Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 30

سورة التوبة

وَ قَالَتِ الۡیَہُوۡدُ عُزَیۡرُۨ ابۡنُ اللّٰہِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَی الۡمَسِیۡحُ ابۡنُ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ قَوۡلُہُمۡ بِاَفۡوَاہِہِمۡ ۚ یُضَاہِئُوۡنَ قَوۡلَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ قَبۡلُ ؕ قٰتَلَہُمُ اللّٰہُ ۚ ۫ اَنّٰی یُؤۡفَکُوۡنَ ﴿۳۰﴾

The Jews say, "Ezra is the son of Allah "; and the Christians say, "The Messiah is the son of Allah ." That is their statement from their mouths; they imitate the saying of those who disbelieved [before them]. May Allah destroy them; how are they deluded?

یہود کہتے ہیں عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصرانی کہتے ہیں مسیح اللہ کا بیٹا ہے یہ قول صرف ان کے منہ کی بات ہے ۔ اگلے منکروں کی بات کی یہ بھی نقل کرنے لگے اللہ انہیں غارت کرے وہ کیسے پلٹائے جاتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Fighting the Jews and Christians is legislated because They are Idolators and Disbelievers Allah tells; وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللّهِ وَقَالَتْ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللّهِ ... And the Jews say: "Uzayr (Ezra) is the son of Allah," and the Christians say: "The Messiah is the son of Allah." Allah the Exalted encourages the believers to fight the polytheists, disbelieving Jews and Christians, who uttered this terrible statement and utter lies against Allah, the Exalted. As for the Jews, they claimed that `Uzayr was the son of God, Allah is free of what they attribute to Him. As for the misguidance of Christians over `Isa, it is obvious. This is why Allah declared both groups to be liars, ... ذَلِكَ قَوْلُهُم بِأَفْوَاهِهِمْ ... That is their saying with their mouths, but they have no proof that supports their claim, other than lies and fabrications, ... يُضَاهِوُونَ ... resembling, (imitating), ... قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن قَبْلُ ... the saying of those who disbelieved aforetime. They imitate the previous nations who fell into misguidance just as Jews and Christians did, ... قَاتَلَهُمُ اللّهُ ... may Allah fight them, Ibn Abbas said, "May Allah curse them." ... أَنَّى يُوْفَكُونَ how they are deluded away from the truth! how they deviate from truth, when it is apparent, exchanging it for misguidance. Allah said next,

بزرگ بڑے نہیں اللہ جل شانہ سب سے بڑا ہے ان تمام آیتوں میں بھی جناب باری عزوجل مومنوں کو مشرکوں ، کافروں ، یہودیوں اور نصرانیوں سے جہاد کرنے کی رغبت دلاتا ہے ۔ فرماتا ہے دیکھو وہ اللہ کی شان میں کیسی گستاخیاں کرتے ہیں یہود و عزیر کو اللہ کا بیٹا بتاتے ہیں اللہ اس سے پاک اور برتر و بلند ہے کہ اس کی اولاد ہو ۔ ان لوگوں کو حضرت عزیر کی نسبت جو یہ وہم ہوا اس کا قصہ یہ ہے کہ جب عمالقہ بنی اسرائیل پر غالب آ گئے ان کے علماء کو قتل کر دیا ان کے رئیسوں کو قید کر لیا ۔ عزیر علیہ السلام کا علم اٹھ جانے اور علماء کے قتل ہو جانے سے اور بنی اسرائیل کی تباہی سے سخت رنجیدہ ہوئے اب جو رونا شروع کیا تو آنکھوں سے آنسو نہ تھمتے تھے روتے روتے پلکیں بھی جھڑ گئیں ایک دن اسی طرح روتے ہوئے ایک میدان سے گذر ہوا دیکھا کہ ایک عورت ایک قبر کے پاس بیٹھی رو رہی ہے اور کہہ رہی ہے ہائے اب میرے کھانے کا کیا ہو گا ؟ میرے کپڑوں کا کیا ہو گا ؟ آپ اس کے پاس ٹھہر گئے اور اس سے فرمایا اس شخص سے پہلے تجھے کون کھلاتا تھا اور کون پہناتا تھا ؟ اس نے کہا اللہ تعالیٰ ۔ آپ نے فرمایا پھر اللہ تعالیٰ تو اب بھی زندہ باقی ہے اس پر تو کبھی نہیں موت آئے گی ۔ یہ سن کر اس عورت نے کہا اے عزیر پھر تو یہ تو بتا کہ بنی اسرائیل سے پہلے علماء کو کون علم سکھاتا تھا ؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس نے کہا آپ یہ رونا دھونا لے کر کیوں بیٹھے ہیں؟ آپ کو سمجھ میں آ گیا کہ یہ جناب باری سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے آپ کو تنبیہہ ہے پھر آپ سے فرمایا گیا کہ فلاں نہر پر جا کر غسل کرو وہیں دو رکعت نماز ادا کرو وہاں تمہیں ایک شخص ملیں گے وہ جو کچھ کھلائیں وہ کھا لو چنانچہ آپ وہیں تشریف لے گئے نہا کر نماز ادا کی دیکھا کہ ایک شخص ہیں کہہ رہے ہیں منہ کھولو آپ نے منہ کھول دیا انہوں نے تین مرتبہ کوئی چیز آپ کے منہ میں بڑی ساری ڈالی اسی وقت اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کا سینہ کھول دیا اور آپ توراۃ کے سب سے بڑے عالم بن گئے بنی اسرائیل میں گئے ان سے فرمایا کہ میں تمہارے پاس تورات لایا ہوں انہوں نے کہا ہم سب آپ کے نزدیک سچے ہیں آپ نے اپنی انگلی کے ساتھ قلم کو لپیٹ لیا اور اسی انگلی سے یہ یک وقت پوری توراۃ لکھ ڈالی ادھر لوگ لڑائی سے لوٹے ان میں ان کے علماء بھی واپس آئے تو انہیں عزیر علیہ السلام کی اس بات کا علم ہوا یہ گئے اور پہاڑوں اور غاروں میں تورات شریف کے جو نسخے چھپا آئے تھے وہ نکال لائے اور ان نسخوں سے حضرت عزیر علیہ السلام کے لکھے ہوئے نسخے کا مقابلہ کیا تو بالکل صحیح پایا اس پر بعض جاہلوں کے دل میں شیطان نے یہ وسوسہ ڈال دیا کہ آپ اللہ کے بیٹے ہیں ۔ حضرت مسیح کو نصرانی اللہ کا بیٹا کہتے تھے ان کا واقعہ تو ظاہر ہے ۔ پس ان دونوں گروہوں کی غلط بیانی قرآن بیان فرما رہا ہے اور فرماتا ہے کہ یہ ان کی صرف زبانی باتیں ہیں جو محض بےدلیل ہیں جس طرح ان سے پہلے کے لوگ کفر و ضلالت میں تھے یہ بھی انہی کے مرید و مقلد ہیں اللہ انہیں لعنت کرے حق سے کیسے بھٹک گئے؟ مسند احمد ترمذی اور ابن جریر میں ہے کہ جب عدی بن حاتم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین پہنچا تو شام کی طرف بھاگ نکلا جاہلیت میں ہی یہ نصرانی بن گیا تھا یہاں اس کی بہن اور اس کی جماعت قید ہو گئی پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور احسان اس کی بہن کو آزاد کر دیا اور رقم بھی دی یہ سیدھی اپنے بھائی کے پاس گئیں اور انہیں اسلام کی رغبت دلائی اور سمجھایا کہ تم رسول کریم علیہ افضل الصلوۃ التسلیم کے پاس چلے جاؤ چنانچہ یہ مدینہ شریف آ گئے تھے اپنی قوم طے کے سردار تھے ان کے باپ کی سخاوت دنیا بھر میں مشہور تھی لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر پہنچائی آپ خود ان کے پاس آئے اس وقت عدی کی گردن میں چاندی کی صلیب لٹک رہی تھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے اسی ( آیت اتخذوا ) کی تلاوت ہو رہی تھی تو انہوں نے کہا کہ یہود و نصاریٰ نے اپنے علماء اور درویشوں کی عبادت نہیں کی آپ نے فرمایا ہاں سنو ان کے کئے ہوئے حرام کو حرام سمجھنے لگے اور جسے ان کے علماء اور درویش حلال بتا دیں اسے حلال سمجھنے لگے یہی ان کی عبادت تھی پھر آپ نے فرمایا عدی کیا تم اس سے بےخبر ہو کہ اللہ سب سے بڑا ہے؟ کیا تمہارے خیال میں اللہ سے بڑا اور کوئی ہے؟ کیا تم اس سے انکار کرتے ہو کہ معبود برحق اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں؟ کیا تمہارے نزدیک اس کے سوا اور کوئی بھی عبادت کے لائق ہے؟ پھر آپ نے انہیں اسلام کی دعوت دی انہوں نے مان لی اور اللہ کی توحید اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی ادا کی آپ کا چہرہ خوشی سے چمکنے لگا اور فرمایا یہود پر غضب الٰہی اترا ہے اور نصرانی گمراہ ہوگئے ہیں ۔ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ سے بھی اس آیت کی تفسیر اسی طرح مروی ہے کہ اس سے مراد حلال و حرام کے مسائل میں علماء اور ائمہ کی محض باتوں کی تقلید ہے ۔ سدی فرماتے ہیں انہوں نے بزرگوں کی ماننی شروع کر دی اور اللہ کی کتاب کو ایک طرف ہٹا دیا ۔ اسی لئے اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے کہ انہیں حکم تو صرف یہ تھا کہ اللہ کے سوا اور کی عبادت نہ کریں وہی جسے حرام کر دے حرام ہے اور وہ جسے حلال فرما دے حلال ہے ۔ اسی کے فرمان شریعت ہیں ، اسی کے احکام بجا لانے کے لائق ہیں ، اسی کی ذات عبادت کی مستحق ہے ۔ وہ مشرک سے اور شرک سے پاک ہے ، اس جیسا اس کا شریک ، اس کا نظیر اس کا مددگار اس کی ضد کا کوئی نہیں وہ اولاد سے پاک ہے نہ اس کے سوا کوئی معبود نہ پروردگار ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٠] بخت نصر بابلی سے یہودیوں کی پٹائی :۔ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کی حکومت کے بعد پھر یہودیوں پر اللہ کی نافرمانیوں کی وجہ سے زوال آیا اور بخت نصر بابلی نے فلسطین پر پے در پے حملے کر کے اس کو تباہ و برباد کردیا۔ تورات اور تمام مذہبی کتابوں کو جلا کر خاکستر کرایا اور بنی اسرائیل کی ایک کثیر تعداد کو قید کر کے اپنے ساتھ بابل لے گیا۔ انہیں قیدیوں میں عزیر (علیہ السلام) بھی تھے جو ابھی کمسن ہی تھے۔ کچھ مدت غالباً سات سال بعد اس نے ان قیدیوں کو رہا کیا۔ اس دوران یہ اسرائیل اپنی زبان تک بھول چکے تھے۔ عزیر (علیہ السلام) نے اپنے وطن واپسی کے دوران ایک اجڑی بستی کو دیکھا جو بخت نصر کے ہاتھوں ہی برباد ہوئی تھی۔ اس واقعہ کا ذکر سورة بقرہ کی آیت نمبر ٢٥٩ کے تحت تفصیل سے گزر چکا ہے۔ اس کے بعد آپ کو چالیس سال کی عمر میں نبوت عطا ہوئی۔ آپ کو تورات پوری کی پوری زبانی یاد تھی۔ لہذا آپ نے ازسر نو تورات لکھی اس طرح یہود کی الہامی کتاب دوبارہ ان کے ہاتھ آئی۔ (تورات میں آپ کا نام عزرا مذکور ہے) اسی وجہ سے یہودی آپ کی بہت تعظیم کرتے تھے۔ اور بعض نے اس تعظیم میں اس درجہ غلو کیا کہ انہیں اللہ کا بیٹا کہنے لگے۔ اللہ کی اولاد قرار دینے والے فرقے :۔ اور نصاریٰ نے مسیح کو اللہ کا بیٹا قرار دے دیا تھا جس کی وجہ ان کی معجزانہ پیدائش، آپ کو اللہ کے عطاکردہ معجزات اور آپ کا آسمان پر اٹھایا جانا تھے۔ جس کا ذکر قرآن میں جا بجا مذکور ہے۔ ان اہل کتاب نے دراصل سابقہ اقوام کے فلسفہ و اوہام سے متاثر ہو کر ایسے گمراہ کن عقائد اختیار کرلیے تھے۔ بعض نصاریٰ ایسے بھی تھے جو سیدنا عیسیٰ کو خدا یا تین خداؤں میں سے ایک خدا ہونے کا عقیدہ رکھتے تھے اور کچھ انہیں خدا کا بیٹا قرار دیتے تھے اور اس آیت میں سابقہ اقوام سے مراد یونانی، ہندی اور مصری تہذیبیں ہیں۔ جنہوں نے اللہ کی بیوی، بیٹے بیٹیاں پھر اس سے آگے اس کی اولاد کی نسل چلا کر ایسے دیوی دیوتاؤں کی ایک پوری دیو مالا تیار کردی تھی اور اس کے اثرات ملک عرب میں بھی پائے جاتے تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقَالَتِ الْيَهُوْدُ عُزَيْرُۨ ابْنُ اللّٰهِ : پچھلی آیت میں اہل کتاب کے ساتھ قتال کی چار وجوہ بیان فرمائی تھیں، اب ان میں سے بعض کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ فرمایا کہ یہود نے عزیر (علیہ السلام) کو اور نصاریٰ نے مسیح (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا قرار دیا، جب کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ۔ اَللّٰهُ الصَّمَدُ ۔ لَمْ يَلِدْ ڏ وَلَمْ يُوْلَدْ ۔ وَلَمْ يَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ) [ الإخلاص ] ” کہہ دے اللہ ایک ہے، اللہ ہی بےنیاز ہے، نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ وہ جنا گیا اور نہ کبھی کوئی اس کے برابر کا ہے۔ “ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ کا بیٹا ماننے کی صورت میں اس کی بیوی بھی ماننا پڑے گی اور خاوند، بیوی، باپ، بیٹا ایک ہی جنس سے ہوتے ہیں، جبکہ اللہ تعالیٰ ان سب چیزوں سے پاک ہے۔ الغرض ان سے قتال کی وجہ یہ ہے کہ وہ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور اس کے متعلق ان کا عقیدہ سراسر اللہ تعالیٰ کی توہین اور متعدد معبودوں کو ماننا ہے، تثلیث (تین خدا ماننا) ہو یا حلول (کسی انسان یا مخلوق میں اللہ کا اتر آنا) یا اتحاد کسی انسان کا خدا بن جانا، ان سب کو قرآن نے کفر قرار دیا۔ دیکھیے سورة مائدہ (٧٢، ٧٣) پھر جو شخص ہر چیز ہی کو اللہ تعالیٰ قرار دے، ” ہر میں ہر “ کا نعرہ لگائے، وحدت الوجود کو معرفت قرار دے اس کے کفر میں کیا شک ہے ؟ اسی طرح اب اگر کوئی مسلمان بھی یہ عقیدہ رکھے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود اللہ تعالیٰ ہی تھے، یا اس کے نور کا ٹکڑا تھے، یا اولیاء میں اللہ تعالیٰ اتر آتا ہے، یا ترقی کر کے ولی بھی اللہ تعالیٰ بن جاتا ہے اور اس کے اختیارات کا مالک بن جاتا ہے، اس لیے وہ ” أَنَا الْحَقُّ “ (میں ہی حق یعنی اللہ ہوں) کا نعرہ لگاتا ہے اور ” سُبْحَانِیْ مَا اَعْظَمَ شَانِیْ “ (میں پاک ہوں، میری شان کتنی بڑی ہے) کہتا ہے، تو بیشک یہ مسلمان کہلاتا رہے حقیقت میں یہود و نصاریٰ میں اور اس میں کوئی فرق نہیں اور ہندوؤں کے کروڑوں خداؤں کے عقیدے اور اس کے عقیدے میں بھی کوئی فرق نہیں۔ اس خبیث عقیدے سے تو تمام دین، تمام انبیاء و رسل اور ان کے احکام ہی بےکار ٹھہرتے ہیں۔ ایسے عقیدے والا شخص اپنے آپ کو تصوف یا معرفت یا طریقت کے پردوں میں لاکھ چھپائے، حقیقت میں وہ اللہ تعالیٰ کی تمام شریعتوں، رسولوں، کتابوں اور ان کے احکام کا منکر ہے، جس نے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے تقدس کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ ذٰلِكَ قَوْلُهُمْ بِاَفْوَاهِهِمْ : یعنی نہ عقل سے اس کی کوئی دلیل پیش کی جاسکتی ہے نہ نقل سے، محض منہ کی بےکار بات ہے، جیسے خواہ مخواہ کوئی شخص مہمل اور بےمعنی باتیں کرتا رہے۔ يُضَاهِــــُٔـوْنَ قَوْلَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ : یعنی ( یہ لوگ) اہل کتاب ہو کر بھی مشرکوں کی ریس کرنے لگے۔ (موضح) اور پہلی مشرک اور کافر قوموں کی طرح گمراہ ہوگئے۔ صاحب المنار فرماتے ہیں کہ شرق و غرب کے قدیم بت پرستوں کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن اللہ ہونے، حلول اور تثلیث ( اور متعدد معبودوں) کا عقیدہ ہند کے برہمنوں میں معروف تھا (اور اب بھی ہے) ، اسی طرح چین، جاپان، قدیم مصریوں اور قدیم ایرانیوں میں بھی یہ عقائد مشہور و معروف تھے۔ اہل کتاب بھی ان کفار کی ریس کرنے لگے اور اب بعض مسلمان بھی ان کے نقش قدم پر چل پڑے۔ قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ : یعنی یہ لوگ اس کے حق دار ہیں کہ ان کے حق میں یہ بددعا کی جائے، ورنہ اللہ تعالیٰ کو دعا یا بددعا کی کیا ضرورت ہے ؟ وہ تو خود جو چاہے کرسکتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In the second verse (30), the subject taken up briefly in verse 29 (where it was said that these people do not believe in Allah) has been enlarged. In the second verse, it has been said that the Jews take Sayyidna ` Uzayr (علیہ السلام) to be the Son of God.l So do the Christians. They say that Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) is the Son of God. Therefore, their claim that Allah is One and that they have faith turns out to be false. 1. This is not the belief of all the Jews; it was the belief of some Jews of the Arabia. Now, the Dead Sea Scrolls have also proved the fact that some Jewish sects believed Ezra to be the son of God. It is learnt from some scholars who have studied the Scrolls. وَاللہُ اعلم ، (Muhammad Taqi Usmani) After that, it was said: ذَٰلِكَ قَوْلُهُم بِأَفْوَاهِهِمْ. (That is their saying [ invented ] by their mouths). This could also mean that these people profess it openly and clearly through their own tongues. There is nothing secret about it. Then, it could also mean that this blasphemy they utter re-mains the work of their tongues. They can give no reason or justifica¬tion for it. Finally, it was said: یضَاهِئُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا مِن قَبْلُ ۚ قَاتَلَهُمُ اللَّـهُ ۚ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ (They (They re¬semble the earlier disbelievers in their saying. Be they killed by Allah, how far turned away they are! ). It means that the Jews and Chris¬tians, by calling prophets sons of Allah, became the same as disbeliev¬ers and Mushriks of past ages, for they used to say that the angels, and their idols, Lat and Manat, were daughters of God.

دوسری آیت میں اسی مضمون کی مزید تفصیل ہے، جس کا ذکر پہلی آیت میں اجمالا آیا ہے کہ یہ اہل کتاب اللہ پر ایمان نہیں رکھتے، اس دوسری آیت میں فرمایا کہ یہود تو عزیر (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں اور نصارٰی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو، اس لئے ان کا دعوٰی توحید اور ایمان کا غلط ہوا۔ پھر فرمایا (آیت) ذٰلِكَ قَوْلُهُمْ بِاَفْوَاهِهِمْ ، یعنی یہ ان کا قول ہے ان کے منہ سے، اس کے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ یہ لوگ صاف طور پر اپنی زبانوں سے اس کا اقرار کرتے ہیں کوئی مخفی چیز نہیں، اور یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ یہ کلمہ کفر صرف ان کی زبانوں پر ہے نہ اس کی کوئی وجہ بتاسکتے ہیں نہ دلیل۔ پھر ارشاد فرمایا (آیت) يُضَاهِــــُٔـوْنَ قَوْلَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ ۭ قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ اَنّٰى يُؤ ْفَكُوْنَ یعنی یہ ان لوگوں کی سی باتیں کرنے لگے جو ان سے پہلے کافر ہوچکے ہیں، خدا ان کو غارت کرے یہ کدھر الٹے جا رہے ہیں۔ انبیاء کو خدا کا بیٹا کہنے میں ایسے ہی ہوگئے جیسے پچھلے کفار و مشرکین تھے کہ فرشتوں کو اور لات و منات کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالَتِ الْيَہُوْدُ عُزَيْرُۨ ابْنُ اللہِ وَقَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِيْحُ ابْنُ اللہِ۝ ٠ ۭ ذٰلِكَ قَوْلُہُمْ بِاَفْوَاہِہِمْ۝ ٠ ۚ يُضَاہِـــُٔـوْنَ قَوْلَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ۝ ٠ ۭ قٰتَلَہُمُ اللہُ۝ ٠ ۚ ۡاَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ۝ ٣٠ هَادَ ( یہودی) فلان : إذا تحرّى طریقة الْيَهُودِ في الدّين، قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا [ البقرة/ 62] والاسم العلم قد يتصوّر منه معنی ما يتعاطاه المسمّى به . أي : المنسوب إليه، ثم يشتقّ منه . نحو : قولهم تفرعن فلان، وتطفّل : إذا فعل فعل فرعون في الجور، وفعل طفیل في إتيان الدّعوات من غير استدعاء، وتَهَوَّدَ في مشيه : إذا مشی مشیا رفیقا تشبيها باليهود في حركتهم عند القراءة، وکذا : هَوَّدَ الرّائض الدابّة : سيّرها برفق، وهُودٌ في الأصل جمع هَائِدٍ. أي : تائب وهو اسم نبيّ عليه السلام . الھود کے معنی نر می کے ساتھ رجوع کرنا کے ہیں اور اسی سے التھدید ( تفعیل ) ہے جسکے معنی رینگنے کے ہیں لیکن عرف میں ھو د بمعنی تو بۃ استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا[ البقرة/ 62] ہم تیری طرف رجوع ہوچکے بعض نے کہا ہے لفظ یہود بھی سے ماخوذ ہے یہ اصل میں ان کا تعریفی لقب تھا لیکن ان کی شریعت کے منسوخ ہونے کے بعد ان پر بطور علم جنس کے بولا جاتا ہے نہ کہ تعریف کے لئے جیسا کہ لفظ نصارٰی اصل میں سے ماخوذ ہے پھر ان کی شریعت کے منسوخ ہونے کے بعد انہیں اسی نام سے اب تک پکارا جاتا ہے ھاد فلان کے معنی یہودی ہوجانے کے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ عَلى شَفا جُرُفٍ هارٍ فَانْهارَ بِهِ فِي نارِ جَهَنَّمَ [ التوبة/ 109] جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی کیونکہ کبھی اسم علم سے بھی مسمی ٰ کے اخلاق و عادات کا لحاظ کر کے فعل کا اشتقاق کرلیتے ہیں مثلا ایک شخص فرعون کی طرح ظلم وتعدی کرتا ہے تو اس کے کے متعلق تفر عن فلان کہ فلان فرعون بنا ہوا ہے کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اسہ طرح تطفل فلان کے معنی طفیلی یعنی طفیل نامی شخص کی طرح بن بلائے کسی کا مہمان بننے کے ہیں ۔ تھودا فی مشیہ کے معنی نرم رفتاری سے چلنے کے ہیں اور یہود کے تو راۃ کی تلاوت کے وقت آہستہ آہستہ جھومنے سے یہ معنی لئے کئے ہیں ۔ ھو دا لرائض الدبۃ رائض کا سواری کو نر می سے چلانا ھود اصل میں ھائد کی جمع ہے جس کے معنی تائب کے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے ایک پیغمبر کا نام ہے ۔ نَّصَارَى وَالنَّصَارَى قيل : سُمُّوا بذلک لقوله : كُونُوا أَنْصارَ اللَّهِ كَما قالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوارِيِّينَ مَنْ أَنْصارِي إِلَى اللَّهِ قالَ الْحَوارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصارُ اللَّهِ [ الصف/ 14] ، وقیل : سُمُّوا بذلک انتسابا إلى قرية يقال لها : نَصْرَانَةُ ، فيقال : نَصْرَانِيٌّ ، وجمْعُه نَصَارَى، قال : وَقالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصاری الآية [ البقرة/ 113] ، ونُصِرَ أرضُ بني فلان . أي : مُطِرَ «1» ، وذلک أنَّ المطَرَ هو نصرةُ الأرضِ ، ونَصَرْتُ فلاناً : أعطیتُه، إمّا مُسْتعارٌ من نَصْرِ الأرض، أو من العَوْن . اور بعض کے نزدیک عیسائیوں کو بھی نصاری اس لئے کہا گیا ہے کہ انہوں نے نحن انصار اللہ کا نعرہ لگا دیا تھا ۔ چناچہ قران میں ہے : ۔ كُونُوا أَنْصارَ اللَّهِ كَما قالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوارِيِّينَ مَنْ أَنْصارِي إِلَى اللَّهِ قالَ الْحَوارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصارُ اللَّهِ [ الصف/ 14] جیسے عیسیٰ (علیہ السلام) بن مر یم نے حواریوں سے کہا بھلا کون ہے جو خدا کی طرف بلانے میں میرے مددگار ہوں تو حوراریوں نے کہا ہم خدا کے مددگار ہیں ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ یہ نصرانی کی جمع ہے جو نصران ( قریہ کا نام ) کی طرف منسوب ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصاریالآية [ البقرة/ 113] یہود کہتے ہیں کہ عیسائی رستے پر نہیں ۔ نصر ارض بنی فلان کے معنی بارش بر سنے کے ہیں کیونکہ بارش سے بھی زمین کی مدد ہوتی ہے اور نصرت فلانا جس کے معنی کسی کو کچھ دینے کے ہیں یہ یا تو نصر الارض سے مشتق ہے اور یا نصر بمعنی عون سے ۔ فوه أَفْوَاهُ جمع فَمٍ ، وأصل فَمٍ فَوَهٌ ، وكلّ موضع علّق اللہ تعالیٰ حکم القول بِالْفَمِ فإشارة إلى الکذب، وتنبيه أنّ الاعتقاد لا يطابقه . نحو : ذلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْواهِكُمْ [ الأحزاب/ 4] ، وقوله : كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْواهِهِمْ [ الكهف/ 5]. ( ف و ہ ) افواہ فم کی جمع ہے اور فم اصل میں فوہ ہے اور قرآن پاک میں جہاں کہیں بھی قول کی نسبت فم یعنی منہ کی طرف کی گئی ہے وہاں در وغ گوئی کی طرف اشارہ ہے اور اس پر تنبیہ ہے کہ وہ صرف زبان سے ایسا کہتے ہیں ان کے اندرون اس کے خلاف ہیں جیسے فرمایا ذلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْواهِكُمْ [ الأحزاب/ 4] یہ سب تمہارے منہ کی باتیں ہیں ۔ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْواهِهِمْ [ الكهف/ 5] بات جوان کے منہ سے نکلتی ہے ۔ ضاهى قال تعالی: يُضاهِؤُنَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ التوبة/ 30] ، أي : يشاکلون، وقیل : أصله الهمز، وقد قرئ به والضَّهْيَاءُ : المرأةُ التي لا تحیض، وجمعه : ضُهًى. ( ض ھ ی ) المضاھا ۃ ۔ کے معنی مشابہ اور مشکالت کے ہیں چناچہ ایت کریمہ : يُضاهِؤُنَ«4» قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ التوبة/ 30] یہ بھی انہی جیسی باتیں کرتے ہیں ۔ میں یضاھون کے معنی یشاکلون ہیں ۔ یعنی دوسروں کو مشابہ اور ہم شکل ہونا ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل مہموز ہے اور اس میں ایک قراءت ( یضاھون ) ہمزہ کے ساتھ بھی ممنقول ہے ۔ امرءۃ ضھیاء ۔ وہ عورت جسے حیض نہ آتا ہو ۔ اس کی جمع ضھی آتی ہے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ أنى أَنَّى للبحث عن الحال والمکان، ولذلک قيل : هو بمعنی كيف وأين ، لتضمنه معناهما، قال اللہ عزّ وجل : أَنَّى لَكِ هذا [ آل عمران/ 37] ، أي : من أين، وكيف . ( انیٰ ) انی۔ یہ حالت اور جگہ دونوں کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اس لئے بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنیٰ این اور کیف ۔ کے آتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ { أَنَّى لَكِ هَذَا } ( سورة آل عمران 37) کے معنی یہ ہیں کہ کھانا تجھے کہاں سے ملتا ہے ۔ أفك الإفك : كل مصروف عن وجهه الذي يحق أن يكون عليه، ومنه قيل للریاح العادلة عن المهابّ : مُؤْتَفِكَة . قال تعالی: وَالْمُؤْتَفِكاتُ بِالْخاطِئَةِ [ الحاقة/ 9] ، وقال تعالی: وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم/ 53] ، وقوله تعالی: قاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ [ التوبة/ 30] أي : يصرفون عن الحق في الاعتقاد إلى الباطل، ومن الصدق في المقال إلى الکذب، ومن الجمیل في الفعل إلى القبیح، ومنه قوله تعالی: يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ [ الذاریات/ 9] ، فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ [ الأنعام/ 95] ، وقوله تعالی: أَجِئْتَنا لِتَأْفِكَنا عَنْ آلِهَتِنا [ الأحقاف/ 22] ، فاستعملوا الإفک في ذلک لمّا اعتقدوا أنّ ذلک صرف من الحق إلى الباطل، فاستعمل ذلک في الکذب لما قلنا، وقال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ جاؤُ بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ [ النور/ 11] ( ا ف ک ) الافک ۔ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنے صحیح رخ سے پھیردی گئی ہو ۔ اسی بناء پر ان ہواؤں کو جو اپنا اصلی رخ چھوڑ دیں مؤلفکۃ کہا جاتا ہے اور آیات کریمہ : ۔ { وَالْمُؤْتَفِكَاتُ بِالْخَاطِئَةِ } ( سورة الحاقة 9) اور وہ الٹنے والی بستیوں نے گناہ کے کام کئے تھے ۔ { وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوَى } ( سورة النجم 53) اور الٹی ہوئی بستیوں کو دے پٹکا ۔ ( میں موتفکات سے مراد وہ بستیاں جن کو اللہ تعالیٰ نے مع ان کے بسنے والوں کے الٹ دیا تھا ) { قَاتَلَهُمُ اللهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ } ( سورة التوبة 30) خدا ان کو ہلاک کرے ۔ یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں ۔ یعنی اعتقاد و حق باطل کی طرف اور سچائی سے جھوٹ کی طرف اور اچھے کاموں سے برے افعال کی طرف پھر رہے ہیں ۔ اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ { يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ } ( سورة الذاریات 9) اس سے وہی پھرتا ہے جو ( خدا کی طرف سے ) پھیرا جائے ۔ { فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ } ( سورة الأَنعام 95) پھر تم کہاں بہکے پھرتے ہو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ { أَجِئْتَنَا لِتَأْفِكَنَا عَنْ آلِهَتِنَا } ( سورة الأَحقاف 22) کیا تم ہمارے پاس اسلئے آئے ہو کہ ہمارے معبودوں سے پھیردو ۔ میں افک کا استعمال ان کے اعتقاد کے مطابق ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ اپنے اعتقاد میں الہتہ کی عبادت ترک کرنے کو حق سے برعمشتگی سمجھتے تھے ۔ جھوٹ بھی چونکہ اصلیت اور حقیقت سے پھرا ہوتا ہے اس لئے اس پر بھی افک کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : { إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ } ( سورة النور 11) جن لوگوں نے بہتان باندھا ہے تمہیں لوگوں میں سے ایک جماعت ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

یہودو نصاریٰ میں سے بعض نے کہا ” ابن اللہ “ سب نے نہیں کہا قول باری ہے (وقالت الیھود عزیز ابن اللہ وقالت النصاری المسیح ابن اللہ۔ یہودی کہتے ہیں کہ عزیز اللہ کا بیٹا ہے اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے) ایک قول ہے کہ اس سے مراد یہودیوں کا ایک فرقہ ہے جس نے یہ بات کہی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے اس قول کی صداقت کی یہ دلیل ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں یہودیوں نے یہ بات سن کر اس کی تردید نہیں کی تھی۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ کوئی شخص یہ کہے ” خوارج استعراض یعنی دریافت حال کے بغیر قتل کردینے پر بچوں کو مار ڈالنے کو جائز سمجھتے ہیں “ اس قول سے یہ مراد لیا جائے گا کہ خوارج کے ایک گروہ کے نزدیک یہ بات جائز ہے سب کے نزدیک نہیں۔ یا اسی طرح مثلاً آپ کہیں ” جاءنی بنو تمیم “ (میرے پاس بنو تمیم آئے) اس سے بنو تمیم کے تمام افراد مراد نہیں ہوں گے بلکہ بعض مراد ہوں گے۔ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ یہ بات یہود کی ایک جماعت نے کہی تھی، یہ لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے انہوں نے یہ بات کہی تھی۔ اس جماعت میں سلام بن متکم، نعمان بن اوفیٰ ، شاس بن قیس اور مالک بن الصیف شامل تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ جہاں تک ہمیں علم ہے اب کوئی یہودی اس بات کا قائل نہیں ہے ان کے کسی فرقے نے یہ بات کہی ہوگی جواب مٹ چکا ہے۔ یہودو نصاریٰ کی مشابہت مشرکین سے قول باری ہے (یضاھئون قول الذین کفروا من قبل۔ ان لوگوں کی دیکھا دیکھی جو ان سے پہلے کفر میں مبتلا ہوئے تھے) یعنی یہ ان کافروں کی مشابہت اختیار کرتے ہوئے یہ بات کہتے ہیں۔ اسی لفظ سے ” امراۃ صھیاء “ نکلا ہے جو اس عورت کو کہا جاتا ہے جسے حیض نہ آتا ہو اس لئے کہ حیض نہ آنے کی بنا پر مردوں کے ساتھ اس کی مشابہت ہوجاتی ہے۔ یہ لوگ ان مشرکین کے مشابہ ہوگئے جنہوں نے اللہ کے شریک بت بنا رکھے تھے اس لئے کہ انہوں نے عزیز اور مسیح دونوں کو اللہ کے بیٹے قرار دے کر اس کا شریک بنادیا تھا حالانکہ یہ دونوں اللہ کی دیگر مخلوقات کی طرح تھے جس طرح ان مشرکین نے بتوں کو جو اللہ کی مخلوق تھے اللہ کا شریک قرار دیا تھا۔ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ (الذین کفروا من قبل) سے بت پرست مراد ہیں جو لات و عزیٰ اور منات کی پوجا کرتے تھے۔ ایک قول کے مطابق یہ لوگ مشرکین کے اس لیے مشابہ تھے کہ مشرکین کا دعویٰ یہ تھا کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں اور ان کا دعویٰ یہ تھا کہ عزیز اور مسیح اللہ کے بیٹے ہیں ایک اور قول ہے کہ یہ لوگ اپنے اسلاف کی تقلید میں مشرکین کے مشابہ ہیں۔ قول باری ہے (ذلک قولھم بافواھم) یہ بےحقیقت باتیں ہیں جو وہ اپنی زبانوں سے نکالتے ہیں) یعنی ان کی یہ باتیں بےمعنی اور بےحقیقت ہیں اور سوائے اس کے کہ وہ ان کی زبانوں سے نکلتی ہیں۔ ان کا کوئی اور حاصل نہیں ہے۔ قول باری ہے (قاتلھم اللہ۔ خدا کی مار ان پر) حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا اس کے معنی ہیں : ” خدا ان پر لعنت کرے “ ایک قول ہے کہ اس کے معنی ہیں اللہ انہیں قتل کرے جس طرح عرب کہتے ہیں ’ عاناہ اللہ ‘ یعنی اللہ اسے تکلیف و مصیبت سے عافیت میں رکھے۔ ایک قول کے مطابق اللہ کے ساتھ عداوت رکھنے میں اسے اس شخص کی طرح قرار دیا گیا جو اپنے غیر کے ساتھ برسر پیکار رہتا ہو۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٠) یعنی مدینہ منورہ کے یہودی حضرت عزیر (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا اور نجران کے عیسائی حضرت مسیح (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا کہتے تھے یہ انکی زبانی باتیں ہیں جو ان سے پہلے لوگوں یعنی کفار مکہ کے مشابہ ہیں۔ کیوں کہ وہ بھی اللہ معاف کرے اس بات کا دعوی کرتے تھے کہ لات، عزی اور منات خدا کی بیٹیاں ہیں اسی طرح یہود حضرت عزیر (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں اور نصاری میں سے بعض حضرت مسیح (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا اور بعض خدا کا شریک اور بعض بعینہ خدا اور بعض تین میں ایک کہتے ہیں خدا ان لوگوں پر اپنی لعنت نازل فرمائے یہ خدا پر جھوٹا الزام لگاتے ہیں۔ شان نزول : (آیت) ” وقالت الیھود “۔ (الخ) جناب ابن ابی حاتم (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ سلام بن مشکم اور نعمان بن اوفی اور محمد بن وحیہ اور شاس بن قیس اور مالک بن صیف یہ لوگ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے اور کہنے لگے کہ ہم کس طرح آپ کی پیروی کریں حالانکہ آپ نے ہمارے قبلہ کو چھوڑ دیا اور حضرت عزیر (علیہ السلام) کو آپ خدا کا بیٹا بھی نہیں کہتے تو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے بارے یہ آیت نازل فرمائی یعنی یہودیوں نے کہا کہ حضرت عزیر (علیہ السلام) خدا کے بیٹے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٠ (وَقَالَتِ الْیَہُوْدُ عُزَیْرُ نِ ابْنُ اللّٰہِ وَقَالَتِ النَّصٰرَی الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰہِ ط) (ذٰلِکَ قَوْلُہُمْ بِاَفْوَاہِہِمْ ج یُضَاہِءُوْنَ قَوْلَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ ط) ان کی ان باتوں یا من گھڑت عقیدوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے ‘ بلکہ یہ لوگ اپنے سے پہلے والے مشرکین کے عقائد کی نقل کر رہے ہیں۔ متھرا ازم ایک قدیم مذہب تھا جس کا مرکز مصر تھا۔ اس مذہب میں پہلے سے یہ تثلیث موجود تھی : |" God the Father , Horus the Son of God and Isis the Mother Goddess.|" یعنی خدا ‘ خدا کا بیٹا اور اس کی ماں آئسس دیوی۔ یہ پہلی تثلیث تھی جو مصر میں بنی۔ پھر جب سینٹ پال نے عیسائیت کی تبلیغ شروع کی اور اس کا دائرہ غیر اسرائیلیوں (gentiles) تک وسیع کردیا تو اہل مصر کی نقالی میں تثلیث جیسے نظریات عیسائیت میں شامل کرلیے گئے تاکہ ان نئے لوگوں کو عیسائیت اختیار کرنے میں آسانی ہو۔ چناچہ عیسائیت میں جو پہلی تثلیث شامل کی گئی وہ یہی تھی کہ خدا ‘ خدا کا بیٹا یسوع اور مریم مقدس۔ تو انہوں نے قدیم مذاہب کی نقالی میں یہ تثلیث ایجاد کی تھی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :29 عُزَیر سے مراد عَزرا ( Ezra ) ہیں جن کو یہودی اپنے دین کا مجدد مانتے ہیں ۔ ان کا زمانہ سن ٤۵۰ قبل مسیح کے لگ بھگ بتایا جاتا ہے ۔ اسرائیلی روایات کے مطابق حضرت سلیمان علیہ السلام کے بعد جو دور ابتلاء بنی اسرائیل پر آیا اس میں نہ صرف یہ کہ توراۃ دنیا سے گم ہو گئی تھی بلکہ بابل کی اسیری نے اسرائیلی نسلوں کو اپنی شریعت ، اپنی روایات اور اپنی قومی زبان ، عبرانی تک سے ناآشنا کر دیا تھا ۔ آخر کار انہی عزیر یا عزرا نے بائیبل کے پُرانے عہد نامے کو مرتب کیا ، اور شریعت کی تجدید کی ۔ اسی وجہ سے بنی اسرائیل ان کی بہت تعظیم کرتے ہیں اور یہ تعظیم اس حد تک بڑھ گئی کہ بعض یہودی گروہوں نے ان کو ابن اللہ تک بنا دیا ۔ یہاں قرآن مجید کے ارشاد کا مقصود یہ نہیں ہے کہ تمام یہودیوں نے بالاتفاق عزرا کاہن کو خدا کا بیٹا بنایا ہے بلکہ مقصود یہ بتانا ہے کہ خدا کے متعلق یہودیوں کے اعتقادات میں جو خرابی رونما ہوئی وہ اس حد تک ترقی کر گئی کہ عزرا کو خدا کا بیٹا قرار دینے والے بھی ان میں پیدا ہوئے ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :30 یعنی مصر ، یونان ، روم ، ایران اور دوسرے ممالک میں جو قومیں پہلے گمراہ ہو چکی تھیں ان کے فلسفوں اور اوہام و تخیلات سے متاثر ہو کر ان لوگوں نے بھی ویسے ہی گمراہانہ عقیدے ایجاد کر لیے ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو المائدہ حاشیہ ۱۰۱ ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

