Surat ul Fajar
Surah: 89
Verse: 20
سورة الفجر
وَّ تُحِبُّوۡنَ الۡمَالَ حُبًّا جَمًّا ﴿ؕ۲۰﴾
And you love wealth with immense love.
اور مال کو جی بھر کر عزیز رکھتے ہو ۔
وَّ تُحِبُّوۡنَ الۡمَالَ حُبًّا جَمًّا ﴿ؕ۲۰﴾
And you love wealth with immense love.
اور مال کو جی بھر کر عزیز رکھتے ہو ۔
And you love wealth with love Jamma. meaning, in abundance. This increases some of them in their wickedness.
[١٣] یعنی کسی کی عزت و ذلت کو ماپنے والی تمہاری قدر ہی سراسرا غلط ہے۔ عزت و ذلت کا اصل معیار پیسہ اور مال و دولت نہیں بلکہ اس کا اعلیٰ اخلاق اور بلند کردار ہوتا ہے۔ مگر تمہارا یہ حال ہے کہ مال و دولت کو ہی اپنا معبود سمجھے بیٹھے ہو اور اسی پر مر مٹتے ہو۔ یتیموں اور بیواؤں کی عزت کرنا تو درکنار ان کے پاس اگر کوئی چیز موجود ہو تو اسے بھی اڑا لینے کی کوشش کرتے ہو۔ تمہاری پیسہ سے محبت اور بخل کا یہ حال ہے کہ کسی مسکین کی احتیاج دور کرنے کے لیے اسے کچھ دینا یا کھانا کھلانا تو درکنار دوسروں کو ترغیب بھی نہیں دیتے۔ میت کی وراثت سے بیوہ کو لڑکیوں کو اور بچوں سب کو محروم کردیتے ہو۔ اور جس کا زور چلتا ہے وہ ہی ساری میراث ہڑپ کرجاتا ہے تمہیں تو بس پیسہ ہی چاہیے اور اس کے حصول کے لیے ہر جائز اور ناجائز ذریعہ اختیار کرنے پر پہلے سے ہی تیار بیٹھے ہوتے ہو۔ تمہارے لچھن یہ ہوں تو اللہ کے نزدیک تمہاری عزت کیوں ہو ؟۔
وَتُحِبُّونَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا (and love wealth, with an excessive love 89:20). The word jamm means &excessive&. This verse refers to the fourth evil trait of the unbelievers. They have an insatiable love for wealth. The word &excessive& indicates that love of wealth in itself, in a sober sense, is a natural instinct of man. That has not been condemned here. What is denounced is the excessive or insatiable love of wealth. After describing the evil traits of the unbelievers, the passage reverts to the main theme that was emphasised in the earlier part of the Surah with five oaths, that is, the punishment of the Hereafter. In this connection, it first mentions the process of the end of the world, and subsequently the establishment of the Day of Resurrection, thus: كَلَّا إِذَا دُكَّتِ الْأَرْضُ دَكًّا دَكًّا (No! When the earth will be crushed thoroughly to be turned into bits...89:21). The word dakk literally means &to pound or crush a thing into bits and pieces&. This refers to the earthquakes that will crush and ground the mountains to dust. The world will thus be dissolved. This will be the first stage of Resurrection. When this stage of Resurrection ends, the second stage of Resurrection will begin. The word dakkan is repeated in order to show that there will be a series of earthquakes before the dissolution of the world.
چوتھی بڑی خصلت یہ بتلائی وتحبون المال حبا جما، جم کے معنے کثیر کے ہیں مطلب یہ ہے کہ تم مال کی محبت بہت کرتے ہو، بہت کے لفظ سے اسطرف اشارہ ہوگیا کہ مال کی ایک درجہ میں محبت تو انسان کی فطری تقاضا ہے وہ سبب مذمت نہیں بلکہ اس کی محبت میں حد سے بڑھنا اور انہماک کرنا یہ سبب مذمت ہے۔ کفار کی ان بڑی خصلتوں کے بیان کے بعد پھر اصل مضمون کی طرف عود کیا گیا جو شروع سورت میں پانچ قسموں کے ساتھ موکد کیا گیا ہے یعنی آخرت کی جزا وسزا، اس سلسلہ میں اول قیامت کے آنیکا ذکر فرمایا۔ اذا دکت الارض دکا دکا، لفظ دک کے لفظی معنے کسی چیز کو ضرب مار کر توڑنے کے ہیں مراد قیامت کا زلزلہ ہے جو پہاڑوں کو باہم ٹکرا کر ریزہ ریزہ کر دے گا اور دکا دکا کو مکرر لانے سے اسطرف اشارہ ہے کہ قیامت کا زلزلہ یکے بعد دیگر مسلسل رہے گا۔
وَّتُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا ٢٠ ۭ حب والمحبَّة : إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه : - محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه : وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] . - ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] . - ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم . ( ح ب ب ) الحب والحبۃ المحبۃ کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں اور محبت تین قسم پر ہے : ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ ميل المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا، ( م ی ل ) المیل اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ جمّا : صفة مشبّهة من الثلاثيّ جمّ الشیء۔ بالرفع۔ أي كثر باب ضرب، وهو أيضا مصدر سماعيّ للفعل وصف به مبالغة .. وزنه فعل بفتح فسکون .
