Surat ul Fajar

Surah: 89

Verse: 9

سورة الفجر

وَ ثَمُوۡدَ الَّذِیۡنَ جَابُوا الصَّخۡرَ بِالۡوَادِ ۪ۙ﴿۹﴾

And [with] Thamud, who carved out the rocks in the valley?

اور ثمودیوں کے ساتھ جنہوں نے وادی میں بڑے بڑے پتھر تراشے تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And Thamud, who hewed (Jabu) rocks in the valley, meaning, they cut the rocks in the valley. Ibn Abbas said, "They carved them and they hewed them." This was also said by Mujahid, Qatadah, Ad-Dahhak and Ibn Zayd. From this terminology it is said (in the Arabic language), - "the hewing of leopard skin" when it is torn, and - "The hewing of a garment" when it is opened. The word `Jayb' (pocket or opening in a garment) also comes from Jabu. Allah says, وَتَنْحِتُونَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتاً فَـرِهِينَ And you hew in the mountains, houses with great skill. (26:149) A Mention of Fir`awn Allah then says, وَفِرْعَوْنَ ذِي الاَْوْتَادِ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

9۔ 1 یہ حضرت صالح کی قوم تھی اللہ نے اسے پتھر تراشنے کی خاص صلاحیت وقوت عطا کی تھی، حتی کہ یہ لوگ پہاڑوں کو تراش کر ان میں اپنی رہائش گاہیں تعمیر کرلیتے تھے، جیسا کہ قرآن نے کہا ہے (وَتَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوْتًا فٰرِهِيْنَ 149؀ۚ ) 26 ۔ الشعراء :149)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨] ذکر قوم ثمود :۔ دوسری قوم ثمود تھی جسے عاد ثانی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ماہر سنگ تراش تھی۔ پہاڑوں کے اندر اپنے مکان تو کجا شہروں کے شہر پتھروں کو تراش تراش کر بنا رکھے تھے ان لوگوں کا مسکن وادی القریٰ تھا جو مدینہ اور تبوک کے راستہ پر پڑتا ہے۔ یہ بھی آخرت کے منکر فلہٰذا اللہ کے باغی تھے۔ اللہ نے انہیں زلزلے اور چیخ کے عذاب سے تباہ کردیا۔ زلزلہ اتنا شدید تھا کہ ان کے پتھروں کے مکانوں میں دراڑیں اور شگاف پڑگئے۔ پھر ان میں سے بہت سے مکان پہاڑ کے بوجھ کی وجہ سے کھنڈر بن گئے اور وہ خود زلزلہ اور چیخ کی تاب نہ لاکر مرگئے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(وثمود الذین جابوا الصخر بالواد :” جابوا “” جاب یجوب جوباً “ (ن) کاٹنا۔” الصخر) اسم جنس ہے، چٹانیں، مفسرین کہتے ہیں کہ ثمود پہلے لوگ ہیں جنہوں ن ے پہاڑوں کو کاٹ کر گھر بنائے۔ (شوکانی) آج کل اس ” وادی القریٰ “ کا نام ” اعلائ “ ہے جو سعودی عرب میں ہے اور وہ مدائن صالح (جو ثمود کا مرکزی شہر تھا) سے تقریباً بیس میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ (دیکھیے سورة حجر : ٨٢) (اشرف الحواشی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَثَمُوْدَ الَّذِيْنَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ۝ ٩ ۙ ثمد ثَمُود قيل : هو أعجمي، وقیل : هو عربيّ ، وترک صرفه لکونه اسم قبیلة، أو أرض، ومن صرفه جعله اسم حيّ أو أب، لأنه يذكر فعول من الثَّمَد، وهو الماء القلیل الذي لا مادّة له، ومنه قيل : فلان مَثْمُود، ثَمَدَتْهُ النساء أي : قطعن مادّة مائه لکثرة غشیانه لهنّ ، ومَثْمُود : إذا کثر عليه السّؤال حتی فقد مادة ماله . ( ث م د ) ثمود ( حضرت صالح کی قوم کا نام ) بعض اسے معرب بتاتے ہیں اور قوم کا علم ہونے کی ہوجہ سے غیر منصرف ہے اور بعض کے نزدیک عربی ہے اور ثمد سے مشتق سے ( بروزن فعول ) اور ثمد ( بارش) کے تھوڑے سے پانی کو کہتے ہیں جو جاری نہ ہو ۔ اسی سے رجل مثمود کا محاورہ ہے یعنی وہ آدمی جس میں عورتوں سے کثرت جماع کے سبب مادہ منویہ باقی نہ رہے ۔ نیز مثمود اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جسے سوال کرنے والوں نے مفلس کردیا ہو ۔ جوب الجَوْبُ : قطع الجَوْبَة، وهي کا لغائط من الأرض، ثم يستعمل في قطع کلّ أرض، قال تعالی: وَثَمُودَ الَّذِينَ جابُوا الصَّخْرَ بِالْوادِ [ الفجر/ 9] ، ويقال : هل عندک جَائِبَة خبر ؟ وجوابُ الکلام : هو ما يقطع الجوب فيصل من فم القائل إلى سمع المستمع، لکن خصّ بما يعود من الکلام دون المبتدأ من الخطاب، قال تعالی: فَما کانَ جَوابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَنْ قالُوا [ النمل/ 56] والجواب يقال في مقابلة السؤال، والسؤال علی ضربین : طلب مقال، وجوابه المقال . وطلب نوال، وجوابه النّوال . فعلی الأول : أَجِيبُوا داعِيَ اللَّهِ [ الأحقاف/ 31] ، وعلی الثاني قوله : قَدْ أُجِيبَتْ دَعْوَتُكُما فَاسْتَقِيما [يونس/ 89] ، أي : أعطیتما ما سألتما . ( ج و ب ) الجوب ( ج و ب ) الجوب رض ) اس کے اصل معنی جو بہ قطع کرنے کے میں اور یہ پست زمین کی طرح میں گڑھاسا ) ہوتا ہے ۔ پھر ہر طرح زمین کے قطع کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَثَمُودَ الَّذِينَ جابُوا الصَّخْرَ بِالْوادِ [ الفجر/ 9] اور غمود کے ساتھ کیا کیا جو وادی ( قریٰ ) میں پتھر تراشتے اور مکانات بناتے تھے ۔ الجائبتہ ۔ پھیلنے والی ) محاورہ ہے ھن عندک من جایبتہ خبر ۔ کیا تمہارے پاس کوئی نشر ہونے والی خبر ہے ۔ جواب الکلام اور کسی کلام کے جواب کو بھی جواب اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ قائل کے منہ سے نکل کر فضا کو قظع کرتا ہوا سامع کے کان تک پہنچتا ہے مگر عرف میں ابتداء کلام کرنے کو جواب نہیں کہتے بلکہ کلام کے لوٹا پر جواب کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَما کانَ جَوابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَنْ قالُوا [ النمل/ 56] تو ان کی قوم کے لوگ ( بولے تو ) یہ بولے اور اس کے سوا ان کا جواب نہ تھا ۔ جواب کا لفظ سوال کے مقابلہ میں بھی استعمال ہوتا ہے اور سوال دو قسم پر ہے ( 1) گفتگو کا طلب کرنا اس کا جواب گفتگو ہی ہوتی ہے (2) طلب عطا یعنی خیرات طلب کرنا اس کا جواب یہ ہے کہ اسے خیرات دے دی جائے چناچہ اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : أَجِيبُوا داعِيَ اللَّهِ [ الأحقاف/ 31] خدا کی طرف سے بلانے والے کی باٹ قبول کرو ۔ اور جو شخص خدا کی طرف بلانے والے کی باٹ قبول نہ کرے ۔ اور دوسرے معنی کے اعتبار سے فرمایا : : قَدْ أُجِيبَتْ دَعْوَتُكُما فَاسْتَقِيما [يونس/ 89] ، کہ تمہاری دعا قبول کرلی گئی تو ہم ثابت قدم رہنا صخر الصَّخْرُ : الحجر الصّلب . قال تعالی: فَتَكُنْ فِي صَخْرَةٍ [ لقمان/ 16] ، وقال : وَثَمُودَ الَّذِينَ جابُوا الصَّخْرَ بِالْوادِ [ الفجر/ 9] . ( ص خ ر ) الصخر کے معنی سخت پتھر یا چٹان کے ہیں قرآن میں ہے ۔ فَتَكُنْ فِي صَخْرَةٍ [ لقمان/ 16] اور ہو بھی کسی پتھر کے اندر وَثَمُودَ الَّذِينَ جابُوا الصَّخْرَ بِالْوادِ [ الفجر/ 9] . اور ثمود کے ساتھ ( کیا کیا ) جنہوں نے وادی ( قری ) میں چٹانیں تراش کر ( مکان بنائے ) وادي قال تعالی: إِنَّكَ بِالْوادِ الْمُقَدَّسِ [ طه/ 12] أصل الوَادِي : الموضع الذي يسيل فيه الماء، ومنه سُمِّيَ المَفْرَجُ بين الجبلین وَادِياً ، وجمعه : أَوْدِيَةٌ ، نحو : ناد وأندية، وناج وأنجية، ويستعار الوادِي للطّريقة کالمذهب والأسلوب، فيقال : فلان في وَادٍ غير وَادِيكَ. قال تعالی: أَلَمْ تَرَ أَنَّهُمْ فِي كُلِّ وادٍ يَهِيمُونَ [ الشعراء/ 225] فإنه يعني أسالیب الکلام من المدح والهجاء، والجدل والغزل «2» ، وغیر ذلک من الأنواع . قال الشاعر : 460- إذا ما قطعنا وَادِياً من حدیثنا ... إلى غيره زدنا الأحادیث وادیاً «3» وقال عليه الصلاة والسلام : «لو کان لابن آدم وَادِيَانِ من ذهب لابتغی إليهما ثالثا» «4» ، وقال تعالی: فَسالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِها[ الرعد/ 17] أي : بقَدْرِ مياهها . ( و د ی ) الوادی ۔ اصل میں اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں پانی بہتا ہو اسی سے دو پہاڑوں کے درمیان کشادہ زمین کو وادی کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّكَ بِالْوادِ الْمُقَدَّسِ [ طه/ 12] تم ( یہاں ) پاک میدان ( یعنی ) طوی میں ہو ۔ اس کی جمع اودیتہ اتی ہے جیسے ناد کی جمع اندیتہ اور ناج کی جمع انجیتہ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَسالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِها[ الرعد/ 17] پھر اس سے اپنے اپنے انداز کے مطابق نالے بہ نکلے ۔ اور حدیث میں ہے ۔ لوکان لابن ادم وادیان من ذھب لابتغی ثالثا کہ اگر ابن ادم کے پاس سونے کی دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری کا خواہش مند ہوگا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(12-9) اور قوم ثمود کو کس طرح ہلاک کیا جو وادی قریٰ میں پہاڑ کے پتھروں کو تراشا کرتے تھے اور میخوں والے فرعون کے ساتھ کیا برتاؤ کیا اور میخوں والا اس واسطے نام پڑا کہ وہ جس کو عذاب دیتا تھا تو چار میخوں سے باندھ کر سزا دیتا تاکہ وہ مرجائے چناچہ اپنی بیوی حضرت آسیہ کو اسی طرح اس نے سزا دی تھی، اس نے سرزمین مصر میں کفر اور نافرمانیاں برپا کر رکھی تھیں اور اس میں قتل اور بتوں کی پرستش سے بہت فساد مچا رکھا رکھا تھا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩{ وَثَمُوْدَ الَّذِیْنَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ ۔ } ” اور ثمود کے ساتھ (کیا کیا آپ کے رب نے) جنہوں نے وادی میں چٹانوں کو تراشا تھا۔ “ قومِ ثمود کے لوگ پہاڑوں کو تراشنے کے ماہر تھے۔ وہ بڑے بڑے پہاڑوں کو تراش کر خوبصورت کشادہ گھر اور محلات بناتے تھے۔ پہاڑوں سے تراشے ہوئے ان کے گھر اور محلات آج بھی موجود ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

