Surat ul Lail

Surah: 92

Verse: 21

سورة الليل

وَ لَسَوۡفَ یَرۡضٰی ﴿۲۱﴾٪  17

And he is going to be satisfied.

یقیناً وہ ( اللہ بھی ) عنقریب رضامند ہو جائے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

He, surely, will be pleased. meaning, indeed those with these characteristics will be pleased. The Cause of this Revelation and the Virtue of Abu Bakr Many of the scholars of Tafsir have mentioned that these Ayat were revealed about Abu Bakr As-Siddiq. Some of them even mentioned that there is a consensus among the Qur'anic commentators concerning this. There is no doubt that he is included in the meaning of these Ayat, and that he is the most deserving of the Ummah to be described with these characteristics in general, for indeed, the wording of these Ayat is general. As in Allah's saying, وَسَيُجَنَّبُهَا الاٌّتْقَى الَّذِى يُوْتِى مَالَهُ يَتَزَكَّى وَمَا لاًّحَدٍ عِندَهُ مِن نِّعْمَةٍ تُجْزَى And those with Taqwa will be far removed from it. He who gives of his wealth for self-purification. And who has (in mind) no favor from anyone to be paid back. However, he (Abu Bakr) was the first and foremost of this Ummah to have all of these characteristics and other praiseworthy characteristics as well. For verily, he was truthful, pious, generous, charitable, and he always spent his wealth in obedience of His Master (Allah) and in aiding the Messenger of Allah . How many Dirhams and Dinars did he spend seeking the Face of His Most Noble Lord. And did not consider any of the people as owning him some favor that he needed to get compensation for. Rather, his virtue and kindness was even shown towards leaders and chiefs from all the other tribes as well. This is why `Urwah bin Mas`ud, who was the chief of the Thaqif tribe, said to him on the day of the Treaty of Hudaybiyyah, "By Allah, if I did not owe you a debt, which I have not paid you back for, I would have responded to you (i.e., your call to Islam)." Abu Bakr As-Siddiq became angry with him for saying such a thing (i.e., I owe you something). So if this was his position with the chiefs of the Arabs and the heads of the tribes, then what about those other than them. Thus, Allah says, وَمَا لاًّحَدٍ عِندَهُ مِن نِّعْمَةٍ تُجْزَى إِلاَّ ابْتِغَأءَ وَجْهِ رَبِّهِ الاٌّعْلَى وَلَسَوْفَ يَرْضَى And who has (in mind) no favor from anyone to be paid back. Except to seek the Face of his Lord, the Most High. He, surely, will be pleased. And in the Two Sahihs it is recorded that the Messenger of Allah said, مَنْ أَنْفَقَ زَوْجَيْنِ فِي سَبِيلِ اللهِ دَعَتْهُ خَزَنَةُ الْجَنَّةِ يَاعَبْدَاللهِ هَذَا خَيْر Whoever equipped two riding animals in the way of Allah, the Gatekeepers of Paradise will call to him saying, "O servant of Allah! This is good." So Abu Bakr said, "O Messenger of Allah! The one who is called from them will not have any need. Will there be anyone who will be called from all of them" The Prophet replied, نَعَمْ وَأَرْجُو أَنْ تَكُونَ مِنْهُم Yes, and I hope that you will be one of them. This is the end of the Tafsir of Surah Al-Layl, and all praise and thanks are due to Allah.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

