Surat ul Fajar

Surah: 89

Verse: 23

سورة الفجر

وَ جِایۡٓءَ یَوۡمَئِذٍۭ بِجَہَنَّمَ ۬ ۙ یَوۡمَئِذٍ یَّتَذَکَّرُ الۡاِنۡسَانُ وَ اَنّٰی لَہُ الذِّکۡرٰی ﴿ؕ۲۳﴾

And brought [within view], that Day, is Hell - that Day, man will remember, but what good to him will be the remembrance?

اور جس دن جہنم بھی لائی جائے گی اس دن انسان کو سمجھ آئے گی مگر آج اسکے سمجھنے کا فائدہ کہاں؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَجِيءَ يَوْمَيِذٍ بِجَهَنَّمَ ... And Hell will be brought near that Day. In his Sahih, Imam Muslim bin Al-Hajjaj recorded that Abdullah bin Mas`ud said that the Messenger of Allah said, يُوْتَى بِجَهَنَّمَ يَوْمَيِذٍ لَهَا سَبْعُونَ أَلْفَ زِمَامٍ مَعَ كُلِّ زِمَام سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ يَجُرُّونَهَا Hell will be brought on near that Day and it will have seventy thousand leashes, and each leash will have seventy thousand angels pulling it. At-Tirmidhi also recorded the same narration. Allah said: ... يَوْمَيِذٍ يَتَذَكَّرُ الاِْنسَانُ ... On that Day will man remember, meaning, his deeds, and what he did before in his past and recent times. ... وَأَنَّى لَهُ الذِّكْرَى but how will that remembrance avail him, meaning, how can remembrance then benefit him يَقُولُ يَا لَيْتَنِي قَدَّمْتُ لِحَيَاتِي

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

23۔ 1 ستر ہزار لگاموں کے ساتھ جہنم جکڑی ہوئی ہوگی اور ہر لگام کے ساتھ ستر ہزار فرشتے ہونگے جو اسے کھینچ رہے ہونگے (صحیح مسلم) اسے عرش کے بائیں جانب کھڑا کردیا جائے گا پس اسے دیکھ کر تمام مقرب اور انبیاء گھٹنوں کے بل گرپڑیں گے اور یارب نفسی نفسی پکاریں گے۔ (فتح القدیر) 23۔ 2 یعنی یہ ہولناک منظر دیکھ کر انسان کی آنکھیں کھلیں گی اور اپنے کفر و معاصی پر نادم ہوگا، لیکن اس روز ندامت اور نصیحت کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٧] یعنی جب آخرت اور جنت و دوزخ کے منکرین جہنم کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ لیں گے تو کہیں گے کہ آج ہمیں جو بھی نصیحت کی جائے اور حکم دیا جائے ہم اسے ماننے کو تیار ہیں۔ مگر اس وقت چونکہ ان کی فرمانبرداری اختیاری نہیں اضطراری ہوگی۔ ان کا ایمان لانا بالغیب نہیں بلکہ بالشہادت ہوگا لہذا اس کی کچھ قدر و قیمت نہ ہوگی۔ کسی چیز کو دیکھ کر تو ہر کوئی یقین کر ہی لیتا ہے۔ اس دن ایسے لوگ بڑی حسرت سے کہیں گے کہ کاش ہم نے دنیا میں یہ نصیحت قبول کرلی ہوتی۔ اور آج کے دن کے لیے ہم نے بھی کچھ اچھے کام کیے ہوتے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(وجای یومئذ بجھنم : عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(یوتی بجھنم یومئذ لھا سبعون الف زمام، مع کل زمام سبعون الف ملک یجزونھا) (مسلم، الجنۃ وصفۃ نعیمھا، باب جھنم اعادنا اللہم نھا : ٢٨٣٢)” اس دن جہنم اس حال میں لائیج ائیگ ی کہ اس کی ستر ہزار لگا میں ہوں گی، ہر لگام کے ساتھ ستر ہزار فرشتے ہوں گے جو اسے کھینچ کر لائیں گے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

