Surat ul Fajar

Surah: 89

Verse: 21

سورة الفجر

کَلَّاۤ اِذَا دُکَّتِ الۡاَرۡضُ دَکًّا دَکًّا ﴿ۙ۲۱﴾

No! When the earth has been leveled - pounded and crushed -

یقیناً جس وقت زمین کوٹ کوٹ کر برابر کر دی جائے گی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

On the Day of Judgement Everyone will be recompensed according to what He did of Good or Evil Allah informs of what will happen on the Day of Judgement of the great horrors. He says, كَلَّ ... Nay! meaning, truly. ... إِذَا دُكَّتِ الاَْرْضُ دَكًّا دَكًّا When the earth is flatened, Dakkan Dakka. meaning, the earth and the mountains will be flattened, leveled and made even, and the creatures will rise from their graves for their Lord. وَجَاء رَبُّكَ ...

سجدوں کی برکتیں: قیامت کے ہولناک حالات کا بیان ہو رہا ہے کہ بالیقین اس دن زمین پست کر دی جائیگی اونچی نیچی زمین بربار کر دی جائیگی اور بالکل صاف ہموار ہو جایئگی پہاڑ زمین کے بربار کر دئیے جائیں گے تمام مخلوق قبر سے نکل آئیگی خود اللہ تعالیٰ مخلوق کے فیصلے کرنے کے لیے آ جائیگا یہ اس عام شفاعت کے بعد جو تمام اولاد آدم کے سردار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہوگی اور یہ شفاعت اس وقت ہوگی جبکہ تمام مخلوق ایک ایک بڑے بڑے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہو آئیگی اور ہر نبی کہہ دے گا کہ میں اس قابل نہیں پھر سب کے سب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں گے اور آپ فرمائیں گے کہ ہاں ہاں میں اس کے لیے تیار ہوں پھر آپ جائیں گے اور اللہ کے سامنے سفارش کریں گے کہ وہ پروردگار لوگوں کے درمیان فیصلے کرنے کے لیے تشریف لائے یہی پہلی شفاعت ہے اور یہی وہ مقام محمود ہے جس کا مفصل بیان سورہ سبحان میں گذر چکا ہے پھر اللہ تعالیٰ رب العالمین فیصلے کے لیے تشریف لائیگا اس کے آنے کی کیفیت وہی جانتا ہے فرشتے بھی اس کے آگے آگے صف بستہ حاضر ہوں گے جہنم بھی لائی جائیگی صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں جہنم کی اس روز ستر ہزار لگامیں ہوں گی ہر لگا پر ستر ہزار فرشتے ہوں گے جو اسے گھسیٹ رہے ہوں گے یہی روایت خود حضرت عبداللہ بن مسعود سے بھی مروی ہے اس دن انسان اپنے نئے پرانے تمام اعمال کو یاد کرنے لگے گا برائیوں پر پچھتائے گا نیکیوں کے نہ کرنے یا کم کرنے پر افسوس کریگا گناہوں پر نادم ہوگا مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں اگر کوئی بندہ اپنے پیدا ہونے سے لے کر مرتے دم تک سجدے میں پڑا رہے اور اللہ کا پورا اطاعت گذار رہے پھر بھی اپن اس عبادت کو قیامت کے دن حقیر اور ناچیز سمجھے گا اور چاہے گا کہ اگر میں دنیا کی طرف لوٹایا جاؤں تو اجرو ثواب کام اور زیادہ کروں پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس دن اللہ کے عذاب جیسا عذاب کسی اور کا نہ ہو گا ۔ جو وہ اپنے نافرمان اور نافرجام بندوں کو کریگا نہ اس جیسی زبردست پکڑ اور قید و بند کسی کی ہو سکتی ہے زبانیہ فرشتے بدترین بیڑیاں اور ہتھکڑیاں انہیں پہنائے ہوئے ہوں گے یہ تو ہوا بد بختوں کا انجام اب نیک بختوں کا حال سنئے جو روحیں سکون اور اطمینان والی ہیں پاک اور ثابت ہیں حق کی ساتھی ہیں ان سے موت کے وقت اور قبر سے اٹھنے کے وقت کہا جائیگا کہ تو اپنے رب کی طرف اس کے پڑوس کی طرف اس کے ثواب اور اجر کی طرف اس کی جنت اور رضامندی کی طرف لوٹ چل یہ اللہ سے خوش ہے اور اللہ اس سے راضی ہے اور اتنا دے گا کہ یہ بھی خوش ہو جائیگا تو میرے خاص بندوں میں آ جا اور میری جنت میں داخل ہو جا حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ یہ آیت حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں اتری ہے بریدہ فرماتے ہیں حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ تعای عنہ کے بارے میں اتری ہے حضرت عبداللہ سے یہ بھی مروی ہے کہ قیامت کے دن اطمینان والی روحوں سے کہا جائیگا کہ تو اپنے رب یعنی اپنے جسم کی طرف لوٹ جا جسے تو دنیا میں آباد کیے ہؤے تھی تم دونوں آپس میں ایک دوسرے سے راضی و رضامند ہو یہ بھی مروی ہے کہ حضرت عبداللہ اس آیت کو فاد خلی فی عبادی پڑھتے تھے یعنی اے روح میرے بندے میں یعنی اس کے جسم میں چلی جا لیکن یہ غریب ہے اور ظاہر قول پہلا ہی ہے جیسے اور جگہ ہے ثم ردوا الی اللہ مولا ھم الحق یعنی پھر سب کے سب اپنے سچے مولا کی طرف لوٹائے جائیں گے اور جگہ ہے وان مردنا الی اللہ یعنی ہمارا لوٹنا اللہ کی طرف یعنی اس کے حکم کی طرف اور اس کے سامنے ہے ابن ابی حاتم میں ہے کہ یہ آیتیں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی موجودگی میں اتریں تو آپ نے کہا کتنا اچھا قول ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں بھی یہی کہاجائیگا دوسری روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حضرت سعید بن جبیر نے یہ آیتیں پڑھیں تو حضرت صدیق نے یہ فرمایا جس پر آپ نے یہ خوش خبری سنائی کہ تجھے فرشتہ موت کے وقت یہی کہے گا ، ابن ابی حاتم میں یہ روایت بھی ہے کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی حضرت عبداللہ بن عباس مفسر القرآن کا طائف میں انتقال ہوا تو ایک پرندہ آیا جس طرح کا پرندہ کبھی زمین پر دیکھا نہیں گیا وہ نعش میں چلا گیا پھر نکلتے ہوئے دیکھا گیا جب آپ کو دفن کر دیا گیا تو قبر کے کونے سے اسی آیت کی تلاوت کی آواز آئی اور یہ نہ معلوم ہو سکا کہ کون پڑھ رہا ہے یہ روایت طبرانی میں بھی ہے ابو ہاشم قنات بن زرین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جنگ روم میں ہم دشمنوں کے ہاتھ قید ہوگئے شاہ روم نے ہمیں اپنے سامنے بلایا اور کہا یا تو تم اس دین کو چھوڑ دو یا قتل ہونا منظور کر لو ایک ایک کو وہ یہ کہتا کہ ہمارا دین قبول کرو ورنہ جلاد کو حکم دیتا ہوں کہ تمہاری گردن مارے تین شخص تو مرتد ہوگئے جب چوتھا آیا تو اس نے صاف انکار کیا بادشاہ نے حکم سے اس کی گردن اڑا دی گئی اور سر کو نہر میں ڈال دیا گیا وہ نیچے ڈوب گیا اور ذراسی دیر میں اوپر آ گیا اور ان تینوں کی طرف دیکھنے لگا کہ اے فلاں اور اے فلاں اور اے فلاں ان کے نام لے کر انہیں آواز دی جب یہ متوجہ ہوئے سب درباری لوگ بھی دیکھ رہے تھے اور خود بادشاہ بھی تعجب کے ساتھ سن رہا تھا اس مسلمان شہید کے سر نے کہا سنو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یآایتھا النفس المطمئنۃ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیتہ فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی اتنا کہہ کر وہ سر پھر پانی میں غوطہ لگا گیا اس واقعہ کا اتنا اچھا اثر ہوا کہ قریب تھا کہ نصرانی اسی وقت مسلمان ہو جاتے بادشاہ نے اسی وقت دربار برخاست کرادیا اور وہ تینوں پھر مسلمان ہوگئے اور ہم سب یونہی قید میں رہے آخر خلیفہ ابو جعفر منصور کی طرف فدیہ آگیا اور