Surat ul Fajar

Surah: 89

Verse: 14

سورة الفجر

اِنَّ رَبَّکَ لَبِالۡمِرۡصَادِ ﴿ؕ۱۴﴾

Indeed, your Lord is in observation.

یقیناً تیرا رب گھات میں ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Verily, your Lord is Ever Watchful. Ibn Abbas said, "He hears and He sees." This means that He watches over His creation in that which they do, and He will reward them in this life and in the Hereafter based upon what each of them strove for. He will bring all of the creation before Him and He will judge them with justice. He will requite each of them with that which he deserves, for He is far removed from injustice and tyranny.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

14۔ 1 یعنی تمام مخلوقات کے اعمال دیکھ رہا ہے اور اس کے مطابق وہ دنیا اور آخرت میں جزا دیتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١] تاک یا گھات ایسی جگہ کو کہتے ہیں جہاں کوئی شخص کسی کی انتظار میں اس لیے چھپا بیٹھا ہوتا ہے کہ جب وہ چیز اس کی زد میں آئے تو اس کے جال میں پھنس جائے۔ گزرنے والا اپنے انجام سے غافل اور بےفکری سے جارہا ہوتا ہے کہ اچانک شکار ہوجاتا ہے۔ یہی صورت حال اللہ کے مقابلہ میں ان ظالموں کی ہے جنہیں یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ کوئی ہستی انہیں دیکھ رہی ہے۔ وہ بڑی دیدہ دلیری سے گناہوں میں آگے ہی بڑھتے چلے جاتے ہیں تاآنکہ وہ حد آجاتی ہے جس سے آگے اللہ انہیں بڑھنے نہیں دینا چاہتا، اس وقت اچانک ان پر اللہ کے عذاب کا کوڑا برس جاتا ہے۔ اور اگر کسی فرد یا قوم پر دنیا میں ایسا وقت نہ بھی آئے تو ہر شخص کی موت اس کا یقینی وقت ہے۔ جیسا کہ مجاہد (رح) کہتے ہیں کہ لبالمرصاد کا معنی الیہ المصیر یعنی سب کو اسی کی طرف لوٹنا ہے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(ان ربک لبا لمرصاد :” رصد یرصد رصداً ) (ن) کسی کے راستے میں اس پر حملے کے انتظار میں بیٹھنا۔ ” الیمرصاد “ گھات، چھپ کر بیٹھنے کی جگہ جس میں بیٹھ کر دشمن پر حملے کا انتظار کیا جاتا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ ان کے لئے مقرر کردہ وقت کے انتظار میں ہے، جب مقرر وقت آتا ہے پکڑ لیتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصَادِ (Surely your Lord is ever on the watch....89:14]. The word mirsad or marsad [ is derived from the root rasada which means &to lie in wait or on watch&]. Thus it means &an ambush, or a place of observation; it is usually used for a place where persons have to travel through a pass in which someone is lying in wait to strike them&. The verse purports to say that Allah is ever watching and observing their movements and activities. No one should think that he could escape Divine torment, because all are under His authority and Power, and He may administer His punishment whenever He wills. Some commentators state that this verse is the subject of the five oaths mentioned taken in the first five verses of this Surah.

ان ربک لبا لمرصاد، مرصاد اور مرصد رصدگاہ اور انتظار گاہ کو کہا جاتا ہے جو کسی مقام بلند پر ہو جہاں بیٹھ کر کوئی شخص دور دور تک کے لوگوں کو دیکھ سکے اور انکے افعال و اعمال کی نگرانی کرسکے۔ مطلب آیت کا یہ ہے کہ حق تعالیٰ ہر انسان کے تمام اعمال اور حرکات و سکنات کو دیکھ رہا ہے اور سب کو ان کی جزا وسزا دینے والا ہے۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہ جملہ ہی ان قسموں کا جواب ہے، جو والفجر والیال عشر میں مذکور ہوئی ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصَادِ۝ ١٤ ۭ إِنَّ وأَنَ إِنَّ أَنَّ ينصبان الاسم ويرفعان الخبر، والفرق بينهما أنّ «إِنَّ» يكون ما بعده جملة مستقلة، و «أَنَّ» يكون ما بعده في حکم مفرد يقع موقع مرفوع ومنصوب ومجرور، نحو : أعجبني أَنَّك تخرج، وعلمت أَنَّكَ تخرج، وتعجّبت من أَنَّك تخرج . وإذا أدخل عليه «ما» يبطل عمله، ويقتضي إثبات الحکم للمذکور وصرفه عمّا عداه، نحو : إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ [ التوبة/ 28] تنبيها علی أنّ النجاسة التامة هي حاصلة للمختص بالشرک، وقوله عزّ وجل : إِنَّما حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ [ البقرة/ 173] أي : ما حرّم ذلك إلا تنبيها علی أنّ أعظم المحرمات من المطعومات في أصل الشرع هو هذه المذکورات . وأَنْ علی أربعة أوجه : الداخلة علی المعدومین من الفعل