Surat ul Ghashiya
Surah: 88
Verse: 20
سورة الغاشية
وَ اِلَی الۡاَرۡضِ کَیۡفَ سُطِحَتۡ ﴿ٝ۲۰﴾
And at the earth - how it is spread out?
اور زمین کی طرف کہ کس طرح بچھائی گئی ہے ۔
وَ اِلَی الۡاَرۡضِ کَیۡفَ سُطِحَتۡ ﴿ٝ۲۰﴾
And at the earth - how it is spread out?
اور زمین کی طرف کہ کس طرح بچھائی گئی ہے ۔
And at the earth, how it is outspread, meaning, how it has been spread out, extended and made smooth. Thus, He directs the Bedouin to consider what he himself witnesses. His camel that he rides upon, the sky that is above his head, the mountain that faces him, and the earth that is under him, all of this is proof of the power of the Creator and Maker of these things. These things should lead him to see that He is the Lord, the Most Great, the Creator, the Owner, and the Controller of everything. Therefore, He is the God other than Whom none deserves to be worshipped. The Story of Dimam bin Tha`labah These are the things Dimam swore by after questioning the Messenger of Allah. This can be seen in what Imam Ahmad recorded from Thabit, who reported that Anas said, "We were prohibited from asking the Messenger of Allah anything. Thus, it used to amaze us when an intelligent man from the people of the desert (Bedouin Arabs) would come and ask him about something while we were listening. So a man from the people of the desert came and said, `O Muhammad! Verily, your messenger has come to us and he claims that you claim that Allah sent you.' He (the Prophet) said, صَدَق (He told the truth.) The man said, Who created the heaven؟ He (the Prophet) replied, الله ,(Allah) The man said, Who created the earth؟ He (the Prophet) replied, الله ,(Allah). The man said, `Who erected these mountains and placed in them whatever is in them' He (the Prophet) replied, الله ,(Allah). Then the man said, `By the One Who created the heaven, the earth, and erected these mountains, did Allah send you' He (the Prophet ) said, نَعَم (Yes.) The man then said, `Your messenger claims that we are obligated to pray five prayers during our day and night.' He (the Prophet ) said, صَدَق (He told the truth.) The man then said, `By He Who has sent you, did Allah command you with this' He (the Prophet ) replied, نَعَم (Yes.) The man then said, `Your messenger also claims that we are obligated to give charity from our wealth.' He (the Prophet ) said, صَدَق (He told the truth.) Then the man said, `By He Who has sent you, did Allah command you with this' He (the Prophet) replied, نَعَم (Yes.) The man then said, `Your messenger claims that we are obligated to perform pilgrimage (Hajj) to the House (the Ka`bah), for whoever is able to find a way there.' He (the Prophet ) said, صَدَق (He told the truth.) Then the man turned away to leave while saying, `By He Who has sent you with the truth, I will not add anything to these things and I will not decrease anything from them.' The Prophet then said, إِنْ صَدَقَ لَيَدْخُلَنَّ الْجَنَّة If he has spoken truthfully, he will certainly enter Paradise. This Hadith was recorded by Al-Bukhari, Muslim, Abu Dawud, At-Tirmidhi, An-Nasa'i and Ibn Majah. The Messenger is only charged with delivering the Message Allah says, فَذَكِّرْ إِنَّمَا أَنتَ مُذَكِّرٌ