ہم نے نجات پائی ابن عساکر میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص سے کہا یہ دعا پڑھا کر اللھم انی اسئلک نفسا بلک مطمئنتہ تومن بلقائک وترضی بقضالک وتفنع بعطآئک الٰہی میں تجھ سے ایسا نفس طلب کرتا ہوں جو تیری ذات پر اطمینان اور بھروسہ رکھتا ہو تیری ملاقات پر ایمان رکھتا ہو تیری قضا پر راضی ہو تیرے دئیے ہوئے پر قناعت کرنے والا ہو سورہ والفجر کی تفسیر ختم ہوئی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٤] یعنی ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ تمہاری ایسی کرتوتوں کی تم سے باز پرس نہ کی جائے اور ایسا وقت یقیناً آنے والا ہے۔ [١٥] یعنی زمین پر متواتر زلزلوں اور ضربوں سے اس کے پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے اور سب نشیب و فراز برابر کردیے جائیں گے اور زمین ایک چٹیل میدان بنادی جائے گی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(کلا اذا دکت الارض دکا دکا :” کلا “ ہرگز نہیں، یعنی تمہیں ہرگز ایسے نہیں کرنا چاہیے، بلکہ وہ وقت سامنے رکھنا چاہیے جب قیامت کے پہلے نفخہ کے ساتھ زمین ریزہ ریزہ کر کے ہموار چٹیل میدان بنادی جائے گی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

كَلَّآ اِذَا دُكَّتِ الْاَرْضُ دَكًّا دَكًّا۝ ٢١ ۙ كلا كَلَّا : ردع وزجر وإبطال لقول القائل، وذلک نقیض «إي» في الإثبات . قال تعالی: أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم/ 77- 79] وقال تعالی: لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون/ 100] إلى غير ذلک من الآیات، وقال : كَلَّا لَمَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس/ 23] . کلا یہ حرف روع اور زجر ہے اور ماقبل کلام کی نفی کے لئے آتا ہے اور یہ ای حرف ایجاب کی ضد ہے ۔ جیسا کہ قرآن میں ہے ۔ أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم/ 77- 79] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیتوں سے کفر کیا ۔ اور کہنے لگا اگر میں ازسر نو زندہ ہوا بھی تو یہی مال اور اولاد مجھے وہاں ملے گا کیا اس نے غیب کی خبر پالی ہے یا خدا کے یہاں ( سے ) عہد لے لیا ہے ہر گز نہیں ۔ لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون/ 100] تاکہ میں اس میں جسے چھوڑ آیا ہوں نیک کام کروں ہرگز نہیں ۔ كَلَّا لَمَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس/ 23] کچھ شک نہیں کہ خدا نے سے جو حکم دیا ۔ اس نے ابھی تک اس پر عمل نہیں کیا ۔ اور اس نوع کی اور بھی بہت آیات ہیں ۔ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) دك الدَّكُّ : الأرض الليّنة السّهلة، وقد دَكَّهُ دَكّاً ، قال تعالی: وَحُمِلَتِ الْأَرْضُ وَالْجِبالُ فَدُكَّتا دَكَّةً واحِدَةً [ الحاقة/ 14] ، وقال : دُكَّتِ الْأَرْضُ دَكًّا [ الفجر/ 21] ، أي : جعلت بمنزلة الأرض اللّيّنة . وقال اللہ تعالی: فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا [ الأعراف/ 143] ، ومنه : الدُّكَّان . والدّكداك «4» : رمل ليّنة . وأرض دَكَّاء : مسوّاة، والجمع الدُّكُّ ، وناقة دكّاء : لا سنام لها، تشبيها بالأرض الدّكّاء . ( دک ک ) الدک ( اسم ) کے معنی نرم اور ہموار زمین کے ہیں ۔ اور دلہ ( ن) دکا کے معنی کوٹ کر ہموار کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَحُمِلَتِ الْأَرْضُ وَالْجِبالُ فَدُكَّتا دَكَّةً واحِدَةً [ الحاقة/ 14] اور زمین اور پہاڑ دونوں اٹھائے جائیں گے پھر ایک بارگی توڑ کر برابر کردیئے جائیں گے ۔ دُكَّتِ الْأَرْضُ دَكًّا [ الفجر/ 21] یعنی زمین کوٹ کوٹ کر ہموار کردی جائیگی ۔ فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا [ الأعراف/ 143] جب ان کا پروردگار پہاڑ پر نمودار ہواتو ( تجلی انوار بانی نے ) اس کو ریزہ ریزہ کردیا ۔ اور اسی سے دکان ہے جس کے معنی ہموار چبوترہ کے ہیں ۔ الدکداک نرم ریت ہموار زمین ۔ ج د ک ۔ اور ہموار زمین کے ساتھ تشبیہ دے کر ناقۃ دکآء اس اونٹنی کو کہہ دیتے ہیں جس کی کوہان نہ ہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(23-21) ہرگز ایسا نہیں بلکہ جب زمین میں یکے بعد دیگرے زلزلے آئیں گے اور صف بہ صف فرشتے آئیں گے جیسا کہ دنیا میں نمازیوں کی صف ہوتی ہے اس روز جہنم کو محشر کی طرف ستر ہزار لگاموں سے گھسیٹ کر لایا جائے گا اور ہر ایک لگام کو ستر ہزار فرشتے پکڑے ہوئے ہوں گے اور اس روز کافر کو یعنی ابی بن خلف یا امیہ بن خلف کو سمجھ آئے گی اس وقت سمجھ اور نصیحت آنے کا موقع کہاں رہے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢١{ کَلَّآ اِذَا دُکَّتِ الْاَرْضُ دَکًّا دَکًّا ۔ } ” ہرگز نہیں ! جب زمین کو کوٹ کوٹ کر ہموار کردیا جائے گا۔ “ اس آیت کا یہ ترجمہ شاہ ولی اللہ - کے فرزند ارجمند شاہ عبدالقادر - کے ترجمہ کے مطابق ہے ‘ جبکہ ان کے بھائی شاہ رفیع الدین - نے اس کا ترجمہ یوں کیا ہے کہ جب زمین کو ریزہ ریزہ کردیا جائے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

15 That is, "You are wrong in thinking that you may do whatever you like in your life of the world, but you will never be called to account for it. The meting out of rewards and punishment denying which you have adopted this mode of life, is not anything impossible and fictitious, but it has to come to pass and it will certainly come to pass at the time being mentioned below."

سورة الْفَجْر حاشیہ نمبر :15 یعنی تمہارا یہ خیال غلط ہے کہ تم دنیا میں جیتے جی یہ سب کچھ کرتے رہو اور اس کی باز پرس کا وقت کبھی نہ آئے ۔ جس جزا و سزا کا انکار کر کے تم نے زندگی کا یہ ہنجار اختیار کر رکھا ہے وہ کوئی انہونی اور خیالی بات نہیں ہے بلکہ وہ پیش آنی ہے اور اس وقت آنی ہے جس کا ذکر آگے آ رہا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢١۔ ٣٠۔ قیامت کے انکار کے سبب سے قریش طرح طرح کی نافرمانی جو کرتے تھے اس کے انجام سے ڈرانے کے لئے اوپر کی آیتوں میں ان کو عاد ثمود اور فرعون کی ہلاکت اور تباہی کا قصہ سنایا گیا تھا اس کے بعد ان آیتوں میں قیامت کا ذکر فرمایا کہ نافرمان لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ اگر کوئی نافرمان دنیا کے عذاب سے بچ بھی جائے تو اس کو یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ وہ بچ گیا کیونکہ اصل سزا و جزا کی جگہ دنیا نہیں اصل جزا و سزا کے لئے دنیا کے ختم کے بعد قیامت کا دن ہے جس میں وہ فیصلہ کیا جائے گا جس کا آگے ذکر ہے۔ زمین کا جو حال ان آیتوں میں ہے وہ دوسرے صور کے وقت کا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس نئی زمین میں کوئی بلندی کی چیز نہ ہوگی بلکہ پہاڑوں ٹیلوں اور عمارات ان سب بلندی کی چیزوں کو کوٹ کر پست کردیا جائے گا جس سے کل زمین پست ہوجائے گی اور اس سرے سے اس سرے تک ایک میدان نکل آئے گا۔ محشر کے طرح طرح کے انتظام کے لئے فرشتوں کے زمین پر اترنے کا ذکر اوپر گزر چکا ہے۔ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ کے زمین پر نزول فرمانے کا جو ذکر ہے اس کا اور صحاح کی حضرت ١ ؎ ابوہریرہ (رض) کی حدیث کا مضمون ایک ہی ہے۔ فرق اتنا ہی ہے کہ اس حدیث سے پچھلی رات کے وقت ہر شب کو اللہ تعالیٰ کا اول آسمان پر نزول اور حاجت مندوں کی دعا اور گناہ گاروں کی توبہ قبول کرنا ثابت ہوتا ہے اور یہاں کے حساب و کتاب کے لئے میدان محشر میں اللہ تعالیٰ کا نزول فرمانا ثابت ہوتا ہے ٢ ؎۔ جس وقت تمام دنیا کے لوگ میدان محشر کی گرمی اور پسینے سے گھبرائیں گے اور حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تک سب انبیاء کے پاس حساب کتاب کی جلدی شروع ہوجانے کی شفاعت بارگاہ الٰہی میں پیش کرنے کی خواہش ان انبیاء سے کریں گے اور سب انبیاء اس شفاعت سے انکار کریں گے۔ آخر خاتم النبین حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس شفاعت کا اقرار اہل محشر سے کریں گے اور اپنے اس اقرار کے موافق بارگاہ الٰہی میں شفاعت بھی فرمائیں گے آپ کی شفاعت قبول ہو کر اس وقت خلائق کے حساب و کتاب کے لئے اللہ تعالیٰ کا میدان محشر کا یہ نزول ظہور میں آئے گا۔ جس کا یہاں اور سورة بقر میں اور آیتوں اور حدیثوں اور آثار صحابہ میں تفصیل سے ذکر آیا ہے اور سورة آل عمران میں ایات متشابھات کی بحث جو گزری ہے اس میں یہ باان ہوچکا ہے کہ سلف کا مذہب اس طرح کی آیتوں اور حدیثوں کے باب میں یہی ہے کہ بغیر تشبیہ کے ان کے معنوں پر مسلمان آدمی کو ایمان لانا اور ان معنی کی کیفیت کو اللہ تعالیٰ کے علم پر سونپنا چاہئے اور اسی طرح کی آیتوں اور حدیثوں کے معنی میں تاویل کرنے کو ایک امر خلاف سلف خیال کرنا چاہئے میدان محشر میں دوزخ کے لائے جانے کا ذکر اوپر گزر چکا ہے اور یہ بھی گزر چکا ہے کہ اس وقت انسان اپنے کئے پر پچھتائے گا لیکن اس وقت کا پچھتانا اس کو کچھ فائدہ نہ دے گا اس وقت تو اسی قدر فیصلہ ہوجائے گا کہ جو لوگ عقبیٰ کی باتوں پر یقین اور اطمینان رکھتے تھے جس یقین اور اطمینان کے سبب سے انہوں نے جہاں تک ہوسکا اپنی عقبیٰ سنواری ان کو جنت اور جو ان کے برخلاف تھے ان کو دوزخ کا حکم ہوجائے گا۔ حضرت عبداللہ بن عباس ١ ؎ اور سلف نے نفس مطمئنۃ کی تفسیر میں لکھا ہے جس شخص کے دل میں ایمان اور آخرت کی باتیں منافقوں کی طرح اوپری نہ ہوں بلکہ خوب جمی ہوئی ہوں اور آخرت کی ہر ایک بات پر اس کو پورا یقین ہو ایسے ہی نفس کو مطمئنہ کہتے ہیں طبرانی ٢ ؎ وغیرہ میں سعید بن جبیر اور عکرمہ سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس کا طائف میں انتقال ہوا اور لوگ ان کو دفن کرنے کے لئے لے گئے تو ایک نئی صورت کا جانور آ کر حضرت عبد اللہ بن عباس کی لاش میں سما گیا اور جب انکی لاش پر لوگ مٹی ڈالنے لگے تو قبر کے اندر سے اس آیت کے پڑھنے کی آواز آئی اوپر گزر چکا ہے کہ اچھے لوگوں کو قبض روح اور دفن اور قبر سے اٹھنے کے وقت اور قیامت کے دن فرشتے نجات کی خوش خبری دیں گے اس لئے یہ خوش خبری کا فرشتہ تھا جو جانور کی صورت میں لوگوں کو نظر آیا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(89:21) کلا اذا دکت الارض دکا دکا : کلا حرف ردع اور زجر ہے۔ ہرگز نہیں۔ یہ مذکورہ حرکتوں سے باز داشت ہے۔ مقاتل نے کہا (یہ نفی ہے یعنی) جو حکم ان کو دیا گیا ہے یہ اس کی تعمیل نہیں کریں گے یا بعد والے کلام کی تحقیق کیلئے ہے۔ یعنی جس وعید عذاب اور ان کے حسرت و افسوس کا بیان بعد والی آیات میں کیا گیا ہے اس سے شک کو دور کرنے کیلئے لفظ کلا استعمال کیا گیا ہے۔ اذا۔ ظرف امزن۔ جب۔ دکت ماضی مجہول واحد مؤنث غائب۔ دک (باب نصر) مصدر سے۔ دک بمعنی ریزہ ریزہ کرنا۔ ڈھا کر برابر کرنا۔ کوٹ کوٹ کر برابر کرنا۔ دک اصل میں نرم اور ہموار زمین کو کہتے ہیں اور چونکہ نرم اور ہموار زمین ریزہ ریزہ ہوتی ہے۔ اسی لئے اسی مناسبت سے اس کے مصدر کے معنی مقرر ہوئے۔ دکا مصدر منصوب فعل کی تاکید کے لئے لایا گیا ہے دوسری بار دکا مزید تاکید کے لئے لایا گیا ہے۔ ترجمہ :۔ جب زمین کو کوٹ کوٹ کر ریزہ ریزہ کردیا جائے گا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یا مطلب یہ ہے کہ اس کے تمام پہاڑ اور ٹیلے کوٹ کوٹ کر ریزہ ریزہ کردیئے جائیں اور وہ چٹیل میدان ہوجائے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس مال پر انسان اترتا اور اسے جمع کر کے رکھتا ہے اس مال اور پوری دنیا کا انجام۔ دنیا دار انسان شعوری یا غیر شعوری طور پر سمجھتا ہے کہ اس کا مال اس کے پاس ہمیشہ رہے گا حالانکہ دنیا اور اس کی ہر چیز عارضی ہے، ایک وقت آنے والا ہے جب اس زمین پر زلزلے واقع ہوں گے اور ہر چیز تہس نہس کردی جائے گی زمین و آسمان بدل دیئے جائیں گے اور لوگوں کو محشر کے میدان میں جمع کرلیا جائے گا۔ جب لوگ محشر کے میدان میں جمع ہوجائیں گے تو جبریل امین اور تمام ملائکہ قطار اندر قطار کھڑے ہوں گے۔ (النبا : ٣٨) ملائکہ، انسان اور جنات رب ذوالجلال کی تشریف آوری کا انتظار کررہے ہوں گے تو اچانک زمین و آسمان کی ہر چیز روشن ہوجائے گی۔ (الزمر : ٦٩) جب ہر چیز جگمگا اٹھے گی تو رب ذوالجلال مخصوص ملائکہ کے ساتھ زمین پر جلوہ نما ہوں گے۔ اس دن جہنم کو حاضر کرلیا جائے جب مجرم جہنم کو دیکھے گا تو آہ وزاریاں کرتے ہوئے کہے گا کہ کاش ! میں کوئی نیکی کرلیتا جس کا آج مجھے فائدہ پہنچتا لیکن اس دن نصیحت حاصل کرنے کا اسے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہر مجرم کی اس طرح گرفت کرے گا کہ کوئی بڑے سے بڑا طاقتور بھی اس طرح نہیں پکڑ سکتا پھر اسے اس کے جرائم کے مطابق ایسی سزادی جائے گی کہ اس جیسی سزا کوئی اور نہیں دے سکتا۔ دنیا میں بیشمار ایسے مجرم ہوتے ہیں جو اپنے اثرورسوخ کی و جہ سے سزا سے بچ جاتے ہیں لیکن قیامت کا دن ایسا ہوگا کہ کوئی مجرم رب ذوالجلال کی پکڑ اور سزا سے نہیں بچ سکے گا۔ ہر مجرم کو اس کے جرائم کے مطابق ٹھیک ٹھیک سزادی جائے گی ایسی سزا جس میں کسی پر ظلم نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر اپنے لیے ” جاء ربک “ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں کہ آپ کا رب ملائکہ کے ساتھ آئے گا۔ اس فرمان کے بارے میں بعض مفسرین نے بہت قیل و قال کی ہے ان کی منہ شگافیوں کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح تشریف لائے گا اور کیا اس وقت اس کا عرش خالی ہوجائے گا۔ اس قیل و قال کے دو ہی جواب ہوسکتے ہیں۔ ١۔ اس دن زمین و آسمان اور پوری کائنات کو بدل دیا جائے گا ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عرش آسمانوں کی بجائے زمین پر ہو۔ ٢۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ سوچ انسان کے محدود تصور کا نتیجہ ہے کیونکہ انسان اس سے آگے سوچ ہی نہیں سکتا اس لیے قیامت کے معاملات کو اپنی سوچ پر قیاس کرنا جائز نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں ایسا سوچنے کی اس لیے اجازت نہیں کیونکہ اس کا فرمان ہے۔ (لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ) (الشوریٰ : ١١) اللہ تعالیٰ کسی چیز کی مثل نہیں لہٰذا اس کی ذات اور صفات کو کسی کی ذات اور صفات پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم اس نظام کو موجودہ نظام پر قیاس نہیں کرسکتے۔ مسائل ١۔ قیامت کے دن زمین پوری طرح ہلا کر رکھ دی جائے گی، ججس سے زمین چٹیل میدان بن جائے گی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن محشر کے میدان میں جلوہ نما ہوگا۔ جبرئیل امین (علیہ السلام) اور فرشتے قطار اندر قطار کھڑے ہوں گے۔ ٣۔ قیامت کے دن مجرم اپنے آپ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہیں گے۔ کاش ! ہم آج کے دن کے لیے اچھے اعمال کرتے۔ ٤۔ قیامت کے دن جہنم کو لوگوں کے سامنے لایا جائے گا۔ ٥۔ اس دن اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر نہ کسی کی پکڑ ہوگی اور نہ اس سے زیادہ کوئی سزا دینے والا ہوگا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی عدالت کا ایک منظر : ١۔ اللہ تعالیٰ انصاف کے ساتھ فیصلہ فرمائیں گے اور لوگوں پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ (یونس : ٥٤) ٢۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن حق کے ساتھ فیصلہ فرمائیں گے اور کسی پر ظلم نہیں ہوگا۔ (الزمر : ٦٩) ٣۔ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں مجرم کی سفارش قبول نہ ہوگی۔ (البقرۃ : ٤٨) ٤۔ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں خریدو فروخت، دوستی اور کسی کی سفارش کام نہ آئے گی۔ (البقرۃ : ٢٥٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

کلااذا ................................ وثاقہ احد دکت الارض (21:89) زمین کو کاٹا جائے گا “۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے نشانات مٹا کر اسے برابر کردیاجائے گا۔ یہ ان انقلابات میں سے ایک ہے جو قیامت کے وقوع کے وقت اس کائنات میں برپا ہوں گے رہی یہ بات کہ رب تعالیٰ نزول اجلال فرمائے گا اور فرشتے صف در صف کھڑے ہوں گے تو یہ ایک غیبی معاملہ ہے۔ اس کی حقیقت کو اس وقت تک ہم سمجھ نہیں سکتے ، کیونکہ ابھی ہم اس دنیا میں ہیں اور ہماری قوت ادراک محدود ہے۔ البتہ اس انداز تعبیر سے یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ بہت ہی ہیبت ناک اور خوفناک صورت حال ہوگی۔ اسی طرح جہنم کو لایا جانا پوری طرح ہماری فہم سے دور ہے۔ البتہ یہ بات واضح ہے کہ مجرم اس کے قریب ہوجائیں گے اور وہ اہل جہنم سے قریب ہوجائے گی۔ رہی اصل کیفیت اور صورت حالات تو وہ ایک غیبی امر ہے اور یہ اسی دن اچھی طرح معلوم ہوگی جب برپا ہوگی۔ ان آیات کے ذریعہ ایک ایسی منظر کی تصویر کشی کی گئی ہے جس سے دل کانپ اٹھتے ہیں۔ آنکھیں سہم کر جھک جاتی ہیں۔ الفاظ کا تلفظ اور ترنم بھی خوفناک ہے اور مناظر کی شدید گرفت ہے۔ زمین کا ریزہ ریزہ کردیا جانا۔ رب تعالیٰ کا نزول و جلال اور فیصلے کرنا فرشتوں کا صف بستہ کھڑے ہونا اور جہنم کا تیار کرکے حاضر کردیاجانا ، ایسے مناظر ہیں جن کی وجہ سے انسان پر خوف طاری ہوجاتا ہے۔ یومئذ ................ الانسان (23:89) ” اس دن بات انسان کی سمجھ میں آجائے گی “۔ وہ انسان اصل حقیقت کو سمجھ جائے گا جو اس جہاں میں امیری اور غریبی کی حقیقت کو بھی سمجھ نہ پارہا تھا۔ جو میراث کا تمام مال سمیٹ کر کھا جاتا تھا۔ اور یتیموں اور عورتوں کا حق بھی مار لیتا تھا۔ اور مال کی محبت میں بری طرح گرفتار تھا۔ نہ یتیم کا اکرام کرتا تھا اور نہ مساکین کی معیشت کے لئے کوئی دوڑ دھوپ کرتا تھا۔ جو سرکش تھا اور جس نے اپنی دولت اور اقتدار کے بل بوتے پر زمین کو فساد سے بھردیتا تھا۔ ایسا شخص آج سب کچھ سمجھ لے گا اور وہ نصیحت کو اچھی طرح قبول کرلے گا لیکن اب تو وقت جاچکا ہے۔ وانی لہ الذکری (23:89) ” لیکن اس وقت اس کے سمجھنے کا کیا حاصل ؟ “ نصیحت لینے اور عمل کرنے کا وقت تو جاچکا ہے۔ آج نصیحت کیا فائدہ دے گی۔ یہ تو دارالجزاء ہے ۔ اب تو حسرت ہی حسرت ہے۔ تمہارے لئے دارالعمل تو دنیا کی زندگی تھی جہاں تم نہ سمجھے اور نہ عمل کیا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

كَلَّاۤ ہرگز ! ایسا نہیں ہے جیسا تم سمجھتے ہو کہ میراث کا مال سمیٹنا اور مال سے محبت کرنا تمہارے حق میں بہتر ہوگا اور اس پر مواخذہ نہیں ہوگا بلکہ یہ چیزیں تمہارے حق میں مضر ہیں اور باعث عذاب ہیں۔ اس کے بعد قیامت کے ہولناک مناظر کا تذکرہ فرمایا ﴿ كَلَّاۤ اِذَا دُكَّتِ الْاَرْضُ دَكًّا دَكًّاۙ٠٠٢١﴾ (جب زمین کو توڑ پھوڑ کر چورا چورا کردیا جائے گا) اور اس پر کوئی پہاڑ اور عمارت اور درخت باقی نہیں رہے گا اور برابر ہموار میدان ہوجائے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

10:۔ ” کلا اذا “ یہ تخویف اخروی ہے۔ کلا ردعیہ ہے۔ یعنی یوں تو نہیں کرنا چاہیے ورنہ ان کو ان کاموں پر قیامت کے دن سخت حسرت ہوگی مگر اس دن تحیر و تاسف کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ ” دکت الارض دکا دکا “ زمین کو بار بار ہلایا اور توڑا جائے گا یہاں کہ زمین بالکل ہموار ہوجائے گی، نہ پہاڑ نظر آئیں گے نہ دریا اور سمندر۔ پھر اللہ تعالیٰ فصل قضاء کے لیے اپنی خاص شان کے ساتھ نزول اجلال فرمائیگا۔ فیجیئ الرب تبارک وتعالیٰ لفصل القضاء کما یشاء والملائکۃ یحیثون بین یدیہ صفوفا صفوفا (ابن کثیر ج 4 ص 510) ۔ فرشتے صفوں میں دست بستہ کھڑے ہوں گے اور قید خانہ (جہنم) سامنے موجود ہوگا جس میں کفار و مشرکین کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قید کردیا جائے گا۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے چونکہ فجیئ (آنا) حرکت و انتقال کو مقتضی ہے اور یہ حادث کی صفت ہے اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے اس لیے یہاں مضاف محذوف ہے ای جاء جلائل آیات ربک (کبیر) تمثیل لظھور ایات اقتدارہ وتبیین اثار قہرہ و سلطانہ الخ (مدارک) ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی عظمت و جبروت اور اس کی ہیبت و جلال کا ظہور ہوگا مگر پہلی تاویل پر بھی وہ مجیئ (آنا) مراد نہیں جو حادث کی صفت ہے بلکہ وہی مجیئ مراد ہے جو اللہ تعالیٰ کی شان عالی کے لائق ہو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(21) ہرگز ایسا نہیں سمجھنا چاہیے جب زمین خوب کوٹ کوٹ کر برابر کردی جائے گی۔ یعنی ہرگز ایسا نہ سمجھو کہ اعمال موجبہ للعذاب نہ ہوگا یا ناجائز مال اڑانے پر کوئی حساب نہیں لیا جائے گا بلکہ ایک ایسا دن آنے والا ہے جس دن سب چیزوں کا حساب ہوگا۔ جب زمین کو خوب کوٹ کوٹ کر برابر کردیا جائے گا … اور تمام ٹیلوں اور پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کرکے زمین کو بالکل ہموار کردیا جائے گا۔ لاتری فیھا عوجاولا امتا، یہ حالت نفخہ صور کے وقت ہوگی۔