Surat ul Fajar

Surah: 89

Verse: 16

سورة الفجر

وَ اَمَّاۤ اِذَا مَا ابۡتَلٰىہُ فَقَدَرَ عَلَیۡہِ رِزۡقَہٗ ۬ ۙ فَیَقُوۡلُ رَبِّیۡۤ اَہَانَنِ ﴿ۚ۱۶﴾

But when He tries him and restricts his provision, he says, "My Lord has humiliated me."

اور جب وہ اسکو آزماتا ہے اس کی روزی تنگ کر دیتا ہے تو وہ کہنے لگتا ہے کہ میرے رب نے میری اہانت کی ( اور ذلیل کیا ) ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

As for man, when his Lord tries him by giving him honor and bounties, then he says: "My Lord has honored me." But when He tries him by straitening his means of life, he says: "My Lord has humiliated me!" Allah refutes man in his belief that if Allah gives Him abundant provisions to test him with it, it is out of His honor for him. But this is not the case, rather it is a trial and a test, as Allah says, أَيَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهِ مِن مَّالٍ وَبَنِينَ نُسَارِعُ لَهُمْ فِى الْخَيْرَتِ بَل لاَّ يَشْعُرُونَ Do they think that in wealth and children with which We enlarge them. We hasten unto them with good things. Nay, but they perceive not. (23:55-56) Likewise, from another angle, if Allah tests him and tries him by curtailing his sustenance, he believes that is because Allah is humiliating him. As Allah says,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