21۔ 1 یعنی جو شخص ان صفات کا حامل ہوگا، اللہ تعالیٰ اسے جنت کی نعمتیں اور عزت و شرف عطا فرمائے گا۔ جس سے وہ راضی ہوجائے گا، اکثر مفسرین نے کہا ہے بلکہ بعض نے اجماع تک نقل کیا ہے کہ یہ آیات حضرت ابوبکر کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔ تاہم معنی و مفہوم کے اعتبار سے عام ہیں جو بھی ان صفات عالیہ سے متصف ہوگا، وہ بارگاہ الہی میں ان کا مصداق قرار پائے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(ولسوف یرضی :) یعنی جنت کی بےبہا نعمتیں اور بلند مراتب پا کر ضرور خوش ہوگا۔ اکثر مفسرین نے صحیح احادیث و آثار کی رو سے کہا ہے کہ اس سورت میں خرچ کرنے والے سے مراد ابوبکر صدیق (رض) ہیں کہ وہ کمزور مسلمان غلاموں کو کفار کے مظالم سے بچانے کے لئے خرید کر آزاد کردیتے اور نیکی کا ہر کام خوشی خوشی محض رضا الٰہی کے لئے کرتے تھے۔ یقیناً ابوبکر صدیق (رض) عنہماان آیات کا اولین مصداق ہیں مگر الفاظ عام ہیں، اس لئے ان میں ہر وہ مسلمان داخل ہے جو ان صفات کا حامل ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَسَوْفَ يَرْضٰى۝ ٢١ رضي يقال : رَضِيَ يَرْضَى رِضًا، فهو مَرْضِيٌّ ومَرْضُوٌّ. ورِضَا العبد عن اللہ : أن لا يكره ما يجري به قضاؤه، ورِضَا اللہ عن العبد هو أن يراه مؤتمرا لأمره، ومنتهيا عن نهيه، قال اللہ تعالی: رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة/ 119] ، وقال تعالی: لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ، وقال تعالی: وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة/ 3] ، وقال تعالی: أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة/ 38] ، وقال تعالی: يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة/ 8] ، وقال عزّ وجلّ : وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب/ 51] ، والرِّضْوَانُ : الرّضا الکثير، ولمّا کان أعظم الرِّضَا رضا اللہ تعالیٰ خصّ لفظ الرّضوان في القرآن بما کان من اللہ تعالی: قال عزّ وجلّ : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید/ 27] ، وقال تعالی: يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح/ 29] ، وقال : يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة/ 21] ، وقوله تعالی: إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة/ 232] ، أي : أظهر كلّ واحد منهم الرّضا بصاحبه ورَضِيَهُ. ( ر ض و ) رضی ( س ) رضا فھو مرضی و مرضو ۔ راضی ہونا ۔ واضح رہے کہ بندے کا اللہ تعالیٰ سے راضی ہونا یہ ہے کہ جو کچھ قضائے الہیٰ سے اس پر وارد ہو وہ اسے خوشی سے بر داشت کرے اور اللہ تعالیٰ کے بندے پر راضی ہونے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اسے اپنے اوامر کا بجا لانے والا اور منہیات سے رکنے والا پائے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة/ 119] اللہ تعالیٰ ان سے خوش اور وہ اللہ تعالیٰ سے خوش ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] تو اللہ تعالیٰ ضرور ان مسلمانوں سے خوش ہوتا ہے وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة/ 3] اور ہم نے تمہارے لئے دین اسلام کو پسند فرمایا : ۔ أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة/ 38] کیا آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی پر قناعت کر بیٹھے ہو ۔ يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة/ 8] اپنی زبانی باتوں سے تو تم کو رضا مند کردیتے ہیں اور ان کے دل ہیں کہ ان باتوں سے انکار کرتے ہیں ۔ وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب/ 51] اور آزردہ خاطر نہ ہوں گی اور جو کچھ ( بھی ) تم ان کو دوگے وہ ( لے کر سب ) راضی ہوجائیں گی ۔ الرضوان رضائے کثیر یعنی نہایت خوشنودی کو کہتے ہیں ۔ چونکہ سب سے بڑی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہے اس لئے قرآن پاک میں خاص کر رضا الہی ٰ کے لئے رضوان کا لفظ استعما ل ہوا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید/ 27] اور ( لذت ) دنیا کا چھوڑ بیٹھنا جس کو انہوں نے از خود ایجاد کیا تھا ہم نے وہ طریق ان پر فرض نہیں کیا تھا مگر ( ہاں ) انہوں نے اس کو خدا ( ہی ) کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ایجاد کیا تھا ۔ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح/ 29] اور خدا کے فضل اور خوشنودی کی طلب گاری میں لگے رہتے ہیں ۔ يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة/ 21] ان کا پروردگار ان کو اپنی مہربانی اور رضامندی کی خوشخبری دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔۔ : إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة/ 232] ، جب جائز طور پر آپس میں وہ راضی ہوجائیں ۔ میں تراضوا باب تفاعل سے ہے جس کے معنی باہم اظہار رضامندی کے ہیں ،

