Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 29

سورة الكهف

وَ قُلِ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکُمۡ ۟ فَمَنۡ شَآءَ فَلۡیُؤۡمِنۡ وَّ مَنۡ شَآءَ فَلۡیَکۡفُرۡ ۙ اِنَّاۤ اَعۡتَدۡنَا لِلظّٰلِمِیۡنَ نَارًا ۙ اَحَاطَ بِہِمۡ سُرَادِقُہَا ؕ وَ اِنۡ یَّسۡتَغِیۡثُوۡا یُغَاثُوۡا بِمَآءٍ کَالۡمُہۡلِ یَشۡوِی الۡوُجُوۡہَ ؕ بِئۡسَ الشَّرَابُ ؕ وَ سَآءَتۡ مُرۡتَفَقًا ﴿۲۹﴾

And say, "The truth is from your Lord, so whoever wills - let him believe; and whoever wills - let him disbelieve." Indeed, We have prepared for the wrongdoers a fire whose walls will surround them. And if they call for relief, they will be relieved with water like murky oil, which scalds [their] faces. Wretched is the drink, and evil is the resting place.

اور اعلان کر دے کہ یہ سراسر برحق قرآن تمہارے رب کی طرف سے ہے ۔ اب جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے ۔ ظالموں کے لئے ہم نے وہ آگ تیار کر رکھی ہے جس کی قناتیں انہیں گھیر لیں گی ۔ اگر وہ فریاد رسی چاہیں گے تو ان کی فریاد رسی اس پانی سے کی جائے گی جو تیل کی تلچھٹ جیسا ہوگا جو چہرے بھون دے گا بڑا ہی برا پانی ہے اور بڑی بری آرام گاہ ( دوزخ ) ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Truth is from Allah, and the Punishment of Those Who do not believe in it Allah says, وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ ... And say: "The truth is from your Lord." Allah says to His Messenger Muhammad: "Say to the people, `What I have brought to you from your Lord is the truth, in which there is no confusion or doubt."' ... فَمَن شَاء فَلْيُوْمِن وَمَن شَاء فَلْيَكْفُرْ ... Then whosoever wills, let him believe; and whosoever wills, let him disbelieve. This is a type of threat and stern warning, after which Allah says, ... إِنَّا أَعْتَدْنَا ... Verily, We have prepared, meaning made ready, ... لِلظَّالِمِينَ ... for the wrongdoers, meaning those who disbelieve in Allah, His Messenger and His Book, ... نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا ... a Fire whose walls will be surrounding them. Ibn Jurayj said that Ibn Abbas said, أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا (a Fire whose walls will be surrounding them), "A wall of fire." ... وَإِن يَسْتَغِيثُوا يُغَاثُوا بِمَاء كَالْمُهْلِ يَشْوِي الْوُجُوهَ ... And if they ask for drink, they will be granted water like Al-Muhl, that will scald their faces. Ibn Abbas said; "Al-Muhl is thick water which is similar to the sediment in oil." Mujahid said, "It is like blood and pus." Ikrimah said, "It is the thing that is heated to the ultimate temperature." Others said: "It is everything that is melted." Qatadah said, "Ibn Mas`ud melted some gold in a grove, and when it became liquid and foam rose to the top, he said, this is the thing that is most like Al-Muhl." Ad-Dahhak said: "The water of Hell is black, and it itself is black and its people are black." There is nothing contradictory in these comments, for Al-Muhl includes all of these unpleasant characteristics, it is black, evil-smelling, thick and hot, as Allah said, يَشْوِي الْوُجُوهَ ((it) will scald their faces), meaning because of its heat. When the disbeliever wants to drink it and brings it close to his face, it will scald it so that the skin of his face falls off into it. Sa`id bin Jubayr said, "When the people of Hell get hungry, they will ask for relief from it, and they will be given the tree of Zaqqum from which they will eat. The tree will tear off the skin of their faces, and if anyone who knew them were to pass by, he would recognize the skin of their faces in the tree. Then they will feel thirsty, so they will ask for drink, and they will be granted water like Al-Muhl, that is what has been heated to the ultimate temperature. When it is brought near their mouths, the flesh of their faces from which the skin has been torn off will be baked." After describing this drink in these horrifying qualities, Allah says: ... بِيْسَ الشَّرَابُ ... Terrible is the drink, meaning, how awful this drink is. Similarly, He says in another Ayah: وَسُقُواْ مَأءً حَمِيماً فَقَطَّعَ أَمْعَأءَهُمْ and be given to drink boiling water so that it cuts up their bowels. (47:15) تُسْقَى مِنْ عَيْنٍ ءَانِيَةٍ They will be given to drink from a boiling spring. (88:5) وَبَيْنَ حَمِيمٍ ءَانٍ They will go between it (Hell) and the fierce boiling water. (55:44) ... وَسَاءتْ مُرْتَفَقًا and an evil Murtafaq! means, how evil a place is the Fire to dwell and rest and gather. As Allah says elsewhere: إِنَّهَا سَأءَتْ مُسْتَقَرّاً وَمُقَاماً Evil indeed it (Hell) is as an abode and as a place to rest in. (25:66)

جہنم کی دیواریں جو کچھ میں اپنے رب کے پاس سے لایا ہوں وہی حق صدق اور سچائی ہے شک شبہ سے بالکل خالی ۔ اب جس کا جی چاہے مانے نہ چاہے نہ مانے ۔ نہ ماننے والوں کے لئے آگ جہنم تیار ہے ، جس کی چار دیواری کے جیل خانے میں یہ بےبس ہوں گے ۔ حدیث میں ہے کہ جہنم کی چار دیواری کی وسعت چالیس چالیس سال کی راہ کی ہے ( مسند احمد ) اور خود وہ دیواریں بھی آگ کی ہیں ۔ اور روایت میں ہے سمندر بھی جہنم ہے پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی اور فرمایا واللہ نہ اس میں جاؤں جب تک بھی زندہ رہوں اور نہ اس کا کوئی قطرہ مجھے پہنچے ۔ مہل کہتے ہیں غلیظ پانی کو جیسے زیتون کے تیل کی تلچھٹ اور جیسے خون اور پیپ جو بیحد گرم ہو ۔ حضرت ابن مسعود نے ایک مرتبہ سونا پگھلایا جب وہ پانی جیسا ہو گیا اور جوش مارنے لگا فرمایا مھل کی مشابہت اس میں ہے جہنم کا پانی بھی سیاہ ہے ، وہ خود بھی سیاہ ہے ، جہنمی بھی سیاہ ہیں ۔ مھل سیاہ رنگ ، بدبودار ، غلیظ گندی ، سخت گرم چیز ہے ، چہرے کے پاس جاتے ہی کھال جھلس کر اس میں آ پڑے گی ۔ قرآن میں ہے وہ پیپ پلائے جائیں گے بمشکل ان کے حلق سے اترے گی ۔ چہرے کے پاس آتے ہی کھال جل کر گر پڑے گی پیتے ہی آنتیں کٹ جائیں گی انکی ہائے وائے شور و غل پر یہ پانی انکو پینے کو دیا جائے گا ۔ بھوک کی شکایت پر زقوم کا درخت دیا جائے گا جس سے ان کی کھالیں اس طرح جسم چھوڑ کر اتر جائیں گی کہ ان کے پہچاننے والا ان کھالوں کو دیکھ کر بھی پہچان لے ، پھر پیاس کی شکایت پر سخت گرم کھولتا ہوا پانی ملے گا جو منہ کے پس پہنچتے ہی تمام گوشت کو بھون ڈالے گا ۔ ہائے کیا برا پانی ہے یہ وہ گرم پانی پلایا جائے گا ، انکا ٹھکانہ انکی منزل انکا گھر انکی آرام گاہ بھی نہایت بری ہے ۔ جیسے اور آیت میں ( اِنَّهَا سَاۗءَتْ مُسْتَــقَرًّا وَّمُقَامًا 66؀ ) 25- الفرقان:66 ) وہ بڑی جگہ اور بیحد کٹھن منزل ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٠] یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو حق (قرآن) آیا ہے جو اسے ماننا چاہتا ہے اسے پورے کا پورا ماننا ہوگا، ورنہ نہ مانے۔ البتہ جو نہیں مانتا اسے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ابھی سے اس کے لیے دوزخ کی آگ تیار ہے۔ [٣١] سرادق کے معنی کسی خیمہ کی دیواریں ہیں یہاں مراد دوزخ کی چاردیواری ہے اور جہنم کے گرد یہ چار دیواری یا احاطہ اس لیے کیا جائے گا کہ دوزخیوں کے لیے آگ کی حرارت میں مزید اضافہ ہو اور اس آگ کی حرارت باہر نہ جانے پائے نیز باہر والے اس حرارت سے محفوظ رہیں۔ [٣٢] مہل کا معنی تانبا یا کوئی بھی دھات جو پگھلی ہوئی حالت میں ہو یا تیل کی تلچھٹ یا لاوا جو زمین کے اندر شدت حرارت سے پگھلی ہوئی دھاتوں کے ملغوبہ کی شکل میں ہو کیونکہ اس میں بنیادی طور پر دو باتیں پائی جاتی ہیں۔ ایک سرخی مائل ہونا دوسرے شدت حرارت اور دوزخیوں کو جو پانی پلایا جائے گا اس میں یہ دونوں خواص موجود ہوں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ : ” الْحَقُّ “ پر الف لام عہد کا ہے، اس لیے اس کا ترجمہ ” یہ حق “ کیا ہے۔ فَمَنْ شَاۗءَ فَلْيُؤْمِنْ ۔۔ : یعنی مجھے تمہاری کوئی پروا نہیں، مانو گے تو اپنا بھلا کرو گے اور نہ مانو گے تو اپنی شامت لاؤ گے، میں مومنوں کو اپنی مجلس سے نہیں اٹھا سکتا۔ اِنَّآ اَعْتَدْنَا للظّٰلِمِيْنَ نَارًا : ” اَعْتَدْنَا “ میں تاء اصلی ہے۔ ” لِلظّٰلِمِيْنَ “ سے مراد کفار و مشرکین ہیں۔ اَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا ۔۔ : ” سُرَادِقٌ“ وہ پردہ جو خیمے کے اردگرد لگایا جاتا ہے، یعنی قنات، جمع ” سُرَادِقَاتٌ“ (قاموس) ” اَلْمُھْلُ “ پگھلی ہوئی دھات، وہ تانبہ ہو یا سیسہ وغیرہ اور نہایت گرم تیل کی تلچھٹ۔ ” مُرْتَفَقًا “ ظرف مکان ہے، ارتفاق کی جگہ، اصل اس کا یہ ہے کہ آدمی اپنی مرفق (کہنی) پر ٹیک لگا کر آرام کرتا ہے۔ جہنم کو آرام کی جگہ بطور طنز کہا ہے، ورنہ وہاں کہنی پر سر رکھ کر کیسے سو سکتا ہے۔ یعنی چاروں طرف آگ کی دیوار ہوگی، کہیں بھاگنے کا راستہ نہیں ملے گا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُم ْ۝ ٠ ۣ فَمَنْ شَاۗءَ فَلْيُؤْمِنْ وَّمَنْ شَاۗءَ فَلْيَكْفُرْ۝ ٠ ۙ اِنَّآ اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِيْنَ نَارًا۝ ٠ۙ اَحَاطَ بِہِمْ سُرَادِقُہَا ۝ ٠ۭ وَاِنْ يَّسْتَغِيْثُوْا يُغَاثُوْا بِمَاۗءٍ كَالْمُہْلِ يَشْوِي الْوُجُوْہَ۝ ٠ۭ بِئْسَ الشَّرَابُ ۝ ٠ۭ وَسَاۗءَتْ مُرْتَفَقًا۝ ٢٩ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ أمن والإِيمان يستعمل تارة اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ويقال لكلّ واحد من الاعتقاد والقول الصدق والعمل الصالح : إيمان . قال تعالی: وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمانَكُمْ [ البقرة/ 143] أي : صلاتکم، وجعل الحیاء وإماطة الأذى من الإيمان قال تعالی: وَما أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنا وَلَوْ كُنَّا صادِقِينَ [يوسف/ 17] قيل : معناه : بمصدق لنا، إلا أنّ الإيمان هو التصدیق الذي معه أمن، وقوله تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيباً مِنَ الْكِتابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ [ النساء/ 51] فذلک مذکور علی سبیل الذم لهم، ( ا م ن ) الامن الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلما ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست (2 ۔ 62) میں امنوا کے یہی معنی ہیں اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید ہوۃ کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ اور کبھی ایمان کا لفظ بطور مدح استعمال ہوتا ہے اور اس سے حق کی تصدیق کرکے اس کا فرمانبردار ہوجانا مراد ہوتا ہے اور یہ چیز تصدیق بالقلب اقرار باللسان اور عمل بالجوارح سے حاصل ہوتی ہے اس لئے فرمایا ؛۔ { وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ } ( سورة الحدید 19) اور جو لوگ خدا اور اس کے پیغمبر پر ایمان لائے ہیں روہی صدیق میں یہی وجہ ہے کہ اعتقاد قول صدق اور عمل صالح میں سے ہر ایک کو ایمان کہا گیا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَمَا كَانَ اللهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ } ( سورة البقرة 143) ۔ اور خدا ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو یوں ہی کھودے (2 ۔ 143) میں ایمان سے مراد نماز ہے اور (16) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حیا اور راستہ سے تکلیف کے دور کرنے کو جزو ایمان قرار دیا ہے اور حدیث جبرائیل میں آنحضرت نے چھ باتوں کو کو اصل ایمان کہا ہے اور آیت کریمہ ؛۔ { وَمَا أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ } ( سورة يوسف 17) اور آپ ہماری بات کو گو ہم سچ ہی کہتے ہوں باور نہیں کریں گے (12 ۔ 17) میں مومن بمعنی مصدق ہے ۔ لیکن ایمان اس تصدیق کو کہتے ہیں جس سے اطمینان قلب حاصل ہوجائے اور تردد جاتا رہے اور آیت کریمہ :۔ { أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ } ( سورة النساء 44 - 51) من ان کی مذمت کی ہے کہ وہ ان چیزوں سے امن و اطمینان حاصل کرنا چاہتے ہیں جو باعث امن نہیں ہوسکتیں کیونکہ انسان فطری طور پر کبھی بھی باطل پر مطمئن نہیں ہوسکتا ۔ كفر ( ناشکري) الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وكُفْرُ النّعمة وكُفْرَانُهَا : سترها بترک أداء شكرها، قال تعالی: فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء/ 94] . وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ، فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان/ 50] ويقال منهما : كَفَرَ فهو كَافِرٌ. قال في الکفران : لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] ، وقال : وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة/ 152] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ کفر یا کفر ان نعمت کی ناشکری کر کے اسے چھپانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء/ 94] ؂ تو اس کی کوشش رائگاں نہ جائے گی ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان/ 50] مگر اکثر لوگوں نے انکار کرنے کے سوا قبول نہ کیا ۔ اور فعل کفر فھوا کافر ہر دو معانی کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ می۔ 5 کفران کے متعلق فرمایا : ۔ لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] تاکہ مجھے آز مائے کر میں شکر کرتا ہوں یا کفران نعمت کرتا ہوم ۔ اور جو شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے شکر کرتا ہے ۔ اور جو ناشکری کرتا ہے ۔ تو میرا پروردگار بےپروا اور کرم کر نیوالا ہے ۔ وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة/ 152] اور میرا احسان مانتے رہنا اور ناشکری نہ کرنا ۔ عد ( اعداد) والإِعْدادُ مِنَ العَدِّ كالإسقاء من السَّقْيِ ، فإذا قيل : أَعْدَدْتُ هذا لك، أي : جعلته بحیث تَعُدُّهُ وتتناوله بحسب حاجتک إليه . قال تعالی: وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال/ 60] ، وقوله : أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء/ 18] ، وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان/ 11] ، وقوله : وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف/ 31] ، قيل : هو منه، وقوله : فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ [ البقرة/ 184] ، أي : عدد ما قد فاته، وقوله : وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة/ 185] ، أي : عِدَّةَ الشّهر، وقوله : أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 184] ، فإشارة إلى شهر رمضان . وقوله : وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 203] ، فهي ثلاثة أيّام بعد النّحر، والمعلومات عشر ذي الحجّة . وعند بعض الفقهاء : المَعْدُودَاتُ يومُ النّحر ويومان بعده «1» ، فعلی هذا يوم النّحر يكون من المَعْدُودَاتِ والمعلومات، والعِدَادُ : الوقت الذي يُعَدُّ لمعاودة الوجع، وقال عليه الصلاة والسلام :«ما زالت أكلة خيبر تُعَادُّنِي» «2» وعِدَّانُ الشیءِ : عهده وزمانه . ( ع د د ) العدد الاعداد تیار کرنا مہیا کرنا یہ عد سے ہے جیسے سقی سے اسقاء اور اعددت ھذا لک کے منعی ہیں کہ یہ چیز میں نے تمہارے لئے تیار کردی ہے کہ تم اسے شمار کرسکتے ہو اور جس قدر چاہو اس سے حسب ضرورت لے سکتے ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال/ 60] اور جہاں تک ہوسکے ( فوج کی جمیعت سے ) ان کے ( مقابلے کے لئے مستعد رہو ۔ اور جو ) کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔ اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں ۔ أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء/ 18] ایسے لوگوں کے لئے ہم نے عذاب الیم تیار کر رکھا ہے وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان/ 11] اور ہم نے جھٹلا نے والوں کے لئے دوزخ تیار کر رکھی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف/ 31] اور ان کے لئے ایک محفل مرتب کی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اعتدت بھی اسی ( عد ) سے ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة/ 185] تم روزوں کا شمار پورا کرلو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم ماہ رمضان کی گنتی پوری کرلو ۔ أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 184] گنتی کے چند روز میں ماہ رمضان کی طرف اشارہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 203] اور گنتی کے دنوں میں خدا کو یاد کرو ۔ میں سے عید قربان کے بعد کے تین دن مراد ہیں اور معلومات سے ذوالحجہ کے دس دن بعض فقہاء نے کہا ہے کہ ایام معدودۃ سے یوم النحر اور اس کے بعد کے دو دن مراد ہیں اس صورت میں یوم النحر بھی ان تین دنوں میں شامل ہوگا ۔ العداد اس مقرر وقت کو کہتے ہیں جس میں بیماری کا دورہ پڑتا ہو ۔ آنحضرت نے فرمایا مازالت امۃ خیبر تعادنی کہ خیبر کے دن جو مسموم کھانا میں نے کھایا تھا اس کی زہر بار بار عود کرتی رہی ہے عد ان الشئی کے معنی کسی چیز کے موسم یا زمانہ کے ہیں ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ حيط الحائط : الجدار الذي يَحُوط بالمکان، والإحاطة تقال علی وجهين : أحدهما : في الأجسام نحو : أَحَطْتُ بمکان کذا، أو تستعمل في الحفظ نحو : إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت/ 54] ، والثاني : في العلم نحو قوله : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق/ 12] ( ح و ط ) الحائط ۔ دیوار جو کسی چیز کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہو اور احاطۃ ( افعال ) کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) اجسام کے متعلق جیسے ۔ احطت بمکان کذا یہ کبھی بمعنی حفاظت کے آتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت/ 54] سن رکھو کہ وہ ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ یعنی وہ ہر جانب سے ان کی حفاظت کرتا ہے ۔ (2) دوم احاطہ بالعلم ہے جیسے فرمایا :۔ أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق/ 12] اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ سردق السُّرَادِقُ فارسيّ معرّب، ولیس في کلامهم اسم مفرد ثالثه ألف . وبعده حرفان قال تعالی: أَحاطَ بِهِمْ سُرادِقُها [ الكهف/ 29] ، وقیل : بيت مُسَرْدَقٌ ، مجعول علی هيئة سرادق . ( س ر د ق ) السرادق فارسی سے معرب ہے کلام عرب میں کوئی ایسا اسم مفرد نہیں ہے جس کا تیسرا حرف الف ہو اور اس کے بعد دو حرف ہوں ۔ قرآن میں ہے ۔ أَحاطَ بِهِمْ سُرادِقُها [ الكهف/ 29] جس کے شامیانے ان کو گھیر رہے ہوں گے ۔ اور بیت مسردق اس مکان کو کہتے ہیں جو شامیانہ کی طرز پر بنایا ہو ۔ غوث ( استغاث) الغَوْثُ يقال في النّصرة، والغَيْثُ في المطر، واسْتَغَثْتُهُ : طلبت الغوث أو الغیث، فَأَغَاثَنِي من الغوث، وغَاثَنِي من الغیث، وغَوَّثت من الغوث، قال تعالی: إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ [ الأنفال/ 9] ، وقال : فَاسْتَغاثَهُ الَّذِي مِنْ شِيعَتِهِ عَلَى الَّذِي مِنْ عَدُوِّهِ [ القصص/ 15] ، وقوله : وَإِنْ يَسْتَغِيثُوا يُغاثُوا بِماءٍ كَالْمُهْلِ [ الكهف/ 29] ، فإنّه يصحّ أن يكون من الغیث، ويصحّ أن يكون من الغوث، وکذا يُغَاثُوا، يصحّ فيه المعنیان . والغيْثُ : المطر في قوله : كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَباتُهُ [ الحدید/ 20] ، قال الشاعر : سمعت النّاس ينتجعون غيثا ... فقلت لصیدح انتجعي بلالا ( غ و ث) الغوث کے معنی مدد اور الغیث کے معنی بارش کے ہیں اور استغثتہ ض ( استفعال ) کے معنی کسی کو مدد کے لیے پکارنے یا اللہ تعالیٰ سے بارش طلب کرنا آتے ہیں جب کہ اس معنی مدد طلب کرنا ہو تو اس کا مطاوع اغاثنی آئیگا مگر جب اس کے معنی بارش طلب کرنا ہو تو اس کا مطاوع غاثنی آتا ہے اور غوثت میں نے اس کی مدد کی یہ بھی غوث سے مشتق ہے جس کے معنی مدد ہیں قرآن پاک میں ہے :إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ [ الأنفال/ 9] جب تم اپنے پروردگار سے فریاد کرتے تھے ۔ فَاسْتَغاثَهُ الَّذِي مِنْ شِيعَتِهِ عَلَى الَّذِي مِنْ عَدُوِّهِ [ القصص/ 15] تو جو شخص ان کی قوم میں سے تھا اس نے دوسرے شخص کے مقابلے میں جو موسیٰ کے دشمنوں میں سے تھا ، موسیٰ سے مدد طلب کی ۔ اور آیت کر یمہ ؛وَإِنْ يَسْتَغِيثُوا يُغاثُوا بِماءٍ كَالْمُهْلِ [ الكهف/ 29] اور اگر فریاد کریں گے تو ایسے کھولتے ہوئے پانی سے ان کی دادرسی کی جائے گی جو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح گرم ہوگا ۔ میں یستغیثوا غوث ( مدد ما نگنا) سے بھی ہوسکتا ہے ۔ اور غیث ( پانی مانگنا ) سے بھی اسی طرح یغاثوا ( فعل مجہول ) کے بھی دونوں معنی ہوسکتے ہیں ( پہلی صورت میں یہ اغاث یعنی ( باب افعال ) سے ہوگا دوسری صورت میں غاث ، یغیث سے اور آیت کریمہ : كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَباتُهُ [ الحدید/ 20] جیسے بارش کہ اس سے کھیتی اگتی اور کسانوں کو کھیتی بھلی لگتی ہے ۔ میں غیث کے معنی بارش ہیں چناچہ کو شاعر نے کہا ہے ۔ (332) سمعت الناس ینتجعون غیثا فقلت لصیدح انتجعی بلالا میں نے سنا ہے کہ لوگ بارش کے مواضع تلاش کرتے ہیں تو میں نے اپنی اونٹنی صیدح سے کہا تم بلال کی تلاش کرو ۔ ماء قال تعالی: وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] ، وقال : وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] ، ويقال مَاهُ بني فلان، وأصل ماء مَوَهٌ ، بدلالة قولهم في جمعه : أَمْوَاهٌ ، ومِيَاهٌ. في تصغیره مُوَيْهٌ ، فحذف الهاء وقلب الواو، ( م ی ہ ) الماء کے معنی پانی کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] پاک ( اور نتھرا ہوا پانی اور محاورہ ہے : ۔ ماء بنی فلان فلاں قبیلے کا پانی یعنی ان کی آبادی ماء اصل میں موہ ہے کیونکہ اس کی جمع امراۃ اور میاہ آتی ہے ۔ اور تصغیر مویۃ پھر ہا کو حزف کر کے واؤ کو الف سے تبدیل کرلیا گیا ہے مهل المَهْل : التُّؤَدَةُ والسُّكونُ ، يقال : مَهَلَ في فعله، وعمل في مُهْلة، ويقال : مَهْلًا . نحو : رفقا، وقد مَهَّلْتُهُ : إذا قُلْتَ له مَهْلًا، وأَمْهَلْتُهُ : رَفَقْتُ به، قال : فَمَهِّلِ الْكافِرِينَ أَمْهِلْهُمْ رُوَيْداً [ الطارق/ 17] والمُهْلُ : دُرْدِيُّ الزَّيْت، قال : كَالْمُهْلِ يَغْلِي فِي الْبُطُونِ [ الدخان/ 45] . ( م ھ ل ) المھل کے معنی حلم و سکون کے ہیں ۔ اور مھل فی فعلہ کے معنی ہیں اس نے سکون سے کام کیا اور مھلا کے معنی رفقا کے ہیں یعنی جلدی مت کرو ۔ مھلۃ کسی کو مھلا کہنا اور امھلتہ کے معنی کسی کے ساتھ نرمی سے پیش آنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَمَهِّلِ الْكافِرِينَ أَمْهِلْهُمْ رُوَيْداً [ الطارق/ 17] تو تم کافروں کو مہلت دو پس روزی مہلت دو المھل تلچھت کو بھی کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كَالْمُهْلِ يَغْلِي فِي الْبُطُونِ [ الدخان/ 45] جیسے پگھلا ہوا تانبا پیٹوں میں اس طرح ) کھولے گا ۔ شوی شَوَيْتُ اللّحم واشْتَوَيْتُهُ. قال تعالی: يَشْوِي الْوُجُوهَ [ الكهف/ 29] ، وقال الشاعر : فَاشْتَوَى ليلة ريح واجتمل والشَّوَى: الأطراف، کالید والرّجل . يقال : رماه فَأَشْوَاهُ ، أي : أصاب شَوَاهُ. قال تعالی: نَزَّاعَةً لِلشَّوى[ المعارج/ 16] ، ومنه قيل للأمر الهيّن : شَوَى «1» ، من حيث إنّ الشَّوَى ليس بمقتل . والشَّاةُ قيل : أصلها شَاهَةٌ بدلالة قولهم : شِيَاهٌ وشُوَيْهَةٌ. ( ش و ی ) شویت اللحم واشتویتہ کے معنی گوشت بھوننا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ يَشْوِي الْوُجُوهَ [ الكهف/ 29] ان کے چہروں کو جھلس دے گا ۔ شاعر نے کہا ( الرمل ) ( 271 ) فاشتوی لیلۃ ریح واجتمل تو اس نے ٹھنڈی رات ( یعنی قحط سالی ) میں گوشت بھونا اور چربی پگھلا کر کھائی ۔ الشوی جسم کے اطراف ہاتھ پاؤں ۔ وہ اعضا جن پر زخم لگنے سے موت واقع نہ ہو محاورہ ہے رماہ فاشواہ اسے تیر مارا تو اس کے اطراف پر لگا یعنی ایسے عضو پر نہیں لگا جس پر زخم لگنے سے انسان مرجاتا ہے قران میں ہے : ۔ نَزَّاعَةً لِلشَّوى[ المعارج/ 16] کھال ادھیڑ ڈالنے والی ۔ اور اسی سے غیر اہم معاملہ کو بھی شوی کہا جاتا ہے کیونکہ شوی مقتل یعنی عضو رئیس نہیں ہوتا ( جس پر زخم لگنے سے انسان مرجائے ) الشاۃ بھیڑ ۔ یہ اصل میں شایۃ ہے کیونکہ اس کی جمع شیاہ اور تصغیر شویھۃ آتی ہے وجه أصل الوجه الجارحة . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة/ 6] ( و ج ہ ) الوجہ کے اصل معیج چہرہ کے ہیں ۔ جمع وجوہ جیسے فرمایا : ۔ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة/ 6] تو اپنے منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو ۔ بِئْسَ و «بِئْسَ» كلمة تستعمل في جمیع المذام، كما أنّ نعم تستعمل في جمیع الممادح، ويرفعان ما فيه الألف واللام، أو مضافا إلى ما فيه الألف واللام، نحو : بئس الرجل زيد، وبئس غلام الرجل زيد . وينصبان النکرة نحو : بئس رجلا، ولَبِئْسَ ما کانوا يَفْعَلُونَ [ المائدة/ 79] ، أي : شيئا يفعلونه، ( ب ء س) البؤس والباس بئس ۔ فعل ذم ہے اور ہر قسم کی مذمت کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسا کہ نعم ہر قسم کی مدح کے لئے استعمال ہوتا ہے ان کا اسم اگر معرف بالللام ہو یا معرف باللام کی طرف مضاف ہو تو اسے رفع دیتے ہیں جیسے بئس الرجل زید وبئس غلام الرجل زید ۔ اور اسم نکرہ کو نصب دیتے ہیں جیسے قرآن میں ہے ؛ ۔ { بِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ } ( سورة المائدة 79) یعنی بلا شبہ وہ برا کرتے تھے شرب الشُّرْبُ : تناول کلّ مائع، ماء کان أو غيره . قال تعالیٰ في صفة أهل الجنّة : وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان/ 21] ، وقال في صفة أهل النّار : لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [يونس/ 4] ، وجمع الشَّرَابُ أَشْرِبَةٌ ، يقال : شَرِبْتُهُ شَرْباً وشُرْباً. قال عزّ وجلّ : فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي - إلى قوله۔ فَشَرِبُوا مِنْهُ«4» ، وقال : فَشارِبُونَ شُرْبَ الْهِيمِ [ الواقعة/ 55] ، والشِّرْبُ : النّصيب منه «5» قال تعالی: هذِهِ ناقَةٌ لَها شِرْبٌ وَلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَعْلُومٍ [ الشعراء/ 155] ، وقال : كُلُّ شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر/ 28] . والْمَشْرَبُ المصدر، واسم زمان الشّرب، ومکانه . قال تعالی: قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُناسٍ مَشْرَبَهُمْ [ البقرة/ 60] . والشَّرِيبُ : الْمُشَارِبُ والشَّرَابُ ، وسمّي الشّعر الذي علی الشّفة العلیا، والعرق الذي في باطن الحلق شاربا، وجمعه : شَوَارِبُ ، لتصوّرهما بصورة الشّاربین، قال الهذليّ في صفة عير : صخب الشّوارب لا يزال كأنه«1» وقوله تعالی: وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ [ البقرة/ 93] ، قيل : هو من قولهم : أَشْرَبْتُ البعیر أي : شددت حبلا في عنقه، قال الشاعر : فأشربتها الأقران حتی وقصتها ... بقرح وقد ألقین کلّ جنین «2» فكأنّما شدّ في قلوبهم العجل لشغفهم، وقال بعضهم «3» : معناه : أُشْرِبَ في قلوبهم حبّ العجل، وذلک أنّ من عادتهم إذا أرادوا العبارة عن مخامرة حبّ ، أو بغض، استعاروا له اسم الشّراب، إذ هو أبلغ إنجاع في البدن «4» ، ولذلک قال الشاعر : تغلغل حيث لم يبلغ شَرَابٌ ... ولا حزن ولم يبلغ سرور «5» ولو قيل : حبّ العجل لم يكن له المبالغة، [ فإنّ في ذکر العجل تنبيها أنّ لفرط شغفهم به صارت صورة العجل في قلوبهم لا تنمحي ] «6» وفي مثل : أَشْرَبْتَنِي ما لم أشرب «7» ، أي : ادّعيت عليّ ما لم أفعل . ( ش ر ب ) الشراب کے معنی پانی یا کسی اور مائع چیز کو نوش کرنے کے ہیں ۔ قرآن نے ہی جنت کے متعلق فرمایا : ۔ وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان/ 21] اور ان کا پروردگار انہیں نہایت پاکیزہ شراب پلائیگا ۔ اور اہل دوزخ کے متعلق فرمایا : ۔ لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [يونس/ 4] ان کے لئے پینے کو کھولتا ہوا پانی ۔ شراب کی جمع اشربۃ ہے اور شربتہ شربا وشربا کے معنی پینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي۔ إلى قوله۔ فَشَرِبُوا مِنْهُ«4» جو شخص اس میں سے پانی پے لے گا وہ مجھ سے نہیں ہے ۔ چناچہ انہوں نے اس سے پی لیا ۔ نیز فرمایا : ۔ فَشارِبُونَ شُرْبَ الْهِيمِ [ الواقعة/ 55] اور پیو گے بھی تو ایسے جیسے پیاسے اونٹ پیتے ہیں ۔ الشراب پانی کا حصہ پینے کی باری ۔ قرآن میں ہے هذِهِ ناقَةٌ لَها شِرْبٌ وَلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَعْلُومٍ [ الشعراء/ 155] یہ اونٹنی ہے ( ایک دن ) اس کی پانی پینے کی باری ہے اور ایک معین تمہاری باری كُلُّ شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر/ 28] ہر باری والے کو اپنی باری پر آنا چاہیئے ۔ المشرب مصدر ) پانی پینا ( ظرف زمان یا مکان ) پانی پینے کی جگہ یا زمانہ قرآن میں ہے : ۔ قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُناسٍ مَشْرَبَهُمْ [ البقرة/ 60] . تمام لوگوں نے اپنا اپنا گھاٹ معلوم کرکے پانی پی لیا ۔ الشراب تم پیالہ یا شراب کو کہتے ہیں اور مونچھ کے بالوں اور حلق کی اندرونی رگ کو شارب کہا جاتا ہے گویا ان کو پینے والا تصور کیا گیا ہے اس کی جمع شوارب آتی ہے ۔ ھزلی نے گورخر کے متعلق کہا ہے ( الکامل ) ( 257 ) صخب الشوارب لا یزال کانہ اس کی مونچھیں سخت گویا وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ [ البقرة/ 93] اور ان ( کے کفر کے سبب ) بچھڑا ( گویا ) ان کے دلوں میں رچ گیا تھا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ اشربت البعیر کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی اونٹ کے گلے میں رسی باندھنے کے ہیں شاعر نے کہا ہے ( 258 ) واشرب تھا الاقران حتیٰ وقص تھا بقرح وقد القین کل جنین میں نے انہیں باہم باندھ لیا حتیٰ کہ قرح ( منڈی ) میں لا ڈالا اس حال میں کہ انہوں نے حمل گرا دیئے تھے ۔ تو آیت کے معنی یہ ہیں کہ گویا بچھڑا ان کے دلوں پر باندھ دیا گیا ہے ۔ اور بعض نے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ بچھڑے کی محبت ان کے دلوں میں پلادی گئی ہے کیونکہ عربی محاورہ میں جب کسی کی محبت یا بغض دل کے اندر سرایت کر جائے تو اس کے لئے لفظ شراب کو بطور استعارہ بیان کرتے ہیں کیونکہ یہ بدن میں نہایت تیزی سے سرایت کرتی ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( الوافر ) ( 259 ) تغلغل حیث لم یبلغ شرابہ ولا حزن ولم یبلغ سرور اس کی محبت وہاں تک پہنچ گئی جہاں کہ نہ شراب اور نہ ہی حزن و سرور پہنچ سکتا ہے ۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ بچھڑے کی محبت ان کے دلوں میں اس قدر زیادہ نہیں تھی تو ہم کہیں گے کیوں نہیں ؟ عجل کا لفظ بول کر ان کی فرط محبت پر تنبیہ کی ہے کہ بچھڑے کی صورت ان کے دلوں میں اس طرح نقش ہوگئی تھی کہ محو نہیں ہوسکتی تھی مثل مشہور ہے ۔ اشربتنی ما لم اشرب یعنی تونے مجھ پر جھوٹا الزام لگایا ۔ ساء ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] ، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء/ 123] ، أي : قبیحا، وکذا قوله : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة/ 37] ، عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح/ 6] ، أي : ما يسوء هم في العاقبة، وکذا قوله : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء/ 97] ، وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66] ، وأما قوله تعالی: فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] ، وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة/ 66] ، ساءَ مَثَلًا[ الأعراف/ 177] ، فساء هاهنا تجري مجری بئس، وقال : وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوءِ [ الممتحنة/ 2] ، وقوله : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، نسب ذلک إلى الوجه من حيث إنه يبدو في الوجه أثر السّرور والغمّ ، وقال : سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] : حلّ بهم ما يسوء هم، وقال : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد/ 21] ، وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] ، وكنّي عن الْفَرْجِ بِالسَّوْأَةِ «1» . قال : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة/ 31] ، فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة/ 31] ، يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف/ 22] ، لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما [ الأعراف/ 20] . ساء اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔ اور آیت :، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء/ 123] جو شخص برے عمل کرے گا اسے اسی ( طرح ) کا بدلہ دیا جائیگا ۔ میں سوء سے اعمال قبیحہ مراد ہیں ۔ اسی طرح آیت : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة/ 37] ان کے برے اعمال ان کو بھلے دکھائی دیتے ہیں ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہیں اور آیت : عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح/ 6] انہیں پر بری مصیبت ( واقع ) ہو ۔ میں دائرۃ السوء سے مراد ہر وہ چیز ہوسکتی ہے ۔ جو انجام کا رغم کا موجب ہو اور آیت : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء/ 97] اور وہ بری جگہ ہے ۔ وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66]( دوزخ ) ٹھہرنے کی بری جگہ ہے ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہے ۔ اور کبھی ساء بئس کے قائم مقام ہوتا ہے ۔ یعنی معنی ذم کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] مگر جب وہ ان کے مکان میں اتریگا تو جن کو ڈرسنایا گیا تھا ان کے لئے برادن ہوگا ۔ وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة/ 66] ان کے عمل برے ہیں ۔ ساءَ مَثَلًا[ الأعراف/ 177] مثال بری ہے ۔ اور آیت :۔ سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ( تو) کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ میں سیئت کی نسبت وجوہ کی طرف کی گئی ہے کیونکہ حزن و سرور کا اثر ہمیشہ چہرے پر ظاہر ہوتا ہے اور آیت : سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] تو وہ ( ان کے آنے سے ) غم ناک اور تنگدل ہوئے ۔ یعنی ان مہمانوں کو وہ حالات پیش آئے جن کی وجہ سے اسے صدمہ لاحق ہوا ۔ اور فرمایا : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد/ 21] ایسے لوگوں کا حساب بھی برا ہوگا ۔ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] اور ان کیلئے گھر بھی برا ہے ۔ اور کنایہ کے طور پر سوء کا لفظ عورت یا مرد کی شرمگاہ پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة/ 31] اپنے بھائی کی لاش کو کیونکہ چھپائے ۔ فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة/ 31] کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا ۔ يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] کہ تمہار ستر ڈھانکے ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف/ 22] تو ان کے ستر کی چیزیں کھل گئیں ۔ لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما[ الأعراف/ 20] تاکہ ان کے ستر کی چیزیں جو ان سے پوشیدہ تھیں ۔ کھول دے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٩) اور آپ عیینہ سے فرما دیجیے کہ لا الہ الا اللہ کی دعوت تمہارے رب کی طرف سے ہے سو جس کا دل چاہے ایمان لے آئے اور جس کا دل چاہے کافر رہے یا یہ کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ جس کے متعلق مشیت خداوندی ایمان لانے کے بارے میں ہوتی ہے وہ ایمان لے آتا ہے اور جس کے کافر رہنے کے بارے میں ہوتی ہے وہ کفر پر رہتا ہے، بیشک ہم نے عیینہ اور اس کے ساتھیوں کے لیے آگ تیار کر رکھی ہے کہ اس کی قناتیں ان کو گھیرے ہوں گی اور اگر وہ پانی کی فریاد رسی کریں گے تو ایسے پانی سے فریاد پوری کی جائے گی جو زیتوں کے تیل کی تلچھٹ کی طرح یا پگھلی ہوئی گرم چاندی کی طرح ہوگا کہ وہ پاس آتے ہی منہ کو بھون ڈالے گا کیا ہی برا پانی ہوگا اور وہ دوزخ کیا ہی بری جگہ ہوگی یعنی بدترین ٹھکانا اور ان کے ساتھیوں یعنی شیاطین اور کافروں کا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٩ (وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ ۣ فَمَنْ شَاۗءَ فَلْيُؤْمِنْ وَّمَنْ شَاۗءَ فَلْيَكْفُرْ ) کفار مکہ کی طرف سے کوئی درمیانی راستہ نکالنے کی کوششوں کے جواب میں یہاں حضور کی زبان مبارک سے واضح اور دو ٹوک انداز میں اعلان کرایا جا رہا ہے کہ تمہارے رب کی طرف سے جو حق میرے پاس آیا ہے وہ میں نے تم لوگوں کے سامنے پیش کردیا ہے۔ اب تمہارے سامنے دو ہی راستے ہیں اسے من و عن قبول کرلو یا اسے رد کر دو ۔ لیکن یاد رکھو اس میں کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر تم سے کوئی سودے بازی ممکن نہیں۔ یہ وہی مضمون ہے جو سورة الدھر میں اس طرح بیان ہوا ہے : (اِنَّا ہَدَیْنٰہُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوْرًا) یعنی ہم نے انسان کے لیے ہدایت کا راستہ واضح کردیا ہے اور اس کو اختیار دے دیا ہے کہ اب چاہے وہ شکر گزار بنے اور چاہے نا شکرا۔ (اِنَّآ اَعْتَدْنَا للظّٰلِمِيْنَ نَارًا ۙ اَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا) جہنم کی آگ قناتوں کی شکل میں ہوگی اور وہ اللہ کے منکرین اور مشرکین کو گھیرے میں لے لے گی۔ (بِئْسَ الشَّرَابُ ۭ وَسَاۗءَتْ مُرْتَفَقًا ) ” مُہْل “ کا ترجمہ تیل کی تلچھٹ کے علاوہ لاوا بھی کیا گیا ہے اور پگھلا ہوا تانبا بھی۔ سورة ابراہیم کی آیت ١٦ میں جہنمیوں کو پلائے جانے والے پانی کو ” مَآءٍ صَدِیْدٍ “ کہا گیا ہے جس کے معنی زخموں سے رسنے والی پیپ کے ہیں۔ بہرحال یہ سیال مادہ جو انہیں پانی کے طور پر دیا جائے گا اس قدر گرم ہوگا کہ ان کے چہروں کو بھون کر رکھ دے گا۔ اب آئندہ آیات میں فوری تقابل کے لیے اہل جنت کا ذکر آ رہا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

31. This verse makes it quite plain that the story of the sleepers of the cave has been related to tell the opponents of Islam: This is the truth from your Lord. Now whosoever wills, he may accept it and whosoever wills, he may reject it. But people must understand that no compromise will be made in regard to the truth just as the sleepers of the cave did not make any compromise with regard to their creed. They did not make any compromise in regard to the doctrine of Tauhid after they had believed in it and categorically declared: Our Lord is the One Who alone is the Lord of the heavens and the earth. After this declaration they did not in any way accede to the making of any compromise with their people, who had gone astray. But they firmly declared: We will not give Him up and pray to other deities, because it will be the most improper thing, if we did so. After making this declaration they left their people and deities and took refuge in the cave without taking any provisions with them. After this when they woke up, the only thing about which they showed any anxiety, was that their people might not succeed in forcing them back to their own faith. After relating these things, the Quran addresses the Prophet (peace be upon him) to the effect (though these words are really meant for the opponents of Islam): It is absolutely out of question whether any compromise can be made with mushriks and disbelievers. Present the truth intact to them whether they accept it or not. If they do not accept it, they themselves will meet with an evil end. As regards to those, who have accepted the truth, (whether they be youngsters or poor, indigent people or slaves or laborers) they are really those people who have a worth with Allah, and they alone will be honored. Therefore you should not discard them and prefer the chiefs and the rich people who may be neglectful of Allah and be slaves of their own desires, even though they might be possessors of worldly grandeur. 32. The Arabic word Suradiq literally means sides of a tent but, as used in the case of Hell, it may mean its external boundaries to which its flames and heat may reach. According to some commentators, it applies to the future tense “its walls will be surrounding them” so as to refer to the flames of Hell in the Hereafter. But we are of the opinion that its flames have already encircled, in this very world, these workers of iniquity, who have turned away from the truth and that they cannot escape them. 33. The Arabic word muhul has several lexical meanings. According to some people, it means the residue of oil; according to others, it is lava which is formed by the melting of things in the earth; according to some others, it is molten matter and according to others, it is pus and blood.

سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :31 یہاں پہنچ کر صاف سمجھ میں آجاتا ہے کہ اصحاب کہف کا قصہ سنانے کے بعد یہ فقرے کس مناسبت سے ارشاد ہوئے ہیں ۔ اصحاب کہف کے جو واقعات اوپر بیان ہوئے ہیں ان میں یہ بتایا گیا تھا کہ توحید پر ایمان لانے کے بعد انہوں نے کس طرح اٹھ کر دو ٹوک بات کہہ دی کہ ہمارا رب تو بس وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے ۔ اور پھر کس طرح وہ اپنی گمراہ قوم سے کسی قسم کی مصالحت پر آمادہ نہ ہوئے بلکہ انہوں نے پورے عزم کے ساتھ کہا کہ ہم اس کے سوا کسی دوسرے الہ کو نہ پکاریں گے ، اگر ہم ایسا کریں تو بڑی بے جا بات کریں گے ۔ اور کس طرح انہوں نے اپنی قوم اور اس کے معبودوں کو چھوڑ کر بغیر کسی سہارے اور بغیر کسی سروسامان کے ایک غار میں جا پڑنا قبول کر لیا ، مگر یہ گوارا نہ کیا کہ حق سے بال برابر بھی ہٹ کر اپنی قوم سے مصالحت کر لیتے ۔ پھر جب وہ بیدار ہوئے تب بھی انہیں فکر ہوئی تو اس بات کی کہ اگر خدا نخواستہ ہماری قوم ہم کو اپنی ملت کی طرف پھیر لے جانے میں کامیاب ہو گئی تو ہم کبھی فلاح نہ پا سکیں گے ۔ ان واقعات کا ذکر کرنے کے بعد اب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو مخاطب کر کے فرمایا جا رہا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور سنانا دراصل مخالفین اسلام کو مقصود ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ ان مشرکین اور منکرین حق سے مصالحت قطعاً خارج از بحث ہے ۔ جو حق خدا کی طرف سے آیا ہے اسے بےکم و کاست ان کے سامنے پیش کر دو ۔ مانتے ہیں تو مانیں ، نہیں مانتے تو خود برا انجام دیکھیں گے ۔ جنہوں نے مان لیا ہے ، خواہ وہ کم سن نوجوان ہوں ، یا بے مال و زر فقیر ، یا غلام اور مزدور ، بہرحال وہی قیمتی جواہر ہیں ، انہی کو یہاں عزیز رکھا جائے گا ، اور ان کو چھوڑ کر ان بڑے بڑے سرداروں اور رئیسوں کی کچھ پروا نہ کی جائے گی جو دنیا کی شان و شوکت خواہ کتنی ہی رکھتے ہوں مگر ہیں خدا سے غافل اور اپنے نفس کے بندے ۔ سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :32 سرادق کے اصل معنی ہیں قناتیں اور سرا پردے جو کسی خیمہ گاہ کے گرد لگائے جاتے ہیں لیکن جہنم کی مناسبت سے دیکھا جائے تو خیال ہوتا ہے کہ سرادق سے مراد اس کے وہ بیرونی حدود ہیں جہاں تک اس کی لپیٹیں پہنچیں اور اس کی حرارت کا اثر ہو ۔ آیت میں فرمایا گیا ہے کہ اس کے سرادق نے ان کو گھیرے میں لے لیا ہے ۔ بعض لوگوں نے اس کو مستقبل کے معنی میں لیا ہے ، یعنی وہ اس کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ عالم آخرت میں جہنم کے سرا پردے ان کو گھیر لیں گے ۔ لیکن ہم اس کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ حق سے منہ موڑنے والے ظالم یہیں سے جہنم کی لپیٹ میں آچکے ہیں اور اس سے بچ کر بھاگ نکلنا ان کے لیے ممکن نہیں ہے ۔ سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :33 لغت میں مُہل کے مختلف معنی بیان کیے گئے ہیں ۔ بعض اس کے معنی تیل کی تلچھٹ بتاتے ہیں ۔ بعض کے نزدیک یہ لفظ لاوے کے معنی میں آتا ہے ، یعنی زمین کے وہ مادے جو شدت حرارت سے پگھل گئے ہوں ۔ بعض کے نزدیک اس سے مراد پگھلی ہوئی دھات ہے ۔ اور بعض کہتے ہیں کہ اس کے معنی پیپ اور لہو کے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