20۔ 1 یعنی کس طرح اسے ہموار کر کے انسان کے رہنے کے قابل بنایا ہے وہ اس پر چلتا پھرتا ہے کاروبار کرتا ہے اور فلک بوس عمارتیں بناتا ہے۔
[٩] خانہ بدوشوں کی کل کائنات کیا تھی ؟ اور اللہ کی نشانیاں :۔ ان خانہ بدوش بدوؤں کی زندگی کے مشاہدات کیا تھے ؟ بس یہی کہ ادھر ادھر منتقل ہونے کے لیے اونٹ جو ان کی سواری اور بار برداری کا کام دیتا تھا۔ اوپر آسمان تھا، نیچے زمین اور اردگرد پھیلے ہوئے طویل سلسلہ ہائے کوہ۔ یہی چیزیں ان کی کل کائنات تھی۔ ان میں ایک ایک چیز کی طرف ان کی توجہ مبذول کرائی گئی۔ آسمان کی وسعت کا یہ عالم ہے کہ اس میں لاکھوں اور کروڑوں سیارے محو گردش ہیں۔ زمین کی یہ کیفیت ہے کہ گول ہونے کے باوجود جتنا بھی اس پر سفر کرتے جاؤ ہموارہی نظر آتی ہے۔ اور یہ بھی زمین کی وسعت کی دلیل ہے۔ پہاڑ زمین پر اس طرح گاڑ دیئے گئے ہیں کہ خود تو اپنی جگہ سے ذرا بھر نہیں ہلتے البتہ زمین کے ہلنے اور ڈگمگانے کو ختم کردیا ہے۔ ان لوگوں سے پوچھا یہ جارہا ہے کہ کیا ان لوگوں نے کبھی یہ سوچا کہ اونٹ کیسے بن گئے ؟ اتنا بڑا آسمان بنانے والا کون ہے ؟ یہ پہاڑ زمین میں کیسے نصب ہوگئے۔ اور یہ زمین کیسے بچھ گئی۔ یہ ساری چیزیں اگر اللہ تعالیٰ بنا سکتا ہے تو آخر دوسرا عالم کیوں نہیں بناسکتا اور قیامت کیوں قائم نہیں کرسکتا ؟ کیا انسان کے لیے یہ جائز ہے کہ ان ساری چیزوں کو اس لیے مان لے کہ انہیں وہ دیکھ رہا ہے اور قیامت اور جنت و دوزخ کا صرف اس بنا پر انکار کردے کہ ان چیزوں کو اس نے دیکھا نہیں یا اس کے تجربہ میں نہیں آئیں ؟ آخر اسے عقل و شعور کس بنا پر عطا کیا گیا ہے ؟ کیا اس لیے کہ جو چیزیں اسے نظر نہیں آتیں بلاسوچے سمجھے ان کا انکار کردے ؟
وَاِلَى الْاَرْضِ كَيْفَ سُطِحَتْ ٢٠ ۪ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ سطح السَّطْحُ : أعلی البیت . يقال : سَطَحْتُ البیت : جعلت له سطحا، وسَطَحْتُ المکان : جعلته في التّسوية كَسَطْحٍ ، قال : وَإِلَى الْأَرْضِ كَيْفَ سُطِحَتْ [ الغاشية/ 20] ، وانْسَطَحَ الرّجل : امتدّ علی قفاه، قيل : وسمّي سَطِيحُ الكاهن لکونه مُنْسَطِحاً لزمانة . والْمِسْطَحُ : عمود الخیمة الذي يجعل به لها سطحا، وسَطَحْتُ الثّريدة في القصعة : بسطتها . ( س ط ح ) السطح مکان کے اوپر کے حصے یعنی چھت کو کہتے ہیں اور سطحت البیت کے معنی چھت ڈالنے کے ہیں ۔ لیکن سطحت المکان کے معنی کسی جگہ کو چھت کی طرح ہموار کرنے کے بھی ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِلَى الْأَرْضِ كَيْفَ سُطِحَتْ [ الغاشية/ 20] اور زمین کی طرف ( نہیں دیکھئے ) کہ کس طرح بچھائی گئی ہے انسطح الرجل کے معنی چٹ لیٹنے کے ہیں اور ( بنی ذنب کے ) ایک کاہن کا نام سطیح مشہور ہوگیا تھا کیونکہ وہ زمانت ( کی مرض میں مبتلا ہونے ) کے باعث زمین پر پڑا رہتا تھا ۔ المسطح خیمہ کا ستون جس پر خیمہ نصب کیا جاتا ہے سطحت الثریدۃ فی القصعۃ میں نے پیالہ میں ثرید کو پھیلایا ۔