يَوْمَئِذٍ يَتَذَكَّرُ الْإِنسَانُ وَأَنَّىٰ لَهُ الذِّكْرَىٰ (it will be the day when man will realise the truth, but from where will he take advantage of such realisation? - 89-23). The word tadhakkur in this context means &to realise&. The unbelievers will realise the errors of their ways in the Hereafter, but it will be too late, because it is this present world where &Imn and good deeds benefit the people. The Hereafter is the place only for reckoning and retribution. Man will express his remorse thus: يَقُولُ يَا لَيْتَنِي قَدَّمْتُ لِحَيَاتِي (He will say, |"0 Would that I had sent ahead [ some good deeds ] for [ this ] my life!|"....89:24). When he faces the torment of disbelief and idolatry on that day of devastation, man will lament that he should have carried out good deeds and refrained from sin in this world to be saved from punishment in the Hereafter. But it will be of no avail. Allah says: &So, that day, no one can punish like He will punish, nor can anyone shackle like He will shackle....89:26] Having described the torment of the unbelievers, the conclusion of the Surah gives cheerful news to the believers that they will be admitted into Paradise. Thus it says:

یومئذ یتذکر الانسان وانی لہ الذکری، اس جگہ تذکر سے مراد سمجھ میں آجاتا ہے یعنی کافر کو اس روز سمجھ آئے گی کہ مجھے دنیا میں کیا کرنا چاہئے تھا اور میں نے کیا کیا مگر اس وقت یہ سمجھ میں آنا بےسود ہوگا کہ عمل اور اصلاح حال کا زمانہ گزرچکا آخرت دارالعمل نہیں دارالجزا ہے آگے اس تذکر کا بیان ہے کہ وہ تمنا کرے گا کہ کاش میں دنیا میں کچھ نیک عمل کرلیتا۔ یلیتنی قدمت لحیاتی، پھر اس میں تمنا کا باطل اور غیر مفید ہونا بتلایا کہ اب جبکہ کفر و شرک کی سزا سامنے آگئی اب اس تمنا سے کچھ فائدہ نہیں اب تو عذاب اور پکڑ کا وقت ہے اور اللہ تعالیٰ کی پکڑ کی برابر کوئی پکڑ نہیں ہوسکتی۔ کفار کے عذاب بیان کرنے کے بعد آخر میں مومن کا ثواب اور ان کا جنت میں داخل کیا جانا ذکر فرمایا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَجِايْۗءَ يَوْمَىِٕذٍؚبِجَہَنَّمَ۝ ٠ۥۙ يَوْمَىِٕذٍ يَّتَذَكَّرُ الْاِنْسَانُ وَاَنّٰى لَہُ الذِّكْرٰى۝ ٢٣ ۭ يَوْمَئِذٍ ويركّب يَوْمٌ مع «إذ» ، فيقال : يَوْمَئِذٍ نحو قوله عزّ وجلّ : فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر/ 9] وربّما يعرب ويبنی، وإذا بني فللإضافة إلى إذ . اور کبھی یوم کے بعد اذ بڑھا دیاجاتا ہے اور ( اضافت کے ساتھ ) یومئذ پڑھا جاتا ہے اور یہ کسی معین زمانہ کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس صورت میں یہ معرب بھی ہوسکتا ہے اور اذ کی طرف مضاف ہونے کی وجہ سے مبنی بھی ۔ جیسے فرمایا : وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ [ النحل/ 87] اور اس روز خدا کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے ۔ فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر/ 9] وہ دن بڑی مشکل کا دن ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم/ 5] اور ان کو خدا کے دن یا ددلاؤ۔ میں ایام کی لفظ جلالت کی طرف اضافت تشریفی ہے اور ا یام سے وہ زمانہ مراد ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے فضلو انعام کے سمندر بہا دیئے تھے ۔ جهنم جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام وقال أبو مسلم : كهنّام ( ج ھ ن م ) جھنم ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ تَّذْكِرَةُ : ما يتذكّر به الشیء، وهو أعمّ من الدّلالة والأمارة، قال تعالی: فَما لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ [ المدثر/ 49] ، كَلَّا إِنَّها تَذْكِرَةٌ [ عبس/ 11] ، أي : القرآن . وذَكَّرْتُهُ التذکرۃ جس کے ذریعہ کسی چیز کو یاد لایا جائے اور یہ دلالت اور امارت سے اعم ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ فَما لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ [ المدثر/ 49] ان کو کیا ہوا کہ نصیحت سے روگرداں ہورہے ہیں ۔ كَلَّا إِنَّها تَذْكِرَةٌ [ عبس/ 11] دیکھو یہ ( قرآن ) نصیحت ہے ۔ مراد قرآن پاک ہے ۔ ذَكَّرْتُهُ كذا إنس الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی: وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان/ 49] . وقیل ابن إنسک للنفس وقوله عزّ وجل : فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء/ 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه/ 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور/ 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي . ( ان س ) الانس یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ { وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا } ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ { فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا } ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا } ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔ أنى أَنَّى للبحث عن الحال والمکان، ولذلک قيل : هو بمعنی كيف وأين ، لتضمنه معناهما، قال اللہ عزّ وجل : أَنَّى لَكِ هذا [ آل عمران/ 37] ، أي : من أين، وكيف . ( انیٰ ) انی۔ یہ حالت اور جگہ دونوں کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اس لئے بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنیٰ این اور کیف ۔ کے آتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ { أَنَّى لَكِ هَذَا } ( سورة آل عمران 37) کے معنی یہ ہیں کہ کھانا تجھے کہاں سے ملتا ہے ۔ ذكر ( نصیحت) وذَكَّرْتُهُ كذا، قال تعالی: وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم/ 5] ، وقوله : فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة/ 282] ، قيل : معناه تعید ذكره، وقد قيل : تجعلها ذکرا في الحکم «1» . قال بعض العلماء «2» في الفرق بين قوله : فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة/ 152] ، وبین قوله : اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة/ 40] : إنّ قوله : فَاذْكُرُونِي مخاطبة لأصحاب النبي صلّى اللہ عليه وسلم الذین حصل لهم فضل قوّة بمعرفته تعالی، فأمرهم بأن يذكروه بغیر واسطة، وقوله تعالی: اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ مخاطبة لبني إسرائيل الذین لم يعرفوا اللہ إلّا بآلائه، فأمرهم أن يتبصّروا نعمته، فيتوصّلوا بها إلى معرفته . الذکریٰ ۔ کثرت سے ذکر الہی کرنا اس میں ، الذکر ، ، سے زیادہ مبالغہ ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ذَكَّرْتُهُ كذا قرآن میں ہے :۔ وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم/ 5] اور ان کو خدا کے دن یاد دلاؤ ۔ اور آیت کریمہ ؛فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة/ 282] تو دوسری اسے یاد دلا دے گی ۔ کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اسے دوبارہ یاد دلاوے ۔ اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں وہ حکم لگانے میں دوسری کو ذکر بنادے گی ۔ بعض علماء نے آیت کریمہ ؛۔ فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة/ 152] سو تم مجھے یاد کیا کر میں تمہیں یاد کروں گا ۔ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة/ 40] اور میری وہ احسان یاد کرو ۔ میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ کے مخاطب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب ہیں جنہیں معرفت الہی میں فوقیت حاصل تھی اس لئے انہیں براہ راست اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اور دوسری آیت کے مخاطب بنی اسرائیل ہیں جو اللہ تعالیٰ کو اس نے انعامات کے ذریعہ سے پہچانتے تھے ۔ اس بنا پر انہیں حکم ہوا کہ انعامات الہی میں غور فکر کرتے رہو حتی کہ اس ذریعہ سے تم کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوجائے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(24-26) اور تمنا کرے گا کہ کاش میں اس ابدی حیات کے لیے حیات فانیہ میں کچھ کرلیتا اور اس زندگی کے لیے کچھ نیک اعمال بھیج دیتا، سو قیامت کے دن نہ تو اللہ کے عذاب کے برابر کوئی عذاب دینے والا نکلے گا اور نہ جکڑنے کے برابر کوئی جکڑنے والا ہوگا، یا یہ مطلب ہے کہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کو مخلوق کو عذاب دینے پر غلبہ اور قدرت حاصل ہے کسی کو نہیں ہوسکتی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٣{ وَجِایْٓئَ یَوْمَئِذٍم بِجَہَنَّمَ لا } ” اور لے آئی جائے گی اس روز جہنم بھی “ جہنم کا ظہور بھی شاید زمین کے اندر سے ہی ہوگا۔ یعنی جب زمین کو کھینچ کر چپٹا کیا جائے گا تو اس کے اندر کا کھولتا ہوا لاوا باہر نکل آئے گا ‘ جو جہنم کا سماں پیدا کر دے گا۔ (واللہ اعلم ! ) { یَوْمَئِذٍ یَّـتَذَکَّرُ الْاِنْسَانُ وَاَنّٰی لَـہُ الذِّکْرٰی ۔ } ” اس دن انسان کو سمجھ آئے گی ‘ لیکن اب سمجھنے کا کیا فائدہ ! “ شاہ عبدالقادر (رح) صاحب نے اس کا ترجمہ یوں کیا ہے کہ ” اس دن انسان چیتے گا “ یعنی اس دن انسان کو بہت کچھ یاد آجائے گا کہ وہ دنیا سے اپنے ساتھ کیا لے کر آیا تھا اور اسے نصیحت بھی حاصل ہوجائے گی۔ لیکن اس وقت کی نصیحت سے اسے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ ظاہر ہے فائدہ تو تب ہوتا اگر اس نے دنیا میں نصیحت پکڑی ہوتی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