آیت ٢٠{ وَّتُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا ۔ } ” اور تم مال سے ٹوٹ کر محبت کرتے ہو۔ “ دنیوی مال و دولت کی محبت تمہارے دلوں میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ واضح رہے کہ سورتوں کے اس جوڑے یعنی سورة الفجر اور سورة البلد میں نزول قرآن سے قبل کے عرب معاشرے کے تمدن اور رسم و رواج کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ مثلاً طاقتوروں کے میراث کو زبردستی ہڑپ کر جانے ‘ مال و دولت کی غیر معمولی محبت اور اسی محبت کی وجہ سے خدمت خلق کے کاموں سے پہلوتہی کرنے کی مثالیں اس معاشرے میں عام تھیں۔
14 That is, "You have no regard for the permissible or the forbidden, the lawful or the unlawful. You feel no qualms about acquiring wealth in any way or by any means, fair or foul, and your greed is never satisfied however much you may have acquired and amassed. "
سورة الْفَجْر حاشیہ نمبر :14 یعنی جائز و ناجائز اور حلال و حرام کی تمہیں کوئی فکر نہیں ۔ جس طریقے سے بھی مال حاصل کیا جا سکتا ہو اسے حاصل کرنے میں تمہیں کوئی تامل نہیں ہو تا ۔ اور خواہ کتنا ہی مال مل جائے تمہاری حرص و طمع کی آگ کبھی نہیں بجھتی ۔
(89:20) وتحبون المال حبا جما۔ اس کا عطف بھی جملہ مذکورہ بالا پر ہے۔ حبا۔ مفعول مطلق۔ فعل کی تاکید میں لایا گیا ہے۔ موصوف۔ جما اس کی صفت بیحد۔ بہت جی بھر کر۔ مصدر ہے۔ ہر شے کی کثرت اور زیادتی کے لئے آتا ہے۔ اور تم دولت سے بیحد محبت کرتے ہو۔
ف 4 یعنی تمہارا نقطہ نظر خالص مادی ہے اور اخلاقیات کی تمہاری نظر میں کوئی قیمت نہیں ہے۔
(20) اور تم لو گ مال سے بہت ہی محبت کرتے ہو میراث جو ابراہیم اور اسماعیل (علیہما السلام) کی شریعت میں چلی آتی تھی اس میں تم نے تحریف کردی ہے لڑکیوں کو ترکے سے محروم کردیا ہے اور لڑکوں کو بھی کچھ نہیں دیتے ہو۔ اس طرح مرنے والے کے مال کو ہڑپ کرجاتے ہو اور تم مال کو اس قدر دوست رکھتے ہو کہ نہ حرام کو دیکھتے ہو نہ حلال کو بلکہ ہر قسم کا مال جمع کرنے سے مطلب رکھتے ہو پھر نہ یتیم کو کھلاتے ہو نہ مسکین کو تم نے مال کو منتہائے مقصود سمجھ رکھا ہے اصل حقیقت یہ ہے کہ تم مال سے بہت ہی محبت کرتے ہو یہاں تک کہ مردوں کا مال بھی کھاجاتے ہو، اور میراث بھی مستحقین کو نہیں پہنچاتے بلکہ جس کا موقع لگتا ہے اور جو قابو پاتا ہے وہی کھاجاتا ہے اس شریعت میں میراث کی آخری شکل مدینہ میں مقرر ہوئی۔ جیسا کہ سورة نساء میں گزر چکا ہے مگر جیسا کہ ہم نے کہا کہ میراث کا سلسلہ ملت خلیل اور اسماعیل میں بھی رائج تھا اور عرب میراث کی اہمیت کو سمجھتے تھے آگے پھر موجب للعذاب اعمال کی جزا اور مجازات کا ذکر فرماتے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی حلال اور حرام نہیں پہچانتے لڑکوں کو اور عورتوں کو میراث کا حصہ نہیں دیتے ان کا مال بھی آپ ہی چکھ جاتے ہو۔