28: حضرت عزیر (علیہ السلام) ایک جلیل القدر پیغمبر تھے،(ان کو بائبل میں عزرا کے نام سے یاد کیا گیا ہے، اور ایک پوری کتاب ان کے نام سے منسوب ہے) اور جب بخت نصر کے حملے میں تورات کے نسخے ناپید ہوگئے تھے توانہوں نے اپنی یادداشت سے دوبارہ لکھوایا تھا، اور شائد اسی وجہ سے بعض یہودی انہیں اللہ تعالیٰ کا بیٹا ماننے لگے تھے، یہاں یہ واضح رہے کہ ان کا بیٹا ماننے کا عقیدہ سب یہودیوں کا نہیں ہے ؛ بلکہ بعض یہودیوں کا ہے جو عرب میں بھی آباد تھے۔ 29: اس سے مراد غالباً عرب کے مشرین ہیں جو فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہا کرتے تھے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٠۔ تفسیر سدی اور تفسیر کلبی میں ہے کہ جب بنی اسرائیل پر بخت نصر بابلی کا غلبہ ہوا اور اس لڑائی میں علماء بنی اسرائیل کچھ قتل ہوئے اور کچھ قید کر لئے گئے صرف حضرت عزیز (رض) باقی رہ گئے ان کی عمر کچھ زیادہ نہ تھی اس لئے ان کو کسی نے نہ مارا نہ قید کیا علماء بنی اسرائیل کا یہ حال دیکھ کر عزیر (علیہ السلام) رونے اور یہ کہنے لگے کہ افسوس بنی اسرائیل میں کوئی عالم باقی نہ رہا اب علم جاتا رہے گا اور اس قدر روئے کہ ان کی پلکیں گر گئیں ایک روز ان کا گزر عیدگاہ پر ہوا وہاں ایک عورت قبر پر ایک قبر کے پاس رو رو کر یہ کہہ رہی تھی کہ اے میرے کھانا کھلانے والے اے میرے کمائی کرنے والے حضرت عزیر ( علیہ السلام) نے اس عورت سے کہا کہ اے عورت تو یہ بتلا اس مرنے والے سے پہلے تجھے کون روٹی کپڑا دیتا تھا اس نے کہا اللہ یہ سن کر حضرت عزیر ( علیہ السلام) نے کہا کہ پھر تجھ کو افسوس کس بات کا ہے خدا تو ہمیشہ ہی زندہ رہے گا وہ کبھی مرنے والا نہیں ہے تو کیوں روتی ہے اس عورت نے کہا کہ اے عزیر بنی اسرائیل کے علماء سے پہلے لوگوں کو کون علم سکھلاتا تھا حضرت عزیر نے کہا کہ اللہ پھر اس عورت نے کہا کہ تم کس لئے ان کے مرنے سے روتے ہو اور غم کھاتے ہو اللہ اپنی مخلوق کو کسی نہ کسی طرح پھر علم سکھاوے اس سے عزیر (علیہ السلام) نے جان لیا کہ یہ مجھے نصیحت کی گئی ہے پھر انہیں حکم ہوا تم نہر پر جاؤ وہاں غسل کر کے دو رکعت نماز پڑھو پھر ایک بوڑھے آدمی سے تمہاری ملاقات ہوگی وہ جو کچھ تم کو کھلاوے تم کھا لینا یہ بموجب حکم کے وہاں گئے اور نہاد ہو کر دو رکعت نماز سے جب فارغ ہوئے اور بوڑھے آدمی سے ملے اس نے کہا کہ اپنا منہ کھولو انہوں نے جب منہ کھولا تو اس بڈھے نے ایک چیز مثل انگارے کے دھکتی ہوئی ان کے منہ میں ڈال دی اور تین مرتبہ ایسا ہی کیا عزیر (علیہ السلام) جب وہاں سے واپس ہوئے تو تورات ان کو یاد ہوگئی انہوں نے بنی اسرائیل سے آ کر کہا کہ میں تمہارے پاس تورات لایا ہوں وہ کہنے لگے کہ عزیز ( علیہ السلام) تم جھوٹے آدمی نہ تھے یہ کب سے جھوٹ بولنا اختیار کرلیا عزیر (علیہ السلام) نے یہ بات سن کر ساری تورات لکھ دی اس لئے کہا کہ یہ خدا کے بیٹے ہیں ورنہ اور کسی میں یہ طاقت کب تھی غرضیکہ یہ بات بہت مشہور ہوگئی اور اکثر یہود ان کو خدا کا بیٹا کہنے لگے اسی طرح نصاریٰ نے جب دیکھا کہ مسیح مردوں کو جلاتے ہیں اور کوئی باپ ان کا نہیں ہے تو بعضے ان کو خدا کا بیٹا کہنے لگے اور بعضے اللہ مسیح اور مریم ان تینوں کو ملا کر خدا کہنے لگے اس لئے فرمایا کہ ان کی یہ باتیں صرف زبانی ہیں کوئی دلیل ان کے قول کی آسمانی کتابوں میں نہیں ہے جو کچھ ان کی زبان پر آیا وہ کہہ دیا جس طرح اگلے لوگوں نے کفر کیا تھا اسی طرح یہ یہود و نصاریٰ بھی کفر کرنے لگے اور بعض مفسروں نے یضاھون قول الذین کفروا من قبل کی یہ تفسیر بیان کی ہے کہ نصاریٰ اسی طرح عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا کہنے لگے جس طرح ان سے پہلے یہودی نے عزیر (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا کہا تھا بہرحال خدا نے خفگی سے یہ فرمایا کہ خدا انہیں غارت کرے یہ کیونکر ایسی باتیں کہتے ہیں اور کس طرح راہ حق سے بھٹکتے پھرتے ہیں آسمانی کتابوں میں بہت سی دلیلیں اللہ کی وحدانیت کی ان کے پیش نظر ہیں اور بہت سی حجت اس بات پر قائم ہوچکی کہ خدا اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں نہ اس کی بی بی ہے نہ اس کا بیٹا یہ باتیں تو مخلوق کے ساتھ مخصوص ہیں خالق جل شانہ ان باتوں سے بالکل پاک ہے ذالک قولھم بافواھھم اس کا حاصل مطلب یہ ہے کہ یہودی عزیر (علیہ السلام) کو اور نصاری عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا جو کہتے ہیں یہ ان کی ایک ایسی ایجادی بات ہے جس کو اپنی کتابوں سے یہ لوگ ہرگز ثابت نہیں کرسکتے اللہ سچا ہے اللہ کا کلام سچا ہے کیونکہ اصلی تورات اور انجیل میں اگرچہ اہل کتاب نے کچھ ردو بدل کردیا ہے لیکن اس ردو بدل کے بعد بھی قرآن شریف کی پوری صداقت موجودہ تورات اور انجیل سے نکل سکتی ہے تورات سے تو یہ صداقت یوں نکل سکتی ہے کہ مثلا سفر اول کے ساتویں باب اور آٹھویں باب میں جب اختلاف پایا گیا تو علماء یہودی نے اپنی کتابوں میں اس بات کا صاف اقرار کرلیا کہ ان دونوں بابوں میں سے ایک باب میں عزیر (علیہ السلام) سے ضرور غلطی ہوئی ہے اب اس اقرار کے ساتھ انہیں یہ اقرار بھی لازم ہے کہ عزیر (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے نہ تھے کیونکہ ایسی غلطی اللہ کے بیٹے کی شان سے بہت بعید ہے انجیل سے یہ صداقت یوں نکل سکتی ہے کہ انجیل یوحنا کے ١٧ باب میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ یا اللہ تو میرا معبود ہے اور میں تیرا رسول حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے اس قول کے بعد جو عیسائی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا کہتا ہے گویا وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے جھٹلانے کے درپے ہے اور ایسے عیسائی کے جھٹلانے کے لئے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا یہ قول کافی ہے حاصل کلام یہ ہے کہ شریعت موسوی اور شریعت عیسوی کی اسی طرح کی غلطیوں کو قرآن شریف میں جگہ جگہ جتلایا گیا ہے اس پر بھی اہل کتاب میں سے جو لوگ اپنی پچھلی غلطیوں پر اڑے رہیں گے عقبیٰ میں ان کی نجات مشکل ہے۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اہل کتاب میں سے جو شخص شریعت محمدی کی پیروی نہ کرے گا اس کی نجات ممکن نہیں ہے آیت میں اہل کتاب کی جو حالت بیان کی گئی ہے اس کے انجام کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اہل کتاب میں شرک کا مرض جو پھیل گیا ہے سوائے شریعت محمدی کی پیروی کے اور کوئی علاج اس مرض کا دنیا میں نہیں ہے اور جب تک دنیا میں یہ علاج نہ ہو تو عقبیٰ کی بہبودی مشکل ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:30) یضاھئون۔ مضاھاۃ (مفاعلۃ) وہ مشابہت پیدا کر رہے ہیں۔ وہ نقل اتار رہے ہیں۔ ایسی باتیں کر رہے ہیں جیسے قول الذین کفروا۔ ضھی۔ مثل، مانند، شبیہ، ضھی۔ مصدر (ناقص یائی (باب سمع) عورت کا مرد کی طرح ہوجانا کہ نہ حیض ہو ۔ نہ حمل نہ پستان۔ ضھیائ۔ مرد نما عورت ۔ مضاھات مشابہت۔ ضھی مادہ ۔ بعض کے نزدیک یہ مہموز اللام (ضھائ) اور اس کی قرأت یضاھئون ہے ناقص یائی کی صورت میں قرأت یضاھون ہوگی۔ قاتلہم اللہ۔ بددعا کا کلمہ ہے : خدا ان کو غارت کرے۔ یا ان کے قول کی ” عزیر اللہ کا بیٹا ہے “ اور یہ کہ ” مسیح اللہ کا بیٹا ہے “ کی قباحت کر کلمہ تعجب ہے۔ انی یؤفکون۔ انی بمعنی کیف۔ کہاں ۔ کیسے۔ کیونکر۔ کتنے۔ یؤفکون۔ مضارع مجہول جمع مذکر غائب۔ افک (ضرب) سے۔ کسی شے کا اصلی جانب سے منہ پھیرنے کا نام افک ہے۔ جھوٹ ۔ بہتان۔ ان ہر دو میں یہ صفت بدرجہ اتم موجود ہے۔ کیسے بھٹکائے جا رہے ہیں۔۔ یا اس کا ترجمہ یوں بھی ہوسکتا ہے۔ کدھر جھٹکے چلے جا رہے ہیں۔ اور فعل مجہول محض ان کی ہٹ دھرمی کو ظاہر کرنے کے لئے لایا گیا ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بیرونی طاقت ان کو جبراً بھگا رہی ہے۔ ایسی دیگر مثالیں 11:78 اور 7:120 میں ملاحظہ فرماویں۔ افک الف کے فتح اور کسرہ دونوں کے ساتھ مستعمل ہے۔ بمعنی جھوٹ بولنا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 اوپر کی آیت میں دعویٰ کیا تھا کہ یہود و نصاری اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں رکھتے اس آیت میں اسی کی تشریح ہے۔ اس وقت یہود کے بعض فرقے عزیر کا اللہ تعالیٰ بیٹا مانتے تھے مگر موجود زمانے کے یہودی اس سے انکار کرتے ہیں۔9 یعی عقل و نقل سے اس کو کوئی دلیل پیش نہیں کی جاسکتی۔10 یعنی اہل کتاب ہو کر بھی مشرکوں کی ریس کرنے لگے (موضح) اور پہلی مشرک اور کافر قوموں کی طرح یہ بھی گمراہ ہوگئے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