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢١{ وَلَسَوْفَ یَرْضٰی ۔ } ” اور وہ عنقریب راضی ہوجائے گا۔ “ یہاں پر یَرْضٰی کی ضمیر کا اشارہ بیک وقت اللہ تعالیٰ کی طرف بھی ہے اور اس شخصیت کی طرف بھی جس کی صفات کا ذکر ان آیات میں ہو رہا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ بھی راضی ہوجائے گا اور ابوبکر صدیق (رض) بھی راضی ہوجائیں گے۔ گویا یہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ جیسی بشارت ہے کہ اگر اللہ کا یہ بندہ اپنا مال صرف اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے لیے لٹارہا ہے تو اللہ تعالیٰ ضرور اس سے راضی ہوجائے گا اور پھر اللہ تعالیٰ اس کو آخرت میں اتنا کچھ عطا کرے گا کہ وہ بھی خوش ہوجائے گا۔ یہاں یہ اہم نکتہ بھی نوٹ کر لیجیے کہ معنوی اعتبار سے اس آیت کا اگلی سورت (سورۃ الضحیٰ ) کی آیت ٥ کے ساتھ خصوصی ربط وتعلق ہے جس کی وضاحت سورة الضحیٰ کے مطالعہ کے دوران کی جائے گی۔ یہاں پر زیر مطالعہ سورتوں (سورۃ الشمس ‘ سورة اللیل ‘ سورة الضحیٰ اور سورة الانشراح) کے مرکزی مضمون کے اہم نکات ایک دفعہ پھر اپنے ذہن میں تازہ کر لیجیے۔ سورة الشمس کی ابتدائی آٹھ آیات قسموں پر مشتمل ہیں۔ اس کے بعد مقسم علیہ کے طور پر یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ نفس انسانی کے اندر نیکی اور بدی کا شعور ودیعت کردیا گیا ہے ‘ اور پھر اس کے بعد دو آیات میں اس حوالے سے کامیابی اور ناکامی کا معیار بھی بتادیا گیا ہے : { قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰٹہَا - وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰٹہَا ۔ } کہ جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کرلیا وہ کامیاب ٹھہرا اور جس نے اسے مٹی میں دفن کردیا وہ ناکام ہوگیا۔ اگلی سورت یعنی سورة اللیل میں نفس کو سنوارنے اور بگاڑنے کے طریقوں یا راستوں کے بارے میں مزید وضاحت کردی گئی ہے کہ جو انسان اعطائے مال ‘ تقویٰ اور تصدیق بالحسنیٰ کے اوصاف اپنائے گا وہ صدیقیت اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے راستے پر گامزن ہوجائے گا۔ اس کے برعکس بخل ‘ استغناء (حلال و حرام اور جائز و ناجائز سے متعلق لاپرواہی) اور حق کی تکذیب کی راہ پر چلنے والا انسان بالآخر خود کو جہنم کے گڑھے میں گرائے گا۔ پھر کامیابی کے راستے کی مثال کے طور پر امت کی ایک ایسی شخصیت کی طرف اشارہ بھی کردیا گیا جسے پہلے تین اوصاف کو اپنانے کے باعث اعلیٰ مدارج و مراتب سے نوازا گیا۔ لیکن ظاہر ہے اس منزل کا بلند ترین مقام تو محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے مختص ہے جو معراجِ انسانیت ہیں۔ چناچہ اس مضمون کے حوالے سے اب اگلی دو سورتوں کا تعلق خصوصی طور پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس سے ہے۔ اسی نسبت سے ان سورتوں کا مطالعہ سیرت النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعض پہلوئوں کو سمجھنے کے لیے بھی مفید ہے۔ متقدمین میں سے تصوف کا ذوق رکھنے والے اکثر مفسرین نے ان سورتوں میں بعض باطنی حقائق کی نشاندہی بھی کی ہے۔ ( متعلقہ آیات کے مطالعہ کے دوران جہاں جس حد تک ممکن ہوا ایسے کچھ نکات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔ ) ظاہر ہے موجودہ دور کے ” عقلیت پسند “ مفسرین نہ تو تصوف کا ذوق رکھتے ہیں اور نہ ہی انہیں ایسے موضوعات سے دلچسپی ہے۔ (الا ماشاء اللہ ! )

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

11 This verse can have two meanings and both are correct: (1) "That Allah certainly will be well pleased with him;" and (2) "that Allah soon will bless this man with so much that he will be happy."