آیت ٢٠{ وَاِلَی الْاَرْضِ کَیْفَ سُطِحَتْ ۔ } ” اور (کیا یہ دیکھتے نہیں) زمین کی طرف کہ کیسے بچھا دی گئی ہے ! “ ان آیات میں اللہ تعالیٰ کی آفاقی نشانیوں میں سے چند نشانیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ مضمون قرآن میں بار بار آیا ہے لیکن ان آیات میں خصوصی طور پر قرآن مجید کے مخاطبین اوّلین سے خطاب ہے۔ نزولِ قرآن کے زمانے میں سرزمین حجاز کے باشندوں کا زیادہ تر وقت صحرائی مسافتوں میں گزرتا تھا ‘ جیسا کہ سورة قریش کی آیت { رِحْلَۃَ الشِّتَائِ وَالصَّیْفِ } میں بھی ذکر ہوا ہے۔ چناچہ اپنے سفروں کے دوران جس ماحول سے ان لوگوں کا دن رات واسطہ رہتا تھا ان آیات میں اسی ماحول کی چار چیزوں کو گنوا کر انہیں غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے۔ یعنی ایک وہ اونٹ جو ان کے صحرائی سفر کی واحد سواری تھی ‘ اوپر آسمان ‘ نیچے زمین اور اطراف و جوانب میں پہاڑی سلسلے۔ یہ تھا وہ ماحول جس میں عام طور پر ان لوگوں کے شب وروز گزرتے تھے۔ بہرحال قرآن مجید کی ایسی تمام آیات صاحب شعور انسانوں کو دعوت ِفکر دیتی ہیں کہ تم لوگ ان مظاہر ِ فطرت کو غور سے دیکھا کرو۔ ان میں سے ایک ایک چیز اللہ تعالیٰ کی نشانی اور اس کی صناعی و خلاقی کا نمونہ ہے : { اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلاَفِ الَّــیْلِ وَالنَّہَارِ وَالْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآئِ مِنْ مَّآئٍ فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا وَبَثَّ فِیْہَا مِنْ کُلِّ دَآبَّۃٍص وَّتَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ ۔ } ” یقینا آسمان اور زمین کی تخلیق میں اور رات اور دن کے الٹ پھیر میں اور ان کشتیوں (اورجہازوں) میں جو سمندر میں (یا دریائوں میں) لوگوں کے لیے نفع بخش سامان لے کر چلتی ہیں اور اس پانی میں کہ جو اللہ نے آسمان سے اتارا ہے پھر اس سے زندگی بخشی زمین کو اس کے مردہ ہوجانے کے بعد ‘ اور ہر قسم کے حیوانات (اور چرند پرند) اس کے اندر پھیلادیے ‘ اور ہوائوں کی گردش میں اور ان بادلوں میں جو معلق کردیے گئے ہیں آسمان اور زمین کے درمیان ‘ یقینا نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیں۔ “ اسی حقیقت کو شیخ سعدی (رح) نے اپنے انداز میں اس طرح بیان کیا ہے : برگِ درختانِ سبز در نظر ہوشیار ہر ورقش دفترے است معرفت ِکردگار ! کہ ایک صاحب شعور انسان کے لیے سبز درختوں کا ایک ایک پتا ّگویا معرفت ِخداوندی کا دفتر ہے۔ شیخ سعدی (رح) نے تو اپنے زمانے میں یہ بات اپنی خداداد بصیرت کی بنا پر کہی تھی لیکن آج سائنسی تحقیق سے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ سبز درختوں کا ایک ایک پتا ّدراصل phtosynthesis کی فیکٹری ہے۔ یہ فیکٹریاں سارا دن آکسیجن بنانے اور سورج کی روشنی کو جذب کرکے درختوں کی لکڑی کی طرف منتقل کرنے میں مصروف رہتی ہیں۔ ظاہر ہے یہ صفحات ایسی مثالوں کی تفصیل کے متحمل نہیں ہوسکتے ۔ اس حوالے سے انسان کے سمجھنے کی اصل بات یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تخلیقات کو محض حیوانی آنکھ سے نہیں بلکہ عقل اور شعور کی نظر سے دیکھے۔ علامہ اقبال نے اس حوالے سے ” زبورِعجم “ میں کیا پتے کی بات کہی ہے : دم چیست ؟ پیام است ‘ شنیدی نشنیدی ! در خاکِ تو یک جلوئہ عام است ندیدی ! دیدن دگر آموز ‘ شنیدن دگر آموز ! کہ اے غافل انسان ! تمہارا ہر سانس اللہ تعالیٰ کا پیغام ہے۔ کیا تم نے اس پیغام کو کبھی سنا ؟ نہیں سنا ! اور تمہاری اس خاک (حیوانی جسم) کے اندر ایک جلوئہ ربانی (نورانی روح ) بھی پوشیدہ ہے ‘ لیکن تم نے اس جلوے کو کبھی دیکھنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔ چناچہ تمہیں چاہیے کہ تم اس کائنات کی چیزوں کو حیوانی آنکھوں سے دیکھنا اور حیوانی کانوں سے سننا چھوڑو اور انسانوں کا سا دیکھنا اور سننا سیکھو۔ تم اشرف المخلوقات ہو ‘ تمہیں اللہ تعالیٰ نے عقل و شعور سمیت بہت سی اعلیٰ صلاحیتوں سے نواز رکھا ہے ‘ ان صلاحیتوں کو استعمال میں لائو ۔ مظاہر فطرت اور دوسری چیزوں کو دیکھو اور ان پر غور کرو : { خَلَقَ لَـکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًاق } (البقرۃ : ٢٩) یہ زمین پر جو کچھ ہے سب اللہ نے تمہارے لیے پیدا کیا ہے۔ ان چیزوں پر تحقیق کرو ‘ نئے نئے قوانین فطرت کو تلاش کرو ‘ انہیں کام لائو۔ تمہیں زمین پر اللہ تعالیٰ کی خلافت عطا ہوئی ہے۔ اس حیثیت سے خود زمین ‘ اس پر موجود تمام چیزیں ‘ یہ ہوائیں ‘ یہ فضائیں ‘ ستارے ‘ سیارے ‘ کہکشائیں سب تمہارے لیے مسخر ہیں۔ یاد رکھو ! اگر تم عقل و شعور سے کام لوگے تو ان پر حکومت کرو گے ‘ لیکن اگر تم توہمات میں پڑ جائو گے تو ان چیزوں کے غلام بن جائو گے۔
7 That is, "If they deny the possibility of the Hereafter, have they never looked around themselves and considered how the camels were created, how the heaven was raised high, how the mountains were firmly set and how the earth was spread out? When aII these things could be created, and exist before them in their finished form, why can the Resurrection not take place? Why cannot a new world come about, and why cannot .Hell and Heaven be possible'? Only a foolish and thoughtless person would think that the coming into existing of only those things which he has found existing on opening his eyes in the world, is possible. bacause they already exist. As for the things, which he has not yet observed and experienced, he should thoughtlessly pass the judgement that their coming into being is impossible. If he has any common sense, he should think as to how he things which already exist, carne into being? How did the camel possessing precisely the same Characteristics as needed for the beast required by the desert dwellers of Arabia come into being'' How did the sky whose atmosphere is filled with air to breathe in, whose clouds bring rain, whose sun provides light and warmth in the day, whose moon and stars shine at night, come into being'' How did the earth spread out on which man lives and passes his life, whose products fulfil aII his needs and requirements on whose springs and wells his life depends? How did the mountains rise up from the surface of the earth, which stand fixed with earth and stones of different colours and a variety of minerals in them '? Has all this happened without the artistic skill of an AlI-Powerful, AI-Wise Designer No thinking and intellingent mind can answer this question in the negative. Unless it is stubborn and obstinate, it will have to acknowledge that each one of these things was impossible, had an Omnipotent; Wise Being not made it possible. And when an All-Powerful, Wise Being created these things, there is no reason why the Hereafter should be regarded as remote from reason and impossible."
