Surat ul Fajar

Surah: 89

Verse: 15

سورة الفجر

فَاَمَّا الۡاِنۡسَانُ اِذَا مَا ابۡتَلٰىہُ رَبُّہٗ فَاَکۡرَمَہٗ وَ نَعَّمَہٗ ۬ ۙ فَیَقُوۡلُ رَبِّیۡۤ اَکۡرَمَنِ ﴿ؕ۱۵﴾

And as for man, when his Lord tries him and [thus] is generous to him and favors him, he says, "My Lord has honored me."

انسان ( کا یہ حال ہے کہ ) جب اسے اس کا رب آزماتا ہے اور عزت اور نعمت دیتا ہے تو وہ کہنے لگتا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزت دار بنایا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Wealth and Poverty are both a Test and Honor or Disgrace for the Servant فَأَمَّا الاْأِنسَانُ إِذَا مَا ابْتَلَأهُ رَبُّهُ فَأَكْرَمَهُ وَنَعَّمَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَكْرَمَنِ وَأَمَّا إِذَا مَا ابْتَلَأهُ فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَهَانَنِ

وسعت رزق کو اکرام نہ سمجھو بلکہ امتحان سمجھو مطلب یہ ہے کہ جو لوگ وسعت اور کشادگی پا کر یوں سمجھ بیٹھتے ہیں کہ اللہ نے ان کا اکرام کیا یہ غلط ہے بلکہ دراصل یہ امتحان ہے جیسے اور جگہ ہے ایحسبون انما نمدھم الخ یعنی مال و اولاد کے بڑھ جانے کو یہ لوگ نیکیوں کی زیادتی سمجھتے ہیں دراصل یہ ان کی بےسمجھی ہے اسی طرح اس کے برعکس بھی یعنی تنگ ترشی کو انسان اپنی اہانت سمجھ بیٹھتا ہے حالانکہ دراصل یہ بھی اللہ کی طرف سے آزمائش ہے اسی لیے یہاں کلا کہہ کر ان دونوں خیالات کی تردید کی کہ یہ واقعہ نہیں جسے اللہ مال کی وسعت دے اس سے وہ خوش ہے اور جس پر تنگی کرے اس سے ناخوش ہے بلکہ خوشی اور ناخوشی کامدار ان دونوں حالتوں میں عمل پر ہے غنی ہو کر شکر گذاری کرے تو اللہ کا محبوب اور فقیر ہو کر صبر کرے تو اللہ کا محبوب اللہ تعالیٰ اس طرح اور اس طرح آزماتا ہے پھر یتیم کی عزت کرنے کا حکم دیا ، حدیث میں ہے کہ سب سے اچھا گھر وہ ہے جس میں یتیم ہو اور اس کی اچھی پرورش ہو رہی ہو اور بدترین گھر وہ ہے جس میں یتیم ہو اور اس سے بدسلوکی کی جاتی ہو پھر آپ نے انگی اٹھا کر فرمایا میں اور یتیم کا پالنے والا جنت میں اس یطرح ہوں گے یعنی قریب قریب ابو داؤد کی حدیث میں ہے کہ کلمہ کی اور بیچ کی انگلی ملا کر انہیں دکھایا آپ نے فرمایا اور یتیم کا پالنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے پھر فرمایا کہ یہ لوگ فقیروں مسکینوں کے ساتھ سلوک احسان کرنے انہیں کھانا پینا دینے کی ایک دوسرے کو رغبت و لالچ نہیں دلاتے اور یہ عیب بھی ان میں ہے کہ میراث کا مال حلال و حرام ہضم کر جاتے ہیں اور مال کی محبت بھی ان میں بیحد ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

15۔ 1 یعنی جب کسی کو عزت و دولت کی فروانی عطا فرماتا ہے تو وہ اپنی بابت اس غلط فہمی کا شکار ہوجاتا ہے کہ اللہ اس پر بہت مہربان ہے، حالانکہ فروانی امتحان اور آزمائش کے طور پر ہوتی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(فاما الانسان اذا ماا بتلہ…:) قیامت کے منکرین کے نزدیک چونکہ سبھی کچھ دنیا ہے اس لئے ان کا خیال یہ ہے کہ دنیا میں جو آسودہ حال ہے اللہ تعالیٰ اس سے رضای ہے اور جو تنگ حال ہے اللہ تعالیٰ اس پر ناراض ہے۔ فرمایا یہ بات ہرگز درست نہیں، فرعون اور دوسرے لوگوں کے واقعات ابھی تم نے سنے، ان کی خوشحالی اور پھر ان پر آنے والے عذاب کوی اد کرو تو سمجھ لو گے کہ دنیا کی آسودہ حلای یا بدحالی اللہ کی طرف سے آزمائش ہے کہ کافر خوش حالی میں سرکشی اور تنگی میں شکوہ و ناشکری کر کے ناکام ہو اتے ہیں اور مومن نعمت پر شکر کے ساتھ اور مصیبت میں صبر کیساتھ کامیاب ہوجاتے ہیں۔ تمہارا حال تو یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ خوش حالی کی نعمت کا شکر ادا کرو اور بطبور شکر مستحقین پر خرچ کرو، تم اتنا بھی نہیں کرتے کہ یتیم کے ساتھ عزت کا برتاؤ ہی کرلو، یا مسکین کو کھلاتے نہیں تو کسی دوسرے کو ترغیب ہی دے دو ۔ تم تو میراث کا مال بھی جو تمہیں بغیر محنت کے مل گیا ہے، عطا فرمانے والے کا شکر ادا کرتے ہوئے اپنے حصے پر قناعت کے بجائے سارا ہی لپیٹ جاتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تم مال عطا فرمانے والے کے بجائے مال سے محبت کرتے ہو اور حد سے بڑھ کر کرتے ہو۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Wealth and Poverty are no Signs of One&s Acceptance or Rejection فَأَمَّا الْإِنسَانُ إِذَا مَا ابْتَلَاهُ رَبُّهُ فَأَكْرَمَهُ وَنَعَّمَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَكْرَمَنِ ۔ وَأَمَّا إِذَا مَا ابْتَلَاهُ فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَهَانَنِ (As for man, when his Lord tests him, and thus gives him honour and bounties, he says, |"My Lord has honoured me. But when he tests him, and thus straitens his provision for him, he says, |"My Lord has disgraced me...89:15-16). The word &man& here primarily refers to an &unbelieving man& who may form any thought about Allah as he feels like, but in its general sense, the word may include a Muslim as well who has the same thought as an unbeliever. When Allah gives abundant wealth and good health to such people, the devil puts into their head two false ideas. First, they succumb to their baser instincts; they become haughty and arrogant; and they think that the wealth and health is the result of their superior intellect, personal capability, efforts and achievement. Secondly, they think that they are enjoying a favourable status with Allah. If they did not enjoy the favourable position with Him, they would not have been granted such an abundance of wealth. By the same token, if Allah curtails their sustenance i.e. they suffer some degree of poverty, they regard it as a curse from Allah, and complain that He is humiliating or dishonouring them, while they deserved honour and respect. The unbelievers and idolaters do hold such thoughts and ideas, as the Qur&an has pointed out on many occasions, but it is regrettable that many Muslims nowadays fall into similar ideas. Allah refutes man&s belief by the expression کَلَّا Kalla &No/never!& The matter is not as he claims. Wealth does not indicate acceptance of a man by Allah, nor does poverty indicate rejection. [ For indeed Allah gives wealth to those whom He loves and those whom He does not love. Likewise, He withholds sustenance /wealth from those whom He loves and those whom He does not love.] Often the matter is quite the contrary. Fir&aun (the Pharaoh) claimed godhead and lordship, yet he never suffered from any headache. Some of Prophets (علیہم السلام) were sliced, by enemies, into two pieces with a saw. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is reported to have said that the poor refugees will enter Paradise forty years before the wealthy muhajirs (Immigrants). [ Imam Muslim رحمۃ علیہ has transmitted it from ` Abdullah Ibn Umar (رض) - Mazhari ]. In another narration, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is reported to have said that whomever Allah loves, He keeps him away from the worldly luxuries as people keep away their sickly patients from water. [ Ahmad and Tirmidhi transmitted it on the authority of Qatadah Ibn Nu` man Mazhari ].

دنیا میں رزق کی فراخی اور تنگی اللہ کے نزدیک مقبول یا مردود ہونے کی علامت نہیں فاما الانسان الایتہ، یہاں انسان سے مراد اصل میں تو کافر انسان ہے جو اللہ تعالیٰ کے متعلق جو چاہے خیال باندھ لے مگر مفہوم عام کے اعتبار سے وہ مسلمان بھی اس خطاب میں شریک ہے جو اس جیسے خیال میں مبتلا ہو اور وہ خیال یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کو اپنے رزق میں وسعت اور مال و دولت صحت و تندرستی سے نوازے تو شیطان اس کو دو باطل خیالات میں مبتلا کرتا ہے اول یہ کہ وہ سمجھنے لگتا ہے کہ یہ میری ذاتی صلاحیت اور عقل وفہم اور سعی وعمل کا لازمی نتیجہ ہے جو مجھے ملنا ہی چاہئے میں اس کا مستحق ہوں دوسرے یہ کہ ان چیزوں کے حاصل ہونے سے یہ قرار دے کہ میں اللہ کے نزدیک بھی مقبول ہوں اگر مردود ہوتا تو وہ مجھے یہ نعمتیں کیوں دیتا۔ اسی طرح جب کسی انسان پر رزق میں تنگی اور فرقہ وفاقہ آوے تو اس کو اللہ کے نزدیک مردود ہونے کی دلیل سمجھے اور اس پر اسلئے خفا ہو کہ میں تو مستحق انعام و اکرام کا تھا مجھے بےوجہ ذلیل و حقیر کردیا، ایسے خیالات کفار و مشرکین میں تو ہوتے ہی تھے اور قرآن کریم میں کئی جگہ کفار کے ان خیالات کا اظہار مذکور بھی ہے افسوس ہے کہ آجکل بہت سے مسلمان بھی گمراہی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ حق تعالیٰ نے ان آیات میں ایسے انسانوں کا حال ذکر کرکے فرمایا کلا یعنی تمہارا یہ خیال بالکل باطل بےبنیاد ہے نہ دنیا میں وسعت رزق نیک اور مقبول عنداللہ ہونے کی علامت ہے اور نہ تنگی رزق اور فقر وفاقہ اللہ کے نزدیک مردود یا ذلیل ہونے کی علامت ہے بلکہ اکثر معاملہ برعکس ہوتا ہے۔ فرعون کو دعوائے خدائی کے ساتھ کبھی درد سر بھی نہ ہوا اور بعض پیغمبروں کو دشمنوں نے آرے سے چیر کردو ٹکڑے کردیئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ حضرات مہاجرین میں سے جو فقیر ومفلس تھے وہ اغنیا مہاجرین سے چالیس سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے (رواہ مسلم عن عبداللہ بن عمر، مظہری) اور ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جس بندہ سے محبت فرماتے ہیں اس کو دنیا سے ایسا پرہیز کراتے ہیں جیسے تم لوگ اپنے بیمار کو پانی سے پرہیز کراتے ہو ( رواہ احمد والترمذی عن قتادة بن النعمان، مظہری)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاَمَّا الْاِنْسَانُ اِذَا مَا ابْتَلٰىہُ رَبُّہٗ فَاَكْرَمَہٗ وَنَعَّمَہٗ۝ ٠ۥۙ فَيَقُوْلُ رَبِّيْٓ اَكْرَمَنِ۝ ١٥ ۭ «أمَّا» و «أمَّا» حرف يقتضي معنی أحد الشيئين، ويكرّر نحو : أَمَّا أَحَدُكُما فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْراً وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُصْلَبُ [يوسف/ 41] ، ويبتدأ بها الکلام نحو : أمّا بعد فإنه كذا . ( ا ما حرف ) اما ۔ یہ کبھی حرف تفصیل ہوتا ہے ) اور احد اشیئین کے معنی دیتا ہے اور کلام میں مکرر استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ { أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُصْلَبُ } ( سورة يوسف 41) تم میں سے ایک ( جو پہلا خواب بیان کرنے ولا ہے وہ ) تو اپنے آقا کو شراب پلایا کریگا اور جو دوسرا ہے وہ سونی دیا جائے گا ۔ اور کبھی ابتداء کلام کے لئے آتا ہے جیسے امابعد فانہ کذا ۔ إنس الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی: وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان/ 49] . وقیل ابن إنسک للنفس وقوله عزّ وجل : فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء/ 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه/ 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور/ 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي . ( ان س ) الانس یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ { وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا } ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ { فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا } ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا } ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) ابتلاء وإذا قيل : ابْتَلَى فلان کذا وأَبْلَاهُ فذلک يتضمن أمرین : أحدهما تعرّف حاله والوقوف علی ما يجهل من أمره، والثاني ظهور جو دته ورداء ته، وربما قصد به الأمران، وربما يقصد به أحدهما، فإذا قيل في اللہ تعالی: بلا کذا وأبلاه فلیس المراد منه إلا ظهور جو دته ورداء ته، دون التعرف لحاله، والوقوف علی ما يجهل من أمره إذ کان اللہ علّام الغیوب، وعلی هذا قوله عزّ وجل : وَإِذِ ابْتَلى إِبْراهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ [ البقرة/ 124] . ويقال : أَبْلَيْتُ فلانا يمينا : إذا عرضت عليه الیمین لتبلوه بها «3» . ( کسی کا امتحان کرنا ) یہ دو امر کو متضمن ہوتا ہے ( 1) تو اس شخص کی حالت کو جانچنا اور اس سے پوری طرح باخبر ہونا مقصود ہوتا ہے دوسرے ( 2 ) اس کی اچھی یا بری حالت کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا ۔ پھر کبھی تو یہ دونوں معنی مراد ہوتے ہیں اور کبھی صرف ایک ہی معنی مقصود ہوتا ہے ۔ جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف تو صرف دوسرے معنی مراد ہوتے ہیں یعنی اس شخص لہ خوبی یا نقص کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے ۔ کیونکہ ذات ہے اسے کسی کی حالت سے باخبر ہونے کی ضرورت نہیں لہذا آیت کریمہ : وَإِذِ ابْتَلى إِبْراهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ [ البقرة/ 124] اور پروردگار نے چند باتوں میں ابراھیم کی آزمائش کی تو وہ ان میں پورے اترے ۔ دوسری معنی پر محمول ہوگی ( یعنی حضرت ابراھیم کے کمالات کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا مقصود تھا ) ابلیت فلانا یمینا کسی سے آزمائش قسم لینا ۔ كرم الكَرَمُ إذا وصف اللہ تعالیٰ به فهو اسم لإحسانه وإنعامه المتظاهر، نحو قوله : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] ، وإذا وصف به الإنسان فهو اسم للأخلاق والأفعال المحمودة التي تظهر منه، ولا يقال : هو كريم حتی يظهر ذلک منه . قال بعض العلماء : الكَرَمُ کالحرّيّة إلّا أنّ الحرّيّة قد تقال في المحاسن الصّغيرة والکبيرة، والکرم لا يقال إلا في المحاسن الکبيرة، كمن ينفق مالا في تجهيز جيش في سبیل الله، وتحمّل حمالة ترقئ دماء قوم، وقوله تعالی: إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] فإنما کان کذلک لأنّ الْكَرَمَ الأفعال المحمودة، وأكرمها وأشرفها ما يقصد به وجه اللہ تعالی، فمن قصد