Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 90

سورة التوبة

وَ جَآءَ الۡمُعَذِّرُوۡنَ مِنَ الۡاَعۡرَابِ لِیُؤۡذَنَ لَہُمۡ وَ قَعَدَ الَّذِیۡنَ کَذَبُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ ؕ سَیُصِیۡبُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۹۰﴾

And those with excuses among the bedouins came to be permitted [to remain], and they who had lied to Allah and His Messenger sat [at home]. There will strike those who disbelieved among them a painful punishment.

بادیہ نشینوں میں سے عذر والے لوگ حاضر ہوئے کہ انہیں رخصت دے دی جائے اور وہ بیٹھ رہے جنہوں نے اللہ سے اور اس کے رسول سے جھوٹی باتیں بنائی تھیں ۔ اب تو ان میں جتنے کفار ہیں انہیں دکھ دینے والی مار پہنچ کر رہے گی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah says; وَجَاء الْمُعَذِّرُونَ مِنَ الاَعْرَابِ لِيُوْذَنَ لَهُمْ ... And those who made excuses from the Bedouins came asking your permission to exempt them (from the battle), Allah describes here the condition of the Bedouins who lived around Al-Madinah, who asked for permission to remain behind from Jihad when they came to the Messenger to explain to him their weakness and inability to join the fighting. Ad-Dahhak said that Ibn Abbas said that; they were those who had valid excuses, for Allah said next, ... وَقَعَدَ الَّذِينَ كَذَبُواْ اللّهَ وَرَسُولَهُ ... and those who had lied to Allah and His Messenger sat at home, and did not ask for permission for it; and Allah warned them of painful punishment, ... سَيُصِيبُ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِنْهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ a painful torment will seize those of them who disbelieve.

جہاد اور معذور لوگ یہ بیان ان لوگوں کا ہے جو حقیقتاً کسی شرعی عذر کے باعث جہاد میں شامل نہ ہو سکتے تھے ۔ مدینہ کے ارد گرد کے یہ لوگ آ کر اپنی کمزوری وضعیفی بےطاقتی بیان کر کے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لیتے ہیں کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم انہیں واقعی معذور سمجھیں تو اجازت دے دیں ۔ یہ بنو غفار کے قبیلے کے لوگ تھے ۔ ابن عباس کی قرأت میں ( وَجَاۗءَ الْمُعَذِّرُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ لِيُؤْذَنَ لَهُمْ وَقَعَدَ الَّذِيْنَ كَذَبُوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ ۭسَيُصِيْبُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ 90؀ ) 9- التوبہ:90 ) ہے یعنی اہل عذر لوگ ۔ یہی معنی مطلب زیادہ ظاہر ہے کیونکہ اسی جملے کے بعد ان لوگوں کا بیان ہے جو جھوٹے تھے ۔ یہ نہ آئے نہ اپنا رک جانے کا سبب پیش کیا نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے رک رہنے کی اجازت چاہی ۔ بعض بزرگ فرماتے ہیں کہ عذر پیش کرنے والے بھی دراصل عذر والے نہ تھے ۔ اسی لئے ان کے عذر مقبول نہ ہوئے لیکن پہلا قول پہلا ہی ہے وہی زیادہ ظاہر ہے ۔ واللہ اعلم اس کی ایک وجہ تو وہی ہے جو ہم نے اوپر بیان کی دوسری وجہ یہ ہے کہ عذاب کا حکم بھی ان کے لئے ہو گا جو بیٹھے رہی رہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

90۔ 1 ان مُعَذرِیْن کے بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک یہ شہر سے دور رہنے والے وہ اعرابی ہیں جنہوں نے جھوٹے عذر پیش کر کے اجازت حاصل کی۔ دوسری قسم ان میں وہ تھی جنہوں نے آکر عذر پیش کرنے کی بھی ضرورت نہیں سمجھی اور بیٹھے رہے۔ اس طرح گویا آیت میں منافقین کے دو گروہوں کا تذ کرہ ہے اور عذاب الیم کی وعید میں دونوں شامل ہیں۔ اور منھم سے جھوٹے عذرپیش کرنے والے اور بیٹھ رہنے والے دونوں مراد ہوں گے اور دوسرے مفسرین نے معذرون سے مراد ایسے بادیہ نشین مسلمان لیے ہیں جنہوں نے معقول عذر پیش کر کے اجازت لی تھی اور معذرون ان کے نزدیک اصل میں معتذرون ہے تا کو ذال میں مدغم کردیا گیا ہے اور معتذر کے معنی ہیں واقعی عذر رکھنے والا اس اعتبار سے آیت کے اگلے جملے میں منافقین کا تذکرہ ہے اور آیت میں دو گروہوں کا ذکر ہے پہلے جملے میں ان مسلمانوں کا جن کے پاس واقعی عذر تھے اور دوسرے منافقین جو بغیر عذر پیش کیے بیٹھے رہے اور آیت کے آخری حصے میں جو وعید ہے اسی دوسرے گروہ کے لیے ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٣] بہانے تراشنے والے بدوی منافقین :۔ مدینہ کے آس پاس آباد ہونے والے لوگوں کو اعراب یا بدوی (یعنی دیہاتی) کہا جاتا تھا۔ ان میں بھی منافقین کا عنصر موجود تھا۔ اس آیت میں ایسے ہی منافقوں کا ذکر ہے جو جہاد کے اعلان سے پہلے تو بلند بانگ دعوے کرتے تھے مگر وقت آنے پر اپنے عہد سے پھرگئے اور مدینہ کے منافقوں کی طرح بہانے تراش کر جہاد سے رخصت مانگنے لگے تھے۔ اگلی آیات میں ان لوگوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جو فی الواقع معذور ہوتے ہیں۔ نیز یہ کہ ان کا عذر کس شرط کے تحت قابل قبول سمجھا جاسکتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَجَاۗءَ الْمُعَذِّرُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ : اس سے پہلے مدینہ کے منافقین اور اہل ایمان کا ذکر تھا، اب مدینہ کے اردگرد بادیہ نشینوں کا حال ذکر ہوتا ہے، کیونکہ ان میں بھی دونوں قسم کے لوگ موجود تھے، جیسا کہ آگے آیت (٩٨، ٩٩) اور پھر (١٠١، ١٠٢) میں ذکر آ رہا ہے۔ مفسرین نے اس کی تفسیر دو طرح کی ہے، کیونکہ عذر کرنے والے سچے بھی ہوسکتے ہیں اور جھوٹے بھی، اس لیے بعض نے تو ” الْمُعَذِّرُوْنَ “ سے مراد وہ اعراب لیے ہیں جو صحیح مومن تھے مگر کسی حقیقی عذر کی وجہ سے نہیں جاسکے تھے، یہ لوگ تو اپنا عذر بیان کرنے کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور جنھوں نے اللہ اور اس کے رسول سے جھوٹ بولا تھا اور دل سے مسلمان نہیں ہوئے تھے، وہ گھروں ہی میں بیٹھے رہے، انھوں نے آکر عذر پیش کرنے کی زحمت ہی نہیں کی، چناچہ ان میں سے کفر کرنے والوں کو عذاب الیم کی وعید سنائی گئی، یعنی دنیا میں قید اور قتل اور آخرت میں جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ ابن کثیر (رض) نے اس تفسیر کو ترجیح دی ہے۔ بعض مفسرین نے ” الْمُعَذِّرُوْنَ “ سے مراد جھوٹے بہانے اور باطل عذر پیش کرنے والے لیے ہیں۔ زمخشری (رض) نے اس رائے کی تائید کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ ” الْمُعَذِّرُوْنَ “ باب تفعیل سے ہو تو ” عَذَّرَ فِی الْأَمْرِ “ کا معنی ہی یہ ہے کہ اس نے کام میں سستی کی، اس کی کوشش ہی نہیں کی اور ظاہر یہ کیا کہ اس کا عذر تھا، حالانکہ اس کا عذر کوئی نہ تھا اور اگر ” الْمُعَذِّرُوْنَ “ باب افتعال سے ہو اور اس کا اصل ” مُعْتَذِرُوْنَ “ ہو پھر بھی جھوٹے بہانے ہی مراد ہیں، جیسا کہ آگے صاف آ رہا ہے : (يَعْتَذِرُوْنَ اِلَيْكُمْ اِذَا رَجَعْتُمْ اِلَيْهِمْ ) [ التوبۃ : ٩٤ ] ” تمہارے سامنے عذر پیش کریں گے، جب تم ان کی طرف واپس آؤ گے۔ “ پہلی تفسیر کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ ہر عذر والا جھوٹا نہیں تھا بلکہ اللہ تعالیٰ نے خود اگلی آیت میں کئی عذر والوں کو گناہ سے بری قرار دیا ہے اور اس آیت میں بھی دونوں قسموں میں سے ” الَّذِيْنَ كَفَرُوْا “ ہی کو عذاب کی وعید سنائی ہے، اگرچہ ترجمے کا رجحان دوسری تفسیر کی طرف ہے، مگر امام ابن کثیر (رض) کی بات میں وزن معلوم ہوتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The details given in the verse tell us that there were two kinds of people among the Bedouins of the desert. First, there were those who visited the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and requested that they might be excused from Jihad and allowed to stay behind. Then, there were the arrogant and rebellious among them who did not even bother to take the trouble of excusing themselves out of it. They just stayed behind. When the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) allowed Jadd ibn Qays that he may not go on Jihad,& says Sayyidna Jabir ibn ` Abdullah (رض) ، ` some hypocrites also came to him, offered their excuses and sought his permission to stay out of Jihad. As for the permission, he let them have it, but he did realize that they were making false excuses, therefore, he turned away from them. Thereupon, this verse was revealed.& It made it clear that their excuse was unacceptable. Therefore, they were served with the warning of a painful punishment. However, by saying: اَلَّذِینَ کَفَرُوا مِنھُم (those of them who disbelieve), a hint was given that the excuse given by some of them was not because of their disbe¬lief or hypocrisy, rather, it was because of their natural laziness. So, they were not to be affected by the punishment to fall upon those dis¬believers.

خلاصہ تفسیر اور کچھ بہانہ باز لوگ دیہاتیوں میں سے آئے تاکہ ان کو ( گھر رہنے کی) اجازت مل جائے اور ( ان دیہاتیوں میں سے) جنہوں نے خدا سے اور اس کے رسول سے ( دعوائی ایمان میں) بالکل ہی جھوٹ بولا تھا وہ بالکل ہی بیٹھ رہے ، ( جھوٹے عذر کرنے بھی نہ آئے) ان میں جو ( آخر تک) کافر رہیں گے ان کو ( آخرت میں) دردناک عذاب ہوگا ( اور جو توبہ کرلیں تو عذاب سے بچ جائیں گے ) ۔ معارف و مسائل اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ ان دیہاتیوں میں دو قسم کے لوگ تھے، ایک تو وہ جو حیلے بہانے پیش کرنے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ ان کو جہاد میں چلنے سے رخصت دے دیجائے، اور کچھ ایسے سرکش بھی تھے جنہوں نے اس کی بھی پروا نہیں کی کہ رخصت لے لیں وہ از خود ہی اپنے گھروں میں بیٹھ رہے۔ حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جد بن قیس کو جہاد میں نہ جانے کی اجازت دے دیتو چند منافقین بھی خدمت میں حاضر خدمت ہوئے، اور کچھ حیلے بہانے پیش کرکے ترک جہاد کی اجازت مانگی، آپ نے اجازت تو دیدی، مگر یہ سمجھ لیا کہ یہ جھوٹے عذر کر رہے ہیں، اس لئے ان سے اعراض فرمایا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی، جس نے بتلا دیا کہ ان کا عذر قابل قبول نہیں، اس لئے ان کو عذاب الیم کی وعید سنائی گئی، البتہ اس کے ساتھ (آیت) الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ فرماکر اشارہ کردیا کہ ان میں سے بعض کا عذر کفر و نفاق کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ طبعی سستی کے سبب تھا وہ ان کفار کے عذاب میں شامل نہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَجَاۗءَ الْمُعَذِّرُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ لِيُؤْذَنَ لَہُمْ وَقَعَدَ الَّذِيْنَ كَذَبُوا اللہَ وَرَسُوْلَہٗ۝ ٠ ۭ سَيُصِيْبُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْہُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝ ٩٠ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ عذر العُذْرُ : تحرّي الإنسان ما يمحو به ذنوبه . ويقال : عُذْرٌ وعُذُرٌ ، وذلک علی ثلاثة أضرب : إمّا أن يقول : لم أفعل، أو يقول : فعلت لأجل کذا، فيذكر ما يخرجه عن کو نه مذنبا، أو يقول : فعلت ولا أعود، ونحو ذلک من المقال . وهذا الثالث هو التّوبة، فكلّ توبة عُذْرٌ ولیس کلُّ عُذْرٍ توبةً ، واعْتذَرْتُ إليه : أتيت بِعُذْرٍ ، وعَذَرْتُهُ : قَبِلْتُ عُذْرَهُ. قال تعالی: يَعْتَذِرُونَ إِلَيْكُمْ إِذا رَجَعْتُمْ إِلَيْهِمْ قُلْ لا تَعْتَذِرُوا[ التوبة/ 94] ، والمُعْذِرُ : من يرى أنّ له عُذْراً ولا عُذْرَ له . قال تعالی: وَجاءَ الْمُعَذِّرُونَ [ التوبة/ 90] ، وقرئ ( المُعْذِرُونَ ) «2» أي : الذین يأتون بالعذْرِ. قال ابن عباس : لعن اللہ المُعَذِّرِينَ ورحم المُعَذِّرِينَ «3» ، وقوله : قالُوا مَعْذِرَةً إِلى رَبِّكُمْ [ الأعراف/ 164] ، فهو مصدر عَذَرْتُ ، كأنه قيل : أطلب منه أن يَعْذُرَنِي، وأَعْذَرَ : أتى بما صار به مَعْذُوراً ، وقیل : أَعْذَرَ من أنذر «4» : أتى بما صار به مَعْذُوراً ، قال بعضهم : أصل العُذْرِ من العَذِرَةِ وهو الشیء النجس «5» ، ومنه سمّي القُلْفَةُ العُذْرَةُ ، فقیل : عَذَرْتُ الصّبيَّ : إذا طهّرته وأزلت عُذْرَتَهُ ، وکذا عَذَرْتُ فلاناً : أزلت نجاسة ذنبه بالعفو عنه، کقولک : غفرت له، أي : سترت ذنبه، وسمّي جلدة البکارة عُذْرَةً تشبيها بِعُذْرَتِهَا التي هي القُلْفَةُ ، فقیل : عَذَرْتُهَا، أي : افْتَضَضْتُهَا، وقیل للعارض في حلق الصّبيّ عُذْرَةً ، فقیل : عُذِرَ الصّبيُّ إذا أصابه ذلك، قال الشاعر : 313- غمز الطّبيب نغانغ المَعْذُورِ «1» ويقال : اعْتَذَرَتِ المیاهُ : انقطعت، واعْتَذَرَتِ المنازلُ : درست، علی طریق التّشبيه بِالمُعْتَذِرِ الذي يندرس ذنبه لوضوح عُذْرِهِ ، والعَاذِرَةُ قيل : المستحاضة «2» ، والعَذَوَّرُ : السّيّئُ الخُلُقِ اعتبارا بِالعَذِرَةِ ، أي : النّجاسة، وأصل العَذِرَةِ : فناءُ الدّارِ ، وسمّي ما يلقی فيه باسمها . ( ع ذ ر ) العذر ایسی کوشش جس سے انسان اپنے گناہوں کو مٹا دینا چاہئے اس میں العذر اور العذر دو لغت ہیں اور عذر کی تین صورتیں ہیں ۔ اول یہ کہ کسی جرم کے ارتکاب سے قطعا انکار کردے دوم یہ کہ ارتکاب جرم کی ایسی وجہ بیان کرے جس سے اس کی براءت ثابت ہوتی ہو ۔ سوم یہ کہ اقرار جرم کے بعد آئندہ اس جرم کا ارتکاب نہ کرنے کا وعدہ کرلے عذر کی اس تیسری صورت کا نام تو بہ ہے جس سے ثابت ہو ا کہ تو بہ عذر کی ایک قسم ہے لہذا ہر توبہ کو عذر کہ سکتے ہیں مگر ہر عذر کو توبہ نہیں کہہ سکتے اعتذرت الیہ میں نے اس کے سامنے عذر بیان کیا عذرتہ میں نے اس کا عذر قبول کرلیا ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ يَعْتَذِرُونَ إِلَيْكُمْ إِذا رَجَعْتُمْ إِلَيْهِمْقُلْ لا تَعْتَذِرُوا[ التوبة/ 94] قُلْ لا تَعْتَذِرُوا[ التوبة/ 94] تو تم سے عذر کرینگے ان سے کہ دو کہ عذر مت کرو ۔ المعذر جو اپنے آپ کو معذور سمجھے مگر دراصل وہ معزور نہ ہو ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَجاءَ الْمُعَذِّرُونَ [ التوبة/ 90] عذر کرتے ہوئے ( تمہارے پاس آئے ) ایک قرات میں معذرون ہے یعنی پیش کرنے والے ابن عباس رضی للہ عنہ کا قول ہے : ۔ یعنی جھوٹے عذر پیش کرنے والوں پر خدا کی لعنت ہو اور جو واقعی معذور ہیں ان پر رحم فرمائے اور آیت کریمہ : ۔ قالُوا مَعْذِرَةً إِلى رَبِّكُمْ [ الأعراف/ 164] تمہارے پروردگار کے سامنے معزرت کرسکیں ۔ میں معذرۃ عذرت کا مصدر ہے اور اسکے معنی یہ ہیں کہ میں اس سے در خواست کرتا ہوں کہ میرا عذر قبول فرمائے اعذ ر اس نے عذر خواہی کی اپنے آپ کو معذور ثابت کردیا ۔ کہا گیا ہے اعذر من انذر یعنی جس نے ڈر سنا دیا وہ معذور ہے بعض نے کہا ہے کہ عذر اصل میں عذرۃ سے ماخوذ ہے جس کے معنی نجاست اور گندگی کے ہیں اور اسی سے جو چمڑا ختنہ میں کاٹا جاتا ہے اسے عذرۃ کہا جاتا ہے اور عذرت الصبی کے معنی ہیں میں نے لڑکے کا ختنہ کردیا گو یا اسے ختنہ کی نجاست سے پاک دیا اسی طرح عذرت فلانا کے معنی ہیں میں نے اسے معانی دے کر اس سے گناہ کی نجاست کو دور کردیا جیسا کہ غفرت لہ کے معنی ہیں میں نے اس کا گناہ چھپا دیا اور لڑکے کے ختنہ کے ساتھ تشبیہ دے کر لڑکی کے پردہ بکارت کو بھی عذرۃ کہا جاتا ہے اور عذر تھا کے معنی ہیں میں نے اس کے پردہ بکارت کو زائل کردیا اوبچے کے حلق کے درد کو بھی عذرۃ کہا جاتا ہے اسی سے عذرالصبی ہے جس کے معنی بچہ کے درد حلق میں مبتلا ہونے کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ( 305 ) غمز الطیب نعاجن المعذور جیسا کہ طبیب درد حلق میں مبتلا بچے کا گلا دبا تا ہے اور معتذر عذر خواہی کرنے والے کی مناسبت سے اعتذرت المیاۃ پانی کے سر چشمے منقطع ہوگئے اور اعتذرت المنازل ( مکانوں کے نشانات مٹ گئے ۔ وغیرہ محاورات استعمال ہوتے ہیں اور عذرۃ ( یعنی نجاست کے اعتبار ) سے کہاجاتا ہے ۔ العاذرۃ وہ عورت جسے استحاضہ کا خون آرہا ہو عذور ۔ بدخلق آدمی دراصل عذرۃ کے معنی مکانات کے سامنے کا کھلا میدان ہیں اس کے بعد اس نجاست کو عذرۃ کہنے لگے ہیں جو اس میدان میں پھینکی جاتی ہے ۔ عرب ( اعرابي) العَرَبُ : وُلْدُ إسماعیلَ ، والأَعْرَابُ جمعه في الأصل، وصار ذلک اسما لسكّان البادية . قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا [ الحجرات/ 14] ، الْأَعْرابُ أَشَدُّ كُفْراً وَنِفاقاً [ التوبة/ 97] ، وَمِنَ الْأَعْرابِ مَنْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ [ التوبة/ 99] ، وقیل في جمع الأَعْرَابِ : أَعَارِيبُ ، قال الشاعر : أَعَارِيبُ ذو و فخر بإفك ... وألسنة لطاف في المقال والأَعْرَابِيُّ في التّعارف صار اسما للمنسوبین إلى سكّان البادية، والعَرَبِيُّ : المفصح، والإِعْرَابُ : البیانُ. يقال : أَعْرَبَ عن نفسه . وفي الحدیث : «الثّيّب تُعْرِبُ عن نفسها» أي : تبيّن . وإِعْرَابُ الکلامِ : إيضاح فصاحته، وخصّ الإِعْرَابُ في تعارف النّحويّين بالحرکات والسّکنات المتعاقبة علی أواخر الکلم، ( ع ر ب ) العرب حضرت اسمعیل کی اولاد کو کہتے ہیں الاعراب دراصل یہ عرب کی جمع ہے مگر یہ لفظ بادیہ نشین لوگون کے ساتھ مختص ہوچکا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا [ الحجرات/ 14] بادیہ نشین نے آکر کہا ہم ایمان لے آئے ۔ الْأَعْرابُ أَشَدُّ كُفْراً وَنِفاقاً [ التوبة/ 97] دیہاتی لوگ سخت کافر اور سخت منافق ہیں ۔ وَمِنَ الْأَعْرابِ مَنْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ [ التوبة/ 99] اور بعض نہ دیہاتی ایسے ہیں کہ خدا پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ اعراب کی جمع اعاریب آتی ہے کسی شاعر نے کہا ہے ( 3011 ) اعاریب ذو و فخر بافک والسنۃ لطاف فی المقابل اعرابی جو جھوٹے فخر کے مدعی ہیں اور گفتگو میں نرم زبان رکھتے ہیں ۔ الاعرابی : یہ اعراب کا مفرد ہے اور عرف میں بادیہ نشین پر بولا جاتا ہے العربی فصیح وضاحت سے بیان کرنے والا الاعراب کسی بات کو واضح کردینا ۔ اعرب عن نفسہ : اس نے بات کو وضاحت سے بیان کردیا حدیث میں ہے الثیب تعرب عن نفسھا : کہ شب اپنے دل کی بات صاف صاف بیان کرسکتی ہے ۔ اعراب الکلام کلام کی فصاحت کو واضح کرنا علمائے نحو کی اصطلاح میں اعراب کا لفظ ان حرکاتوسکنات پر بولا جاتا ہے جو کلموں کے آخر میں یکے بعد دیگرے ( حسب عوامل ) بدلتے رہتے ہیں ۔ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے ( صاب) مُصِيبَةُ والمُصِيبَةُ أصلها في الرّمية، ثم اختصّت بالنّائبة نحو : أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران/ 165] ، فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌالنساء/ 62] ، وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 166] ، وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری/ 30] ، وأصاب : جاء في الخیر والشّرّ. مصیبۃ اصل میں تو اس تیر کو کہتے ہیں جو ٹھیک نشانہ پر جا کر بیٹھ جائے اس کے بعد عرف میں ہر حادثہ اور واقعہ کے ساتھ یہ لفظ مخصوص ہوگیا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران/ 165]( بھلا یہ ) کیا بات ہے کہ ) جب ( احد کے دن کفار کے ہاتھ سے ) تم پر مصیبت واقع ہوئی حالانکہ ( جنگ بدر میں ) اس سے دو چند مصیبت تمہارے ہاتھ سے انہیں پہنچ چکی تھی ۔ فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ [ النساء/ 62] تو کیسی ( ندامت کی بات ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے ۔ وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 166] اور جو مصیبت تم پر دونوں جماعتوں کے مابین مقابلہ کے دن واقع ہوئی ۔ وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری/ 30] اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے سو تمہارے اپنے اعمال سے ۔ اور اصاب ( افعال ) کا لفظ خیرو شر دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ ألم الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء/ 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام/ 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» . ( ا ل م ) الالم کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ { فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ } ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ } ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٠) اے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کی خدمت میں قبیلہ غفار کے کچھ آدمی آئے، معذرون اگر تخفیف کے ساتھ ہو تو مطلب یہ کہ معذور لوگ آئے اور اس کو تشدید کے ساتھ پڑھا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ کچھ بہانہ باز لوگ آئے تاکہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو غزوہ تبوک میں عدم شرکت کی اجازت مرحمت فرمادیں۔ اور ان لوگوں میں سے جنہوں نے خفیہ طریقہ پر جہاد کے بارے میں بغیر اجازت کے مخالفت کی تھی وہ بالکل ہی بیٹھ رہے ، ان منافقین میں سے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو درد ناک عذاب ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٠ (وَجَآءَ الْمُعَذِّرُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ لِیُؤْذَنَ لَہُمْ ) ’ اَعْرَاب ‘ جمع ہے ’ اعرابی ‘ کی ‘ یعنی بدو ‘ دیہاتی ‘ بادیہ نشین لوگ۔ جہاد کے لیے اس نفیر عام کا اطلاق مدینہ کے اطراف و جوانب کی آبادیوں میں بسنے والے مسلمانوں پر بھی ہوتا تھا۔ اب ان کا ذکر ہو رہا ہے کہ ان میں سے بھی لوگ آ آکر بہانے بنانے لگے کہ انہیں اس مہم پر جانے سے معاف رکھا جائے۔ (وَقَعَدَ الَّذِیْنَ کَذَبُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ ط) انہوں نے جو وعدے کیے تھے وہ جھوٹے نکلے یا جو عذر وہ لوگ رخصت کے لیے پیش کر رہے تھے وہ سب بےبنیاد تھے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :90 بدوی عربوں سے مراد مدینہ کے اطراف میں رہنے والے دیہاتی اور صحرائی عرب ہیں جنہیں عام طور پر بدو کہا جاتا ہے ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :91 “منافقانہ اظہار ایمان ، جس کی تہ میں فی الواقع تصدیق ، تسلیم ، اخلاص اور اطاعت نہ ہو ، اور جس کے ظاہری اقرار کے باوجود انسان خدا اور اس کے دین کی بہ نسبت اپنے مفاد اور اپنی دنیوی دلچسپیوں کو عزیز رکھتا ہو ، اصل حقیقت کے اعتبار سے کفر و انکار ہی ہے ۔ خدا کےہاں ایسے لوگوں کے ساتھ وہی معاملہ ہوگا جو منکروں اور باغیوں کے ساتھ ہوگا ، چاہے دنیا میں اس قسم کے لوگ کافر نہ ٹھیرائے جا سکتے ہوں اور ان کے ساتھ مسلمانوں ہی کا سا معاملہ ہوتا رہے ۔ اس دنیوی زندگی میں جس قانون پر مسلم سوسائٹی کا نظام قائم کیا گیا ہے اور جس ضابطہ کی بنا پر اسلامی حکومت اور اس کے قاضی احکام کی تنقید کرتے ہیں ، اس کے لحاظ سے تو منافقت پر کفر یا اشتباہ کفر کا حکم صرف انہی صورتوں میں لگایا جا سکتا ہے جبکہ انکار و بغاوت یا غداری و بے وفائی کا اظہار صریح طور پر ہو جائے ۔ اس لیے منافقت کی بہت سی صورتیں اور حالتیں ایسی رہ جاتی ہیں جو قضائے شرعی میں کفر کے حکم سے بچ جاتی ہیں ۔ لیکن قضائے شرعی میں کسی منافق کا حکم کفر سے بچ نکلنا یہ معنی نہیں رکھتا کہ قضائے خداوندی میں بھی وہ اس حکم اور اس کی سزا سے بچ نکلے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

71: جس طرح مدینہ منورہ میں بہت سے منافق تھے، اسی طرح مدینہ منورہ سے باہر دیہات میں بھی منافق موجود تھے، چونکہ غزوہ تبوک میں جانے کا حکم صرف اہل مدینہ کے لئے نہیں بلکہ آس پاس کے لوگوں کے لئے بھی تھا، اس لئے یہ دیہاتی بھی بہانہ کرنے کے لئے آئے تھے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٩٠۔ اللہ پاک نے اس آیت میں ان دو گروہ کا ذکر فرمایا جنہوں نے جھوٹا عذر کر کے جہاد میں شراکت نہیں کی اس بات میں اختلاف ہے کہ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے عذر کیا تھا بعضوں نے یہ کہا ہے کہ یہ لوگ قبیلہ اسد اور غطفان کے لوگ تھے انہوں نے یہ عذر کیا تھا کہ ہمارے اہل و عیال ہیں جن کے واسطے ہم کو بڑی محنت ومشقت کرنی پڑتی ہے آپ ہمیں گھر میں رہ جانے کا کہیں ہم آپ کے ساتھ اگر چل کر لڑائی میں شریک ہوں تو ہمارے بی بی بچے اور مویشی اکیلے رہ جائیں گے قبیلہ طی کے گنوار آکر ہمارے پیچھے انہیں برباد کردیں گے اور سب مال لوٹ کرلے جائیں گے اس لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں سے کہہ دیا کہ خیر خدا نے تمہاری ضرورت میرے واسطے نہیں رکھی ہے اور بعضوں نے یہ کہا ہے کہ قبیلہ غفار کے چند آدمیوں نے عذر بیان کیا تھا اللہ پاک نے اس عذر کو قبول نہیں کیا۔ صحیح قول یہی ہے کہ اطراف مدینہ میں جو چند قبیلے رہتے تھے ان انہوں نے لشکر اسلام کا ساتھ چھوڑ دیا مال اور اولاد کے دین میں فتور ڈالنے کی روایتیں جو اوپر گزر ٢ ؎ چکی ہیں وہی روایتیں اس آیت کی بھی گویا تفسیر ہیں ان میں سے بعضے لوگوں کو منکر دین اور لائق عذاب اس لئے فرمایا کہ بعض ان میں کے پھر بعد اس کے خالص دل سے پکے مسلمان ہوگئے چناچہ صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ (رض) سے جو روایتیں ہیں ان میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی تعریف فرمائی ہے۔ ٢ ؎ یعنی زیر آیت نمبر ٨٥:۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:90) المعذرون۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ تعذیر (تفعیل) مصدر۔ جھوٹا عذر پیش کرنے والے۔ معذر۔ وہ شخص ہے جس کے پاس کوئی حقیقی عذر نہ ہو۔ اور پھر بھی وہ عذر پیش کرے۔ بعض علماء کے نزدیک معذرون دراصل معذرون (باب افتعال) سے ت کو ذال سے بدلا اور ذال کو ذال میں مدغم کیا اور معذرون ہوگیا۔ اس باب سے اس کے معنی ہوں گے۔ صحیح عذر والے۔ ابن کثیر نے بھی یہی مطلب لیا ہے لکھتے ہیں :۔ یہ بیان ان لوگوں کا ہے جو حقیقتاً کسی شرعی عذر کے باعث جہاد میں شامل نہ ہوسکتے تھے ! مدینہ کے اردگرد کے یہ لوگ آآکر اپنی کمزوری۔ ضعیفی بےطاقتی بیان کرکے اللہ کے رسول سے اجازت لینے آتے کہ اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واقعی انہیں معذور خیال فرما دیں تو اجازت دیدیں یہ بنو غفار کے قبیلے کے لوگ تھے۔ حضرت ابن عباس (رض) کی قرأت میں وجاء المعذرون ہے یعنی اہل عذر لوگ۔ یہی مطلب زیادہ ظاہر ہے کیونکہ اسی جملہ کے بعد ان لوگوں کا بیان ہے جو جھوٹے تھے یہ بیٹھے رہے اور نہ آئے نہ اپنا رک جانے کا سبب پیش کیا نہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے رک جانے کی اجازت چاہی۔ الاعراب۔ گنوار۔ بدو۔ اعراب بادہ نشین کو کہتے ہیں ۔ یہاں پر خاص کر وہ قبائل مراد ہیں جو مدینہ کے اردگرد آباد تھے۔ لیؤذن لہم۔ کہ ان کو اجازت مل جائے۔ وقعد الذین کذبوا اللہ ورسولہ۔ یہ دوسرا گروہ تھا جو گھر بیٹھے رہے۔ اور یہ بھی مناسب نہ سمجھا کہ چلو محض ظاہرداری کے لئے ہی کوئی عذر لنگ پیش کردیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 جو مدینہ کے اطراف اور دورسر صحرائی علاقوں میں رہتے تھے۔4 یعنی دل سے کافر ہیں چاہے زبان سے ایمان کا دعویٰ ہی کیوں نہ کرتے ہوں۔5 دنیا میں قید اور قتل ہوں گے اور آخرت میں آگ کا ایندھن بنیں گے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات 90 تا 93 اسرار و معارف کفار ومنافقین میں بھی درجے ہیں جیسے کچھ گنوار اور دیہاتی تو ایسے تھے جو جانا ہرگز نہ چاہتے تھے ، مگر سے متعلق ہوں یا آخرت سے انہی کا مقدر ہیں اور یہی لوگ کا میا ب ہیں ۔ اور ایسے ہی لوگوں کے لئے جو اپنا جان ومال اور اپنی بہترین کوشش غلبہ اسلام کی راہ میں صرف کرتے ہیں ، اللہ نے جنت تیار کی ہے جس کے نیچے نہریں رواں ہیں جو سداشاداب ہے ۔ اور یہی حقیقی کامیابی ہے کہ ان لوگوں کے مدارج کو پایا جائے اور ان کے نقوش پاپر چل کر حیات بسرہو۔ آیات ٩٠ تا ٩٣ دنیا داری کے لئے اجازت حاصل کرنے آگئے مگر کچھ اسقدر شدید تھے کہ گھر ہی بیٹھ رہے اور جھوٹے منہ اجازت لینا بھی گوارانہ کیا کہ باوجود دعوئے اسلام کے ان کے دلوں میں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کفر بھرا ہوا ہے مگر یہ سب کچھ تو وہ اپنی ہی تباہی کے لئے کر رہے ہیں کہ اس کا نتیجہ درد ناک عذاب ہے ۔ یہاں ان لوگوں کو بھی غور کرنا چاہیئے جو دین کے فرائض کو نہایت بےدروی سے چھوڑے ہوئے ہیں جہاد تو دور کی بات ہے اب تو لوگوں نے نماز تک ترک کردی ہے اور اس کے لئے کوئی جھوٹے منہ بہانہ بنانا بھی ضروری خیال نہیں کرتے حالا ن کہ نماز تو منافق بھی پڑھا کرتے تھے خواہ دکھا نے کو سہی ہاں جہاد کے حکم پہ بہانے کرنے لگے ۔ لیکن اگر کوئی واقعی معذور ہے یا بیماری کے باعث نہیں جاسکتا یا اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کو اس کے پاس کچھ ہے ہی نہیں توا ی سے لوگوں پر کوئی گرفت نہیں مگر خلوص شرط ہے یہ ضروری ہے کہ وہ دل کی گہرائیوں سے طلب رکھتا ہو کہ کاش وسائل ہوتے یا صحت ہوتی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی غلامی کا حق ادا کرتا ۔ تودرد دل رکھنے والوں کا ہاتھ تو اللہ کی مغفرت بڑہ کر تھام لیتی ہے اور ایسے ہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے ۔ نہ ہی ان لوگوں سے گلہ ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے مگر ان کے پاس وسائل نہ تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی بتایا کہ کوئی سواری دستیاب نہیں تو روتے ہوئے واپس جا رہے تھے اور جگر کا خون ان کی آنکھوں سے ٹپک رہا تھا کہ کاش کچھ تو ہاتھ میں ہو جو آج نچھا ور کرتے ۔ ایسے بھی کچھ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے جو تہی دست تھے مگر تبوک جانے کو بےقرار تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو کوئی سواری دستیاب نہ تھی ۔ وہ پلٹے تو بہت دکھی تھے ۔ آخر اللہ جل شانہ نے عجیب انتظام فرمایا کہ چھ ٦ اونٹ کسی طرف سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آگئے تو ان لوگوں کے دیئے گئے ۔ تین کا اہتمام حضرت عثمان (رض) نے کردیا اگرچہ پہلے بہت کافی کر بھی چکے تھے مگر پھر کچھ لوگ بچ رہے یہ انہی کا تذکرہ ہے اور یہ لوگ تو اللہ کی رحمت کو پانے والے ہیں بدنصیب تو وہ ہیں جن کے پاس اسباب بھی ہیں ، بیماروغیرہ بھی نہیں ہیں مگر محض جان بچانے کے لئے بہانے کر رہے ہیں اور اجازت لینا چاہتے ہیں ۔ دراصل ان کی منافقت اور برائی کی سزا کے طور پر ان کے دلوں پر مہر کردی گئی ہے لہٰذا وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی برکات یا اللہ سے تعلق کا لطف یا نیکی کا ثمر کچھ بھی محسوس ہی نہیں کرسکتے دل ہی مردہ ہوگئے توبرکات نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی لذت کون چکھے گا ؟ کہ یہ نعمت ایسی ہے جس کی لذتوں سے قلوب سیراب ہوتے ہیں اور یہ محروم القسمت لوگ دل کی موت کے بعد اب ان نعمتوں کو پہچان بھی سکتے ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 90 تا 93 المعذرون (معذرت پیش کرنے والے) الاعراب (دیہاتی) لبوذن (تاکہ اجازت دی جائے) سیصیب (جلد ہی پہنچے گا) الضعفآء (کمزور، ضعیف) المرضی (مریض) لایجدون (وہ نہیں پاتے ہیں) حرج (گناہ، تنگی) نصحوا (نصیحت کی، انہوں نے نصیحت کی) المحسنین (نیکو کار) اتوک (تیرے پاس آئے) لتحمل (تاکہ تو سوار کرا دے) لا اجد (میں نہیں پاتا ہوں ) اعین (عین) ، آنکھیں تفیض (بہہ رہی ہیں ) الدمع (آنسو) حزن (رنج و غم) الایجدوا (یہ کہ وہ نہیں پا رہے ہیں) السبیل (راستہ، الزام) اغنیآء (مالدار ہیں) تشریح : آیت نمبر 90 تا 93 اعراب، اعرابی کی جمع ہے۔ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو شہروں کے باہر چھوٹی چھوٹی جگہوں پر رہتے ہیں گاؤں دیہات ان کا مسکن ہوتا ہے۔ شہر کے لوگ پھر بھی علم، تہذیب اور شائستگی سے قریب ہوتے ہیں لیکن جو لوگ دیہات اور چھوٹی جگہوں پر ہوتے ہیں ان کی تعلیم و تربیت شہریوں سے مختلف ہوتی ہے ان کے رہنے سہنے کے طریقے ان میں وہ مزاج پیدا نہیں کرتے جو مناسب فضا میسر ہونے پر انسان کو شہروں میں حاصل ہوتے ہیں۔ دیہاتیوں کے طریقے ان میں وہ مزاج پیدا نہیں کرتے جو مناسب فضا میسر ہونے پر انسان کو شہروں میں حاصل ہوتے ہیں۔ دیہاتیوں کی دوسری خصوصیت ان کی سادگی اور سادہ مزاجی بھی ہوتی ہے ان کو ” اعراب “ کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم کی ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ منافقت کا مرض صرف شہروں تک محدود نہ تھا بلکہ بعض بدوی اور اعرابی بھی اس مرض میں مبتلا تھے جب ان سے غزوہ تبوک کے موقع پر جہاد میں چلنے کے لئے کہا گیا تو انہوں نے اپنی غربت، پریشانیوں، موسم کی سختی، جنگوں کی ناتجربہ کاری فصلوں کی تیاری جیسے سیکڑوں عذر پیش کردیئے اور اس جہاد میں اگر انہوں نے کچھ دیا بھی تو اس کو اس طرح پیش کیا جیسے وہ کسی سزا کا جرمانہ ادا کر رہے ہیں فرمایا کہ یہ لوگ ہر وقت اس فکر میں رہتے ہیں کہ اہل ایمان حالات کے بھنور میں پھنس جائیں تو زیادہ بہتر ہے۔ لیکن ان میں جو اہل ایمان ہیں یعنی اللہ پر قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں وہ اپنے ہر خرچ کو اللہ سے قریب ہونے کے تصور کے ساتھ پیش کرتے ہیں اور ہر وقت اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعاؤں کے طلب گار رہتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا کہ ان لوگوں کو واقعی اللہ کا قرب حاصل ہوگا وہ اس کی رحمت کے مستحق ہوں گے۔ اللہ کو بہت جلد اپنی رحمت میں شامل فرمائے گا اور اپنی مغفرت اور رحمت سے نوازے گا۔ اللہ نے فرمایا کہ یہ منافقین تو ہزاروں بہانے اور حیلے کر کے اپنے آپ کو مطمئن کرچکے ہیں لیکن ان کا انجام بہت خراب ہے جو وہ اس دنیا میں اور آخرت میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔ البتہ وہ لوگ جن کو واقعی عذر ہے وہ اگر جہاد میں جانے سے عذر پیش کریں تو اللہ کے پاس ان کا عذر قبول ہوگا اور انپر جہاد کی شرکت نہ کرنے پر کوئی عذر نہیں ہوگا یہ وہ لوگ ہیں جو بہت کمزور، اپاہج یا مجبور ہیں ان کے پاس جنگی ہتھیار یا وسائل نہیں ہیں اگر وہ جہاد میں شرکت نہیں کرتے تو ان سے کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ دراصل مواخذہ تو ان لوگوں سے ہوگا جو مال دار، صاحب حیثیت، صحتمند ہیں جو جہاد میں شرکت کرسکتے ہیں مگر پھر بھی وہ طرح طرح کے عذر پیش کر کے جہاد سے جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہاں ایک بات غور کرنے کی ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے تبوک کے موقع پر جہاد میں جانے پر رضا مندی کے بجائے طرح طرح کے عذر پیش کئے ان پر مسلسل آیات میں جہنم کی وعیدیں آرہی ہیں وجہ کیا ہے ؟ جہاں تک وجہ کا تعلق ہے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جہاد ایک ایسی عبادت ہے جس میں ہر صاحب ایمان شخص کی شرکت لازمی اور ضروری ہے اس سے سوائے ان لوگوں کے جو واقعی جہاد میں شرکت کرنے کے قابل نہیں ہیں اور کسی کے لئے معافی نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جہاد قیامت تک جاری رہے گا اس کو منسوخ کرنے کا کسی کو حق حاصل نہیں ہے۔ قرآن کریم نے جہاد پر اتنا زور اسی لئے دیا ہے تاکہ قیامت تک کسی کو جہاد سے جی چرانے کی ہمت نہ ہو۔ مسلمانوں کا یہ وہ عظیم جذبہ ہے جس سے ساری دنیا کا نپتی ہے اسی لئے ہر دور میں کفار و مشرکین نے اس بات کی کوشش کی یہ کہ کسی طرح مسلمانوں کے دلوں میں جہاد کی عظمت کو کم کیا جائے تاکہ ملت اسلامیہ کی جو روح ہے وہ نکل جائے۔ اس کے برخلاف الحمد للہ تمام مسلمانوں نے ہمیشہ اس حکم پر لبیک کہا ہے اور قیامت تک کہتے رہیں گے۔ لیکن مرزا غلام احمد قادیانی نے انگریزوں کا حق نمک ادا کرتے ہوئے جہاد کو یہ کہہ کر ختم کردیا ہے کہ اب اس کی ضرورت نہیں ہے اور میں جہاد کو منسوخ کرتا ہے۔ درحقیقت مرزا نے جہاد کا نہیں بلکہ قرآن کریم کی ان آیات کا انکار کیا ہے جو قرآن کریم میں ایک دو جگہ نہیں بلکہ متعدد مقامات پر جہاد سے متعلق آیات آئی ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یوں تو دعوی ایمان میں سب ہی منافقین جھوٹے تھے مگر جو عذر کرنے آئے تھے انہوں نے اپنے دعوی کو ظاہر داری میں تو پورا کیا اور بعض ایسے متکبر تھے جنہوں نے ظاہرداری بھی نہ برتی وہ جیسے دل میں جھوٹے تھے ظاہر میں بھی ان کا جھوٹ کھل گیا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مدینہ کے منافقین کے بعد دیہاتی منافقین کا ذکر۔ مدینہ کے منافقین کی دیکھا دیکھی دیہات کے منافقین نے بھی جہاد فی سبیل اللہ سے جان چھڑانے کی پالیسی اختیار کر رکھی تھی۔ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عذر بہانے پیش کرتے آپ ان کے اطوار دیکھ کر ان سے صرف نظر فرماتے منافقین میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنھوں نے یہ بھی گوارا نہ کیا کہ وہ اللہ کے رسول کے پاس حاضر ہو کر کوئی عذر پیش کرتے یا اتنے کڑے وقت میں پیچھے بیٹھے رہنے سے اجتناب کرتے۔ لیکن انھوں نے دونوں میں سے کوئی ایک کام بھی نہ کیا۔ اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کرنے والے تھے جنھیں کافر قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ انھیں اذیت ناک عذاب پہنچے گا مُعَذِّرُوْنَ کا واحد مُعَذِّرُ ہے جس سے مراد ایسا شخص جس کے پاس کوئی حقیقی عذر نہ ہو اس کے باوجود وہ عذر پیش کرے۔ نیکی کے معاملہ میں جھوٹا عذر پیش کرنے والا مجرم ہوتا ہے لہٰذا مجرموں کو اذیت ناک عذاب دیا جائے گا۔ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ لَمَّا مَرَّ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بِالْحِجْرِ قَالَ لَا تَدْخُلُوا مَسَاکِنَ الَّذِینَ ظَلَمُوا أَنْفُسَہُمْ أَنْ یُّصِیبَکُمْ مَا أَصَابَہُمْ إِلَّا أَنْ تَکُونُوا باکِینَ ثُمَّ قَنَّعَ رَأْسَہٗ وَأَسْرَعَ السَّیْرَ حَتَّی أَجَازَ الْوَادِیَ ) [ رواہ البخاری، کتاب المغازی، باب نزول النبی الحجر ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجر کے مقام سے گزرے آپ نے فرمایا ان لوگوں کے مقام سے نہ گزرا کرو جن لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا کہیں تم پر وہ آفت نہ آن پڑے۔ جو ان پر آن پڑی تھی۔ اگر گزرنا نا گزیر ہو تو روتے ہوئے گزرا کرو پھر آپ نے اپنا سر جھکایا اور سواری کو تیزچلایا یہاں تک کہ اس وادی سے گزر گئے۔ “

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

پہلے لوگ تو وہ ہیں جن کے عذرات حقیقی ہیں۔ لہذا ان کو اجازت دے دی گئی اور وہ مجبوراً رہ گئے ، رہے دوسرے تو وہ بلا عذر رہے۔ کیونکہ انہوں نے اور رسول اللہ کے سامنے جھوٹے عذرا پیش کیے۔ ان میں سے جن لوگوں نے کفر کا ارتکاب کیا وہ تو عذاب الیم سے دوچار ہوں گے۔ ہاں جن لوگوں نے توبہ کرلی تو ان کا ذکر یہاں نہیں ہے کہ ان کا انجام کیا ہوگا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

جن حضرات کے پاس سواری نہ تھی وہ غزوہ تبوک کی شرکت سے محرومی پر رو رہے تھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب غزوہ تبوک میں شرکت کرنے کے لیے اپنے ہمراہ چلنے کی دعوت دی تو یہ دعوت اہل مدینہ کو اور آس پاس کے دیہات کے رہنے والے جو لوگ تھے ان سب کو عام تھی بہت سے منافقین ایسے تھے جنہوں نے عذر پیش نہ کیا اور دیدہ دلیری کے ساتھ اپنے گھروں ہی میں رہ گئے اور بہت سے دیہات کے رہنے والے عذر پیش کرنے کے لیے آئے وہ عذر پیش کر کے پیچھے رہ گئے۔ پہلی آیت کریمہ میں ان لوگوں کا ذکر ہے۔ آیت کے ختم پر فرمایا (سَیُصِیْبُ الَّذِیْنََ کَفَرُوْا مِنْھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ) (ان میں سے جو لوگ کفر ہی پر رہیں گے ان کو درد ناک عذاب ہوگا) منافقین کے بارے میں جو (الَّذِیْنَ کَذَبُوا اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ ) فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اپنے دعوائے ایمان میں اللہ سے اور اس کے رسول سے جھوٹ بولا تھا، دیہات کے جو لوگ عذر کرنے کے لیے آئے تھے ان کے بارے میں بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ قبیلہ بنی اسد اور قبیلہ بنی غطفان کے لوگ تھے اور بعض حضرات نے قبیلہ بنی غفار کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس کے بعد ان مخلصین مسلمانوں کا ذکر فرمایا جن کو واقعی عذر تھا اور ساتھ ہی ان لوگوں کا ذکر فرمایا جو معذور ہوتے ہوئے بھی خدمت عالی میں حاضر ہوئے اور انہوں نے آپ سے عرض کیا کہ ہمیں بھی سواری دے دیجیے ہم بھی ساتھ چلیں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

84:“ وَ جَآءَ الْمُعَذِّرُوْنَ الخ ” یہاں ان لوگوں کا ذکر کیا گیا جو واقعی معذور تھے اور اپنا عذر بیان کر کےحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تخلف عن الجہاد کی اجازت لیتے تھے اور اس سے بنی غفار کے لیے لوگ مراد ہیں۔ “ ثم بین تعالیٰ حال ذوي الاعذار فی ترک الجهاد الذین جاء وا رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم یعتذرون الیه و یبینون له ما ھم فیه من العنف و عدم القدرة علی الخروج الخ ” (ابن کثیر ج 2 ص 381) “ وَ قَعَدَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا الخ ” لیکن منافقین نے پوری دیدہ دلیری سے کام لیا اور کسی قسم کا کوئی عذر و بہانہ پیش کیے بغیر ہی جہاد میں شریک نہ ہوئے اور گھروں میں بیٹھ رہے۔ “ سَیُصِیبُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا الخ ” یہ ان کے لیے تخویف اخروی ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

90 کچھ دیہاتیوں میں سے بھی بہانہ سازی کرتے ہوئے آئے تاکہ ان کو بھی گھروں میں رہ جانے کی اجازت دے دی جائے اور جن لوگوں نے ان دیہاتیوں میں سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے بالکل ہی جھوٹ بولا وہ تو گھروں میں بیٹھ رہے ان دیہاتیوں میں سے جو لوگ آخر تک کفر پر قائم رہیں گے ان پر آخرت میں دردناک عذاب واقع ہوگا۔ یعنی بالکل جھوٹ بولنے والے معذرت بھی کرنے نہیں آئے دیہاتیوں میں سے بعض لوگ اچھے بھی ہیں جن کا ذکر آگے آئے گا۔