اسرار و معارف چونکہ ایمان باللہ بھی وہی قابل قبول ہے جو ان اوصاف کے ساتھ ہو جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمائی ہیں ۔ ان سے ہٹ کر اگر کسی نے اللہ کو مانا بھی تو وہ نہ ماننے کے برابر ہے جیسے اہل کتاب کہ اللہ پر اور آخرت پر ایمان تو رکھتے تھے مگر ظالموں نے اللہ کے لئے اولاد تجویز کردی یہود نے کہا حضرت عزیز (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے تھے اسی طرح عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا قرار دے دیا اور بغیر کسی دلیل کے محض اپنی رائے سے گپ ہان کی ہے اللہ انھیں تباہ کرے کیسی غلط بات پر جم گئے ہیں ۔ اور یوں اپنے طور پر تو اللہ کا کوئی نہ کوئی تصور ہر قوم کے پاس ہے مگر یہ کوئی ماننا نہ ہوا۔ لہٰذ سب سے جہاد ہوگا یا یہ جزیہ ادا کریں گے ۔ جزیہ سے مراد وہ ٹیکس ہے جو حاکم وقت اپنی صوابدید سے طے کرتا ہے اور اس کے بدلے کفار کو اسلامی ریاست میں بحفاظت رہنا نصیب ہوتا ہے ۔ یہ چونکہ قتل کی جزا کے طور پر لیا گیا ورنہ تو کفر کی سزاقتل تھی مگر ایک جرمانہ مقرر کر کے قتل سے معاف کردیئے گئے ۔ پھر یہ ایسے لوگوں پر عائد نہ ہوگا جن پر تلوار اٹھا نا ویسے ہی منع ہے مثلا بچے بوڑھے خواتین معذور لوگ اور مذہبی پیشوا وغیرہ ذالک۔ اور ان کا جرم صرف یہی نہیں بلکہ انھوں نے اپنے مذہبی پیشواؤں کو ہی اپنا معبود بنارکھا ہے کہ جب اللہ کے حکم کے مقابلہ میں ان کی بات کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں تو گویا انھوں نے اللہ کی ذات کی جگہ پر مذہبی پیشواؤں کو اپنارب مان لیا ہے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تو باقاعدہ عبادت کرتے ہیں ۔ بھلایہ بھی کوئی بات ہوئی جبکہ خود عیسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ واحد کی عبادت کا حکم دیا تھا اور حق بھی یہ ہے کہ اس ذات واحد کے علاوہ کوئی عبادت کا مستحق ہے بھی نہیں جو شریک بناتے جاتے ہیں وہ ان سے بہت بلند اور ان غلط عقائد سے بہت اعلیٰ اور پاک ہے۔ تقلیدائمہ اور یہ آیہ مبارکہ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اس سے مراد تقلید کی ممانعت ہے جو درست نہیں بلکہ اس سے مراد یشہ ورعلماء کی ان باتوں پہ عمل کرنے میں ممانعت ہے جو خلاف شریعت ہوں اہل علم کا اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کے مطابق فتویٰ دنیا اور عوام کا اس پر عمل تو یہاں بھی بیان ہوا ہے جیسے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تعلیمات حقہ کا ذکر کہ انھوں نے تو اللہ واحد کی عبادت کا حکم دیا تھا اب اس حکم کو آگے نقل کرنے والے کی اطاعت دراصل نبی کی اطاعت ہوگی مگر اللہ اور اس کے رسول کے ارشاد کے خلاف بات کو ثواب جان کر کرنا کفر ہے ۔ اور یہ اپنے کفر میں اس قدر بڑھے ہوئے ہیں کہ اپنی غلط روایات سے دین حق کو لوگوں سے اوجھل کردینا چاہتے ہیں جیسے کوئی پھونک مار کر چراغ کو گل کرنا چاہے مگر یہ عام چراغ نہیں یہ تو اللہ کا نور ہے اور یہی وجہ ہے کہ بد کار کتابیں بھی پڑھ لے اسے دین نہیں آتا محض روٹی کمانے کو باتیں کرنا آجاتا ہے ۔ دین کا علم نیکی سے آتا ہے اور اگر نیک ہو اور اللہ ورسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرنے والا ہو تو علم دین دل میں جگہ بنالیتا ہے اور حال بن جاتا ہے ۔ فرمایا اللہ تو ذات ہی وہ ہے جس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہی اس لئے ہے کہ وہ تمام مذاہب پر غلبہ پالے خواہ مشرکین کو یہ بات کتنی ہی ناگوار ہو۔ غلبہ اسلام یہ آیہ کریمہ غلبہ اسلام کی نہ صرف بشارت دیتی ہے بلکہ اس بات کا دعویٰ کرتی ہے کہ اسلام آیا ہی دنیا میں غالب ہونے اور غالب رہنے کے لئے ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زندگی کے ہر موضوع پر وہ بات ارشاد فرمائی جو اس کام کے کرنے کا صحیح ترین انداز ہے مثلا سیاسی معاشی اخلاقی امور اور تعلقات کا وہ انداز جو عین مزاج انسانی کے مطابق ہے ارشاد فرمایا اور لطف کی بات یہ ہے کہ یہی دین حق بھی قرار دیا یعنی عملی زندگی سے الگ یا گوشہ نشینی کا حکم نہیں دیا بلکہ میدان عمل میں ہر کام کو حق کے مطابق کرنا ہی دین ہے اور یہی غلبہ دین کا سبب ہے عبادات کا اپنا مقام ہے عبادات دراصل وہ قوت باطن حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں جو سفرحیات میں اور میدان عمل میں اللہ کی اطاعت پہ قائم رکھنے کا سبب ہو۔ لہٰذاہر سلیم البطع انسان اس مذہب حقہ کو قبول کرے گا اور یہ زمین پر چھا گیا آج کا حال کہ مسلم پوری دنیا میں پریشان ہے تو اس کا ذمہ دار آج کا مسلمان ہے جس نے میدان عمل سے دین کو الگ کردیا ہے اور صرف مساجدتک محدود کردیا ہے ۔ مساجد سے باہر سیاسی امور ہوں یامعاشی وہاں کفار کا اتباع کیا جاتا ہے اور ان جیسا طریق کار اپنا یا جاتا ہے جس جا نتیجہ مسلمانوں کی تباہی اور بربادی کی صورت میں سامنے آتا ہے ۔ آج بھی ہم اپنی عملی زندگی کو اسلام کے تابع کرلیں تو آج بھی روئے زمین پر غلبہ عطا کرنا اللہ کریم کا کام ہے یہ طرح طرح کے ازم اور مغربی جمہوریت یا محض شخصی اور ذاتی پسند کی حکومتیں مسلمانوں کو اسلام سے دورلے جانے کا سبب بن رہی ہیں ۔ علماؤمشائخ کے لئے لمحہ فکر یہ جن یہود اور نصاری کا طرز عمل اور تہذیب ومعاشرت مسلم شرے اختیار کر رہے ہیں خود ان کا یہ حال ہے کہ ان کے مشائخ اور علماء جو بظاہر بڑے عابد وزرہد نظرآتے ہیں دراصل آخرت کو گم کرچکے ہیں اور محض لوگوں کا مال کھانے کے لئے جببے پہنے ہوئے ہیں ۔ نارواطریقوں سے مال حاصل کرتے ہیں اور دولت لے کر کتاب اللہ کے احکام تک بدل دیتے ہیں اس طرح حصول زر کی طمع میں اللہ کی راہ سے لوگوں کو بھٹکار ہے ہیں ۔ جن اقوام کے نام نہادنیک طبقہ کا یہ حال ہے ان کے دنیا داروں کا حال کیا ہوگا اور جو ان کے پیچھے چلے گا اسے کیا فائدہ مل سکے گا ۔ اگر مسلمان علماء مشائخ بھی لوگوں کو محض چندا اور شیرنیاں جمع کرنے کا سبب بنائے رکھیں گے اور ان کی اصلاح کی فکر نہ کریں گے تو وہ بھی اسی وعید کے مصداق ہوں گے ۔ اعاذنا اللہ مہنا۔ فرمایا ، یہ بات یادرکھو کہ جو لوگ دولت کی ہوس اللہ کو اور آخرت کو بھلا بیٹھتے ہیں اور محض سونا چاندی جمع کرتے رہتے ہیں اسے اللہ کے بتائے ہوئے قاعدے کے مطابق خرچ نہیں کرتے تو انھیں درد ناک عذاب کی خبر سنادیجئے ! یاد رہے اسلام ارتکازدولت کے خلاف ہے یعنی محض کچھ لوگ دولت جمع کرتے رہیں اور دوسرے بھوکے مریں بلکہ امیر پر زکوۃ واجب کردی ۔ علاوہ ازیں جب بات خرچ کرنے کرتا ہے تو یقینا جس آدمی کو اللہ کے حکم کے مطابق خرچ کرنا ہے وہ کمائی کے ناجائز ذرائع اختیار نہیں کرے گا پھر ان کے اختیار کرنے کی اسے ضرورت ہی نہیں رہتی اور یوں جب کسی کا حق مارا نہیں جاتا تو ایک خوبصورت معاشرہ شکل پذیر ہوتا ہے لیکن اگر کوئی محض لوٹ سے مال ہی جمع کرتا رہے تو وہ سن رکھے کہ ایک روزیہی مال جہنم کی آگ پر گرم کیا جائے گا اور جمع کرنے والے کی پیشانی پہلو اور پیٹھ پر اس سے داغ لگائے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ یہ وہ ٹوٹ کی دولت ہے جو تم نے لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈال کر جمع کی تھی اب اس کا مزہ چکھو ۔ یادر ہے اسلام میں مال جمع کرنے سے روکا نہیں گیا کہ حلال کمائے اور جو سال بھر پاس جمع رہے اس پر زکوۃ اداکرے تو یہ جمع کرنا اس میں داخل نہیں ۔ حدیث شریف میں اس کی وضاحت موجود ہے نیز زکٰوۃ کا فرض ہونا اس بات پہ دلیل ہے کہ مال ہوگا تو زکٰوۃ ادا کریں گے ۔ یہ ٹوٹ کھسوٹ سے جمع شدہ مال یا فتویٰ فروشی سے یا کسی بھی ناجائز ذریعہ سے لوگوں کے حقوق مار کر محض سرمایہ جمع کرنے کے جنون میں مبتلا لوگوں سے بات ہورہی ہے ۔ تصرف بیجا کفار کی رسومات ید اور احکام الٰہی میں اپنی پسند سے تبدیلی کرنے کی ایک واضح مثال ان کا سال کے مہینوں میں تصرف ہے کہ مہینوں کی تعداد عند اللہ بارہ ١٢ ہے اور جب سے جہان پیدا ہواتب سے اللہ کریم نے یہ اسی طرح معین فرمادی لوح محفوظ میں یہی درج ہے لہٰذاتمام ادیان سابقہ میں بھی یہی تعدادبیان ہوئی اور اس میں چار مہینے محترم ہیں کہ ان میں ممکن حدتک مصروفیات کم کرکے زیادہ عبادات کی جائیں نیزان میں عبادات کا ثواب بھی زیادہ ہے یعنی جس طرح رات دن کا ایک حصہ عبادات کے لئے محصوص ہے اور پانچ نمازیں فرض ہیں تاکہ یہ حاضری باقی وقت کو اللہ کی اطاعت میں خرچ کرنے کی تو فیق کا سبب بنے ۔ اسی طرح سال بھر کا تیسرا حصہ یعنی چار مہینے حرمت والے ہیں ان میں جنگ نہ کی جائے اور عبادت کثرت سے کی جائے ۔ کہ باقی دوتہائی سال بھی اطاعت کی توفیق نصیب ہویہی صاف اور سید ھادین ہے اور یہ حکم تمام شریعتوں میں ایسے ہی رہا ۔ حرمت والے تین مہینے شوال ذیقعدہ اور ذی الحجہ اکٹھے ہیں اور ایک ماہ رجب الگ ہے ۔ پہلی تمام امتوں میں ان مہینوں میں جنگ منع تھی مگر اسلام میں دفاع کے لئے لڑنے کی اجازت دے دی گئی فرمایا کہ نافرمانی ویسے بھی بڑی ہے مگر ان مہینوں میں بطور خاص نافرمانی سے بچنے کی کوشش کرنا چاہیئے اور گناہ کے قریب بھی نہ پھٹکے مگر ہاں ! مشرکین سے جم کر لڑوجی سے وہ تم سے لڑنے کے درپے ہوں مگر زیادتی جنگ میں بھی نہ ہونے پائے کہ خوب جان لو ، اللہ نیکی کرنے والوں اور حقوق کی نگہداشت کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔ مگر ان مشرکین اور ان کے مذہبی پیشواؤں کی زیادتی دیکھو کہ یہ مہینوں کے نام بدل دیتے ہیں یہ رواج تھا کہ اگر لڑتے لڑتے حرمت کا مہینہ آگیا تو کہہ دیتے کہ دیتے کہ یہ وہ مہینہ نہیں ہے بعد والا ہے یا یہ سال دس مہینوں کا ہے ۔ جس مہینے کو چاہتے رمضان یاشوال قرار دیتے اور جس کو چاہتے رجب کہہ دیتے ۔ غرض یہ تھی کہ اپنی اغراض بھی پوری ہوں اور سال کے چار مہینوں کی حرمت بھی رہے ۔ تو فرمایا ان کا یہ حیلہ ان کے کفر میں مزید زیادتی کا باعث ہے یا یہ حیلہ کفر کی بڑھائی بات ہے کہ محض گنتی کرنا ہی ضروری نہیں بلکہ اوقات کا لحاظ عبادات میں ضروری ہے ۔ عبادات میں اوقات مقررہ کی اہمیت اور جو حکم اللہ کی طرف سے جس مہینہ کے ساتھ مختص ہے اس پر عمل انہی اوقات میں ثواب اور اطاعت کہلائے گا ۔ اسی طرح حج رمضان اور دوسری سب عبادات مہینوں کا نام آگے پیچھے کرنے سے آگے پیچھے نہ ہوں گی۔ ورنہ احکام الٰہی میں خلل واقع ہوگا اور حرام کو حلال اور حلال کو لینے کا جرم سرزدہوگا جو بجائے خود کفر ہے یہ تو ایک سال ایک مہینہ کو حرمت والا قرار دے لیتے ہیں اور دوسرے سال اسے حلال سمجھ لیتے ہیں یعنی محض نام بدل کر جیسے سود کو نفع کہہ کر کھالینے سے حلال نہ ہوگا اور محض گنتی پوری رکھنا کوئی مقصد نہ ہوا۔ یہ الٹی تدبیر جو نہایت بےوقوفی کی بات ہے اسے یہ اپنی عقلمندی سمجھے ہوئے ہیں اس لئے کہ گناہ سے احساسات تبدیل ہوجاتے ہیں اور بھلے کو برا اور برے کو بھلا سمجھ لیا جاتا ہے ۔ یہ دنیا میں گناہ کی بہت بڑی سزا ہے اور ایسے گمراہوں کو اللہ ہدایت عطا نہیں کرتے ۔ عبادات میں قمری مہینے شمار ہوتے ہیں یہاں یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ اگر چہ چاند اور سورج دونوں ہی ماہ وسال کے شمار کا ذریعہ بھی ہیں ، اور شمسی تاریخوں کا شمار بھی جائز ہے مگر عبادات میں صرف قمری مہینوں کا شمار کام دے گا ۔ اللہ کریم نے عبادات کے لئے قمری مہینوں کو مقرر فرمایا ہے ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ جس کا واقع میں کہیں نام ونشان نہیں۔ 3۔ مراد مشرکین عرب میں جو ملائکہ کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(سابقہ آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ) اسلام اس کرہ ارض پر ایک دین برحق ہے۔ اور اس یہ حق ہے کہ وہ اپنی راہ سے ناجائز مادی رکاوٹوں کو دور کرے۔ اور تمام انسانوں کو دین حق (اسلام) کے علاوہ تمام دینوں سے آزاد کرکے چھوڑے کہ وہ جبری حالت سے نکل کر آزادانہ ، جو دین چاہیں اختیار کریں۔ ہر انسان کو آزادانہ طور پر یہ اختیار ہو کہ وہ جو دین چاہے اختیار کرے۔ کوئی بھی دین اختیار کرنے کے سلسلے میں اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ یہ حق کہ کوئی انسان کسی مادی رکاوٹ کے ہاتھوں مجبور نہ ہو اور اسلام یا گیر اسلام کوئی بھی دین قبول کرنے کے لیے آزاد ہو ، تب ہی متحقق ہوسکتا ہے کہ جاہلیت کی قوت اور شوکت کو تور دیا جائے۔ تمام غیر اسلامی قوتیں اسلامی مملکت کے تابع ہوں اور اسلامی نظام کی باج گزار ہوں۔ باج گزاری کے عمل سے انسان کی آزادی اپنی تکمیل کو پہنچ جاتی ہے۔ ہر فرد جس دین کو چاہے اختیار کرتا ہے جو اسلام پر مطمئن ہو وہ اسلام میں داخل ہوجاتا ہے۔ اور جو شخص مطمئن نہ ہو وہ اپنے دین پر باقی رہتا ہے۔ لیکن اس آزادی کی فیس اسے بطور جزیہ ادا کرنی ہوگی اور اس سے درج ذیل مقاصد حاصل ہوں گے۔ 1 ۔ جزیہ دے کر وہ اعلان کر رہا ہوگا کہ اب وہ اسلام کی دشمنی میں کوئی مادی قوت بطور رکاوٹ کھڑی نہ کرے گا اور دعوت اسلامی کا سد راہ نہ ہوگا۔ 2 ۔ وہ اپنے مال اور عزت کے دفاع اور آازی کے حق جس کی ضمانت اسے اسلام دیتا ہے ، کے عوض اخراجات میں مملکت میں اپنا حصہ ادا کرے گا۔ کیونکہ جو لوگ جزیہ دیتے ہیں اسلامی نظام مملکت ان کے مال اور جان اور آبرو کا محافظ ہوتا ہے۔ اور ان کی جانب سے دفاع کرتا ہے۔ خواہ خارجی حملہ ہو یا داخلی امن وامان ہو۔ 3 ۔ پھر یہ کہ وہ بیت المال میں اپنا حصہ ادا کرے گا جس سے مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کی کفالت کا بندوبست ہوتا ہے ہے۔ تمام ایسے لوگوں کو بیت المال سے وظیفہ دیا جاتا ہے جو کسب و عمل پر قادر نہ ہوں خواہ مسلم ہوں یا غیر مسلم ہو جبکہ غیر مسلموں پر زکوۃ واجب نہیں ہوتی۔ ہم اس سے آگے فقہی اختلافات میں نہیں پڑتے کہ کن کن غیر مسلموں سے جزیہ لیا جائے گا اور یہ کہ جزیہ کی مقدار کیا ہوگی اور یہ کہ اس کی وصلی کا طریقہ کار کیا ہوگا ؟ کیونکہ آج ہمارے سامنے کوئی عملی مسائل اس قسم کا درپیش نہیں ہے۔ فقہاء کے دور میں یہ مسئلہ عملاً درپیش تھا اس لیے انہوں اپنے دور کے لیے احکام جاری کیے اور فتوے دیے اور ان مسائل پر اجتہادی کلام کیا۔ آج یہ مسئلہ ایک تاریخی مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ واقعی سوال نہیں ہے اس لیے کہ آج مسلمان عمل جہاد میں سرگرم نہیں ہیں۔ اور یہ اس لیے کہ حقیقی مسلمان ہمارے دور میں کمیاب ہیں۔ آج ہمارے سامنے حقیقی مسئلہ یہ ہے کہ آج اسلام موجود ہے یا دنیا میں موجود ہیں یا نہیں۔ اسلامی نظام حیات کیا ہے ؟ جیسا کہ ہم نے بار بار اس سوال کا جواب دیا کہ وہ ایک سنجیدہ اور عملی نظام ہے۔ یہ نظام محض ہوائی باتوں پر بحث وجدال نہیں کرتا۔ نہ وہ ایسے فقہی مباحث میں دماغ سوزی کو ضروری سمجھتا ہے جو عملاً موجود نہ ہوں کیونکہ عالم واقعہ میں مسلمانوں کی کوئی سوسائٹی موجود نہیں ہے۔ جس میں اسلامی شریعت نافذ ہو۔ اور اسلامی فقہ اس کی عملی زندگی پر متصرف ہو۔ اسلام ایسے لوگوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے جو مفروضے گھڑتے ہیں اور پھر ان پر مباث کے سلسلے اٹھاتے ہیں۔ ان کو اسلامی اصطلاح میں " ارئیتی " کہا جاتا ہے جو اس طرح سوال کرتے ہیں " دیکھو ، اگر یوں صورت حالات واقعہ ہوجائے تو کیا حکم ہوگا ؟ " آج ہمیں احیاء اسلام کے کام کا آغاز اسی مقام سے کرنا ہے جس سے حجور اکرم نے کیا تھا اور وہ یہ کہ دیا میں کوئی ایسی سوسائٹی وجود میں آئے جو حکومت الہیہ قائم کرکے اس میں دین اسلام نافذ کردے۔ وہ پہلے شہادت دے کہ اللہ کے سوا کوئی اور حاکم نہیں ہے اور محمد رسول اللہ ہیں ، شارع ہیں۔ لہذا ہماری سوسائٹی مٰ اللہ حاکم اور شارع ہے۔ اور ہم اللہ و رسول کے احکام کو اس سوسائٹی میں نافذ کرنے وال ہیں اور پھر وہ اس نظر کو لے کر پوری دنیا میں آزادی انسان کا بیڑا اٹھائیں اور پھر جب حکومت الہیہ قائم ہوگی اور کسی اسلامی سوائٹی میں نافذ و جاری ہوگی تو تب جا کر یہ سوال اٹھے گا کہ اس سوائٹی کے تعلقات دوسری ملل و نحل کے ساتھ کیا ہوں گے اور اسی وقت ان فقہی تحقیقات کی ضرورت ہوگی اور اس وقت پھر ماہرین اور اہل فکر و نظر اس وقت کے متعین حالات میں یہ فیصلہ کریں گے کہ اب دوسری ملتوں کے افراد اور حکومت کے ساتھ ہمارے تعلقات کیا ہوں گے "۔ ہم نے اصولی طور پر اس آیت کی تشریح یہاں کردی ہے جس اصول اعتقاد اور اسلامی نظام کے منہاج کے ساتھ مناسبت رکھتی ہے۔ اور اسی پر ہم یہاں اپنی بات کو روک دیتے ہیں۔ آج ہم مناسب نہیں سمجھتے کہ یہاں فروعی مباحث پر کلام شروع کردیں کیونکہ اسلامی نظام حیات ایک حقیقت پسندانہ اور عملی نظام ہے۔ وَقَالَتِ الْيَهُوْدُ عُزَيْرُۨ ابْنُ اللّٰهِ وَقَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِيْحُ ابْنُ اللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ قَوْلُهُمْ بِاَفْوَاهِهِمْ ۚ يُضَاهِــــُٔـوْنَ قَوْلَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ ۭ قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ ffاَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ ۔ یہودی کہتے ہیں کہ عزیر اللہ کا بیٹا ہے۔ یہ بےحقیقت باتیں ہیں جو وہ اپنی زبانوں سے نکالتے ہیں۔ ان لوگوں کی دیکھا دیکھی جو ان سے پہلے کفر میں مبتلا ہوئے تھے۔ خدا کی مار ان پر ، یہ کہاں سے دھوکا کھا رہے ہیں جب اللہ نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا کہ وہ اہل کتاب کے ساتھ جنگ شروع کردیں اور یہ جنگ اس وقت تک جاری رکھیں جب وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دے کر اپنے آپ کو چھوٹا ثابت نہیں کرتے۔ تو اس وقت مدینہ طیبہ کی اسلامی حکومت کچھ عملی حالت در پیش تھے اور اس سورت کے آغاز میں ہم نے ان پر تفصیلی بحث کی ہے۔ پھر ان کے بارے میں سورت کے حصہ اول پر اجمالی تبصرے میں بھی ہم نے بحث کی ہے۔ یہاں اس بات کی ضرورت ہے کہ ان حالات کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیا جائے نیز ان اسباب کو بھی اچھی طرح متعین کرنا چاہی جن کی وجہ سے وہ حالات پیدا ہوئے۔ تاکہ ان تمام شبہات و خلجانات کو رفع کردیا جائے جو بعض لوگوں کے اذہان میں پیدا ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس حکم پر تعمیل کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان رومیوں کے مقابلے میں نکل آئیں جو اس وقت اطراف شام پر قابض تھے۔ اسلام سے پہلے بھی رومی عرب قبائل سے خوف کھاتے تھے کیونکہ یہ لوگ ایک طویل عرصے سے عرب کے شمالی علاقوں پر قابض تھے۔ عرب قبائل کے اندر بھی ان کی دوستیاں اور تعلقات تھے۔ شمال میں غسانیوں کی حکومت ان کی باجگزار تھی۔ لہذا مسلمانوں اور رومیوں کے درمیان یہ پہلی مڈبھیڑ نہ تھی۔ یعنی جب عربوں کو اللہ نے اسلام کے ذریعہ سے عزت بخشی اور وہ ایک عظیم قوم کی شکل میں فارس اور روم جیسی عظیم قوتوں کے مقابلے میں اتر آئے اور اس سے پہلے تو وہ منتشر قبائل تھے اور ان کی بہادری اور جنگجوئی کے قصے صرف باہم قتل و قتال ، ڈاکوؤں اور لوٹ مار کی کہانیوں پر مشتمل تھے لیکن اس کے باوجود رومیوں کے دلوں میں عربوں کا خوف بہرحال بیٹھا ہوا تھا۔ خصوصاً ان لوگوں کا خوف جنہوں نے ابھی تک پوری طرح اسلامی رنگ اختیار نہ کیا تھا۔ رومیوں کے ساتھ آخری ٹکراؤ اور جھڑپ غزوہ موتہ کی شکل میں ہوا تھا جس میں روایات کے مطابق دو لاکھ سے زیادہ رومی جمع ہوئے تھے اور اس غزوہ کا نتیجہ مسلمانوں کے مقاصد کے مطابق بر آمد بھی نہ ہوا تھا۔ ایک تو یہ حالات تھے کہ اسلامی معاشرے کے اندر بھی تک تطہیز افکار کا کام مکمل نہ ہوا تھا ، دوسرے یہ کہ رومیوں کی جانب سے ایک عام خوف بھی مسلمانوں کے دلوں میں تھا اور پھر یہ غزوہ تبوک جن حالات میں درپیش تھا ، معاشی لحاظ سے اور دوسرے حالات کے لحاظ سے بھی یہ بہت ہی تنگی کا وقت تھا۔ اسی لیے اسے غزوہ عسرت کہا گیا ہے۔ تفصیلی حالات بعد میں بیان ہوں گے۔ پھر مسلمانوں کے دلوں میں یہ بات بھی تھی کہ رومی اور ان کے ایجنٹ عرب بہرحال اہل کتاب میں سے تو ہیں۔ یہ تھے وہ وجوہات جن کی بنا پر یہاں اس بارے میں زیادہ سے زیادہ وضاحتیں کی گئیں اور فیصلہ کن اور دوٹوک انداز بیان اختیار کیا گیا ۔ اور تمام ذہنی خلجان اور نفسیاتی الجھنوں کو دور کردیا گیا۔ اور ان احکام کے حقیقی اسباب اور عوامل بھی بتائے گئے۔ چناچہ آیت زیر بحث میں قرآن کریم ان اہل کتاب کی فکری ضلالت کی وضاحت کرتا ہے کہ ان کا نظریہ اور عرب گمراہوں کا نظریہ اور بت پرستوں کا نظریہ باطل باہم مماثل اور ہم رنگ ہے۔ عرب بت پرستوں اور قدیم رومی بت پرستوں اور ان عیسائیوں کے درمیان کوئی نظریاتی فرق نہیں ہے۔ حضرت عیسیٰ نے ان کو جو صحیح عقیدے دیے تھے اس پر اس پر وہ ثابت قدم نہیں ہیں لہذا ان کی حیثیت اہل کتاب محض نام کی رہ گئی ہے۔ ان کی کتابوں کے اندر ان کو جو صحیح اور درست نظریات و اعتقادات دیے گئے تھے وہ انہوں نے ترک کردیے ہیں۔ یہاں یہودیوں کے اس قول کا بھی ذکر کیا جاتا ہے کہ وہ عزیر (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا قرار دیتے ہیں حالانکہ روئے سخن اور عملاً مقابلہ صرف رومیوں کے ساتھ تھا جو عیسائی اور نصاریٰ تھے۔ یہاں یہودیوں کو دو وجوہات سے بیچ میں لایا گیا ہے۔ 1 ۔ یہ کہ پہلی آیت عام تھی۔ کیونکہ اہل کتاب کا اطلاق یہودی و عیسائی دونوں پر ہوتا تھا۔ اور آیت سابقہ میں لڑنے کے بارے میں اور جزیہ وصول کرنے اور ان کو چھوٹا بنا کر رکھنے کا جو حکم دیا گیا تھا وہ تمام اہل کتاب کے برخلاف تھا۔ لہذا یہاں اہل کتاب کی نظریاتی اور اعتقادی ضلالت کے ذکر میں بھی دونوں کو شامل کیا گیا کہ نظریاتی اعتبار سے دونوں برابر ہیں۔ 2 ۔ دوسرے یہ کہ عرب کے تمام یہودی نے ہجرت کرکے اطراف شام میں آباد ہوگئے تھے۔ جب سے رسول اللہ اور مسلمانوں نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تھی ، یہودیوں نے اسلام کے خلاف جنگ جاری رکھی تھی جس کے نتیجے میں بنی قینقاع اور بنی نضیر اطراف شام کی طرف جلاوطن ہوگئے تھے۔ بنی قریظہ کے بعض افراد بھی۔ لہذا شام کی طرف اسلامی انقلاب کی وسعت کی راہ میں یہودی رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔ لہذا اس حکم میں یہودیوں کو شامل کرنا بھی ضروری تھا۔ نصاری کا قول کہ مسیح ابن اللہ ہیں ، مشہور و معروف ہے۔ اور جب سے پولوس نے ان کو گمراہ کیا ہے ، اس کے بعد آج تک وہ اسی عقیدے پر قائم ہیں۔ پھر پولوس کے بعد ان کی مذہبی کانفرنسوں نے پولوس کے عقائد کو سرکاری شکل دے کر ان کو مکمل گمراہ کردیا۔ لیکن یہودیوں کا یہ عقیدہ کہ عزیر اللہ کے بیٹے ہیں ، بہت مشہور ہے۔ یہودیوں کی کتب مقدسہ میں ایک شخص عزرا کے نام سے مذکور ہے۔ اور اس کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ وہ حضرت موسیٰ کی تورات کا ماہر کاتب تھا۔ یہ کہ اس نے اپنے دل کو شریعت ربانی کی تلاش کی طرف متوجہ کیا لیکن قرآن نے ان کی جانب سے جو عقیدہ نقل کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض یہودی اس کے قائل تھے خصوصاً وہ یہودی جو اطراف مدینہ میں بستے تھے۔ قرآن کریم مدینہ کے یہودیوں کے ساتھ عملاً ہمکلام تھا۔ اس نے یہ عقیدہ نقل کیا ہے۔ اگر یہودیوں کے اندر یہ عیقدہ نہ ہوتا تو وہ فٹ کہہ دیتے کہ قرآن نے یہ غلط کہا ہے ، ہمارا تو یہ عقیدہ نہیں ہے۔ لیکن مدینہ کے یہودیوں کی جانب سے اس موضوع پر مکمل سکوت ہے۔ لہذا کم از کم اس وقت کے یہودیوں میں یہ عقیدہ مروج تھا۔ تفسیر منار کی ج 10 میں مرحوم رشید رضا نے ص 385 تا 387 عزرا کے بارے میں یہودیوں کے نظریات پر مفید بحث کی ہے۔ یہاں ہم اس سے چند فقرات نقل کرتے ہیں جو نہایت ہی مفید رہیں گے۔ وہ کہتے ہیں۔ " جیوس انسائیکلو پیڈیا طبع 1903 ء میں ہے کہ عزرا کا زمانہ یہودیوں کی تاریخ کا موسم بہار تھا۔ جس میں ہر طرف پھول کھلے ہوئے تھے ، اسے بجا طور پر یہ کہا جاسکتا تھا کہ اس نے شریعت کی گاڑی چلائی۔ اگر موسیٰ (علیہ السلام) پر شریعت نازل نہ ہوئی ہوتی۔ کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد شریعت کو بھلا دیا گیا تھا۔ عزرا نے شریعت کو دوبارہ پیش کیا اور زندہ کیا۔ اگر بنی اسرائیل غلطیاں نہ کرتے تو وہ اسی طرح کے معجزات دیکھتے جس طرح انہوں نے حضرت موسیٰ کے عہد میں دیکھے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے آشوری رسم الخط میں شریعت کو لکھا۔ جن الفاظ میں اسے شک گزرتا ان پر وہ علامت ڈال دیتا۔ یہودیوں کی تحریری تاریخ کے لیے ان کا عہد ماخذ ہے۔ جارج لوسٹ کتاب مقدس کی ڈکشنری میں لکھتے ہیں : عزرا یہودی کاہن ہے اور مشہور اہل قلم تھا جو طویل القامت ارتختشاہ کے دور میں بابل میں رہائش پذیر تھا۔ اس بادشاہ نے اپنی تخت نشینی کے ساتویں سال عزرا کو اجازت دی کہ اپنی قوم کی ایک بڑی تعداد کو لے کر یروشلم چلا جائے۔ یہ تقریباً 457 ق م کا واقعہ ہے۔ یہ لوگ چار ماہ میں وطن پہنچے۔ اس کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ یہودیوں کے عقائد کے مطابق عزرا کا مقام موسیٰ اور ایلیا کے برابر ہے۔ کہتے ہیں کہ اس نے ایک بہت بڑی اکیڈمی قائم کی اور کتاب المقدس کے مختلف اسفار کو جمع کیا اور قدیم عبرانی حروف کے بجائے اسے کلدانی حروف میں لکھا۔ انہوں نے الایام اور عزرا اور نحمیاہ کے اسفار تالیف کیے۔ مزدی کہتے ہیں کہ " عزرا " کی زبان ص 6-8:4 : 19 کلدانی ہے اسی طرح ص 7:1 ۔ 27 ۔ یہ لوگ غلامی سے واپس آنے کے بعد عبرانی مقابلے میں کلدانی زبان اچھی طرح سمجھتے تھے۔ " میں کہتا ہوں کہ تمام اقوام اور خصوصاً اہل کتاب کے درمیان مشہور یہ ہے کہ جس تورات کو حجرت موسیٰ نے لکھا تھا اور جسے تابوت میں یا اس کے پاس رکھا تھا۔ وہ عہد سلیمان سے گم ہوگئی تھی۔ کیونکہ ان کے زمانے میں جب تاتبوت کھولا گیا تو اس میں صرف وہ دو تختیاں تھیں جن میں دس وصیتیں تحریر تھیں۔ جیسا کہ سفر ملوک میں درج ہے۔ اور در اصل بعد میں تورات وغیرہ کو عزرا نے لکھا اور یہ بابل کی غلامی کے دور کے بعد کلدانی رسم الخط میں تحریر ہوئی۔ کلدانی زبان میں کچھ عبرانی الفاظ بھی شامل تھے جسے یہودیوں نے بھلا دیا تھا۔ اہل کتاب کہتے ہیں کہ عزرا نے اس طرح لکھا کہ گویا وہ اللہ کی طرف سے وحی ہے یا الہام ہے لیکن غیر لوگ اسے تسلیم نہیں کرتے۔ اس سلسلے میں بہت بڑے شکوک و شبہات اور اعتراضات کیے گئے ہیں جو تفصیل کے ساتھ ان کتابوں میں مذکور ہیں جو اس موضوع پر لکھی گئی ہیں۔ خود اہل کتاب کی کتابوں میں بھی یہ مذکور ہیں مثلاً کیتھولک دین وغیرہ) جو فرانسیسی میں لکھ گئی جس کے فصل گیارہ اور بارہ میں خصوصا یہ اعتراضات میں تفصیل کے ساتھ مذکورہ ہیں کہ آیا موسیٰ کے اسفار خمسہ اس میں سے ہیں یا نہیں۔ سفر عزرا میں ہے (4 ف 14 نمبر 21) کہ تمام مقدس اسفار آگ میں جل گئے تھے اور یہ بخت نصر کے دور میں۔ اس میں ہے " آگ نے تمہاری شریعت کو باطل کردیا ہے ، اس لیے کسی کے لیے یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ تم نے کیا کیا (میں سمجھتا ہوں کہ قرآن کلام صادق ہے ، اور اس نے یہ خبر دی ہے کہ تابوت میں بقیہ تھا) مزید یہ کہ عزرا نے روح القدس کی وحی کے ذریعہ ان اسفار مقدسہ کو دوبارہ جمع کیا جنہیں آگ نے جلا دیا تھا۔ اور ان کی تالیف میں ، ان کے معاصر پانچ لکھنے والوں نے ان کی امداد کی۔ اور یہی وجہ ہے کہ پادری تر ترلیانوس ، پادری ایر بناؤس ، ایرونیموس اور پادری یوحنا ، پادر باسیلوس وغیرہ۔ کہتے ہیں کہ عزرا معروف اسفار مقدسہ کا ترمیم کنندہ ہے۔ آخر میں لکھتے ہیں۔ " میں سمجھتا ہوں یہاں اس قدر کافی ہے لیکن یہاں ہم دو باتیں عرض کریں گے ، ایک کہ یہ تمام اہل کتاب اس عزرا کے مرہون منت ہیں جس نے ان کے دین کی اساس کو قائم کیا۔ اور ان کے دین کتب مقدسہ کو مرتب کیا۔ دوسرے کہ یہ ان کی یہ مستند کتب نسیاں اور غلطی سے محفوظ نہیں ہیں اور یہ بات آزاد یورپین محققین نے تسلیم کی ہے۔ (ہم فی ظلال القرآن میں محمد عبدہ کی مدرسہ فکر کے اس طرقہ اظہار طرف تنیہ کرتے رہے ہیں۔ یہ لوگ مغرب کی آزاد فکر کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں جو اسلامی طرز فکر سے اجنبی ہے۔ یہ لوگ اپنی اس طرز فکر کی وجہ سے یورپ کے آزاد خیال مفکرین کو اہمیت دیتے ہیں۔ اسی طرح یہ لوگ مغرب کے جمہوری اداروں ، بنیادی حقوق اور طرز حیات کو بنظر استحسان دیکھتے ہیں۔ ہم نے بارہا اس طریقے اور طرز عمل کی خطرناکیوں کی طرف فی ظلال القرآن میں قارئین کو متنبہ کیا ہے۔ ہمیں مغربی افکار کا نہایت ہی عمیق نظر سے جائزہ لینا چاہیے۔ برٹش انسائکلو پیڈیا میں ان کی سوانح اور ان کے " سفر " اور لحمیاہ کے سفر میں لکھا ہے کہ انہوں نے تلف شدہ اسفار کو بھی لکھا اور اس کے علاوہ ستر جعلی اسفار بھی تحریر کیے۔ اس کے بعد مقالہ نگار نے ان کے بارے میں لکھا۔ " جب حال یہ ہو کہ عزرا کی کہانی کو بعض مورخین نے اپنی جانب سے لکھا ہو اور اسے کسی دوسری کتاب کی طرف منسوب بھی نہ کیا ہو تو جدید دور کے اہل قلم یہ سمجھیں گے کہ ان اسفار کو راوی نے ازخود گھڑ لیا ہے۔ (دیکھئے ج 9، ص 14) " غرض یہودی پہلے بھی حضرت زیر کا احترام کرتے تھے اور اب بھی کرتے ہیں یہاں تک کہ بعض نے اسے ابن اللہ بھی کہا۔ سوال یہ ہے کہ انہوں نے ان کے لیے ابن اللہ کا لقب بطور احتارم اس طرح استعمال کیا جس طرح انہوں نے سلیمان اور داود کے لیے استعمال کی اتھا یاس اس معنی میں استعمال کی اجو ان کے ایک فیلفوف (فیلو) سمجھتے ہیں جس کا ذکر آگے آ رہا ہے۔ جو ہندوستانیوں کا اصل فلسفہ ہے اور جو عقائد نصاری کی بنیاد ہے۔ البتہ مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ تمام یہودی عزیر کو ابن اللہ نہ سمجھتے تھے بلکہ بعض لوگ ایسے تھے " " ان کے بارے میں ابن اللہ ہونے کا عقیدہ کون لوگ رکھتے تھے۔ مدینہ کے بعض یہودیوں کا یہی عقیدہ تھا۔ جیسا کہ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے صراحت کی۔ اور جس طرح وہ یہ عقیدہ بھی رکھتے تھے۔ ید اللہ مغلولۃ اور یہ عقیدہ لقد کفر الذین قالوا ان اللہ فقیر و نحن اغنیاء۔ یہ بات وہ لوگ قرآن کی اس آیت کے جواب میں کہتے تھے۔ من ذا الذی یقرض اللہ قرضا حسنا اور یہ بھی ممکن ہے کہ مدینہ کے یہودیوں کے علاوہ بھی کوئی فرقہ ان کو ابن اللہ سمجھتا ہو ، لیکن ان کا عقیدہ ہم تک نہ پہنچا ہو۔ " ابن اسحاق نے اور ابن جریر نے ابن ابو حاتم ، ابو الشیخ ، و ابن مردویہ نے ابن عباس سے یہ روایت نقل کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سلام ابن مشکم ، نعمان بن اوفی اور ابو انس ، مالک ابن الضیف اور شاس ابن قیس آئے اور کہا : ہم کس طرح تمہاری اطاعت میں آجائیں۔ تم نے ایک تو ہمارا قبلہ ترک کردیا دوسرے یہ کہ تم حضرت عزیر کو ابن اللہ نہیں سمجھتے " یہ بات بھی معلوم ہے کہ بعض نصاری جو حضرت مسیح کو ابن اللہ سمجھتے تھے وہ یہودی الاصل تھے (فیلو) اسکندریہ کا معروف فلسفی جو میسح کے معاصر تھے ، یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اللہ کا ایک بیٹا ہے اور یہ بیٹا اس کا وہ کلمہ ہے جس کے ذریعے اس نے تمام اشیاء کی تخلیق کی۔ لہذا یہ بعید از امکان نہیں ہے کہ بعثت محمد کے وقت یہودیوں میں کچھ ایسے لوگ ہوں جنہوں نے عرب کے بارے میں ابنیت کا عقیدہ اپنایا ہوا ہو۔ اگرچہ اس مفہوم میں " اس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ قرآن کریم نے یہودیوں کے بارے میں جو یہ کہا ہے کہ وہ عزیر کو ابن اللہ سمجھتے ہیں ، ان کا پس منظر کیا ہے ، اس موقع پر سیاق کلام سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے لہذا قرآن کریم نے جس حوالے سے بات کی ہے وہ یہ ہے کہ بعض یہودی یہ عقیدہ رکھتے تھے اور ان میں سے بعض لوگوں کا عقیدہ اس قدر فاسد ہوگیا تھا کہ وہ اپنے اس عقیدہ ابنیت کے ساتھ ساتھ مومن نہ کہلا سکتے تھے اور نہ ان کے بارے میں یہ کہا جاسکتا تھا کہ وہ دین حق پر تھے اور اہل کتاب کے ساتھ یہاں قتال کا جو حکم دیا گیا کہ اس کی بنیادی صف اور سبب بھی یہی فساد عقیدہ ہے۔ قتال کا مقصد یہ نہیں ہے کہ انہیں اپنا مذہب ترک کرنے پر مجبور کیا جائے اور پھر اسلام میں داخلے پر مجبور کیا جائے۔ بہرحال مقصد صرف یہ ہے کہ ان کی قوت اور شوکت کو توڑ کر ان کو ایک ایسے نظام مملکت کا تابع کردیا جاے جس میں ہر انسان کے لیے مکمل حریت اور آزادی ہو اور وہ مملکت اسلامی کے پھیلاؤ کی راہ میں رکاوٹ نہ ہوسکے۔ اور ان کے سامنے حریت اختیار عقیدہ کے حوالے سے کوئی رکاوٹ نہ ہو اور نہ ان پر کسی جانب سے کوئی دباؤ ہو کہ وہ کیا عقیدہ اختیار کریں۔ رہا نصاری کا یہ عقیدہ کہ مسیح ابن اللہ ہیں اور وہ تینوں میں سے ایک ہیں۔ تو یہ ان کا مشہور عقیدہ ہے۔ جب سے پولس نے عیسائیت کو رسولوں کے عام عقیدہ توحید سے نکال کر انہیں شرکیہ عقائد دیے اور اس کے بعد ان کی مختلف مجالس نے اس تحریف کو مکمل کرکے عیسائیت کے نظام تصور سے عقیدہ توحید کو مکمل طور پر نکال دیا ہے۔ تب سے وہ عقیدہ تثلیث پر قائم ہیں اور ان کے تمام مذاہب نے اس عقیدے کو اپنا رکھا ہے۔ میں یہاں پھر استاد محمد رشید رضا کی تفسیر کے اقتباسات پر اکتفا کروں گا۔ وہ تثلیث (Trinity) کے بارے میں لکھتے ہیں :۔ " یہ لفظ عیسائیوں کے ہاں اقانیم ثلاثہ پر بولا جاتا ہے۔ ان کے لاہوتی مباحث میں اب ، ابن اور روح القدس کے نام سے مشہور ہیں۔ یہ مشرقی کیتھولک کنیسا کے عقائد ہیں اور عموماً تمام پروٹسٹنٹ بھی اسی کے قائل ہیں۔ شاذ و نادر افراد ہی اس کے خلاف ہوں گے جو لوگ اس عقیدے پر جمے ہوئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ کتاب مقدس کے نصوص پر یہ عقیدہ قریب تر کرے۔ لاہوتی علماء نے اس عقیدے کے حوالے سے نہایت ہی پیچیدہ فلسفیانہ تشریحات کا اضافہ بھی کیا ہے جو ان کی قدیم مجالس اور بڑے علماء کی تحریروں پر بنی تھیں۔ اکثر مباحث کا تعلق اقنوم ثانی کی پیدائش کے طریقوں اور پھر اس سے اقنوم ثالث کے پھوٹنے کے طریق کار سے متعلق ہیں۔ پھر ان تین اقانیم کے درمیان جو نسبت ہے۔ اس پر مباحث ہیں۔ پھر ہر اقنوم کی صفات اور القاب کے بارے میں کلام ہے۔ لیکن لفظ " ثالث " انجیل میں موجود نہیں ہے۔ اسی طرح عہد قدیم میں کوئی آیت بھی ایسی نہیں ہے جس میں تثلیث کی تصریح کی گئی ہو۔ قدیم مسیحی مولفین نے ایسی آیات نقل کی ہیں جن میں اس عقیدے کی اجتماعی صورت نظر آتی ہے لیکن ان تمام آیات کی مختصر تفسیر اور تشریح بھی کی جاسکتی ہے لہذا ان آیات کو عقیدہ تثلیث پر قطعی دلیل کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا ، بلکہ وہ واضح وحی کی طرف اشارہ ہے جو ان کے عقیدے کے مطابق عہد جدید میں موجود ہے۔ عہد جدید آیات کے دو بڑے مجموعے اس عقیدے کے ثبوت کے لیے نقل کیے گئے ہیں۔ ایک مجموعہ ان آیات کا ہے جن میں اب ، ابن اور روح القدس کا یکجا ذکر ہے۔ اور دوسرا مجموعہ ان آیات کا ہے جن میں ہر ایک کا ذکر علیحدہ علیحدہ ہوا ہے اور جن میں ان کی اہم خصوصی صفات کا ذکر ہے اور ان کے باہم نسبت کا ذکر ہے " " ذات باری میں اقانیم کا تنازعہ رسولوں کے زمانے میں پیدا ہوا۔ یہ ہیلانی اور غنوسطی فلسفوں کے نتیجے میں پیدا ہوا۔ دوسری صدی میں تھیو فیلوس اسقف انطاکیہ نے یونانی کا لفظ تریاس استعمال کیا۔ اس کے بعد ترتلیانوس نے لفظ ترینیت اس استعمال کیا۔ یہ لفظ ثالوث کے مترادف تھا۔ اس عقیدے کے بارے میں نیقیا کی پہلی مجلس سے ما قبل سے زمانے میں زبرست جدل وجدال رہا۔ خصوصاً مشرقی کلیسا مٰں۔ اور مشرقی کلیسا نے ان تمام آراء کو بدعتی آرا قرار دیا۔ ان میں ابیونیوں کی آرا شامل ہیں۔ جن کا عقیدہ یہ تھا کہ مسیح انسان محض ہیں۔ اسی طرح سابلیوں کے عقائد بھی اسی میں شامل تھے جو یہ عقیدہ رکھتے تھے اب ، ابن اور روح القدس تینوں مختلف اوصاف جن کا اطلاق اللہ نے اپنی ذات پر کیا ہے۔ اسی طرح اریوسی بھی تھے جن کے عقائد یہ تھے کہ بیٹا ازلی نہیں ہے بلکہ باپ کی مخلوق ہے۔ لیکن اس کی تخلیق ، تخلیق عالم سے پہلے ہوئی ہے۔ لہذا اس کا درجہ رب سے کم ہے۔ بلکہ یہ رب کے تابع اور مطیع ہے۔ ان میں مقدونی بھی تھے جن کا عقیدہ یہ تھا کہ روح القدس سرے سے اقنوم ہی نہیں ہے " آج کل کلیسا کے جو عقائد ہیں 325 میں نیقیا کی مجلس نے وضع کیا ہے۔ اس کے بعد قسطنطنیہ کی کانفرنس نے 381 ء میں اس کی توثیق کی۔ فیصلہ یہ ہوا کہ ابن اور روح القدس دونوں خدائی اور الوہیت میں باپ کے برابر ہیں اور ابن ازل ہی میں باپ کے ساتھ ہی پیدا ہوا۔ جبکہ روح القدس رب سے نکلا۔ پھر طلیطہ کی مجلس نے 589 میں یہ فیصلہ کردیا کہ روح باپ کے ساتھ بیٹے سے بھی پھوٹا۔ چناچہ پورے لاطینی کلیسا نے اس ترمیم کو قبول کرلیا۔ رہا یونانی کلیسا تو وہ پہلے خاموش رہا۔ لیکن بعد میں اس نے یہ دلائل دیے کہ یہ ترمیم بدعتی ہے۔ عقائدگی کا فقرہ (اور بیٹے سے بھی) یونانی اور کیتھولک کلیسا کے درمیان ہمیشہ باعث اختلاف رہا۔ لوتھرین اور دوسرے اصلاح پسند کلیساؤں کیتھولک کلیسا کے اصل عقائد کو جاری رکھا لیکن تیرہویں صدی کے جمہور اہل کلیسا نے ان کی مخالفت کی اور بعض جدید علمائے الہیات اور اور بعض جدید فرقوں مثلاً سوسینین جرمانین ، محصدین ، عمومیوں وغیرہ نے یہ قرار دیا کہ یہ عقائد کتاب مقدس اور عقل دونوں کے ساتھ لگا نہیں کھاتے۔ مسٹر سویڈ تیرگ نے حضرت مسیح کے اوپر تثلیث کے لفظ کا اطلاق بطور نشان کیا۔ یعنی انہوں نے مختلف اقنونوں کی تثلیث کے بجائے ایک اقنوم کی تثلیث کا نظریہ دیا۔ اس کا مطلب یہ تھا مسیح کی ذات میں جو الوہیت تھی ، وہ رب تھا۔ اور مسیح کی طبیعی ذات کے ساتھ جس کا تعلق تھا وہ ابن تھا اور اس سے جو پھوٹا وہ روح القدس تھا۔ لوتھرین کلیسوں میں جو خیالات ایک عرصے تک پھیلے ان کی وجہ سے جرمانی علماء الہیات کے اعتقادات میں بڑا تزلزل پیدا ہوا اور ایک عرصے تک رہا " " کنٹ کا نظریہ یہ تھا کہ الہیہ میں جو تین صفات تھیں نا کا نام رب ، ابن اور روح القدس ہے۔ ان سے مراد قدرت ، حکمت اور محبت ہے۔ یا ان سے مراد تین اعلی افعال ہیں یعنی تخلیق ، حفاظت اور کنٹرول ہیں۔ ہیبجین اور شلنگ نے ایک تخلیاتی اساس دی ہے اور نتاحر جرمانی علمائے الہیات نے اس کی تقلید کی ہے۔ انہوں نے نظریہ تثلیث کا دفاع تخیلاتی اساس پر کیا۔ بعض علماء لاہوت جو وحی پر اعتماد کرتے ہیں وہ تحقیق کی بنیادوں پر اہل کلیسا کی آراء کو درست نہیں سمجھتے۔ یعنی ان آراء کو جن کا فیصلہ مجالس نیقیا ، قسطنطنیہ ، ماضی قریب میں سابیلیوں کی حمایت بہت لوگوں نے کی ہے " اس اجمالی بحث کے بعد معلوم ہوجاتا ہے کہ اہل کنیسا کے تمام فرقے اور مذاہب دین حق پر نہیں ہیں۔ کسی کے ہاں عقیدہ توحید صحیح معنوں میں نہیں پایا جاتا۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ جیسا کوئی نہیں ہے اور یہ کہ اللہ لم یلد و لم یولد کا مصداق ہے۔ اریوسی بارہا یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ موحد ہیں ، ان لوگوں کا یہ دعوی گمراہ کن ہے کیونکہ وہ اس طرح موحد نہیں جس طرح مسلمان موحد ہیں بلکہ انہوں نے اپنے عقائد کے اندر اختلاط کردیا ہے۔ وہ ایک طرف یہ اقرار کرتے ہیں کہ حضرت مسیح اللہ کی طرح ازلی نہیں ہے اور ان کی یہ بات درست بھی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ابنیت کے بھی قائل ہیں اور اس کے بھی قائل ہیں کہ حضرت مسیح عالم سے بھی پہلے کی مخلوق تھے۔ لہذا یہ عقیدہ عقیدہ توحید نہیں کہلایا جاسکتا۔ اللہ نے تو ان لوگوں کو صریحاً کافر کہہ دیا ہے کہ مسیح ابن اللہ ہے یا وہ تینوں میں سے ایک ہے۔ لہذا کفر کی صفت اور ایمان کی صفت ایک ہی عقیدے میں کس طرح جمع ہوسکتے ہیں جبکہ یہ متضاد صفات اور متضاد امور ہیں۔ قرآن کریم نے یہودیوں کے قول (عزیر ابن اللہ ہیں) اور عیسائیوں کے قول کہ (عیسی ابن اللہ ہیں) پر جو تبصرہ کیا ہے اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ان کی بات دوسرے کفار کے تصورات اور معتقدات کے برابر ہے۔ وَقَالَتِ الْيَهُوْدُ عُزَيْرُۨ ابْنُ اللّٰهِ وَقَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِيْحُ ابْنُ اللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ قَوْلُهُمْ بِاَفْوَاهِهِمْ " یہودی کہتے ہیں کہ عزیر اللہ کا بیٹا ہے۔ یہ بےحقیقت باتیں ہیں جو وہ اپنی زبانوں سے نکالتے ہیں۔ ان لوگوں کی دیکھا دیکھی جو ان سے پہلے کفر میں مبتلا ہوئے تھے " اس سے معلوم ہوا کہ یہ بات ان سے صادر ہوئی تھی ، محض ان کی طرف منسوب ہی نہیں ہے۔ اور یہاں (افواھھم) کے لفظ کو بےمقصد نہیں لایا گیا بلکہ جب وہ یہ قول کر رہے تھے تو اس وقت ان کے چہرے کی جو حسی کیفیت تھی اس کی طرف بھی اشارہ مقصود تھا لہذا یہ اعتراض نہیں کیا جاسکتا کہ افواھھم کا لفظ زائد ہے اور بےمقصد ہے کیونکہ اللہ کے شایان شان یہ نہیں کہ وہ کوئی بےمقصد بات کرے۔ نہ یہ طوالت ہے۔ کیونکہ قرآن کریم کا یہ انداز ہے کہ وہ تصویر کشی میں حقیقی صورت حال کو سامنے لاتا ہے۔ پھر اس لفظ سے یہ اشارہ دینا بھی مطلوب ہے کہ یہ ان کی جانب سے محض ہوائی بات ہے۔ اس کے پیچھے کوئی حقیقت نہیں ہے۔ یہ صرف قول ہی قول ہے۔ اس کا کوئی مفہوم نہیں ہے۔ يُضَاهِئُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَبْلُ " یہ باتیں ان لوگوں کے دیکھا دیکھی یہ کر رہے ہیں جو ان سے پہلے کفر میں مبتلا ہوئے "۔ مفسرین یہ کہتے تھے کہ ان لوگوں کا عقیدہ ابنیت اسی طرح ہے جس طرح مشرکین کا عقیدہ ابنیت ملائکہ تھا۔ اور ملائکہ کی ابنیت کے عرب قائل تھے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے۔ لیکن آیت کا مفہوم اس سے وسیع تر ہے۔ اور اس کی وضاحت اچھی طرح تب ہوئی جب لوگوں تک ہندو بت پرستوں کے عقائد پہنچے۔ یہ عقائد قدیم مصری بت پرستوں اور یونانیوں کے عقائد سے ملتے جلتے ہیں۔ اور یہی عقائد اہل کتاب کے اندر سرایت کرگئے۔ خصوصاً نصاری کے عقائد کے اندر۔ سب سے پہلے " پولوس رسول " کے عقائد میں یہ تصورات داخل ہوئے اور اس کے بعد نصاریٰ کی نظریاتی مجالس میں غلبہ پا کر یہ پھیل گئے۔ مصری تثلیث کے اجراء اور زوریس (رب) ایزیس اور موریس (ابن) فرعون بت پرستی کا اصل الاصول ہے۔ حضرت مسیح کی پیدائش سے بھی پہلے جو فلسفہ الہیات اسکندریہ میں پڑھایا جاتا تھا اس میں " کلمہ " کو دوسرا الہہ کہا گیا تھا۔ اور اسے " اللہ کا کنوارا بیٹا " بھی کہا جاتا تھا۔ ہندو بھی تین اقانیم کے قائل تھے یا وہ ان کو الہہ کے تین حالات سے تعبیر کرتے تھے جن میں اللہ تجلی فرماتا ہے۔ تخلیق وتکوین کی حالت میں اسے برہما کہا جاتا ہے۔ حفاظت اور قیم کی حیثیت سے وہ " وشنو " ہے اور ہلاک کرنے اور برابد کرنے کی حالت میں " وسیقا " کہا جاتا ہے۔ اس عقیدے کے مطابق وشنو (ابن) ہوتا ہے اور وہ برنیما کی الوہیت سے پھوٹتا ہے۔ اشوری بھی کلمہ کے قائل تھے۔ اسے وہ " مردوخ " کہتے تھے اور وہ مردوخ کو " اللہ کا کنوارا بیٹا " کہتے تھے۔ یونانی بھی مثلث الا قانیم الہہ کے قائل تھے۔ جب ان کے کہاں زبیح کرتے تو ان پر تین بار مقدس پانی چھڑکتے اور اسی طرح وہ خوشبو کے برتن سے تین انگلیوں میں خوشبو لیتے۔ اور اس ذبیحے کے ارد گرد جتنے لوگ ہوتے۔ ان پر اس خوشبو کو تین بار چھڑکتے اور یہ سب اشارات و تثلیث کی طرف کرتے تھے۔ کنیسہ نے یہی اشارات اخذ کرکے اپنے ہاں رسوم و عبادات کو اس طرح منطم کیا کہ وہ دوسرے کفار کے اقوال سے مشابہ ہوگئے۔ نزول قرآن کے وقت قدیم مشرکین کے یہ عقائد عام نہ تھے لیکن اس کے باوجود علیم وخبیر نے فرمایا یضاھئون قول الذین کفرو من قبل " یہ لوگ یہ باتیں ان لوگوں کی دیکھا دیکھی کرتے ہیں جو ان سے پہلے کفر میں مبتلا ہوئے "۔ نیز ان عقائد سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اہل کتاب دین حق پر نہیں ہیں اور ان کا ایمان ، ایمان صحیح نہیں ہے اور اس کے علاوہ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے قرآن مجید علیم وخبیر کی جانب سے ایک کلام معجز نما ہے اور اس کا سرچشمہ صرف ذات باری ہے۔ اس فیصلے اور وضاحت کے بعد آیت کے آخر میں یہ بتایا جاتا ہے کہ اہل کتاب شرک و کفر کے کس موقف پر قائم ہیں ؟ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ " خدا کی مار ہو ان پر کہاں سے دھوکہ کھا رہے ہیں "۔ ان کو خدا تباہ کرے ، کس طرح وہ حق سے روگردانی کرتے ہیں حالانکہ وہ سیدھا سادھا اور واضح ہے اور بت پرستی کو اپنانے میں جو نہایت ہی پیچیدہ اور گنجلک ہے اور کوئی عقلمند اور ذی ہوش انسان بت پرستی کو سمجھ ہی نہیں سکتا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

یہود و نصاریٰ کی تردید جنہوں نے حضرت عزیر اور حضرت مسیح ( علیہ السلام) کو خدا تعالیٰ کا بیٹا بتایا پہلی آیت میں اہل کتاب سے قتال کرنے کا حکم دیا اور ارشاد فرمایا کہ ان سے یہاں تک قتال کرو کہ وہ ذلیل ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں۔ اس کے بعد یہود و نصاریٰ کا عقیدہ شرکیہ بیان فرمایا جس سے معلوم ہوا کہ جیسے دوسرے مشرک اپنے شرک میں لگے ہوئے ہیں اسی طرح یہود و نصاریٰ بھی مشرک ہیں۔ جن انبیاء کرام (علیہ السلام) سے اپنا تعلق جوڑتے ہیں انہوں نے توحید کی دعوت دی تھی اور اسی دعوت کو لے کر اللہ پاک کی طرح مبعوث ہوئے تھے بعد میں ان کے ماننے والوں نے (جو ماننے کا جھوٹا دعویٰ کرتے ہیں) توحید کو چھوڑ دیا اور عقائد شرکیہ اختیار کرلیے اور زبانوں سے بھی شرکیہ باتیں کرنے لگے۔ یہودیوں نے تو یوں کہا کہ عزیر (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں اور نصاریٰ نے یوں کہا کہ مسیح یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے ان کا قول ذکر کرنے کے بعد فرمایا (ذٰلِکَ قَوْلُھُمْ بِاَفْوَاھِھِمْ ) کہ یہ ان کی باتیں ہیں جو ان کے مونہوں سے نکل رہی ہیں یہ اپنی باتوں میں جھوٹے ہیں۔ ان کی باتوں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں اور ان کی باتوں کی کوئی دلیل اور کوئی سند نہیں۔ پھر فرمایا (یُضَاھِءُوْنَ قَوْلَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ ) (ان سے پہلے جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کی باتیں ان کی باتوں کے مشابہ ہیں) حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ (الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ ) (جنہوں نے ان سے پہلے کفر اختیار کیا) سے مشرکین مراد ہیں۔ جنہوں نے فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں بتایا اور اس عقیدہ کے جو لوگ ہیں یعنی یہود و نصاریٰ وہ اپنے اسلاف کی بات پر جمے ہوئے ہیں۔ (روح المعانی ص ٨٣ ج ١) پھر فرمایا (قٰتَلَھُمُ اللّٰہُ ) اس کا لفظی معنی تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ہلاک کرے۔ اور حضرت ابن عباس نے اس کے مجازی معنی لیے ہیں اور فرمایا ہے کہ اس سے لعنت کرنا مراد ہے۔ (اَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ ) (وہ کہاں الٹے پھرے جا رہے ہیں) ان کو توحید کی دعوت دی گئی ہے اسے چھوڑ کر شرک اختیار کیے ہوئے ہیں اور حق کو چھوڑ کر باطل میں لگے ہوئے ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

25: قتال کی وجہ ثالث : ابن اللہ سے یہاں نسبی اور جسمانی بیٹا مراد نہیں بلکہ مراد نائب متصرف ہے۔ “ قال ابن عطیة ویقال ان بعضھم یعتقھا بنوة حنو و رحمة ” (قرطبی ج 8 ص 117) یعنی وہ اللہ کو اس قدر پیارے ہیں کہ اس نے ان کو اختیار دے رکھیں ہیں۔ یہودی حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اور نصاریٰ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا نائب متصرف اور کارساز سمجھتے ہیں۔ “ يُضَاھِئُونَ ای یُشَابِھُونَ ۔ الَّذينَ کَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ ” سے ان کے آباء و اجداد مراد ہیں جن سے ان کو یہ کفریہ عقیدہ اور قول ورثہ میں ملا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

30 اور یہود کے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ عزیر (علیہ السلام) خدا کا بیٹا ہے اور نصاریٰ عام طور سے کہتے ہیں کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) خدا کا بیٹا ہے یہ باتیں ان کے منہ کی ہیں یہ بھی ان لوگوں کی سی باتیں کرتے ہیں جوان سے پہلے کافر کہا کرتے تھے اللہ تعالیٰ ان کو ہلاک کرے یہ کدھر پھرے جارہے ہیں۔ کفار مکہ کہا کرتے تھے فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں یہودو نصاریٰ کا قول بھی انہی کافروں کے مشابہ ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی اہل کتاب ہوکر مشرکوں کی ریس کرنے لگے۔