Surat ul Fajar

Surah: 89

Verse: 1

سورة الفجر

وَ الۡفَجۡرِ ۙ﴿۱﴾

By the dawn

قسم ہے فجر کی! ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Explanation of Al-Fajr and what comes after it Allah swears, وَالْفَجْرِ وَلَيَالٍ عَشْرٍ

شفع اور وتر سے کیا مراد ہے اور قوم عاد کا قصہ فجر تو ہر شخص جانتا ہے یعنی صبح اور یہ مطلب بھی ہے کہ بقر عید کے دن کی صبح ، اور یہ مراد بھی ہے کہ صبح کے وقت کی نماز ، اور پورا دن اور دس راتوں سے مراد ذی الحجہ مہینے کی پہلی دس راتیں ۔ چنانچہ صحیح بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ کوئی عبادت ان دس دنوں کی عبادت سے افضل نہیں لوگوں نے پوچھا اللہ کی راہ کا جہاد بھی نہیں؟ فرمایا یہ بھی نہیں مگر وہ شخص جو جان مال لے کر نکلا اور پھر کچھ بھی ساتھ لے کر نہ پلٹا بعض نے کہا ہے محرم کے پہلے دس دن مراد ہیں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رمضان شریف کے پہلے دس دن لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے یعنی ذی الحجہ کی شروع کی دس راتیں ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ عشر سے مراد عیدالاضحی کے دس دن ہیں اور وتر سے مرادعرفے کا دن ہے اور شفع سے مراد قربانی کا دن ہے اس کی اسناد میں تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن متن میں نکارت ہے واللہ اعلم ۔ وتر سے مراد عرفے کا دن ہے یہ نویں تاریخ ہوتی ہے تو شفع سے مراد دسویں تاریخ یعنی بقر عید کا دن ہے وہ طاق ہے یہ جفت ہے حضرت واصل بن سائب رضی اللہ عنہ نے حضرت عطاء رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا وتر سے مراد یہی وتر نماز ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں شفع عرفہ کا دن ہے اور وتر عیدالاضحی کی رات ہے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ خطبہ پڑھ رہے تھے کہ ایک شخص نے کھڑے ہو کر پوچھا کہ شفع کیا ہے اور وتر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا آیت ( فَمَنْ تَعَـجَّلَ فِيْ يَوْمَيْنِ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْهِ ٢٠٣؁ ) 2- البقرة:203 ) میں جو دو دن کا ذکر ہے وہ شفع ہے اور من تاخر میں جو ایک دن ہے وہ وتر ہے یعنی گیارہویں بارہویں ذی الحجہ کی شفع اور تیرھویں وتر ہے ۔ آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ایام تشریق کا درمیانی دن شفع ہے اور آخری دن وتر ہے ، بخاری و مسلم کی حدیث میں اللہ تعالیٰ کے ایک کم ایک سو نام ہیں جو انہیں یاد کر لے جنتی ہے وہ وتر ہے وتر کو دوست رکھتا ہے زید بن اسلم فرماتے ہیں اس سے مراد تمام مخلوق ہے اس میں شفع بھی ہے اور وتر بھی ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مخلوق شفع اور اللہ وتر ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ شفع صبح کی نماز ہے اور وتر مغرب کی نماز ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ شفع سے مراد جوڑ جوڑ اور وتر سے مراد اللہ عز و جل جیسے آسمان ، زمین ، تری ، خشکی جن انس سورج چاند وغیرہ قرآن میں ہے آیت ( وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ 49؀ ) 51- الذاريات:49 ) ہم نے ہر چیز کو جوڑ جوڑ پیدا کیا ہے تاکہ تم عبرت حاصل کر لو یعنی جان لو کہ ان تمام چیزوں کا خالق اللہ واحد ہے جس کا کوئی شریک نہیں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد گنتی ہے جس میں جفت بھی ہے اور طاق بھی ہے ایک حدیث میں ہے کہ شفع سے مراد وہ دن ہیں اور وتر سے مراد تیسرا دن ۔ یہ حدیث اس حدیث کے مخالف ہے جو اس سے پہلے گزر چکی ہے ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد نماز ہے کہ اس میں شفع ہے جیسے صبح کی دو ظہر عصر اور عشاء کی چار چار اور وتر ہے جیسے مغرب کی تین رکعتیں جو دن کے وتر ہیں اور اسی طرح آخری رات کا وتر ایک مرفوع حدیث میں مطلق نماز کے لفظ کے ساتھ مروی ہے بعض صحابہ سے فرض نماز مروی ہے لیکن یہ مرفوع حدیث نہیں زیادہ ٹھیک یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمران بن حصین پر موقوف ہے ، واللہ اعلم ۔ امام ابن جریر نے ان آٹھ نو اقوال میں سے کسی کو فیصل قرار نہیں دیا ۔ پھر فرماتا ہے رات کی قسم جب جانے لگے اور یہ بھی معنی کیے گئے ہیں کہ جب آنے لگے بلکہ یہی معنی زیادہ مناسب اور والفجر سے زیادہ مناسبت رکھتے ہیں ۔ فجر کہتے ہیں رات کے جانے کو اور دن کے آنے کو تو یہاں رات کا آنا اور دن کا جانا مراد ہو گا ۔ جیسے آیت ( وَالَّيْلِ اِذَا عَسْعَسَ 17۝ۙ وَالصُّبْحِ اِذَا تَنَفَّسَ 18۝ۙ ) 81- التكوير:17 ) میں عکرمہ فرماتے ہیں مراد مزدلفہ کی رات ہے حجر سے مراد عقل ہے ، حجر کہتے ہیں روک کو چونکہ عقل بھی غلط کاریوں اور جھوٹی باتوں سے روک دیتی ہے اس لیے اسے عقل کہتے ہیں ۔ ، خطیم کو بھی حجر البیت اسی لیے کہتے ہیں کہ وہ طواف کرنے والے کو کعبۃ اللہ کی شامی دیوار سے روک دیتا ہے اسی سے ماخوذ ہے حجر یمامہ اور اسی لیے عرب کہتے ہیں حجر الحاکم علی فلان جبکہ کسی شخص کو بادشاہ تصرف سے روک دے اور کہتے ہیں کہ حجرا محجورا تو فرماتا ہے کہ ان میں عقل مندوں کے لیے قابل عبرت قسم ہے کہیں تو قسمیں ہیں عبادتوں کی کہیں عبادت کے وقتوں کی جیسے حج نماز وغیرہ کہ جن سے اس کے نیک بندے اس کا قرب اور اس کی نزدیکی حاصل کرتے ہیں اور اس کے سامنے اپنی پستی اور خود فراموشی ظاہر کرتے ہیں جب ان پرہیزگار نیک کار لوگوں کا اور ان کی عاجزی و تواضع خشوع و خضوع کا ذکر کیا تو اب ان کے ساتھ ہی ان کے خلاف جو سرکش اور بدکار لوگ ہیں ان کا ذکر ہو رہا ہے تو فرمایا ہے کہ کیا تم نے نہ دیکھا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے عادیوں کو غارت کر دیا جو کہ سرکش اور متکبر تھے ، اللہ کی نافرمانی کرتے ، رسول کی تکذیب کرتے اور بدیوں پر جھک پڑتے تھے ان میں اللہ کے رسول حضرت ہود علیہ السلام آئے تھے یہ عاد اولیٰ ہیں جو عاد بن ارم بن سام بن نوح کی اولاد میں تھے اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ایمانداروں کو تو نجات دے دی اور باقی بے ایمانوں کو تیز و تند خوفناک اور ہلاک آفریں ہواؤں سے ہلاک کیا سات راتیں اور آٹھ دن تک یہ غضب ناک آندھی چلتی رہی اور یہ سارے کے سارے اس طرح غارت ہو گئے کہ ان کے سر الگ تھے اور دھڑ الگ تھے ان میں سے ایک بھی باقی نہ رہا جس کا مفصل بیان قرآن کریم میں کئی جگہ ہے سورہ الحاقہ میں بھی یہ بیان ہے ارم ذات العماد یہ عاد کی تفسیر بطور عطف بیان کے ہے تاکہ بخوبی وضاحت ہو جائے یہ لوگ مضبوط اور بلند ستونوں والے گھروں میں رہتے تھے اور اپنے زمانے مکے اور لوگوں سے بہت بڑے تن و توش والے قوت و طاقت والے تھے اسی لیے حضرت ہود علیہ السلام نے انہیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا ۔ آیت ( وَاذْكُرُوْٓا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاۗءَ مِنْۢ بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ وَّزَادَكُمْ فِي الْخَلْقِ بَصْۜطَةً ۚ فَاذْكُرُوْٓا اٰلَاۗءَ اللّٰهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ 69؀ ) 7- الاعراف:69 ) یعنی یاد کرو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں قوم نوح کے بعد زمین پر خلیفہ بنایا ہے اور تمہیں جسمانی قوت پوری طرح دی تمہیں چاہیے کہ اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو اور زمین میں فسادی بن کر نہ رہو اور جگہ ہے کہ عادیوں نے زمین میں ناحق سرکشی کی اور بول اٹھے کہ ہم سے زیادہ قوت والا اور کون ہے؟ کیا وہ بھول گئے کہ ان کا پیدا کرنے والا ان سے بہت ہی زبردست طاقت و قوت والا ہے یہاں بھی ارشاد ہوتا ہے کہ اس قبیلے جیسے طاقتور اور شہروں میں نہ تھے بڑے طویل القامت قوی الجثہ تھے ارم ان کا دار السلطنت تھا ۔ انہیں ستونوں والے کہا جاتا تھا اس لیے بھی کہ یہ لوگ بہت دراز قد تھے بلکہ صحیح وجہ یہی ہے ۔ مثلھا کی ضمیر کا مرجع عماد بتایا گیا ہے ان جیسے اور شہروں میں نہ تھے یہ احقاف میں بنے ہوئے لمبے لمبے ستون تھے اور بعض نے ضمیر کا مرجع قبیلہ بتایا ہے یعنی اس قبیلے جیسے لوگ اور شہروں میں نہ تھے اور یہی قول ٹھیک ہے اور اگلا قول ضعیف ہے اسی لیے بھی کہ یہی مراد ہوتی تو لم یجعل کہا جاتا نہ کہ لم یخلق ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ان میں اس قدر زور و طاقت تھی کہ ان میں سے کوئی اٹھتا اور اور ایک بڑی ساری چٹان لے کر کسی قبیلے پر پھینک دیتا تو یچارے سب کے سب دب کر مر جاتے حضرت ثور بن زید دیلی فرماتے ہیں کہ میں نے ایک ورق پر یہ لکھا ہوا پڑھا ہے کہ میں شداد بن عاد ہوں میں نے ستون بلند کیے ہیں میں نے ہاتھ مضبوط کیے ہیں میں نے سات ذرائع کے خزانے جمع کیے ہیں جو امت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نکالے گی غرض خواہ یوں کہو کہ وہ عمدہ اونچے اور مضبوط مکانوں والے تھے خواہ یوں کہو کہ وہ بلند و بالا ستونوں والے تھے یا یوں کہو کہ وہ بہترین ہتھیاروں والے تھے یا یوں کہو لمبے لمبے قد والے تھے مطلب یہ ہے کہ ایک قوم تھی جن کا ذکر قرآن کریم میں کئی جگہ ثمودیوں کے ساتھ آ چکا ہے یہاں بھی اسی طرح عادیوں اور ثمودیوں کا دونوں کا ذکر ہے واللہ اعلم ۔ بعض حضرات نے یہ بھی کہا کہ ارم ذات العماد ایک شہر ہے یا تو دمشق یا اسکندریہ لیکن یہ قول ٹھیک نہیں معلوم ہوتا اس لیے کہ عبارت کا ٹھیک مطلب نہیں بنتا کیونکہ یا تو یہ بدل ہو سکتا ہے یا عطف بیان دوسرے اس لیے بھی کہ یہاں یہ بیان مقصود ہے کہ ہر ایک سرکش قبیلے کو اللہ نے برباد کیا جن کا نام عادی تھا ، نہ کہ کسی شہر کو میں نے اس بات کو یہاں اس لیے بیان کر دیا ہے تاکہ جن مفسرین کی جماعت نے یہاں یہ تفسیر کی ہے کہ ان سے کوئی شخص دھوکے میں نہ پڑ جائے وہ لکھتے ہیں کہ یہ ایک شہر کا نام ہے جس کی ایک اینٹ سونے کی ہے دوسرے چاندی کی اس کے مکانات باغات محلے وغیرہ سب چاندی سونے کے ہیں کنکر لولو اور جواہر ہیں مٹی مشک ہے نہریں بہہ رہی ہیں پھل تیار ہیں ، کوئی رہنے سہنے والا نہیں ہے در و دیوار خالی ہیں کوئی ہاں ہوں کرنے والا بھی نہیں ، یہ شہر جگہ بدلتا رہتا ہے کبھی شام میں کبھی یمن میں کبھی عراق میں کبھی کہیں کبھی کہیں ۔ وغیرہ یہ سب خرافات بنو اسرائیل کی ہیں ان کے بددینوں نے یہ خود ساختہ روایت تیار کی ہے تاکہ جاہلوں میں باتیں بنائیں ، ثعلبی وغیرہ نے بیان کیا ہے کہ ایک اعرابی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں اپنے گم شدہ اونٹوں کو ڈھونڈ رہا تھا کہ جنگل بیابان میں اس نے اسی صفت کا ایک شہر دیکھا اور اس میں گیا ، گھوما پھرا ، پھر لوگوں سے آ کر ذکر کیا لوگ بھی وہاں گئے لیکن پھر کچھ نظر نہ آیا ، ابن ابی حاتم نے یہاں ایسے قصے بہت سے لمبے چوڑے نقل کیے ہیں یہ حکایت بھی صحیح نہیں اور اگر یہ اعرابی والا قصہ سندا صحیح مان لیں تو ممکن ہے کہ اسے ہوس اور خیال ہو اور اپنے خیال میں اس نے یہ نقشہ جما لیا ہو اور خیالات کی پختگی اور عقل کی کمی نے اسے یقین دلایا ہو کہ وہ صحیح طور پر یہی دیکھ رہا ہے اور فی الواقع یوں نہ ہو ٹھیک اسی طرح جو جاہل حریض اور خیالات کے کچے ہوں سمجھتے ہیں کہ کسی خاص زمین تلے سونے چاندی کے پل ہیں اور قسم قسم کے جواہر یاقوت لولو اور موتی ہیں اکسیر کبیر ہے لیکن ایسے چند موانع ہیں کہ وہاں لوگ پہنچ نہیں سکتے مثلا خزانے کے منہ پر کوئی اژدھا بیٹھا ہے کسی جن کا پہرہ ہے وغیرہ یہ سب فضول قصے اور بناوٹی باتیں ہیں انہیں گھڑ گھڑا کر بےوقوفوں اور مال کے حریصوں کو اپنے دام میں پھانس کر ان سے کچھ وصول کرنے کے لیے مکاروں نے مشہور کر رکھے ہیں پھر کبھی چلے کھینچنے کے بہانے سے کبھی بخور کے بہانے سے کبھی کسی اور طرح سے ان سے یہ مکار روپے وصول کر لیتے ہیں اور اپنا پیٹ پالتے ہیں ہاں یہ ممکن ہے کہ زمین میں سے جاہلیت کے زمانے کا یا مسلمانوں کے زمانے کا کسی کا گاڑا ہوا مال نکل آئے تو اس کا پتہ جسے چل جائے وہ اس کے ہاتھ لگ جاتا ہے نہ وہاں کوئی مار گنج ہوتا ہے نہ کوئی دیو بھوت جن پری جس طرح ان لوگوں نے مشہور کر رکھا ہے یہ بالکل غیر صحیح ہے یہ ایسے ہی لوگوں کی خود ساختہ بات ہے یا ان جیسے ہی لوگوں سے سنی سنائی ہے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نیک سمجھ دے ۔ امام ابن جریر نے بھی فرمایا ہے کہ ممکن ہے اس سے قبیلہ مراد ہو اور ممکن ہے شہر مراد و لیکن ٹھیک نہیں یہاں تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایک قوم کا ذکر ہے نہ کہ شہر کا اسی لیے اس کے بعد ہی ثمودیوں کا ذکر کیا کہ وہ ثمودی جو پتھروں کی تراش لیا کرتے تھے جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَتَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوْتًا فٰرِهِيْنَ ١٤٩؀ۚ ) 26- الشعراء:149 ) یعنی تم پہاڑوں میں اپنے کشادہ آرام دہ مکانات اپنے ہاتھوں پتھروں میں تراش لیا کرتے ہو ۔ اس کے ثبوت میں کہ اس کے معنی تراش لینے کے ہیں عربی شعر بھی ہیں ابن اسحاق فرماتے ہیں ثمودی عرب تھے وادی القری میں رہتے تھے عادیوں کا قصہ پورا پورا سورہ اعراف میں ہم بیان کر چکے ہیں اب اعادہ کی ضرورت نہیں پھر فرمایا میخوں والا فرعون اوتاد کے معنی ابن عباس نے لشکروں کے کیے ہیں جو کہ اس کے کاموں کو مضبوط کرتے رہتے تھے یہ بھی مروی ہے کہ فرعون غصے کے وقت لوگوں کے ہاتھ پاؤں میں میخیں گڑوا کر مروا ڈالتا تھا چورنگ کر کے اوپر سے بڑا پتھر پھینکتا تھا جس سے اس کا کچومر نکل جاتا تھا بعض لوگ کہتے ہیں کہ رسیوں اور میخوں وغیرہ سے اس کے سامنے کھیل کیے جاتے تھے اس کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ اس نے اپنی بیوی صاحبہ کو جو مسلمان ہو گئی تھیں لٹا کر دونوں ہاتھوں اور دونوں پاؤں میں میخیں گاڑیں پھر بڑا سا چکی کا پتھر ان کی پیٹھ پر مار کر جان لے لی ، اللہ ان پر رحم کرے ، پھر فرمایا کہ ان لوگوں نے سرکشی پر کمر باندھ لی تھی اور فسادی لوگ تھے لوگوں کو حقیر و ذلیل جانتے تھے اور ہر ایک کو ایذاء پہنچاتے تھے نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ کے عذاب کا کوڑا برس پڑا ۔ وہ وبال آیا جو ٹالے نہ ٹلا ہلاک و برباد اور نیست و نابود ہو گئے ، تیرا رب گھات میں ہے دیکھ رہا ہے سن رہا ہے سمجھ رہا ہے وقت مقررہ پر ہر برے بھلے کو نیکی کی جزاء سزا دے گا یہ سب لوگ اس کے پاس جانے والے تن تنہا اس کے سامنے کھڑے ہونے والے ہیں اور وہ عدل و انصاف کے ساتھ ان میں فیصلے کرے گا اور ہر شخص کو پورا پورا بدلہ دے گا جس کا وہ مستحق تھا وہ ظلم وجور سے پاک ہے یہاں ابن ابی حاتم نے ایک حدیث وارد کی ہے جو بہت غریب ہے جس کی سند میں کلام ہے اور صحت میں بھی نظر ہے اس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے معاذ! مومن حق کا قیدی ہے اے معاذ! مومن تو امید و بیہم کی حالت میں ہی رہتا ہے جب تک کہ پل صراط سے پار نہ ہو جائے ۔ اے معاذ! مومن کو قرآن نے بہت سی دلی خواہشوں سے روک رکھا ہے تاکہ وہ ہلاکت سے بچ جائے قرآن اس کی دلیل ہے خوف اس کی حجت ہے شوق اس کی سواری ہے نماز اس کی پناہ ہے روزہ اس کی ڈھال ہے صدقہ اس کا چھٹکارا ہے سچائی اس کی امیر ہے شرم اس کا وزیر ہے اور اس کا رب ان سب کے بعد اس پر واقف و آگاہ ہے وہ تیز نگاہوں سے اسے دیکھ رہا ہے اس کے راوی یونس اللہ اور ابو حمزہ مجہول ہیں پھر اس میں ارسال بھی ہے ممکن ہے یہ ابو حمزہ ہی کا کلام ہو ، اسی ابن ابی حاتم میں ہے کہ ابن عبدالکلاعی نے اپنے ایک وعظ میں کہا لوگو! جہنم کے ساتھ پل ہیں ان سب پر پل صراط ہے پہلے ہی پل پر لوگ روکے جائیں گے یہاں نماز کا حساب کتاب ہو گا یہاں سے نجات مل گئی تو دوسرے پل پر روک ہو گی یہاں امانتداری کا سوال ہو گا جو امانت دار ہو گا اس نے نجات پائی اور جو خیانت والا نکلا ہلاک ہوا تیسرے پل پر صلہ رحمی کی پرسش ہو گی اس کے کاٹنے والے یہاں سے نجات نہ پا سکیں گے اور ہلاک ہوں گے رشتہ داری یعنی صلہ رحمی وہیں موجود ہو گی اور یہ کہہ رہی ہو گی کہ اللہ جس نے مجھے جوڑا تو اسے جوڑ اور جسے مجھے توڑا تو اسے توڑ یہی معنی ہیں آیت ( ان ربک لبالمر صادر ) یہ اثر اتنا ہی ہے پورا نہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1۔ 1 اس سے مراد مطلق فجر ہے، کسی خاص دن کی فجر نہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١] فجر یا سپیدہ ئسحر کے نمودار ہونے کے وقت کی اہمیت یہ ہے کہ اس وقت غفلت سے سوئی ہوئی ساری دنیا کو بیداری کا پیغام ملتا ہے۔ رات کو انسان تھکن سے چور ہو کر سوتا ہے اور صبح جب بیدار ہوتا ہے تو یہ بالکل تازہ دم ہوتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

والفجر :” الفجر “ سے مراد صبح ہے۔ سورة تکویر میں بھی یہ قسم مذکور ہے :(والصبح اذا تنفس) (التکویر : ١٨)” اور قسم ہے صبح کی جب وہ سانس لیتی ہے۔ “ ضروری نہیں کہ اس سے کسی خاص دن کی صبح ہی مراد لی جائے، ہر صبح ہی قیامت کی دلیل ہے، جس کے ساتھ سوئی ہوئی مخلوق بیدار ہوجاتی ہے اور موت کے بعد اٹھنے کا منظر سامنے آجاتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary This Surah, by swearing five oaths in its beginning, emphasises the following fact: إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصَادِ Surely your Lord is ever on the watch. [ 89:14] This means that Allah is watching over whatever you do, and reward or punishment for your deeds is certain and inevitable. The first among the five oaths sworn at the beginning is Fajr (dawn). It may refer to the dawn of every day that brings about a great change in the world, and thus directs man&s attention to the absolute Omnipotence of Allah. It is also possible that it refers to the dawn of some specific day. Commentators like Sayyidna Ibn ` Abbas and Ibn Zubair (رض) say that the word is general, and it refers to any dawn. According to another narration of Ibn ` Abbas (رض) ، it refers to the dawn of the first of Muharram which is the start of the lunar-Islamic calendar. Sayyidna Qatadah رحمۃ علیہ ، among others, has interpreted it in the same way. Some commentators, like Mujahid and ` Ikramah, refer this to the dawn of &the Day of Sacrifice& on the tenth of Dhul Hijjah. A narration from Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) concurs with this view. The reason for this specification is that according to Islamic principles, Allah has made a night to precede the day. All days are preceded by their respective nights, except the &the Day of Sacrifice&, because the night that precedes the Day of Sacrifice is not the night of Sacrifice. In fact, the preceding night, according to Shari&ah, is the night of ` Arafah. Staying at ` Arafat is the most important and foremost rite of Hajj. If a pilgrim is not able to reach ` Arafat on the 9th of Dhul Hijjah, any time in the day or in the night following it to halt there for a while, he will not be considered to have performed Hajj at all. However if he arrives there any time during the night before the break of dawn on the 10th of Dhul Hijjah, his halt in ` Arafah will be acceptable and his Hajj will be considered valid. This shows that the day of ` Arafah has two nights, one preceding it, and another following it. The Day of Sacrifice [ 10th of Dhul Hijjah ] has no night. From this point of view, the dawn of the day of Sacrifice, among all the days of the year, occupies a special position. [ Qurtubi ].

