Surat ul Fajar

Surah: 89

Verse: 5

سورة الفجر

ہَلۡ فِیۡ ذٰلِکَ قَسَمٌ لِّذِیۡ حِجۡرٍ ؕ﴿۵﴾

Is there [not] in [all] that an oath [sufficient] for one of perception?

کیا ان میں عقلمند کے واسطے کافی قسم ہے؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

There is indeed in them sufficient proofs for men with Hijr! meaning, for he who possesses intellect, sound reasoning, understanding and religious discernment. The intellect has only been called Hijr because it prevents the person from doing that which is not befitting of him of actions and statement. From this we see the meaning of Hijr Al-Bayt because it prev... ents the person performing Tawaf from clinging the wall facing Ash-Sham. Also the term Hijr Al-Yamamah (the cage of the pigeon) is derived from this meaning (i.e., prevention). It is said, "Hajara Al-Hakim so-and-so (The judge passed a judgement preventing so-and-so)," when his judgement prevents the person from his liberty (i.e., of freely utilizing his wealth). Allah says, وَيَقُولُونَ حِجْراً مَّحْجُوراً And they will say: "Hijr Mahjur." (25:22) All of these examples are different cases but their meanings are quite similar. The oath that is referred to here is about the times of worship and the acts of worship themselves, such as Hajj, Salah and other acts of worship that Allah's pious, obedient, servants who fear Him and are humble before Him, seeking His Noble Face, perform in order to draw nearer to Him. Mentioning the Destruction of `Ad After mentioning these people, and their worship and obedience, Allah says, أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

5۔ 1 ذٰلِکَ سے مذکورہ قسمیں بہ اشیا کی طرف اشارہ ہے یعنی کیا ان کی قسم اہل عقل و دانش کے واسطے کافی نہیں۔ حجر کے معنی ہیں روکنا، منع کرنا، انسانی عقل بھی انسان کو غلط کاموں سے روکتی ہے اس لیے عقل کو بھی حجر کہا جاتا ہے۔ آگے بہ طریق استشہاد اللہ تعالیٰ بعض ان قوموں کا ذکر فرما رہے ہیں جو تکذیب وعناد ... کی بناء پر ہلاک کی گئی تھیں، مقصد اہل مکہ کو تنبیہ ہے کہ اگر تم ہمارے رسول کی تکذیب سے باز نہ آئے تو تمہارا بھی اسی طرح مواخذہ ہوسکتا ہے جیسے گزشتہ قوموں کا اللہ نے کیا۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥] حِجر بمعنی پتھر اور ہر ٹھوس اور سخت چیز جو آڑ کا کام دے سکے۔ اور عقل کو بھی حجر کہتے ہیں وہ اس لحاظ سے کہ وہ بھی ہر اس چیز کو جو نقصان دہ ہو روک دیتی ہے۔ اور ذی حجر یعنی صاحب عقل یا عقلمند۔ اور اس آیت کا دوسرا ترجمہ یوں بھی ہوسکتا ہے : کیا یہ (مذکور چار چیزیں) عقلمندوں کے نزدیک قسم کھانے کے لائ... ق نہیں ؟ مطلب دونوں صورتوں میں ایک ہی نکلتا ہے یعنی مذکورہ اشیاء اس نظام کائنات کے نہایت اہم اجزا اور اپنے اپنے مقام پر بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ پھر کیا وہ ہستی جو ایسا نظام کائنات چلا رہی ہے عالم آخرت کو وجود میں نہ لاسکے گی۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ھل فی ذلک قسم لذی حجر :” ھل “ کے معنی کے لئے دیکھیے سورة دہر کی پہلی آیت ۔” حجر یحجر “ (ن) منع کرنا، روکنا۔ عقل کو ” حجر “ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ آدمی کو ہر غلط کام سے روکتی اور منع کرتی ہے۔ (٢) قرآن مجید میں مذکور قسمیں عام طور پر کسی نہ کسی بات کی شہادت اور دلیل کے لئے آتی ہیں، سوال پیدا ہوتا ہ... ے کہ یہ قسمیں کھا کر عقل والوں کو کیا باور کروایا جا رہا ہے ؟ جواب اگرچہ لفظوں میں موجود نہیں مگر آئندہ آیات سے صاف واضح ہے۔ یعنی ان سب چیزوں پر غور کرو تو تمہیں یقین ہوجائے گا کہ اتنے زبردست تغیرات لانے والے پروردگار اس بات پر قادر ہے کہ تمہیں دوبارہ زندہ کر کے تمہیں تمہارے اعمال کی جزا و سزا دے اور اگر تم سرکشی پر اڑے رہے تو عاد وثمود اور قوم فرعون کی طرح دنیا میں بھی تم پر عذاب کا کوڑا برسا دے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ہَلْ فِيْ ذٰلِكَ قَسَمٌ لِّذِيْ حِجْرٍ۝ ٥ ۭ هَلْ : حرف استخبار، إما علی سبیل الاستفهام، وذلک لا يكون من اللہ عزّ وجلّ : قال تعالی: قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنا[ الأنعام/ 148] وإمّا علی التّقریر تنبيها، أو تبكيتا، أو