Surat ul Zilzaal
Surah: 99
Verse: 7
سورة الزلزال
فَمَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ خَیۡرًا یَّرَہٗ ؕ﴿۷﴾
So whoever does an atom's weight of good will see it,
پس جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا ۔
فَمَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ خَیۡرًا یَّرَہٗ ؕ﴿۷﴾
So whoever does an atom's weight of good will see it,
پس جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا ۔
٨(١) فمن یعمل مثقال ذرۃ…:” یرہ “ اصل میں ” یراہ “ ہے، جو ” رای یری رویۃ “ کا فعل مضارع ہے،” فمن یعمل “ شرط کی جزا ہونے کی وجہ سے مجزوم ہے، اسلئے الف حذف ہوگیا ۔” ذرۃ “ بکھرے ہوئے غبار کا چھوٹے سے چھوٹا حصہ جو روشن دان میں سورج کی شعاعوں سے چمکتا ہوا نظر آتا ہے ۔ چھوٹی چیوٹنی کو بھی ” ذرہ “ کہتے ہیں کافر ہو یا مسلمان، ذرہ بھر نیکی کی ہوگی تو دیکھ لے گا اور ذرہ بھر برائی کی ہوگی تو دیکھ لے گا، اعمال کے دفتر سے کوئی چیز غائب نہیں ہوگی۔ جیسا کہ فرمایا، (ووجدواما عملوا حاضراً ولا یظلم ربک احداً ) (الکھف : ٣٩)” اور انہوں نے کیا اسے حاضر پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ “ البتہ اعمال کی جزا اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق ہوگی۔ چناچہ کافروں کے اعمال ضائع کردیئے جائیں گے، انہیں آخرت کے بجائے دنیا ہی میں بدلا دے دیا جاءے گا۔ قرآن مجید اور صحیح احادیث کی روشنی میں ان کے اعمال ضائع ہونے اور سفارش کے مفید نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ جہنم سے نہیں نکل سکیں گے، ان پر جنت حرام ہے۔ البتہ بعض اعمال یا کسی شفاعت کی وجہ سے عذاب میں تخفیف ہوسکتی ہے، جیسا کہ ابو طالب کو صرف آگ کا جوتا پہنایا جائے گا اور کفار اپنے اپنے اعمال کے لحاظ سے جہنم کے مختلف درکات میں ہوں گے۔ منافقین آگ کے سب سے نچلے حصے میں ہوں گے۔ (دیکھیے نسائ : ١٤٥) اہل ایمان کو ان کی برائیوں کی سزا تب ملے گی جب یہ شرطیں موجود ہوں :(١) گناہ کبیرہ ہوں۔ (دیکھیے نسائ : ٣١(٢) ان سے توبہ کئے بغیر فوت ہوجائیں۔ (٣) ان کی نیکیاں میزان میں بھاری نہ ہو سکیں۔ (٤) ان کے حق میں کوئی سفارش قبول نہ ہو۔ (٥) ان کا کوئی عمل ایسا نہ ہو جس سے وہ مغفرت کے مستحق ہوچکے ہوں، مثلاً اہل بدر۔ (٦) اللہ تعالیٰ نے وہ گناہ معاف نہ کیا ہو، کیونکہ گناہ گار مومن اللہ کی مرضی پر ہے، وہ چاہے تو اسے عذاب دے، چاہے تو بخش دے۔ (٢) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کو جامع اور بےنظیر آیت قرار دیا۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گھوڑوں کے متعلق فرمایا :(الخیل للثلاثۃ : لرجل اجر و لرجل ستر و علی رجل وزر)” گھوڑے تین طرح کے لوگوں کے لئے ہیں، ایک آدمی کے لئے اجر ہیں اور ایک آدمی کیلئے پردہ ہیں اور ایک آدمی پر بوجھ ہیں۔ “ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گدھوں کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، (ما انزل اللہ علی فیھا الا ھذہ الآ یۃ الفاذۃ الجامعۃ :(فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرا یرہ ، و من یعمل مثقال ذرۃ شرایرہ) (بخاری، التفسیر، باب قولہ :(فمن یعمل مثقال ذرہ خیرا یرہ): ٣٨٦٢) ” اللہ نے اس کے متعلق اس بےنظیر و جامع آیت کے علاوہ مجھ پر کچھ نازل نہیں فرمایا :” تو جو شخص ایک ذرہ برابر نیکی کرے گا اسے دیکھ لے گا اور جو شخص ایک ذرہ برابر برائی کرے گا اسے دیکھ لے گا۔ “
