Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 8

سورة التوبة

کَیۡفَ وَ اِنۡ یَّظۡہَرُوۡا عَلَیۡکُمۡ لَا یَرۡقُبُوۡا فِیۡکُمۡ اِلًّا وَّ لَا ذِمَّۃً ؕ یُرۡضُوۡنَکُمۡ بِاَفۡوَاہِہِمۡ وَ تَاۡبٰی قُلُوۡبُہُمۡ ۚ وَ اَکۡثَرُہُمۡ فٰسِقُوۡنَ ۚ﴿۸﴾

How [can there be a treaty] while, if they gain dominance over you, they do not observe concerning you any pact of kinship or covenant of protection? They satisfy you with their mouths, but their hearts refuse [compliance], and most of them are defiantly disobedient.

ان کے وعدوں کا کیا اعتبار ان کا اگر تم پر غلبہ ہو جائے تو نہ یہ قرابت داری کا خیال کریں نہ عہد و پیمان کا اپنی زبانوں سے تمہیں پرچا رہے ہیں لیکن ان کے دل نہیں مانتے ان میں سے اکثر تو فاسق ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah says, كَيْفَ وَإِن يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ لاَ يَرْقُبُواْ فِيكُمْ إِلاًّ وَلاَ ذِمَّةً يُرْضُونَكُم بِأَفْوَاهِهِمْ وَتَأْبَى قُلُوبُهُمْ وَأَكْثَرُهُمْ فَاسِقُونَ How when if you are overpowered by them, they regard not the ties, either of kinship, (Ill) or of covenant (Dhimmah)! With their mouths they please you, but their hearts are averse to you, and most of them are rebellious. Allah encourages the believers to show enmity to the idolators and to dissociate from them, affirming that they do not deserve to enjoy a covenant of peace, because of their Shirk in Allah and disbelief in Allah's Messenger. If these disbelievers have a chance to defeat Muslims, they will cause great mischief, leave nothing unharmed, disregard the ties of kinship and the sanctity of their vows. Ali bin Abi Talhah, Ikrimah and Al-Awfi narrated that Ibn Abbas said, "Ill means kinship, while, Dhimmah means covenant." Ad-Dahhak and As-Suddi said similarly.

کافروں کی دشمنی اللہ تعالیٰ کافروں کے مکر و فریب اور ان کی دلی عداوت سے مسلمانوں کو آگاہ کرتا ہے تاکہ وہ ان کی دوستی اپنے دل میں نہ رکھیں نہ ان کے قول و قرار پر مطمئن رہیں ان کا کفر شرک انہیں وعدوں کی پابندی پر رہنے نہیں دیتا ۔ یہ تو وقت کے منتظر ہیں ان کا بس چلے تو یہ تو تمہیں کچے چبا ڈالیں نہ قرابت داری کو دیکھیں نہ وعدوں کی پاسداری کریں ۔ ان سے جو ہو سکے وہ تکلیف تم پر توڑیں اور خوش ہوں ۔ آل کے معنی قرابت داری کے ہیں ۔ ابن عباس سے بھی یہی مروی ہے اور حضرت حسان کے شعر میں بھی یہی معنی کئے گئے ہیں کہ وہ اپنے غلبہ کے وقت اللہ کا بھی لحاظ نہ کریں گے نہ کسی اور کا ۔ یہی لفظ ال ایل بن کر جبریل میکائیل اور اسرافیل میں آیا ہے یعنی اس کا معنی اللہ ہے لیکن پہلا قول ہی ظاہر اور مشہور ہے اور اکثر مفسرین کا بھی یہی قول ہے ۔ مجاہد کہتے ہیں مراد عہد ہے قتادہ کا قول ہے مراد قسم ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

8۔ 1 مشرکین کی زبانی باتوں کا کیا اعتبار، جب کہ ان کا یہ حال ہے کہ اگر تم پر غالب آجائیں تو کسی قرابت اور عہد کا پاس نہیں کریں گے۔ بعض مفسرین کے نزدیک پہلا کیف مشرکین کے لئے ہے اور دوسرے سے یہودی مراد ہیں، کیونکہ ان کی صفت بیان کی گئی ہے کہ اللہ کی آیتوں کو کم قیمت پر بیچ دیتے ہیں۔ اور یہ وطیرہ یہودیوں کا ہی رہا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨] چونکہ اب ان کا مسلمانوں پر قابو نہیں رہا اور مسلمان ایک مقابلہ کی طاقت بن چکے ہیں اس لیے وہ معاہدہ کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں لیکن اس وقت بھی زبانی دعوے کر کے تمہیں خوش رکھنا چاہتے ہیں۔ ورنہ ان کے دل ایک منٹ کے لیے بھی اس عہد پر راضی نہیں ہوتے اور عہد شکنی کے لیے مناسب موقعہ کے انتظار میں رہتے ہیں پھر جب انہیں ایسا موقعہ میسر آجاتا ہے تو پھر انہیں نہ اپنا عہد یاد رہتا ہے اور نہ قرابت کا خیال آتا ہے ایسی بدعہد اور دغا باز قوم سے اللہ اور اس کے رسول کا کیا عہد ہوسکتا ہے ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

كَيْفَ وَاِنْ يَّظْهَرُوْا عَلَيْكُمْ لَا يَرْقُبُوْا : مشرکین سے ” براءت “ کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کے معاہدے کا کوئی اعتبار نہیں، یہ لوگ زبان سے دوستی اور وفاداری کی میٹھی میٹھی باتیں کرتے ہیں اور دل میں یہ ہے کہ اگر کبھی موقع مل جائے تو معاہدے کو پس پشت ڈال کر ان مسلمانوں کو کچا چبا ڈالیں۔ ” اَلْاِلُّ “ کے معنی عہد، حلف، قرابت سبھی آتے ہیں اور یہاں آگے ” ذِمَّةً “ ( عہد) الگ ذکر ہونے کی وجہ سے قرابت مراد ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Earlier when it was said that disbelieving people had nursed betrayal in their hearts right from the beginning and had no intention of staying faithful to their pledge, an exception was also granted. Simi¬larly, when the text says: أَكْثَرُ‌هُمْ فَاسِقُونَ (Most of them are sinners - 8), it hints that all of them were not like that. There were some nice people among them too, who wanted to stand by their commitment, but they were not heard before others. This is the same subject the Holy Qur&an takes up elsewhere say¬ing in very clear terms: لَا يَجْرِ‌مَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا (and malice against a people should not bid you to not doing justice - 5:8) After that comes the ninth verse with the reason why these Mush¬riks were so chronically treacherous and what was it that ailed them. Thus, they too were given a prescription of hope to ponder about so that they could still correct themselves if they chose to. At the same time, Muslims at large were also served with a warning that they should take their guard against the pitfall of treachery and disobedi¬ence which had sucked these people in and make a total abstention from this behavior model their distinct life style. The