۔ سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: دو آدمی آپس کا ایک جھگڑا لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا: اے عمرو!ان کے درمیان فیصلہ کرو۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ اس امر کے زیادہ حقدار ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگرچہ میں ہوں۔ میں نے کہا: اگر میں ان کے ما بین فیصلہ کروں تومجھے کیا ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر تم نے فیصلہ کیا اور درست صورت تک پہنچ گئے تو دس نیکیاں ملیں گی اوراگر اجتہاد میں خطا اور غلطی ہو گئی تو ایک نیکی ملے گی۔
۔ سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسی قسم کی حدیث بیان کی ہے، البتہ اس میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر تم نے اجتہاد کیا اور فیصلہ درست کر لیا تو دس اجر ملیں گے اور اگر تم نے اجتہاد کیا اور خطا ہو گئی تو ایک اجر ملے گا۔
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ دو آدمی اپنا مقدمہ لے کر سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، انھوں نے ان کے درمیان فیصلہ کیا اور جس کے خلاف فیصلہ ہوا، وہ ناراض ہو گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور شکایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے کہا: جب قاضی فیصلہ کرتا ہے اور پوری جد وجہد کرتا ہے اور درست فیصلہ کر لیتا ہے تو اسے دس اجر ملتے ہیں اور اگر پوری محنت کے باوجود اس سے خطا ہو جائے تو اس کو ایکیا دو اجر پھر بھی ملتے ہیں۔
۔ سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب حاکم پوری محنت کے ساتھ فیصلہ کرتا ہے اور درستی کو پہنچ جاتا ہے تو اس کو دو اجر ملتے ہیں اور جب پوری محنت کے باوجود اس سے خطا ہو جاتی ہے تو اس کو ایک اجر ملتا ہے۔ یہ حدیث سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔
۔ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو عامل بنا کر یمن کی طرف بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا: جب کوئی مقدمہ پیش ہو تو تو کس طرح فیصلہ کرے گا؟ انھوں نے کہا: جی میں کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ا ٓپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر وہ مسئلہ اللہ تعالی کی کتاب میں نہ ہو تو؟ انھوں نے کہا: تو پھر اللہ کے رسول کی سنت کی روشنی میں کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر رسول اللہ کی سنت میں بھی نہ ملے تو؟ انھوں نے کہا: تو پھر میں اجتہاد کروں گا اور اس میں کوئی کمی نہیں کروں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سن کر سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کے سینے پر تھپکی دی اور فرمایا: اس اللہ کے لئے تعریف ہے، جس نے اپنے رسول کے قاصد کو اس چیز کی توفیق بخشی کہ جس کو اس کا رسول پسند کرتا ہے۔
۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے یمن کا قاضی مقرر کر کے بھیجا، جبکہ میں ابھی نو عمر تھا، اس لیے میں نے کہا:اے اللہ کے رسول! آپ مجھے ایک ایسی قوم کے ہاں بھیج رہے ہیں، جن کے درمیان نت نئے معاملات جنم لیتے ہیں اور مجھے تو قضا کا علم ہی نہیں ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تیری زبان کی رہنمائی کرے گا اور تیرے دل میں مضبوطی پیدا کر دے گا۔ اس کے بعد دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ کرتے مجھے کبھی کوئی شک و شبہ نہیں ہوا۔