ذلک بمحاسن فعله فهو التّقيّ ، فإذا أكرم الناس أتقاهم، وكلّ شيء شرف في بابه فإنه يوصف بالکرم . قال تعالی: فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ، وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] ، إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] ، وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] . والإِكْرَامُ والتَّكْرِيمُ : أن يوصل إلى الإنسان إکرام، أي : نفع لا يلحقه فيه غضاضة، أو أن يجعل ما يوصل إليه شيئا كَرِيماً ، أي : شریفا، قال : هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] . وقوله : بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] أي : جعلهم کراما، قال : كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] ، وقال : بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ، وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] ، وقوله : ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] منطو علی المعنيين . ( ک ر م ) الکرم ۔ جب اللہ کی صفت ہو تو اس سے احسان وانعام مراد ہوتا ہے جو ذات باری تعالیٰ سے صادر ہوتا رہتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] تو میر اپروردگار بےپرواہ اور کرم کرنے والا ہے ۔ اور جب انسان کی صفت ہو تو پسندیدہ اخلاق اور افعال مراد ہوتے ہیں جو کسی انسان سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ اور کسی شخص کو اس وقت تک کریمہ نہیں کہاجاسکتا جب تک کہ اس سے کرم کا ظہور نہ ہوچکا ہو ۔ بعض نے علماء کہا ہے کہ حریت اور کرم ہم معنی ہیں لیکن حریت کا لفظ جھوٹی بڑی ہر قسم کی خوبیوں پر بولا جا تا ہے اور کرم صرف بڑے بڑے محاسن کو کہتے ہیں مثلا جہاد میں فوج کے لئے سازو سامان مہیا کرنا یا کیس ایسے بھاری تا وان کو اٹھا لینا جس سے قوم کے خون اور جان کی حفاظت ہوتی ہو ۔ اور آیت : ۔ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا ہے جو زیادہ پرہیز گار ہیں ۔ میں القی یعنی سب سے زیادہ پرہیز گا ۔ کو اکرم یعنی سب سے زیادہ عزت و تکریم کا مستحق ٹہھر انے کی وجہ یہ ہے کہ کرم بہترین صفات کو کہتے ہیں اور سب سے بہتر اور پسند یدہ کام وہی ہوسکتے ہیں جن سے رضا الہیٰ کے حصول کا قصد کیا جائے لہذا جو جس قدر زیادہ پرہیز گار ہوگا اسی قدر زیادہ واجب التکریم ہوگا ۔ نیز الکریم ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنی چیز کو کہتے ہیں جو اپنی ہم نوع چیزوں میں سب سے زیادہ باشرف ہو چناچہ فرمایا : ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] پھر ( اس سے ) اس میں ہر قسم کی نفیس چیزیں اگائیں ۔ وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] اور کھیتیاں اور نفیس مکان ۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا ۔ الا کرام والتکریم کے معنی ہیں کسی کو اس طرح نفع پہچانا کہ اس میں اس کی کسی طرح کی سبکی اور خفت نہ ہو یا جو نفع پہچا یا جائے وہ نہایت باشرف اور اعلٰی ہو اور المکرم کے معنی معزز اور با شرف کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] بھلا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے ؛ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] کے معنی یہ ہیں کہ وہ اللہ کے معزز بندے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] اور مجھے عزت والوں میں کیا ۔ كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] عالی قدر تمہاری باتوں کے لکھنے والے ۔ بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ( ایسے ) لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سر دار اور نیوک کار ہیں ۔ اور آیت : ۔ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] اور جو صاحب جلال اور عظمت ہے ۔ میں اکرام کا لفظ ہر دو معنی پر مشتمل ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ عزت و تکریم بھی عطا کرتا ہے اور باشرف چیزیں بھی بخشتا ہے نعم النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] ( ن ع م ) النعمۃ اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

8 Now, criticizing the general moral state of the people, it is being said: "After all, why shouldn't the men who have adopted such an attitude in the life of the world, be ever called to account, and how can it be regarded as a demand of reason and justice that when man has left the world, after doing alI he could, he should never receive any reward or suffer any punishment for his deeds?"

