Surat ul Ghashiya
Surah: 88
Verse: 22
سورة الغاشية
لَسۡتَ عَلَیۡہِمۡ بِمُصَۜیۡطِرٍ ﴿ۙ۲۲﴾
You are not over them a controller.
آپ کچھ ان پر داروغہ نہیں ہیں ۔
لَسۡتَ عَلَیۡہِمۡ بِمُصَۜیۡطِرٍ ﴿ۙ۲۲﴾
You are not over them a controller.
آپ کچھ ان پر داروغہ نہیں ہیں ۔
So remind them -- you are only one who reminds. You are not a Musaytir over them, meaning, "O Muhammad! Remind the people with what you have been sent with to them." فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَـغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ your duty is only to convey (the Message) and on Us is the reckoning. (13:40) Then Allah says, لَّسْتَ عَلَيْهِم بِمُسَيْطِرٍ You are not a Musaytir over them. Ibn `Abbas, Mujahid and others said, "You are not a dictator over them." This means that you cannot create faith in their hearts. Ibn Zayd said, "You are not the one who can force them to have faith." Imam Ahmad recorded from Jabir that the Messenger of Allah said, أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتْى يَقُولُوا لاَ إِلهَ إِلاَّ اللهُ فَإِذَا قَالُوهَا عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ إِلاَّ بِحَقِّهَا وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللهِ عَزَّ وَجَل I have been commanded to fight the people until they say La ilaha illallah (none has the right to be worshipped except Allah). So if they say that, they have safeguarded their blood and wealth from me - except for what is rightfully due from it - and their reckoning is with Allah, the Mighty and Majestic." Then he recited, فَذَكِّرْ إِنَّمَأ أَنتَ مُذَكِّرٌ لَّسْتَ عَلَيْهِم بِمُسَيْطِرٍ So remind them - you are only one who reminds. You are not a dictator over them - This is how Muslim recorded this Hadith in his Book of Faith, and At-Tirmidhi and An-Nasa'i also recorded it in their Sunans in the Books of Tafsir. This Hadith can be found in both of the Two Sahihs. The Threat for Whoever turns away from the Truth Concerning Allah's statement, إِلاَّ مَن تَوَلَّى وَكَفَرَ
[١٠] آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ اللہ کا پیغام سب کو پہنچا دیں۔ پھر جو لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتوں پر کان دھریں انہیں نصیحت کرتے رہیں اور جو اللہ کی آیات کا مذاق اڑائیں ان کے پیچھے نہ پڑیں کیونکہ انہیں زبردستی راہ راست پر لانا آپ کی ذمہ داری نہیں ہے۔
لَسْتَ عَلَيْہِمْ بِمُصَۜيْطِرٍ ٢٢ ۙ صطر صَطَرَ وسَطَرَ واحدٌ. قال تعالی: أَمْ هُمُ الْمُصَيْطِرُونَ [ الطور/ 37] ، وهو مفیعل من السَّطْرِ ، والتَّسْطِيرُ أي : الکتابة، أي : أهم الذین تولّوا کتابة ما قدّر لهم قبل أن خلق، إشارة إلى قوله : إِنَّ ذلِكَ فِي كِتابٍ إِنَّ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ [ الحج/ 70] ، وقوله : فِي إِمامٍ مُبِينٍ [يس/ 12] ، وقوله : لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَيْطِرٍ [ الغاشية/ 22] ، أي : متولّ أن تکتب عليهم وتثبت ما يتولّونه، وسَيْطَرْتُ ، وبَيْطَرْتُ لا ثالث لهما في الأبنية، وقد تقدّم ذلک في السّين ( ص ط ر ) صطر وسطر ( ن ) کے ایک ہی معنی ہیں یعنی لکھنا ( سیدھی لائنوں میں اور آیت : ۔ أَمْ هُمُ الْمُصَيْطِرُونَ [ الطور/ 37] یا یہ ( کہیں کہ ) داروغہ ہیں ۔ میں المصیطرون سطر سے مفعیل کے وزن پر ہے ۔ اور التسطیر جس کے معنی لکھنے کے ہیں اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ کیا تخلیق سے قبل یہ اپنے نوشتہ تقدیر کے لکھنے پر مقرر تھے ( کہ انہیں ہر بات کا علم ہوچکا ہے یعنی نہیں ) اس میں آیت کریمہ : ۔ إِنَّ ذلِكَ فِي كِتابٍ إِنَّ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ [ الحج/ 70] یہ سب کچھ کتاب میں لکھا ہوا ہے بیشک یہ سب خدا کو آسان ہے ۔ اور آیت فِي إِمامٍ مُبِينٍ [يس/ 12] اور ہر چیز کو ہم نے کتاب روشن ( یعنی لوح محفوظ ) میں لکھ رکھا ہے ۔ کے معنی کی طرف اشارہ ہے اور آیت : لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَيْطِرٍ [ الغاشية/ 22] تم ان پر دراوغہ نہیں ہو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم ان پر لکھنے کے لئے مقرر نہیں ہوا اور نہ ہی اس چیز کو ثابت کرنے کے ذمہ دار ہو جس کے یہ متولی بنتے ہیں اور عربی میں سیطرت و یبطرت کے علاوہ تیسرا لفظ اس وزن پر نہیں آتا تشریح کے لئے دیکھئے ( س ط ر)
آیت ٢٢{ لَسْتَ عَلَیْہِمْ بِمُصَیْطِرٍ ۔ } ” آپ ان پر کوئی داروغہ نہیں ہیں۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذمہ داری صرف تذکیر اور نصیحت تک ہے ‘ کسی کو زبردستی راہ ہدایت پر لانا آپ کا کام نہیں ہے۔
8 That is, "If a person does not listen to reason, he may not. You have not been appointed to force the will of the deniers: your only task is to distinguish the right from the wrong for the people and warn them of the consequences of following the wrong way; so this is the task you should continue to perform."
سورة الْغَاشِیَة حاشیہ نمبر :8 یعنی اگر معقول دلیل سے کوئی شخص بات نہیں مانتا تو نہ مانے ، تمہارے سپرد یہ کام تو نہیں کیا گیا ہے کہ نہ ماننے والوں سے زبردستی منواؤ ۔ تمہارا کام صرف یہ ہے کہ لوگوں کو صحیح اور غلط کا فرق بتا دو اور غلط راہ پر چلنے کے انجام سے خبردار کر دو ۔ سو یہ فرض تم انجام دیتے رہو ۔
3: آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو کافروں کی ہٹ دھرمی سے جو تکلیف ہوتی تھی، اُس پر آپ کو یہ تسلی دی گئی ہے کہ کہ آپ کا فریضہ صرف تبلیغ کر کے پورا ہوجاتا ہے، آپ پر یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ انہیں زبردستی مسلمان بنائیں۔ اس میں ہر مبلغ اور حق کے داعی کے لئے بھی یہ اصول بیان فرمایا گیا ہے کہ اسے اپنا تبلیغ کا فریضہ ادا کرتے رہنا چاہئے اور یہ نہ سمجھنا چاہئے، کہ وہ ان سے زبردستی اپنی بات منوانے کا ذمہ دار ہے۔
(88:22) لست علیہم بمصیطر ۔ المصیطر ۔ المسیطر ۔ المسلط علی الشیء لیشرف علیہ ویتھد ا حوالہ ویکتب عملہ۔ یعنی وہ شخص جس کو کسی پر مسلط کردیا جائے تاکہ وہ اس کی نگرانی کرے۔ اس کے احوال کی خبر رکھے اور اس کے اعمال کو لکھتا رہے۔ اسے مصیط کہتے ہیں۔ اسم فاعل کا صیغہ واحد مذکر ہے سیطرۃ مصدر سے جس کے معنی ہے کسی کام پر مقرر ہونا۔ ذمہ دار ہونا۔ لہٰذا مصیطر کے عنی ہوئے ذمہ دار۔ مقرر۔ نگران۔ اس آیت میں انما انت مذکر کے مفہوم کی تاکید ہے یعنی آپ کا ذمہ صرف نصیحت کرنا ہے وہ غور نہ کریں یا نصیحت نہ پکڑیں تو آپ ذمہ دار نہیں ہیں۔ یہی مطلب آیت وما انت علیہم بجبار (50:45) اور آپ ان پر زبردستی کرنے والے نہیں ہیں) کا ہے۔
