Surat us Shams

Surah: 91

Verse: 10

سورة الشمس

وَ قَدۡ خَابَ مَنۡ دَسّٰىہَا ﴿ؕ۱۰﴾

And he has failed who instills it [with corruption].

اور جس نے اسے خاک میں ملا دیا وہ ناکام ہوا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Indeed he succeeds who purifies it. And indeed he fails who Dassaha. This could mean that whoever purifies himself by obedience to Allah, then he will be successful. This is as Qatadah said, "He cleanses it from the lowly and despicable characteristics." Similar to this has been reported from Mujahid, `Ikrimah and Sa`id bin Jubayr. وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّـهَا And indeed he fails who Dassaha. meaning, to conceal it. This means that he makes it dull, and he disregards it by neglecting to allow it to receive guidance. He treats it in this manner until he performs acts of disobedience and he abandons obedience of Allah. It also could mean that he is indeed successful whose soul Allah purifies, and he has failed whose soul Allah corrupts. This is like what was reported by Al-`Awfi and `Ali bin Abi Talhah from Ibn `Abbas. At-Tabarani recorded that Ibn `Abbas said, "The Messenger of Allah used to stop whenever he recited this Ayah, وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا By Nafs, and Ma Sawwaha (Who apportioned it). Then He showed it its Fujur and its Taqwa. Then he would say, اللْهُمَّ اتِ نَفْسِي تَقْوَاهَا أَنْتَ وَلِيُّهَا وَمَوْلاَهَا وَخَيْرُ مَنْ زَكَّاهَا O Allah! Give my soul its good. You are its Guardian and Master, and the best to purify it." Another Hadith Imam Ahmad recorded that Zayd bin Arqam said that the Messenger of Allah said, اللْهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْعَجْز وَالْكَسَلِ وَالْهَرَمِ وَالْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ اللْهُمَّ اتِ نَفْسِي تَقْوَاهَا وَزَكِّهَا أَنْتَ خَيْرُ مَنْ زَكَّاهَا أَنْتَ وَلِيُّهَا وَمَوْلاَهَا اللْهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ قَلْبٍ لاَ يَخْشَعُ وَمِنْ نَفْسٍ لاَ تَشْبَعُ وَعِلْمٍ لاَ يَنْفَعُ وَدَعْوَةٍ لاَ يُسْتَجَابُ لَهَا O Allah! Verily, I seek refuge with You from weakness, laziness, senility (of old age), cowardliness, stinginess and the torment of the grave. O Allah! Give my soul its good and purify it, for You are the best to purify it. You are its Guardian and Master. O Allah! Verily, I seek refuge with You from a heart that is not humble, a soul that is not satisfied, knowledge that does not benefit and a supplication that is not answered. Zayd then said, "The Messenger of Allah used to teach us these (words) and we now teach them to you." Muslim also recorded this Hadith.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

10۔ 1 یعنی جس نے اسے گمراہ کرلیا وہ خسارے میں رہا جس کے معنی ہیں ایک چیز کو دوسری چیز میں چھپا دینا، جس نے اپنے نفس کا چھپا دیا اور اسے بےکار چھوڑ دیا اسے اللہ کی اطاعت اور عمل صالح کے ساتھ مشہور نہیں کیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩] آیت نمبر ٩ اور نمبر ١٠ جواب قسم ہے۔ یعنی ابتدا سورة سے آیت نمبر ٨ تک جتنی باہم متضاد اشیاء کی قسمیں کھائی گئی ہیں وہ اس حقیقت پر کھائی گئی ہیں کہ جس نے اپنے نفس کو کفر و شرک سے، فاسد عقائد سے اور اخلاق رذیلہ سے پاک کرلیا۔ وہ کامیاب ہوگیا اور جس شخص نے اپنے ضمیر کی آواز کو جو اسے خیر و شر پر متنبہ کرتی رہتی ہے، خاک میں دبا دیا وہ نامراد ہوگیا۔ یعنی جس طرح سورج اور چاند ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ دن اور رات مختلف اور متضاد ہیں۔ زمین اور آسمان ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ فجور اور تقویٰ یا خیر اور شر ایک دوسرے کی ضد ہے۔ اسی طرح خیر و شر کی بنیاد پر اٹھنے والے اعمال کے نتائج بھی یقیناً ایک دوسرے سے متضاد اور مختلف ہونے چاہییں۔ وہ ایک جیسے کبھی نہیں ہوسکتے۔ تقویٰ کی بنیاد پر کیے ہوئے اعمال کا نتیجہ اخروی فلاح و کامیابی ہے جبکہ فجور کی بنیاد پر کیے ہوئے اعمال کا نتیجہ اخروی ناکامی اور نامرادی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(وقد خاب من دسھا):”’ سا “ ”’ س یدس دسا “ (ن) سے مبالغے کے لئے باب تفعیل ہے، معنی ہے مٹی میں دبا دینا، یہ اصل میں ”’ سس “ تھا، دوسرے سین کو الف کردیا، جیسے ” تقضض البازی “ (باز شکار ٹوٹ پڑا) کو ” تقضی البازی “ کہہ دیتے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :(ام یدسہ فی التراب) (النحل : ٥٩) ” یا اسے مٹی میں دبا دے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰـىہَا۝ ١٠ ۭ خاب الخَيْبَة : فوت الطلب، قال : وَخابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ [إبراهيم/ 15] ، وَقَدْ خابَ مَنِ افْتَرى [ طه/ 61] ، وَقَدْ خابَ مَنْ دَسَّاها [ الشمس/ 10] . ( خ ی ب ) خاب ( ض ) کے معنی ناکام ہونے اور مقصد فوت ہوجانے کے ہیں : قرآن میں ہے : ۔ وَخابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ [إبراهيم/ 15] تو ہر سرکش ضدی نامراد ہوگیا ۔ وَقَدْ خابَ مَنِ افْتَرى [ طه/ 61] اور جس نے افتر ا کیا وہ نامراد رہا ۔ وَقَدْ خابَ مَنْ دَسَّاها [ الشمس/ 10] اور جس نے اسے خاک میں ملایا وہ خسارے میں رہا ۔ دس الدَّسُّ : إدخال الشیء في الشیء بضرب من الإكراه . يقال : دَسَسْتُهُ فَدَسَّ وقد دُسَّ البعیر بالهناء «1» ، وقیل : ليس الهناء بالدّسّ «2» ، قال اللہ تعالی: أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرابِ [ النحل/ 59] . ( د س س ) الدس ( ن ) کے معنی ایک چیز کو دوسری چیز میں زبر دستی داخل کردینے کے ہیں کہا جاتا ہے ۔ دسستہ فدس ۔ میں نے اسے ٹھونسا تو وہ ٹھنس گیا دس البعیر بالھناء ۔ اونٹ پر زبر دستی قطران ملی گئی ۔ بعض کہتے ہیں کہ قطران کے متعلق دس کا لفظ استعمال نہیں ہوتا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرابِ [ النحل/ 59] یا زمین میں گاڑی دی ۔ دسھا : دس اصل میں دسس تھا۔ آخری س کو الف سے بدل دیا۔ اور تد سیس کے معنی ہیں اخفاء بمعنی چھپانا۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے۔ ام یدسہ فی التراب (16:59) یا اس کو مٹی میں چھپا دے۔ آیت میں ہلاک کرنا مراد ہے کیونکہ ہلاک کرنا چھپانے کو مستلزم ہے۔ نیز ملاحظہ ہو آیت 9 مذکوہ بالا۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠{ وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰٹہَا ۔ } ” اور ناکام ہوگیا جس نے اسے مٹی میں دفن کردیا۔ “ یہ اس سورت کا مرکزی مضمون ہے ۔ ان دو آیات میں انتہائی اختصار کے ساتھ انسان کی حقیقی کامیابی اور ناکامی کا معیار بیان کردیا گیا ہے۔ دَسَّ یَدُسُّ کے معنی کسی چیز کو مٹی میں دفن کردینے کے ہیں۔ سورة النحل (آیت ٥٩) میں ہم پڑھ چکے ہیں : { اَیُمْسِکُہٗ عَلٰی ھُوْنٍ اَمْ یَدُسُّہٗ فِی التُّرَابِط } اس آیت میں قبل از اسلام زمانے کے عربوں کی ایک خاص ذہنیت کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ ان میں سے جس شخص کے گھر بیٹی پیدا ہوتی ہے وہ یا تو اسے ذلت آمیز طریقے سے زندہ رکھتا ہے یا زندہ دفن کردیتا ہے۔ یہاں ” دَسّٰی “ دراصل دَسَّسَ (باب تفعیل) ہے ‘ اس کے آخری سین کو یا سے بدل دیا گیا ہے۔ تو جس انسان نے اپنے نفس کو مٹی میں دفن کردیا (اس کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ جس نے اپنی روح کو اپنے خاکی وجود کے اندر دبا دیا ۔ یعنی جس کی حیوانی خواہشات و شہوات اس کی روح پر غالب آگئیں) تو وہ ناکام رہا۔ البتہ جیسا کہ سورة الاعلیٰ کے مطالعہ کے دوران بھی نشان دہی کی گئی ہے ‘ زیر مطالعہ سورتوں کے مضامین میں سے اکثر کا تعلق سورة الاعلیٰ کے مضامین کے ساتھ ہے۔ چناچہ سورة الاعلیٰ میں { قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی ۔ } کے الفاظ میں جو مضمون انتہائی مختصر انداز میں آیا تھا ‘ یوں سمجھیں کہ اب آیات زیر مطالعہ میں اس مضمون کی مزید تفصیل بیان ہوئی ہے۔ اس مضمون پر قسموں کی صورت میں یہاں مزید گواہیاں بھی لائی گئی ہیں اور زیر مطالعہ آیت کے الفاظ { وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰٹہَا ۔ } میں تصویر کا دوسرا رخ بھی دکھایا گیا ہے۔ دراصل انسان کا نفس اس کے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت ہے۔ اس امانت کو پاک صاف رکھنا اس کی ذمہ داری ہے ۔ نفس کو پاک کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو ‘ یعنی اپنی شخصیت کو تمام رذائل اور باطنی بیماریوں سے پاک کر کے بہترین انسانی خوبیوں کا مرقع بنائے۔ اس کے لیے ہمارے ہاں عام طور پر تزکیہ نفس ‘ تعمیر ِسیرت ‘ تعمیر خودی وغیرہ اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کی نظر میں کامیاب انسان وہی ہے جو اپنے نفس کو پاک کرنے اور پاک رکھنے میں کامیاب ہوگیا ‘ خواہ دنیا والوں کی نظروں میں وہ حقیر ‘ فقیر اور بےنام ہی کیوں نہ ہو۔ اس کے برعکس جس انسان نے اپنے نفس کو رذائل و خبائث سے آلودہ کرلیا ‘ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ ناکام ہے ‘ دنیا میں خواہ وہ غیر معمولی عزت ‘ شہرت اور دولت کا مالک ہی کیوں نہ ہو ۔ اس لیے کہ اصل اور حقیقی کامیابی اور ناکامی کا تعلق انسان کے ظاہر سے نہیں بلکہ اس کی ” ذات “ سے ہے۔ انسان کی ” ذات “ سے کیا مراد ہے ؟ فرائڈ نے اسے انسان کی self (اَنا) کا نام دیا ہے۔ اس کے نزدیک انسان کی اصل کامیابی یہ ہے کہ وہ اپنی self کو id اور libido کے تسلط سے آزاد کرا کے اسے مثبت انداز میں ترقی دے۔ علامہ اقبال نے اسے خودی کا نام دیا ہے اور انسان کی ” کامیابی “ کو اس کی خودی کی تعمیر و ترقی سے مشروط کیا ہے۔ بہرحال اس حوالے سے سمجھنے کا اصل نکتہ یہ ہے کہ انسان محض ایک جسم یا ہاتھ پائوں ‘ سر ‘ دھڑ وغیرہ کے مجموعے کا نام نہیں ہے۔ انسان کہتا ہے میرا ہاتھ ‘ میرا پائوں ‘ میرا سر وغیرہ۔ یہ تمام اعضاء بیشک اس کے ہیں ‘ لیکن وہ انسان جو ان اعضاء کو اپنا بتارہا ہے وہ خود کیا ہے ؟ اور کہاں ہے ؟ ظاہر ہے اصل انسان اس جسم یا وجود کے اندر ہے۔ اس کو ایسے سمجھیں کہ جس طرح آم کی گٹھلی کے اندر آم کا پورا درخت موجود ہے ‘ اسی طرح انسانی جسم کے اندر اصل انسان ایک لطیف شخصیت کی صورت میں موجود ہے۔ یہ لطیف شخصیت عبارت ہے اس روح سے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے حیوانی یا خاکی وجود کے اندر پھونکی ہے : { وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ } (الحجر : ٢٩) ۔ روح یا انسان کی انا کا ذکر اپنشد کے اس فقرے میں بھی ہے ‘ جس کا حوالہ میں پہلے بھی دے چکا ہوں : Man in his ignorance identifies himself with the material sheeths that encompass his real self. گویا انسان کی self یا انا یا خودی یا روح اس کے حیوانی وجود کی مٹی کے اندر دفن ایک خزانہ ہے۔ اب جو انسان اس خزانے کو مٹی سے نکال کر کام میں لے آئے گا ‘ یعنی اپنی روح کو صیقل کرلے گا ‘ اس کا نفس پاک ہوجائے گا (روح کی پاکیزگی نفس کی پاکیزگی کا باعث بنتی ہے۔ دونوں کا تعلق انسان کے باطن سے ہے) اور وہ کامیابی یا فلاح کے راستے پر گامزن ہوجائے گا۔ (فلاح کا لفظ قرآن مجید میں ایک جامع اصطلاح کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ اس اصطلاح کے مفہوم کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورة المومنون کی پہلی آیت کی تشریح۔ ) زیر مطالعہ آیات کے حوالے سے یہ نکتہ خصوصی طور پر پیش نظر رہنا چاہیے کہ انسان کی روح اور اس کا نفس دو الگ الگ چیزیں ہیں اور ان آیات میں انسانی روح کا نہیں بلکہ انسانی نفس کا ذکر ہوا ہے۔ روحِ انسانی دراصل عالم امر کی چیز ہے اور یہ معرفت خداوندی اور محبت خداوندی کی امین ہے ‘ جبکہ نفس انسانی کا تعلق عالم خلق سے ہے ۔ اسی لیے اس کے ذکر سے پہلے جن چیزوں کی یہاں قسمیں کھائی گئی ہیں ان سب (سورج ‘ چاند ‘ دن ‘ رات ‘ آسمان ‘ زمین) کا تعلق بھی عالم خلق سے ہے ۔ روح تمام مخلوقات میں سے صرف انسان کو عطا ہوئی ہے ‘ جبکہ نفس گدھے ‘ گھوڑے اور چمپنیزی وغیرہ سب جانوروں میں ہوتا ہے۔ البتہ انسان کی خصوصیت اس حوالے سے یہ ہے کہ دوسرے جانوروں کے مقابلے میں نفس انسانی کو اللہ تعالیٰ نے خصوصی ارتقائی درجات سے نوازا ہے اور اس کے اندر اخلاقی حس اور نیکی و بدی کی وہ تمیز الہام کردی ہے جو دوسرے جانوروں کے نفس میں نہیں پائی جاتی۔ اسی حس اور تمیز کی وجہ سے انسانی فطرت آفاقی سطح پر نیکی کو اچھا اور بدی کو برا سمجھتی ہے۔ دنیا میں کسی معاشرے ‘ کسی مذہب اور کسی نسل کا انسان ہو وہ سچ بولنے کو اچھا اور جھوٹ بولنے کو برا سمجھتا ہے۔ اس حوالے سے قرآن میں معروف اور منکر کی اصطلاحات کثرت سے استعمال ہوتی ہیں۔ معروف وہ چیزیں یا افعال یا اعمال ہیں جو نفس انسانی کے لیے مانوس ہیں۔ انہیں دیکھ کر یا اپنا کر نفس انسانی کو راحت محسوس ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں منکرات وہ چیزیں یا اعمال یا افعال ہیں جنہیں نفس انسانی برا سمجھتا ہے اور جن کی صحبت و معیت میں وہ اجنبیت اور کوفت محسوس کرتا ہے ‘ بلکہ وہ انسان کو ایسے اعمال و افعال سے ٹوکتا ہے۔ اسی لیے انسان غلطی کرنے کے بعد اکثر یہ کہتا پایا جاتا ہے کہ ” میرا ضمیر مجھے ملامت کر رہا ہے “ (my conscience is pinching me) ۔ نفس انسانی کی اسی خصوصیت کی وجہ سے سورة القیامہ کی آیت ٢ میں اسے نفس لوامہ (ملامت کرنے والا نفس) کا نام دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے آیات زیر مطالعہ کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ نفس انسانی کے اندر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نیکی اور بدی کی تمیز کا بنیادی بیج ڈال دیا گیا ہے۔ اب انسان کا کام یہ ہے کہ وہ اس بیج کی حفاظت کرے ‘ اسے سازگار ماحول فراہم کرے اور عمل صالح کے پانی سے اس کی آبیاری کرے۔ سورة فاطر ( آیت ١٠) میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : { اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗط } کہ کسی بھی اچھی بات یا اچھے کلام میں اللہ تعالیٰ کے حضور پہنچنے کی صلاحیت تو ہوتی ہے لیکن عمل صالح اس کی اس صلاحیت کو اور بڑھا دیتا ہے۔ چناچہ انسان جب تزکیہ نفس اور اعمالِ صالحہ کے حوالے سے محنت کرے گا تو اسے ایمان کی حلاوت بھی نصیب ہوگی ‘ وہ ایمان کے ان ثمرات سے بھی بہرہ مند ہوگا جن کا ذکر ہم سورة التغابن میں پڑھ آئے ہیں اور اسے کامیابی کی ضمانت بھی ملے گی۔ اس کے برعکس جس انسان نے اپنے نفس کو حیوانی وجود کے تابع کیے رکھا اور وہ اس کی آواز کو دبا کر زندگی بھر جسمانی تقاضے پورے کرنے میں لگا رہا وہ گویا خائب و خاسر ہو کر رہ گیا۔ اب اگلی آیات میں ایک قوم یا ایک معاشرے کے اجتماعی ضمیر کے حوالے سے ایک مثال دی گئی ہے۔ ظاہر ہے جس طرح ایک انسان کے اندر نیکی اور بدی کی تمیز ہوتی ہے اسی طرح ہر معاشرے میں اجتماعی طور پر بھی اخلاقی حس پائی جاتی ہے ‘ اور جس طرح ایک انسان میں اچھے برے داعیات ہوتے ہیں اسی طرح ہر معاشرے کے اندر بھی نیکی کے علمبردار اور شر پھیلانے والے عناصر موجود ہوتے ہیں۔ غرض جس طرح ایک فرد کا ضمیر ہوتا ہے اسی طرح معاشروں اور قوموں کا اجتماعی ضمیر بھی ہوتا ہے۔ چناچہ اگر کسی قوم کا اجتماعی ضمیر زندہ ہو ‘ اس کی صفوں میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ احسن طریقہ سے ادا کیا جا رہا ہو تو اس قوم کے مجموعی حالات بہتر طور پر چلتے رہتے ہیں ۔ لیکن اگر کسی قوم کا اجتماعی ضمیر مردہ ہوجائے اور اس کی اخلاقی حس بحیثیت مجموعی اس قدر کمزور ہوجائے کہ اس کے ماحول میں برائی کو برائی کہنے والا بھی کوئی نہ رہے تو ایسی قوم اپنے زندہ رہنے کا جواز کھو دیتی ہے۔ علامہ اقبال نے اپنے اس شعر میں اسی اجتماعی بےحسی کی تصویر پیش کی ہے : ؎ وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا ! اس حوالے سے اب ملاحظہ ہو قوم ثمود کی مثال :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

6 This is for which an oath has been sworn by the things mentioned in the above verses. Let us now consider how those things bear upon it. The rule that Allah has followed in the Qur'an is that to bear testimony to the truths that He wants to impress on the human mind, he cites some of the most conspicuous, common-place things which every man sees in his surroundings, or in his own self. Accordingly here, pairs of contradictory things have been cited, each unlike the other in its effects and results, rather opposite and reverse. The first pair is of the sun and the moon. The light of the sun is intensely bright and also hot. As against it the moon has no light of its own. Even if it is there in the sky when the sun shines, it is without light. It shines when the sun hides, and even then its light is neither so bright that it may change the night into day nor is there any heat in it that it may have the same effect as the sun's light. Nevertheless, it has its own effects which are quite different from the effects of the sun. Likewise, there is the pair of the day and the night. Each is the reverse of the other. The effects and results of each are so different from the other that no one can say they are alike; so much so that even a most foolish person cannot possibly say that the day's being the day or the ,night's being the night dces not make any difference. Likewise, there is the pair of the sky and the earth; the former has been raised high by the Creator and the latter spread like a carpet beneath it. Although both are serving the same universe, its system and expediencies, yet there is a world of difference between their functions and their effects and results. After citing these universal evidences, man's own self has been considered, and it has been said that after balancing it with suitable combination of the limbs, senses and mental powers and faculties the Creator has placed in it tendencies, inclinations and motives to both good and evil, which are contradictory to each other, and made him understand by inspiration the distinction between the two: that one is fujur, which is evil, and the other is tagva, which is good. Now, if the sun and the moon, the day and the night, the earth and the heaven, are not alike but necessarily different from each other in their effects and results, how can fujur and taqva of the self be alike in spite of being reverse of each other? Man himself in this world does not regard and acknowledge the good and the evil as equal, no matter what criteria of good and evil he might have devised for himself according to his self-propounded philosophies. In any case, about whatever he regards as good, he holds the opinion that it is appreciable and worthy of praise, reward and recompense. On the contrary, about whatever he regards as