خلاصہ تفسیر قسم ہے (فجر کے وقت) کی اور (ذی الحجہ کی) دس راتوں (یعنی دس تاریخوں) کی کہ وہ نہایت فضیلت والی ہیں کذا فسر فی الحدیث) اور جفت کی اور طاق کی (جفت سے مراد دسویں تاریخ ذی الحجہ کی اور طاق سے نویں تاریخ، کذا فی الحدیث اور ایک حدیث میں ہے کہ اس سے نماز مراد ہے کہ کسی کی طاق رکعتیں ہیں کسی کی جفت، اور پہلی حدیث کو روایتہ بھی واضح کہا گیا ہے کہ، کذا فی الروح اور درایتہ بھی وہ ارجح ہے کیونکہ اس سورت میں جن چیزوں کی قسم کھائی گئی وہ سب زمانے اور اوقات کی قسم سے ہیں۔ درمیان میں شفع اور وتر بھی اوقات ہی کی قسم سے ہو تو تناسب واضح رہتا ہے اور یہ تطبیق بھی ہو سکتی ہے کہ شفع اور وتر بھی اوقات ہی کی قسم سے ہوت تو تناسب واضح رہتا ہے اور یہ تطبیق بھی ہو سکتی ہے کہ شفع و وتر سے مراد ہر وہ جفت اور طاق ہوں جو لائق تعظیم ہیں، اوقات و ایام بھی اس میں داخل ہیں اور عدد رکعات نماز بھی) اور (قسم ہے) رات کی جب وہ چلنے لگے (یعنی گزرنے لگے، کقولہ تعالیٰ والیل اذا ادبر۔ آگے بطور جملہ معترضہ کے تاکید کے لئے اس قسم کا عظیم ہونا بیان فرماتے ہیں کہ) کیا اس (قسم مذکور) میں عقلمند کے واسطے کافی قسم بھی ہے (یہ استفہام تقریر و تاکید کے لئے یعنی ان مذکورہ قسموں میں ہر قسم تاکید کلام کے لئے کافی ہے اور گو سب قسمیں جو قرآن میں مذکور ہیں ایسی ہی ہیں مگر اہتمام کے لئے اس کے کافی ہونے کی تصریح فرما دی کما مرفی قولہ تعالیٰ فی سورة الواقعہ وانہ لقسم لو تعلمون عظیم اور جواب قسم مقدر ہے کہ منکروں کو ضرور سزا ہوگی کما فی الجلالین جس پر آئندہ کلام رینہ ہے جس میں منکرین سابقین کی تعذیب کا ذکر ہے یعنی) کیا آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کے پروردگار نے قوم عاد یعنی قوم ارم کے ساتھ کیا معاملہ کیا جن کے قدو قامت ستون (وعمود) جیسے (دراز) تھے (اور) جن کی برابر (زور و قوت میں دنیا بھر کے) شہروں میں کوئی شخص نہیں پیدا کی اگی (اس قوم کے دو لقب ہیں، عاد اور ارم، کیونکہ عاد بیٹا ہے عاص کا اور وہ ارم کا اور وہ سام بن نوح کا کبھی ان کو باپ کے نام پر عاد کہتے ہیں اور کبھی دادا کے نام پر ارم کہتے ہیں اور اس ارم کا ایک بیٹا عابر ہے اور عابر کا یٹا ثمود جس کے نام سے ایک قوم مشہور ہے پس عاد اور ثمود دونوں ارم میں جاملے ہیں۔ عاد بواسطہ عاص کے اور ثمود بواسطہ عابر کے اور یہاں ارم اس لئے بڑھا دیا کہ اس قوم عاد میں دو طبقے ہیں، ایک متقدمین جن کو عاد اولیٰ کہتے ہیں دوسرے متاخرین جن کو عاد اخری کہتے ہیں، پس ارم بڑھا دینے سے اشارہ ہوگیا کہ عاد اولیٰ مراد ہے کیونکہ بوجہ قرب و قلت وسائط کے ارم کا اطلاق عاد اولیٰ پر ہوتا ہے (کذا فی الروح و ہذا التحقیق عندی قابض علی ماسبق فی الاعراف والنجم واللہ اعلم) اور (آگے عاد کے بعد دوسری ہلاک ہونے والی امتوں کا بیان فرماتے ہیں کہ آپ کو معلوم ہے کہ) قوم ثمود کے ساتھ (کیا معاملہ کیا) جو وادی القریٰ میں (پہاڑ کے) پتھروں کو تاشا کرتے تھے (اور مکانات بنایا کرتے تھے۔ وادی القریٰ ان کے شہروں میں سے ایک شہر کا نام ہے جیسا ایک کا نام حجر ہے اور یہ سب حجاز اور شام کے درمیان میں ہیں اور سب میں ثمود رتے تھے کذا فی بعض التفاسیر) اور میخوں والے رفعون کے ساتھ (درمنثور میں ابن مسعود و سعید بن جبیرو مجاہد و حسن وسدی سے اس کی تفسیر میں منقول ہے کہ وہ جس کو سزا دیتا اس کے چاروں ہاتھ پاؤں چار مخیوں سے باندھ کر سزا دیتا اور ایک تفسیر اس کی سورة ص میں گزر چکی آگے سب کی صفت مشترکہ فرماتے ہیں کہ) جنہوں نے شہروں میں سر اٹھا رکھا تھا اور ان میں بہت فساد مچا رکھا تھا سو آپ کے رب نے ان پر عذاب کا کوڑا برسایا (یعنی عذاب نازل کیا پس عذاب کو کوڑے سے اور اس کے نازل کرنے کو برسانے سے تعبیر فرمایا، آگے اس عذاب کی علت اور موجودین کی عبرت کے لئے ارشاد ہے کہ) بیشک آپ کا رب نافرمانوں کی گھات میں ہے (جن میں سے مذکورین کو تو ہلاک کردیا اور موجودین کو عذاب کرنے والا ہے) سو (اس کا مقضنایہ تھا کہ کفار موجودین عبرت پکڑتے اور اعمال موجبہ للعذاب سے بچتے لیکن کافر) آدمی (کا یہ حال ہے کہ اعمال موجبہ للعذاب کو اختیار کرتا ہے جن سب کی اصل حب دنیا ہے چناچہ اس) کو جب اس کا پروردگار آزماتا ہے یعنی اس کو ظاہرا انعام اکرام دیتا ہے (مثل مال و جاہ وغیرہ جس سے مقصود اس کی شکر گزاری کا دیکھنا ہوتا ہے اور اسی وجہ سے اس کو آزمانے سے تعبیر فرمایا) تو وہ (اس کو اپنا حق لازم سمجھ کر فخر و غرور سے) کہتا ہے کہ میرے رب نے میری قدر بڑھا دی (یعنی میں اس کا مقبول ہوں کہ مجھ کو ایسی ایسی نعمتیں دیں) اور جب اس کو (دوسری طرح) آزماتا ہے یعنی اس کی روزی اس پر تنگ کردیتا ہے (جس سے مقصود اس کے صبر و رضا کا دیکھنا ہوتا ہے اور اسی وجہ سے اس کو آزمانے سے تعبیر فرمایا) تو وہ شکایت کرتا ہے) کہتا ہے کہ میرے رب نے میری قدر گھٹا دی (یعنی مجھ کو باوجود استحقاق اکرام کے اپنی نظر سے آج کل گرا رکھا ہے کہ دنیوی نعمتیں کم ہوگئیں، مطلب یہ کہ کافر دنیا ہی کو مقصود بالذات سمجھتا ہے کہ اس کی فراخی کو دلیل مقبولیت اور اپنے کو اس کا متحق اور تنگی کو دلیل مرد و دیت اور اپنے کو اس کا غیر مستحق سمجھتا ہے پس اس میں دو غلطیاں ہیں، ایک دنیا کو مقصود بالذات سمجھنا جس سے آخرت کا انکار اور اس سے اعراض پیدا ہوتا ہے اور دوسرے دعوائے استحقاق جس سے نعمت پر فخر و غرور اور ناشکری اور مصیبت پر شکوہ اور لئے صبری پیدا ہوتی ہوتی ہے اور یہ سب اعمال سبب عذاب ہیں، آگے اس پر زجر و تنبیہ ہے کہ) ہرگز ایسا نہیں (یعنی نہ تو دنیا مقصود بالذات ہے اور نہ اس کا ہونا نہ ہونا دلیل مقبولیت یا مخذولیت کی ہے اور نہ کوئی کسی اکرام کا مستحق ہے اور نہ کوئی صبر و شکر کے وجوب سے مستثنیٰ ہے آگے بصیغہ خطاب بطور التفات کے فرماے ت ہیں کہ تم لوگوں میں صرف یہی اعمال سبب عذاب نہی) بلکہ (تم میں اور اعمال بھی مذموم و نامرضی عنداللہ و موجب عذاب ہیں چنانچہ) تم لوگ یتیم کی (کچھ) قدر (اور خاطر) نہیں کرتے ہو (مطلب یہ کہ یتیم کی اہانت اور اس پر ظلم کرتے ہو کہ اس کا مال کھا جاتے ہو) اور دوسروں کو بھی مسکنی کو کھانا دینے کی ترغیب نہیں دیتے (یعنی دوسروں کے حقوق واجبہ نہ خود ادا کرتے ہو اور نہ اوروں کو حقوق واجبہ ادا کرنے کو کہتے ہو اور عملاً اس کے تارک اور اعتقاداً اس کے منکر ہو اور کافر کے لئے ترک واجب زیادتی عذاب کا سبب ہوتا ہے اور اعتقاد کا فاسد یعنی کفر و شرک اصل عذاب کی بنیاد ہی اور (تم) میراث کا مال سارا سمیٹ کر کھا جاتے ہو (یعنی دوسروں کا حق بھی کھا جاتے ہو اور میراث بتفصیل موجود گو مکہ مکرمہ میں مشروع نہ تھی مگر نفس میراث شرع ابراہیمی و اسماعیلی سے متوارث چلی آتی تھی چناچہ جاہلیت میں بچوں اور لڑکیوں کو میراث کا مستحق نہ سمجھنا اس کی دلیل ہے کہ میراث کا حکم پہلے سے بھی تھا جس کا بیان سورة نساء کے پہلے رکوع آیت للرجال نصیب الخ کے تحت میں گزر چکا ہے اور (تم لوگ) مال سے بہت ہی محبت رکھتے ہو (اور اعمال مذکورہ سب اسی کی فرع ہیں کیونکہ حب دنیا سب خطیبات کی اصل ہے۔ غرض یہ سب اعمال قولیہ وفعلیہ و حالہ موجب تعذیب ہیں۔ پس انسان کا یہ حال ہے کہ مضامین عبرت سن کر بجائے اس کے عبرت پکڑتا ایسے اعمال اختیار کرتا ہے جو اور زیادہ موجب عذاب ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دینے والا ہے کمال قال تعالیٰ ان ربک لبا لمرصاد آگے ان لوگوں پر زجر و تنبیہ ہے جو ان افعال کو سبب عذاب نہیں سمجھتے) ہرگز ایسا نہیں (جیسا تم سمجھتے ہو کہ ان اعمال پر عذاب نہ ہوگا، ضرور ہوگا، آگے جزاء و سزا کا وقت بتلاتے ہیں جس میں ان کو عذاب اور اہل اطاعت کو اجر وثواب ملے گا پس ارشاد ہے کہ) جس وقت زمین کے (کے بلند اجزاء پہاڑ وغیرہ) کو توڑ توڑ کر (اور) ریزہ کر کے زمین کو برابر کردیا جاوے گا (کقولہ تعالیٰ لا تری فیھا عوجاوہ امتا سورة طہ) اور آپ کا پروردگار اور جوق جوق فرشتے (میدان محشر میں) آویں گے (یہ حساب کے وقت ہوگا اور اللہ تعالیٰ کا آنا متشابہات میں سے ہے جس کی حقیقت کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا) اور اس روز جہنم کو لایا جاوے گا (جیسا سورة مدثر میں وما یعلم جنود ربک کے متعلق بیان ہوچکا ہے) اس روز انسان کو سمجھ آوے گی اور اب سمجھ آنیکا موقع کہاں رہا (یعنی اب سمجھ آنے سے کیا فائدہ ہوسکتا ہے کیونکہ وہ دار الجزاء رہے دارالعمل نہیں۔ آگے سمجھ آنے کے بعد جو اس کا قول ہوگا اس کا بیان ہے کہ وہ) کہے گا کاش میں اس زندگی (اخروی) کے لئے کوئی (نیک) عمل آگے بھیج لیتا پس اس روز نہ تو خدا کے عذاب کی برابر کوئی عذاب دینے والا نکلے گا اور نہ اس کے جکڑنے کے برابر کوئی جکڑنے والا نکلے گا (یعنی ایسی سخت سزا اور قید کرے گا کہ دنیا میں کبھی کسی نے کسی کو نہ اتنیھ سخت سزا دی ہوگی نہ ایسی سخت قید کی ہوگی یہ سزا تو ان لوگوں کی ہوگی جو اعمال عذاب کے مرتکب ہوئے اور جو اللہ کے فرمانبردار تھے ان کو ارشاد ہوگا کہ) اے اطمینان والی روح (یعنی جس کو امر حق میں یقین واذعان تھا اور کسی طرح کا شک و انکار نہ تھا اور تعبیر روح سے بااعتبار جزء اشرف کے ہے) تو اپنے پروردگار (کے جوار رحمت) کی طرف چل اس طرح سے کہ تو اس سے خوش اور وہ تجھ سے خوش، پھرا (ادھر چل کر) تو میرے (خاص) بندوں میں شامل ہوجا (یہ بھی نعمت روحانی ہے کہ انس اور وہ تجھ سے خوش، پھر (ادھر چل کر) تو میرے (خاص) بندوں میں شامل ہوجا ( یہ بھی نعمت روحانی ہے کہ انس کے لئے احباب سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں) اور میری جنت میں داخل ہوجا (لفظ مطمئنہ میں ان لوگوں کے اعمال حسنہ کی طرف اشارہ ہوگیا اور اعمال حسنہ کی طرف اشارہ اور اعمال عذاب کی تفصیل بیان فرمانا شاید اس لئے ہے کہ زیادہ مقصود یہاں اہل مکہ کو سنانا ہے اور اس وقت وہاں ایسے اعمال کے مرتکب زیادہ تھے) معارف ومسائل اس سورت میں پانچ چیزوں کی قسم کھا کر اس مضمون کی تاکید کی گئی ہے جو آگے ان ربک لبا لمرصاد میں بیان ہوا ہے یعنی اس دنیا میں تم جو کچھ کر رہے ہو اس پر جزاء و سزا ہونا لازمی اور یقینی ہے تمہارا رب تمہارے سب اعمال کی نگرانی میں ہے خواہ اسی جملے ان ربک لبالمرصاد کو جواب قسم کہا جائے یا مخدوف قرار دیا جائے۔ وہ پانچ چیزیں جن کی قسم کھائی ہے ان میں پہلی چیز فجر یعنی صبح صادق کا وقت ہے۔ ہو سکتا ہے کہ مراد ہر روز کی صبح ہو کر وہ عالم میں ایک انقلاب عظیم لاتی ہے اور حق تعالیٰ شانہ کی قدرت کاملہ کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ الفجر کے الف لام کو عہد کا قرار دے کر اس سے کسی خاص دن کی فجر مراد ہو مفسرین صحابہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ حضرت ابن عباس ابن زبیر سے پہلے معنے یعنی عام وقت فجر کسی روز کا ہو منقول ہے اور حضرت ابن عباس کی ایک روایت میں اس سے مراد ماہ محرم کی پہلی تاریخ کی فجر ہے جو اسلامی قمری سال کا آغاز ہے۔ حضرت قتادہ نے بھی یہی تفسیر کی ہے۔ اور بعض حضرات مفسرین نے ذی الحجہ کی دسویں تاریخ یعنی یوم النحر کی صبح اس کی مراد قرار دی ہے۔ مجاہد و عکرمہ کا یہی قول ہے اور حضرت ابن عباس سے بھی ایک روایت میں یہ قول منقول ہے وجہ اس یوم النحر کی تخصیص کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر دن کے لئے ایک رات ساتھ لگائی ہے جو اسلامی اصول کے مطابق دن سے پہلے ہوتی ہے صرف یوم النحر ایسا دن ہے کہ اسکے ساتھ کوئی رات نہیں کیونکہ یوم النحر سے پہلے جو رات ہے وہ یوم النحر کی نہیں بلکہ شرعاً عرفہ ہی کی رات قرار دی گئی ہے یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی حج کرنے والا عرفہ کے دن میدان عرفان میں نہ پہنچ سکا رات کو صبح صادق سے پہلے کسی وقت بھی عرفات میں پہنچ گیا تو اس کا وقوف معتبر اور حج صحیح ہوجاتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ روز عرفہ کی دو راتیں ہیں ایک اس سے پہلے دوسری اسکے بعد اور یوم النحر کی کوئی رات نہیں، اس لحاظ سے صبح یوم النحر تمام ایام دنیا میں ایک خاص شان رکھتی ہے (قرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالْفَجْرِ۝ ١ ۙ فجر الْفَجْرُ : شقّ الشیء شقّا واسعا كَفَجَرَ الإنسان السّكرَيقال : فَجَرْتُهُ فَانْفَجَرَ وفَجَّرْتُهُ فَتَفَجَّرَ. قال تعالی: وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر/ 12] ، وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف/ 33] ، فَتُفَجِّرَ الْأَنْهارَ [ الإسراء/ 91] ، تَفْجُرَ لَنا مِنَ الْأَرْضِ يَنْبُوعاً [ الإسراء/ 90] ، وقرئ تفجر . وقال : فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتا عَشْرَةَ عَيْناً [ البقرة/ 60] ، ومنه قيل للصّبح : فَجْرٌ ، لکونه فجر اللیل . قال تعالی: وَالْفَجْرِ وَلَيالٍ عَشْرٍ [ الفجر/ 1- 2] ، إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كانَ مَشْهُوداً [ الإسراء/ 78] ، وقیل : الفَجْرُ فجران : الکاذب، وهو كذَنَبِ السَّرْحان، والصّادق، وبه يتعلّق حکم الصّوم والصّلاة، قال : حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيامَ إِلَى اللَّيْلِ [ البقرة/ 187] . ( ف ج ر ) الفجر کے معنی کسی چیز کو وسیع طور پر پھا ڑ نے اور شق کردینے کے ہیں جیسے محاورہ ہے فجر الانسان السکری اس نے بند میں وسیع شکاف ڈال دیا فجرتہ فانفجرتہ فتفجر شدت کے ساتھ پانی کو پھاڑ کر بہایا قرآن میں ہے : ۔ وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر/ 12] اور زمین میں چشمے جاری کردیئے ۔ وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف/ 33] اور دونوں میں ہم نے ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی اور اس کے بیچ میں نہریں بہا نکالو ۔ تَفْجُرَ لَنا مِنَ الْأَرْضِ يَنْبُوعاً [ الإسراء/ 90] جب تک کہ ہمارے لئے زمین میں سے چشمے جاری ( نہ) کردو ۔ اور ایک قرآت میں تفجر ( بصیغہ تفعیل ) ہے ۔ فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتا عَشْرَةَ عَيْناً [ البقرة/ 60] تو پھر اس میں سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے ۔ اور اسی سے صبح کو فجر کہا جاتا ہے کیونکہ صبح کی روشنی بھی رات کی تاریکی کو پھاڑ کر نمودار ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَالْفَجْرِ وَلَيالٍ عَشْرٍ [ الفجر/ 1- 2] فجر کی قسم اور دس راتوں کی ۔ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كانَ مَشْهُوداً [ الإسراء/ 78] کیونکہ صبح کے وقت قرآن پڑھنا موجب حضور ( ملائکہ ) ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ فجر دو قسم پر ہے ایک فجر کا ذب جو بھیڑیئے کی دم کی طرح ( سیدھی روشنی سی نمودار ہوتی ہے دوم فجر صادق جس کے ساتھ نماز روزہ وغیرہ احکام تعلق رکھتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيامَ إِلَى اللَّيْلِ [ البقرة/ 187] یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری رات کی ) سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے پھر روزہ ( رکھ کر ) رات تک پورا کرو

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

یہ پوری سورت مکی ہے اس میں تیس آیات اور ایک سو انتالیس کلمات اور پانچ سو ستانوے حروف ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١{ وَالْفَجْرِ ۔ } ” قسم ہے فجر کی۔ “ سورة الفجر کی ابتدائی آیات قسموں کے حوالے سے مشکلات القرآن میں سے ہیں اور ان کے بارے میں متعدد اقوال ہیں۔ بہرحال اس پہلی آیت کے بارے میں عام رائے یہ ہے کہ اس سے ١٠ ذی الحجہ کی فجر مراد ہے جس کے بعد قربانی ہوتی ہے اور یہ دن مناسک ِحج کے حوالے سے بنیادی اور خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١۔ ١٤۔ دس راتوں اور طاق اور جفت کی تفسیر اگرچہ سلف نے طرح طرح سے کی ہے لیکن امام المفسرین ٢ ؎ حضرت عبد اللہ بن عباس اور ابن زبیر (رض) اور مجاہد اور اکثر سلف کا قول یہی ہے کہ دس راتوں سے مراد ماہ ذی الحجہ کی اول کی دس راتیں ہیں یہی قول زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے کیونکہ مسند ٣ ؎ امام احمد نسائی و مستدرک حاکم بیہقی وغیرہ میں حضرت جابر (رض) کی مرفوع روایت میں یہی تفسیر آچکی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان دس راتوں سے مراد شروع ذی الحجہ کی دس راتیں ہیں۔ حاکم نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے اور طاق اور جفت کی تفسیر میں یہ قول صحیح معلوم ہوتا ہے کہ طاق اور جفت سے مراد طاق اور جفت نمازیں ہیں جیسے مغرب اور عشاء ‘ کیونکہ مسند امام احمد ترمذی ٥ ؎ ابو داؤود اور مستدرک حاکم وغیرہ میں مرفوع اور موقوف روایتوں میں یہی تفسیر آچکی ہے۔ بعض مفسروں نے یہ جو اعتراض کیا ہے کہ اس روایت کی سند میں ایک راوی مبہم ہے اس کا جواب حافظ ١ ؎ ابن کثیر نے دے دیا ہے کہ وہ راوی عمران بن عصام ضبعی ہے۔ چناچہ ابن ابی حاتم نے اپنی تفسیر کی سند میں اس کی صراحت کردی ہے اور اس عمران بن عصام کو ابن ٢ ؎ حبان نے ثقہ راویوں میں شمار کیا ہے اور قتادہ (رض) نے ان عمران کو اپنا استاد قرار دیا ہے بعض مفسروں نے اس سورة کی تفسیر میں شہر ارم کا جو قصہ لکھا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ معاویہ کے زمانہ میں عبد اللہ بن قلابہ ایک شخص نے اس شہر کو جا کر دیکھا ہے۔ اس قصہ کی سند صحیح نہیں ہے اور معتبر مفسرین نے اس قصہ کو نامعتبر ٹھہرایا ہے۔ ٣ ؎ صحیح تفسیر یہی ہے کہ عاد بن ارم عاد اولیٰ حضرت ہود کی امت کا نام ہے۔ غرض ارم قبیلہ کا نام ہے کسی شہر کا نام نہیں ہے عاد اولیٰ اسی قبیل ارم کو کہتے ہیں اور عاد ثانی ثمود کو اور یہ دونوں ارم کی طرف نسبت کئے جاتے ہیں واللیل اذا یسر کا یہ مطلب ہے کہ جب کچھ رات آجائے۔ حجر کے معنی عقل کے ہیں ذات العماد سے مراد دراز قد ہے کیونکہ ان میں ہر شخص بارہ گز کے قد کا ہوتا تھا۔ ابی بن کعب کی قرأت میں لم یخلق مثلھم فی البلاد ہے اس کے موافق لم یخلق مثلھا فی البلاد کے معنی یہ ہیں کہ قبیلہ ارم کے مانند کوئی قبیلہ قوت اور زور میں پیدا نہیں ہوا۔ یا عماد کے معنی ان ستونوں اور مناروں کے ہیں جو یہ لوگ بلند مقاموں پر اپنے نام کے لئے بناتے تھے اس صورت میں لم یخلق مثلھا فی البلاد کے معنی یہ ہوں گے کہ اس قبیلہ جیسے مضبوط ستون اور منارے کسی شہر میں کسی قوم نے نہیں بنائے۔ ثمود حضرت صالح کی قوم کا نام ہے یہ لوگ سنگ تراشی کے بڑے ماہر تھے پتھروں کو تراش تراش کے انہوں نے بہت سی عمارتیں بنائیں۔ وادی سے مراد وادی القریٰ ہے جو ملک شام کی طرف ہے فرعون بڑا صاحب لشکر تھا خیموں کی میخیں کثرت سے اس کے لشکر کے ساتھ رہتی تھیں اس لئے اس کو میخوں والا فرمایا سخت آندھی سے عاد اور سخت آواز سے ثمود کو اللہ تعالیٰ نے غارت کیا اور فرعون مع اپنے لشکر کے ڈوب کر مرا۔ ان عذابوں کو کوڑا اس لئے فرمایا کہ گویا بہ نسبت عذاب آخرت کے یہ عذاب ایسے ہیں کہ جس طرح کسی کو چند کوڑے مار دے اوپر کی قسموں کے بعد جو کچھ فرمایا اس کا حاصل مطلب یہ ہے کہ ہر ایک کا عمل اللہ کی نگاہ میں ہے جس طرح ان پچھلی قوموں کی سرکشی ان آگے آئی۔ قریش اگر اپنی کرتوتوں سے باز نہ آئے تو ایک دن یہی نتیجہ ان کے آگے آنے والا ہے اور قریش کے صاحب عقل لوگوں کے لئے یہ فہمایش ایسی یقینی ہونی چاہئے کہ اس سے بڑھ کر کوئی یقینی بات ہو نہیں سکتی کیونکہ اللہ نے اس مطلب کو قسم کھا کر فرمایا ہے۔ اللہ سچا ہے اللہ کا وعدہ سچا ہے بدر کی لڑائی سے لے کر فتح مکہ تک قریش کے نافرمان لوگوں کے سامنے جو آیا وہ ظاہر ہے۔ ٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٥٠٥ ج ٤ ٣ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٥٠٥ ج ٤‘ تفسیر الدر المنثور ص ٣٤٥ ج ٦ ٤ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ٣٤٥ ج ٦ ٥ ؎ جامع ترمذی۔ تفسیر سورة الفجر ص ١٩٢ ج ٢۔ ١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٥٠٦ ج۔ ٢ ؎ ایضاً ٣ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٥٠٨ ج ٤۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(89:1) والفجر واؤ قسمیہ ہے الفجر مقسم بہٖ ۔ الفجر سے کیا مراد ہے اس میں کئی اقوال ہیں :۔ (1) الفجر : سے مراد روز کی فجر مراد ہے (ابن عباس، عکرمہ (رض) (2) اس سے مراد نماز فجر ہے (عطیہ (رض) (3) اس سے مراد محرم کے پہلے دن کی فجر مراد ہے۔ اسی سے دنیا کا سال پھوٹتا ہے۔ (قتادہ) (4) اس سے مراد ماہ ذوالحجہ کی پہلی تاریخ کی فجر ہے کیونکہ اس سے ذوالحجہ کی دس راتیں (ابتدائی عشرہ) متصل ہے۔ (ضحاک)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 صبح سے مراد ہر صبح ہے یا خاص یکم محرم کی صبح کیونکہ اس سے سال کی ابتدا ہوتی ہے یا یکم ذی الحجہ کی صبح کیونکہ اس سے ان دس راتوں کی ابتدا ہوتی ہے جن کا ذکر بعد کی آیت میں آرہا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

سورة الفجر۔ آیات ١ تا ٣٠۔ اسرار ومعارف۔ قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی اور جفت اور طاق کی اور رات کی جب وہ چلنے لگے یعنی طلوع فجر اور ذی الحج کی دس راتیں پھر یوم عرفہ جس روز لوگ کفن پہنے عرفات میں ہوتے ہیں اور جفت یعنی دس ذی الحج جب لوگ قربانی کرتے ہیں اور جب رات ڈھل چکی ہوتی ہے جانے والی ہوتی ہے کہ فجر بھی ایک عظیم انقلاب ہے جو ہر لمحہ دنیا پر بپا ہورہا ہے لوگ نیندار سے بیدار ہو کر کاروبار حیات میں مصروف ہوجاتے ہیں اور ذی الحج کی دس راتیں یعنی عشرہ ذی الحج کہ قبل اسلام بھی لوگ حج کے نام پر رسومات ادا کرتے اور ظہور اسلام پر توکفن پہنے بیشمار اللہ کی مخلوق عمرے کررہی ہوتی ہے اور رات اور دن کا فرق مٹ جاتا ہے پھر عرفات میں حضور اور قربانی کا دن یہ سب ایک عظیم فضیلت بھی رکھتے ہیں اور اپنے اس ھال کے باعث جو ان لوگوں کا عبادت کے حوالے سے ہوتا ہے صاحب عقل کے لیے بہت بڑی شہادت ہے کہ زندگی کا انجام موت اور پھر آخرت کی حاضر ی جیسے رات ڈھل رہی ہو دنیا کی عمر بیت رہی ہو اور ہر لمحہ آخرت کے قریب تر کررہا ہے پھر اے مخاطب برائی کا انجام تو دنیا میں بھی بہت برا ہوا کیا تو نے عاد ارم یعنی پہلی قوم عاد جن کے جوان ستونوں جیسے تھے اور جن جیسی کوئی دوسری قوم پیدا نہیں کی گئی کا حال نہیں سنا۔ ثمود بھی عاد سے ارم پر جاکرمل جاتے ہیں انہیں عاد ثانی کہا گیا ہے اور یہ بھی مفسرین کرام نے نقل فرمایا کہ عاد اولی میں بادشاہ شداد بن عاد نے جنت بنائی تھی جو بـڑے بڑے ستونوں پر قائم سونے چاندی سے بنائی گئی اور ہیرے جواہرات جڑے تھے کہ لوگ مجھے اپنا معبود بناکر میری جنت حاصل کریں اس جنت کا نام ارم تھا مگر جب مکمل ہوئی اور سرداروں کے جلو میں دیکھنے کے لیے گیا تو جنت سمیت سب ہلاک ہوگئے اور پھر ان کے بعد ثمود کا بھی باعث عبرت حال ہے بہت طاقتور ذہین اور کاریگرلوگ تھے کہ پہاڑوں کو تراش کر شہروں میں بدل ڈالا جن کے آثار ابھی تک ملتے ہیں۔ باغیانہ دستور ملک عاد ، ثمود اور فرعونوں کا طریقہ تھا۔ فرعون جو اس قدر بگڑا ہوا تھا کہ جس پہ خفا ہوتا اس کے ہاتھ پاؤں میں بڑے بڑے کیل گڑوا دیتا اور اس پر سانپ بچھو چھوڑ دیتا ان لوگوں نے ملکوں میں اور ملکی آئین میں ودستور میں اللہ سے بغاوت کی اور اپنی پسند کے ظالمانہ طریقوں کو اختیار کیا جس کے نتیجے میں ہر طرف فساد بپا ہوئے اور لوگوں کی جان ومال اور آبرولٹتی رہیں پھر ان پر عذاب الٰہی کا کوڑا برسا کہ تیرا پروردگار ہر شے پر نگاہ رکھے ہوئے ہے چندے مہلت ملتی ہے وہ بھی اس لیے کہ بندہ توبہ کرلے اور اصلاح کی راہ اختیار کرے لیکن ایک حد پہنچ کر ظلم کو عذاب الٰہی سے دوچار ہونا پڑتا ہے اللہ کے آزمانے کے بھی اپنے اپنے انداز ہیں کبھی تو انسان پر رزق عام کردیتا ہے اور اسے اقتدارواختیار عطا کرتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ میری قابلیت و لیاقت اور دانش مندی کے باعث اللہ نے مجھے یہ مرتبہ عطا کیا ہے کہ اور کبھی اس کی آزمائش کے لیے روزی تک تنگ کردی جاتی ہے تو بڑا خفا ہوتا ہے کہ میرے ساتھ اللہ زیادتی کررہا ہے بھلا میں نے اللہ کا کیا بگاڑا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں اپنی قابلیت کے باعث بہتر سلوک کا حق دار تھا ، یہ رویہ کفارومشرکین کا تھا مگر افسوس آج کل اکثر مسلمانوں کی سوچ بھی ایسی ہی ہے۔ اقتدار واختیار یابھوک و افلاس معیار مقبولیت نہیں۔ جبکہ معیار مقبولیت یہ نہیں بلکہ یہ ہے کہ ہر حال میں اللہ کا شکر کرنا نصیب ہوا اور اس کی اطاعت پہ کمربستہ رہے ، حالانکہ ان کا حال یہ تھا کہ یتیم ومجبور کو تو انسان سمجھنے کو تیار نہ تھے گویا کہ کمزور کی صرف مدد کرنا یایتیم کو زکوۃ دے دینا ہی سب کچھ نہیں اسے عزت وآبرو دنیا بھی اور اس کا اکرام بھی ضروری ہے اور جس قدر اختیار ہوتا توغریبوں اور محتاجوں کے حقوق ادا کرنے کی کوشش نہ کرتے یا بعض اوقات خود کسی کو کچھ دینے کے قابل نہ ہوں تو دوسروں کو ترغیب ہی دیں گے اور اگر خود صاحب اقتدار واختیار ہوں تو لوگوں کے حقوق چھین کر اپنی عیاشی کا سامان کرتے ہیں اور میراث پر نظر رکھتے اور لوٹ لوٹ کر جمع کرتے رہتے تھے کہ لوگوں کی موت ان کے لیے سامان عبرت نہ تھی بلکہ مرنے والے کا مال لوٹنے کی فکر زیادہ کرتے اور زندگی بھر صرف لوٹ لوٹ کر جمع کرنے ہی کو محبوب رکھا اور حلال و حرام کی پرواہ کیے بغیر مال جمع کیا پھرا س میں سے کسی کو کچھ بھی نہ دیا اور اسی کی محب کے اسیر رہے لیکن ایک وقت آنے والا ہے جب زمین پھٹ کر اور پہاڑ آپس میں ٹکڑا ٹکڑا کر تباہ ہوجائیں گے اور آسمان پھٹ جائیں گے دربار الٰہی سجے گا اور فرشتے فوج درفوج حاضر ہوں گے اور میدان حشر میں دوزخ کو لاکرسامنے کردیاجائے گا تب ہر آدمی کو سمجھ آجائے گی یہ کس قدر خوفناک ہے اور اس سے بچنا کتنا ضروری تھا مگر نصیحت سے فائدہ حاصل کرنے کا وقت تو گزرچکا ہوگا کہ یہ کام تو دنیا میں کرنے کا تھا جو دارالعمل تھی اب تو دار جزا میں ہو جو کیا ہے اس کا بدلہ ملے گا تو انسان کہے گا اے کاش میں نے اس آخرت کی حقیقی اور دائمی زندگی کے لیے نیک اعمال کرلیے ہوتے یہ سب اس لیے ارشاد فرمایا جارہا ہے کہ کتاب اللہ سے یہ حقائق سن کر لوگ جو دنیا میں ہیں عبرت حاصل اور آخرت کی فکر کرلیں کہ اس روز اللہ کا عذاب ایسا ہوگا جیسا کسی نے سوچا بھی نہ ہوگا اور اسکی گرفت اس قدر مضبوط ہوگی کہ کسی کے نکل بھاگنے کا کوئی تصور نہ ہوگا۔ ذکر اللہ کی برکات۔ دوسری جانب اللہ کے ان بندوں کو جنہوں نے ذکر الٰہی اور مجاہدات سے اپنے نفس کو اس مقام پر پہنچایا کہ اللہ کی یاد سے اطمینان و سکون پاتا اور اللہ کی نافرمانی باعث بےقراری بن جاتی ذکر اللہ جس کا مزاج اور شریعت اس کی طبیعت ثانیہ ہوگئی کہ ارشاد ہوگا کہ میرے خاص بندوں میں شامل ہوکرمیری جنت میں داخل ہوجا۔ صحبت صالح۔ گویاصحبت صالح اور اللہ کے نیک بندوں کا ساتھ جنت میں داخلے اور اللہ کی رضا کی ضمانت ہے کہ دنیا میں بھی نصیب ہو اور آخرت میں بھی نصیب ہوکردائمی راحمت کے گھر میں داخلے کا باعث ہوگی۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن۔ لیال عشر۔ دسرراتیں۔ الشفع۔ جفت عدد۔ الوتر۔ طاق عدد۔ ذی حجر۔ عقل والے۔ ذات المعاد۔ ستونوں والے۔ جابوا۔ تراشے۔ کاٹے۔ ذی الاوتاد۔ میخوں والا۔ صب۔ ڈال دیا۔ سوط۔ کوڑا۔ المرصاد۔ گھات میں ہے۔ اھانن۔ مجھے ذلیل کردیا۔ لا تکرمون ۔ تم عزت نہیں کرتے۔ التراث۔ میراث۔ اکلا لما۔ سب سمیٹ کر کھانا۔ حبا جما۔ بہت زیادہ محبت۔ دکت۔ کوٹ ڈالی گئی۔ النفس المطمئنۃ۔ اطمینان و سکون والا نفس۔ تشریح : اس دنیا میں ہر لمحہ انقلاب بپا ہے۔ کروڑوں سال سے رات دن، صبح اور شام کا آناجانا، چاند، سورج ، ستاروں کا نکلنا، ڈوبنا، غائب ہوجانا اور پھر سے ابھر کر پوری آب و تاب سے نکلنا، اسی طرح قوموں کا عروج وزوال ہر ابتداء کی انتہاہر شخص اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور اس بات کا کسی حد تک اقرار بھی کرتا ہے کہ یہ پورا نظام کائنات کسی ہستی کے تابع ہے جو اسکو ایک تسلسل کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہے۔ جب ہر شروع ہونے والی چیز آخر کار ختم ہوجاتی ہے تو یہ کائنات بھی ایک دن اپنے انجام کو پہنچ جائے گی اور ختم ہوجائے گی۔ لیکن اس کے ختم ہونے کے بعد کیا ہوگا ؟ یہ ایک حرف سوال ہے۔ اس سوال کا جواب تلاش کرتے کرتے بہت سی قومیں اپنا راستہ بھلا بیٹھیں اور انہوں نے اس کو ایک ایسا معمہ بنا دیا جو ” سمجھنے کا نہ سمجھانے کا “۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بار بار مختلف انداز سے اس بات کو سمجھایا اور یقینی بات ہونے کی وجہ سے قسمیں کھا کر بتایا ہے کہ اس کائنات کا یہ چلتا ہوا نظام ختم ہوجائے گا۔ کائنات کی ابتداء سے انتہا تک جتنے لوگ آئے ہیں ان سب کو زندہ کرکے ایک میدان میں جمع کیا جائے گا اور ان سے زندگی بھر کے کاموں کا حساب لیاجائے گا۔ جنہوں نے اس خالق کائنات کے احکامات کو ماننے سے انکار کرکے بدعملی اور گناہ کی زندگی اختیار کی ہوگی ان کا بدترین انجام ہوگا اور جنہوں نے اللہ کی رضا و خوشنودی، تقویٰ ، پرہیزگاری اور نیکیوں میں زندگی گزاری ہوگی ان کو ان کے اعمال کے حساب سے جنت کی راحتیں عطا کی جائیں گی۔ اس کا نام قیامت ہے جس کے آنے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قوموں کے عروج وزوال سے پہلے اس فجر کی قسم کھائی ہے جس کے آنے کے بعد پوری کائنات میں ایک ہلچل مچ جاتی ہے۔ فجر یعنی جب ایک اندھیری رات کے بعد صبح کو پو پھٹی ہے تو ہر ایک مخلوق اپنے رزو کی تلاش میں بھاگ دوڑ شروع کردیتی ہے۔ کوئی رزق کمانے کی فکر لے کر، کوئی عبادت و بندگی اور کوئی علم کی تلاش میں نکل پڑتا ہے۔ پرندے اور ہر طرح کے جان دار اپنے گھونسلوں اور بلوں سے نکل کر اپنے رزق کو حاصل کرنے کے لئے باہر آجاتے ہیں اور دن بھر محنت و مشقت اٹھانے کے بعد رات کو پھر اپنے اپنے ٹھکانوں کو لوٹ جاتے ہیں۔ فجر کی قسم کے بعد اللہ تعالیٰ نے دس راتوں کی قسم کھائی ہے۔ احادیث میں ان دس راتوں سے مراد ذی الحجہ کی دس راتیں ہیں کیونکہ ان دس راتوں کی احادیث میں بہت سی فضیلتیں آئی ہیں۔ اس کے ایک ان کا روزہ ثواب کے اعتبار سے ایک سال کے روزوں کے برابر ہے جس کی ہر رات شب قدر کی طرح محترم ہے۔ (ترمذی) ۔ یہ دس دن حجاج کرام کے لئے خاص طور پر بڑے ہی انقلابی اور جذباتی ہوتے ہیں۔ ذی الحجہ کی پہلی تاریخ ہی سے ہر حاجی پر ایک خاص کیفیت طاری ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ اس کے ہر عمل میں ایک خاص جوش و کروش پیدا ہوجاتا ہے اور ہر طرف ایک عجیب سی چہل پہلی شروع ہوجاتی ہے۔ یہ کیفیات بڑھتی چلی جاتی ہیں یہاں تک کہ منیٰ کی پر نور راتوں کے بعد جب 9 ذی الحجہ یعنی عرفہ کا دن شروع ہوجاتا ہے تو ہر ایک آنکھ آنسوؤں سے تر ہوجاتی ہے۔ ہر شخص ساری دنیا سے بےپرواہ اپنے اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا نظر آتا ہے۔ لاکھوں حاجیوں پر جب نظر پڑتی ہے تو بادشاہ ہو یا ایک عام آدمی، سرمایہ دار ہو یا غریب سب ایک ہی لباس میں ہر طرف موتیوں کی طرح بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سب کا لباس ایک، جذبہ ایک اور نعرہ ایک لبیک اللھم لبیک۔ میدان عرفات سے جب تمام حاجی مزدلفہ میں کھلے آسمان کے نیچے اللہ کی یاد میں مشغول نظر آتے ہیں تو ایک قیامت کا منظر ہوتا ہے۔ دس ذی الحج کو جب یوم الخر شروع ہوتا ہے تو ہر ایک حاجی ایک نئے جذبے سے سرشار ہوتا ہے۔ اس دن کوئی شیطان سے نفرت کے اظہار کے لئے کنکریاں مارتا نظر آتا ہے، کوئی جانوروں کو ذبح کر رہا ہے، کوئی سر کے بال منڈوا رہا ہے ، کوئی طواف زیارت کی طرف سے بےتابانہ بڑھاچلا جا رہا ہے۔ چشم تصور سے دیکھا جائے تو چاروں طرف سروں کا ایک سمندر ہوتا ہے اور کسی کو کسی کا ہوش نہیں ہوتا۔ فرمایا کہ حاجیوں کی ان اداؤں کی قسم ایک دن وہ آنے والا ہے جب اسی طرح ساری کائنات کے اولین وآخرین اللہ کے سامنے ہوں گے اور ہر طرف ایک ہنگامہ بپا ہوگا۔ تین نافرمان قوموں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ قومیں وہ ہیں جنہوں نے اپنی نافرمانیوں کی وجہ سے اللہ کے غضب کو دعوت دی اور پھر ان پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ قوم عاد، قوم ثمود اور قوم فرعون اپنے زمانہ میں قوت و طاقت، حکومت و سلطنت، مال و دولت، عیش آرام کے اسباب ، تن اور قد کی لمبائیاں وہ کون سی نعمت تھی جو اللہ نے ان کو اور دنیا کی تمام قوموں کو عطا نہیں کی تھی۔ لیکن جب کوئی قوم اللہ و رسول کی نافرمانیوں کی انتہا کردیت ہیں تو اس کو صفحہ ہستی سے مٹا کر نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) جیسے عظیم پیغمبر کی اولاد میں سے ارم تھا۔ اس کی اولاد میں عاد اور ثمود کے نام سے دو قومیں وجود میں آئیں۔ قوم عاد جو دنیا کی عظیم سلطنت اور قوت و طاقت اور خوشحالی کے مالک تھے جو نہایت تندرست، صحت مند اور ستونوں کی طرح لمبے چوڑے تھے۔ ان کی ترقی کا یہ عالم تھا کہ وہ چاروں طرف سے مال و دولت حاصل کر رہے تھے۔ انتہائی ترقی یافتہ لیکن ان کی دولت مندی اور ترقی نے ان کو غرور وتکبر کا پیکر بنا کر رکھ دیا تھا۔ بدکاری، عیاشی، کمزوروں پر ظلم وستم کرنا ان کا مزاج بن چکا تھا۔ وہ اپنے علاوہ دنیا کی ہر قوم کو حقیر و ذلیل سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ ہماری قوت و طاقت اتنی زبردست ہے کہ اس کا کوئی قوم مقابلہ نہیں کرسکتی۔ جب انکی نافرمانیاں اور غرور وتکبر انتہا کو پہنچ گیا تو اللہ نے ان کو آخری موقع دینے کیلئے حضرت ہود (علیہ السلام) کو اپنا پیغمبر بناکر بھیجا۔ حضرت ہود (علیہ السلام) نے اس قوم کو ان کی نافرمانیوں پر ٹوکا اور اپنے اعمال کی اصلاح کی طرف بلایا تو پوری قوم حضرت ہود (علیہ السلام) کو نیچاے دکھانے پر تل گئی اور انکی ہر بات کا انکار کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے انکی نافرمانیوں کی وجہ سے ان پر اپنا شدید ترین عذاب نازل کرکے تہس نہس کردیا۔ قوم عاد کی تباہی سے جو لوگ بچ گئے تھے ان کی نسل بڑھنا شروع ہوئی تو انہوں نے بھی اتنی زبردست ترقی کی کہ مقام حجر سے وادی القریٰ (حجاز اور شام کے درمیان) تک پھیلنا شروع کیا اور ایک ہزار سات سو بستیوں پر کنٹرول حاصل کرلیا۔ یہ قوم ثمود تھی۔ انہوں نے بےانتہا محنت سے اپنے ملک و قوم کو ترقی دی۔ دنیا کی پہلی قوم تھی جس نے پہاڑوں کو کاٹ کر ان میں سے ایسی خوبصورت مکانات، محلات اور حویلیاں تعمیر کیں جن کے کھنڈرات آج بھی حیرت میں ڈال دینے والے ہیں۔ لیکن اس قوم کی ترقیات کو جو چیز گھن کی طرح کھا گئی وہ ان کا غرور وتکبر، اپنی دولت پر بےجا فخر، بت پرستی اور اخلاق و کردار کی گراوٹ تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو بھی ایک موقع دیتے ہوئے حضرت صالح (علیہ السلام) کو اپنا پیگمبر بنا کر بھیجا۔ جب حضرت صالح (علیہ السلام) نے ان کو سمجھایا کہ اگر انہوں نے بت پرستی، غرور وتکبر اور اپنے بگڑے ہوئے اخلاق کی اصلاح نہ کی تو جو انجام قوم عاد کا ہوا ہے تمہارا انجام اس سے مختلف نہ ہوگا۔ پوری قوم نے انتہائی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کا مذاق اڑایا اور اپنی حکومت و سلطنت اور طاقت وقوت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس انجام دے دور چار نہیں ہوسکتے۔ ایک مرتبہ انہوں نے یہاں تک فرمائش کردی کہ اے صالح (علیہ السلام) ! تمہارے پاس کیا دلیل ہے کہ تم اللہ کی طرف سے بھیجے گئے ہو ؟ اگر تم سچے ہو تو یہ سامنے جو چٹان ہے اس میں سے اگر ایک گابھن اونٹنی نکل کر آئے اور ہمارے سامنے وہ بچہ پیدا کرے تو ہم سمجھیں گے کہ تم اللہ کی طرف سے بھیجئے گئے ہو۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے اللہ سے دعا کی۔ چناچہ اس پہاڑی سے گابھن اونٹنی نکلی اس نے بچہ دیا ۔ اتنے بڑے معجزے کے باوجود کچھ لوگوں کے سوا اس قوم نے حضرت صالح (علیہ السلام) پر ایمان لانے کے ہزاروں بہانے ڈھونڈ نکالے اور وہ دولت ایمان سے محروم رہے۔ جب اس قوم نے نافرمانیوں کی انتہا کردی تو اللہ نے ان پر بھی اس طرح عذاب نازل کیا کہ اس قوم کا کوئی فرد بچ نہ سکا اور اس طرح اللہ کی نافرمان قوم اپنے بدترین انجام کو پہنچ گئی۔ قوم فرعون کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ میخوں والے فرعون کے ساتھ کیا معاملہ کیا جس نے ہر طرف تباہی مچا رکھی تھی۔ اس کا یہ حال تھا کہ جہاں اس کا لشکر جاتا وہ اتنا بڑا لشکر ہوتا تھا کہ بڑے سے بڑے میدان میں جیسے میخیں ہی میخیں گڑی ہوئی ہیں یا جب وہ کسی کو سزادیتا تو اس کے چاروں ہاتھ پاؤں میخوں سے جکڑ دیتا غرضیکہ ملک میں ہر طرف فرعون اور اس قوم کا ظلم و ستم اور اللہ کی نافرمانی انتہا کو پہنچ گئی تھی۔ تب اللہ نے اس کی اصلاح کے لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور انکے بھائی حضرت ہارون (علیہ السلام) کو معجزات دے کر بھیجا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے تبلیغ اور معجزات کے ذریعہ اس کو ہر طرح سمجھناے کی کوشش کی مگر وہ اپنے غرور وتکبر اور حکومت و سلطنت پر ناز کرنے کی وجہ سے حضرت موسیٰ کی ہر بات کو نیچا دکھانے کے لئے اپنی قوم کو یقین دلاتا تھا کہ موسیٰ ایک جادوگر ہیں جو اپنے جادو کے زور سے اس سلطنت پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ آخر کار اللہ کا فیصلہ آگیا۔ فرعون اور آل فرون کو سمندر میں غرق کرکے اس طرح مٹا دیا گیا کہ اس قوم اور سلطنت کو جود تک مٹ گیا اور اللہ نے فرعون کے جسم کو باقی رکھ کر عبرت کا نشان بنا دیا۔ وہی فرعون جو اپنے آپ کو رب اعلیٰ کہلاتا تھا اور عظیم سلطنت کے ذریعہ حکمرانی کرتا تھا آج اس کا لاشہ یعنی مردہ جسم ایک ڈبے میں بندنمائش کے لئے رکھا ہوا ہے اور اس کی بےبسی کا ماتم کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان تین عظیم الشان سلطنوں اور انکی نافرمان قوموں کو تباہ کرکے دنیا کو بتا دیا کہ دنیا میں کسی ظالم و جابر کو فلاح نہیں مل سکتی۔ فرمایا کہ جب ظالم مظلوموں پر ظلم کرتا ہے تو اس وقت وہ اس بات کو بھول جاتا ہے کہ اس پر اللہ کا کوڑا بھی برس سکتا ہے۔ وہ تو اپنے مال و دولت اور سلطنت پر ناز کرتے ہوئے یہ کہتے نہیں تھکتا کہ اگر میں محنت نہ کرتا تو آج میں اس طرح عیش کے ساتھ زندگی نہ گزار سکتا۔ ذرا سی دولت پر وہ اترانے لگتا ہے اور اگر اس پر تنگ دستی یا مال و دولت میں کمی آجاتی ہے تو وہ شکرے کرتے ہوئے کہنے لگتا ہے کہ مجھے تو ساری دنیا میں اللہ نے ذلیل و خوار کر کے رکھ دیا ہے وہ سب کی سنتا ہے میری ہی نہیں سنتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ کسی کو ذلیل و رسوا نہیں کرتا بلکہ یہ تو خود انسان کے اپنے وہ اعمال ہوتے ہیں جو اس کو ذلت کے گڑھے میں پھینک دیتے ہیں۔ مثلاً بےباپ کے بچوں پر شفقت کرنے کے بجائے تم بھی تو ان کا خیال نہیں کرتے۔ محتاج اور ضروت مند ایڑیاں رگڑ کر مرجاتا ہے مگر تم اس کی فکر نہیں کرتے نہ اس کو کھانا کھلاتے ہو اور نہ کسی کو اس کے حال زار کی طرف متوجہ کرتے ہو۔ مرنے والا جو کچھ چھوڑ جاتا ہے تمہاری کوشش ہوتی ہے کہ عورتوں کو اور ان کے جائز وارثوں کو میراث سے محروم کرکے خود ہی سب کچھ سمیٹ لو یعنی مردوں کا مال کھا جانے میں بھی تم شرم نہیں کرتے اور پھر تم کہتے ہو کہ اللہ نے تمہیں ذلیل و خوار کردیا ہے۔ مال و دولت سے محبت کا یہ حال ہے کہ تمہیں دنیا کی دولت اور مال کی ہوس اور لالچ نے اندھا کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم آج بےانصافی کرسکتے ہو لیکن وہ وقت دور نہیں ہے جب زمین و آسمان کو کوٹ کوٹ کر اس طرح برابر کردیا جائے گا کہ اس میں میدان حشر قائم ہوگا اور ہر ایک کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا۔ اس دن اللہ اپنی شان کے مطابق نزول فرمائیں گے فرشتے ہیبت سے صفیں باندھے کھڑے ہوں گے۔ جہنم کو سامنے لایا جائے گا اس دن ان جیسے لوگوں کی سمجھ میں یہ بات آجائے گی کہ ان سے دنیا کی زندگی میں کتنی بھیانک غلطیاں ہوئی ہیں۔ وہ شرمندگی اور ندامت کے ساتھ اس بات کا اقرار کریں گے کہ کاش ہم اللہ کے پیغمبروں کی ہر بات مان لیتے لیکن اس وقت شرمندگی اور ندامت کے آنسو بہانے سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ اس دن اللہ سے زیادہ کوئی عذاب دینے والا نہ ہوگا اور نہ اس جیسا کوئی سخت گرفت کرنے والا ہوگا۔ لیکن وہ آدمی جس نے پوری زندگی اس یقین اور قلبی اطمینان کے ساتھ گزاری ہوگی کہ اللہ کے نبی جو بھی دین لائے تھے وہ برحق ہے۔ انہیں جو حکم دیا گیا انہوں نے اس کی تعمیل کی جس چیز سے روک دیا وہ اس سے رک گئے۔ اللہ کے راستے میں جس قربانی کی ضرورت پڑی اس میں وہ بےخطر کود پڑے اور ہر تکلیف کو بڑے صبرو تحمل سے برداشت کیا ایسے نفس مطئمن سے کہا جائے گا کہ تم اس شان سے اپنے رب کی طرف چل کر آ کہ تو جس طرح پوری زندگی اپنے اللہ سے راضی رہا آج وہ تجھ سے پوری طرح راضی ہے۔ اس نفس سے کہا جائے گا کہ چلو اللہ کے خاص بندوں میں شامل ہو جائو اور میری جنت میں داخل ہوجائو۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط سورت : سورة الغاشیہ کے آخر میں ارشاد ہوا کہ سب کو ہمارے پاس آنا ہے اور ہمارے ذمہ ان کا حساب لینا ہے۔ الفجر کے آغاز میں چار قسمیں اٹھا کر بتلایا ہے کہ جس رب نے عاد، ثمود اور فرعون جیسے ظالموں کو دنیا میں عبرت ناک سزا دی۔ کیا وہ آخرت میں ظالموں کی پکڑ نہیں کرے گا ؟ کیوں نہیں وہ ظالموں کی ضرور پکڑ کرے گا کیونکہ وہ بڑا طاقتور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی ابتدا بھی پانچ قسموں سے فرمائی ہے۔ ارشاد ہوا ہے کہ قسم ہے صبح صادق کی ! قسم ہے دس راتوں کی ! قسم ہے جفت اور طاق کی اور قسم ہے رات کی جب وہ ختم ہونے پر آتی ہے۔ بلاشبہ عقل مندوں کے نزدیک ان چیزوں کی قسم اہمیت رکھتی ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کی نشانیاں ہیں اور ہر نشانی میں عقل مند کے لیے اپنے رب کو پہچاننے کا سبق اور ثبوت موجود ہے۔ رات پر غور کریں کہ زمین و آسمانوں میں کوئی ایسی ہستی نہیں جو بڑی سے بڑی ایمرجنسی میں رات کو چھوٹا یا بڑا کرسکے۔ سورج غروب ہوتے ہی رات اپنی سیاہ فام چادر میں پوری دنیا کو لپیٹ میں لے لیتی ہے لیکن جونہی سورج طلوع ہونا شروع ہوتا ہے، تو رات کا اندھیرا اس طرح پیچھے ہٹتا چلا جاتا ہے جس طرح کسی چیز سے آہستہ آہستہ پردہ اٹھایا جائے، راتیں بظاہر ایک جیسی ہوتی ہیں لیکن ان میں کچھ راتیں ایسی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور ان میں خاص فیصلے صادر کیے ہیں، ان راتوں میں لیلۃ القدر افضل ترین رات ہے جس میں بڑے بڑے فیصلے صادر ہوتے ہیں۔ لیلۃ القدر کے بعد ذوالحجہ کی پہلی دس راتیں ہیں جن میں یوم عرفہ کی رات بھی شامل ہے۔ ٩ ذوالحجہ کو عرفات کے مقام پر حجاج کرام حج کا رکن اعظم ادا کرتے ہوتے اپنے رب سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس دن ہر حاجی کے گناہ معاف کردیتا ہے بشرطیکہ وہ شرک و بدعت سے توبہ کرنے والا ہو۔ یوم عرفہ کے سورج غروب ہونے کے بعد حجاج کرام مزدلفہ میں قیام کرتے ہیں اور صبح حج کے چار ارکان ادا کرنے کے لیے منٰی کی طرف نکل پڑتے ہیں جن میں قربانی کرنا، سرمنڈوانا، کنکریاں مارنا اور طواف افاضہ کرنا شامل ہے۔ ان ایام کی دس راتیں بڑی فضیلت والی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان راتوں کی فضیلت اجاگر کرنے کے لیے ان کی قسم اٹھائی ہے تاکہ ان راتوں میں اس کے بندے اس کی رحمت کے طلبگار بن جائیں اور اس کے لیے بھرپور کوشش کریں، رات کے جانے، فجر کے آنے اور جفت اور طاق دس راتوں کی قسم کھائی ہے۔ جفت اور طاق کے بارے میں مفسرین کی مختلف آراء ہیں جن میں دو اہم آراء یہ ہیں۔ طاق سے مراد اللہ تعالیٰ کی اپنی ذات ہے اور جفت سے مراد پوری مخلوق ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ نے جفت یعنی جوڑا جوڑا پیدا کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان الفاظ کا مفہوم کما حقہ ہم نہیں سمجھ سکتے تاہم تفہیم کی آسانی کے لیے یہ کہہ سکتے ہیں کہ دن اور رات، روشنی اور اندھیرا، سورج اور چاند، زمین اور آسمان، چھاؤں اور دھوپ، حرارت اور برودت، مذکر اور مؤنث نیکی اور برائی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے پھلوں کے بھی جوڑے جوڑے پیدا کیے ہیں۔ جن میں اللہ تعالیٰ کی قدرت پائی جاتی ہے، اس لیے جفت اور طاق کی قسم کھانے میں عقل مندوں کے لیے عبرت کا سبق موجود ہے۔ (عَنْ جَابِرٍ (رض) أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ (وَالْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْرٍ ) قَال عَشْرُ اَ لْاُضْحِیَّۃِ ، وَالْوَتْرُ یَوْمُ عَرَفَۃَ ، وَالشَّفْعُ یَوْمُ النَّحْر) (مستدرک حاکم : قال الذہبی ہذا حدیث صحیح علی شرط مسلم ولم یخرجاہ) ” حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورة فجر کی ابتدائی آیات کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ عشر سے مراد دس ذوالحجہ، وتر سے مرادیوم عرفہ اور شفع سے مراد قربانی کا دن ہے۔ “ (عَنْ عَاءِشَۃُ إِنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَا مِنْ یَوْمٍ أَکْثَرَ مِنْ أَنْ یُعْتِقَ اللَّہُ فیہِ عَبْدًا مِنَ النَّارِ مِنْ یَوْمِ عَرَفَۃَ وَإِنَّہُ لَیَدْنُو ثُمَّ یُبَاہِی بِہِمُ الْمَلاَءِکَۃَ فَیَقُولُ مَا أَرَادَ ہَؤُلاَءِ ) (رواہ مسلم : باب فِی فَضْلِ الْحَجِّ وَالْعُمْرَۃِ وَیَوْمِ عَرَفَۃَ ) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ عرفہ کے علاوہ کوئی اور دن ایسا نہیں ہے جس میں اللہ تعالیٰ کثرت کے ساتھ بندوں کو جہنم سے آزاد کرتا ہو۔ اس دن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے بہت قریب ہوتا ہے اور فرشتوں کے سامنے ان ( حجاج) کی وجہ سے فخر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ لوگ کیا چاہتے ہیں ؟ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے فجر، دس راتوں، جفت اور طاق اور رات کی قسم اٹھا کر فرمایا ہے کہ یہ چیزیں سوچنے والے کے لیے بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

والفجر ............................................ لذی حجر اس سور تکے آغاز میں قسم اٹھانے کے لئے ایسے مناظر اور مخلوقات کا انتخاب کیا گیا ہے جو انسانوں کے مانوس مناظر ہیں اور ایک لطیف روح رکھتے ہیں اور صاف و شفاف ہیں۔ ” الفجر “ ایک ایسا وقت ہے جس میں زندگی نہایت خوشگوار موڈ میں سانس لیتی ہے۔ نہایت خوشی ، تبسم ، محبت اور تروتازہ لگاﺅ کے جذبات میں یہ پوری کائنات انگڑائی لیتی ہے۔ فجر کے یہ سانس گویا مناجات الٰہیہ کے انفاس ہیں۔ اور فجر کے وقت ہر چیز کھلی کھلی ہوتی ہے۔ یوں نظر آتا ہے کہ کلیاں خوشی کی وجہ سے کھل رہی ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ان آیات میں چند سابقہ قوموں کی بربادی کا تذکرہ فرمایا ہے جو امت حاضرہ کے لیے باعث عبرت و موعظت ہے، پہلے پانچ چیزوں کی قسم کھائی : اولاً فجر کی قسم کھائی جیسا کہ اسی طرح سورة التکویر میں ﴿ وَ الصُّبْحِ اِذَا تَنَفَّسَۙ٠٠١٨﴾ فرما کر صبح کی قسم کھائی۔ ثانیاً دس راتوں کی قسم کھائی اور دس راتوں سے عشرہ اولیٰ ذی الحجہ کی راتیں مراد ہیں درمنثور میں بروایت حضرت جابر بن عبداللہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہی نقل کیا ہے اور حضرت عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن زبیر (رض) سے بھی یہی منقول ہے۔ بعض احادیث میں ان دنوں کی بہت فضیلت آئی ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ذی الحجہ کے ان دس دنوں میں نیک عمل کرنا دوسرے تمام دنوں میں نیک عمل کرنے سے زیادہ محبوب ہے۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا ان دنوں کا عمل دوسرے دنوں میں جہاد کرنے سے بھی زیادہ افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں جہاد کرنے سے بھی افضل ہے، الا یہ کہ کوئی شخص ایسی حالت میں نکلا کہ اس نے اپنی جان و مال کو دشمنوں سے مقابلہ کرتے ہوئے ختم کردیا پھر کچھ بھی لے کر واپس نہ ہوا۔ (صحیح بخاری صفحہ ١٣٢: ج ١)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

2:۔ ” والفجر “ بعض مفسرین کے نزدیک فجر سے جنس مراد ہے بلا تخصیص یوم اور عبداللہ بن عباس (رض) اور مجاہد (رح) کے نزدیک یوم نحر (10 ذی الحجہ) کی فجر مراد ہے (روح) ۔ یوم نحر کی فجر خود شاہد ہے کہ وہ کتنا مبارک دن ہے، اس لیے اس دن میں بیت اللہ کے پاس جا کر اس مخصوص وقت میں اللہ کے سامنے عاجزی کرو اور اس سے دعاء مانگو، کیونکہ وہاں گناہ معاف ہوتے ہیں۔ ” ولیال عشر “ دس راتوں سے رمضان کی دس آخری راتیں مراد ہیں جن میں لیلۃ القدر پوشیدہ ہے۔ یہ حضرت ابن عباس (رض) اور ابو ظبیان (رح) سے منقول ہے۔ یہ قسم ماقبل سے بطور ترقی ہے۔ یوم نحس کی فجر نہ سہی وہاں جانے میں مال خرچ ہوتا ہے۔ اور سفر کی صعوبتیں اٹھانا پڑتی ہیں۔ تمہارے گھر بیٹھے رمضان کی آخری دس راتیں میسر ہوسکتی ہیں ان میں لیلۃ القدر بھی ہے جو نہایت رحمت و برکت والی رات ہے اس کی طرف آؤ دنیا کی طرف نہ دوڑو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(1) فجر کے وقت کی قسم۔