16۔ 1 یعنی وہ تنگی میں مبتلا کر کے آزماتا ہے تو اللہ کے بارے میں بدگمانی کا اظہار کرتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢] رزق کی کمی بیشی & دونوں میں انسان کی آزمائش :۔ اللہ تعالیٰ انسان کی دونوں طرح سے آزمائش کرتا ہے۔ نعمتوں اور مال و دولت کی فراوانی سے بھی کہ آیا انسان اللہ کی نعمتوں کا شکر بجا لاتا ہے ؟ اور رزق کی تنگی سے بھی کہ آیا انسان ایسے اوقات میں صبر سے کام لیتا ہے اور اللہ کی رضا پر راضی و مطمئن رہتا ہے ؟ مگر مال و دولت کے معاملہ میں انسان کی قدریں ہی عجیب اور غلط قسم کی ہیں۔ جب اس پر انعامات کی بارش ہو رہی ہوتی ہے تو وہ یہ نہیں سمجھتا کہ میں آزمائش میں پڑا ہوا ہوں بلکہ یہ سمجھتا ہے کہ اللہ آج کل مجھ پر بڑا مہربان ہے اور جب تنگی کا دور آتا ہے۔ اس وقت بھی وہ یہ نہیں سمجھتا کہ میری آزمائش کی جارہی ہے بلکہ یہ سمجھتا ہے کہ اللہ نے تو میری توہین کر ڈالی ہے۔ گویا اس کی نظروں میں عزت اور ذلت کا معیار صرف مال و دولت کی کمی بیشی ہے۔ مال و دولت زیادہ ہو تو ایسا آدمی معزز ہے اور اگر تنگ دست ہو تو وہ ذلیل ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاَمَّآ اِذَا مَا ابْتَلٰىہُ فَقَدَرَ عَلَيْہِ رِزْقَہٗ۝ ٠ۥۙ فَيَقُوْلُ رَبِّيْٓ اَہَانَنِ۝ ١٦ ۚ قدر ( تنگي) وقَدَرْتُ عليه الشیء : ضيّقته، كأنما جعلته بقدر بخلاف ما وصف بغیر حساب . قال تعالی: وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ [ الطلاق/ 7] ، أي : ضيّق عليه، وقال : يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشاءُ وَيَقْدِرُ [ الروم/ 37] ، وقال : فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَيْهِ [ الأنبیاء/ 87] ، أي : لن نضيّق عليه، وقرئ : ( لن نُقَدِّرَ عليه) «3» ، ومن هذا المعنی اشتقّ الْأَقْدَرُ ، أي : القصیرُ العنق . وفرس أَقْدَرُ : يضع حافر رجله موضع حافر يده، وقوله : وَما قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ [ الأنعام/ 91] ، أي : ما عرفوا کنهه تنبيها أنه كيف يمكنهم أن يدرکوا کنهه، وهذا وصفه اور قدرت علیہ الشئی کے معنی کسی پر تنگی کردینے کے ہیں گویا وہ چیز اسے معین مقدار کے ساتھ دی گئی ہے اس کے بالمقابل بغیر حساب ( یعنی بےاندازہ ) آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ [ الطلاق/ 7] اور جس کے رزق میں تنگی ہو ۔ یعنی جس پر اس کی روزی تنگ کردی گئی ہو ۔ نیز فرمایا : يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشاءُ وَيَقْدِرُ [ الروم/ 37] خدا جس پر جاہتا ہے رزق فراخ کردیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے ۔ فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَيْهِ [ الأنبیاء/ 87] اور خیال کیا کہ ہم ان پر تنگی نہیں کریں گے اور ایک قرآت میں لن نقدر علیہ سے اور اسی سے لفظ اقدر مشتق ہے جس کے معنی کوتاہ گردن آدمی کے ہیں اوراقدر اس گھوڑے کو بھی کہتے ہیں جس کے دوڑتے وقت پچھلے پاؤں ٹھیک اس جگہ پڑیں جہاں اگلے پاؤں پڑے تھے ۔ اور آیت کریمہ وما قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ [ الأنعام/ 91] ان لوگوں نے خدا کی قدرشناسی جیسی کرنی چاہیے تھی نہیں کی ۔ یعنی لوگ اس کی حقیقت کو نہیں پاسکے اور پھر اس امر پر تنبیہ کی ہے کہ وہ اس کی کنہہ کا ادارک بھی کیسے کرسکتے ہیں رزق الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، ( ر ز ق) الرزق وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ هين الْهَوَانُ علی وجهين : أحدهما : تذلّل الإنسان في نفسه لما لا يلحق به غضاضة، فيمدح به نحو قوله : وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ونحو ما روي عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم :«المؤمن هَيِّنٌ ليّن» الثاني : أن يكون من جهة متسلّط مستخفّ بهفيذمّ به . وعلی الثاني قوله تعالی: الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام/ 93] ، فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت/ 17] ، وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة/ 90] ، وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران/ 178] ، فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج/ 57] ، وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج/ 18] ويقال : هانَ الأمْرُ علی فلان : سهل . قال اللہ تعالی: هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم/ 21] ، وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ [ الروم/ 27] ، وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور/ 15] والْهَاوُونَ : فاعول من الهون، ولا يقال هارون، لأنه ليس في کلامهم فاعل . ( ھ و ن ) الھوان اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے انسان کا کسی ایسے موقعہ پر نر می کا اظہار کرتا جس میں اس کی سبکی نہ ہو قابل ستائش ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر متواضع ہوکر چلتے ہیں ۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے المؤمن هَيِّنٌ ليّن» کہ مومن متواضع اور نرم مزاج ہوتا ہے دوم ھان بمعنی ذلت اور رسوائی کے آتا ہے یعنی دوسرا انسان اس پر متسلط ہو کر اسے سبکسار کرے تو یہ قابل مذمت ہے چناچہ اس معنی میں فرمایا : ۔ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام/ 93] سو آج تم کو ذلت کا عذاب ہے ۔ فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت/ 17] تو۔ کڑک نے ان کو آپکڑا اور وہ ذلت کا عذاب تھا وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة/ 90] اور کافروں کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے ۔ وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران/ 178] اور آخر کار ان کو ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج/ 57] انکے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج/ 18] اور جس کو خدا ذلیل کرے اس کو کوئی عزت دینے ولاا نہیں ۔ علی کے ساتھ کے معنی کسی معاملہ کے آسان ہو نیکے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم/ 21] کہ یہ مجھے آسان ہے ۔ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ [ الروم/ 27] اور یہ اس پر بہت آسان ہے ۔ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور/ 15] اور تم اسے ایک ہلکی بات سمجھتے ہو ۔ ھاودن کمزور یہ ھون سے ہے اور چونکہ قاعل کا وزن کلام عرب میں نہیں پایا اسلئے ھاون کی بجائے ہارون بروزن فا عول کہا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