الماضي أو المستقبل، ويكون ما بعده في تقدیر مصدر، وينصب المستقبل نحو : أعجبني أن تخرج وأن خرجت . والمخفّفة من الثقیلة نحو : أعجبني أن زيدا منطلق . والمؤكّدة ل «لمّا» نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] . والمفسّرة لما يكون بمعنی القول، نحو : وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ أَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا [ ص/ 6] أي : قالوا : امشوا . وكذلك «إِنْ» علی أربعة أوجه : للشرط نحو : إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبادُكَ [ المائدة/ 118] ، والمخفّفة من الثقیلة ويلزمها اللام نحو : إِنْ كادَ لَيُضِلُّنا [ الفرقان/ 42] ، والنافية، وأكثر ما يجيء يتعقّبه «إلا» ، نحو : إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا [ الجاثية/ 32] ، إِنْ هذا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ [ المدثر/ 25] ، إِنْ نَقُولُ إِلَّا اعْتَراكَ بَعْضُ آلِهَتِنا بِسُوءٍ [هود/ 54] . والمؤكّدة ل «ما» النافية، نحو : ما إن يخرج زيد ( ان حرف ) ان وان ( حرف ) یہ دونوں اسم کو نصب اور خبر کو رفع دیتے ہیں اور دونوں میں فرق یہ ہے کہ ان جملہ مستقل پر آتا ہے اور ان کا مابعد ایسے مفرد کے حکم میں ہوتا ہے جو اسم مرفوع ، منصوب اور مجرور کی جگہ پر واقع ہوتا ہے جیسے اعجبنی انک تخرج وعجبت انک تخرج اور تعجب من انک تخرج جب ان کے بعد ما ( کافہ ) آجائے تو یہ عمل نہیں کرتا اور کلمہ حصر کے معنی دیتا ہے ۔ فرمایا :۔ { إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ } ( سورة التوبة 28) ۔ مشرک تو پلید ہیں (9 ۔ 28) یعنی نجاست تامہ تو مشرکین کے ساتھ مختص ہے ۔ نیز فرمایا :۔ { إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ } ( سورة البقرة 173) اس نے تم امر ہوا جانور اور لہو حرام کردیا ہے (2 ۔ 173) یعنی مذکورہ اشیاء کے سوا اور کسی چیز کو حرام قرار نہیں دیا اس میں تنبیہ ہے کہ معلومات میں سے جو چیزیں اصول شریعت میں حرام ہیں ان میں سے یہ چیزیں سب سے بڑھ کر ہیں ۔ ( ان ) یہ چار طرح پر استعمال ہوتا ہے (1) ان مصدریہ ۔ یہ ماضی اور مضارع دونوں پر داخل ہوتا ہے اور اس کا مابعد تاویل مصدر میں ہوتا ہے ۔ ایسی صورت میں یہ مضارع کو نصب دیتا ہے جیسے :۔ اعجبنی ان تخرج وان خرجت ۔ ان المخففہ من المثقلۃ یعنی وہ ان جو ثقیلہ سے خفیفہ کرلیا گیا ہو ( یہ کسی شے کی تحقیق اور ثبوت کے معنی دیتا ہے جیسے ۔ اعجبنی ان زید منطلق ان ( زائدہ ) جو لما کی توکید کے لئے آتا ہے ۔ جیسے فرمایا { فَلَمَّا أَنْ جَاءَ الْبَشِيرُ } ( سورة يوسف 96) جب خوشخبری دینے والا آپہنچا (12 ۔ 92) ان مفسرہ ۔ یہ ہمیشہ اس فعل کے بعد آتا ہے جو قول کے معنیٰ پر مشتمل ہو ( خواہ وہ لفظا ہو یا معنی جیسے فرمایا :۔ { وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ } ( سورة ص 6) ان امشوا اور ان میں جو معزز تھے وہ چل کھڑے ہوئے ( اور بولے ) کہ چلو (38 ۔ 6) یہاں ان امشوا ، قالوا کے معنی کو متضمن ہے ان ان کی طرح یہ بھی چار طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ ان شرطیہ جیسے فرمایا :۔ { إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ } ( سورة المائدة 118) اگر تو ان کو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں (5 ۔ 118) ان مخففہ جو ان ثقیلہ سے مخفف ہوتا ہے ( یہ تا کید کے معنی دیتا ہے اور ) اس کے بعد لام ( مفتوح ) کا آنا ضروری ہے جیسے فرمایا :۔ { إِنْ كَادَ لَيُضِلُّنَا } ( سورة الفرقان 42) ( تو ) یہ ضرور ہم کو بہکا دیتا ہے (25 ۔ 42) ان نافیہ اس کے بعداکثر الا آتا ہے جیسے فرمایا :۔ { إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا } ( سورة الجاثية 32) ۔۔ ،۔ ہم اس کو محض ظنی خیال کرتے ہیں (45 ۔ 32) { إِنْ هَذَا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ } ( سورة المدثر 25) (ٌپھر بولا) یہ ( خدا کا کلام ) نہیں بلکہ ) بشر کا کلام سے (74 ۔ 25) { إِنْ نَقُولُ إِلَّا اعْتَرَاكَ بَعْضُ آلِهَتِنَا بِسُوءٍ } ( سورة هود 54) ۔ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے کسی معبود نے تمہیں آسیب پہنچا ( کر دیوانہ کر ) دیا ہے (11 ۔ 54) ان ( زائدہ ) جو ( ما) نافیہ کی تاکید کے لئے آتا ہے جیسے : مان یخرج زید ۔ زید باہر نہیں نکلے گا ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ لام اللَّامُ التي هي للأداة علی أوجه : الأول : الجارّة، وذلک أضرب : ضرب لتعدية الفعل ولا يجوز حذفه . نحو : وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ [ الصافات/ 103] . وضرب للتّعدية لکن قدیحذف . کقوله : يُرِيدُ اللَّهُ لِيُبَيِّنَ لَكُمْ [ النساء/ 26] ، فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلامِ وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقاً [ الأنعام/ 125] فأثبت في موضع وحذف في موضع . الثاني : للملک والاستحقاق، ولیس نعني بالملک ملک العین بل قد يكون ملکا لبعض المنافع، أو لضرب من التّصرّف . فملک العین نحو : وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ المائدة/ 18] ، وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الفتح/ 7] . وملک التّصرّف کقولک لمن يأخذ معک خشبا : خذ طرفک لآخذ طرفي، وقولهم : لله كذا . نحو : لله درّك، فقد قيل : إن القصد أنّ هذا الشیء لشرفه لا يستحقّ ملكه غير الله، وقیل : القصد به أن ينسب إليه إيجاده . أي : هو الذي أوجده إبداعا، لأنّ الموجودات ضربان : ضرب أوجده بسبب طبیعيّ أو صنعة آدميّ. وضرب أوجده إبداعا کالفلک والسماء ونحو ذلك، وهذا الضرب أشرف وأعلی فيما قيل . ولَامُ الاستحقاق نحو قوله : لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] ، وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین/ 1] وهذا کالأول لکن الأول لما قد حصل في الملک وثبت، وهذا لما لم يحصل بعد ولکن هو في حکم الحاصل من حيثما قد استحقّ. وقال بعض النحويين : اللَّامُ في قوله : لَهُمُ اللَّعْنَةُ [ الرعد/ 25] بمعنی «علی» «1» أي : عليهم اللّعنة، وفي قوله : لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ مَا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ [ النور/ 11] ولیس ذلک بشیء، وقیل : قد تکون اللَّامُ بمعنی «إلى» في قوله : بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحى لَها [ الزلزلة/ 5] ولیس کذلک، لأنّ الوحي للنّحل جعل ذلک له بالتّسخیر والإلهام، ولیس ذلک کالوحي الموحی إلى الأنبیاء، فنبّه باللام علی جعل ذلک الشیء له بالتّسخیر . وقوله : وَلا تَكُنْ لِلْخائِنِينَ خَصِيماً [ النساء/ 105] معناه : لا تخاصم الناس لأجل الخائنين، ومعناه کمعنی قوله : وَلا تُجادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتانُونَ أَنْفُسَهُمْ [ النساء/ 107] ولیست اللام هاهنا کاللام في قولک : لا تکن لله خصیما، لأنّ اللام هاهنا داخل علی المفعول، ومعناه : لا تکن خصیم اللہ . الثالث : لَامُ الابتداء . نحو : لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوى [ التوبة/ 108] ، لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلى أَبِينا مِنَّا [يوسف/ 8] ، لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً [ الحشر/ 13] . الرابع : الداخل في باب إنّ ، إما في اسمه إذا تأخّر . نحو : إِنَّ فِي ذلِكَ لَعِبْرَةً [ آل عمران/ 13] أو في خبره . نحو : إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصادِ [ الفجر/ 14] ، إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود/ 75] أو فيما يتّصل بالخبر إذا تقدّم علی الخبر . نحو : لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الحجر/ 72] فإنّ تقدیره : ليعمهون في سکرتهم . الخامس : الداخل في إن المخفّفة فرقا بينه وبین إن النافية نحو : وَإِنْ كُلُّ ذلِكَ لَمَّا مَتاعُ الْحَياةِ الدُّنْيا [ الزخرف/ 35] . السادس : لَامُ القسم، وذلک يدخل علی الاسم . نحو قوله : يَدْعُوا لَمَنْ ضَرُّهُ أَقْرَبُ مِنْ نَفْعِهِ [ الحج/ 13] ويدخل علی الفعل الماضي . نحو : لَقَدْ كانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبابِ [يوسف/ 111] وفي المستقبل يلزمه إحدی النّونین نحو : لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ [ آل عمران/ 81] وقوله : وَإِنَّ كُلًّا لَمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُمْ [هود/ 111] فَاللَّامُ في «لمّا» جواب «إن» وفي «ليوفّينّهم» للقسم . السابع : اللَّامُ في خبر لو : نحو : وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ [ البقرة/ 103] ، لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ [ الفتح/ 25] ، وَلَوْ أَنَّهُمْ قالُوا إلى قوله لَكانَ خَيْراً لَهُمْ [ النساء/ 46] «1» ، وربما حذفت هذه اللام نحو : لو جئتني أکرمتک أي : لأکرمتک . الثامن : لَامُ المدعوّ ، ويكون مفتوحا، نحو : يا لزید . ولام المدعوّ إليه يكون مکسورا، نحو يا لزید . التاسع : لَامُ الأمر، وتکون مکسورة إذا ابتدئ به نحو : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور/ 58] ، لِيَقْضِ عَلَيْنا رَبُّكَ [ الزخرف/ 77] ، ويسكّن إذا دخله واو أو فاء نحو : وَلِيَتَمَتَّعُوا فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ [ العنکبوت/ 66] ، وفَمَنْ شاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شاءَ فَلْيَكْفُرْ [ الكهف/ 29] ، وقوله : فَلْيَفْرَحُوا [يونس/ 58] ، وقرئ : ( فلتفرحوا) وإذا دخله ثم، فقد يسكّن ويحرّك نحو : ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ [ الحج/ 29] . ( اللام ) حرف ) یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ اول حروف جارہ اور اس کی چند قسمیں ہیں ۔ (1) تعدیہ کے لئے اس وقت بعض اوقات تو اس کا حذف کرنا جائز نہیں ہوتا جیسے فرمایا : وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ [ الصافات/ 103] اور باپ نے بیٹے کو پٹ پڑی کے بل لٹا دیا ۔ اور کبھی حذف کرنا جائز ہوتا ہے چناچہ آیت کریمہ : يُرِيدُ اللَّهُ لِيُبَيِّنَ لَكُمْ [ النساء/ 26] خدا چاہتا ہے کہ تم سے کھول کھول کر بیان فرمادے۔ میں لام مذکور ہے اور آیت : فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلامِ وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقاً [ الأنعام/ 125] تو جس شخص کو خدا چاہتا ہے کہ ہدایت بخشے اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کہ گمراہ کرے اس کا سینہ تنگ کردیتا ہے ۔ میں اسے حذف کردیا ہے ( یعنی اصل میں لا یھدیہ ولان یضلہ ہے ۔ ( یعنی اصل میں الان یھدی ولان یضلہ ہے (2) ملک اور استحقاق کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور ملک سے ہمیشہ ملک عین ہی مراد نہیں ہوتا ۔ بلکہ ملکہ منافع اور ملک تصرف سب کو عام ہے چناچہ فرمایا : وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ المائدة/ 18] اور آسمانوں اورز مینوں کی بادشاہت خدا ہی کی ہے ۔ وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الفتح/ 7] اور آسمانوں اور زمین کے لشکر خدا ہی کے ہیں ۔ اور ملک تصرف کے لئے مثلا کسی شخص کے ساتھ لکڑی تصرف کے لئے مثلا کسی شخص کے ساتھ لکڑی اٹھاتے وقت تم اس سے یہ کہو ۔ خذ طرفک لاخذنی کہ تم ا اپنی جانپ سے پکڑ لوتا کہ میں اپنی جانب پکڑوں ۔ اور للہ درک کی طرح جب للہ کذا کہا جاتا ہے تو اس میں تو اس میں بعض نے لام تملیک مانا ہی یعنی یہ چیز بلحاظ شرف و منزلت کے اتنی بلند ہے کہ اللہ تعا لیٰ کے سو اسی پر کسی کا ملک نہیں ہوناچاہیے اور بعض نے کہا ہے کہ اس میں لام ایجاد کے لے ے سے یعنی اللہ نے نے اسے بطریق ابداع پیدا کیا ہے کیونکہ اللہ نے اسے بطریق ابداع پیدا کیا ہے کیونکہ موجودات دو قسم پر ہیں ۔ ایک وہ جن کو اللہ تعالیٰ نے اسباب طبعی یا صنعت انسانی کے واسطہ سے ایجاد کیا ہے ۔ اورد وم وہ جنہیں بغیر کسی واسطہ کے پیدا کیا ہے جیسے افلاک اور آسمان وغیرہ اور یہ دوسری قسم پہلی کی نسبت اشرف اور اعلیٰ ہے ۔ اور آیت کریمہ : لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] اور ان کے لئے لعنت اور برا گھر ہے ۔ اور وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین/ 1] ناپ اور تول میں کمی کرنے والوں کے کئے خرابی ہے ۔ میں لا م استحقاق کے معنی دیتا ہے یعنی یہ لوگ لعنت اور ویل کے مستحق ہیں ۔ اور یہ سلام بھی لام ملک کی طرح ہے لیکن لام پال اسی چیز پر داخل ہوتا ہے جو ملک میں حاصل ہوچکی ہو اور لام استحقاق اس پر جو تا حال حاصل تو نہ ہوگی ہو نگر اس پر ستحقاق اس پر جوتا جال حاصل تو نہ ہوئی ہونگر اس پر استحقاق ثابت ہونے کے لحاظ سے حاصل شدہ چیز کی طرح ہو بعض وعلمائے نحو کہا ہے کہ آیت کریمہ : لَهُمُ اللَّعْنَةُ میں لام بمعنی علی ہے ۔ ای علیھم اللعنۃ ( یعنی ان پر لعنت ہے ) اسی طرح آیت کریمہ : لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ مَا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ [ النور/ 11] ان میں جس شخص نے گناہ کا جتنا حصہ لیا اسکے لئے اتنا ہی وبال ہے ۔ میں بھی لام بمعنی علی ہے لیکن یہ صحیح نہیں ہے ۔ بعض نے کہا ہے کبھی لام بمعنی الیٰ بھی آتا ہے جیسا کہ آیت بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحى لَها [ الزلزلة/ 5] کیونکہ تمہارے پروردگار نے اس کا حکم بھیجا ہوگا ۔ میں ہے یعنی اوحی الیھا مگر یہ بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ یہاں تو وحی تسخیری ہونے پر متنبہ کیا گیا ہے اور یہ اس وحی کی طرح نہیں ہوتی جو انبیاء (علیہ السلام) کی طرف بھیجی جاتی ہے لہذا لام بمعنی الی ٰ نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَلا تَكُنْ لِلْخائِنِينَ خَصِيماً [ النساء/ 105] اور ( دیکھو ) دغا بازوں کی حمایت میں کبھی بحث نہ کرنا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ لام اجل ہے اور سبب اور جانب کے معنی دیتا ہے یعنی تم ان کی حمایت میں مت بحث کرو جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا : وَلا تُجادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتانُونَ أَنْفُسَهُمْ [ النساء/ 107] اور جو لوگ اپنے ہم جنسوں کی خیانت کرتے ہیں ان کی طرف ہم جنسوں کی خیانت کرتے ہیں ان کی طرف سے بحث نہ کرنا ۔ اور یہ لا تکن للہ خصیما کے لام کی طرح نہیں ہے کیونکہ یہاں لام مفعول پر داخل ہوا ہے اور معنی یہ ہیں ۔ لاتکن خصیم اللہ کہ تم اللہ کے خصیم یعنی فریق مخالف مت بنو ۔ (3) لا ابتداء جیسے فرمایا : لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوى [ التوبة/ 108] البتہ وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے ۔ لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلى أَبِينا مِنَّا [يوسف/ 8] کہ یوسف اور اس کا بھائی ہمارے ابا کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں ۔ لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً [ الحشر/ 13] تمہاری ہیبت ان کے دلوں میں ۔۔۔ بڑھ کر ہے ۔ (4) چہارم وہ لام جو ان کے بعد آتا ہے ۔ یہ کبھی تو ان کے اسم پر داخل ہوتا ہے اور کبھی ان کی خبر اور کبھی متعلق خبر پر چناچہ جب اسم خبر سے متاخرہو تو اسم پر داخل ہوتا ہے جیسے فرمایا : إِنَّ فِي ذلِكَ لَعِبْرَةً [ آل عمران/ 13] اس میں بڑی عبرت ہے ۔ اور خبر پر داخل ہونے کی مثال جیسے فرمایا :إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصادِ [ الفجر/ 14] بیشک تمہارا پروردگار تاک میں ہے : إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود/ 75] بیشک ابراہیم (علیہ السلام) بڑے تحمل والے نرم دل اور رجوع کرنے والے تھے ۔ اور یہ لام متعلق خبر پر اس وقت آتا ہے جب متعلق خبر ان کی خبر پر مقدم ہو جیسے فرمایا : ۔ لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الحجر/ 72] اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہاری جان کی قسم وہ اپنی مستی میں مد ہوش ( ہو رہے ) تھے ۔ ( 5 ) وہ لام جوان مخففہ کے ساتھ آتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَإِنْ كُلُّ ذلِكَ لَمَّا مَتاعُ الْحَياةِ الدُّنْيا [ الزخرف/ 35] اور یہ سب دنیا کی زندگی کا تھوڑا سا سامان ہے ۔ ( 5 ) لام قسم ۔ یہ کبھی اسم پر داخل ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لَقَدْ كانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبابِ [يوسف/ 111]( بلکہ ایسے شخص کو پکارتا ہے جس کا نقصان فائدہ سے زیادہ قریب ہے ۔ اور کبھی فعل ماضی پر آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ [ آل عمران/ 81] ( 12 ) ان کے قصے میں عقلمندوں کے لئے عبرت ہے ۔ اگر یہ لام فعل مستقبل پر آئے تو اس کے ساتھ نون تاکید ثقیلہ یا خفیفہ کا آنا ضروری ہے جیسے فرمایا : ۔ تو تمہیں ضرور اس پر ایمان لانا ہوگا اور ضرور اس کی مدد کر نا ہوگی ۔ اور آیت کریمہ : وَإِنَّ كُلًّا لَمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُمْ [هود/ 111] اور تمہارا پروردگار ان سب کو قیامت کے دن ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیگا ۔ میں لما کالام ان کے جواب میں واقع ہوا ہے ۔ اور لیوفینھم کا لام قسم کا ہے ۔ ( 7 ) وہ لام جو لو کی خبر پر داخل ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ [ البقرة/ 103] اور اگر وہ ایمان لاتے اور پرہیز گاری کرتے تو خدا کے ہاں سے بہت اچھا صلہ ملتا ۔ لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ [ الفتح/ 25] اگر دونوں فریق الگ الگ ہوجاتے تو جو ان میں کافر تھے ان کو ہم ۔۔۔۔۔۔ عذاب دیتے ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ قالُوا إلى قوله لَكانَ خَيْراً لَهُمْ [ النساء/ 46] اور اگر یہ لوگ کہتے کہ ہم نے سن لیا اور مان لیا اور آپ کو متوجہ کرنے کے لئے ۔۔۔۔ راعنا کی جگہ انظرنا کہتے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا ۔ اور کبھی لو کے جواب میں لام محزوف ہوتا ہے جیسے ہے ۔ ( 8 ) وہ لام جو مدعا یا مدعو الیہ کے لئے استعمال ہوتا ہے مدعو کے لئے یہ مفعوح ہوتا ہے ۔ جیسے یا لذید ۔ اور مدعوالیہ آئے تو مکسور ہوتا ہے جیسے یالذید ۔ ( 9 ) لام امر یہ ابتدا میں آئے تو مکسور ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور/ 58] مومنوں تمہارے غلام لونڈیاں تم سے اجازت لیا کریں ۔ لِيَقْضِ عَلَيْنا رَبُّكَ [ الزخرف/ 77] تمہارا پروردگار ہمیں موت دے دے ۔ اور اگر اس پر داؤ یا فا آجائے تو ساکن ہوجاتا ہے جیسے فرمایا : وَلِيَتَمَتَّعُوا فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ [ العنکبوت/ 66] اور فائدہ اٹھائیں ( سو خیر ) عنقریب ان کو معلوم ہوجائیگا ۔ وفَمَنْ شاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شاءَ فَلْيَكْفُرْ [ الكهف/ 29] تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کافر رہے ۔ فَلْيَفْرَحُوا [يونس/ 58] اور جب اس پر ثم داخل ہو تو اسے ساکن اور متحرک دونوں طرح پڑھنا جائز ہوتا ہے جیسے فرمایا : ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ [ الحج/ 29] پھر چاہیے کہ لوگ اپنا میل کچیل دور کریں اور نذریں پوری کریں ۔ اور خانہ قدیم یعنی بیت اللہ کا طواف کریں ۔ رصد الرَّصَدُ : الاستعداد للتّرقّب، يقال : رَصَدَ له، وتَرَصَّدَ ، وأَرْصَدْتُهُ له . قال عزّ وجلّ : وَإِرْصاداً لِمَنْ حارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ مِنْ قَبْلُ [ التوبة/ 107] ، وقوله عز وجل : إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصادِ [ الفجر/ 14] ، تنبيها أنه لا ملجأ ولا مهرب . والرَّصَدُ يقال لِلرَّاصِدِ الواحد، وللجماعة الرَّاصِدِينَ ، ولِلْمَرْصُودِ ، واحدا کان أو جمعا . وقوله تعالی: يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَداً [ الجن/ 27] ، يحتمل کلّ ذلك . والمَرْصَدُ : موضع الرّصد، قال تعالی: وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ [ التوبة/ 5] ، والْمِرْصَادُ نحوه، لکن يقال للمکان الذي اختصّ بِالتَّرَصُّدِ ، قال تعالی: إِنَّ جَهَنَّمَ كانَتْ مِرْصاداً [ النبأ/ 21] ، تنبيها أنّ عليها مجاز الناس، وعلی هذا قوله تعالی: وَإِنْ مِنْكُمْ إِلَّا وارِدُها [ مریم/ 71] . ( ر ص د ) الرصد : گھات لگا کر بیٹھنا ۔ اور رصد لہ وترصد کے معنی ہیں کسی کے لئے گھات لگانا اور ارصدتہ کس کو گھات لگانے کے لئے مقرر کرنا اور ارصد لہ کے معنی پناہ دینا بھی آتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَإِرْصاداً لِمَنْ حارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ مِنْ قَبْلُ [ التوبة/ 107] اور ان لوگوں کو پناہ دیں جو اللہ اور رسول کے ساتھ پہلے لڑ چکے ہیں ۔ إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصادِ [ الفجر/ 14] بیشک تیرا پروردگار ( نافرمانوں کی ) تاک میں ( لگا رہتا ہے ) رصد ( صیغہ صفت ) یہ معنی فاعلی اور مفعولی دونوں کے لئے آتا ہے اور واحد اور جمع دونوں پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَداً [ الجن/ 27] تو ان کے آگے اور انکے پیچھے ( فرشتوں سے ) پہرہ دینے والے ان کے ساتھ رہتے ہیں ۔ تو یہاں رصدا سے واحد اور جمع دونوں مراد ہوسکتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ [ التوبة/ 5] اور ہر گھات کی جگہ پر ان کی تاک میں بیٹھو ۔ اور مرصاد بمعنی مرصد آتا ہے لیکن مرصاد اس جگہ کو کہتے ہیں جو گھات کے لئے مخصوص ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ جَهَنَّمَ كانَتْ مِرْصاداً [ النبأ/ 21] بیشک دوزخ گھات میں ہے ۔ تو آیت میں اس بات پر بھی تنبیہ ہے کہ جہنم کے اوپر سے لوگوں کا گزر ہوگا جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : وَإِنْ مِنْكُمْ إِلَّا وارِدُها [ مریم/ 71] اور تم میں سے کوئی ( ایسا بشر ) نہیں جو جہنم پر سے ہو کر نہ گزرے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤{ اِنَّ رَبَّکَ لَبِالْمِرْصَادِ ۔ } ” بیشک آپ کا رب تو (سرکشوں اور مفسدوں کی) تاک میں ہے۔ “ یعنی کوئی فرد ہو یا کوئی قوم ‘ جو کوئی بھی اللہ تعالیٰ سے سرکشی کرے گا اللہ تعالیٰ اسے اس جرم کی سزا ضرور دے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

7 The words "ever lying in ambush" have been used metaphorically for keeping watch on the movements and activities of the wicked and mischievous people. An ambush is a place where a person lies hiding in wait to attack somebody by surprise. The victim, thoughtless of his fate, comes and falls a prey. The same is the case against AIlah of those wicked people who spread mischief in the world and have no sense and tear that there is God above them, Who is watching alI their misdeeds. Therefore, they go on committing everyday more and more evils fearlessly until they reach the limit which Allah dces not permit them to transgress. At that very moment His scourge descends upon them suddenly.