نفیا . نحو : هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ ... لَهُمْ رِكْزاً [ مریم/ 98] . وقوله : هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم/ 65] ، فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک/ 3] كلّ ذلک تنبيه علی النّفي . وقوله تعالی: هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ وَالْمَلائِكَةُ [ البقرة/ 210] ، لْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل/ 33] ، هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ [ الزخرف/ 66] ، هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا ما کانوا يَعْمَلُونَ [ سبأ/ 33] ، هَلْ هذا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ [ الأنبیاء/ 3] قيل : ذلک تنبيه علی قدرة الله، و تخویف من سطوته . ( ھل ) ھل یہ حرف استخبار اور کبھی استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جیسے قرآن پاک میں ہے : هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنا[ الأنعام/ 148] کہدو کہ تمہارے پاس کوئی سند ہے اگر ہے تو اسے ہمارے سامنے نکالو ۔ اور کبھی تنبیہ تبکیت یا نفی کے لئے چناچہ آیات : ۔ هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزاً [ مریم/ 98] بھلا تم ان میں سے کسی کو دیکھتے ہو یار کہیں ان کی بھنکسنتے ہو ۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم/ 65] بھلا ئم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو ۔ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک/ 3] ذرا آنکھ اٹھا کر دیکھو کیا تجھے ( آسمان میں ) کوئی شگاف نظر آتا ہے ۔ میں نفی کے معنی پائے جاتے ہیں ۔ اور آیات : ۔ هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ وَالْمَلائِكَةُ [ البقرة/ 210] کیا یہ لوگ اسی بات کے منتظر ہیں کہ ان پر خدا کا عذاب ) بادل کے سائبانوں میں نازل ہو اور فرشتے بھی اتر آئیں ۔ ھلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل/ 33] یہ اس کے سوا اور کسی بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں ۔ هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ [ الزخرف/ 66] یہ صرف اس بات کے منتظر ہیں کہ قیامت هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا ما کانوا يَعْمَلُونَ [ سبأ/ 33] یہ جیسے عمل کرتے ہیں ویسا ہی ان کو بدلہ ملے گا ۔ هَلْ هذا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ [ الأنبیاء/ 3] یہ شخص کچھ بھی ) نہیں ہے مگر تمہارے جیسا آدمی ہے ۔ میں اللہ تعالیٰ کی قدرت پر تنبیہ اور اس کی سطوت سے تخو یف کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے : ۔ هذا ( ذَاكَ ذلك) وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام/ 131] ، إلى غير ذلك . ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔ قْسَمَ ( حلف) حلف، وأصله من الْقَسَامَةُ ، وهي أيمان تُقْسَمُ علی أولیاء المقتول، ثم صار اسما لكلّ حلف . قال : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام/ 109] ، أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف/ 49] ، وقال : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة/ 1- 2] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] ، إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم/ 17] ، فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة/ 106] اقسم ( افعال کے معنی حلف اٹھانے کے ہیں یہ دروصل قسامۃ سے مشتق ہے اور قسیا مۃ ان قسموں کو کہا جاتا ہے جو او لیائے مقتول پر تقسیم کی جاتی ہیں پھر مطلق کے معنی استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام/ 109] اور یہ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں ۔ أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف/ 49] کیا یہ وہی لوگ ہیں جن کے مارے میں تم قسمیں کھایا کرتی تھے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة/ 1- 2] ہم کو روز قیامت کی قسم اور نفس لوامہ کی ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] ہمیں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم ۔ إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم/ 17] جب انہوں نے قسمیں کھا کھا کر کہا کہ ہم صبح ہوتے اس کا میوہ توڑلیں گے ۔ فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة/ 106] اور دونوں خدا کی قسمیں کھائیں ۔ ماسمعتہ وتقاسما باہم قسمیں اٹھانا ۔ قرآن میں ہے : وَقاسَمَهُما إِنِّي لَكُما لَمِنَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف/ 21] اور ان کی قسم کھاکر کہا کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں ۔ حَجْر والتحجیر : أن يجعل حول المکان حجارة، يقال : حَجَرْتُهُ حَجْرا، فهو محجور، وحَجَّرْتُهُ تحجیرا فهو مُحَجَّر، وسمّي ما أحيط به الحجارة حِجْراً ، وبه سمّي حجر الکعبة ودیار ثمود، قال تعالی: كَذَّبَ أَصْحابُ الْحِجْرِ الْمُرْسَلِينَ [ الحجر/ 80] ، وتصوّر من الحجر معنی المنع لما يحصل فيه، فقیل للعقل حِجْر، لکون الإنسان في منع منه ممّا تدعو إليه نفسه، وقال تعالی: هَلْ فِي ذلِكَ قَسَمٌ لِذِي حِجْرٍ [ الفجر/ 5] . قال المبرّد : يقال للأنثی من الفرس حِجْر، لکونها مشتملة علی ما في بطنها من الولد الحجر والتحجیر کے معنی کسی جگہ پر پتھروں سے احاطہ کرنا کے ہیں کہا جاتا ہے ۔ حجرتہ حجرا فھو محجور وحجرتہ تحجیرا فھو محجر اور جس جگہ کے ارد گرد پتھروں سے احاطہ کیا گیا ہو ۔ اسے حجر کہا جاتا ہے اس لئے حطیم کعبہ اور دیار ثمود کو حجر کہا گیا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ كَذَّبَ أَصْحابُ الْحِجْرِ الْمُرْسَلِينَ [ الحجر/ 80] اور ( وادی ) حجر کے رہنے والوں نے بھی پیغمبروں کی تکذیب کی ۔ اور حجر ( پتھروں سے احاطہ کرنا ) سے حفاظت اور رکنے کے معنی لے کر عقل انسانی کو بھی ھجر کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ بھی انسان کو نفسانی بےاعتدالیوں سے روکتی ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ هَلْ فِي ذلِكَ قَسَمٌ لِذِي حِجْرٍ [ الفجر/ 5]( اور ) بیشک یہ چیزیں عقلمندوں کے نزدیک قسم کھانے کے لائق ہیں ۔ مبرد ( لغوی ) نے ہے کہ گھوڑی کو بھی حجر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ پیٹ کے اندر حمل روکے رکھتی ہے  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اللہ تعالیٰ ان تمام چیزوں کی قسمیں کھا کر فرماتے ہیں کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کا رب راستہ کی اور راستہ پر چلنے والوں کی بڑی گھات میں ہے کیا ان باتوں میں عقل مند کے لیے کافی قسم بھی ہے

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥{ ہَلْ فِیْ ذٰلِکَ قَسَمٌ لِّذِیْ حِجْرٍ ۔ } ” کیا اس میں کوئی قسم (دلیل) ہے ان لوگوں کے لیے جو عقل مند ہیں ؟ “ یعنی ان تمام چیزوں کو اگلی آیات کے مضمون پر گواہ ٹھہرایا گیا ہے ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

1 Much difference of opinion has been expressed by the commentators in the commentary of these verses, so much so that in respect of "the even and the odd" there are as many as 36 different views. In some traditions the commentary of these verses has also been attributed to the Holy Prophet lupon whom be peace) , but the fact is that no commentary is confirmed from him, otherwise it was not possib... le that anyone from among the Companions, their immediate successors, and later conunentators would have dared to determine the meaning of these verses by himself after the conmentary by the Holy Prophet. After a study of the style one clearly feels that there was an argument alredly in progress in which the Holy Prophet (upon whom be peace) was presenting some thing and the disbelievers were denying it. At this, affirming what the Holy Prophet presented, it was said: By such and such a thing", so as to say: "By these things, what Muhanunad (upon whom be Allah's peace and blessings) says is wholly based on the truth ' Then, the argument is concluded with the question: "Is there an oath in it for a man of understanding ?" That is, "is there need for yet another oath to testify to the truth of this matter ''" Is this oath not enough to persuade a sensible man to accept that which Muhanunad (upon whom be Allah's peace and blessings) is presenting '?" Now the question arises: what was the argument for the sake of which an oath was sworn by these four things '? For this we shall have to consider the whole theme which, in the following verses, commences with: "Have you not seen how your Lord dealt with the 'Ad" and continues till the