evil, it is his own objective opinion that it is worthy of condemnation and punishment. But the real judgement does not lie with man; it lies with the Creator, Who has inspired man with his fujur and taqva. The fujur is that which is fujur in the sight of the Creator and the tagva that which is tagva in His sight, and both have separate results in the sight of the Creator. The result of the one is that he who purifies his self, should attain to eternal success, and the result of the, other is that he who suppresses his self, should be a failure. Tazkiyah means to purify, develop and cultivate. In the context it clearly moans the one who purifies his self of fujur and develops it to the level of tagva and cultivates in it the ,good, will attain to eternal success. As against this; the word dassaha has been used, the infinitive of which is tadsiyah, which means to suppress, conceal, seduce and lead astray. The meaning of this also becomes clear from the context; i. e. the one who suppresses the tendency in his self towards good instead of developing and cultivating it, who seduces it into doing evil, and makes fujur dominate over taqva so as to cover it up completely like the dead body which is buried and covered with earth, will be a failure. Some commentators have interpreted this verse to mean: "Truly successful was he whom (whose self) Allah purified .and a failure he whom (whose self) Allah suppressed." But this commentary is, firstly, opposed to the style of the Qur'an in view of the language, for if Allah had meant to say this, He would have said: "Truly successful was the self which Allah purified and a failure the self which Allah suppressed;" secondly, this commentary clashes with the other statements of the Qur'an on this subject. In Surah Al-A`la, Allah says: "Truly successful was he who adopted purity." (v. 14) . In Surah `Abasa, Allah has addressed His Holy Messenger, saying: "And. you would not be responsible if he did not adopt purity " In both these verses, adoption of purity has been regarded as an act of man. Besides, the truth stated at many places in the Qur'an is that man in this world is being put to the test. For example, in Surah Ad-Dahr, it is said: "We created man from a mixed sperm-drop, to try him, and so We made him capable of hearing and seeing." (v. 2) In Surah AlMulk it is stated: "Who created death and life that he may try you to see which of you is best in deeds. (v. 2) Now, obviously, if the examiner at the outset encourages one candidate and discourages the other, the test would he a farce. Therefore, the correct commentary is that which Qatadah, `Ikrimah, Mujahid and Sa`id bin Jubair have given, saying that the subject zakkaha and dassaha is man and not God. As for the Hadith which Ibn Abi Hatim has related on the authority of Juwaybir bin Sa`id from Dahhak from Ibn `Abbas, saying that the Holy Prophet (upon whom be peace) himself interpreted this verse to mean: "Truly successful was the self whom the Almighty Allah purified"; this saying is not confirmed to be from the Holy Prophet, for its one reporter Juwaybir, has been rejected as a narrator of Hadith, and Dahhak did not meet Ibn `Abbas. However, the Hadith which Imam Ahmad, Muslim, Nasa'i and Ibn Abi Shaibah have related on the authority of Hadrat Zaid bin Arqam, is correct which says that the Holy Prophet used to pray: "O Allah, grant my self its taqva and purify it: You alone are the best to purify it; You alone are its Guardian and Master. " In almost similar words, this supplication of the Holy Prophet has been related by Tabarani Ibn Marduyah and lbn al-Mundhir from Hadrat `Abdullah bin `Abbas and Imam Ahmad from Hadrat `A'ishah. It actually means that man can only desire and seek tagva and tazkiyah; as for its attainment, it depends in any case on Allah's grace and,favour alone. And the same also is we of tadsiyah: Allah does not suppress a self forcibly, but when a man is resolved on iniquity, Allah deprives him of the grace of tagva and tazbyab, 'and leaves him alone to suppress and bury his self under nay heap of filth he likes.