9 This then is man's materialistic view of life. He regards the wealth and position and power of this world alone as everything. When he has it, he is filled with pride and says God has honoured me; and when he fails to obtain it, he says: God has humiliated me. Thus, the criterion of honour and humiliation in his sight is the possession of wealth and position and power, or the absence of it, whereas the actual truth which he does not understand is that whatever Allah has given anybody in the world has been given for the sake of a trial. If he has given him wealth and power, it has been given for a trial to see whether he becomes grateful for it, or commits ingratitude. If he has made him poor, in this too there is a trial for him to see whether he remains content and patient in the will of God and faces his hardships bravely within permissible bounds, or becomes ready to transgress every limit of morality and honesty and starts cursing his God.

سورة الْفَجْر حاشیہ نمبر :9 یعنی یہ ہے انسان کا مادہ پرستانہ نظریہ حیات ۔ اسی دنیا کے مال و دولت اور جاہ و اقتدار کو وہ سب کچھ سمجھتا ہے ۔ یہ چیز ملے تو پھول جاتا ہے اور کہتا ہے کہ خدا نے مجھے عزت دار بنا دیا ، اور یہ نہ ملے تو کہتا ہے کہ خدا نے مجھے ذلیل کر دیا ۔ گویا عزت اور ذلت کا معیار اس کے نزدیک مال و دولت اور جاہ اقتدار کا ملنا یا نہ ملنا ہے ۔ حالانکہ اصل حقیقت جسے وہ نہیں سمجھتا یہ ہے کہ اللہ نے جس کو دنیا میں جو کچھ بھی دیا ہے آزمائش کے لیے دیا ہے ۔ دولت اور طاقت دی ہے تو امتحان کے لیے دی ہے کہ وہ اسے پا کر شکر گزار بنتا ہے یا ناشکری کرتا ہے ۔ مفلس اور تنگ حال بنایا ہے تو اس میں بھی اس کا امتحان ہے کہ صبر اور قناعت کے ساتھ راضی برضا رہتا ہے اور جائز حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنی مشکلات کا مقابلہ کرتا ہے ، یا اخلاق و دیانت کی ہر حد کو پھاند جانے پر آمادہ ہو جاتا ہے اور اپنے خدا کو کوسنے لگتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(89:16) واما اذا ما ابتلہ۔ اور جب وہ اس کو (اور طرح) آزماتا ہے۔ فقدر علیہ رزقہ۔ اور اس پر روزی تنگ کردیتا ہے قدر ماضی واحد مذکر غائب قدر (باب نصر، ضرب) مصدر سے ن وقایہ ی ضمیر واحد متکلم (محذوف) اس نے میری اہانت کی۔ اس نے مجھے ذلیل کیا۔ فائدہ : انسان کا یہ حال ہے کہ وہ رات دن حصول دنیا اور اس کی لذات و شہوات میں مشغول ہے۔ اگر دنیا میں دولت و راحت مل گئی تو کہنے لگا میرا خدا مجھ سے خوش ہے جب ہی تو اس نے مجھے عزت دی ہے اور جو تنگ دستی یا تکلیف پیش آگئی تو کہنے لگا کہ خدا ناراض ہے جبھی تو اس نے مجھے ذلیل کر رکھا ہے۔ گویا خادند تعالیٰ کی رضا مندی اور اس کا عزت و اکرام حصول دولت اور راحت دنیا پر منحصر جانا۔ اور اس کی ناراضگی اور توہین کو دنیاوہ فقر و فاقہ اور تکالیف پر مضمول کیا۔ یہ اس کا خیال باطل ہے کیونکہ دنیا کی راحت و نعمت اور اسی طرح افلاس و فقر، بیماری و خواری اس کی آزمائش ہے کہ نعمت و راحت پاکر کیسی شکر گزاری ووفاداری کرتے ہیں اور مصیبت میں کیونکر صبر کرتے ہیں ۔ (تفسیر حقانی)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 میری قدر نہ کی … کافر یہ بات اس لئے کہتا ہے کہ وہ آخرت پر ایمان نہیں رکھتا۔ وہ ددنیا کے مال و متاع کو عزت اور افلاس کو ذلت سمجھتا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی مجھ کو باوجود استحقاق اکرام کے اپنی نظر سے آج کل گرا رکھا ہے کہ دنیوی نعمتیں کم ہوگئیں، مطلب یہ کہ کافر دنیا ہی کو مقصود بالذات سمجھتا ہے کہ اس کی فراخی کو دلیل مقبولیت اور اپنے کو اس کا مستحق اور تنگی کو دلیل مطرودیت اور اپنے کو اس کا غیر مستحق سمجھتا ہے، پس اس میں دو محذور ہیں، ایک دنیا کو مقصود بالذات سمجھنا، جس سے ترک و انکار آخرت ناشیے ہوا، دوسرے دعوائے استحقاق جس سے نعمت پر افتخار و ترک شکر اور بلا پر شکوہ و ترک صبر ناشے ہوا اور یہ سب اعمال موجبہ للعذاب ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(16) اور جب اس کا پروردگار اس کو اس طرح آزماتا ہے کہ اس کی روزی اس پر تنگ کردیتا تھا تو وہ کہنے لگتا ہے کہ میرے پروردگار نے میری توہین کی اور میری قدر گھٹا دی۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی رب پر الزام رکھے اپنی فعل کی طرف نہ دیکھے۔ یعنی کافر کی حالت یہ ہے کہ اس کا مقصد صرف دنیا کا عیش اور تکلیف ہے دنیا کی آبرو عزت اور مال وجاہ کو اپنے اعمال کا بدلا سمجھتا ہے اور اس اعزاز کو اپنا استحقاق سمجھتا ہے اور بلا پر شکوہ کرتا ہے اور اپنے کو غیر مستحق سمجھتا ہے ۔ خلاصہ : یہ کہ یہاں کہ فراخی کو اپنی مقبولیت کی دلیل سمجھتا ہے اور یہاں کی تنگی کو غیر مقبولیت اور مطرودیت سمجھتا ہے پہلی حالت کو اپنا استحقاق خیال کرتا ہے اور دوسری حالت کے لئے اپنے کو غیر مستحق سمجھتا ہے۔ خلاصہ : یہ ہے کہ آخرت پر بالکل یقین نہیں رکھتا اور دنیا کو مقصود بالذات سمجھتا ہے آگے ان خیالات کا رد فرمایا کہ نہ تو دنیا مقصود بالذات ہے اور نہ یہاں کی تنگی وفراخی دلیل مقبولیت اور مطرودیت ہے اور نہ کوئی صبروشکر سے مستثنیٰ ہے یہ تو صرف بندوں کی آزمائش اور امتحان ہوتا ہے اور ان میں صرف یہی نہیں کہ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے بلکہ آخرت کا انکار سے جو خرابیاں پیدا ہوجاتی ہیں ان خرابیوں اور ان اعمال میں بھی یہ مبتلا ہیں اور دنیا کی محبت میں اس قدر اندھے ہوگئے ہیں کہ لوگوں کے مال غضب کررہے ہیں۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