end of the Surah. It shows that the argument concerned the rewards and punishments of the Hereafter, which the people of Makkah were refusing to acknowledge and the Holy Messenger (upon whom be peace) was trying to convince them of this by constant preaching and instruction. At this oaths were sworn by the dawn, the ten nights, the even and the odd, and the departing night to assert: Are these four things not enough to convince a sensible man of the truth of this matter so that he may need yet another evidence for it? After having determined the significance of these oaths in the context, we would inevitably have to take each of these in the meaning relevant to the subsequent theme. First of all, it is said: "By Fajr." Fajr is the breaking of day, i.e. the time when the first rays of the light of day appear in the midst of the darkness of night as a white streak from the east. Then, it is said: "By the ten nights." If the context is kept in view, it will become plain that it implies each group of the ten nights among the thirty nights of the month, the first ten nights being those during which the crescent moon starting as a thin nail. goes on waxing every night until its major portion becomes bright; the second group of the ten nights being those during which the greater part of the night remains illumined by the moon, and the last ten nights being those during which the moon goes on waning and the nights becoming more and more dark until by the end of the month the whole night becomes absolutely dark. Then, it is said : "By the even and the odd." Even is the number which is divisible into two equal parts, as 2, 4, 6, 8, and the odd the number which is not so divisible, as l, 3, 5, 7. Generally, it may imply everything in the universe, for things in the universe either exist in pairs or as singles. But since the context here concerns the day and the night, the even and the odd mean the alternation of day and night in the sense that the dates of the month go on changing from the first to the second, and from second to the third, and every change brings with it a new state. Last of all, it is said: "By the night when it is departing", i.e. when the darkness which had covered the world since sunset may be at the verge of disappearing and the day be dawning. Now let us consider as a whole the four things an oath by which has been sworn to assert that the news which Muhammad (upon whom be Allah's peace and blessings) is giving of the meting out of rewards and punishments is wholly based on the truth. All these things point to the reality that an all-Powerful Sustainer is ruling over this universe, and nothing of what He is doing is absurd, purposeless, or lacking wisdom; on the contrary, a wise plan clearly underlies whatever He does. In His world one will never see that while it is night, the midday sun should suddenly appear overhead, or that the moon should appear one evening in the shape of the crescent and be followed next evening by the full moon, or that the night, when it falls, should never come to an end, but should become perpetual, or that there should be no system in the alternation of the day and night so that one could keep a record of the dates and know what month was passing, what was the date, on what date a particular work is to begin, and when it is to finish, what are the dates of the summer season and what of the rainy or winter season. Apart from countless other things of the universe if man only considers this regularity of the day and night intelligently and seriously, he will find evidence of the truth that this relentless discipline and order has been established by an Omnipotent Sovereign God; with it are connected countless of the advantages of the creatures whom He has created on the