Surat ul Fajar
Surah: 89
Verse: 29
سورة الفجر
فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡ ﴿ۙ۲۹﴾
And enter among My [righteous] servants
پس میرے خاص بندوں میں داخل ہوجا ۔
فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡ ﴿ۙ۲۹﴾
And enter among My [righteous] servants
پس میرے خاص بندوں میں داخل ہوجا ۔
Enter then among My servants, meaning, among their ranks. وَادْخُلِي جَنَّتِي
[٢٠] یہ بات اسے موت کے وقت بھی کہی جائے گی۔ میدان محشر میں قبروں سے اٹھنے اور میدان محشر کی طرف چلتے وقت بھی کہی جائے گی۔ اور عدالت الٰہی میں فیصلہ کے بعد بھی کہی جائے گی۔ گویا ہر مرحلے پر اسے یہ اطمینان دلایا جائے گا کہ وہ اللہ کے فرمانبردار بندوں میں شامل ہے اور جنت کا مستحق ہے۔
فَادْخُلِي فِي عِبَادِي (So, enter among My [ special ] servants...89:29). In other words, the contented soul will be addressed [ compassionately ], and first asked to enter the fold of righteous and sincere slaves, and then to enter Paradise. This indicates that entry into Paradise depends on their being, first and foremost, in the fold of the righteous believers. Then they will enter Paradise all together. This shows that joining the company of the righteous in this world is a sign that he will enter Paradise with them. Thus Prophet Sulaiman (علیہ السلام) prayed: وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ &...and admit me, by Your mercy, among Your righteous slaves...[ 27:19] & Prophet Yusuf (علیہ السلام) prayed: وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ &...and make me join the righteous. [ 12:101] & The above supplications indicate that the company of the righteous is such a great blessing that even the Holy Prophets cannot do without, as a result they pray for it.
فادخلی فی عبدی وادخلی جنتی، نفس مطمئنہ کو مخاطب کرکے یہ حکم ہوگا کہ میرے خاص بندوں میں شامل ہوجا اور میری جنت میں داخل ہوجا۔ اس میں پہلے اللہ کے صالح اور مخلص بندوں میں شامل ہونیکا حکم ہے پھر جنت میں داخل ہونیکا، اس میں اشارہ پایا جاتا ہے کہ جنت میں داخل ہونا اس پر موقوف ہے کہ پہلے اللہ کے صالح مخلص بندوں کے زمرہ میں شامل ہو ان سب کے ساتھ ہی جنت میں داخل ہوگا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو دنیا میں صالحین کی صحبت ومعیت اختیار کرتا ہے یہ علامت اس کی ہے کہ یہ بھی انکے ساتھ جنت میں جائے گا اسی لئے حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اپنی دعا میں فرمایا واد خلنی برحمتک فی عبادک الصلحین اور حضرت یوسف (علیہ السلام) نے دعا میں فرمایا والحقنی بالصلحین، معلوم ہوا کہ صحبت صالحین وہ نعمت کبری ہے کہ انبیا (علیہ السلام) بھی اس کی دعا سے مستغنی نہیں۔
فَادْخُلِيْ فِيْ عِبٰدِيْ ٢٩ ۙ دخل الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] ( دخ ل ) الدخول ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔ عبد والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب : الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] . الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] . والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة، والناس في هذا ضربان : عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] . العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے وہ دوقسم پر ہیں ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔ ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔
آیت ٢٩{ فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ ۔ } ” تو داخل ہو جائو میرے (نیک) بندوں میں۔ “ اللہ تعالیٰ کے ان نیک بندوں کی نشاندہی سورة النساء کی اس آیت میں کی گئی ہے : { وَمَنْ یُّطِـعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَآئِ وَالصّٰلِحِیْنَج وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا ۔ } ” اور جو کوئی اطاعت کرے گا اللہ کی اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تو یہ وہ لوگ ہوں گے جنہیں معیت حاصل ہوگی ان کی جن پر اللہ کا انعام ہوا ‘ یعنی انبیاء کرام ‘ صدیقین ‘ شہداء اور صالحین۔ اور کیا ہی اچھے ہیں یہ لوگ رفاقت کے لیے ! “
(89:29) فادخلی فی عبدی : ف سببیہ ہے کیونکہ اطمینان نفس اور نفس راضیۃ مرضیۃ ہونا ہی خالص عبدیت کے حسول اور باطل الوہیت نفسانی کی رسی سے گلو خلاصی اور شیطان وسوسوں سے نجات مل جانے کا سبب ہے۔ ادخلی۔ فعل امر واحد مؤنث حاضر۔ دخول (باب نصر) مصدر سے۔ تو داخل ہوجا۔ فی عبدی : میرے بندوں میں۔ (اے نفس مطمئنہ) تو داخل ہوجا میرے بندوں میں یہ وہی نیک بندے تھے جن میں داخل ہونے کی دعا حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے کی تھی۔ عرض کیا تھا۔ وادخلنی برحمتک فی عبادک الصلحین (27:19) اور حضرت یوسف (علیہ السلام) نے بھی ان ہی کے ساتھ شامل ہونے کے لئے عرض کیا تھا۔ توفنی مسلما والحقنی بالصلحین (12:101) ۔ (تفسیر مظہری)
﴿فَادْخُلِيْ فِيْ عِبٰدِيْۙ٠٠٢٩﴾ اے نفس مطمئنہ تو میرے بندوں میں داخل ہوجا۔ ﴿ وَ ادْخُلِيْ جَنَّتِيْ (رح) ٠٠٣٠﴾ (اور میری جنت میں داخل ہوجا) ۔ اس میں ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نفس مطمئنہ کو یہ خطاب بھی ہوگا کہ تو میرے بندوں میں شامل ہوجا اور میری جنت میں داخل ہوجا یعنی جنت میں تنہا داخل ہونا نہیں ہے انسان مدنی الطبع ہے اسے انس اور الفت کے لیے دوسرے افراد بھی چاہئیں۔ آیت کریمہ میں یہ بھی بیان فرما دیا کہ جو شخص جنت میں داخل ہوگا وہاں دوسرے اہل جنت سے بھی ملاقاتیں رہیں گی۔ سورة ٴ حجر میں فرمایا ﴿ وَ نَزَعْنَا مَا فِيْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰى سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِيْنَ ٠٠٤٧﴾ (اور ان کے دلوں میں جو کینہ تھا ہم وہ سب دور کردیں گے کہ سب بھائی بھائی کی طرح رہیں گے تختوں پر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے) ۔ اور سورة ٴ طور میں فرمایا ﴿ يَتَنَازَعُوْنَ فِيْهَا كَاْسًا لَّا لَغْوٌ فِيْهَا وَ لَا تَاْثِيْمٌ٠٠٢٣﴾ (وہاں آپس میں جام و شراب میں چھینا جھپٹی بھی کریں گے اس میں نہ کوئی لغو بات ہوگی اور نہ کوئی گناہ کی بات) جنت میں آپس میں میل محبت سے رہیں گے کسی کے لیے کسی کے دل میں کوئی کھوٹ، حسد، جلن، بغض نہ ہوگا، اگرچہ وہاں کسی چیز کی کمی نہ ہوگی لیکن بطور دل لگی مشروبات میں چھینا جھپٹی کریں گے اور ایک دوسرے سے پیالے چھینیں گے۔ جعلنا اللہ تعالیٰ ممن (رض) وارضاہ وجعل الجنة مثواہ وھذا آخر سورة الفجر، والحمد للہ اولا و آخرا والصلوة علی من ارسل طیبا وطاھرا