Surat ul Ghashiya
Surah: 88
Verse: 2
سورة الغاشية
وُجُوۡہٌ یَّوۡمَئِذٍ خَاشِعَۃٌ ۙ﴿۲﴾
[Some] faces, that Day, will be humbled,
اس دن بہت سے چہرے ذلیل ہونگے ۔
وُجُوۡہٌ یَّوۡمَئِذٍ خَاشِعَۃٌ ۙ﴿۲﴾
[Some] faces, that Day, will be humbled,
اس دن بہت سے چہرے ذلیل ہونگے ۔
Some faces that Day will be Khashi`ah. meaning, humiliated. This was said by Qatadah. Ibn `Abbas said, "They will be humble but this action will be of no benefit to them." Then Allah says, عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌ
4۔ 1 یعنی کافروں کے چہرے، خاشعۃ جھکے ہوئے، پست اور ذلیل، جیسے نمازی، نماز کی حالت میں عاجزی سے جھکا ہوتا ہے۔
[٢] اس دن تمام مخلوق دو گروہوں میں بٹ جائے گی۔ ایک وہ جو اس دنیا میں اللہ کے فرمانبردار بن کر رہے۔ اور دوسرے وہ جو نافرمان اور باغی ہوں گے۔ نافرمان لوگوں کا پہلے ذکر فرمایا چونکہ ان لوگوں کو اپنی کرتوتوں کا علم ہوگا۔ لہذا اعمال نامے دیئے جانے اور حساب کتاب اور فیصلہ سے پہلے ہی ان کے چہرے اترے ہوئے اور خوفزدہ ہوں گے کیونکہ انہیں اپنا انجام نظر آ رہا ہوگا۔
Commentary وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ خَاشِعَةٌ عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌ (Many faces on that day will be humbled, working hard, exhausted...88:3). On the Day of Judgment, there will be two separate groups of people, believers and unbelievers, and their faces will be different. This verse describes the faces of the unbelievers. They will be downcast. The word khashi` ah from the root word khusha& means to humble, humiliate, cast down&. This is the meaning of casting oneself down before Allah in prayer. People who did not cast themselves down before Allah in this world, their faces on the Day of Judgement will be downcast with humiliation and disgrace. The other conditions of the unbelievers are amilah and nasibah. The word ` amilah from ` aural means &to work hard& and ` amil or ` amilah in Arabic is used for &a person who works continuously, so as to become completely tired&. The word nasibah is derived from nasab. This word also refers to &one who toils unceasingly so as to become totally exhausted&. It seems that the latter two conditions of the unbelievers relate to this world, because Hereafter is not a realm in which one has to work to become so tired and exhausted. Therefore, Qurtubi and other commentators are of the view that the humbleness of their faces relates to the Hereafter, but their working hard and being exhausted refers to their work in this world. Given this interpretation, the sense is that many unbelievers exert themselves in their false rituals, and work hard in their presumed acts of worship in the world, as for instance the Hindu Yogis and many Christian monks do. They endure many difficulties in the devotional acts of worship sincerely in order to seek the good pleasure of Allah, but being on wrong and idolatrous ways, they are not acceptable to, or rewarded by, Allah. Thus their faces show signs of exhaustion in this world; and in the Hereafter they will show signs of disgrace and humiliation. Sayyidna Hasan Basri رحمۃ علیہ reports that when Sayyidna ` Umar (رض) went to Syria, a Christian monk came to him. He was an old man, and on account of his religious exercises and great endeavours, his face was exhausted, his body was dry and his dressing was miserable. When Sayyidna ` Umar (رض) looked at him, he began to weep. People asked him about the cause of his weeping. He replied: |"I pity the condition of this old man. This poor soul worked so hard and showed such readiness to lay down his life to achieve a particular purpose (that is, to gain the pleasure of Allah) but, alas! He could not achieve it”. Then he recited the following verse: وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ خَاشِعَةٌ . عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌ Many faces on that day will be humbled, &working hard, exhausted. [ 88:2-3] &