earth. Now, if a person living in the world of such a Wise, Omnipotent and All-Mighty Creator denies the rewards and punishments of the Hereafter, he inevitably commits one of the two errors: either he is a denier of His powers and thinks that though He has the power to create the universe with such matchless order and discipline, He is powerless to recreate man and mete out rewards and punishments to him or he denies His wisdom and knowledge and thinks that although He has created man with intellect and powers in the world, vet He will neither ever call him to account as to how he used his intellect and his powers, nor will reward him for his good deeds, nor punish him for his evil deeds. The one who believes in either, is foolish in the extreme.  Show more

سورة الْفَجْر حاشیہ نمبر :1 ان آیات کی تفسرین میں مفسرین کے درمیان بہت اختلافات ہوا ہے حتی کہ جفت اور طاق کے بارے میں تو 36 اقوال ملتے ہیں ۔ بعض روایات میں ان کی تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھی منسوب کی گئی ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ کوئی تفسیر حضور سے ثابت نہیں ہے ، ورنہ ممکن...  نہ تھا کہ صحابہ اور تابعین اور بعد کے مفسرین میں سے کوئی بھی آپ کی تفسیر کے بعد خود ان آیات کے معنی متعین کرنے کی جرات کرتا ۔ انداز بیان پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ پہلے سے کوئی بحث چل رہی تھی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بات پیش فرما رہے تھے اور منکرین اس کا انکار کر رہے تھے ۔ اس پر حضور کے قول کا اثبات کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ قسم ہے فلاں اور فلاں چیزوں کی ۔ مطلب یہ تھا کہ ان چیزوں کی قسم ، جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہہ رہے ہیں وہ بر حق ہے ۔ پھر بات کو اس سوال پر ختم کر دیا گیا کہ کیا کسی صاحب عقل کے لیے اس میں کوئی قسم ہے؟ یعنی کیا اس حق بات پر شہادت دینے کے لیے اس کے بعد کسی اور قسم کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ کیا یہ قسم اس کے لیے کافی نہیں ہے کہ ایک ہوشمند انسان اس بات کو مان لے جسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیش کر رہے ہیں؟ اب سوال یہ ہے کہ وہ بحث تھی کیا جس پر ان چار چیزوں کی قسم کھائی گئی ۔ اس کے لیے ہمیں اس پورے مضمون پر غور کرنا ہو گا جو بعد کی آیتوں میں تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارے رب نے عاد کے ساتھ کیا کیا سے شروع ہو کر سورہ کے آخر تک چلتا ہے ۔ اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ بحث جزا و سزا کے بارے میں تھی جس کو ماننے سے اہل مکہ انکار کر رہے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اس کا قائل کرنے کے لیے مسلسل تبلیغ و تلقین فرما رہے تھے ۔ اس پر فجر ، اور دس راتوں اور جفت اور طاق ، اور رخصت ہوتی ہوئی رات کی قسم کھا کر فرمایا گیا کہ اس بات کو باور کرنے کے لیے کیا یہ چیزیں کافی نہیں ہیں کہ کسی صاحب عقل آدمی کے سامنے اور کوئی چیز پیش کرنے کی ضرورت ہو؟ ان قسموں کا یہ موقع و محل متعین ہو جانے کے بعد لا محالہ ہمیں ان میں سے ہر ایک کے وہ معنی لینے ہوں گے جو بعد کے مضمون پر دلالت کرتے ہوں ۔ سب سے پہلے فرمایا فجر کی قسم فجر پو پھٹنے کو کہتے ہیں ، یعنی وہ وقت جب رات کی تاریکی میں سے دن کی ابتدائی روشنی مشرق کی طرف ایک سفید دھاری کی شکل میں نمودار ہوتی ہے ۔ پھر فرمایا دس راتوں کی قسم ۔ سلسلہ بیان کو نگاہ میں رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد مہینے کی تیس راتوں میں سے ہر دس راتیں ہیں ۔ پہلی دس راتیں وہ جن میں چاند ایک باریک ناخن کی شکل سے شروع ہو کر ہر رات کو بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ آدھے سے زیادہ روشن ہو جاتا ہے ۔ دوسری دس راتیں وہ جن میں رات کا بڑا حصہ چاند سے روشن رہتا ہے ۔ آخری دس راتیں وہ جن میں چاند چھوٹے سے چھوٹا اور رات کا بیشتر حصہ تاریک سے تاریک تر ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ مہینے کے خاتمے پر پوری رات تاریک ہو جاتی ہے ۔ اس کے بعد فرمایا جفت اور طاق کی قسم ۔ جفت اس عدد کو کہتے ہیں جو دو برابر کے حصوں میں تقسیم ہو تا ہے ، جیسے 2 ۔ 4 ۔ 6 ۔ 8 اور طاق اس عدد کو کہتے ہیں جو تقسیم نہیں ہو تا ، جیسے 1 ۔ 3 ۔ 5 ۔ 7 ۔ عمومی حیثیت سے دیکھا جائے تو اس سے مراد کائنات کی تمام چیزیں ہو سکتی ہیں ۔ کیونکہ ہر چیز یا تو جوڑا جوڑا ہے یا تنہا ۔ لیکن چونکہ یہاں بات دن اور رات کی ہو رہی ہے ، اس لیے سلسلہ مضمون کی مناسبت سے جفت اور طاقت کا مطلب تغیر ایام ہے کہ مہینے کی تاریخیں ایک سے دو اور دو سے تین ہوتی جاتی ہیں اور ہر تغیر ایک نئی کیفیت لے کر آتا ہے ۔ آخر میں فرمایا رات کی قسم جبکہ وہ رخصت ہو رہی ہو ۔ یعنی وہ تاریکی جو سورج غروب ہونے کے بعد سے دنیا پر چھائی ہوئی تھی ، خاتمے پر آ لگی ہو اور پو پھٹنے والی ہو ۔ اب ان چاروں چیزوں پر ایک مجموعی نگاہ ڈالیے جن کی قسم اس بات پر کھائی گئی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جزا و سزا کی جو خبر دے رہے ہیں وہ برحق ہے ۔ یہ سب چیزیں اس حقیقت پر دلالت کر رہی ہیں کی ایک رب قدیر اس کائنات پر فرمانروائی کر رہا ہے ، اور وہ جو کام بھی کر رہا ہے بے تکا ، بے مقصد ، بے حکمت ، بے مصلحت نہیں کر رہا ہے بلکہ اس کے ہر کام میں صریحاً ایک حکیمانہ منصوبہ کار فرما ہے ۔ اس کی دنیا میں تم یہ کبھی نہ دیکھو گے کہ ابھی رات ہے اور یکایک سورج نصف النہار پر آ کھڑا ہوا ۔ یا ایک روز چاند ہلال کی شکل میں طلوع ہوا اور دوسری روز چودھویں رات کا پورا چاند نمودار ہو جائے ۔ یا رات آئی ہو تو کسی طرح اس کے ختم ہونے کی نوبت ہی نہ آئے اور وہ مستقل طور پر ٹھیر کر رہ جائے ۔ یا تغیر ایام کا سرے سے کوئی باقاعدہ سلسلہ ہی نہ ہو کہ آدمی تاریخوں کا کوئی حساب رکھ سکے اور یہ جان سکے کہ یہ کونسا مہینہ ہے ، اس کی کونسی تاریخ ہے ، کس تاریخ سے اس کا کونسا کام شروع اور کب ختم ہونا ہے ، گرمی کے موسم کی تاریخیں کونسی ہیں اور برسات یا سردی کے موسم کی تاریخیں کونسی ۔ کائنات کی دوسری بے شمار چیزوں کو چھوڑ کر اگر آدمی شب و روز کی اس باقاعدگی ہی کو آنکھیں کھول کر دیکھے اور کچھ دماغ کو سوچنے کی تکلیف بھی دے تو اسے اس امر کی شہادت ملے گی کہ یہ زبردست نظم و ضبط کسی قادر مطلق کا قائم کیا ہوا ہے اور اس کے قیام سے اس مخلوق کی بے شمار مصلحتیں وابستہ ہیں جسے اس نے اس زمین پر پیدا کیا ہے ۔ اب اگر ایسے حکیم و دانا اور قادر و توانا خالق کی دنیا میں رہنے والا کوئی شخص آخرت کی جزا و سزا کا انکار کرتا ہے تو وہ دو حماقتوں میں سے کسی ایک حماقت میں لامحالہ مبتلا ہے ۔ یا تو وہ اس کی قدرت کا منکر ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ وہ اس کائنات کو ایسے بے نظیر نظم کے ساتھ پیدا کر دینے پر تو قادر ہے مگر انسان کو دوبارہ پیدا کر کے اسے جزا و سزا دینے پر قادر نہیں ہے ۔ یا وہ اس کی حکمت و دانائی کا منکر ہے اور اس کے بارے میں یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ اس نے دنیا میں انسان کو عقل اور اختیارات دے کر پیدا تو کر دیا مگر وہ نہ تو اس سے کبھی یہ حساب لے گا کہ اس نے اپنی عقل اور اپنے اختیارات سے کام کیا لیا ، اور نہ اچھے کام کی جزا دے گا نہ برے کام کی سزا ۔ ان دونوں باتوں میں جس بات کا بھی کوئی شخص قائل ہے وہ پرلے درجے کا احمق ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(89:5) ہل فی ذلک قسم لذی حجر جملہ استفہام تقریری ہے۔ بمعنی بیشک اور قسم میں تنوین تعظیم کی ہے۔ یعنی بلاشبہ اشیاء مذکورہ کی قسم (عظیم الشان) کا فی ہے۔ کیونکہ جن چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے وہ بہت بڑی ہیں اللہ کی قدرت کی عجوبہ کاری اور حکمت کی ندرت کا ان سے پتہ چلتا ہے۔ ذی حجر۔ مضاف مضاف الیہ (بحالت ج... ر) صاحب عقل، دانا ۔ یہ الحجر سے ہے۔ جس کے معنی سخت پتھر کے ہیں۔ چناچہ قرآن مجید میں ہے :۔ فہی کا الحجارۃ او اشد قسوۃ۔ (2:74) گویا وہ پتھر ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ سخت۔ الحجر والتحجیر کے معنی ہیں کسی جگہ پر پتھروں سے احاطہ کرنے کے۔ کہا جاتا ہے حجرتہ حجرا فہم محجور۔ اور جس جگہ کے اردگرد پتھروں سے احاطہ کیا گیا ہوا سے حجر کہا جاتا ہے۔ اس لئے حطیم کعبہ اور دیار ثمود کو حجر کہا گیا ہے۔ ولقد کذب اصحب الحجر المرسلین (15:80) اور (وادی) حجر کے رہنے والوں نے بھی پیغمبروں کی تکذیب کی۔ اور حجر (پتھروں سے احاطہ کرنا) سے حفاظت اور روکنے کے معنی لے کر عقل انسانی کو بھی حجر کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ بھی انسان بےاعتدالیوں سے روکتی ہے۔ مثال کے لئے آیت زیر مطالعہ کو پیش رکھیں۔ فائدہ : ان آیات (89:14) کی تفسیر میں مفسرین کے درمیان بہت اختلاف پایا جاتا ہے۔ حتی کہ جفت و طاق کے بارے میں تو 36 اقوال ملتے ہیں۔ بعض روایات میں ان کی تفسیر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف منسوب بھی کی گئی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کوئی تفسیر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت نہیں ہے ورنہ ممکن نہ تھا کہ صحابہ اور تابعین اور بعد کے مفسرین میں سے کوئی بھی آپ کی تفسیر کے بعد خود ان آیات کے تعین کرنے کی جرأت کرتا۔ (تفہیم القرآن جلد ششم حاشیہ زیر آیت 89:5) ۔ فائدہ : آیات 1 تا 4 میں مذکور قسموں کا جواب القسم محذوف ہے (1) لتبعثن ثم لتنبؤن بما عملتم (ایسر التفاسیر) (قسم ہے ان چیزوں کی) تم ضرور دوبارہ زندہ کرکے اٹھائے جاؤ گے۔ پھر تم کو تمہارے اعمال سے متنبہ کیا جائے گا۔ (2) جواب قسم مقدر ہے کہ منکروں کو ضرور سزا ہوگی۔ بعض کے نزدیک آیت 14 ۔ ان ربک لبالمرصاد۔ جواب القسم ہے ۔ کما فی الجلالین جس پر آئندہ کلام قرینہ ہے جس میں منکرین سابقین کی تعذیب کا ذکر ہے۔ (بیان القرآن) ۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 کیونکہ یہ تمام چیزیں اپنی جگہ بڑی عظمت رکھتی ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ استفہام تقریر و تاکید کے لئے ہے یعنی ان مذکورہ قسموں میں ہر ہر قسم تاکید کلام کے لئے کافی ہے اور گو سب قسمیں ایسی ہی ہیں۔ مگر اہتمام کے لئے اس کے کافی ہونے کی تصریح فرمادی کما مرفی قولہ تعالیٰ فی سورة الواقعہ وانہ لقسم لو تعلمون عظیم اور جواب قسم مقدر ہے کہ منکروں کو سزا ضرور ہوگی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ھل فی .................... حجر (5:89) ” کیا اس میں صاحب عقل کے لئے کوئی قسم ہے ؟ “ یہ ایک تقریری سوال ہے جس کا جواب ہے “۔ بیشک اس میں قسم ہے ایک عقلمند آدمی کے لئے ” ہاں “ اس میں ہر صاحب عقل وخرد کے لئے تسلی وتشفی ہے “۔ اس اثبات کے لئے استفہام کا انداز اس لئے اختیار کیا گیا ہے کہ یہ انداز نرم اور سر... گوشی کے انداز کے ساتھ زیادہ مناسب ہے ، جو ان قسموں میں پایا جاتا ہے۔ یہاں اس بات کو سیاق کلام میں لپیٹ کر رکھ دیا گیا ہے جس پر قسم اٹھائی گئی تاکہ تجسس قائم رہے اور بعد کا مضمون اس کی تشریح کردے۔ بعد کا موضوع ہے سرکشی ، فساد اور ظلم اور حد سے تجاوز کا۔ اور ایسے لگوں کے ساتھ دست قدرت کے رویے کا۔ یہ کہ ایسے لوگوں سے لازماً اللہ انتقام لیتا ہے اور اسی پر اللہ قسم اٹھاتا ہے اور قسم بھی نہایت ہی نرم ، اشاراتی اور اجمالی انداز میں اٹھائی گئی۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

چاروں قسموں کے بعد فرمایا ﴿ هَلْ فِيْ ذٰلِكَ قَسَمٌ لِّذِيْ حِجْرٍؕ٠٠٥﴾ کیا اس میں قسم ہے عقل والے کے لیے۔ یہ استفہام تقریری ہے جس سے تاکید کلام مقصود ہے اور مطلب یہ ہے کہ یہ قسمیں سمجھدار آدمی کے لیے کافی ہیں۔ قال صاحب الروح تحقیق وتقریر لفخامة الاشیاء المذکورة المقسم بھا وکونھا مستحقة لان تعظم ب... الاقسام بھا فیدل علٰی تعظیم المقسم علیہ و تاکیدہ من طریقہ الکنایة۔ قسموں کے بعد جواب قسم محذوف ہے مطلب یہ ہے کہ آپ مخاطبین میں جو لوگ منکر ہیں ان کا انکار پر اصرار کرنا عذاب لانے کا سبب ہے جیسا کہ ان سے پہلے مکذب اور منکر امتیں اور جماعتیں ہلاک ہوئیں اسی طرح یہ منکرین بھی ہلاک ہوں گے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(5) کیا ان قسموں میں جو میں نے کھائی ہیں ایک صاحب عقل کے لئے کافی قسم نہیں ہے۔ یعنی ضرور ہے…اس صورت میں ان معاندین اور منکرین قیامت کے شبہات کا جواب دیتا ہے جو یوں کہا کرتے تھے کہ اول تو خدا تعالیٰ ہماری نیکی اور بدی سے بےنیاز ہے اور اگر حقیقتاً اس کو نیکی پسند اور بدی سے ناراضگی ہے تو وہ ہم سے ابھی...  انتقام لے سکتا ہے اس کام کے لئے عالم کو دوبارہ قائم اور سزا اجزال کا اہتمام کرنا ایک عبث کام ہے اور محض ڈھکوسلا ہے قیامت تو جب قائم ہو جب اس کو ہمارے برے بھلے کا علم نہ ہو یا وہ سزا وجزا پر قدرت نہ رکھتا ہو اور جب یہ دونوں باتیں اس کو حاصل ہیں پھر قیامت کا انتظار کرنا بےسود ہے۔ غرض اس قسم کے شبہات فاسدہ کا جواب دینا اور قیامت کو ثابت کرنا اور اسی سلسلے میں بعض ایسی اقوام کا ذکر کرنا کہ جن کو ہلاک کیا ایسی حالت میں کہ جب ان سے توبہ اور انابت الی اللہ کی تمام امیدیں اور ان کی تمام مہلتیں ختم ہوچکیں اور جن کے ظالم دنیا میں بہت بڑھ گئے اور حد سے گزر چکے تھے غرض اس سورت کا تعلق بھی عام طور سے مجازات کے ثبوت کا اور اس کی تفصیل کا بیان کرنا مقصود ہے اور یہ بات بتانی ہے کہ قیامت کا وقوع اور یو مجازات کا آنا ضروری ہے نہ اس کے لئے دنیا مناسب ہے اور نہ برزخ بلکہ اس کے لئے ایک دن علیحدہ ہونا چاہیے تاکہ ہر شخص ک و اس کے عمل کا صلہ یا پاداش دی جاسکے اور کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ میں تو دارالعمل میں تھا مجھے کیوں سزا دی گئی شاید میں آگے اور اچھے عمل کرتا۔ بہرحال جو قومیں عذاب سے تباہ ہوئیں اور جو لوگ اپنے وقت پر اپنی موت مرے سب کے لئے سزا اور جزا کا ایک دن مقرر ہے جس دن حساب کتاب ہونے کے بعد جو شخص جس امر کا مستحق ہوگا اس کو وہاں پہنچا دیا جائے گا۔ اس سورت میں جن باتوں کی قسم کھائی ہے اور جن چیزوں کی قسم کھائی ہے ان میں بھی اس کی رعایت رکھی گئی ہے ان سب قسموں کا جواب قسم بھی علمائے مفسرین نے یہی نکالا ہے کہ منکروں کو جزاوسزا ملے گی اور قیامت ضرور واقع ہوگی بہرحال ارشاد فرماتے ہیں فجر کے وقت کی قسم کھاتا ہوں یعنی صبح صادق کے وقت کی ، یہ وقت بھی ایک انقلابی وقت ہے عالم کی تمام مخلوق بیدار ہوتی ہے اور صبح کا انتظار کرتی ہے اور صبح ہوتے ہی فکر معاش اور تلاش روزگار کو نکل جاتی ہے بیشمار طیور اور انسان روزی تلاش کرتے ہیں۔ مفسرین کے کئی اقوال ہیں ہوسکتا ہے کہ صبح کی نمازمرا ہو ان قران الفجر کان مشھودا ، یہ وقت صبح اور شام کے فرشتوں کے اجتماع کا ہے۔ بعض حضرات نے فرماایا کہ اس سے محرم کی پہلی تاریخ اور اس کی صبح مراد ہے کیونکہ اس سے نیا سال شروع ہوتا ہے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یوم النحر کی صبح مراد ہو کیونکہ اس کے ساتھ ہی دس راتوں کی قسم کھائی یہ دس راتیں ذوالحجہ کی دس راتیں ہیں کہ ان کی بہت فضیلت احادیث میں آئی ہے بعض نے کہا رمضان المبارک کی آخری دس راتیں کیونکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رمضان کے آخری عشرے کا خاص اہتمام کرتے تھے۔ جفت اور طاق سے مراد نمازیں ہیں جن میں جفت بھی ہیں اور وتر بھی ، بعض نے فرمایا جفت سے مراد صبح کی نماز اور وتر سے مراد مغرب کی نماز ہے بعض حضرات نے فرمایا اس سے ذی الحجہ کی نویں اور دسویں تاریخ مراد ہے یعنی یوم عرفہ اور یوم النحر، بعض نے فرمایا طاق سے مراد درکات جہنم ہیں اور جفت سے مراد درجات جنت ہیں کیونکہ درکات جہنم سات ہیں اور جنت کے درجات آٹھ ہیں۔ حضرت امام رازی (رح) نے فرمایا جفت سے مراد تمام مخلوق ہے کیونکہ مخلوق میں ایک کا جواب ایک ہے، جیسے رات اور دن، کفر اور ایمان، تاریکی اور نور وغیرہ وغیرہ اور وتر سے اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس مراد ہے اور ات کی قسم جب وہ چلے اور رخصت ہونے لگے یعنی واللیل ذا ادبر، اس میں بھی علماء نے اقبال اکور ادبار دونوں معنی کئے ہیں یعنی رات جب آنے لگے یا رات جب جانے لگے بعض نے کہا اس سے مزدلفہ کی رات مراد ہے کہ اس میں سب جمع ہوتے ہیں اور عرفات سے آکر ٹھہرتے ہیں اس وقت واللیل اذایسر کا مطلب یہ ہوگا واللیل الذی یسارفیہ۔ بیچ میں استفہام تقریری کے طور پر فرمایا ھل فی ذلک قسم لذی حجر یعنی ان مذکورہ قسموں میں ہر ہر قسم تاکید کلام کے لئے کافی ہے یعنی تمہارے لئے بھی ان قسموں میں کوئی قسم کفایت کرتی ہے۔ جیسے سورة واقعہ میں فرمایا وانہ لقسم لو تعلمون عظیم یعنی ہر صاحب عقل کے لئے ان قسموں میں سے ہر قسم کافی ہونی چاہیے یوں سمجھئے جیسے کوئی اپنے دعوے پر بہت سے دلائل قائم کرنے کے بعد کہے کہ آپ لوگوں میں سے کوئی صاحب عقل میری کسی دلیل کو کافی سمجھتا ہے یعنی اس کو کافی سمجھنا چاہیے، یعنی ان من کان ذالب وعقل علم ان مااقسم اللہ عزوجل بہ من ھذہ الاشیاء فیہ عجائب و دلائل تدل علی توحیدہ وربوبیۃ فھو حقیق بان یقسم بہ لدلتہ علی خالقہ۔ ہم نے ابھی عرض کیا تھا کہ جواب قسم محذوف ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ خالق اور عالم کا مالک منکروں کو سزا دینے پر قدرت رکھتا ہے اور سزا ضرور ہوگی یا قیامت ضرور آئے گی اور انقلاب ضرور ہوگا۔ ورب ھذہ الاشیاء لیعذبن الکافر بعض نے کہا کہ جواب قسم ان ربک لبافرصاد ہے بعض نے کہا الم ترکیف فعل ربک بعاد ہے ہم جواب قسم قسموں کی مناسبت سے محذوف بتایا اور شایدروایتاً بھی یہی راجح ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں عید قرباں کو بڑا حج ادا ہوتا ہے اور دس رات اس سے پہلے اور جفت اور طاق جو رمضان کے آخر دہائے میں ہے اور جب رات کو چلے یعنی پیغمبر چلے معراج کو۔ معلوم ہوتا ہے حضرت شاہ صاحب (رح) نے واللیل الذی یسارفیہ کے معنی اختیار کیے ہیں ترجمے میں بھی فرماتے ہیں اور رات کی جب رات کو چلے اسی اعتبار سے فرمایا یعنی پیغمبر چلے معراج کو۔ واللہ اعلم  Show more