی سوھی جو مل جائے اس پر بسر کرے آسمان کی طرح بلند ہمت ، چٹانوں کی طرح پختہ قدم اور زمین کی طرح نیاز کبیش ہو ، تکبر نام کونہ ہو اور اس کا ہر حال بندگان الٰہی کے لیے سراسر فائدہ مند ہو کہ مظلوم کی مدد ظلم سے نجات دلا کر اور ظالم کی مدد ظلم سے روک کرکے۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نصیحت فرمائیے کہ آپ کا کام اور فریضہ نصیحت فرمانا ہے آپ نے کسی سے زور زبردستی منوانا نہیں بلکہ یہ اللہ کا کام ہے جو آپ کے دین اور آپ کے ارشادات سے منہ موڑے گا اور کفر اختیار کرے گا اللہ اسے بہت بڑا عذاب دے گا بیشک انہیں لوگوں کو ہمارے حضور ہی پیش ہونا ہے اور ہم ہی ان کا محاسبہ کریں گے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن۔ الغاشیۃ۔ ڈھانپ لینے والی ( قیامت) ۔ عین انیۃ۔ کھولتا چشمہ۔ ضریع۔ کانٹے والی گھاس۔ لا یسمن۔ نہ موٹا کرے گا۔ ناعمۃ۔ تروتازہ۔ نمارق۔ گائو تکیے، موٹے گدے۔ زرابی۔ گدے۔ مبثوثۃ۔ بکھرے ہوئے۔ پھیلے ہوئے۔ الابل۔ اونٹ۔ خلقت۔ بنایا گیا۔ پیدا کیا گیا۔ رفعت۔ بلند کیا گیا۔ نصبت۔ جما دیا گیا۔ سطحت ۔ بچھائی گئی۔ مصیطر۔ مسلط ہونے والا۔ حاکم۔ ایاب۔ پلٹنا۔ تشریح : قرآن کریم میں قیامت کے بہت سے نام آتے ہیں۔ ان ہی میں سے ایک نام ” غاشیہ “ بھی ہے۔ غاشیہ کے معنی چھپالینے، چھا جانے اور ہوش و حواش اڑا دینے والی کے آتے ہیں یعنی ایک ایسی اچانک آفت جو نظام کائنات کو درہم برہم کرکے ہر چیز کو اپنے اندر چھپا لیگی اور سب کے ہوش و حواش اڑا کر رکھ دے گی۔ اس کی اہمیت اور ہولناکی کو واضح کرنے اور ذہنوں کو پوری طرح متوجہ کرنے کے لئے ایک سوالیہ انداز اختیار کرتے ہوئے اللہ نے پوچھا ہے۔ کیا تمہیں معلوم ہے وہ چھا جانے والی چیز کیا ہوگی ؟ خود ہی جواب عنایت فرماتے ہوئے ارشاد ہے کہ اس دن تمام لوگوں کو ان کے اعمال کے مطابق دو گروہوں میں تقسیم کردیا جائے گا۔ ایک گروہ ان نافرمانوں کا ہوگا جنہوں نے زندگی گناہ، کفر اور شرک میں گزاری ہوگی ان کا یہ حال ہوگا کہ انہیں اللہ کے عذاب، اپنے اعمال اور انجام کو دیکھ کر سخت مایوسی ہوگی، چہروں پر تھکن، محنت اور مشقت کے آثار نمایاں ہوں گے۔ جب وہ بھوک پیاس سے تڑپ اٹھیں گے تو ان کو پینے کے لئے کھولتے ہوئے شرم چشمے کا پانی پلایا جائے گا جو ان کی آنتوں کو کاٹ کر رکھ دے گا اور کھانے کے لئے ان کو ” ضریع “ دیا جائے گا۔ عرب میں ضریع ایک ایسا پھل ہوتا ہے جسے قریش مکہ ” شبرق “ کہا کرتے ہیں۔ وہ ایلوے کی طرح انتہائی کڑوا اور زہریلا ہوتا تھ اور جب وہ خشک ہوجاتو تو اس کڑوے، کسیلے اور بدبو دار پھل کو جانور بھیمنہ لگانا پسند نہ کرتے تھے۔ فرمایا کہ اتنا زہریلا، کڑوا اور قابل نفرت پھل ان کو غذا کے طور پر دیا جائے گا۔ قرآن کریم میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جہنم کی آگ میں ایک ایسا پھل تیار ہوگا، جس کو ” زقوم “ کہا جات ا ہے۔ اسی طرح ان جہنمیوں کی غذا غسلین (زخموں کا دھو ون) بھی ہوگا۔ علماء مفسرین نے فرمایا ہے کہ ممکن ہے جہنم میں چھوٹے بڑے مجرموں کے الگ الگ مقامات ہوں اور ان میں سی کسی کو ضریع کسی کو زقوم اور کسی کو غسلین دیا جائے گا۔ بہرحال اس کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ غذا جس کا مقصد یہ ہے کہ اس سے آدمی کی بھوک مٹے اور قوت آئے۔ لیکن یہ ایسی غذا ہوگی جس سے نہ اس کے بدن کو قوت و طاقت ملے گی اور نہ توانائی میسر آئے گی۔ ایک طرف تو یہ جہنمی بری طرح تکلیفیں اٹھا رہے ہوں گے اور دوسری طرف ایک اور گروہ ہوگا جو ہر طرح کے عیش و آرام اور شاہانہ ٹھاٹھ باٹ حاصل کرکے خوشی اور مسرت کا اظہار کر رہا ہوگا۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے زندگی بھر اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت و فرماں برداری کی ہوگی۔ جنہوں نے اپنی نفسانی خواہشات کو چھوڑ کر ایمان، تقویٰ ، پرہیز گاری اور خیر و فلاح کا راستہ منتخب کیا ہوگا۔ وہ آخرت میں اپنے اعمال کے بہترین نتائج سے انتہائی خوش و خرم ہوں گے۔ خوشی ان کے چہروں سے ٹپک رہی ہوگی۔ ان کو شاہانہ انداز سے ہر طرح کی نعمتیں عطا کی جائیں گی۔ عالی شان اور خوبصورت جنتیں جہاں سلامتی ہی سلامتی ہوگی کسی طرف سے لغو، فضول اور ایسی باتیں نہ سنیں گے جو انہیں ناگوار ہوں۔ ہر طرف بہتے ہوئے پانی کے جھرنے اور چشمے، نرم بچھونے، ایسے اونچے اور بلند تخت جن پر چڑھنا اترنا آسان ہوگا۔ برابر برابر بچے ہوئے قالین اور گائو تکیے، مخمل کی مسندیں اور شراب سے بھرے ہوئے ساغر و جام جو چیز چاہیں گے وہ ان کو ایک اشارے میں مل جائے گی۔ غرضیکہ یہ گروہ ہر طرح کے عیش و آرام اور من پسند جنت میں ہوگا۔ فرمایا کہ یہ تمام باتیں انسان کو غوروفکر کی دعوت دیتی ہیں جو لوگ اس دنیا کے فائدوں میں لگے رہتے ہیں ان کا برا انجام ہے لیکن جنہیں آخرت کی فکر ہوتی ہے وہ اپنے بہترین انجام تک پہنچیں گے۔ آخر میں فرمایا کہ اللہ کا یہ نظام ہے جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ اگر وہ ہماری مخلوق میں غور کرلیں تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ اس پوری کائنات میں اللہ نے بیشمار نشانیاں بکھیر رکھی ہیں جو لوگ ان پر غور وفکر کرتے ہیں وہ کامیاب ہوتے ہیں اور جو پوری زندگی غفلت میں گزار دیتے ہیں ان کے حصے مین سوائے ناکامویں اور نامرادیوں کے اور کچھ بھی نہیں آتا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوقات میں سے چار چیزوں کو آدمی کے سامنے رکھ کر یہ پوچھا ہے کہ ذرا ان پر غور کرکے بتائو کہ جو اللہ ان تمام چیزوں کو پیدا کرکے مخلوق کے فائدے کیلئے ان میں ہزاروں صلاحتیں پیدا کرسکتا ہے وہ آدمی کو ایک مرتبہ پیدا کرکے دوسری مرتبہ پیدا کیوں نہیں کرسکتا ؟ وہ ظالموں کو جہنم میں اور ایمان والوں کو جنت کی راحتوں سے ہم کنار کیوں نہیں کرسکتا ؟ فرمایا کہ اونٹ، آسمان، پہاڑ اور زمین اللہ کی نشانیوں میں سے نشانیاں ہیں جن سے تم دن رات ہزاروں فائدے حاصل کرتے ہو۔ اونٹ جس کو صحرا کا جہاز کہا جاتا ہے اپنے اندر کسی قدر خصوصیات رکھتا ہے۔ وہ عربوں کے نزدیک انتہائی قیمتی چیز تھی جس سے وہ بہت محبت کرتے تھے فرمایا کہ ایک طرف تو اس کی شکل صورت، بدن اور انداز کو دیکھو کہ کس طرح لمبا چوڑا بےہنگم سا لگتا ہے لیکن اس میں جو اللہ نے عظمتیں رکھ دی ہیں وہ اس قدر زیاد ہیں کہ ان کو شمار کرتے کرتے آدمی تھک جائے۔ مثلاً اس کے دودھ، گوشت، کھال اور چمڑے سے تم ہزاروں فائدے حاصل کرتے ہو۔ اس میں صبرو قناعت انتہا درجہ کی ہے۔ صبر تو ایسا کہ اس پر کتنا ہی بوجھ لاد کر ہنکا دو تو وہ شکوہ نہیں کرتا۔ ایک بچہ بھی ایک اونٹ کی مہار پکڑ کرلے چلے تو وہ گردن جھکا کر چلنے لگتا ہے۔ جب اس کو بیٹھنے کا اشارہ کیا جاتا ہے تو وہ اس طرح بیٹھ جاتا ہے کہ اس پر چڑھنا آسان ہوتا ہے۔ چلنے کیلئے کہا جائے تو صحراؤں کو عبور کرکے ہفتوں چلتا رہتا ہے۔ ایک ہفتہ تک اس کو کھانا نہ دیا جائے پانی نہ پلایا جائے تو وہ اپنے ملاک کی وفاداری میں کئی کئی دن تک بھوکا رہتا ہے مگر اف تک نہیں کرتا۔ فرمایا کہ کبھی تم نے اس بات پر غور کیا کہ اتنے بڑے ڈیل ڈول کے بےڈھنگے سے جانور کو کس نے تمہارے تابع کردیا ہے ؟ یقینا اللہ نے اس کو انسان کے لئے مسخر کردیا ہے۔ اللہ کی دوسری نشانی آسمان ہے۔ فرمایا کہ کبھی تم نے غور کیا کہ اتنا بڑا آسمان جو بغیر کسی سہارے اور ستون کے تمہارے سروں پر چھت کی طرح تان دیا گیا ہے۔ چاند، سورج اور ستاروں سے اس کو ایک خاص رونق عطا کی گئی ہے اور انسانی ضروریات کو ان کے متعلق کردیا ہے۔ تیسری نشانی پہاڑوں کی طرف دیکھنے کے لئے فرمایا کہ دیکھو پہاڑ کس طرح جمے کھڑے ہیں۔ اللہ کے حکم سے زمین کو اور اس کے زلزلوں کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ ان کے سینے میں ہزاروں مع دنیات دفن ہیں۔ بہترین پتھر، ہیرے، جواہرات، سونا، چاندی ہزاروں قسم کی جڑی بوٹیاں، بہترین لکڑی۔ انسان کی جیسی ضرورت ہوتی ہے وہ ان میں سے اپنی ضرورت کی چیزیں نکالتا رہتا ہے۔ بتایا یہ گیا ہے کہ آخر وہ کون سی ذات ہے جس نے پہاڑوں کو یہ عظمت ، جمائو، شان اور ہزاروں مع دنیات کا امین بنایا ہے یقینا یہ سب اللہ کی قدرت سے ہی ممکن ہوا اور اللہ نے ان تمام چیزوں کے فائدے انسان کے لئے پہاڑوں میں رکھ دئیے ہیں۔ چوتھی نشانی زمین ہے وہ ایک شفیق و مہربان ماں کی طرح ہے جو اللہ کے منکرین اور اللہ کو ماننے والے سارے انسانوں کو اپنی گود میں لئے ہوئے ہے اور ہر ایک کو اپنے وجود سے پوری طرح فائدے اٹھانے دیتی ہے۔ نرم اتنی کہا ایک بچہ بھی اس کو کھود سکتا ہے اور مضبوط اس قدر کہ بڑی سے بڑی عمارت کو اپنے اوپر لئے کھڑی ہے۔ ہر طرح کی انسانی غذائیں اور دوسری مخلوق کے لئے غذائیں مہیا کرتی ہے۔ اس کے سینے میں بھی تیل، گیس ، کوئلہ، پانی کی نہریں اور انسانی زندگی کر ہر سامان موجود ہے۔ فرمایا کہ زمین ہو یا آسمان، اونٹ ہو یا پہاڑ یہ سب اللہ نے اپنی قدرت سے پیدا کئے ہیں جن سے انسان فائدے حاصل کرتا ہے مگر یہ نہیں سوچتا کہ اگر اللہ ان کے اندر یہ خصوصیات نہ رکھتا تو کیا انسان اپنا وجود برقرار رکھ سکتا تھا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ تمام لوگوں کو ان ساری حقیقتوں کو سمجھاتے رہیے اور اسلام کے نظریہ حیات کو پیش کرتے رہیے۔ نظریہ زندگی کو پھیلانے میں کسی زور و زبردستی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہی آپ کا کام ہے کہ آپ دین کی سچائیوں کو پہنچانے کی جدوجہد کرتے رہیے۔ ان سب کو ہماری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے جو لوگ سزا کے مستحق ہوں گے انکو سخت سزا دی جائے گی ہم خود ہی سب کو حساب لے لیں گے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط سورت : الاعلیٰ کے آخر میں اچھے اور برے انجام کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ آخرت ہر اعتبار سے بہتر اور ہمیشہ رہنے والی ہے اس کا ذکر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے صحائف میں بھی موجود ہے۔ الغاشیہ میں برے لوگوں کی سزا اور نیک لوگوں کی جزا کا ذکر کیا گیا ہے۔ الغاشیہ کا معنٰی ہے ہر طرف سے لوگوں کو ڈھانپ لینے والی۔ قیامت کی ہولناکیاں اور اس کے اثرات اس قدرہمہ گیر ہوں گے کہ جاندار تو درکنار زمین و آسمانوں کی کوئی چیز بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گی۔ قیامت کی ہمہ گیر شدّت اور ہولناکیوں کو واضح کرنے کے لیے فرمایا ہے کہ کیا آپ کے پاس ہر چیز پر چھا جانے والی کی خبر پہنچی ہے ؟ اس دن مجرموں کے چہرے ذلیل ہوں گے اور وہ اپنی محنت کی وجہ سے انتہائی تھکے ماندے دکھائی دیں گے۔ انہیں جہنم کی دہکتی ہوئی آگ میں جھونک دیا جائے گا اور ان کو انتہا درجے کا کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا، ان کے لیے کانٹے دار جھاڑیوں کے سوا کوئی کھانا نہیں ہوگا۔ جس سے نہ وہ موٹے ہوں گے اور نا ہی ان کی بھوک میں کچھ کمی آئے گی۔ ” عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ“ کے مفسرین نے کئی مفہوم بیان کیے ہیں۔ 1 ۔ یہ لوگ دنیا میں بہت زیادہ محنت کے ساتھ نیک اعمال کرتے رہے مگر شرک و بدعت میں مبتلا ہونے کی وجہ سے ان کے تمام اعمال غارت ہوجائیں گے۔ 2 ۔ یہ لوگ اپنے اعمال کا انجام دیکھیں گے تو ان کی مایوسی اور تھکاوٹ اس قدر بڑھ جائے گی کہ دیکھنے والا انہیں یوں محسوس کرے گا جسے ان کی ابھی جان نکل جائے گی۔ 3 ۔ جہنم کی بلاؤں اور سزاؤں کی وجہ سے ان کے جسم چکنا چور دکھائی دیں گے۔ (عَنْ حُذَیْفَۃَ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ لاَ یَقْبَلُ اللَّہُ لِصَاحِبِ بِدْعَۃٍ صَوْمًا وَلاَ صَلاَۃً وَلاَ صَدَقَۃً وَلاَ حَجًّا وَلاَ عُمْرَۃً وَلاَ جِہَادًا وَلاَ صَرْفًا وَلاَ عَدْلاً یَخْرُجُ مِنَ الإِسْلاَمِ کَمَا تَخْرُجُ الشَّعَرَۃُ مِنَ الْعَجِینِ ) (رواہ ابن ماجہ : باب اجْتِنَابِ الْبِدَعِ وَالْجَدَلِ ) ” حضرت حذیفہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ بدعتی کا روزہ، نماز، حج، عمرہ، جہاد، اور کوئی چھوٹی بڑی نیکی قبول نہیں کرتا، ایسا شخص اسلام سے اس طرح نکل جاتا ہے جیسے گوندھے ہوئے آٹے سے بال نکل جاتا ہے۔ “ (وَقَدِمْنَآ اِِلٰی مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰہُ ہَبَآءً مَّنْثُورًا) (الفرقان : ٢٣) ” اور جو کچھ بھی ان کا کیا دھرا ہے اسے ہم ذرّات کی طرح اڑادیں گے۔ “ مسائل ١۔ قیامت کی ہولناکیاں ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہوں گی۔ ٢۔ قیامت کے دن مجرموں کے چہرے تھکے ہوئے اور انتہائی ذلیل ہوں گے۔ ٣۔ مجرم انتہائی تھکے ماندے ہوں گے۔ ٤۔ جہنمی کو پینے کے لیے جہنم کا کھولتا ہوا پانی اور کھانے کے لیے خاردار جھاڑیاں دی جائیں گی۔ ٥۔ جہنم کی خوراک نہ ان کی بھوک ختم کرے گی اور نہ وہ موٹے تازے ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن جہنمی کا خوردو نوش : ١۔ کانٹے دار جھاڑیوں کا کھانادیا جائے گا۔ (الغاشیہ : ٦) ٢۔ کھانا گلے میں اٹک جائے گا۔ (المزمل : ١٣) ٣۔ دوزخیوں کو کھولتا ہوا پانی دیا جائے گا۔ (الانعام : ٧٠) ٤۔ دوزخیوں کو پیپ پلائی جائے گی۔ (عم : ٢٥) ٥۔ آنتوں اور کھالوں کو بار بار بدلہ جائے گا۔ (النساء : ٥٦) ٦۔ جہنمی کی کھال بار بار بدلی جائے گی۔ (الحج : ٢٠) ٧۔ انہیں آگ کا لباس پہنایا جائے گا۔ (الحج : ١٩) ٨۔ لوہے کے ہتھوڑوں سے سزا دی جائے گی۔ (الحج : ٢١، ٢٢) ١٠۔ دوزخیوں کو کھولتا ہوا پانی دیا جائے گا۔ (الانعام : ٧٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ھل اتک .................... الغاشیة ” اس آغاز کے ذریعہ یہ سورت دلوں کو اللہ کی طرف متوجہ کرتی ہے اور اس کائنات میں جو نشانات الٰہیہ موجود ہیں ان کی طرف متوجہ کرتی ہے اور یہ بتاتای ہے کہ انسان نے قیامت میں حساب دینا ہے اور جزاء وسزا سے دوچار ہونا ہے۔ اور یہ یقینی امر ہے۔ استفہامی تاکیدی یا تقریری کے ذریعہ اس بات کو نہایت تاکید سے بیان کیا جاتا ہے۔ اس استفہامی انداز میں یہ اشارہ بھی ہے کہ اس سورت سے قبل اس امر کی بار بار تاکید اور تذکیر کی گئی ہے۔ اس لئے یہاں قیامت کو ایک نیا نام دیا گیا ہے۔ الغاشیہ (چھاجانے والی) یعنی ایک ایسی مصیبت جس کی ہولناکیاں لوگوں پر چھاجائیں گی۔ یہ ایک نیا نام ہے لیکن اس نام کے ذریعہ قیامت کی خوفناکی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس بارے میں قیامت کے لئے کئی نام آئے ہیں۔ الطامہ ، الصاخہ ، الغاشیہ اور القارعہ اور یہ سب نام اسی پارے کے مضامین کے ساتھ مناسب ہیں۔ یہ سوال کہ کیا غاشیہ کی کچھ خبریں آپ کو ملی ہیں ، تو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ سمجھتے تھے کہ سب سے پہلے یہ سوال ان سے کیا گیا ہے۔ جب بھی حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سورت کو پڑھتے یا سنتے تو یوں محسوس ہوتا کہ شاید حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے پہلی مرتبہ سنا ہے اور ابھی یہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہورہی ہے۔ آپ اللہ کے اس خطاب کو سن کر چوکنے ہوجاتے اور یہ خیال کرتے کہ یہ اللہ کا خطاب ہے ، اور آپ کے احساسات یہ ہوتے کہ ابھی یہ خطاب انہوں نے پایا اور سنا۔ ابن ابوحاتم روایت کرتے ہیں ابن محمد طنافسی سے ، وہ ابوبکر ابن عباس سے ، وہ ابواسحاق سے ، وہ عمر ابن میمون سے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک عورت کے پاس سے گزرے جو پڑھ رہی تھی۔ ھل اتک .................... الغاشیة (1:88) ” کیا آپ تک الغاشیہ کی بات پہنچی ہے ؟ “ تو آپ کھڑے ہوگئے اور آپ نے فرمایا ” ہاں میرے پاس بات آئی ہے “۔ اس کے باوجود خطاب ہر اس شخص کو ہے جو قرآن مجید سنتا ہے یا پڑھتا ہے کیونکہ الغاشیہ کی بات قرآن کی بات ہے جو بار بار قیامت کا ذکر کرتا ہے۔ قرآن کریم قیامت کی یاد دہانی کرا کے لوگوں کو ڈراتا ہے اور خوشخبری دیتا ہے اور ڈرنے والے حساس اور متقی دلوں کے اندر عمل اور احتیاط کے کذبات ابھارتا ہے۔ ڈر اور احتیاط کے ساتھ ساتھ قرآن مجید امید اور فلاح کا انتظار بھی سکھاتا ہے تاکہ انسانی ضمیر غافل ہو کر مرہی نہ جائے۔ اور یہ کہنے کے بعد ، کہ ” کیا تمہیں اس چھاجانے والی آفت کی خبر پہنچی ؟ “ اس خبر کی ہیڈ لائن دی جاتی ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

یہاں سے سورة الغاشیہ شروع ہو رہی ہے۔ الغاشیہ سے قیامت مراد ہے جو غشہ غشی سے اسم فاعل کا صیغہ ہے۔ قرآن مجید میں قیامت کو بہت سے ناموں سے موسوم فرمایا ہے جن میں ایک نام الغاشیہ بھی ہے، اس کا معنی ہے ” ڈھانک دینے والی “ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ قیامت کو الغاشیہ اس لیے فرمایا کہ وہ لوگوں پر اپنی سختیوں کے ساتھ چھا جائے گی اور اس کے دل ہلا دینے والے احوال و اھوال (یعنی خوف زدہ کردینے والے حالات ہر طرف سے گھیر لیں گے) ۔ ﴿ هَلْ اَتٰىكَ حَدِيْثُ الْغَاشِيَةِؕ٠٠١﴾ میں جو لفظ ھَلْ ہے اس کے بارے میں بعض حضرات نے فرمایا کہ قد کے معنی میں ہے مطلب یہ ہے کہ آپ کے پاس قیامت کی خبر آچکی ہے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ ھل اپنے معروف معنی میں ہے یعنی استفہام کے لیے لایا گیا ہے اور یہ استفہام تشویش کے لیے ہے پہلے استفہام سے شوق دلا دیا تاکہ سننے والا آئندہ بیان ہونے والے مضامین کو دھیان سے سنے پھر وہاں کے احوال بیان فرمائے ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

2:۔ ” ھل اتاک “ ھل بمعنی قد ہے یا استفہام تقریر ہے۔ دونوں کا حاصل یہ ہے کہ آپ کو الغاشیہ کا حال اس سے پہلے معلوم ہوچکا ہے۔ یا استفہام اپنے اصل پر ہے اور اس سے پہلے آپ کو غاشیہ کا علم نہیں تھا اور استفہام سے مقصود تعجیب و تشویق ہے۔ گویا اس سوال کے جواب میں عرض کیا گیا الغاشیہ کی خبر مجھے معلوم نہیں، وہ کیا ہے تو کہا گیا وجوہ الخ۔ ” الغاشیہ “ سے قیامت مراد ہے جو اپنے شدائد و اہوال کی وجہ سے سب پر حاوی ہوگی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(1) اے پیغمبر کیا آپ کو اس عام طور پر ڈھانک لینے والی مصیبت کی خبر پہنچی ہے غاشیہ ایک ایسے واہیہ اور واقعہ ہائلہ کو کہتے ہیں جس کا اثر عام اور محیط ہو مراد اس سے قیامت ہے استفہام بغوض اہتمام ہے کہ وہ چیز نہایت اہم ہے آگے اس کی تفصیل ہے۔ غاشیہ اس آگ کو بھی کہتے ہیں جو منکروں کے منھوں کو ڈھانک لے گی ہوسکتا ہے کہ اس غاشیہ سے مراد اہل دوزخ ہوں جن کی کثرت اور جن کا اژدہام دوزخ کو ڈھانک لے گا پہلا قول زیادہ صحیح اور راجح ہے۔