17 The words in the original can have two meanings: (1) That on that Day man will remember whatever he had done in the world and will regret, but what will remembrance and regretting avail him then? (2) That on that Day man will take heed and accept admonition: he will realize that whatever he had been told by the Prophets was true and he committed a folly when he did not listen to them; but what will taking heed and accepting the admonition and realizing one's errors avail one then ?

سورة الْفَجْر حاشیہ نمبر :17 اصل الفاظ ہیں یومیذ یتذکر الانسان و انی لہ الذکری ۔ اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ اس روز انسان یاد کرے گا کہ وہ دنیا میں کیا کچھ کر کے آیا ہے اور اس پر نادم ہو گا ، مگر اس وقت یاد کرنے اور نادم ہونے کا کیا فائدہ ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس روز انسان کو ہوش آئے گا ، اسے نصیحت حاصل ہو گی ، اس کی سمجھ میں یہ بات آئے گی کہ جو کچھ اسے انبیاء نے بتایا تھا وہی صحیح تھا اور ان کی بات نہ مان کر اس نے حماقت کی ، مگر اس وقت ہوش میں آنے اور نصیحت پکڑنے اور اپنی غلطی کو سمجھنے کا کیا فائدہ ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

8: اُس وقت اگر کوئی شخص ایمان لانا بھی چاہے تو ایمان اُس کے لئے فائدہ مند نہیں ہوگا۔ ایمان تو وہی معتبر ہے جو قیامت اور موت کے آنے سے پہلے پہلے ہو۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(89:23) وجاء یومئذ بجھنم : واؤ عاطفہ، جای ماضی مجہول واحد مذکر غائب۔ مجیء (باب ضرب) مصدر سے۔ اذ مضاف الیہ۔ اس دن۔ اس جملہ کا عطف بھی دکت پر ہے۔ اور اس دن جہنم کو سامنے لایا جائے گا۔ یومئذ اس دن ۔ یہ ما قبل کے یومئذ سے بدل ہے۔ یتذکر الانسان : یتذکر مضارع واحد مذکر غائب تذکر (تفعل) مصدر وہ نصیحت پکڑتا ہے۔ اس کے چند ایک تراجم حسن ذیل ہیں :۔ (1) اس دن انسان سمجھے گا۔ (تفسیر حقانی) (2) اس دن انسان کو سمجھ آئے گا۔ (ضیاء القرآن) (3) اس روز انسان کو مسجھ آوے گی۔ (بیان القرآن) (4) اس روز انسان کو سمجھ آئے گی۔ (تفہیم القرآن) (5) ای یتذکر معاصیہ او یتعظ لانہ یعلم قبحھا فیندم علیہا یعنی اسنان اپنے گناہوں کو یاد کرے گا یا نصیحت قبول کرے گا۔ کیونکہ وہ ان گناہوں کی قباحت سے متنبہ ہوجائے گا اور ان پر ندامت محسوس کرے گا۔ (بیضاوی) (6) ای یتعظ الکافر ویتوب : یعنی کافر نصیحت پکڑے گا اور توبہ کرے گا۔ (الخازن) (7) یتوب : توبہ کرے گا۔ (رازی) مطلب یہ کہ : قیامت کے دن انسان اپنے گناہوں سے توبہ کرے گا جو اس نے دنیا میں کئے ہوں گے اور نادم ہوگا۔ کیونکہ اس کو معلوم ہوجائے گا کہ انبیاء اللہ نے اسے جو خبر دی تھی وہ برحق تھی اور اس کی اپنی سرکشی اور نامفرمانی سراسر گمراہی۔ وہ اپنے کئے پر توبہ کرنا چاہے گا لیکن بےفائدہ۔ الانسان سے مراد یہاں وہی کافر انسان ہے جو دنیوی سکھ میں ربی اکرمن اور دکھ میں ربی اکرمن کہا کرتا تھا۔ (آیات 15 16) ۔ وانی لہ الذکری۔ جملہ فاعل یتذکر سے حال ہے انی۔ کیسے۔ کیونکر اسم ظرف ہے۔ زمان و مکان دونوں کے لئے آتا ہے۔ ظرف زمان ہو تو متیٰ (کب) کے معنی دیتا ہے اور اگر ظرف مکان ہو تو این (کہاں، جہاں) کے معنی دیتا ہے۔ اور اگر استفہامیہ ہو تو کیف (کیسے، کیونکر) کے معنی دیتا ہے جیسے کہ آیت ہذا میں ہے۔ جملہ استفہام انکاری ہے۔ یعنی اس بعد از وقت ندامت سے اور توبہ سے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ توبہ کی شرط تو ایمان بالغیب ہے قیامت کے ظہور کے بعد تو غیب نہ رہا سامنے دیکھ کر تو ہر ایک کو ہی ماننا پڑیگا۔ الذکری : ذکر یذکر (باب نصر) کا مصدر ہے کثرت ذکر کے لئے۔ ذکری بولا جاتا ہے۔ یہ ذکر سے زیادہ بلیغ ہے نصیحت کرنا۔ ذکر کرنا۔ یاد ۔ پند، موعظت، (اب نصیحت پکڑنے یا توبہ کرنے کا کیا فائدہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 حضرت عبداللہ بن معسود سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا : اس روز دوزخ کو ستر ہزار باگیں لگا دی جائیں گی اور ہر باگ کو ستر ہزار فرشتے کھینچ رہے ہوں گے۔ (شوکانی بحود مسلم ترمذی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ کیونکہ آخرت دار الجزاء ہے دار العمل نہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿وَ جِايْٓءَ يَوْمَىِٕذٍۭ بِجَهَنَّمَ ١ۙ۬﴾ (اور اس دن جہنم کو لایا جائے گا) حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اس دن جہنم کو لایا جائے گا جس کی ستر ہزار باگیں ہوں گی اور ہر باگ کے ساتھ ستر ہزار فرشتے ہوں گے جو اسے کھینچ کر لا رہے ہوں گے۔ ﴿ يَوْمَىِٕذٍ يَّتَذَكَّرُ الْاِنْسَانُ ﴾ اس دن انسان کی سمجھ میں آجائے گا۔ ﴿ وَ اَنّٰى لَهُ الذِّكْرٰى ؕ٠٠٢٣﴾ (اور سمجھنے کا موقع کہاں رہا) یعنی سمجھنے کا وقت تو دنیا میں تھا جہاں ایمان لانے اور عمل صالح کرنے کا موقع تھا اب تو دار الجزا میں پہنچ گئے۔ اب نہ سمجھنے کا موقع رہا نہ عمل کا، نہ توبہ کا۔ جب انسان اپنی محرومی کو دیکھ لے گا اور محاسبہ اور مواخذہ سامنے آئے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

11:۔ ” یومئذ “ قیامت کے دن عبرت و نصیحت حاصل کرنے پر آمادہ ہوگا یا مطلب یہ ہے کہ اس دن انسان اپنی تمام کوتاہیوں اور غلطیوں کو یاد کرے گا اور ان پر حسرت و ندامت کا اظہار کرے گا مگر اس وقت اس کا اسے کوئی فائدہ نہ ہوگا یہ حسرت وندامت بےوقت ہوگی۔ ومن این الہ الذکری وقد فات او انہا (روح ج 30 ص 129) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(23) اور اس دن جہنم لائے جائے گی اس دن انسان نصیحت پکڑے گا اور اس کو سمجھ آئے گی۔ مگر اس وقت نصیحت پکڑنا اور سمجھ آنے کا موقع کہا۔ یعنی اس دن جب ایسا ہوگاتو جہنم لائی جائے گی یعنی ظاہر کی جائے گی اس وقت آدمی کو ہوش آئے گا اور اس دن سوچے گا لیکن اس دن سوچنا اس کو کیا مفید ہوسکتا ہے اور اب سوچنے کا وقت کہاں، یعنی اگر اس وقت ایمان لائے تو غیر مفید وانی لھم التنارش من مکان بعید ، کیونکہ وہ دارالجزا ہے دارالعمل نہیں۔