سورة الْفَجْر حاشیہ نمبر :7 ظالموں اور مفسدوں کی حرکات پر نگاہ رکھنے کےلیے گھات لگائے ہونے کے الفاظ تمثیلی استعارے کے طور پر استعمال کیے گئے ہیں ۔ گھاس اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کوئی شخص کسی کے انتظار میں اس غرض کے لیے چھپا بیٹھا ہوتا ہے کہ جب وہ زد پر آئے اسی وقت اس پر حملہ کر دے ۔ وہ جس کے انتظار میں بیٹھا ہوتا ہے اسے کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ اس کی خبر لینے کے لیے کون کہاں چھپا ہوا ہے ۔ انجام سے غافل ، بے فکری کے ساتھ وہ اس مقام سے گزرتا ہے اور اچانک شکار ہو جاتا ہے ۔ یہی صورت حال اللہ تعالی کے مقابلے میں ان ظالموں کی ہے جو دنیا میں فساد کا طوفان برپا کیے رکھتے ہیں ۔ انہیں اس کا کوئی احساس نہیں ہوتا کہ خدا بھی کوئی ہے جو ان کی حرکات کو دیکھ رہا ہے ۔ وہ پوری بے خوفی کے ساتھ روز بروز زیادہ سے زیادہ شرارتیں کرتے چلے جاتے ہیں ۔ یہاں تک کہ جب وہ حد آ جاتی ہے جس سے آگے اللہ تعالی انہیں بڑھنے نہیں دینا چاہتا اسی وقت ان پر اچانک اس کے عذاب کا کوڑا برس جاتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(89:14) ان ربک لبالمرصاد : بعض کے نزدیک یہ ان قسموں کا جو آیات 1 تا 4 میں مذکور ہیں جواب ہے۔ اس صورت میں درمیانی کلام کلام معترضہ ہوگی۔ ترجمہ ہوگا :۔ قسم ہے (ان چیزوں کی یا امور کی جو آیات 1 تا 4 میں مذکور ہیں کہ) بیشک تیرا رب گھاٹ لگائے ہوئے ہے۔ صاحب تفہیم القرآن اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :۔ ظالموں اور مفسدوں کی حرکات پر نگاہ رکھنے کے لئے گھات لگائے ہوئے ہونے کے الفاظ تمثیلی اور استعارے کے طور پر استعمال ہوئے ہیں۔ گھات اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کوئی شخص کسی کے انتظار میں اس غرض سے چھپا بیٹھا ہوتا ہے کہ جب وہ زد پر آئے تو اسی وقت اس پر حملہ کر دے۔ وہ جس کے انتظار میں بیٹھا ہوتا ہے اسے کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ اس کی خبر لینے کے لئے کون کہاں چھپا پوا ہے انجام سے غافل، بےفکری کے ساتھ وہ اس مقام سے گزرتا ہے اور شکار ہوجاتا ہے۔ یہی صورت حال اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں ان ظالموں کی ہے جو دنیا میں فساد کا طوفان برپا کئے رکھتے ہیں۔ انہیں اس کا کوئی احساس ہی نہیں ہوتا کہ خدا بھی کوئی ہے جو ان کی حرکات کو دیکھ رہا ہے وہ پوری بےخوفی کے ساتھ روز بروز زیادہ سے زیادہ شرارتیں کرتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ جب وہ حد آجاتی ہے جس سے آگے اللہ تعالیٰ انہیں بڑھنے نہیں دینا چاہتا اسی وقت ان پر اچانک اس کے عذاب کا کوڑا برس جاتا ہے۔ المرصاد۔ ظرف مکان۔ مفرد، جمع مراصد۔ گھات لگانے کی جگہ۔ ان ربک لبالمرصاد۔ بیشک تیرا رب گھات میں ہے۔ مطلب یہ کہ جس طرح گھات لگا کر مخفی مقام پر بیٹھنے والے سے ادھر سے گزرنے والا دشمن بچ کر نکل نہیں سکتا۔ اور گھات لگانے والے سے دشمن مخفی نہیں رہ سکتا ۔ اسی طرح درپردہ اللہ تعالیٰ بھی اپنے بندوں کے تمام اعمال سے واقف اور باخبر ہے اس سے بچ کر۔ چھپ کر کوئی شخص راہ زندگی طے نہیں کرسکتا۔ لبالمرصاد میں لام تاکید کے لئے ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ان ربک ........................ صاد (14:89) ” حقیقت ہے کہ تمہارا رب گھات لگائے ہوئے ہے “۔ یعنی تمہارا رب حاضر وناصر ہے۔ وہ دیکھ رہا ہے اور اس کی نظروں سے کوئی چیز اوجھل نہیں ہوتی۔ وہ نگرانی کررہا ہے اور اس کی نظر سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔ لہٰذا ایمان والوں کو چاہئے کہ وہ مطمئن ہوں ، ان کی مصیبتیں دور ہوں گی اس لئے کہ رب دیکھ رہا ہے اور وہ شر و فساد کا دفعیہ خود کرے گا اور قیامت میں سزا بھی دے گا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس دنیا میں دعوت اسلامی کو نہایت ہی عجیب طریقوں سے مدد دی جاتی ہے ہر جگہ اصحاب اخدود والا طریقہ پیش نہیں آتا۔ اسی طریقے کے مطابق قرآن دین کے لئے کام کرنے والوں کی اسی انداز سے تربیت کرتا ہے اور مختلف حالات اور مختلف ماحول میں مختلف انداز سے ان کی تربیت اور نصرت ہوتی رہتی ہے اور داعیان حق کے لئے اطمینان کا سامان ہوتا رہتا ہے۔ اہل ایمان دو باتوں کی توقع رکھتے ہیں اور اپنی جدوجہد کے بعد فیصلہ اور انجام اللہ کی مشیت کے حوالے کردیتے ہیں کہ وہ دیکھ رہا ہے۔ تمہارا رب گھات لگائے بیٹھا ہے۔ حاضروناظر ہے ، دیکھ رہا ہے ، حساب و کتاب تیار ہورہا ہے اور نہایت ہی صحیح اعمال نامے کی اساس پر وہ جزاء وسزادے گا۔ جس میں نہ غلطی ہوگی ، نہ ظلم ہوگا اور نہ وہ دنیا کے حساب کی طرح محض ظاہری حالات پر مبنی ہوگا بلکہ وہاں تو تمام امور کا فیصلہ حقائق کے مطابق ہوگا۔ رہا انسان تو دنیا میں اس کے موازنے بھی غلط ہوجاتے ہیں۔ اندازے بھی غلط ہوجاتے ہیں اور شہادتوں میں بھی وہ ظاہر پر فیصلہ کرتا ہے ، الایہ کہ وہ کوئی فیصلہ اللہ کی شریعت کے مطابق کرے اور اسلامی تصور حیات کے مطابق سوچے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿اِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصَادِ۠ؕ٠٠١٤﴾ (بلاشبہ آپ کا رب گھات میں ہے) مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے اعمال اور احوال سے غافل نہیں ہے اسے سب کچھ خبر ہے جو نافرمان دنیا میں موجود ہیں وہ یہ نہ سمجھیں کہ سابقہ اقوام ہی عذاب کی مستحق تھیں ہم عذاب سے محفوظ رہیں گے۔ دنیا میں اگر کوئی شخص جرم کر کے بھاگنے لگے اور اس کے راستہ میں پکڑنے والے بٹھا دیئے جائیں جو خوب گہری نظروں سے دیکھتے رہیں اور گھات میں لگے رہیں کہ یہاں سے کب گزرے اور کب پکڑیں، اسی طرح سمجھ لیں کہ مجرمین پکڑے جائیں گے یہ نہ سمجھیں کہ ہم کہیں بھاگ کر بچ جائیں گے۔ ﴿اِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصَادِ﴾ میں اس مضمون کو ادا فرمایا ہے۔ قال صاحب الروح والمرصاد المکان الذی یقوم بہ الرصد ویترقبون فیہ، مفعال من رصدہ کالمیقات من وقتہ وفی الکلام استعارة تمثیلیة الی آخرہ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

7:۔ ” ان ربک “ بیشک تیرا پروردگار گھات میں ہے۔ یہ احاطہ علم الٰہی سے کنایہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے تمام اعمال کو دیکھ رہا ہے اور سب کچھ اس کے حیطہ علم میں ہے۔ دنیا کے پیچھے نہ دوڑو، دیکھو دنیا کی خاطر دین چھوڑنے والی قوموں کا حشر کس قدر ہولناک ہوا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(14) بیشک آپ کا پروردگار شریروں کی گھات میں لگا ہوا ہے اہل مکہ کی تخویف کے لئے یہاں چند واقعات کا ذکر کیا جن کا تعلق پہلے انبیاء کے ساتھ ہے اور جنہوں نے اپنی نافرمانی کی سخت سزا پائی ہے ۔ ان میں سے ایک تو قوم عاد ہے، یہ لوگ عادبن عوص بن ارم بن سام بن نوح (علیہ السلام) ہیں ان کو عاداولیٰ بھی کہتے ہیں ان میں حضرت ہود (علیہ السلام) پیغمبر بنا کر بھیجے گئے تھے لفظ ارم بڑھانے سے یہ بات معلوم ہوئی کہ یہ عاد اولیٰ ہیں اور جن کو عاد ثانیہ یا عاد اخریٰ کہتے ہیں وہ ثمود کے ساتھ مل جاتے ہیں اور ان میں حضرت صالح مبعوث ہوئے تھے۔ بہرحال ان کو ذات العماد کہا یا تو یہ بڑی بڑی اونچی عمارتیں بڑے بڑے اونچے ستونوں پر بناتے تھے یا سفر میں جو خیمے لگاتے تھے وہ بڑے بڑے ستونوں پر قائم کرتے تھے یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے قدوقامت اور ان کے قد کی لمبائی کی وجہ سے ذات عماد فرمایا ہو۔ بہرحال لم یخلق مثلھا فی البلاد سے یا تو قبیلہ مراد ہے یا عمارتیں ہیں اور مطلب یہ ہے کہ اس وقت یا اس زمانے میں ایسی عجیب و غریب اور اونچی اونچی عمارتیں کسی اور شہر میں تعمیر نہ ہوئی تھیں یا یہ مطلب ہے کہ اس زمانے میں ایسے قدآور اور لمبے تڑنگے آدمی عاد ارم کے علاوہ کہیں اور نہیں پیدا کئے گئے اور ثمود جو ارم کے لڑکے عابر کی اولاد تھے۔ یہ ایک وادی میں جس کا نام وادی قریٰ ہے اس میں آباد تھے اور پہاڑوں کو کاٹ کر اور تراش کر اندر ہی اندر بڑے بڑے مکان اور حویلیاں بنا رہتے تھے چناچہ مشہور ہے کہ حجر سے لے کر وادی قریٰ تک ایک ہزار سا ت سو بستیاں ان کے زیر تصرف تھیں۔ یہ ہی ثمود ہیں جن میں حضرت صالح (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا تھا ان کی بستیاں حجاز وشام کے درمیان تھیں اور ان سب میں قوم ثمود آباد تھے اور فرعون کو میخوں والا فرمایا یا تو اس کے لشکر گھوڑوں کو سونے اور چاندی کی میخوں سے باندھا جاتا تھا یا جب وہ کسی کو سزا دیتا تھا تو چاروں ہاتھ پیروں میں میخیں ٹھونک کر جو میخا کردیا کرتا تھا ان سب کو ملا کر فرمایا کہ ان سبھوں نے شہروں میں سرکشی اور طغیان کی وجہ سے سراٹھا رکھا تھا اور شہروں میں فساد برپا کررکھا تھا نہ خود پروردگار پر ایمان لاتے تھے اور نہ دوسروں کو ایمان لانے دیتے تھے اور بکثرت ان کا فساد پھیلا ہوا تھا زبردستوں پر سے قبضہ نہ ہٹاتے تھے اور ان کی آزادی کو سلب کررکھا تھا۔ سو اے پیغمبر آپ کے پروردگار نے ان پر عذاب کا کوڑا ڈالا یعنی برسایا کوڑا برسانا محاورہ ہے خوب مارنے اور تعذیب کرنے سے چناچہ ان کے ساتھ ایسا ہی کیا گیا ۔ اور ان سر اٹھانے والوں اور فساد برپا کرنے والوں کو ختم کردیا گیا بیشک آپ کا پروردگار شریروں اور فساد برپا کرنے والوں کی گھات میں ہے یعنی جس طرح گھات میں رہنے والا پوشیدہ طور پر تمام حالات سے مجرم کی باخبر رہتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی بندوں کے تمام احوال و اعمال سے با خبر رہتا ہے اور اپنی مصلحت و حکمت سے جب چاہتا ہے گرفت کرلیتا ہے اور سزا دے دیتا ہے۔