سورة الْفَجْر حاشیہ نمبر :8 اب لوگوں کی عام اخلاقی حالت پر تنقید کر کے یہ بتایا جا رہا ہے کہ دنیا کی زندگی میں یہ رویہ جن انسانوں نے اختیار کر رکھا ہے ، آخر کیا وجہ ہے کہ ان سے کبھی باز پرس نہ ہو ، اور اس بات کو عقل و اخلاق کا تقاضا کیسے مانا جا سکتا ہے کہ یہ سب کچھ کر کے جب انسان دنیا سے رخصت ہو جائے تو اسے کسی جزا اور سزا سے سابقہ پیش نہ آئے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٥۔ ٢٠۔ اوپر کی آیتوں میں قریش کی طرح طرح کی سرکشی کے سبب سے عاد وثمود فرعون کی ہلاکت کا قصہ ان کے راہ راست پر آنے کے لئے ذکر فرمایا تھا ان آیتوں میں ارشاد ہے کہ ان لوگوں کو قیامت کا انکار ہے اس لئے عقبیٰ کی بھلائی برائی کو تو یہ لوگ سمجھتے ہی نہیں فقط دنیا کی زیست پر ان کے سب کاموں کا مدار ہے جس کے سبب سے ان کا یہ خیال ہے کہ دنیا میں جو کوئی آسودہ حال ہے اس پر خدا مہربان ہے اور اس کی عزت خدا کو منظور ہے اور جو کوئی دنیا میں تنگ حال ہے اس سے خدا ناخوش ہے اور اس کی ذلت خدا کو منظور ہے۔ پھر فرمایا کہ اللہ کے نزدیک بات یوں نہیں جیسے ان خیال ہے یہ اس لئے فرمایا کہ ابھی فرعون کا قصہ جو ان کو سنایا۔ مثلاً اس میں فرعون کی آسودہ حالی کو اور اس پر جو عتاب الٰہی ہوا اس کو یہ لوگ یاد کریں تو ان کو معلوم ہوجائے گا کہ دنیا کی آسودہ حالی خدا کے نزدیک کچھ ایسی قدر کی چیز نہیں ہے جس پر وہ مہربان ہو اسی کو آسودہ حالی دے بلکہ آسودہ حالی اور تنگ حالی یہ خدا کی ایک مصلحت ہے جس کا حال اسی کو معلوم ہے۔ اوپر گزر چکا ہے کہ قریش میں یہ بھی ایک دستور تھا کہ وہ مردہ کے مال میں سے یتیم نو عمر لڑکوں اور عورتوں کو کچھ حصہ نہیں دیتے تھے اسی واسطے آسودہ حالی اور تنگ حالی کے تذکرہ میں یہ بھی قریش کی مذمت فرمائی کہ یہ لوگ دنیا کی آسودہ حالی کو ایسا عزیز جانتے ہیں کہ یتیموں کا حق مار کر مردہ کا سب مال دبا رکھنے کا دستور اور محتاج کو ایک ٹکڑا روٹی کا نہ دینے کا دستور انہوں نے نکال رکھا ہے غرض قریش کے اس غلط خیال کے جواب کا حاصل یہ ہے کہ دنیا کی آسودہ حالی تو کچھ خدا کی مہربانی کا سبب نہیں بلکہ دنیا کے آسودہ حال لوگوں کا اس طرح کا برتاؤ جیسا کہ تم لوگوں کا ہے اور الٹا خدا کی خفگی کا سبب ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(89:15) فاما الانسان اذا ما ابتلہ ربہ : ف حرف عطف ہے اما حرف شرط سے۔ اور اکثر حالات میں تفصیل کے لئے آتا ہے۔ اور کبھی تاکید کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ اور یہاں تاکید کے لئے مستعمل ہے۔ اور جو انسان ہے، لیکن انسان ایسا ہے۔ مگر انسان ہے کہ ۔۔ اذا شرطیہ اور ما زائدہ ہے۔ ابتلہ : ابتلی، ماضی واحد مذکر غائب۔ ابتلاء (افتعال) مصدر۔ بمعنی آزمانا۔ ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب۔ الانسان کے لئے ہے۔ لیکن انسان ایسا ہے کہ اس کا پروردگار اس کو آزماتا ہے۔ فاکرمہ ف بمعنی پھر۔ پس اکرمہ : اکرم ماضی واحد مذکر غائب اکرام (افعال) مصدر سے۔ ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب انسان کے لئے ہے۔ پھر اس کو (آزمائش کے لئے) عزت بخشتا ہے۔ ونعم اور اس کی نعمت عطا کرتا ہے۔ فیقول ربی اکرمن : ف جواب شرط کے لئے ہے۔ اکرم ماضی واحد مذکر غائب۔ ن وقایہ، ی ضمیر واحد متکلم محذوف۔ تو کہتا ہے کہ اس نے مجھے عزت بخشی (کیونکہ وہ برے اعمال پر خوش ہے) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 16 یعنی میں اسی لائق تھا اس لئے اس نے مجھے عزت اور دولت سے نوازا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : عاد، ثمود اور فرعون ہی نہیں ” رب ذوالجلال “ جب چاہے کسی باغی انسان کو پکڑ لے اور اسے آزمائش میں مبتلا کردے کیونکہ ہر وقت انسان اپنے رب کی نگرانی میں ہے۔ انسان کی عادت ہے کہ جب اسے اس کا رب مال اور تکریم عطا کرتا ہے تو وہ سوچتا اور کہتا ہے کہ مجھے میرے رب نے عزت عطا فرمائی ہے ا ورجب اس کا رب اسے رزق کی تنگی کے ساتھ آزماتا ہے تو کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے ذلیل کردیا ہے حالانکہ اکثر مال داروں کی حالت یہ ہے کہ وہ یتیم کے حقوق کا خیال نہیں رکھتے اور مسکینوں کو نہ کھانا کھلاتے ہیں اور نہ دوسروں کو ترغیب دیتے ہیں بلکہ یتیموں اور مسکینوں کا مال ہڑپ کرجاتے ہیں اور مال کے ساتھ بےحد محبت رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں یہ بات رکھی ہے کہ اگر وہ یتیموں، مسکینوں اور فی سبیل اللہ کے کاموں پر خرچ کرتا ہے تو اس کی طبیعت میں کشادگی اور راحت پیدا ہوتی ہے اگر وہ غریبوں کے حقوق ادا نہیں کرتا تو اس کے دل میں بخل بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اس بنا پر مال کے بارے میں اس کی حرص بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ایسے شخص کا ضمیر بن جاتا ہے کہ اگر اسے مال اور تکریم حاصل ہو تو وہ اپنے رب پر خوش ہوتا ہے اور اگر اسے مال کی آزمائش میں مبتلا کردیا جائے تو کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے ذلیل کردیا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مال اور جاہ و حشمت نیکی اور حقیقی عزت کا معیار نہیں۔ اس کے نزدیک یہ انسان کی آزمائش کا ذریعہ اور طریقہ ہے کہ وہ کسی کو مال اور منصب دے کر آزماتا ہے اور کسی سے چھین کر آزمائش کرتا ہے۔ لیکن دنیا دار شخص ان چیزوں کو اپنے رب کی رضا کا سر ٹیفکیٹ سمجھتا ہے حالانکہ یہ چیزیں نیک لوگوں کے مقابلے میں دنیا داروں کو زیادہ میسر ہوتی ہیں۔ مومن کی عظمت : (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) کُنَّا عِنْدَ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَأُتِیَ بِجُمَّارٍ فَقَالَ إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَۃً مَثَلُہَا کَمَثَلِ الْمُسْلِمِ فَأَرَدْتُ أَنْ أَقُولَ ہِیَ النَّخْلَۃُ فَإِذَا أَنَا أَصْغَرُ الْقَوْمِ فَسَکَتُّ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہِیَ النَّخْلَۃُ ) (رواہ البخاری : باب الفہم فی العلم) ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے آپ کے پاس کھجوریں لائیں گئیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سوال کیا کہ بتلاؤ درختوں میں سے ایک ایسا درخت ہے جو مومن کی مانند ہے ؟ میں نے ارادہ کیا کہ بتلاؤں کہ وہ کھجور کا درخت ہے لیکن میں قوم میں سے سب سے چھوٹا تھا اس لیے میں خاموش رہا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود جواب دے دیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔ “ سخی اور بخیل میں فرق : (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَثَلُ الْبَخِےْلِ وَالْمُتَصَدِّقِ کَمَثَلِ رَجُلَےْنِ عَلَےْھِمَا جُنَّتَانِ مِنْ حَدِےْدٍ قَدِ اضْطُرَّتْ اَےْدِےْھِمَا اِلٰی ثُدِیِّھِمَا وَتَرَاقِےْھِمَا فَجَعَلَ الْمُتَصَدِّقُ کُلَّمَا تَصَدَّقَ بِصَدَقَۃٍ انْبَسَطَتْ عَنْہُ وَجَعَلَ الْبَخِیْلُ کُلَّمَا ھَمَّ بِصَدَقَۃٍ قَلَصَتْ وَاَخَذَتْ کُلُّ حَلْقَۃٍ بِمَکَانِھَا) (رواہ البخاری : باب مَثَلِ الْمُتَصَدِّقِ وَالْبَخِیلِ ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بخیل اور صدقہ کرنے والے کی مثال ان دو آدمیوں کی طرح ہے جنہوں نے زرہ پہن رکھی ہو اس کے ہاتھوں کو اس کی چھاتیوں اور سینے کے ساتھ جکڑ دیا گیا ہو۔ صدقہ دینے والا صدقہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو زرہ کشادہ ہوجاتی ہے، بخیل صدقہ کرنے کا خیال کرتا ہے تو زرہ سمٹ جاتی اور ہر کڑی اپنی اپنی جگہ پر سخت ہوجاتی ہے۔ “ (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی ےَقُوْلُ ےَوْمَ الْقِےٰمَۃِ ےَا ابْنَ اٰدَمَ مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِیْ قَالَ ےَا رَبِّ کَےْفَ اَعُوْدُکَ وَاَنْتَ رَبُّ الْعٰلَمِےْنَ قَالَ اَمَا عَلِمْتَ اَنَّ عَبْدِی فُلَانًا مَّرِضَ فَلَمْ تَعُدْہُ اَمَا عَلِمْتَ اَنَّکَ لَوْعُدْتَّہُ لَوَجَدْتَّنِیْ عِنْدَہُ ےَا ابْنَ اٰدَمَ اسْتَطْعَمْتُکَ فَلَمْ تُطْعِمْنِیْ قَالَ ےَا رَبِّ کَےْفَ اُطْعِمُکَ وَاَنْتَ رَبُّ الْعٰلَمِےْنَ قَالَ اَمَا عَلِمْتَ اَنَّہُ اسْتَطْعَمَکَ عَبْدِیْ فُلَانٌ فَلَمْ تُطْعِمْہُ اَمَاعَلِمْتَ اَنَّکَ لَوْ اَطْعَمْتَہُ لَوَجَدْتَّ ذَالِکَ عِنْدِیْ ےَا ابْنَ اٰدَمَ اسْتَسْقَےْتُکَ فَلَمْ تَسْقِنِیْ قَالَ ےَا رَبِّ کَےْفَ اَسْقِےْکَ وَاَنْتَ رَبُّ الْعٰلَمِےْنَ قَالَ اسْتَسْقَاکَ عَبْدِیْ فُلَانٌ فَلَمْ تَسْقِہٖ اَمَا عَلِمْتَ اَنَّکَ لَوْ سَقَےْتَہُ وَجَدْتَّ ذَالِکَ عِنْدِی) (رواہ مسلم : باب فضل عیادۃ المریض) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا اے آدم کے بیٹے ! میں بیمار پڑا تو تو نے میری بیمارپرسی نہ کی۔ بندہ عرض کرے گا میرے پروردگار میں آپ کی بیمار پرسی کیسے کرتا ؟ کیونکہ آپ ہی تو رب العالمین ہے اس پر اللہ فرمائے گا۔ تو نہیں جانتا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا تو نے اس کی بیمار پرسی نہ کی اگر تو اس کی بیمار پرسی کے لیے آتا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔ اے ابن آدم ! میں نے تجھ سے کھا نامانگا لیکن تو نے مجھے نہ کھلایا ؟ بندہ جواب دے گا، اے میرے رب ! میں تجھے کھانا کیسے کھلاتا تو تو جہانوں کو رزق دینے والا ہے اللہ تعالیٰ فرمائے گا تجھے معلوم نہیں میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا مگر تو نے اس کو کھلانے سے انکار کردیا۔ کیا تجھے معلوم نہیں کہ اگر تو اسے کھانا کھلاتا تو اس کا بدلہ میرے پاس پاتا۔ آدم کے بیٹے ! میں نے تجھ سے پانی طلب کیا لیکن تو نے مجھے پانی نہ پلایاوہ عرض کرے گا، اے میرے رب ! میں تجھے کیسے پانی پلاتا جب کہ تو تو جہانوں کا پالنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا لیکن تو نے اسے پانی نہیں پلایا کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو نے اس کو پانی پلایا ہوتا تو آج میرے پاس تو اپنے لیے مشروبات پاتا۔ “ (عَنِ ابْنِ الزُّبَیْرِ یَقُولُ سَمِعْتُ رَسُول اللَّہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ لَیْسَ الْمُؤْمِنُ الَّذِی یَشْبَعُ وَجَارُہُ جَاءِعٌ إِلَی جَنْبِہِ ) (رواہ البیھقی : باب صاحِبِ الْمَالِ لاَ یَمْنَعُ الْمُضْطَرَّ فَضْلاً إِنْ کَانَ عِنْدَہُ ) ” حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا وہ شخص مومن نہیں ہوسکتا جو خود سیر ہو کر کھائے اور اس کا ہمسایہ اس کے پہلو میں بھوکا رہے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ انسان کو اپنی نعمت دے کر آزماتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ غربت کے ذریعے بھی انسان کی آزمائش کرتا ہے۔ ٣۔ دنیادارکو نعمت ملتی ہے تو رب کی تعریف کرتا ہے اور جب نعمت چھن جاتی ہے تو اپنے رب کا شکوہ کرتا ہے۔ ٤۔ مال سے محبت کرنے والے لوگ یتیموں اور مسکینوں کا خیال نہیں رکھتے۔ ٥۔ مال سے محبت رکھنے والے لوگ یتیموں اور مسکینوں کا مال ہڑپ کر جاتے ہیں۔ ٦۔ دنیادار لوگوں کی نشانی یہ ہے کہ وہ حد سے زیادہ مال سے محبت رکھتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن یتیموں اور مسکینوں کے حقوق : ١۔ یتیم تمہارے بھائی ہیں۔ (البقرۃ : ٢٢٠) ٢۔ یتیموں کی اصلاح میں بہتری ہے۔ (البقرۃ : ٢٢٠) ٣۔ یتیم کو جھڑکنے کی ممانعت ہے۔ (الضحیٰ : ٩) ٤۔ یتیم کا مال کھانا بہت بڑا گناہ ہے۔ (النساء : ٢) ٥۔ والدین، یتیموں، اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے۔ (النساء : ٣٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فاما الاانسان ............................ اھانن یہ تو ہے ، انسان کی سوچ ، ان حالات کے بارے میں جن سے وہ گزرتا ہے۔ کبھی وہ امیر ہوتا ہے ، کبھی غریب ہوتا ہے ، کبھی فراخی نصیب ہوتی ہے اور کبھی تنگی۔ کبھی اللہ اسے نعمتوں اور عزتوں سے آزماتا ہے کبھی جاہ مال سے اس کی آزمائش ہوتی ہے لیکن وہ سمجھ نہیں پاتا کہ یہ تو آزمائش ہورہی ہے کہ اگر وہ کامیاب ہوا تو اسے جزاء ملے۔ لیکن اس کی سوچ یہ ہے کہ وہ مال ومتال کی فراخی اور عزت وجاہ سے یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ وہ اللہ کے نزدیک اس مقام و مرتبہ کا مستحق ہے اور یہ دولت اور یہ عزت اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اللہ کے نزدیک مقبول ہے۔ اس غلط فہمی کی وجہ سے وہ آزمائش کو انعام سمجھتا ہے اور امتحان کو نتیجہ سمجھتا ہے۔ اور اللہ کے نزدیک عزت ومقام کو وہ اس دنیا کی عزت اور مقام پر قیاس کرتا ہے۔ اسی طرح ایسا شخص اگر غریب ہوجائے تو یہ سمجھتا ہے شاید اسے سزا دے دی گئی ہے۔ اور وہ آزمائش کو سزا سمجھتا ہے۔ اور اگر اللہ نے اس کے رزق میں کمی کردی ہے تو یہ اسے سزا اور توہین سمجھتا ہے۔ اس کی سوچ یوں ہے کہ اگر یہ توہین آمیز سلوک نہ ہوتا تو اللہ اسے غریب نہ بناتا۔ دونوں حالتوں میں ایسا سوچنے والا شخص غلطی پر ہوتا ہے۔ جس طرح اس کی سوچ غلط ہے اسی طرح اس کا اندازہ بھی غلط ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ رزق کی تنگی بھی آزمائش ہے اور کشادگی بھی آزمائش ہے۔ کشادگی یوں آزمائش ہے کہ آیا اس پر وہ شکر ادا کرتا ہے یا دولت کو ظلم وسرکشی کا سبب بناتا ہے اور تنگی کی صورت میں آیا وہ صبر کرتا ہے یا ترش مزاجی کا اظہار کرتا ہے ۔ دونوں حالات میں اس کا جو رد عمل ہوگا اسی کے مطابق جزاء وسزا ہوگی۔ دنیا کا مال اور دنیا کی غربت بذات خود نہ جزاء ہیں اور نہ سزا ہیں۔ اللہ کے بندوں کو ان کی دولت کی بنا پر نہیں تولا جاتا۔ نہ اس دنیا میں اللہ کی طرف نعمت کا عطا ہونا یا منع کیا جانا علامت ہے اللہ کی رضامندی کی یا اللہ کی طرف سے ناراضگی کی۔ اللہ تو نیکوکاروں کو بھی دیتا ہے اور بدکاروں کو بھی دیتا ہے ، اور نیکوکاروں سے منع بھی کرتا ہے اور عطا بھی کرتا ہے۔ انسان کا قلب ایمان سے خالی ہوتا ہے ، تو وہ اللہ کی جانب سے دین یا محروم کرنے کی حکمت کو نہیں سمجھ پاتا۔ اور نہوہ اللہ کے ہاں مقرر کردہ حسن وقبح کے پیمانوں کو سمجھتا ہے اور جب کسی کا دل ایمان سے بھر جاتا ہے تو وہ خدا رسیدہ ہوتا ہے اور اسے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے میزان میں کیا چیزوزن دار ہے۔ اس لئے ایسے شخص کے نزدیک دنیا کی کم قیمت منافع ہلکے ہوجاتے ہیں اور وہ جانتا ہے کہ آزمائش کے نتیجے میں جزاء ملیت ہے تو وہ رزق کی کشادگی اور تنگی دونوں حالتوں میں قیامت کے لئے کام کرتا ہے اور دونوں حالتوں میں تقدیر الٰہی پر مطمئن ہوتا ہے اور دنیا کی ظاہری ٹھاٹھ باٹھ کے بغیر بھی اللہ کے ہاں جو اقدار وزن دار ہیں ان کو سمجھتا ہے اور دنیا کی بےوزن قدریں اسے ہیچ نظر آتی ہیں۔ قرآن کریم کے براہ راست مخاطب مکہ کے لوگو تھے۔ ایسے لوگ ہر سوسائٹی میں پائے جاتے ہیں۔ ان کا قصور یہ ہوتا ہے کہ وہ اس دنیا سے وسیع تر دنیا اور بڑی دنیا کا تصور نہیں کرپاتے۔ یہ ایسے لوگ تھے جو تنگی رزق اور کشادگی رزق کے بارے میں اور اللہ کے بارے میں یہ تصور رکھتے تھے جس کا اوپر ذکر ہوا۔ وہ اپنی اس سوچ کے مطابق اس زمین پر لوگوں کی قدروقمیت متعین کرتے تھے۔ خلاصہ یہ کہ ان کے نزدیک مال وجاہ ہی سب کچھ تھا۔ اس سے آگے ان کے نزدیک کوئی پیمانہ نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دولت کے پیچھے مرتے تھے اور مال کی محبت میں حد سے گزر جاتے تھے۔ جس کی وجہ سے وہ بےحد لالچی اور ہر کسی سے فائدے کی امید اپنے دل میں لئے ہوئے تھے ، اور اس جذبہ کی وجہ سے یہ لوگ سخت لالچی ہوگئے تھے۔ چناچہ اللہ یہاں ان لوگوں کی دلی حالت کو ذرا کھولتا ہے اور بتاتا ہے کہ مال و دولت کی یہ لالچ جو ان کے دلوں میں رچی بسی ہے ، وہ اس وجہ سے کہ مال و دولت کے بارے میں ان کی سوچ غلط ہے۔ یہ نہیں سمجھتے کہ مال و دولت نعمت ہی نہیں بلکہ آزمائش بھی ہے۔ اسی طرح غربت بھی مصیبت ہی نہیں بلکہ آزمائش ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ان دونوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ شانہ نے ابتلاء اور امتحان کا تذکرہ فرمایا ہے اور ساتھ ہی انسان کا مزاج بھی بتادیا۔ اللہ تعالیٰ شانہ اپنے بندوں کا کبھی انعام و اکرام کے ذریعہ امتحان لیتا ہے اور کبھی ان کے رزق میں تنگی فرما کر آزمائش میں ڈال دیتا ہے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ مضمون، مضمون سابق سے متصل ہے اسی لیے مضمون کے شروع میں ” ف “ لائی گئی ہے اور مطلب یہ ہے کہ جو لوگ قرآن کے مخاطبین ہیں انہیں چاہیے تھا کہ سابقہ اقوام کے احوال سے عبرت لیتے اور نصیحت پکڑتے اور کفر و شرک اور نافرمانی سے توبہ کرتے لیکن انسانی مزاج کے مطابق انہوں نے اپنا وہی دنیاداری کا مزاج بنا رکھا ہے اور یہ دنیاداری کا مزاج اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری پر نہیں آنے دیتا، دنیا کی نعمتیں مل جانا اللہ تعالیٰ کے یہاں مقبولیت کی دلیل نہیں ہے اور دنیا کی چیزوں سے محروم ہونا، رزق کی تنگی ہونا، یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں مردود ہے اسی لیے کافر بھی تنگ دست اور مالدار ہوتے ہیں اور اہل ایمان میں بھی دونوں طرح کے بندے پائے جاتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ انعام و اکرام اور فقر و فاقہ اور تنگدستی ان احوال میں مبتلا کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے امتحان لیا جاتا ہے انسان پر لازم ہے کہ نعمتیں مل جائیں تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے اس کی نافرمانی نہ کرے اور تکبر کی شان اختیار نہ کرے اور اپنے مال پر نہ اترائے اور یہ پیش نظر رکھے کہ یہ چیزیں دے کر میرا امتحان کیا گیا ہے اور اگر تنگدستی کی حالت آجائے پیسہ پاس نہ ہو مال چلا جائے نعمتیں جاتی رہیں تو صبر سے کام لے نہ اللہ تعالیٰ کی شکایت کرے نہ نافرمانی کرے ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

8:۔ ” فاما الانسان “ یہ شکوی ہے۔ انسان اپنی عزت و ذلت کا مدار دنیوی دولت کی کثرت و قلت کو قرار دیتا ہے حالانکہ دولت کی کمی بیشی انسانوں کے لیے ابتلاء و امتحان ہے وہ کسی کو وافر دولت دے کر اس کا امتحان لیتا ہے کہ وہ دولت اللہ کی مرضی کے مطابق خرچ کرتا ہے یا نہیں اور کسی کا تندستی سے امتحان لیتا ہے کہ وہ اس حال میں صبر و شکر سے کام لیتا ہے یا شکوہ شکایت کرتا ہے لیکن انسان کا یہ حال ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ بطور ابتلا اس کو دنیا میں عزت و دولت عطا کردے تو وہ سمجھتا ہے کہ اللہ نے میری عزت کی ہے اور اگر اپنی حکمت بالغہ کے تحت اس کی روزی تنگ کردے تو وہ کہنے لگتا ہے خدا نے مجھے رسوا کردیا ہے حالانکہ عزت و ذلت کا معیار دولت نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طاعت و معصیت ہے۔ سب سے زیادہ قابل عزت وہی ہے جو سب سے زیادہ خدا کا فرمانبردار ہو۔ ” ان اکرمکم عند اللہ اتقکم “ (حجرات رکوع 2) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(15) بس انسان کا یہ حال ہے کہ جب اس کا پروردگار اس کو جانچتا اور آزماتا ہے اور اس کو عزت اور نعمت سے نوازتا ہے تو کہنے لگتا ہے میرے پروردگار نے میری قدر کی اور میری عزت افزائی کی یہ شاید کافر اور منکر انسان کی حالت بیان فرمائی کہ اس کی غفلت اور حب جاہ ومال کی یہ حالت ہے کہ حضرت حق تعالیٰ جب کبھی اس کو مال اور ظاہری عزت سے نوازتا ہے تو رب اکرمن یعنی میں اس سلوک کا مستحق تھا میرے رب نے میری قدر افزائی کی میرے ساتھ وہی معاملہ کیا جس کا میں حقدار تھا۔