معارف ومسائل وجوہ یومذ خاشعة عاملة ناصبة قیامت میں دو فریق مومن و کافر الگ الگ ہوجائینگے انکے چہرے الگ الگ پہچانے جائیں گے۔ ان کے چہرے الگ الگ پہچانے جائیں گے۔ اس آیت میں کافروں کے چہروں کا ایک حال یہ بتلایا ہے کہ وہ خاشعہ ہوں گے، خشوع کے معنے جھکنے اور ذلیل ہونے کے ہیں۔ نماز میں خشوع کا یہی مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے مجھکے اور ذلت و پستی کے آثار اپن وجود پر طاری کرے۔ جن لوگوں نے دنیا میں اللہ تعالیٰ کے سامنے خشوع و تذلل اختیار نہیں کیا اس کی سزا ان کو قیامت میں یہ ملے گی کہ وہاں ان کے چہروں پر ذلت اور رسوائی کے آثار نمایاں ہوں گے۔ دوسرا اور تیسرا حال ان کے چہروں کا یہ بیان فرمایا کہ عاملہ، ناصبہ ہوں گے، عاملہ کے لفظی سمعنے عمل اور محنت کرنے والے کے ہیں۔ محاورات میں عامل اور عاملہ اس شخص کے لئے بولا جاتا ہے جو مسلسل عمل اور محنت سے تھکا ماندہ چور ہوگیا ہو اور ناصبہ نصب سے مشتق ہے اس کے معنے بھی تھکنے اور تعب و مشقت میں پڑجانے کے ہیں۔ کفار و مجرمین کے یہ دو حال کہ عمل اور محنت سے تھکے درماندہ ہوں گے ظاہر یہ ہے کہ یہ حال ان کی دنیا کا ہے کیونکہ آخرت میں تو کوئی عمل اور محنت نہیں، اسی لئے قرطبی وغیرہ مفسرین نے اس کا یہ مفہوم قرار دیا ہے کہ پہلا حال یعنی چہروں پر ذلت و رسوائی یہ تو آخرت میں ہوگا اور عاملہ، ناصبہ کے دونوں حال ان لوگوں کے دنیا ہی میں ہوتے ہیں کیونکہ بہت سے کفار فجار مشرکانہ عبادت اور باطل طریقوں میں ماجہدہ و ریاضت دنیا میں کرتے رہتے ہیں۔ ہندوؤں کے جوگی، نصاریٰ کے راہب بہت سے ایسے بھی ہیں جو اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہی کی رضا جوئی کے لئے دنیا میں عبادت و ریاضت کرتے ہیں اور اس میں محنت شاقہ برداشت کرتے ہیں مگر وہ عبادت مشرکانہ اور باطل طریقہ پر ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی اجر وثواب نہیں رکھتی تو ان لوگوں کے چہرے دنیا میں بھی عاملہ ناصبہ رہے اور آخرت میں ان پر ذلت و رسوائی کی سیاہی چھائی ہوگی۔ حضرت حسن بصری (رح) نے روایت کیا ہے کہ حضرت فاروق اعظم جب ملک شام میں تشریف لے گئے تو ایک نصرانی راہب آپ کے پاس آیا جو بوڑھا تھا اور اپنے مذہب کی عبادت و ریاضت اور مجاہدہ و محنت میں لگا ہوا تھا۔ محنت سے اس کا چہرہ بگڑا ہوا، بدن خشک لباس خستہ و بدہیبت تھا، جب فاروق اعظم نے اس کو دیکھ اتو آپ رو پڑے لوگوں نے رونے کا سبب پوچھا تو فاروق اعظم نے فرمایا کہ مجھے بوڑھے کے حال پر رحم آیا کہ اس بیچارے نے ایک مقصد کے لئے بڑی محنت و جانفشانی کی مگر وہ اس مقصد یعنی رضائے الٰہی کو نہیں پاسکا اور اس ضر حضرت عمر نے یہ آیت تلاوت فرمائی وجوہ یومئذ خاشعة، عاملہة ناصبتة (قرطبی)
وُجُوْہٌ يَّوْمَىِٕذٍ خَاشِعَۃٌ ٢ ۙ وجه أصل الوجه الجارحة . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة/ 6] ( و ج ہ ) الوجہ کے اصل معنی چہرہ کے ہیں ۔ جمع وجوہ جیسے فرمایا : ۔ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة/ 6] تو اپنے منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو ۔ يَوْمَئِذٍ ويركّب يَوْمٌ مع «إذ» ، فيقال : يَوْمَئِذٍ نحو قوله عزّ وجلّ : فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر/ 9] وربّما يعرب ويبنی، وإذا بني فللإضافة إلى إذ . اور کبھی یوم کے بعد اذ بڑھا دیاجاتا ہے اور ( اضافت کے ساتھ ) یومئذ پڑھا جاتا ہے اور یہ کسی معین زمانہ کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس صورت میں یہ معرب بھی ہوسکتا ہے اور اذ کی طرف مضاف ہونے کی وجہ سے مبنی بھی ۔ جیسے فرمایا : وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ [ النحل/ 87] اور اس روز خدا کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے ۔ فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر/ 9] وہ دن بڑی مشکل کا دن ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم/ 5] اور ان کو خدا کے دن یا ددلاؤ۔ میں ایام کی لفظ جلالت کی طرف اضافت تشریفی ہے اور ا یام سے وہ زمانہ مراد ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے فضلو انعام کے سمندر بہا دیئے تھے ۔ خشع الخُشُوع : الضّراعة، وأكثر ما يستعمل الخشوع فيما يوجد علی الجوارح . والضّراعة أكثر ما تستعمل فيما يوجد في القلب ولذلک قيل فيما روي : روي : «إذا ضرع القلب خَشِعَتِ الجوارح» قال تعالی: وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعاً [ الإسراء/ 109] ، وقال : الَّذِينَ هُمْ فِي صَلاتِهِمْ خاشِعُونَ [ المؤمنون/ 2] ، وَكانُوا لَنا خاشِعِينَ [ الأنبیاء/ 90] ، وَخَشَعَتِ الْأَصْواتُ [ طه/ 108] ، خاشِعَةً أَبْصارُهُمْ [ القلم/ 43] ، أَبْصارُها خاشِعَةٌ [ النازعات/ 9] ، كناية عنها وتنبيها علی تزعزعها کقوله : إِذا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا [ الواقعة/ 4] ، وإِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها [ الزلزلة/ 1] ، يَوْمَ تَمُورُ السَّماءُ مَوْراً وَتَسِيرُ الْجِبالُ سَيْراً [ الطور/ 9- 10] . ( خ ش ع ) الخشوع ۔ ( ان ) کے معنی ضواعۃ یعنی عاجزی کرنے اور جھک جانے کے ہیں ۔ مگر زیادہ تر خشوع کا لفظ جوارح اور ضراعت کا لفظ قلب کی عاجزی پر بولا جاتا ہے ۔ اسی لئے ایک روایت میں ہے :۔ (112) اذا ضرعت القلب خشعت الجوارح جب دل میں فروتنی ہو تو اسی کا اثر جوارح پر ظاہر ہوجاتا ہے قرآن میں ہے : وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعاً [ الإسراء/ 109] اور اس سے ان کو اور زیادہ عاجزی پید اہوتی ہے ۔ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلاتِهِمْ خاشِعُونَ [ المؤمنون/ 2] جو نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیں ۔ وَكانُوا لَنا خاشِعِينَ [ الأنبیاء/ 90] اور ہمارے آگے عاجزی کیا کرتے تھے ۔ وَخَشَعَتِ الْأَصْواتُ [ طه/ 108] آوازیں پست ہوجائیں گے ۔ ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی ۔ أَبْصارُها خاشِعَةٌ [ النازعات/ 9] یہ ان کی نظروں کے مضطرب ہونے سے کنایہ ہے ۔ جیسا کہ زمین وآسمان کے متعلق بطور کنایہ کے فرمایا ۔ إِذا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا [ الواقعة/ 4] جب زمین بھونچال سے لرزنے لگے ۔ وإِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها [ الزلزلة/ 1] جب زمین بھونچال سے ہلا دی جائے گی ۔ يَوْمَ تَمُورُ السَّماءُ مَوْراً وَتَسِيرُ الْجِبالُ سَيْراً [ الطور/ 9- 10] جس دن آسمان لرزنے لگے کپکپا کر۔ اور پہاڑ اڑانے لگیں ( اون ہوکر )
(٢۔ ٣) قیامت کے دن منافقین اور کافروں کی صورتیں عذاب سے ذلیل اور عذاب میں جانے والی خستہ اور درماندہ ہوں گی، یا یہ کہ دنیا میں مصیبت زدہ اور آخرت میں خستہ اور درماندہ ہوں گے اور یہ جماعت راہبوں اور گرجا والوں کی ہے یا یہ کہ خارجی ہیں۔
آیت ٢{ وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ خَاشِعَۃٌ ۔ } ” بہت سے چہرے اس دن ذلیل ہوں گے۔ “ یہ مضمون اس سے پہلے سورة القیامہ اور سورة عبس میں بھی آچکا ہے۔ سورة القیامہ میں اس صورت حال کا نقشہ یوں دکھایا گیا ہے : { وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ - اِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ - وَوُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍم بَاسِرَۃٌ - تَظُنُّ اَنْ یُّفْعَلَ بِہَا فَاقِرَۃٌ ۔ } ” کچھ چہرے اس دن تروتازہ ہوں گے ‘ اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوں گے اور کچھ چہرے اس دن افسردہ ہوں گے۔ خیال کر رہے ہوں گے کہ ان کے ساتھ کمر توڑ سلوک ہونے والا ہے “۔ جبکہ سورة عبس میں یہی کیفیت ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے : { وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ مُّسْفِرَۃٌ - ضَاحِکَۃٌ مُّسْتَبْشِرَۃٌ - وَوُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ عَلَیْہَا غَبَرَۃٌ - تَرْہَقُہَا قَتَرَۃٌ ۔ } ” اس دن کچھ چہرے روشن ہوں گے۔ مسکراتے ہوئے خوش و خرم۔ اور کچھ چہرے اس دن غبار آلود ہوں گے۔ ان پر سیاہی چھائی ہوئی ہوگی۔ “
2 Some faces : some persons, so said for the face is the most conspicuous part of the human body by which man s personality is judged and which reflects the good or bad states through which man passes.