سورة الَّیْل حاشیہ نمبر :11 اس آیت کے دو معنی ہو سکتے ہیں ۔ اور دونوں صحیح ہیں ۔ ایک یہ کہ ضرور اللہ اس سے راضی ہو جائے گا ۔ دوسرے یہ کہ عنقریب اللہ اس شخص کو اتنا کچھ دے گا کہ وہ خوش ہو جائے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

7: اِس مختصر جملے میں نعمتوں کی ایک کائنات پوشیدہ ہے۔ یعنی جنت میں اس کو اپنے اعمال کا ایسا صلہ ملے گا کہ وہ صحیح معنوں میں خوش ہوجائے گا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(92:21) ولسوف یرضی۔ واؤ عاطفہ۔ لام موطتہ القسم ہے۔ ای وت اللہ لسوف یرضی بما نؤتیہ من الاجر العظیم۔ خدا کی قسم وہ عنقریب اس اجر عظیم پر خوش ہوجائے گا جو اسے دیا جائے گا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 13 یعنی آخرت میں بیش بہا نعمتیں اور بلند مرتاب پا کر خوش ہوجائے گا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

9۔ ایک بار آپ نے کسی بیماری کی وجہ سے دو تین رات شب بیداری نہ کی، ایک کافرہ نے کہا معلوم ہوتا ہے کہ تمہارے شیطان نے تم کو چھوڑ دیا ہے دیر ہوگئی، اس پر یہ سورت نازل ہوئی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ولسوف یرضیٰ (21:92) ” اور ضرور وہ خوش ہوگا “۔ اس متقی کے کاسہ دل کو رضا سے بھر دیا جائے گا ، اس کی روح رضا سے بھر جائے گی ، اس کے تمام اعضاء راضی برضا ہوجائیں گے ، اس کے وجود کے روئیں روئیں میں رضامندی سرایت کرجائے گی اور اس کی پوری زندگی تروتازہ ہوجائے گی۔ کیا ہی خوب جزاء ہے اور کیا ہی خوب اور عظیم نعمت ہے یہ ! ولسوف یرضی (21:92) ” اور ضرور وہ خوش ہوگا “۔ اپنے دین پر خوش ہوگا ، اپنے رب سے راضی ہوگا ، اپنی تقدیر پر راضی ہوگا ، اپنے نصیبے پر راضی ہوگا۔ خوشی اور غم دونوں پر راضی ہوگا ، مالداری اور ناداری دونوں پر راضی ہوگا ، آسانی اور مشکل دونوں پر راضی ہوگا۔ نرمی اور سختی دونوں پر راضی ہوگا ، وہ قلق و اضطراب سے دور ہوگا۔ تنگدستی ، جلدبازی ، بوجھل پن اور مایوسی سے دور ہوگا۔ غرض یہ رضامندی وہ انعام ہوگا جس سے بڑا انعام اور کوئی نہ ہے اور نہ ہوگا۔ یہ ایسا انعام ہے جس کے لئے کوئی مال اور جان دونوں خرچ کرسکتا ہے۔ جو اپنے مال کو خرچ کرتا ہے تاکہ اس کا رب اس سے راضی ہو۔ یہ وہ انعام ہے جو اللہ ہی دے سکتا ہے اور یہ جزاء ان دلوں میں بھردی جاتی ہے جو خالص اللہ کے ہوجاتے ہیں ، جن کو اللہ کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ ولسوف یرضیٰ (21:92) اور وہ عنقریب راضی ہوگا “۔ وہ راضی ہوگا ، خوش ہوگا اس نے معمولی قیمت دے دی اور اس کے بدلے اسے بہت کچھ دے دیا گیا۔ غرض اس مقام پر یہ اچانک خوشخبری ہے ، البتہ ان لوگوں کے دلوں میں اس کی توقع ضرور ہے جو اپنے مال کو پاک کرنے کے لئے خرچ کرتے ہیں ، ایسی صورت میں خرچ کرتے ہیں کہ کسی کا ان کے اوپر کوئی احسان نہیں ہے ، پھر بھی خرچ کرتے ہیں۔ محض رضائے ربانی کے لئے خرچ کرتے ہیں ، تو ” ایسا شخص لازماً خوش ہوگا “۔ ولسوف یرضی (21:92) ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