Verse [ 7] فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ (So, whoever does good [ even ] to the weight of a particle shall see it.) The word &good& here refers to what is good in terms of Shari` ah, that is, only a good deed done in the wake of faith is recognized by Allah. Any good deed done in the state of disbelief is not recognized, and consequently it will not be rewarded in the Hereafter, though it might have been rewarded in this world. It is argued on the basis of this verse that anyone who has an atom&s weight of faith will eventually be taken out of Hell. The reason being that, according to the promise made in this verse, man must reap the fruit of his righteousness in the Hereafter. If he has not done any righteous deeds, faith itself is a great righteousness. Thus no matter how sinful a believer may be, he will not be condemned to Hell for good. On the other hand, if a non-believer has done tons of good deeds, they will be rendered vain in the Hereafter on account of lack of faith. He will, however, receive reward for them here in this world.
فمن یعمل مثقال ذرة خیراً یرہ، آیت میں خیر سے مراد وہ خیر ہے جو شرعاً معتبر ہے، ینی جو ایمان کے ساتھ ہو بغیر ایمان کے اللہ کے نزدیک کوئی نیک عمل نیک نہیں، یعنی آخرت میں ایسے نیک عمل کا جو حالت کفر میں کیا ہے کوئی اعتبار نہیں ہوگا کہ دنیا میں اس کو اس کا بدلہ دے دیا جائے اسی لئے اس آیت سے اس پر استدلال کیا گیا ہے کہ جس شخص کے دل میں ایک ذرہ برابر ایمان ہوگا وہ بالاخر جہنم سے نکال لیا جاوے گا کیونکہ اس آیت کے وعدہ کے مطابق اس کو اپنی نیکی کا پھل بھی آخرت میں ملنا ضرور ہے اور کوئی بھی نیکی نہ ہو تو خود ایمان بہت بڑی نیکی ہے۔ اس لئے کوئی مومن کتنا ہی گناہگار ہو ہمیشہ جہنم میں نہ رہے گا البتہ کافر نے اگر دنیا میں کچھ نیک عمل بھی کئے تو شرط عمل یعنی ایمان کے نہ ہونے کی وجہ سے کالعدم ہیں اس لئے اخرت میں اس کی کوئی خیر خیر ہی نہیں۔
فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَيْرًا يَّرَہٗ ٧ ۭ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے مِثْقَال : ما يوزن به، وهو من الثّقل، وذلک اسم لکل سنج قال تعالی: وَإِنْ كانَ مِثْقالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنا بِها وَكَفى بِنا حاسِبِينَ [ الأنبیاء/ 47] ، وقال تعالی: فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ خَيْراً يَرَهُ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ [ الزلزلة/ 7- 8] ، وقوله تعالی: فَأَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوازِينُهُ فَهُوَ فِي عِيشَةٍ راضِيَةٍ [ القارعة/ 6- 7] ، فإشارة إلى كثرة الخیرات، وقوله تعالی: وَأَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوازِينُهُ [ القارعة/ 8] ، فإشارة إلى قلّة الخیرات . والثقیل والخفیف يستعمل علی وجهين : أحدهما علی سبیل المضایفة، وهو أن لا يقال لشیء ثقیل أو خفیف إلا باعتباره بغیره، ولهذا يصحّ للشیء الواحد أن يقال خفیف إذا اعتبرته بما هو أثقل منه، و ثقیل إذا اعتبرته بما هو أخفّ منه، وعلی هذه الآية المتقدمة آنفا . والثاني أن يستعمل الثقیل في الأجسام المرجّحة إلى أسفل، کالحجر والمدر، والخفیف يقال في الأجسام المائلة إلى الصعود کالنار والدخان، ومن هذا الثقل قوله تعالی: اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ [ التوبة/ 38] . المثقال ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جس سے کسی چیز کا وزن کیا جائے چناچہ ہر باٹ کو مثقال کہہ سکتے ہیں قرآن میں ہے ؛۔ فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ خَيْراً يَرَهُ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ [ الزلزلة/ 7- 8] ، وقوله تعالی: فَأَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوازِينُهُ فَهُوَ فِي عِيشَةٍ راضِيَةٍ [ القارعة/ 6- 7] تو جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لیگا تو جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا اور آیت کریمہ :۔ وَأَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوازِينُهُ [ القارعة/ 8] اور جس کے وزن ہلکے نکلیں گے ۔ میں وزن کے ہلکا نکلنے سے اعمال حسنہ کے کم ہونے کی طرف اشارہ ہے ۔ ثقیل اور خفیف کے الفاظ دو طرح استعمال ہوتے ہیں ایک بطور مقابلہ کے یعنی ایک چیز کو دوسری چیز کے اعتبار سے ثقیل یا خفیف کہہ دیا جاتا ہے چناچہ مذکورہ بالاآیت میں نہی معنی مراد ہیں اور دوسرے یہ کہ جو چیزیں ( طبعا) نیچے کی طرف مائل ہوتی ہیں انہیں ثقیل کہا جاتا ہے جیسے حجر مدر وغیرہ اور جو چیزیں ( طبعا) اوپر کو چڑھتی ہیں جیسے آگ اور دہواں انہیں حفیف کہا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ ؛ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ [ التوبة/ 38] تو تم زمین پر گر سے جاتے ہو ۔ میں زمین پر گرنا دوسرے معنی کے اعتبار سے ہے ۔ ذرۃ ۔ ذرہ جمع ذرات۔ چھوٹی چیونٹی۔ ذرہ کے ہم وزن نیکی، چھوٹی چیونٹی کے ہم وزن۔ خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔
(7 ۔ 8) کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ معمولی سی نیکی پر ثواب نہیں ملتا اور چھوٹے گناہ پر گرفت نہیں ہوتی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو معمولی نیکی ترغیب دی اور چھوٹے گناہ سے بھی خوف دلایا ہے کہ جو شخص ذرہ برابر نیکی کرے گا وہ اس کو اپنے نامہ اعمال میں دیکھ لے گا جس سے خوش ہوگا یا یہ کہ مومن اپنی نیکی کا صلہ آخرت میں اور کافر دنیا میں دیکھ لے گا اور جو شخص ذرہ برابر بھی بدی اور گناہ کرے گا وہ اس کو اپنے نامہ اعمال میں دیکھ لے گا جس سے غمگین ہوگا یا یہ کہ مومن اسے دنیا میں اور کافر آخرت میں دیکھ لے گا۔ شان نزول : وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهٗ الخ ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر سے روایت کیا ہے کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ ویطعمون الطعام علی حبہ مسکینا الخ تو مسلمانوں کو خیال ہوا کہ معمولی سی چیز دینے پر ثواب نہیں ملے گا اور دوسرے لوگ سمجھنے لگے کہ چھوٹے گناہوں پر جیسا کہ جھوٹ بولنا غیبت کرنا، اجنبیہ کو دیکھنا پر کوئی گرفت نہیں ہوگی اور کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے بڑے گناہوں پر دوزخ سے ڈرایا ہے تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهٗ
(99:7) فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرا یرہ (یہاں سے لے کر اخیر سورة تک لیروا کی تفسیر ہے) ۔ ف تفسیریہ ہے من شرطیہ۔ من یعمل مثقال ذرۃ جملہ شرطیہ۔ یرہ جواب شرط۔ مثقال اسم مفرد۔ مثاقیل جمع۔ ہموزن ، برابر۔ ثقل مادہ۔ تقیل بھاری۔ وزنی۔ مضاف۔ ذرۃ۔ ذرہ جمع ذرات۔ چھوٹی چیونٹی۔ ذرہ کے ہم وزن نیکی، چھوٹی چیونٹی کے ہم وزن۔ مضاف الیہ۔ مضاف مضاف الیہ مل کر یعمل کا مفعول۔ خیرا۔ مثقال ذرۃ کا بدل۔ ذرہ کے ہموزن نیکی۔ پھر جس نے بھی ذرہ بھر نیکی کی۔ (جملہ شرطیہ) یرہ : میں ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب جس کا مرجع خیرا ہے۔ وہ اسے دیکھ لے گا۔ (جواب شرط)
پھر اس اجمال کی تفصیل بیان فرمائی (گوہ وہ تفصیل بھی اجمال کو لیے ہوئے ہے جو بڑی محکم اور فیصلہ کن بات کرنے والی ہے) ارشاد فرمایا ﴿ فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهٗؕ٠٠٧ ﴾ (سو جو شخص ذرہ برابر بھی کوئی خیر کا کام کرے گا اسے دیکھ لے گا اور جنت میں نعمتوں سے نوازا جائے گا) ۔ ﴿وَ مَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهٗ (رح) ٠٠٨﴾ (اور جس شخص نے ایک ذرہ برابر کوئی شر (یعنی برائی) کا کام کیا وہ اس کو دیکھ لے گا) یعنی اس کی سزا پالے گا اور اپنے کیے کا انجام دیکھ لے گا۔ ان دونوں آیتوں میں خیر اور شر اور اصحاب خیر اور اصحاب شر کے بارے میں دو ٹوک فیصلہ فرمایا ہے ایمان ہو یا کفر، اچھے اعمال ہوں یا برے اعمال سب کچھ سامنے آجائے گا، لہٰذا کوئی سی بھی نیکی کو نہ چھوڑے خواہ کتنی بھی معمولی معلوم ہو اور کسی بھی برائی کا ارتکاب نہ کرے خواہ کتنی ہی معمولی ہو۔ ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اموال زکوٰۃ کے نصاب بیان فرمائے زکوٰۃ کی ادائیگی نہ کرنے والوں کا قیامت کے دن کا عذاب بتایا آخر میں صحابہ (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارشاد فرمایئے اگر کسی کے پاس گدھے ہوں، اور ان کی زکوٰۃ کی ادائیگی کے بارے میں کیا تفصیل ہے ؟ آپ نے فرمایا گدھوں کے بارے میں مجھ پر کوئی حکم (خصوصی) نازل نہیں کیا گیا۔ یہ آیت جو اپنے مضمون میں منفرد اور جامع ہے نازل کی گئی ہے یعنی ﴿ فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهٗؕ٠٠٧ وَ مَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهٗ (رح) ٠٠٨﴾ (رواہ البخاری صفحہ ١٤١ او مسلم صفحہ ٣١٩: ج ١) مومن بندوں کو کسی موقع پر بھی ثواب کمانے سے (اگرچہ تھوڑا ہی سا عمل ہو) غفلت نہیں برتنی چاہیے جیسا کہ گناہ سے بچنے کا فکر کرنا بھی لازم ہے، آخرت کی فکر رکھنے والے بندوں کا ہمیشہ یہی طرز رہا ہے۔ جس قدر بھی ممکن ہوجانی اور مالی عبادت میں لگے رہیں۔ اللہ کے ذکر میں کوتاہی نہ کریں۔ اگر ایک مرتبہ سبحان اللہ کہنے کا موقع مل جائے تو کہہ لیں۔ ایک چھوٹی سی آیت تلاوت کرنے کا موقع ہو تو اس کی تلاوت کرنے سے دریغ نہ کریں۔ حضرت عدی بن حاتم (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : اتقوا النار ولو بشق تمرة فمن لم یجد فبکلمة طیبة (دوزخ سے بچو اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی دے دو ، سو اگر وہ بھی نہ پاؤ تو بھلی بات ہی کہہ دو ) ۔ (رواہ البخاری صفحہ ٩٧١: ج ٢) حضرت عمرو (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دن خطبہ دیا اور خطبے میں فرمایا خبردار ! یہ دنیا ایسا سامان ہے جو سامنے حاضر ہے اس میں سے نیک اور بد سب کھاتے ہیں پھر فرمایا خبردار آخرت (اگرچہ ادھار ہے اس) کا وعدہ سچا ہے اس میں وہ بادشاہ فیصلے فرمائے گا جو قدرت والا ہے، پھر فرمایا خبردار ساری خیر پوری کی پوری جنت میں ہوگی اور خبردار شر یعنی برائی پوری کی پوری دوزخ میں ہوگی۔ پھر فرمایا کہ خبردار عمل کرتے رہو اور اللہ سے ڈرتے رہو اور یہ جان لو کہ تم اپنے اعمال پر پیش کیے جاؤ گے۔ ﴿فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهٗؕ٠٠٧ وَ مَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهٗ (رح) ٠٠٨﴾ (سو جس نے ایک ذرہ کے برابر خیر ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ایک ذرہ کے برابر شر کا کام کیا ہوگا وہ اس کو دیکھ لے گا) ۔ (رواہ الشافعی کما فی المشکوٰۃ صفحہ ٤٤٥) ہر مومن کے سامنے سورة الزلزال کی آخری دونوں آیات پیش نظر رہنی چاہئیں خیر میں کوئی کوتاہی نہ کریں اور ہلکے سے ہلکے کسی نگاہ کا بھی ارتکاب نہ کریں۔ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے فرمایا کہ اے عائشہ ! معمولی گناہوں سے بھی پرہیز کرنا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے بارے میں بھی مطالبہ کرنے والے ہیں (یعنی اعمال کے لکھنے والے فرشتے مقرر ہیں) ۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ٤٥٨) حضرت انس (رض) نے ایک مرتبہ حاضرین سے فرمایا کہ تم لوگ بعض ایسے اعمال کرتے ہو جو تمہاری نظروں میں بال سے زیادہ باریک ہیں یعنی انہیں تم معمولی سا گناہ سمجھتے ہو اور ہمارا یہ حال تھا کہ ہم انہیں ہلاک کرنے والی چیزیں سمجھتے تھے۔ (رواہ البخاری صفحہ ٩٦١: ج ٢) فضیلت : حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ سورة ﴿ اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَهَاۙ٠٠١﴾ نصف قرآن کے برابر ہے اور سورة ٴ ﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌۚ٠٠١﴾ تہائی قرآن کے برابر ہے اور سورة ٴ ﴿قُلْ يٰۤاَيُّهَا الْكٰفِرُوْنَۙ٠٠١﴾ چوتھائی قرآن کے برابر ہے۔ (رواہ الترمذی فی ابواب فضائل القرآن) وھذا آخر تفسیر سورة الزالزال والحمد للہ الکبیر المتعال والصلوة والسلام علی من جاء بالحسنات والصالح من الاعمال، وعلی من صحبہ وتبعہ باحسان الی یوم المآل
6:۔ ” فمن یعمل “ نیک و بد کی تفصیل ہے جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی اس کو اس کی بھی جزاء ملے گی اور وہ اس کی جزاء وہاں دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ بھی اس کی جزاء دیکھ لے گا بشرطیکہ عفو نہ کیا گیا ہو۔