Surat ul Ghashiya
Surah: 88
Verse: 18
سورة الغاشية
وَ اِلَی السَّمَآءِ کَیۡفَ رُفِعَتۡ ﴿ٝ۱۸﴾
And at the sky - how it is raised?
اور آسمان کو کہ کس طرح اونچا کیا گیا ہے ۔
وَ اِلَی السَّمَآءِ کَیۡفَ رُفِعَتۡ ﴿ٝ۱۸﴾
And at the sky - how it is raised?
اور آسمان کو کہ کس طرح اونچا کیا گیا ہے ۔
And at the heaven, how it is raised. Shurayh Al-Qadi used to say, "Come out with us so that we may look at the camels and how they were created, and at the sky and how it has been raised." Meaning, how Allah raised it in such magnificence above the ground. This is as Allah says, أَفَلَمْ يَنظُرُواْ إِلَى السَّمَأءِ فَوْقَهُمْ كَيْفَ بَنَيْنَـهَا وَزَيَّنَّـهَا وَمَا لَهَا مِن فُرُوجٍ Have they not looked at the heaven above them, how we have made it and adorned it and there are no rifts on it? (50:6) Then Allah says, وَإِلَى الْجِبَالِ كَيْفَ نُصِبَتْ
18۔ 1 یعنی آسمان کتنی بلندی پر ہے پانچ سو سال کی مسافت پر پھیر بھی بغیر ستون کے وہ کھڑا ہے اس میں کوئی شگاف اور کجی نہیں نیز ہم نے اسے ستاروں سے مزین کیا ہوا ہے۔
وَاِلَى السَّمَاۗءِ كَيْفَ رُفِعَتْ ١٨ ۪ سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ كيف كَيْفَ : لفظ يسأل به عمّا يصحّ أن يقال فيه : شبيه وغیر شبيه، كالأبيض والأسود، والصحیح والسّقيم، ولهذا لا يصحّ أن يقال في اللہ عزّ وجلّ : كيف، وقد يعبّر بِكَيْفَ عن المسئول عنه كالأسود والأبيض، فإنّا نسمّيه كيف، وكلّ ما أخبر اللہ تعالیٰ بلفظة كَيْفَ عن نفسه فهو استخبار علی طریق التنبيه للمخاطب، أو توبیخا نحو : كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] ، كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] ، كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] ، انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] ، فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] ، أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] . ( ک ی ف ) کیف ( اسم استفہام ) اس چیز کی حالت در یافت کرنے کے لئے آتا ہے جس پر کہ شیبہ اور غیر شیبہ کا لفظ بولا جاسکتا ہو جیسے ابیض ( سفید اسود ( سیاہی ) صحیح ( تندرست ) سقیم ( بیمار ) وغیرہ ۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا استعمال جائز نہیں ہے اور کبھی اس چیز پر بھی کیف کا اطلاق کردیتے ہیں جس کے متعلق سوال کر نا ہو مثلا کہا جاتا ہے کہ اسود اور ابیض مقولہ کیف سے ہیں اور جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق کیف کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ تنبیہ یا قو بیخ کے طور پر مخاطب سے استخبار کے لئے لایا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] کافرو تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو ۔ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] خدا ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے ۔ كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] بھلا مشرکوں کے لئے کیونکر قائم رہ سکتا ہے ۔ انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] دیکھو انہوں نے کس کس طرح کی تمہارے بارے میں باتیں بنائیں ۔ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی مر تبہ پیدا کیا ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا کسی طرح خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا پھر کس طرح اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے ۔ رفع الرَّفْعُ في الأجسام الموضوعة إذا أعلیتها عن مقرّها، نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 93] ، قال تعالی: اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّماواتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد/ 2] ( ر ف ع ) الرفع ( ف ) کے معنی اٹھانے اور بلند کرنے کے ہیں یہ مادی چیز جو اپنی جگہ پر پڑی ہوئی ہو اسے اس کی جگہ سے اٹھا کر بلند کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 93] اور ہم نے طو ر پہاڑ کو تمہارے اوپر لاکر کھڑا کیا ۔ اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّماواتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد/ 2] وہ قادر مطلق ہے جس نے آسمان کو بدوں کسی سہارے کے اونچا بناکر کھڑا کیا ۔
آیت ١٨{ وَاِلَی السَّمَآئِ کَیْفَ رُفِعَتْ ۔ } ” اور (کیا یہ دیکھتے نہیں) آسمان کو کہ کیسے بلند کیا گیا ہے ! “ یہ ماہرین فلکیات کے لیے صلائے عام ہے کہ وہ اس میدان میں تحقیق کر کے ستاروں اور کہکشائوں کی دنیا کے اسرار و رموز معلوم کریں۔
(88:18) والی السماء کیف رفعت جملہ کا عطف جملہ سابقہ پر ہے۔ (پھر کیا) وہ آسمانوں کو (نہیں دیکھتے کہ) کس طرح ان کو بلند کیا گیا ہے (فلکیات کا سارا نظام اس میں آگیا ہے)
ف 11 کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے معلق کھڑا ہے اور اس کا کوئی ستون تک نظر نہیں آتا۔
والی السماء کیف رفعت (18:88) ” اور آسمان کو نہیں دیکھتے کہ کیسے اٹھایا گیا “۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے کہ آسمانوں کی طرف غور کی نگاہ سے دیکھیں اور صحرا کے باشندوں کو تو بہت زیادہ آسمان کی طرف دیکھنا چاہئے اور غور کرنا چاہئے ، جہاں کے باشندے ہر وقت آسمان کے ساتھ ایک پر لطف ذوق اور اشارات رکھتے ہیں گویا آسمان تو ہے ہی ان کے لئے۔ اور آسمان ہوتا ہی صحراﺅں پر ہے۔ آسمان اپنی تما رعنائیوں کے ساتھ صحرا کے اوپر موجود ہے۔ اس کے روشن اور کھلے دن ، آسمان کا ساحرانہ خوبصورت وقت زوال آفات غروب آفات کا منفرد ، جس میں جہان معانی پوشیدہ ہوتا ہے ، آسمان اپنی وسیع راتوں کے ساتھ ، اور اپنے چمکدار ستاروں اور خوبصورت کہانیوں کے ساتھ اور پھر اس کے خوبصورت اور روشن طلوع کے مناظر کے ساتھ تمہارے سامنے موجود ہے۔ یہ آسمان اور صحراﺅں کی وسعتوں کے اوپر ، کیا یہ لوگ اس کی طرف نہیں دیکھتے ، کہ اسے کس طرح بلند کھڑا کیا گیا ہے۔ بغیر ستونوں کے یہ رفعتیں کس طرح قائم ہیں ؟ اس کے اندر اربوں کھربوں ستارے بکھیر دیئے گئے ہیں اور اس کے اندر اس قدر خوبصورتی ، اس قدر حسن اور اس قدر اشارات رکھ دیئے گئے ہیں۔ نہ انسانوں نے اسے بلند کیا اور نہ یہ خود بخود بلند ہوگیا۔ لہٰذا اسے یوں بلند کھڑا کرنے والا ضرور ہے ، جس نے اسے وجود بخشا۔ یہ مشاہدہ ایسا ہے اور یہ غور وفکر ایسا ہے جس کے لئے کسی وسیع اور گہرے علم کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف ایک بصیرت والی نظر کی ضرورت ہے۔
9:۔ ” والی السماء “ یہ ” اکواب موضوعۃ “ کا نمونہ ہے جس طرح آسمان اونچا ہے اور اس پر تارے اونچے رکھے ہیں اسی طرح پیالیاں اونچی رکھی ہوں گی۔ ” والی الجبال کیف نصبت “ یہ ” نمارق مصفوفۃ “ کا نمونہ ہے جس طرح دنیا میں زمین پر پہاڑوں کا سلسلہ قائم ہے اسی طرح جنت میں سلیقہ کے ساتھ تکیے قطار میں لگے ہوں گے۔ ” والی الارض کیف سطحت “ یہ ” زرابی مبثوثۃ “ کا نمونہ ہے جس طرح زمین بچھونے کی طرح بچھی ہوئی ہے اسی طرح جنت میں ہر طرف دریاں اور فروش بچھے ہوں گے۔