سورة الشَّمْس حاشیہ نمبر :6 یہ ہے وہ بات جس پر ان چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے جو اوپر کی آیات میں مذکور ہوئی ہیں ۔ اب غور کیجئے کہ وہ چیزیں اس پر کس طرح دلالت کرتی ہیں ۔ قرآن میں اللہ تعالی کا قاعدہ یہ ہے کہ جن حقائق کو وہ انسان کے ذہن نشین کرانا چاہتا ہے ، ان کی شہادت میں وہ سامنے کی چند ایسی نمایاں ترین چیزوں کو پیش کرتا ہے جو ہر آدمی کو اپنے گردوپیش کی دنیا میں ، یا خود اپنے وجود میں نظر آتی ہیں ۔ اسی قاعدے کے مطابق یہاں دو چیزوں کو ایک دوسرے کے مقابلے میں پیش کیا گیا ہے جو ایک دوسرے سے متضاد ہیں اس لیے ان کے آثار اور نتائج بھی یکساں نہیں ہیں بلکہ لازماً ایک دوسرے سے مختلف ہے ۔ ایک طرف سورج ہے اور دوسری طرف چاند ۔ سورج کی روشنی نہایت تیز ہے اور اس میں گرمی بھی ہے ۔ اس کے مقابلہ میں چاند اپنی کوئی روشنی نہیں رکھتا ۔ سورج کی موجودگی میں وہ آسمان پر موجود بھی ہو تو بے نور ہوتا ہے ۔ وہ اس وقت چمکتا ہے جب سورج چھپ جائے ، اور اس وقت بھی اس کی روشنی نہ اتنی تیز ہوتی ہے کہ رات کو دن بنا دے ، نہ اس میں کوئی گرمی ہوتی ہے کہ وہ کام کر سکے جو سورج کی گرمی کرتی ہے ۔ لیکن اس کے اپنے کچھ اثرات ہیں جو سورج کے اثرات سے بالکل مختلف ہوتے ہیں ۔ اسی طرح ایک طرف دن ہے اور دوسری طرف رات ۔ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں ۔ دونوں کے اثرات اور نتائج باہم اس قدر مختلف ہیں کہ کوئی ان کو یکساں نہیں کہہ سکتا حتی کہ ایک بے وقوف سے بے وقوف آدمی کے لیے بھی یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ رات ہوئی تو کیا اور دن ہوا تو کیا ، کسی سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ اسی طرح ایک طرف آسمان ہے جسے خالق نے بلند اٹھایا ہے اور دوسری طرف زمین ہے جسے پیدا کرنے والے نے آسمان کے نیچے فرش کی طرح بچھا دیا ہے ۔ دونوں اگرچہ ایک ہی کائنات اور اس کے نظام اور اس کی مصلحتوں کی خدمت کر رہے ہیں ، لیکن دونوں کے کام اور ان کے اثرات و نتائج میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ ان آفاقی شہادتوں کو پیش کرنے کے بعد خود انسان کے اپنے نفس کو لیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اسے اعضا اور حواس اور ذہنی قوتوں کے متناسب امتزاج سے ہموار کر کے خالق نے اس کے اندر بھلائی اور برائی ، دونوں کے میلانات ، رجحانات اور محرکات رکھ دیے ہیں جو ایک دوسرے کی ضد ہیں اور الہامی طور پر اسے ان دونوں کا فرق سمجھا دیا ہے کہ ایک فجور ہے اور وہ بری چز ہے ، اور دوسرا تقوی ہے ، اور وہ اچھی چیز ۔ اب اگر سورج اور چاند ، دن اور رات ، زمین اور آسمان یکساں نہیں ہیں بلکہ انکے اثرات اور نتائج ایک دوسرے سے لازماً مختلف ہیں ، تو نفس کافجور اور تقوی دونوں ایک دوسرے کی ضد ہونے کے باوجود یکساں کیسے ہو سکتے ہیں ۔ انسان خود اس دنیا میں بھی نیکی اور بدی کو یکساں نہیں سمجھتا اور نہیں مانتا ۔ خواہ اس نے اپنے بنائے ہوئے فلسفوں کی رو سے خیر و شر کے کچھ بھی معیار تجویز کر لیے ہوں ، بہرحال جس چیز کو بھی وہ نیکی سمجھتا ہے اس کے متعلق وہ یہ رائے رکھتا ہے کہ وہ قابل قدر ہے ، تعریف اور صلے اور انعام کی مستحق ہے ۔ بخلاف اس کے جس چیز کو بھی وہ بدی سمجھتا ہے اس کے بارے میں اس کی اپنی بے لاگ رائے یہ ہے کہ وہ مذمت اور سزا کی مستحق ہے ۔ لیکن اصل فیصلہ انسان کے ہاتھ میں نہیں ہے بلکہ اس خالق کے ہاتھ میں ہے جس نے انسان کا فجور اور تقوی اس پر الہام کیا ہے ۔ فجور وہی ہے جو خالق کے نزدیک فجور ہے اور تقوی وہی ہے جو اس کے نزدیک تقوی ہے ۔ اور خالق کے ہاں ان دونوں کے دو الگ نتائج ہیں ۔ ایک کا نتیجہ یہ ہے کہ جو اپنے نفس کا تزکیہ کرے وہ فلاح پائے ، اور دوسرے کا نتیجہ یہ ہے کہ جو اپنے نفس کو دبا دے وہ نامراد ہو ۔ تزکیہ کے معنی ہیں پاک کرنا ، ابھارنا اور نشو ونما دینا ۔ سیاق و سباق سے اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جو ا پنے نفس کو فجور سے پاک کرے ، اس کو ابھار کر تقوی کی بلندی پر لے جائے اور اس کے اندر بھلائی کو نشوونما دے وہ فلاح پائے گا ۔ اس کے مقابلہ میں دَسَّاهَا کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کا مصدر تدسیہ ہے ۔ تدسیہ کے معنی دبانے ، چھپانے ، اغوا کرنے اور گمراہ کر دینے کے ہیں ۔ سیاق و سباق سے اس کا مطلب بھی واضح ہو جاتا ہے کہ وہ شخص نامراد ہو گا جو اپنے نفس کے اندر پائے جانے والے نیکی کے رجحانات کو ابھارنے اور نشو ونما دینے کے بجائے ان کو دبا دے ، اس کو بہکا کر برائی کے رجحانات کی طرف لے جائے ، اور فجور کو اس پر اتنا غالب کر دے کہ تقوی اس کے نیچے اس طرح چھپ کر رہ جائے جیسے ایک لاش قبر پر مٹی ڈال دینے کے بعد چھپ جاتی ہے ۔ بعض مفسرین نے اس آیت کے معنی یہ بیان کیے ہیں کہ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکَّی اللہُ نَفْسَہٗ وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسَّی اللہُ نَفْسَہٗ ، یعنی فلاح پا گیا وہ جس کے نفس کو اللہ نے پاک کر دیا ، اور نامراد ہوا وہ جس کے نفس کو اللہ نے دبا دیا ۔ لیکن یہ تفسیر اول تو زبان کے لحاظ سے قرآن کے طرز بیان کے خلاف ہے ، کیونکہ اگر اللہ تعالی کو یہی بات کہنی مقصود ہوتی تو وہ یوں فرماتا کہ قَدْ اَفْلَحَتْ مَنْ زَکّٰھَا اللہُ وَقَدْ خَابَتْ مَنْ دَسّٰھَا اللہُ ( فلاح پا گیا وہ نفس جس کو اللہ نے پاک کر دیا اور نامراد ہو گیا وہ نفس جس کو اللہ نے دبا دیا ) ۔ دوسرے یہ تفسیر اسی موضوع پر قرآن کے دوسرے بیانات سے ٹکراتی ہے ۔ سورہ اعلی میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ، فلاح پا گیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی ( آیت 14 ) ۔ سورہ عبس میں اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کر کے فرمایا وَمَا عَلَيْكَ أَلَّا يَزَّكَّىٰ ، اور تم پر کیا ذمہ داری ہے اگر وہ پاکیزگی نہ اختیار کرے ۔ ان دونوں آیتوں میں پاکیزگی اختیار کرنا بندے کا فعل قرار دیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ قرآن میں جگہ جگہ یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ اس دنیا میں انسان کا امتحان لیا جا رہا ہے ۔ مثلاً سورہ دہر میں فرمایا ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کی آزمائش کریں اسی لیے اسے ہم نے سمیع و بصیر بنایا ۔ ( آیت 2 ) ۔ اور سورہ ملک میں فرمایا جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تمہیں آزمائے کون تم میں بہتر عمل کرنے والا ہے ۔ ( آیت 2 ) ۔ اب یہ ظاہر ہے کہ امتحان سرے سے ہی بے معنی ہو جاتا ہے اگر امتحان لینے والا پہلے ہی ایک امیدوار کو ابھار دے اور دوسرے کو دبا دے ۔ اس لیے صحیح تفسیر وہی ہے جو قتادہ ، عکرمہ ، مجاہد اور سعید بن جبیر نے بیان کی ہے کہ زَكَّاهَا اور دَسَّاهَا کا فاعل بندہ ہے نہ کہ خدا ۔ رہی وہ حدیث جو ابن ابی حاتم نے عن جویبر بن سعید عن الضحاک عن ابن عباس کی سند سے نقل کی ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کا مطلب یہ بیان فرمایا کہ اَفْلَحَتْ نَفْسٌٌ نَکَّاھَا اللہُ عَزَّوَ جَلْ ( فلاح پا گیا وہ نفس جس کو اللہ عزو جل نے پاک کر دیا ) ، تو یہ ارشاد درحقیقت حضور سے ثابت نہیں ہے کیونکہ اس کی سند میں جو یبر متروک الحدیث ہے اور ابن عباس سے ضحاک کی ملاقات نہیں ہوئی ہے ۔ البتہ وہ حدیث صحیح ہے جو امام احمد ، مسلم ، نسائی اور ابن ابی شیبہ نے حضرت زید بن ارقم سے روایت کی ہے کہ حضور یہ دعا مانگا کرتے تھے اَلّٰھُمَّ اٰتِ نَفْسِیْ تَقْوَاھَا وَ زَکَّھَا اَنْتَ خَیْرُ مَنْ ذَکَّاھَا ، اَنْتَ وَ لِیُّھَا وَ مَوْلَاھَا خدایا میرے نفس کو اس کا تقوی عطا کر اور اس کو پاکیزہ کر ، تو ہی وہ بہتر ہستی ہے جو اس کو پاکیزہ کرے ، تو ہی اس کا سرپرست اور مولی ہے ۔ اسی سے ملتے جلتے الفاظ میں حضور کی یہ دعا حضرت عبداللہ بن عباس سے طبرانی ، ابن مردویہ اور ابن المندر نے اور حضرت عائشہ سے امام احمد نے نقل کی ہے ۔ اس کا مطلب درحقیقت یہ ہے کہ بندہ تو صرف تقوی اور تزکیہ کی خواہش اور طلب ہی کر سکتا ہے ، رہا اس کا نصیب ہو جانا ، تو بہرحال اللہ ہی کی توفیق پر منحصر ہے ۔ اور یہی حال تدسیہ کا بھی ہے کہ اللہ زبردستی کسی کے نفس کو نہیں دباتا ، مگر جب بندہ اس پر تل جائے تو اللہ تعالی اسے تقوی اور تزکیہ کی توفیق سے محروم کر دیتا ہے اور اسے چھوڑ دیتا ہے کہ اپنے نفس کو جس گندگی کے ڈھیر میں دبانا چاہے دبا دے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(91:10) وقد خاب من دسھا۔ خاب ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب خیبۃ (باب ضرب) مصدر سے۔ وہ نامراد ہوا۔ وہ خراب ہوا۔ اس کا مطلب فوت ہوا۔ دسھا ۔ دسی ۔ تدسیۃ (تفعیل) مصدر سے۔ ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب ۔ اس نے خاک میں ملا دیا۔ اس نے چھپا دیا۔ دسھا : دس اصل میں دسس تھا۔ آخری س کو الف سے بدل دیا۔ اور تد سیس کے معنی ہیں اخفاء بمعنی چھپانا۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے۔ ام یدسہ فی التراب (16:59) یا اس کو مٹی میں چھپا دے۔ آیت میں ہلاک کرنا مراد ہے کیونکہ ہلاک کرنا چھپانے کو مستلزم ہے۔ نیز ملاحظہ ہو آیت 9 مذکوہ بالا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 17 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” جس نے اپنی جان کو دبا دیا۔ (یعنی خاک میں ملا دیا۔ بہکادیا) وہ تباہ ہوگیا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَاؕ٠٠١٠﴾ (اور وہ شخص نامراد ہوا جس نے اسے میلا کیا) ۔ یہ سابقہ آیت پر معطوف ہے گزشتہ آیت میں یہ بتایا کہ جس نے اپنے نفس کو پاک اور صاف ستھرا کرلیا وہ کامیاب ہوگیا اور اس آیت میں یہ بتایا کہ جس نے اپنے نفس کو دبا دیا یعنی اس کو کفر و شرک و معاصی میں لگایا وہ ناکام رہا یہ لفظ تدسیس سے ماضی کا صیغہ ہے اصل میں دسسہا تھا مضاعف کے آخری حرف کو حرف علت سے بدل دیتے ہیں۔ یہاں پر بھی ایسا ہی ہوا ہے تدسیس لغت میں چھپانے کو کہتے ہیں یہاں چونکہ من زکھا کے مقابلہ میں وارد ہوا ہے اس لیے مفسرین نے یہ معنی لیے ہیں کہ جس نے اپنے نفس کو کفر و معصیت میں دبا کر چھپا دیا اسے انوار ایمان انوار طاعات سے چمکدار نہ بنایا وہ تزکیہ سے محروم رہا لہٰذا ہلاک ہوگیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعاؤں میں یہ بھی تھا : (اللھم اٰت نفسی تقواھا وزکھا انت خیر من زکھا انت ولیھا ومولاھا) ” اے اللہ ! میرے نفس کو اس کا تقویٰ عطا فرما دے اور اس کو پاک کر دے تو سب سے بہتر پاک کرنے والا ہے تو اس کا ولی ہے اس کا مولیٰ ہے “۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(10) اور وہ شخص نامراد ہوا جس نے اس نفس کو گناہوں میں دبا دیا نفس کا تزکیہ یہی کہ شہوانی اور غضبی حملوں سے اس کو محفوظ رکھا اور شیطانی القا کا مقابلہ کرے اور ہر موقعہ پر غضب اور شہوت کی طاقتوں کو ناکام بنائے اور انپی عقل کو شریعت الٰہیہ کا تابع کردے اس سے نفس کی تطہیر اور تزکیہ ہوتا ہے اور ایسا شخص اپنے مقصد میں کامیا اور فائزالمرام ہوتا ہے اور جو شخص عقل کو غضب اور شہوت کے ماتحت کردے اور خواہشات کا بندہ بن جائے اور فسق وفجور میں نفس کو دبا دے تو سمجھو اس نے نفس کو خاک میں ملادیا اور خاک میں دبا دیا اور ایسا شخص ناکام ونامراد ہوا۔ اسی سلسلے میں آگے قوم وثمود کی تباہی کا ذکر فرمایا کیونکہ گناہوں کی کثرت اور نفس کو گناہوں میں دیا دینے کا نتیجہ عذاب اور ہلاکت و بربادی ہے خواہ وہ دنیا میں ہو یا آخرت میں یا دونوں جگہ۔ اہل تفسیر نے قدافلح من زکہا وقدخاب من دشہا کو جواب قسم کہا ہے قسمیں ایسی اشیاء کی کھائی تھیں جو ایک دوسرے سے مختلف تھیں مثلاً سورج کا کام چاند سے مختلف تھا، رات اور دن آپس میں مختلف تھے آسمان کی جہت زمین کی جہت سے مختلف ہے اسی طرح فجور اور تقویٰ بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور تزکیہ اور تدسیس بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں جواب قسم کو قسموں کے ساتھ ایک نسبت ہے کہ ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ فجور کے نتائج کے اعتبار سے آگے حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم کا ذکر فرمایا۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