سورة الْغَاشِیَة حاشیہ نمبر :2 چہروں کا لفظ یہاں اشخاص کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ چونکہ انسان کے جسم کی نمایاں ترین چیز اس کا چہرہ ہے جس سے اس کی شخصیت پہچانی جاتی ہے ، اور انسان پر اچھی یا بری کیفیات بھی گزرتی ہیں ان کا اظہار اس کے چہرے سے ہی ہوتا ہے ، اس لیے کچھ لوگ کہنے کے بجائے کچھ چہرے کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ۔
(88:2) وجوہ یومئذ خاشعۃ : وجوہ ۔ وجہ کی جمع ۔ چہرے۔ کثرت کو ظاہر کرنے کے لئے تنوین لائی گئی ہے ۔ یعنی بہت سے چہرے۔ یا تنوین مضاف الیہ کے عوض میں ہو۔ یعنی کافروں کے چہرے ، چہروں سے مراد ہیں چہروں والے۔ ای اصحاب وجوہ۔ یومئذ۔ اس روز۔ اس کا تعلق غاشیۃ سے ہے یعنی غاشیہ کے دن بہت سے چہرے۔ خاشعۃ : خشوع (باب سمع) مصدر سے۔ اسم فاعل کا صیغہ واحد مؤنث ہے ذلیل ہونے والی۔ خوار، عاجزی کرنے والی۔ دب جانے والی۔ غم اور حقارت کی وجہ سے ذلیل ۔ ترجمہ ہوگا :۔ اس روز قیامت کے دن، بہت سے چہرے ذلیل و خوار ہوں گے۔
وجوہ یومئذ .................................... من جوع یہاں نعمتوں کے منظر سے قبل عذاب کا منظر دکھایا گیا کیونکہ سوال قیامت کی ہولناکیوں سے متعلق تھا ، بتایا جاتا ہے کہ لوگ سخت خوف کی حالت میں ہوں گے ، تھکے ہارے اور ڈر سے سہمے ہوں گے ۔ انہوں نے پوری زندگی جدوجہد میں گزاری ، تھک اور ہار گئے لیکن ان کے اعمال کھوٹے نکلے اور کسی نے بھی ان کو قبول نہ کیا ، عاقبت بھی خراب ہوئی اور مصیبت اور خسارے کے سوا کچھ نہ ملا۔ چناچہ ان کی تھکاوٹ اور پریشانی اور درماندگی میں اضافہ ہی ہوا۔
﴿ وُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍ خَاشِعَةٌۙ٠٠٢﴾ (اس دن چہرے جھکے ہوئے ہوں گے) ۔ ﴿ عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌۙ٠٠٣﴾ (مصیبت جھیلنے والے دکھ تکلیف اٹھانے والے ہوں گے) ۔ ﴿ تَصْلٰى نَارًا حَامِيَةًۙ٠٠٤﴾ (جلتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے) ۔
3:۔ ” وجوہ یومئذ “ یہ تخویف اخروی ہے۔ یہاں سے لے کر ” زرابی مبثوثۃ “ تک ” الغاشیہ “ کا بیان ہے۔ والجملۃ الی قولہ تعالیٰ مبثوثۃ استیناف وقع جوابا عن سؤال نشا من الاستفہام التشویقی کانہ قیل من جہتہ (علیہ الصلوۃ والسلام) وما اتی فی حدیثھا، ما ھو ؟ فقیل وجوہ الخ، قال ابن عباس (رض) لم یکن اتاہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حدیثہا فاخبرہ سبحانہ عنہا فقال جل وعلا : وجوہ یومئذ (روح ج 30 ص 112) ۔ ” خاشعۃ “ ذلیلۃ من الحزن والھوان (مظہری) ۔ ” عاملۃ ناصبۃ “ ای تعمل اعمالا شاقۃ تتعب فیہا وھی جر السلاسل والاغلال والخوض فی النار الخ۔ (ابو السعود) ۔ اور ” وجوہ “ سے اصحاب الوجوہ یعنی کفار مراد ہیں (کبیر) ۔ کفار و مشرکین دنیا میں نہ تو خدا کے سامنے عاجزی کرتے تھے، نہ ایمان کی خاطر شدائد و مصائب برداشت کرتے تھے لیکن قیامت کے دن ذلت اور رسوائی سے نہایت عاجز ہوں گے اور جہنم کے انواع عذاب کئے ہولناک شدائد اور سخت ترین تکلیفوں اور سزاؤں کو برداشت کریں گے۔