5 "The valley": Wad-il-Qura, where the Thamud carved out dwellings in the mountains, and probably in history they were the first people who started cutting out such buildings into the rocks. (For details, see E.N.'s 57, 59 of AlA'raf, E.N. 45 of Al-Hijr, E.N.'s 95, 99 of Ash-Shu`ara' along with the photographs) .

سورة الْفَجْر حاشیہ نمبر :5 وادی سے مراد وادی القریٰ ہے جہاں اس قوم نے پہاڑوں کو تراش تراش کر ان کے اندر عمارتیں بنائی تھیں غالباً تاریخ میں وہ پہلی قوم ہے جس نے چٹانوں کے اندر اس کی عمارتیں بنانے کا سلسلہ شروع کیا تھا ( تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، الاعراف ، حواشی 57 ۔ 59 ۔ الحجر ، حاشیہ 45 ۔ جلد سوم ، الشعراء حواشی 95 ۔ 99مع تصاویر ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

5: قومِ ثمود کے پاس حضرت صالح علیہ السلام کو پیغمبر بناکر بھیجا گیا تھا۔ ان کے تعارف کے لئے دیکھئے سورۃ اَعراف (۷:۷۳)

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(89:9) وثمود : واؤ عاطفہ، ثمود کا عطف عاد پر ہے۔ کیونکہ ایک قبیلہ کا نام ہے اس لئے تعریف اور تانیث کی وجہ سے غیر منصرف ہے لہٰذا منصوب آیا ہے۔ الذین جانوا الصخر بالواد۔ یہ ثمود کی صفت ہے اور (کیا کیا تیرے رب نے) ثمود کے ساتھ جو وادیوں میں پتھروں کو تراشتے تھے۔ ثمود حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم کا نام ہے۔ فن سنگ تراشی اور تعمیر عمارات میں بڑی مہارت رکھتے تھے۔ حضرت صالح کی اونٹنی کا واقعہ ان ہی کے ساتھ پیش آیا تھا۔ الذین اسم موصول ۔ جمع مذکر۔ جو۔ جو لوگ۔ وہ سب لوگ۔ وہ سب مرد۔ الذی کی جمع ہے۔ باقی جملہ اس کا صلہ ہے اور سارا جملہ ثمود کی صفت ہے۔ جابوا ماضی جمع مذکر غائب جوب (باب نصر) مصدر سے۔ انہوں نے تراشا وہ تراشتے تھے۔ الصخر : صخرۃ کی جمع ۔ سخت پتھر۔ الواد۔ اسم مفرد۔ الاودیۃ جمع اصل میں الوادی تھا۔ دو پہاڑوں کے درمیان کا میدان قتادہ کے نزدیک شقام کی ایک وادی (وادی القریٰ ) مراد ہے جو کہ میدنہ کے قریب بجانب شام ہے۔ یا وہ پہاڑی وادی مراد ہے جہاں وہ لوگ پتھروں کو تراش کر مکان نما غار بنا کر رہتے تھے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 13 مفسرین کہتے ہیں کہ ثمود پہلے لوگ ہیں جنہوں نے پہاڑوں کو کاٹ کر گھر بنائے۔ (شوکانی) آج کل اس ” وادالقریٰ “ کا نام ” اعلاء “ ہے اور وہ مدائن صالح جو ثمود کا مرکزی شہر تھا) سے تقریباً بیس میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ (دیکھیے حجر :82)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وثمود ............................ بالواد (9:89) ” اور ثمود کے ساتھ جنہوں نے وادی میں چٹانیں تراشی تھیں “۔ ثمود حجر میں رہتے تھے۔ یہ جزیرة العرب کے شمال میں ہے۔ مدینہ اور شام کے درمیان وادی حجر ہے۔ انہوں نے چٹانیں کاٹ کر بڑے بڑے محلات بنارکھے تھے اور پہاڑوں کے اندر قلعے اور غار بنا رکھے تھے۔ وفرعون ................ الاوتاذ (10:89) ” اور میخوں والے فرعون کے ساتھ “۔ راجح بات یہ ہے کہ اوتاد سے مراد اہرام ہیں جو میخوں کی طرح زمین میں نصب ہیں۔ اور نہایت پختہ بنیادوں پر ہیں۔ جس فرعون کی طرف یہاں اشارہ ہے وہ فرعون موسیٰ ہے جو بہت سرکش تھا اور جبار تھا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قرآن مجید میں کئی جگہ قوم عاد کی ہلاکت کا تذکرہ ہے سورة اعراف اور سورة ٴ ہود کی تفسیر کا مطالعہ کرلیا جائے۔ ﴿وَ ثَمُوْدَ الَّذِيْنَ جَابُوا الصَّخْرَ بالْوَادِ۪ۙ٠٠٩﴾ اور قوم ثمود کے ساتھ آپ کے رب نے کیا معاملہ کیا جنہوں نے وادی القریٰ میں پتھروں کو تراش لیا تھا، قوم ثمود کی طرف اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا تھا یہ لوگ حجاز اور شام کے درمیان رہتے تھے ان کے رہنے کی جگہ کو حجر کہا جاتا تھا اور وادی القری بھی کہتے تھے۔ سورة الحجر میں فرمایا :﴿وَ لَقَدْ كَذَّبَ اَصْحٰبُ الْحِجْرِ الْمُرْسَلِيْنَۙ٠٠٨٠ وَ اٰتَيْنٰهُمْ اٰيٰتِنَا فَكَانُوْا عَنْهَا مُعْرِضِيْنَۙ٠٠٨١ وَ كَانُوْا يَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوْتًا اٰمِنِيْنَ ٠٠٨٢ فَاَخَذَتْهُمُ الصَّيْحَةُ مُصْبِحِيْنَۙ٠٠٨٣ فَمَاۤ اَغْنٰى عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَؕ٠٠٨٤﴾ (اس میں شک نہیں کہ حجر والوں نے پیغمبروں کو جھٹلایا اور ہم نے انہیں اپنی نشانیاں دیں سو وہ ان سے روگردانی کرنے والے تھے اور وہ امن وامان سے رہتے ہوئے پہاڑوں کو تراش کر گھر بنا لیتے تھے سو صبح کی چیخ نے ان کو پکڑ لیا سو ان کے کچھ بھی کام نہ آیا جو وہ کماتے تھے) ۔ ان لوگوں کی ہلاکت اور بربادی کا قصہ سورة ٴ اعراف، سورة ٴ ہود اور سورة ٴ شعراء سورة ٴ نمل میں گزر چکا ہے، ان لوگوں نے جو پہاڑوں کو تراش کر گھر بنائے تھے۔ وہ ابھی تک باقی ہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تبوک تشریف لے جاتے وقت ان کی بستیوں سے گزرے تو سر ڈھانک لیا اور سواری کو تیز کردیا اور فرمایا کہ روتے ہوئے یہاں سے گزر جاؤ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے اوپر بھی عذاب آجائے۔ (رواہ البخاری)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