8:۔ ” ولسوف یرضی “ بہت جلد وہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہوجائے گا۔ اس نے ہر کام اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے کیا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ اس کو آخرت میں اس قدر اجر وثواب عطا فرمائے گا کہ وہ بھی راضی ہوجائے گا۔ ای سوف یعطیہ فی الجنۃ مایرضی وذالک انہ یعطیہ اضعافا انفق (قرطبی ج 20 ص 89) ۔ مفسرین کا تقریبا اس پر اتفاق ہے کہ یہ آیتیں حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے حق میں نازل ہوئی ہیں۔ اس سے حضرت صدیق اکبر (رض) کے نہایت اعلی اوصاف معلوم ہوتے ہیں کہ وہ انبیاء (علیہم السلام) کے بعد سب سے زیادہ متقی اور پرہیز گار تھے اور انہوں نے اللہ کی راہ میں جو کچھ خرچ کیا یا جو غلام آزاد کیے یہ سب کچھ انہوں نے ریاء و نمائش کے لیے نہیں کیا اور نہ کسی غلام کا ان پر کوئی احسان تھا جس کا انہوں نے بدلہ دیا ہو۔ بلکہ سب کچھ محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور رضا جوئی کیلئے کیا۔ سورة اللیل ختم ہوئی

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(21) اور یہ شخص عنقریب خوش ہوجائیگا یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو بزرگی اور اجروثواب اور سعادت دارین اس کو عطا ہوگی وہ اس سے خوش اور راضی ہوجائیگا۔ ہرچند کہ سورة والیل کا مقہوم عام ہے لیکن جمہور مفسرین نے اس سورت کا تعلق اور اس کے شان نزول میں حضرت صدیق اکبر (رض) اور امیہ بن خلف کا ذکر کیا ہے، موخرالذکر ایک ملعون منکر تھا جو مکہ میں بڑا مالدار اور بہت سے لونڈی غلاموں کا مالک تھا اور اس کا جو غلام یا لونڈی اسلام قبول کرلیا کرتا تھا اس کو بہت تکلیف دیتا تھا اور بہت مارتا تھا اور اس کو اسلام ترک کرنے پر مجبور کردیا کرتا تھا مال خرچ کرنے میں بڑا بخیل تھا توحید الٰہی کا مخالف نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بدترین دشمن قرآن نے اس کو اشقیٰ فرمایا۔ اسی مکہ میں حضرت ابوبکر صدیق (رض) کا بھی وجود گرامی تھا جنہوں نے اپنے تمام مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کیا اور بہت سے غلام اور لونڈیوں کو آزاد کرایا ان غلاموں میں حضرت بلال (رض) کا قصہ خاص طور پر مشہور ہے ان کو قرآن نے اتقیٰ فرمایا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے انفاق فی سبیل اللہ کے متعلق فرمایا مالقعنی مال احد قط مانفعنی مال ابی بکر ، یعنی مجھے کسی کے مال سے ہرگز اتنا فائدہ نہیں پہنچا جتنا ابوبکر کے مال سے پہنچا، اور چونکہ آپ کی صدیقیت ایک پرتو تھا نبوت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اس لئے ان کا شان میں ولسوف یرضیٰ فرمایا جیسا کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں آگے کی سورت میں آتا ہے۔ ولسوف یعطیک ربک فترضیٰ تم تفسیر سورة الیل