reason is their relentless love of the material. The desire to acquire, possess and ex¬pend the limitless range of things of this world had blinded them to the limit that they would not hesitate to sell off the very Words of Al¬lah and their own faith in exchange for paltry gains. This character is, to make an understatement, evil. Moving on to the tenth verse, the text describes the extreme crook¬edness of these people by saying: لَا يَرْ‌قُبُونَ فِي مُؤْمِنٍ إِلًّا وَلَا ذِمَّةً (They do not ob¬serve, in the case of a believer, any bond or treaty). The sense is that this was no isolated case of disbelieving people acting treacherously against Muslims to whom they were bound by ties of kinship and trea¬ty obligations. In fact, disbelieving people were a lot who would never consider kinship or pledge as valid grounds when dealing with Muslims. Given the aforesaid behavior pattern of disbelieving people, it could have been but natural for Muslims to have become disillusioned with them forever and refuse to have any brotherly relationship with them under any condition. Therefore, as the Qur&anic justice and equity would have it, the eleventh verse gives the following instruction:

اس کے بعد عہد شکنی کرنے والوں کا جہاں یہ حال بیان فرمایا کہ ان لوگوں کے دلوں میں شروع ہی سے خیانت تھی وفائے عہد کا ارادہ ہی نہ تھا یہاں بھی اَكْثَرُهُمْ فٰسِقُوْنَ فرما کر اشارہ کردیا کہ ان میں بھی سب کا یہ حال نہیں بعض شریف لوگ ایسے بھی ہیں جو عہد پر قائم رہنا چاہتے تھے مگر دوسروں کے سامنے ان کی بات نہ چلی۔ یہ وہی مضمون ہے جس کی ہدایت قرآن کریم نے دوسری جگہ صاف لفظوں میں اس طرح دی ہے (آیت) لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓي اَلَّا تَعْدِلُوْا۔ یعنی کسی قوم کی عداوت تمہیں اس پر آمادہ نہ کردے کہ تم انصاف کو چھوڑ بیٹھو۔ اس کے بعد نویں آیت میں ان غدار مشرکین کی غداری کی علت اور ان کے مرض کا سبب بیان فرما کر ان کو بھی ایک ہدایت نامہ دے دیا کہ اگر یہ غور کریں تو اپنی اصلاح کرلیں اور عام مسلمانوں کو بھی متنبہ کردیا کہ جس سبب سے یہ لوگ غدر و خیانت میں مبتلا ہوئے اس سبب سے پورے طور پر پرہیز کو اپنا شعار بنالیں۔ اور وہ سبب ہے حب دنیا کہ دنیا کے مال و متاع کی محبت نے ان کو اندھا کردیا ہے تھوڑے سے پیسوں کے بدلہ میں اللہ کی آیات اور اپنے ایمان کو بیچ ڈالتے ہیں۔ اور ان کا یہ کردار نہایت برا ہے۔ دسویں آیت میں انھیں لوگوں کی انتہائی کجروی کا یہ بیان ہے (آیت) لَا يَرْقُبُوْنَ فِيْ مُؤ ْمِنٍ اِلًّا وَّلَا ذِمَّةً ۔ یعنی صرف یہی نہیں کہ ان لوگوں نے عہد کرنے والے مسلمانوں سے غداری کی اور ان کی قرابت اور عہد و پیمان کو پیچھے ڈال دیا بلکہ ان کا حال یہ ہے کہ کسی مسلمان کے بارے میں نہ یہ قرابت کی رعایت کرنے والے ہیں نہ کسی عہد و پیمان کی۔ مشرکین کے مذکورہ حالات کا طبعی تقاضا یہ ہوسکتا تھا کہ مسلمان ان سے ہمیشہ کے لئے بیزار ہوجائیں۔ اور کسی حالت میں بھی ان کے ساتھ برادرانہ تعلقات قائم کرنے کے لئے تیار نہ ہوں۔ اسی لئے قرآنی عدل و انصاف نے گیا رھویں آیت میں یہ ہدایت دے دی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

كَيْفَ وَاِنْ يَّظْہَرُوْا عَلَيْكُمْ لَا يَرْقُبُوْا فِيْكُمْ اِلًّا وَّلَا ذِمَّۃً۝ ٠ ۭ يُرْضُوْنَكُمْ بِاَفْوَاہِہِمْ وَتَاْبٰي قُلُوْبُہُمْ۝ ٠ ۚ وَاَكْثَرُہُمْ فٰسِقُوْنَ۝ ٨ ۚ كيف كَيْفَ : لفظ يسأل به عمّا يصحّ أن يقال فيه : شبيه وغیر شبيه، كالأبيض والأسود، والصحیح والسّقيم، ولهذا لا يصحّ أن يقال في اللہ عزّ وجلّ : كيف، وقد يعبّر بِكَيْفَ عن المسئول عنه كالأسود والأبيض، فإنّا نسمّيه كيف، وكلّ ما أخبر اللہ تعالیٰ بلفظة كَيْفَ عن نفسه فهو استخبار علی طریق التنبيه للمخاطب، أو توبیخا نحو : كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] ، كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] ، كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] ، انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] ، فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] ، أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] . ( ک ی ف ) کیف ( اسم استفہام ) اس چیز کی حالت در یافت کرنے کے لئے آتا ہے جس پر کہ شیبہ اور غیر شیبہ کا لفظ بولا جاسکتا ہو جیسے ابیض ( سفید اسود ( سیاہی ) صحیح ( تندرست ) سقیم ( بیمار ) وغیرہ ۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا استعمال جائز نہیں ہے اور کبھی اس چیز پر بھی کیف کا اطلاق کردیتے ہیں جس کے متعلق سوال کر نا ہو مثلا کہا جاتا ہے کہ اسود اور ابیض مقولہ کیف سے ہیں اور جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق کیف کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ تنبیہ یا قو بیخ کے طور پر مخاطب سے استخبار کے لئے لایا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] کافرو تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو ۔ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] خدا ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے ۔ كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] بھلا مشرکوں کے لئے کیونکر قائم رہ سکتا ہے ۔ انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] دیکھو انہوں نے کس کس طرح کی تمہارے بارے میں باتیں بنائیں ۔ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی مر تبہ پیدا کیا ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا کسی طرح خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا پھر کس طرح اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے ۔ ظَاهَرَ ( مدد) وَظَهَرَ عليه : غلبه، وقال : إِنَّهُمْ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ [ الكهف/ 20] ، وظاهَرْتُهُ : عاونته . قال تعالی: وَظاهَرُوا عَلى إِخْراجِكُمْ [ الممتحنة/ 9] ، وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ [ التحریم/ 4] ، أي : تعاونا، تَظاهَرُونَ عَلَيْهِمْ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ [ البقرة/ 85] ، وقرئ : ( تَظَّاهَرَا) الَّذِينَ ظاهَرُوهُمْ ظھر علیہ کے معنی ہیں وہ اس پر غالب آگیا قرآن پاک میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ [ الكهف/ 20] اگر وہ تم پر دسترس پالیں ۔ ظاھرتہ : میں نے اس کی مدد کی ( اور ظاھر علیہ کے معنی ہیں اس کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کی ) قرآن پاک میں ہے : ۔ وَظاهَرُوا عَلى إِخْراجِكُمْ [ الممتحنة/ 9] اور انہوں نے تمہارے نکالنے میں ایک دوسرے کی مدد کی ۔ وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ [ التحریم/ 4] اور اگر پیغمبر کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کروگی ۔ ایک قرات میں تظاھر ا ہے ( یعنی تار کو ظاء میں ادغام کیسا تھ ) الَّذِينَ ظاهَرُوهُمْ [ الأحزاب/ 26] اور اہل کتاب میں سے جنہوں نے ان کی مدد کی ۔ تَظاهَرُونَ عَلَيْهِمْ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ [ البقرة/ 85] تم ان کے خلاف گناہ اور زیادتی سے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہو ۔ رقب الرَّقَبَةُ : اسم للعضو المعروف، ثمّ يعبّر بها عن الجملة، وجعل في التّعارف اسما للمماليك، كما عبّر بالرّأس وبالظّهر عنالمرکوب ، فقیل : فلان يربط کذا رأسا، وکذا ظهرا، قال تعالی: وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ [ النساء/ 92] ، وقال : وَفِي الرِّقابِ [ البقرة/ 177] ، أي : المکاتبین منهم، فهم الذین تصرف إليهم الزکاة . ورَقَبْتُهُ : أصبت رقبته، ورَقَبْتُهُ : حفظته . ( ر ق ب ) الرقبۃ اصل میں گردن کو کہتے ہیں پھر رقبۃ کا لفظ بول کر مجازا انسان مراد لیا جاتا ہے اور عرف عام میں الرقبۃ غلام کے معنوں میں استعمال ہونے لگا ہے جیسا کہ لفظ راس اور ظھر بول کر مجازا سواری مراد لی جاتی ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے :۔ یعنی فلاں کے پاس اتنی سواریاں میں ۔ قرآن ہیں ہے : وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ [ النساء/ 92] کہ جو مسلمان کو غلطی سے ( بھی ) مار ڈالے تو ایک مسلمان بردہ آزاد کرائے۔ اور رقبۃ کی جمع رقاب آتی ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ وَفِي الرِّقابِ [ البقرة/ 177] اور غلام کو آزاد کرنے میں ۔ مراد مکاتب غلام ہیں ۔ کیونکہ مال زکوۃ کے وہی مستحق ہوتے ہیں اور رقبتہ ( ن ) کے معنی گردن پر مارنے یا کسی کی حفاظت کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : لا يَرْقُبُونَ فِي مُؤْمِنٍ إِلًّا وَلا ذِمَّةً [ التوبة/ 10] کسی مسلمان کے بارے میں نہ تو قرابت کا پاس ملحوظ رکھتے ہیں اور نہ ہی عہد و پیمان کا ۔ ( ذمّة) اسم بمعنی العهد أو الضمان ! وقال بعضهم : سمّيت ذمّة لأن كل حرمة يلزمک من تضييعها الذّم يقال لها ذمّة۔ وقال الأزهريّ : الذمّة : الأمان، وزنه فعلة بکسر الفاء جاء عينه ولامه من حرف واحد . رضي يقال : رَضِيَ يَرْضَى رِضًا، فهو مَرْضِيٌّ ومَرْضُوٌّ. ورِضَا العبد عن اللہ : أن لا يكره ما يجري به قضاؤه، ورِضَا اللہ عن العبد هو أن يراه مؤتمرا لأمره، ومنتهيا عن نهيه، قال اللہ تعالی: رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة/ 119] ، وقال تعالی: لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ، وقال تعالی: وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة/ 3] ، وقال تعالی: أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة/ 38] ، وقال تعالی: يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة/ 8] ، وقال عزّ وجلّ : وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب/ 51] ، والرِّضْوَانُ : الرّضا الکثير، ولمّا کان أعظم الرِّضَا رضا اللہ تعالیٰ خصّ لفظ الرّضوان في القرآن بما کان من اللہ تعالی: قال عزّ وجلّ : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید/ 27] ، وقال تعالی: يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح/ 29] ، وقال : يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة/ 21] ، وقوله تعالی: إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة/ 232] ، أي : أظهر كلّ واحد منهم الرّضا بصاحبه ورَضِيَهُ. ( ر ض و ) رضی ( س ) رضا فھو مرضی و مرضو ۔ راضی ہونا ۔ واضح رہے کہ بندے کا اللہ تعالیٰ سے راضی ہونا یہ ہے کہ جو کچھ قضائے الہیٰ سے اس پر وارد ہو وہ اسے خوشی سے بر داشت کرے اور اللہ تعالیٰ کے بندے پر راضی ہونے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اسے اپنے اوامر کا بجا لانے والا اور منہیات سے رکنے والا پائے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة/ 119] اللہ تعالیٰ ان سے خوش اور وہ اللہ تعالیٰ سے خوش ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] تو اللہ تعالیٰ ضرور ان مسلمانوں سے خوش ہوتا ہے وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة/ 3] اور ہم نے تمہارے لئے دین اسلام کو پسند فرمایا : ۔ أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة/ 38] کیا آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی پر قناعت کر بیٹھے ہو ۔ يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة/ 8] اپنی زبانی باتوں سے تو تم کو رضا مند کردیتے ہیں اور ان کے دل ہیں کہ ان باتوں سے انکار کرتے ہیں ۔ وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب/ 51] اور آزردہ خاطر نہ ہوں گی اور جو کچھ ( بھی ) تم ان کو دوگے وہ ( لے کر سب ) راضی ہوجائیں گی ۔ الرضوان رضائے کثیر یعنی نہایت خوشنودی کو کہتے ہیں ۔ چونکہ سب سے بڑی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہے اس لئے قرآن پاک میں خاص کر رضا الہی ٰ کے لئے رضوان کا لفظ استعما ل ہوا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید/ 27] اور ( لذت ) دنیا کا چھوڑ بیٹھنا جس کو انہوں نے از خود ایجاد کیا تھا ہم نے وہ طریق ان پر فرض نہیں کیا تھا مگر ( ہاں ) انہوں نے اس کو خدا ( ہی ) کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ایجاد کیا تھا ۔ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح/ 29] اور خدا کے فضل اور خوشنودی کی طلب گاری میں لگے رہتے ہیں ۔ يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة/ 21] ان کا پروردگار ان کو اپنی مہربانی اور رضامندی کی خوشخبری دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔۔ : إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة/ 232] ، جب جائز طور پر آپس میں وہ راضی ہوجائیں ۔ میں تراضوا باب تفاعل سے ہے جس کے معنی باہم اظہار رضامندی کے ہیں ، فوه أَفْوَاهُ جمع فَمٍ ، وأصل فَمٍ فَوَهٌ ، وكلّ موضع علّق اللہ تعالیٰ حکم القول بِالْفَمِ فإشارة إلى الکذب، وتنبيه أنّ الاعتقاد لا يطابقه . نحو : ذلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْواهِكُمْ [ الأحزاب/ 4] ، وقوله : كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْواهِهِمْ [ الكهف/ 5]. ( ف و ہ ) افواہ فم کی جمع ہے اور فم اصل میں فوہ ہے اور قرآن پاک میں جہاں کہیں بھی قول کی نسبت فم یعنی منہ کی طرف کی گئی ہے وہاں در وغ گوئی کی طرف اشارہ ہے اور اس پر تنبیہ ہے کہ وہ صرف زبان سے ایسا کہتے ہیں ان کے اندرون اس کے خلاف ہیں جیسے فرمایا ذلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْواهِكُمْ [ الأحزاب/ 4] یہ سب تمہارے منہ کی باتیں ہیں ۔ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْواهِهِمْ [ الكهف/ 5] بات جوان کے منہ سے نکلتی ہے ۔ أبى الإباء : شدة الامتناع، فکل إباء امتناع ولیس کل امتناع إباءا . قوله تعالی: وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ [ التوبة/ 32] ، وقال : وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة/ 8] ، وقوله تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] ، وقوله تعالی: إِلَّا إِبْلِيسَ أَبى [ طه/ 116] ( اب ی ) الاباء ۔ کے معنی شدت امتناع یعنی سختی کے ساتھ انکارکرنا ہیں ۔ یہ لفظ الامتناع سے خاص ہے لہذا ہر اباء کو امتناع کہہ سکتے ہیں مگر ہر امتناع کو اباء نہیں کہہ سکتے قرآن میں ہے ۔ { وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ } [ التوبة : 32] اور خدا اپنے نور کو پورا کئے بغیر رہنے کا نہیں ۔ { وَتَأْبَى قُلُوبُهُمْ } ( سورة التوبة 8) لیکن ان کے دل ان باتوں کو قبول نہیں کرتے ۔{ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ } [ البقرة : 34] اس نے سخت سے انکار کیا اور تکبیر کیا {إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَى } [ البقرة : 34] مگر ابلیس نے انکار کردیا ۔ ایک روایت میں ہے (3) کلکم فی الجنۃ الامن ابیٰ ( کہ ) تم سب جنتی ہو مگر وہ شخص جس نے ( اطاعت الہی سے ) انکار کیا ۔ رجل ابی ۔ خود دار آدمی جو کسی کا ظلم برداشت نہ کرے ابیت الضیر ( مضارع تابیٰ ) تجھے اللہ تعالیٰ ہر قسم کے ضرر سے محفوظ رکھے ۔ تیس آبیٰ ۔ وہ بکرا چوپہاڑی بکردں کا بول ملا ہوا پانی پی کر بیمار ہوجائے اور پانی نہ پی سکے اس کا مونث ابواء ہے قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ فسق فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به، ( ف س ق ) فسق فسق فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨) اور ان لوگوں کا عہد کیسے قابل رعایت رہے گا، حالانکہ ان کی یہ حالت ہے کہ اگر وہ تم پر غلبہ پاجائیں تو وہ پھر تمہارے بارے میں نہ قرابت کا لحاظ کریں اور نہ کسی قول وقرار کا صرف اپنی زبانی باتوں سے تمہیں یہ لوگ راضی رکھتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨ (کَیْفَ وَاِنْ یَّظْہَرُوْا عَلَیْکُمْ لاَ یَرْقُبُوْا فِیْکُمْ الاًّ وَّلاَ ذِمَّۃً ط) ایسے لوگوں سے آخر کوئی معاہدہ کیوں کر قائم رہ سکتا ہے جن کا کردار یہ ہو کہ اگر وہ تم پر غلبہ حاصل کرلیں تو پھر نہ قرابت داری کا لحاظ کریں اور نہ معاہدے کے تقدس کا پاس۔ (یُرْضُوْنَکُمْ بِاَفْوَاہِہِمْ ) راضی کرنا چاہتے ہیں تم لوگوں کو اپنے منہ (کی باتوں) سے اب وہ صلح کی تجدید کی خاطر آئے ہیں تو اس کے لیے بظاہر خوشامد اور چاپلوسی کر رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اس طرح آپ لوگوں کو راضی کرلیں۔ (وَتَاْبٰی قُلُوْبُہُمْ ج وَاَکْثَرُہُمْ فٰسِقُوْنَ ) جو باتیں وہ زبان سے کر رہے ہیں وہ ان کے دل کی آواز نہیں ہے۔ دل سے وہ ابھی بھی نیک نیتی کے ساتھ صلح پر آمادہ نہیں ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :10 یعنی بظاہر تو وہ صلح کی شرطیں طے کرتے ہیں مگر دل میں بدعہدی کا ارادہ ہوتا ہے اور اس کا ثبوت تجربے سے اس طرح ملتا ہے کہ جب کبھی انہوں نے معاہدہ کیا توڑنے ہی کے لیے کیا ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :11 یعنی ایسے لوگ ہیں جنہیں نہ اخلاقی ذمہ داریوں کا احساس ہے اور نہ اخلاق کی پابندیوں کے توڑنے میں کوئی باک ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨۔ اوپر مشرکوں کی ظاہری بدعہدی کا ذکر فرما کر اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کے دل کی باتوں سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ خبردار کیا کہ کیوں کر ان لوگوں سے صلح قائم رکھ سکو گے ان کی حالت تو یہ ہے کہ فقط منہ سے قول وقرار کرتے ہیں اور ان کے دل میں تو یہ ہے کہ اگر مسلمانوں پر ان کا قابو پڑجاوے تو ایک کوئی بھی زندہ نہ رکھیں نہ قرابت کا لحاظ کریں ورنہ اپنے عہد کا یہ لوگ بڑے ہی بےحکم ہیں ان کے دل کب مانتے ہیں جو یہ اپنے قول پر قائم رہیں گے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے اِلاَّ وَّلا َذِمَّۃً کی تفسیر میں یہ بیان کیا ہے کہ اس سے مراد قرابت اور عہد ہے اوپر گذر چکا ہے کہ صلح حدیبیہ کے عہد پر بعضے مشرک قبیلے قائم تھے اس لئے سب صلح والوں کو بےحکم نہیں فرمایا۔ صحیح بخاری اور مسلم میں ابوہریرہ (رض) کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایسے شخص سے زیادہ برا کوئی آدمی نہیں جس کو اپنی زبان کا پاس نہ ہو ایک ہی بات کو کسی سے ایک طرح پر کہہ دیوے اور کسی سے دوسری طرح پر معتبر سند سے مسند امام احمد ابوداؤد نسائی اور صحیح ابن حبان میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پروردہ ابورافع (رض) سے روایت ہے جس میں ابورافع (رض) کہتے کہ اسلام لانے سے پہلے مجھ کو اہل مکہ نے قاصد بنا کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بھیجا تھا مدینہ میں آن کر میرا دل اسلام کی طرف اور مدینہ میں رہ جانے کی طرف مائل ہوگیا لیکن صلح حدیبیہ میں یہ شرط ہوئی تھی کہ صلح کے زمانہ تک جو کوئی مکہ سے مدینہ کو آوے گا اس کو واپس کردیا جاویگا اس شرط کے موافق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ومسلم نے میرا مدینہ میں رہ جانا پسند نہیں کیا اور فرمایا کہ اللہ کے رسول سے بدعہدی نہیں ہوسکتی آیت میں زبان کا پاس نہ رکھنے اور بدعہدی کی جو مذمت ہے یہ حدیثیں گویا اس کی تفسیر ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:8) کیف۔ یہاں بھی استفہام انکاری یا اظہار حیرت و تعجب کے لئے ہے اس کی تکرار مشرکین کی متواتر عہد شکنی اور عدم ثبات کے لئے ہے۔ تقدیر کلام ہو ہے :۔ کیف یکون لہم عھد وان یظھروا علیکم۔ اور کیسے وہ سکتا ہے معاہدہ ان کے ساتھ جب کہ حال یہ ہے کہ تم پر برتری حاصل ہوجائے تو ۔۔ الخ۔ لا یرقبوا۔ مضارع منفی مجزوم (بوجہ جواب شرط) رقب مصدر۔ (باب نصر) پاس یا لحاظ نہیں کریں گے۔ رعایت نہیں کریں گے۔ رقب یرقب رقوب ورقابۃ رقبان۔ نگرانی کرنا۔ نگہبانی کرنا۔ انتظار کرنا۔ ڈرانا۔ الرقبۃ اصل میں گردن کو کہتے ہیں۔ پھر عرف عام میں غلام کے معنوں میں استعمال ہونے لگا ہے۔ قرآن حکیم ہیں ہے :۔ ومن قتل مؤمنا خطأ ف تحریر رقبۃ مؤمنۃ (4:92) کہ جو شخص کسی مسلمان کو غلطی سے (بھ) مار ڈالے تو ایک مسلمان غلام آزاد کرائے۔ نگران کو رقیب کہتے ہیں یا تو اس لئے کہ وہ اس شخص کی گردن پر نظر رکھتا ہے جس کی نگرانی منظور ہوتی ہے یا اس لئے کہ وہ نگرانی کے لئے اپنی گردن بار بار الٹا کر دیکھتا ہے۔ انتظار کرنے کے معنی میں قرآن مجید میں ہے وارتقبوا انی معکم رقیب (11:93) تم بھی منتظر رہو میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں۔ ترقب (تفعل) انتظار کرتے ہوئے کسی چیز سے بچنا۔ جیسے قرآن کریم میں ہے فخرج منھا خائفا یترتب (28:21) موسیٰ (علیہ السلام) شہر سے نکل بھاگے اور دوڑتے جاتے تھے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ لہٰذا لایرقبوا۔ وہ (اپنے عہد کا) پاس نہیں کریں گے۔ (اپنے عہد کی) نگہبانی (پاسبانی) نہیں کریں گے۔ فیکم۔ تماہرے بارے میں ۔ الا۔ ان کے معنی قرابت ، عہد، حلف اور اللہ کے ہیں۔ قرابت کے معنوں میں حضرت حسان بن ثابت (رض) کا شعر ہے لعمرک ان اتک من قریش کال السقب من رأل النعام تیری جان کی قسم تیری قرابت قریش سے ایسی ہے جیسی کہ اونٹنی کے بچے کی قرابت شتر مرغ کے بچے سے ہے۔ اور عہد کے معنوں میں :۔ وجدنا ھموکاذبا الہم وذوا لال والعھد لایکذب ہم نے ان کو عہد کا جھوٹا پایا۔ حالانکہ عہد کرنے والا جھوٹ نہیں بولتا۔ اور حلف کے معنوں میں :۔ لولا نبو مالک والال مرقبۃ وما لک فیہم الا لاء والشرف (اوس بن حجر) اگر بنو مالک نے ہوتے اور قسم کہ جس کی پابندی کی گئی۔ اور بنو مالک ہی میں بخشیش ہیں اور شرافت ہے۔ اور اللہ کے معنی میں حضرت ابوبکر صدیق (رض) کا قول :۔ ان ھذا الکلام لم یخرج من ال۔ یہ کلام اللہ تعالیٰ سے سرزد نہیں ہوا۔ لایرقبوا فیکم الا ولاذمۃ۔ تمہارے بار میں نہ قرابت کا لحاظ رکھیں گے اور نہ عہد کا اور نہ حلف کا اور نہ اللہ تعالیٰ کا۔ ذمۃ۔ عہد۔ اس کی جمع ذمم ہے۔ یرضونکم بافواھھم۔ ارضاء (افعال) سے مضارع جمع مذکر غائب۔ کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر وہ تم کو راضی کرتے ہیں۔ وہ تم کو خوش کرتے ہیں۔ رضی مادہ ہے اور ثلاثی مجرد سے مصدر بھی۔ افواہہم۔ افواہ مضاف ہم مضاف الیہ۔ افواہ۔ فوہ کی جمع بمعنی منہ بافواھھم اپنے منہ سے یعنی زبانی کلامی۔ تابی۔ وہ انکار کرتے ہیں۔ لیکن یہاں ولقب جمع مکسر کے لئے مؤنث کا صیغہ استعمال ہوا ہے بمعنی ان کے دل انکار کرتے ہیں۔ اباء مصدر مضارع واحد مؤنث غائب ابی یابی (فتح) انکار کرنا۔ ناپسند کرنا۔ مکروہ جاننا۔ ناخوش ہونا (باب ضرب) سے بھی آتا ہے فاسقون۔ راستی سے نکل جانے والے۔ نافرمانی کرنے والے۔ حدود شریعت سے نکل جانے والے۔ اللہ کی اطاعت سے نکل جانے والے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 مشرکین سے برات کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کے معاہدہ کا کوئی اعتبار نہیں۔ یہ لوگ زبان سے دوستی اور وفاداری کی میٹھی میٹھی باتیں کرتے ہیں اور دل میں یہ ہے کہ اگر کبھی موقع مل جائے تو معاہدہ کو پس پشت ڈال کر ان مسلمانوں کو کچا چبا ڈالیں۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں الال کے معنی قرابت اور ذمہ کے معنی عہد کے ہیں۔ ( ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : عہد اور رشتہ داری کے بارے میں کفار اور مشرکین کا رویہ۔ مشرکین اور اسلام دشمن طاقتوں کا ہمیشہ سے رویہ رہا ہے کہ جب مسلمانوں کے مقابلے میں اپنے آپ کو کمزور پاتے ہیں تو صلح اور اتحاد کا پرچم اٹھاکر مسلمانوں کو زبانی کلامی راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس کے لیے، بقائے باہمی، انسانی ہمدردی اور مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کے نعرے لگاتے ہیں۔ حالانکہ ان باتوں کی ان کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں ہوتی اور دل ہی دل میں یہ انکار کررہے ہوتے ہیں۔ جونہی مشکل وقت گزر جائے اور اپنے آپ کو طاقت ورمحسوس کریں تو کسی معاہدے اور تعلق داری کا پاس نہیں کرتے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کے سامنے ہمیشہ مالی فائدہ اور سیاسی مفاد رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیات کے بدلے دنیا کمانے سے نہیں چوکتے اس طرح وہ اللہ کے راستے میں رکاوٹ بنتے ہیں مکہ کے مشرکین کا یہی رویہ تھا کہ جوں جوں اللہ کی آیات کا نزول ہوتا توں توں دنیا کے مفاد اور دین کی مخالفت میں آگے ہی بڑھتے گئے۔ ان کا فکر و کردار ہمیشہ بدترین رہا ہے یہ لوگ مسلمانوں کے بارے میں کسی رشتہ داری اور عہد کا خیال نہیں رکھتے دراصل یہ زیادتی کرنے والے لوگ ہیں مدینہ میں یہودیوں کی بار بار عہد شکنی اور مشرکین کا صلح حدیبیہ کو توڑنے سے لے کر تاریخ گواہ ہے کہ انھوں نے ہر دور میں مسلمانوں کے ساتھ عہد شکنی کی ہے۔ یہاں سقوط غرناطہ کا واقعہ عیسائیوں کی عہد شکنی کی ناقابل فراموش مثال پیش خدمت ہے : ابو عبداللہ نے قصر الحمرء میں ایک مجلس مشاورت منعقد کی۔ جس میں غرناطہ کے بڑے بڑے شیوخ وعمائد اور امراء ووزراء شریک تھے۔ ان میں جو بعض بڑے پرجوش اور غیرت مند تھے ان کی رائے قطعی طور پر یہی تھی کہ مسلمانوں کو اپنے آخری قطرہ خون تک لڑنا چاہیے چاہے انجام کچھ بھی ہو۔ بہر حال غرناطہ کو اس طرح دشمن کے حوالہ کردینا سخت ننگ وعار اور بزدلی کی بات ہے۔ لیکن اکثریت کے نقارخانہ میں اکیلے طوطی کی آواز کیا اثر پیدا کرسکتی ہے ؟ آخر ابو عبداللہ نے اپنے وزیر ابو القاسم عبدالملک کی معرفت فرڈیننڈ سے صلح کی بات چیت شروع کی اور انجام کار ایک صلح نامہ مرتب ہوا جس پر شاہ کیسٹل اور ابو عبداللہ دونوں کے دستخط ہوگئے اور اس پر مسلمانوں کی حکومت کا جو تقریباً آٹھ سو سال قائم تھی بالکل خاتمہ ہوگیا۔ یہ صلح نامہ جو درحقیقت مسلمانان اندلس کی بدبختی کی آخری دستاویز تھا جیسا کہ امیر شکیب ارسلان نے اپنی کتاب ” آخر نبی سراج “ میں تصریح کی ہے کہ یہ پچپن دفعات پر مشتمل تھا۔ ان میں سے چند اہم دفعات کا خلاصہ یہ ہے کہ ” تمام چھوٹے بڑے مسلمانوں کو امن دیا جائے گا۔ ان کے اموال اور جاگیریں اور جائیدادیں سب محفوظ رہیں گی۔ ان کے مذہبی معاملات وخصومات کا تصفیہ خود مسلمان قاضی یا حاکم کرے گا۔ جنگ میں جو مال غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آگیا ہے اس کو غصب نہ کیا جائے گا۔ مقررہ ٹیکس کے علاوہ ان پر کوئی زائد ٹیکس نہ لگایا جائے گا۔ جو عیسائی مسلمان ہوگئے ہیں ان کو ترک اسلام پر مجبور نہ کیا جائے گا۔ اور اسی طرح کسی مسلمان کو بجز عیسائی بنانے کی کوشش نہ کی جائے گی۔ اگر کوئی مسلمان افریقہ جانا چاہے تو حکومت اس کو اپنے انتظام پر افریقہ پہنچائے گی۔ کوئی عیسائی کسی مسلمان کے گھر داخل نہ ہوگا اور نہ ہی اس کی دیوار پر چڑھے گا۔ مسلمانوں کو عیسائی فوجیوں کی دعوت کرنے پر مجبور نہ کیا جائے گا۔ مسلمانوں کو لباس میں پوری آزادی رہے گی۔ یعنی انہیں کسی خاص وضع قطع کے اختیار کرنے یا کوئی خاص علامت لگانے پر مجبور نہ کیا جائے گا۔ کوئی عیسائی کسی مسلمان کا راہ چلتے یا کہیں اور مذاق نہ اڑائے گا۔ اس پر فقرہ نہ کسے گا۔ اس کے ساتھ تمسخر نہ کرے گا۔ اور اگر کسی نے ایسا کیا تو اس کو سزا دی جائے گی جو مسلمان جنگی مجرم ہیں اس کو رہا کردیا جائے گا۔ اگر کوئی مسلمان غلام اپنے مالک کے پاس سے بھاگ کر غرناطہ آجائے تو اسے مامون سمجھاجائے گا۔ بادشاہ اس کی قیمت غلام کے مالک کو ادا کردے گا۔ یہ معاہدہ عیسوی تاریخ کے لحاظ سے ٣٠ دسمبر ١٤٩١ ؁ مطابق یکم ربیع الاول ٨٩٧ ھ ؁ کو ہوا تھا اور اس پر علاوہ فرڈیننڈ کے ملکہ ازبلا، شاہی خاندان کے شہزادے اور شہزادیاں پادری اور دیگر مذہبی پیشوا، امراء اور وزراء دربار وعمائدو ارکان سلطنت کے دستخط ثبت تھے۔ اور اس میں فرڈیننڈ اور اس کی بیوی ازبلا نے اس بات کا عہد کیا تھا کہ دونوں اس صلح نامہ کے ایک ایک لفظ اور ایک ایک حرف کی پابندی کریں گے اور جس طرح یہ عہد نامہ خود ان دونوں کے لیے اور ان کے تمام حکام وعمال اور امراء واعیان کے لیے واجب العمل ہے اسی طرح ان کے قائم مقام، ان کی اولاد، اور ان کی اولاد کی اولاد سب اس عہد نامہ کے مطابق عمل کریں گے اور اس سے سر موانحراف نہ کریں گے۔ یہ عہد نامہ تو وہ تھا جس کا تعلق عام مسلمانوں اور ان کے مفاد سے تھا۔ اس کے علاوہ ایک اور عہد نامہ ترتیب دیا گیا۔ جو خاص ابو عبداللہ کی ذات سے تعلق رکھتا تھا۔ اس عہد نامہ میں چودہ دفعات تھیں جن کا ماحصل یہ تھا کہ شاہ فرڈیننڈ اور ازبلا ان دونوں نے کچھ املاک واراضی اور شہر سلطان ابوعبداللہ کو دیے ہیں۔ انہیں میں سے ایک البشرات بھی تھا۔ علاوہ بریں اس بات کا بھی وعدہ کیا گیا تھا کہ ابو عبداللہ کو وہاں کے سکہ کے حساب سے جس کو ” یراوید “ کہا جاتا تھا ایک کڑور چالیس لاکھ اور پانچ سو کی رقم ادا کی جائے گی۔ لیکن شرط یہ تھی کہ یہ رقم اس وقت حوالے کی جائے گی جب کہ فرڈیننڈ اور ازبلا قلعہ الحمرء میں داخل ہوجائیں گے۔ پھر خاص ابو عبداللہ سے یہ وعدہ بھی کیا گیا تھا کہ جب تک وہ اندلس میں قیام کرے گا اس سے کوئی محصول نہیں لیا جائے گا۔ اور اگر اس نے کبھی اس ملک کو چھوڑ کر کہیں اور آباد ہونا چاہا تو اس کی زمینوں اور جائیدادوں کو مناسب قیمت پر خرید لیاجائے گا۔ اگر اس نے ان کو فروخت کرنا نہ چاہا تو وہ اپنا کوئی قائم مقام یا کارندہ ان کی دیکھ بھال اور نگرانی کے لیے چھوڑ جائے۔ وہ ہر سال جائیدادوں اور جاگیروں کی آمدنی وصول کر کے ابوعبداللہ کو بھیج دیا کریگا۔ ابو عبداللہ بحری سفر کرے گا تو اس کے تمام متعلقین کے لیے کشتیوں وغیرہ کا انتظام فرڈیننڈ کی حکومت کی جانب سے کیا جائے گا۔ امیر شکیب رسلان کی تحقیق کے مطابق یہ دوسرا معاہدہ بتاریخ ٢٥ دسمبر ١٤٩١ ء ؁ کو ہوا تھا۔ یہ یا در کھنا چاہیے ابو عبداللہ نے اپنے وزیر کے توسط سے یہ معاہدہ بالا بالا ہی کرلیا تھا۔ اہل غرناطہ کو اس کی کوئی خبر نہ تھی جب ان کو معلوم ہوا تو وہ سخت برہم اور پریشان ہوئے۔ حامد بن زرارۃ نامی ایک درویش کے جوش دلانے اور اکسانے پر بیس ہزار اہل غرناطہ مسلح ہو کر جنگ کرنے کے لیے نکلے بھی لیکن کچھ ایسے اسباب سماویہ پیش آئے کہ یہ اس مشکل سے عہدہ براء نہ ہوسکے اس واقعہ کے دوسرے دن ابوعبداللہ شہر کے روساء کی ایک جماعت کے ساتھ قلعہ الحمرء سے نکلا اور مسلمانوں کو خطاب کر کے کہا : ” مسلمانوں ! میں اقرار کرتا ہوں کہ اس ذلت و رسوائی میں کسی کا کوئی گناہ نہیں ہے گنہگار صرف میں ہوں میں نے اپنے باپ کے ساتھ نافرمانی اور سرکشی کا معاملہ کیا، اور دشمنوں کو ملک پر حملہ کرنے کی دعوت دی لیکن بہر حال خدا نے مجھ کو میرے گناہوں کی سزادے دی ہے تاہم یہ باور کرنا چاہیے کہ میں نے اس وقت یہ معاہدہ جو قبول کیا ہے محض اس لیے کیا ہے کہ تم لوگوں اور تمہارے بچوں کے خون خواہ مخواہ نہ بہیں۔ تمہاری عورتیں لونڈیاں اور باندیاں نہ بنیں اور تمہاری شریعت اور تمہاری املاک ومتاع ان بادشاہوں کے زیر سایہ محفوظ رہیں جو بہرحال بد نصیب ابو عبداللہ سے بہتر ہوں گے۔ “ فرڈیننڈ کی طرف سے دو ماہ دس دن کی مدت دی گئی تھی کہ ابو عبداللہ اس مدت کے اندر اندر فرڈیننڈ کا قبضہ الحمراء پر کرا دے گا۔ لیکن ابو عبداللہ اس درجہ پریشان اور سراسمیہ تھا کہ اس نے اس مدت سے پہلے ہی مندرجہ بالا تقریر کے دوسرے دن فریننڈ کو پیغام بھیجا کہ شہر پر قبضہ کر لیجیے۔ فرڈیننڈ نے ایک پادری کو مقرر کیا کہ سب سے پہلے وہ ایک جماعت کیساتھ غرناطہ میں داخل ہو کر قلعہ الحمراء کے سب سے بڑے برج سے اسلامی نشان کو گرا کر اس کی جگہ صلیب کا نشان نصب کرے تاکہ اسے دیکھتے ہی پرجوش طریقہ سے بادشاہ اور اس کی ملکہ شہر میں داخل ہوں۔ اسی قرارداد کے مطابق اب دونوں طرف غرناطہ کو الوداع کہنے اور اس میں داخل ہونے کی تیاریاں ہونے لگیں۔ ایک جانب بدنصیب ابو عبداللہ اور اس کا تمام خاندان تھا جو رات بھر اپنا سازوسامان درست کرتا رہا اور غرناطہ سے پیش آنے والی جدائی کے غم میں الحمراء کے ایک ایک درودیوار کو حسرت وافسوس سے تکتا اور ان پر آنسو بہاتا رہا اور دوسری طرف شاہ کیسٹل کے کیمپ میں خوشی کے شادیا نے بج رہے تھے کہ بس اب رات کا تاریک پر دہ درمیان میں حائل ہے۔ اس کے اٹھنے کی دیر ہے کہ علیٰ الصباح غرناطہ پر قبضہ ہوجائے گا۔ چنانچہ ابو عبداللہ علیٰ الصباح اپنے متعلقین کو لے کر الحمراء سے نکلا اور ابھی تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ اس کو فرڈیننڈ کا فرستادہ پادری مع ایک جماعت کے ملا۔ ابو عبداللہ نے قلعہ کی کنجیاں اس کے سپرد کرتے ہوئے کہا ” جاؤ ! اب ان قلعوں پر قبضہ کرلو جن کو اللہ نے ہماری بد اعمالیوں کے باعث ہمارے قبضہ سے نکال کر تمہارے قبضہ میں دے دیا ہے “ پادری نے الحمراء میں داخل ہو کر امر شاہی کے مطابق اسلامی نشان کو گرا کر اس کی جگہ صلیبی پرچم لہرایا۔ فرڈیننڈ، ازبلا اور تمام عیسائی فوج نے اسے دیکھا تو ان کی خوشی کی حد نہ رہی فوراً بادشاہ اور ملکہ گھٹنوں کے بل بارگاہ خداوندی میں شکر بجا لائے۔ تمام فوج نے ان کی پیروی کی اس سے فارغ ہو کر یہ لوگ غرناطہ میں داخلہ کے لیے روانہ ہوئے دریا کے کنارے ایک چھوٹی جامع مسجد تھی ابھی وہاں پہنچے ہی تھے کہ یہاں ابو عبداللہ مل گیا۔ ابو عبداللہ نے فرڈیننڈ کو دیکھتے ہی چاہا کہ سواری سے اتر پڑے لیکن بادشاہ اور ملکہ دونوں نے منع کیا۔ اب ابو عبداللہ نے چاہا کہ بادشاہ کی دست بوسی کرے لیکن اس نے اسے یہ بھی نہ کرنے دیا۔ امیر شکیب ارسلان نے ایک روایت نقل کی ہے کہ ابو عبداللہ نے ملکہ ازبلا کے ہاتھوں کو چومنا چاہاتو اس نے اپنے ہاتھ نہ پھیلائے اور ابو عبداللہ کا اضطراب دیکھ کر اسے دلاسہ دیا۔ ابو عبداللہ کا جو بیٹا اس کے پاس بطور ضمانت گرفتار تھا۔ وہ اس کے سپرد کردیا اس کے بعد ابو عبداللہ نے شہر کی کنجیاں بادشاہ کے حوالے کرتے ہوئے کہا ” یہ کنجیاں اسپین میں عربوں کے اقتدار کی آخری نشانی ہیں۔ آپ انہیں لے لیجیے۔ کیونکہ اللہ کی مشیت کے مطابق اب ہمارا ملک، متاع اور ہمارے جسم یہ سب آپ کی ملکیت ہوگئے ہیں۔ امید ہے کہ آپ نے جیسا وعدہ کیا اسی طرح آپ ان کے ساتھ رحم وکرم اور رافت ونرمی کا معاملہ کریں گے۔ “ فرڈیننڈ نے جواب دیا ” کوئی شبہ نہیں کہ ہم نے جو وعدہ کیا ہے اس کے مطابق ہی معاملہ کریں گے۔ “ اس گفتگو کے بعدکنجیاں فرڈیننڈ نے ملکہ ازبلا کے سپرد کردیں اس نے اپنے بیٹے پرنس جو ن کو دیں اور جون نے کاؤنٹ ٹنڈل کے حوالے کردیں جو غرناطہ کا کمانڈر بنایا گیا تھا۔ اب فرڈیننڈ اس کی ملکہ ازبلا، اور اس کا تمام لاؤ لشکر غرناطہ کی طرف اس پر قبضہ کرنے کے لیے روانہ ہوئے ادھر بدبخت وبدنصیب ابو عبداللہ نے وادی برشانہ میں اس مقام کا رخ کیا جو اس کے لیے مقرر کردیا گیا تھا۔ تھوڑی دیر چلنے کے بعد ایک پہاڑی پر کھڑے ہوکر اس نے اپنی پشت کی جانب ایک حسرت آمیز نگاہ سے غرناطہ کی آبادی اور قصر الحمراء کے میناروں اور گبندوں پر نظر ڈالی۔ اس کے تمام ساتھی بھی اس وقت اس کے ساتھ غرناطہ کو حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ لیکن ان کی زبانیں گنگ تھیں۔ منہ سے ایک حرف نہ بول سکے ابھی وہ اس حسرت انگیز اور درد ناک نظارہ میں محو ہی تھے کہ قلعہ الحمراء کے اوپر سے تو پوں اور گولوں کے چلنے کی آواز آئی۔ یہ اس بات کا اعلان تھا کہ اب غرناطہ سے مسلمانوں کی حکومت ختم ہوگئی اور عیسائیوں کی فوج نے اسے فتح کرلیا ہے۔ ابو عبداللہ اس وقت ضبط نہ کرسکا بےساختہ اس کا جی بھر آیا اور زاروقطار رونے لگا۔ ابو عبداللہ کی ماں عائشہ جو نہایت عقل مند عورت تھی۔ اس نے بیٹے کو اس طرح روتے ہوئے دیکھا تو بولی ” اب عورتوں کی طرح رو رہا ہے۔ لیکن تجھ سے یہ نہ ہو سکا کہ مردوں کی طرح غرناطہ کا دفاع کرتا “ ابو عبداللہ کے وزیر نے بھی اسے دلاسہ دینے کی کوشش کی۔ البشرات کی پہاڑی جس پر کھڑے ہو کر ابو عبداللہ اور اس کے ساتھیوں نے غرناطہ پر حسرت آمیز نگاہ واپسیں ڈالی ” دم واپسیں عرب “ کے نام سے ہی مشہور ہوگئی۔ اور اب تک اسی نام سے یاد کی جاتی ہے۔ امیر شکیب ارسلان لکھتے ہیں۔ کہ انہوں نے اپنی سیاحت اسپین کے دوران اس مقام کو دیکھا۔ ابو عبداللہ کی وفات : فرڈیننڈ نے البشرات کا علاقہ ابو عبداللہ اور اس کے خاندان کی رہائش کے لیے متعین کردیا تھا۔ اور اس سلسلہ میں اس نے بہت کچھ عہد وپیماں بھی کیے تھے۔ لیکن غرناطہ پر اقتدار پانے کے بعد اس نے تمام عہود ومواثیق کو گلدستہ طاق نسیان بنا کر رکھ دیا۔ چناچہ ابو عبداللہ پر اندلس کی وسیع سرزمین کا چپہ چپہ تنگ ہوگیا اور آخر کار انجام یہ ہوا کہ فرڈیننڈ نے البشرات کا علاقہ بھی اونے پونے کر کے خرید لیا اور ابو عبداللہ اندلس کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ کر افریقہ چلا آیا۔ یہاں مراکش کے بادشاہ کا ملازم ہوگیا اور اسی حالت میں ٩٤٠ ھ ؁ میں اس دنیا سے بھی رخصت ہوگیا۔ (بحوالہ مسلمانوں کا عروج وزوال) تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی آیات کو فروخت کرنے والے : ١۔ اللہ کی آیات کو تھوڑی قیمت پر فروخت نہ کرو اللہ سے ڈر جاؤ۔ (البقرۃ : ٤١) ٢۔ ان کے لیے دوزخ کا عذاب ہے جو اللہ کی آیات کو فروخت کرتے ہیں۔ (البقرۃ : ٧٩) ٣۔ اللہ کی آیات کو چھپانا اور تھوڑی قیمت کے بدلہ میں فروخت کرنا۔ پیٹ میں آگ بھرنا ہے۔ (البقرۃ : ١٧٤ تا ١٧٦) ٤۔ اللہ سے ڈر و لوگوں سے نہ ڈرو۔ اور اللہ کی آیات کو فروخت نہ کرو۔ (المائدۃ : ٤٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب یہ بات بتائی جاتی ہے کہ اصولاً مشرکین کے ساتھ کے ساتھ اب معاہدے کیوں ممنوع کردیے گئے ؟ اس کے تاریخی اسباب یہاں گنوائے جاتے ہیں۔ عملی ضرورت بتائی جا رہی ہے اور فریقین کے درمیان نظریاتی اور ایمانی جدائیاں اور تضادات کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔ ۔۔۔ مشرکین کے ساتھ اللہ اور رسول اللہ کا کوئی عہد کیسے ہوسکتا ہے ؟ وہ تو عہد کرتے بھی اس وقت ہیں جھب وہ تمہارے مقابلے سے عاجز ہوجائیں اور اگر وہ تم پر غالب آجائیں اور فاتح ہوجائیں تو تمہارے ساتھ وہ کام کریں جن کا تم تصور ہی نہیں کرسکتے۔ پھر وہ کسی معاہدے کا بھی خیال نہ رکھیں ، اپنی کسی ذمہ داری کا کوئی پاس نہ رکھیں ، وہ تمہارے خلاف مذموم افعال کے ارتکاب سے بھی نہ ہچکچائیں کیونکہ وہ فطرتاً کسی عہد اور کسی رشتہ داری کا کوئی پاس نہیں رکھتے اور ظلم و زیادتی میں حدیں پار کر جاتے ہیں اور تمہارے معاملے میں تو اپنے ان مذموم افعال کو بھی مذموم نہیں سمجھتے جو عموماً وہ اپنے معاشرے میں بہت ہی مذموم سمجھتے ہیں اور ان کا ارتکاب نہیں کرتے۔ ان کے دل میں تمہارے خلاف اس قدر بغض بھرا ہوا ہے کہ وہ تم پر ہر ظلم کرنے کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ قدرت پا لیں اگرچہ معاہدے قائم ہوں۔ یہ نہیں کہ وہ اپنے معاشرے میں بہت ہی مذموم سمجھتے ہیں اور ان کا ارتکاب نہیں کرتے۔ ان کے دل میں تمہارے خلاف اس قدر بغض بھرا ہوا ہے کہ وہ تم پر ہر ظلم کرنے کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ قدرت پا لیں اگرچہ معاہدے قائم ہوں۔ یہ نہیں کہ وہ محض معاہدوں کی وجہ سے تمہارے خلاف ایکشن نہیں لیتے بلکہ وہ قدرت ہی نہیں رکھتے۔ آج جبکہ تم طاقتور ہو ، وہ بظاہر تم سے نرم بات کرتے ہیں اور اظہار وفا کرتے ہیں لیکن ان کے دل تمہارے عناد کی وجہ سے کھول رہے ہیں اور وہ عہد پر قائم رہنے کا کوئی داعیہ نہیں رکھتے کیونکہ ان میں نہ وفا داری ہے اور نہ محبت ہے۔ ان کی حالت یہ ہے۔ وَاَكْثَرُهُمْ فٰسِقُوْنَ ۔ اِشْتَرَوْا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ ثَـمَنًا قَلِيْلًا فَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِهٖ ۭاِنَّهُمْ سَاۗءَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ۔ اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں۔ انہوں نے اللہ کی آیات کے بدلے تھوڑی سی قیمت قبول کرلی۔ پھر اللہ کے راستے میں سد راہ بن کر کھڑے ہوگئے۔ بہت برے کرتوت تھے جو یہ کرتے رہے۔ ان کے دلوں میں تمہارے خلاف حسد اور کینہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے اس کی یہی حقیقی وجہ ہے اور اسی وجہ سے وہ تمہارے ساتھ طے پاجانے والے معاہدات کے معاملے میں وفا کرنے والے نہیں ہیں۔ اور جس وقت بھی وہ قوت محسوس کریں وہ تم سے انتقام لینے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے۔ اس معاملے میں وہ کوئی خلجان اور کوئی حجرج محسوس نہیں کرتے۔ ان وجوہات سے وہ فاسق قرار پاتے ہیں اور اللہ کی ہدایت سے خارج متصور ہوتے ہیں۔ ان کے پاس اللہ کی آیات آئیں اور انہوں نے چند ٹکوں کے عوض انہیں پس پشت ڈال دیا۔ یہ دنیا جس میں وہ رہتے ہیں انہیں اس قدر عزیز ہے کہ اس کے مفادات کو آایت الہیہ پر انہوں نے ترجیح دی۔ ان کو یہ خوف دامن گیر تھا کہ اسلام کے اصلاح نظام کی وجہ سے ان کے مفادات پر زد پڑجائے گی۔ یا انہیں کچھ مزید ادائیگیاں کرنی پڑیں گی۔ اس لیے وہ دوسرے لوگوں کو بھی اسلام کی طرف آنے سے روکتے تھے اور خود بھی اس طرف نہ آتے تھے۔ اسی طرح یہ لوگ آئمہ کفر بن گئے تھے۔ اس لیے ان کے اس کرتوت کو اللہ نے اصل برائی یا برائیوں کی جڑ قرار دیا۔ انھم ساء ما کانوا یعملون " بہت برے کرتوت ہیں جو یہ کرتے ہیں " ان لوگوں کے دلوں میں پایا جانے والا بغض اور حقد تمہاری ذات تک محدود نہیں ہے اور ان کا یہ مکروہ منصوبہ صرف تم تک محدود نہیں ہے۔ یہ حسد انہوں نے تمام مومنین کے لیے چھپا رکھا ہے۔ ہر مسلم کے ساتھ وہ یہی مکروہ سلوک کے ساتھ وہ یہی مکروہ سلوک کرتے ہیں در اصل ان کا یہ سلوک تمہاری صفت کے ساتھ ہے یعنی صفت ایمان و اسلام کے ساتھ ، اور صفت ایمان اور اسلام۔ اسلامی تاریخ میں جن لوگوں کے اندر پائی گئی ہے ان کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا گیا اور اس بات کا اظہار ان ایمان لانے والے جادوگروں نے کیا تھا جو فرعون کے جذبہ انتقام اور غضب کا شکار بن گئے تھے۔ انہوں نے کہا وما تنقم منا الا ان امنا بایات ربنا لما جاء تنا۔ اور تم ہم سے یہ انتقام جو لے رہے ہو تو یہ صرف اس وجہ سے ہے کہ ہم نے اپنے رب کی آیات کو مان لیا۔ جب وہ ہمارے سامنے آگئیں۔ اور رسول اللہ نے اپنے رب کی ہدایت کے مطابق اہل کتاب سے یہی کہا قل یا اھل الکتب ھل تنقمون منا الا ان امنا باللہ " اے اہل کتاب تم جو ہم سے انتقام لیتے ہو تو یہ صرف اس لیے ہے کہ ہم اللہ پر ایمان لے آئے ہیں۔ اور اللہ نے اصحاب الاخدود کے بارے میں یہی کہا تھا ، جب ان کو جلایا گیا تھا۔ وما نقموا منہم الا ان یؤمنوا باللہ العزیز الحمید۔ اور ان لوگوں سے انتقام صرف اس لیے لیا کہ وہ اللہ عزیز وحمید پر ایمان لے آئے تھے۔ غرض مشرکین کی طرف سے انتقام کا سبب ماسوائے صفت ایمان کھے اور کوئی بات نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ دشمنان اسلام نے صرف ایمان کی وجہ سے ہر مومن سے دشمنی رکھی اور اس بارے میں کسی عہد و پیمان اور رشتہ داری کا کوئی خیال نہ رکھا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

8:“ کَیْفَ یَکُوْنُ لِلْمُشْرِکِیْنَ عَھْدٌ ” کی علت ہے یہاں مشرکین کے خبث باطن اور فساد نیت کو ظاہر فرمایا کہ ان سے وفاء عہد کیونکر ہوسکتا ہے اگر انہیں کبھی تم پر غلبہ حاصل ہوجائے تو وہ نہ تمہاری رشتہ داری کا پاس ولحاظ کریں گے اور نہ اپنے عہد و پیمان کا ان کی چکنی چپڑی باتوں پر مت اعتماد کرو۔ ان کا باطن خبیث اور ناپاک ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

8 بھلا ان لوگوں کی رعایت کیوں کر ہوسکتی ہے اور ان سے عہد کیوں کر قائم رہ سکتا ہے جن کی حالت یہ ہے کہ اگر وہ کسی وقت تم پر غلبہ پالیں تو تمہارے بارے میں نہ کسی قرابت کا لحاظ کریں اور نہ کسی عہدو پیمان کا وہ تم کو محض اپنی زبانی باتوں سے خوش کرنا چاہتے ہیں اور صرف اپنے منہوں سے تم کو راضی کرتے ہیں اور ان کے دل ان کی باتوں کو نہیں مانتے اور ان میں سے اکثر بدعہد ہیں۔ یعنی جو عہد کا پابند نہیں رہنا چاہتے جب دل کسی بات سے متفق نہ ہو اور خوف کی وجہ سے ظاہری طور پر اقرار کرلیں تو اس اقرار کا ایسا ہی حشر ہوتا ہے۔