سورة الْغَاشِیَة حاشیہ نمبر :7 یعنی اگر یہ لوگ آخرت کی یہ باتیں سن کر کہتے ہیں کہ آخر یہ سب کچھ کیسے ہو سکتا ہے تو کیا خود اپنے گرد و پیش کی دنیا میں نظر ڈال کر انہوں نے کبھی نہ سوچا کہ یہ اونٹ کیسے بن گئے؟ آسمان کیسے بلند ہو گیا ؟ یہ پہاڑ کیسے قائم ہو گئے؟ یہ زمین کیسے بچھ گئی؟ یہ ساری چیزیں اگر بن سکتیں تھیں اور بنی ہوئی ان کے سامنے موجود ہیں تو قیامت کیوں نہیں آ سکتی؟ آخرت میں ایک دوسری دنیا کیوں نہیں بن سکتی؟ دوزخ اور جنت کیوں نہیں ہو سکتیں؟ یہ تو ایک بے عقل اور بے فکر آدمی کا کام ہے کہ دنیا میں آنکھیں کھولتے ہی جن چیزوں کو اس نے موجود پایا ہے ان کے متعلق تو وہ یہ سمجھ لے کہ ان کا وجود میں آنا تو ممکن ہے کیونکہ یہ وجود میں آئی ہوئی ہیں ، مگر جو چیزیں اس کے مشاہدے اور تجربے میں ابھی نہیں آئی ہیں ان کے بارے میں وہ بے تکلف یہ فیصلہ کر دے کہ ان کا ہونا ممکن نہیں ہے ۔ اس کے دماغ میں اگر عقل ہے تو اسے سوچنا چاہیے کہ جو کچھ موجود ہے یہ آخر کیسے و جود میں آ گیا ؟ یہ اونٹ ٹھیک ان خصوصیات کے مطابق کیسے بن گئے جن خصوصیات کے جانور عرب کے صحراء میں رہنے والے انسانوں کو ضرورت تھی؟ یہ آسمان کیسے بن گیا جس کی فضا میں سانس لینے کے لیے ہوا بھری ہوئی ہے ، جس کے بادل بارش لے کرآتے ہیں ، جس کا سورج دن کو روشنی اور گرمی فراہم کرتا ہے ، جس کے چاند اور تارے رات کو چمکتے ہیں؟ یہ زمین کیسے بچھ گئی جس پر انسان رہتا اور بستا ہے ، جس کی پیداوار سے اس کی تمام ضروریات پوری ہوتی ہیں ، جس کے چشموں اور کنوؤں پر اس کی زندگی کا انحصار ہے؟ یہ پہاڑ زمین کی سطح پر کیسے ابھر آئے جو رنگ برنگ کی مٹی اور پتھر اور طرح طرح کی معدنیات لیے ہوئے جمے کھڑے ہیں؟ کیا یہ سب کچھ کسی قادر مطلق صانع حکیم کی کاریگری کے بغیر ہو گیا ہے؟ کوئی سوچنےاور سمجھنے والا دماغ اس سوال کا جواب نفی میں نہیں دے سکتا ۔ وہ اگر ضدی اور ہٹ دھرم نہیں ہے تو اسے ماننا پڑے گا کہ ان میں سے ہر چیز ناممکن تھی اگر کسی زبردست قدرت اور حکمت والے نے اسے ممکن نہ بنایا ہوتا ۔ اور جب ایک قا در کی قدرت سے دنیا کی ان چیزوں کا بننا ممکن ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ جن چیزوں کے آئندہ وجود میں آنے کی خبر دی جا رہی ہے ان کو بعید از مکان سمجھا جائے ۔