ف 3 یعنی آپ کے ذمہ صرف سمجھانا اور ڈرانا ہے۔ آپ کا کام یہ نہیں ہے کہ ایمان کو زبردستی لوگوں کے دلوں میں اتار دیں۔ دلوں میں ایمان اتارنا یا نہ اتارنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔
لست ................ بمصیطر (22:88) آپ ان جبر کرنے والے نہیں ہیں “۔ کیونکہ دلوں کا مالک تو اللہ ہے۔ آپ جبر کرکے ان کے دلوں کو نہیں پھیر سکتے۔ دل تو اللہ کی انگلیوں کے درمیان ہیں۔ یہ اللہ کا کام ہے کہ جس دل کو چاہے ایمان کی طرف پھیر دے۔ بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ اگر پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فریضہ صرف تبلیغ تھا تو پھر جہاد کیوں فرض کیا گیا ؟ جہاڈ اس لئے نہیں فرض ہوا کہ لوگوں کو مومن بنایا جائے بلکہ اس لئے کہ تبلیغ کے راستے میں رکاوٹیں دور کی جائیں۔ یہ نہ ہو کہ لوگوں تک دین کی بات ہی نہ پہنچے اور یہ بھی نہ ہو کہ اگر کوئی دین اسلام کو قبول کرلے تو اس پر تشدد ہو۔ جہاد کا مقصد یہ تھا کہ تبلیغ دین کے راستے میں سیاسی رکاوٹیں دور کی جائیں۔ رسول کا اصل فریضہ بہرحال دعوت دین ہے۔ یہ اشارات وہدایات کہ رسول اللہ کی ڈیوٹی صرف تبلیغ ہے۔ اس کو قرآن میں بار بار دہرایا گیا ہے اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلا سبب یہ ہے کہ تبلیغ کرنے کے بعد اگر لوگ نہیں مانتے تو رسول خدا پریشان نہ ہوں ، ان کو تسلی ہوجائے کہ انہوں نے اپنا فرض ادا کردیا ہے۔ وہ مطمئن ہوجائیں اور لوگوں کو تقدیر الٰہی کے حوالے کردیں کہ وہ جو چاہے کرے۔ کیونکہ انسانوں بالخصوص دعوت اسلامی کا کام کرنے والوں کے دلوں میں اس بات کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ ان کا مشن کامیاب ہو اور غالب ہو۔ تمام لوگ اس کو قبول کرلیں اس لئے اللہ نے بار بار اس کی تاکید کی کہ داعی کا کام دعوت دینا ہے اور اسے اس قدر اخلاص سے کام کرنا چاہیے کہ ذاتی خواہش اور ذاتی پسند کو دعوت کے کھاتے سے نکال دے۔ اور دعوت کا کام جاری رکھے۔ آگے انجام کیا ہوتا ہے۔ یہ اللہ پر چھوڑ دے۔ اسے کیا ہے کہ کوئی مومن بنتا ہے یا کافر بنتا ہے۔ خصوصاً ایسے حالات میں جب کسی معاشرے میں دعوت اسلامی کے لئے حالات سازگار نہ ہوں ۔ لوگ دین سے دور ہوں اور دین کی راہ میں مادی وسیاسی رکاوٹیں ہوں تو داعی کو پریشان نہیں ہونا چاہئے۔ یہ بات کہ دعوت اسلامی ایک خیر محض ہے اور ہر انسان یہ خواہش رکھتا ہے کہ لوگ اس میں داخل ہوجائیں۔ اس خواہش کی شدت کا اظہار اس امر سے ہوتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرکے بار بار یہ تلقین کی جاتی ہے کہ آپ کا کام صرف تبلیغ ہے۔ آپ کسی پر جبر نہیں کرسکتے۔ حالانکہ رسول اللہ خدا کے پیغمبر تھے۔ آپ اپنی ڈیوٹی کے حدود وقیود سے اچھی طرح واقف تھے۔ اللہ کے نظام فضاوقدرے سے بھی واقف اور تربیت یافتہ تھے۔ اس لئے بھی اس نکتے کو قرآن نے بار بار مکرر کرکے بیان کیا ہے ۔ لیکن اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فریضہ تبلیغ پر ختم ہوجاتا ہے ، تو انکار کرنے والوں کا معاملہ بہرحال ختم نہیں ہوتا۔ اور نہ تکذیب کرنے والے چھوٹ جاتے ہیں اور صحیح سالم گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ اللہ موجود ہے اور تمام امور اللہ کے سامنے پیش ہونے والے ہیں۔