6:۔ ” وثمود “ تخوید دنیوی کا دوسرا نمونہ۔ قوم ثمود کو دیکھو وہ کس قدر طاقتور اور کیسے کاریگر تھے کہ پتھروں کو تراش ڈالا اور پہاڑوں کو کاٹ کر ان کے اندر رہائشی مکانات بنا لیے۔ ” و فرعون ذی الاوتاد “ تخویف دنیوی کا تیسرا نمونہ۔ دیکھو ! فرعون کتنا بڑا بادشاہ تھا، اس کی سلطنت کس قدر مضبوط تھی۔ ” ذی الاوتاد “ (میخوں والا) یا تو سلطنت کے استحکام سے کنایہ ہے یا یہ مطلب ہے کہ وہ توحید والوں کو میخوں سے گاڑ کر عذاب دیتا ہے۔ ” الذین طغوا فی البلاد “۔ ان سب قوموں نے سرکشی کی اور حد سے گذر گئے، شہروں اور بستیوں میں ظلم و تشدد اور بےانصافی سے شر و فساد برپا کردیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر مختلف قسم کے عذاب نازل کر کے ان کو تباہ کردیا۔ دنیا کی دولت و سلطنت ان کے کام نہ آئی۔ ” صب “ انزل، ” سوط عذاب “ اضافت صفت بموصوف۔ سوطا مختلطا بعضہا بعض فھی اضافۃ صفۃ الی موصوفہا کا خلاق ثیاب (مظہری کذا فی الروح) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(9) اور ثمود کے ساتھ کیسا سلوک کیا جو وادی قری میں پہاڑوں کے پتھر تراشا کرتے تھے۔