(88:20) والی الارض کیف سطحت : اور زمین کو نہیں دیکھتے کہ کس طرح ہمواری کے ساتھ اس کا فرش بچھایا گیا ہے۔ سطحت ماضی مجہول کا صیغہ واحد مؤنث غائب سطح (باب فتح) مصدر سے وہ بچھائی گئی۔ السطح مکان کے اوپر کے حصے یعنی چھت کو کہتے ہیں اور سطحت البیت : کے معنی چھت ڈالنے کے ہیں۔ لیکن سطحت المکان کے معنی کسی جگہ کو چھت کی طرح ہموار کرنے کے ہیں۔ فائدہ : آیات 17 تا 20 تک سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اگر یہ لوگ آخرت کی یہ باتیں سن کر کہتے ہیں کہ آخر یہ سب کچھ کیسے ہوسکتا ہے ۔ تو کیا یہ خود اپنے گردوپیش کی دنیا پر نظر ڈال کر انہوں نے کبھی نہ سوچا کہ یہ اونٹ کیسے بن گئے ؟ یہ آسمان کیسے بلند ہوگیا ؟ یہ پہاڑ کیسے قائم ہوگئے ؟ یہ زمین کیسے بچھ گئی ؟ یہ ساری چیزیں اگر بن سکتی تھیں اور بنی ہوئی ان کے سامنے موجود ہیں۔ تو قیامت کیوں نہیں آسکتی ؟ آخرت میں ایک دوسری دنیا کیوں نہی بن سکتی ؟ دوزخ اور جنت کیوں نہیں ہوسکتیں۔ (تفہیم القرآن)
ف 2 کہ گول ہونے کے باوجود سطح معلوم ہوتی ہے اور اسی لئے اس پر رہنا سہنا اور آرام کرنا ممکن ہے۔
3۔ تخصیص ان چار چیزوں کی اس لئے ہے کہ عرب کے لوگ اکثر جنگلوں میں چلتے پھرتے رہتے تھے، اس وقت ان کے سامنے اونٹ ہوتے تھے اور اوپر آسمان اور نیچے زمین اور اطراف میں پہاڑ، اس لئے ان علامات میں غور کرنے کے لئے ارشاد فرمادیا گیا۔
والی الارض ................ سطحت (20:88) ” اور زمین کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بچھائی گئی “۔ یہ بچھی ہوئی زمین تو ہمارے سامنے ہے۔ یہ زندگی گزارنے کے لئے ، اس پر چلنے کے لئے ، اور اس پر کام کرنے کے لئے آسان بنادی گئی ہے۔ کیا اسے لوگوں نے بچھایا ہے ، ظاہر کہ انہوں نہیں بچھایا ، انسانوں کی پیدائش سے تو زمین پہلے تھی۔ کیا یہ اس پر غور نہیں کرتے۔ ان کے ذہنوں میں یہ سوال کیوں نہیں اٹھتا کہ کون ہے اس کو بچھانے والا ؟ اور کون ہے اسے اس طرح درست کرنے والا کہ زندگی گزارنے کے قابل ہوجائے۔ یہ مناظر قلب انسانی کی طرف اہم اشارات کرتے ہیں ، محض تامل اور غوروفکر سے انسان یہ اشارات پاتا ہے اور یہ اشارات وجدان کے ابھارنے اور انسانی ضمیر کو بیدار کرنے کے لئے کافی ہیں۔ ان اشارات سے انسان اپنے موجد ، خالق اور اس پوری کائنات کے خالق کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے۔ اس کائناتی منظر کی منظر کشی میں جس توازن اور ہم آہنگی کو ملحوظ رکھا گیا ہے ۔ اس پر قدرے غور کی ضرورت ہے تاکہ یہ معلوم ہو کہ قرآن انسانوں سے کس خوبصورت زبان میں مخاطب ہوتا ہے۔ اور اس میں فنی خوبیوں کو کس قدر ملحوظ رکھا گیا ہے۔ اور ایک باشعور مومن کے احساسات میں یہ دونوں چیزیں کس طرح پیوست ہوتی ہیں۔ اس منظر میں بلند آسمان اور بچھائی ہوئی زمین کو دکھایا گیا ہے۔ لیکن پہاڑوں کی بلندی افقی نہیں ہے اور نہ ہی وہ زمین پر گرے ہوئے ہیں ، بلکہ وہ نصب کردہ ہیں۔ اس طرح نصب ہیں جس طرح اونٹ کے اوپر کوہان ہوتی ہے۔ اس منظر میں دو افقی خط ہیں اور دوراسی خط ہیں۔ لیکن باہم متناسب ہیں اور یہ قرآن کریم کا مخصوص انداز ہے جس کے مطابق وہ مناظر کو پیش کرتا ہے۔ انداز تعبیر مجمل ہوتا ہے لیکن مصور ہوتا ہے۔ پہلا سفر تو تھا عالم آخرت میں ، دوسرا مشاہدتی سفر تھا ۔ اس کائنات کے مناظر میں ، جو ہمارے سامنے تھے ، اب روئے سخن حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف پھرجاتا ہے۔ آپ کو اپنے واجبات وفرائض کے حدود کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ آپ کے فرائض کی نوعیت کیا ہے۔ اسی طرح لوگوں کے احساسات کو آخری چٹکی دی جاتی ہے تاکہ دعوت اسلامی کے حوالے سے سوئے ہوئے دلوں کو جگایا جائے۔
(20) اور زمین کی طرف کہ وہ کیسی صاف بچھائی گئی مطلب یہ ہے کہ کیا اونٹ کی ساخت آسمان کی بلندی اور بغیر کسی سہارے کے اس کا قیام اور پہاڑوں کا زمین میں قائم کرنا اور اسی طرح زمین کو فرش کی طرح بچھانا کہ لوگ اس پر بودوباش اور رہنا سہنا اختیار کرسکیں حالانکہ وہ گول ہے لیکن اس کی پہنائی کو اس طرح قائم کیا کہ کروڑوں بلکہ اربوں مخلوق اس پر رہتی ہے ریلیں چلتی ہیں یہ تمام قدرت کی نیرنگیاں اس پر دال نہیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ انسان کو مرنے کے بعد زندہ کردے اور ایک اور عالم جس کو عالم آخرت کہتے ہیں قائم کردے۔ اونٹ کا ذکر شاید اس لئے فرمایا کہ اس کا کھانا پینا گرم ریت میں چلنا اور لوئوں میں پھرنا یہ سب امور دوزخیوں سے ملتے جلتے ہیں اور اس کے منافع اور فائدے اہل جنت سے مناسبت رکھتے ہیں سواری کے بیٹھتے وقت اور سامان لادنے کے وقت اس کا بیٹھ جانا اور پھر کھڑے ہوجانا ان تختوں کی مانند ہے جو اہل جنت کے بیٹھتے وقت جھک جائیں گے اور بیٹھنے کے بعد اونچے ہوجائیں گے اس کے چار تھن دودھ سے بھرے ہوئے آب خورے ہیں گردن کے بال جلا کر بہتے ہوئے خون پر رکھنے سے خون بند ہوجاتا ہے۔ غرض اس کے بیشمار منافع اور فوائد ہیں اس کی اون اور ریشم سے جو چیزیں بنائی جاتی ہیں وہ بھی ظاہر ہے جس اس پر سوار ہو تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک کشتی پر بیٹھے ہوئے جارہے ہیں اس لئے شاید اس کا خاص طور پر ذکر فرمایا۔ جنت کی بلندی اور اس کے عالیشان ہونے کی مناسبت سے آسمان کی رفعت کا ذکر فرمایا آسمان کے تاروں کو آب خوروں سے بہت زیادہ مناسبت ہے اسی طرح پہاڑ اور زمین کو چشموں کے جاری ہونے سے بڑی مناسبت ہے بہرحال علاوہ قدرت کی زبردست نشانیوں کے اہل جنت کے ساتھ ان چیزوں کو ایک خاص مناسبت ہے شاید اس لئے ان کا ذکر فرمایا تاکہ منکرین بعث اور دارآخرت کے منکر ان چیزوں پر غور کریں اس سلسلے میں مزید تفصیل دیکھنی ہو تو تفسیر عزیزی ملاحظہ کریں۔