23: یعنی حق کے واضح ہوجانے کے بعد دنیا میں کسی کو ایمان لانے پر زبردستی مجبور نہیں کیا جاسکتا، البتہ جو شخص ایمان نہیں لائے گا، اس کو آخرت میں بیشک ایک خوفناک عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٩۔ ٣٠:۔ جامع ترمذی میں حضرت ابو سعید خدری (رض) سے جو روایت ہے اس میں دوزخ کے ان پردوں کی تفسیر ہے جن کا ذکر اس آیت میں یوں آیا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مکان کے پردہ کی دیواروں کی طرح دوزخ کے چاروں طرف چار دیواری ہے جس کا اثر چالس برس کے راستہ کا ہے ترمذی کی سند میں ایک راوی رشدین بن سعد ہے جس کو بعضے علماء نے ضعیف کہا ہے لیکن امام احمد نے اس رشدین بن سعد کو ناقابل اعتراض قرار دیا ہے حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے ١ ؎۔ کیونکہ حاکم کی سند میں بجائے رشدین ابن سعد کے ایک عبد اللہ ابن وہب راوی ہے جس کا شمار ضعیف راویوں میں نہیں ہے اور دوزخ کے اس گرم پانی کی تفسیر جس کا ذکر اس آیت میں ہے ترمذی اور بیہقی میں ابودرداء (رض) کی معتبر روایت سے یوں آئی ہے کہ دوزخ میں جب بھوک لگے گی تو ایک کانٹوں دار گھاس ان کو کھلائی جائے گی جو ان کے حلق میں پھنس جائے گی جب وہ اس کو حلق سے اتارنے کے لیے پانی مانگیں گے تو ایسا گرم پانی پگلے ہوئے تانبے کی طرح کھولتا ہوا دیا جائے گا جس کو منہ سے لگاتے ہی چہرے کی تمام کھال اتر کر اس پانی میں گر پڑے گی اور جب زبردستی وہ پانی ان کو پلایا جائے گا تو سب انتڑیاں کٹ کر باہر گر پڑیں گی۔ ان تکلیفوں سے تنگ آکر اہل دوزخ اپنے مرنے کی دعا مانگیں گے ہزار برس تک تو ان کی دعا کا کچھ جواب نہ ملے گا ہزار برس کے بعد دوزخ کے فرشتے ان سے یہ کہیں گے کیا دنیا میں تمہارے پاس اللہ کے رسول نہیں آئے اور اس عذاب سے تم کو نہیں ڈرایا وہ جواب دیں گے کہ ہاں آئے تو تھے وہ فرشتے کہیں گے جب تم نے اللہ کے رسولوں کا کہنا نہ مانا اور دنیا میں اس عذاب کا حال سن کر بھی اللہ کی نافرمانی کو نہ چھوڑا تو پھر آج تم کو موت کہاں ہے اب تو تم کو ہمیشہ یہی عذاب بھگتنا پڑے گا ٢ ؎۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے انس بن مالک (رض) کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دوزخ کے عذاب کا جو حال مجھ کو معلوم ہے اگر وہ پورا حال لوگوں کے سامنے میں بیان کردوں تو لوگ سوائے رونے کے دنیا کے سب کام چھوڑ دیں ٣ ؎ اس حدیث سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے کہ دنیا کا انتظام قائم رہنے کے لیے اللہ کے حکم سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دوزخ کے عذاب کا پورا حال امت کے لوگوں کے روبرو بیان نہیں فرمایا اس لیے دوزخ کے عذاب کا جو ذکر اوپر گزرا وہ گویا مختصر ہے۔ ١ ؎ الترغیب ص ٣١٦ ج ٢ صفل فی اود یہتاو جہالہا۔ ٢ ؎ الترغیب ص ٣٢٠ ج ٢ فصل فی طعام اہل النار ٣ ؎ صحیح بخاری ص ٩٦٠ ج ٢ باب قول النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوتعلیمون ما اعلم لضحکتم قلیلا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(18:29) قل۔ تو کہہ۔ یعنی ان لوگوں سے کہہ دے جن کے دلوں کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے اور جو اپنی خواہشات کے پیچھے لگ گئے ہیں۔ الحق خبر۔ جس کا مبتداء ھذا الذی اوحی الی (یہ کلام جو میری طرف وحی کیا گیا ہے) محذوف ہے۔ من ربکم حال مؤکدہ ہے۔ احاط بہم۔ اس نے ان کو (یعنی ظالمین کو) گھیر رکھا ہواگ۔ (ماضی بمعنی مضارع مستقبل) ۔ سرادقہا۔ مضاف مضاف الیہ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب نارا کے لئے ہے۔ سرادق فارسی سے معرب ہے اس کا اصل سرادر یعنی دہلیز تھی یا بقول ایک اور عالم کے سرادق فارسی لفظ سرا پردہ سے ہے جس کے معنی ہیں گھر کے آگے پڑا ہوا پردہ۔ سرادق کی جمع سرادقات ہے سرادق ہر وہ چیز جو کسی کو اپنے گھیرے میں لے لے۔ جیسے دیوار، خیمہ وغیرہ۔ حضرت ابو سعید خدری (رض) رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں کہ اس مراد آگ کی چار دیواریں ہیں۔ س ر د ق حروف مادہ۔ نیز بمعنی شعلہ۔ دھواں۔ یستغیثوا۔ مضارع مجزوم بوجہ عمل ان شرطیہ۔ صیغہ جمع مذکر غائب۔ استغاثۃ (باب استفعال) سے مصدر۔ (اگر ) وہ پانی مانگیں گے غیث جس کے معنی بارش کے ہیں۔ یہ اجوف یائی ہے۔ اس کے مشابہ غوث اجوف وادی ہے۔ اغاث یغیث (باب افعال) اس نے مدد کی۔ باب استفعال میں پہنچ کر غیث اور غوث دونوں کی شکل ظاہری ایک طرح کی ہوجاتی ہے۔ استغاث یستغیث اجوف یائی کی صورت میں اس کے معنی پانی مانگنا۔ بارش کے لئے استدعا کرنا اور اجوف واوی کی صورت میں مدد طلب کرنا فریاد کرنا کے ہوں گے۔ یغاثوا۔ مضارع مجہول جمع مذکر غائب۔ اغاثۃ (باب افعال) سے ان کی فریاد رسی کی جائے گی۔ مھل۔ پیپ اور خون (مجاہد) تیل کا سیاہ تلچھٹ جو نیچے جم جاتا ہے (ابن عباس (رض) ) پگھلا ہوا تابنا (راغب) اسی مادہ سے المھل ہے۔ جس کے معنی حلم اور سکون کے ہیں اسی سے ہے فمھل الکافرین (86:17) تو کافروں کو مہلت دے۔ یشوی۔ مضارع واحد مذکر غائب۔ شی مصدر۔ (باب ضرب) وہ بھون ڈالے گا۔ شوی اللحم۔ اس نے گوشت کو بھونا۔ شوی الماء اس نے پای کو ابالا۔ ساء ت۔ ساء یسوء سوء سے ماضی کا صیغہ واحد مؤنث غائب۔ بری ہے۔ مرتفقا۔ قرار گاہ۔ آرام گاہ۔ تکیہ لگانے کی جگہ وساءت مرتفقا۔ اور کیا ہی برا ہوگا ان کا ٹھکانا اس کے بالمقابل آیت (31) میں آیا ہے۔ وحسنت مرتفقا۔ اور کیا ہی عمدہ ہوگی ان کی آرام گاہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 چاروں طرف آگ کی دیوار ہوگی کہیں بھاگنے کا راستہ نہ ملے۔ حضرت ابو سعید، دری سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا : آگ کی قنات چار دیواری ہے جس کی ہر دیوار اتنی موٹی ہے کہ چالیس میں میں طے ہوتی ہے۔ (ابن جریر) حضرت یعلی بن امیہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :’ دسمندر ابھی جہنم میں سے ہے پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ (ابن جزیہ بخاری) قتادہ کا خیال ہے کہ وہ سرادق دھوئیں اور آگ کی لپیٹ کے ہوں گے۔ (کبیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ ہمارا کوئی نفع و نقصان نہیں بلکہ ایمان نہ لانے سے اپنا ہی ضرر اور ایمان لانے سے اپنا ہی نفع ہے۔ 4۔ یعنی وہ قناتیں بھی آگ ہی ہیں جیسا حدیث میں ہے، اور اس میں سے نکل نہ سکیں گے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق پہنچ چکا ہے۔ تو پھر دنیا کی عیش و عشرت کی خاطر حق سے تغافل نہیں کرنا چاہیے۔ حق سے تغافل کرنے والوں کا انجام بدترین ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے حق نازل کرنے اور اس پر ایمان لانے کا حکم دینے کے باوجود حق کو انسان پر مسلط نہیں فرمایا۔ بلکہ اسے اختیار دیا کہ وہ چاہے تو حق پر ایمان لے آئے نہ چاہے تو کفر اختیار کیے رکھے کیونکہ اس کا اصول ہے۔ (لَا إِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ قَدْ تَبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ فَمَنْ یَکْفُرْ بالطَّاغُوْتِ وَیُؤْمِنْ باللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی لَا انْفِصَامَ لَہَا وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ )[ البقرۃ : ٢٥٦] ” دین میں کوئی زبردستی نہیں ہدایت گمراہی سے واضح ہوچکی ہے اس لیے جو شخص باطل معبودوں کا انکار کر کے اور اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ خوب سننے، جاننے والا ہے۔ “ (إِنَّا ہَدَیْنَاہ السَّبِیْلَ إِمَّا شَاکِرًا وَّإِمَّا کَفُوْرًا)[ الدھر : ٣] ” ہم نے (انسان) کو راستہ دکھلادیا خواہ وہ شکر گزار ہوجائے اور خواہ ناشکرا۔ “ البتہ کفر اختیار کرنیوالے کو یہ بات ضرور ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کو کفر کا راستہ پسند نہیں ہے جو لوگ کفر اختیار کریں گے وہ ظالم شمار ہوں گے۔ ظالموں کے لیے اللہ تعالیٰ نے جہنم کی آگ تیار کر رکھی ہے جس کی قناتیں اسے گھیرے ہوئے ہوں گی وہ پیاس کے مارے پانی کے لیے فریاد کریں گے لیکن انہیں گرم ترین تیل کی مانندابلتا ہوا پانی دیا جائے گا۔ جس سے ناصرف ان کے ہونٹ زخمی ہوں گے بلکہ ان کے چہرے جھلس کر بدترین شکل اختیار کرلیں گے۔ ان کا کھانا پینا اور رہنا سہنابدترین صورت میں ہوگا۔ قرآن مجید کے دوسرے مقام میں جہنمیوں کو دیئے جانے والے پانی کا ان الفاظ میں ذکر ہوا ہے۔ (مِنْ وَرَاءِہِ جَہَنَّمُ وَیُسْقٰی مِنْ مَاءٍ صَدِیْدٍ یَتَجَرَّعُہُ وَلَا یَکَادُ یُسِیْغُہُ وَیَأْتِیْہِ الْمَوْتُ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ وَمَا ہُوَ بِمَیِّتٍ وَمِنْ وَرَاءِہِ عَذَابٌ غَلِیْظٌ )[ ابراہیم : ١٦۔ ١٧] ” جہنم میں جہنمیوں کو خون اور پیپ سے ملا ہوا مشروب دیا جائے گا۔ جہنمی اس کا ایک گھونٹ لینے کی کوشش کرے گا لیکن وہ پی نہ سکے گا۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق پہنچ چکا ہے۔ ٢۔ ایمان کے معاملے میں کسی پر زبر دستی نہیں کی جاسکتی۔ ٣۔ ظالموں کے لیے آگ ہے۔ ٤۔ ظالموں کو جہنم کی آگ گھیرے ہوئے ہوگی۔ ٥۔ جہنمیوں کو پانی کی بجائے پگھلے ہوئے تانبے کا سیال دیا جائے گا۔ ٦۔ جہنم بہت ہی بد ترین جگہ ہے۔ تفسیر بالقرآن جہنم میں عذاب کی مختلف شکلیں : ١۔ اس دن ہم ان کا مال جہنم کی آگ میں گرم کریں گے اس کے ساتھ ان کی پیشانیوں، کروٹوں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا۔ (التوبہ : ٣٥) ٢۔ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے جب وہ ہلکی ہونے لگے گی تو ہم اسے مذید بھڑکا دیں گے۔ (بنی اسرائیل : ٩٧) ٣۔ تھور کا درخت گنہگاروں کا کھانا ہوگا۔ (الدخان : ٤٣) ٤۔ اس میں وہ کھولتا ہوا پانی پیئیں گے اور اس طرح پیئیں گے جس طرح پیا سا اونٹ پانی پیتا ہے۔ (الواقعہ : ٥٤ تا ٥٥) ٥۔ ہم نے ظالموں کے لیے آگ تیار کی ہے جو انہیں گھیرے ہوئے ہوگی اور انہیں پانی کی جگہ پگھلا ہو اتانبا دیا جائے گا جو ان کے چہروں کو جلا دے گا۔ (الکھف : ٢٩) ٦۔ جہنمیوں کے جسم بار بار بدلے جائیں گے تاکہ انہیں پوری پوری سزامل سکے۔ (النساء : ٥٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

و قل الحق من ربکم فم شاء فلیومن و من شاء فلیکفر (29:18) ” صاف کہہ دو کہ یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے ، اب جس کا جی جا ہے مان لے اور جس کا جی چاہی انکار کر دے “۔ نہایت عزت کے ساتھ ، نہایت صاف گوئی کے ساتھ ، نہایت ہی فیصلہ کن انداز میں ہے یہ اعلان۔ حق کسی کے سامنے جھکتا نہیں۔ کسی کے سامنے ٹیڑہ اختیار نہیں کرتا۔ وہ بڑی قوت کے ساتھ آتا ہے۔ نہایت صراحت کے ساتھ سامنے آتا ہے۔ اس میں کوئی رو رعایت نہیں ہوتی۔ جو چاہے اسے مان لے ، جو چاہے اس کا انکار کر دے۔ اگر کسی کو سچائی پسند نہ ہو تو اپنی راہ لے۔ اگر کسی شخص کو یہ بات پسند نہیں ہے کہ اس کی خواہشات اللہ کی ہدایات کے تابع ہوں گی تو پھر نظریہ کے معاملے میں کسی کے ساتھ کوئی سودا بازی نہیں ہو سکتی۔ اگر کسی کی کھوپڑی اللہ کی بلندی کے مقابلے میں نہیں جھکتی اور وہ اپنے غرور کے بلند محلات سے نیچی نہیں اترتا تو اسلامی نظریہ حیات کو بھی اس کی ضرورت نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی نظریہ حیات کسی شخص کی ملکیت نہیں ہے کہ وہ اس میں رو رعایت کر دے ، سودا بازی کر دے ، یہ تو اللہ کی ملکیت ہے۔ اللہ تمام جہانوں سے غنی ہے۔ وہ کسی کا محتاج نہیں ہے ، جہاں تک اسلامی نظریہ حیات کا تعلق ہے۔ وہ کسی شخص پر فخر نہیں کرتا اور نہ کسی ایسے شخص سے نظریاتی امداد طلب کرتا ہے جو شخص اسے خالص طور پر قبول نہیں کرتا یا جو شخص اس نظریے کو پوری طرح قبول نہیں کرتا ، جس طرح کہ وہ ہے ، بغیر کسی تغیر و تبدل کے۔ اور جو شخص اپنے آپ کو ان لوگوں سے بلند کوئی مخلوق سمجھتا ہے جو اپنے آپ کو رات اور دن رب کی پکار میں مصروف رکھتے ہیں اور صرف اللہ کی رضامندی کے طلبگار ہیں ، ایسے شخص سے کسی خیر کی توقع نہیں ہے ، نہ اسلام کے لئے ور نہ مسلمانوں کے لئے۔ انا اعتدنا للظلمین (29:18) ” ہم نے (انکار کرنے والے) ظالموں کے لئے ایک آگ تیار کر رکھی ہے “۔ یہ آگ تیار ہے اور حاضر و ومجود ہے۔ اسے جلانے کے لئے کسی محنت کی ضرورت نہیں ہے۔ نہ اس کے جلانے کے لئے اور تیار کرنے پر کوئی وقت لگتا ہے۔ باوجود اس کے کہ اللہ کی جانب سے کسی چیز کو وجود میں لانے کے لیے صرف کن کی ضرورت ہوتی ہے یعنی جب اللہ کا ارادہ ہوجائے تو وہ کام ہوجاتا ہے۔ لیکن یہاں آگ کے لئے لفظ ” اعتدنا “ استعمال کیا گیا ہے یعنی ہم نے اسے تیار کیا ہے یعنی بڑی سرعت سے اس کو تیار کیا گیا ہے ، یعنی ان کے لئے پکڑ لیا جائے گا اور جلدی سے اس تیار شدہ آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ یہ آگ ایسی ہوگی کہ اس کی خیمے جیسی لپیٹیں ظالموں کو گھیر لیں گی۔ یہ اس سے بھاگ نہ سکیں گے۔ نہ ان کو اس سے چھوٹنے اور نجات پانے کی کوئی امید ہے۔ نہ ان کو یہ امید ہے کہ کس طرف سے ان کو کوئی ٹھنڈی ہوا ملے گی… نہ یہ امید ہے کہ اس مین ان کے لئے آرام کا وقفہ ہوگا۔ اگر وہ وہاں گرمی پیاس اور شدت سے فریاد کریں گے تو ان کی فریاد رسی کی جائے گی۔ اور ان کو ایسا پانی دیا جائے گا جو تیل کی چھت جیسا ہوگا اور ایک قول کے مطابق گرم پیپ جیسا ہوگا۔ یہ منہ کو بھون ڈالے گا۔ جب یہ منہ کو بھول ڈالے گا تو ان کے گلوں اور ان کے پیٹ کا اس سے کیا حال ہوجائے گا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حق واضح ہے، جو چاہے ایمان لائے جو چاہے کفر اختیار کرے اہل کفر دوزخ میں اور اہل ایمان جنت میں ہوں گے اس آیت میں اول تو یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی کو ایمان یا کفر اختیار کرنے پر مجبور نہیں کیا بندوں کے سامنے اپنی کتابوں اور نبیوں کے ذریعہ حق واضح فرما دیا ہے، اب جس کا جی چاہے ایمان کو اختیار کرے اور جس کا جی چاہے کفر پر رہے، جو ایمان لائے گا اپنا بھلا کرے گا آخرت کی نعمتوں سے سرفراز ہوگا اور جو شخص کفر اختیار کرے گا وہ اس کی سزا بھگت لے گا جو دوزخ میں آگ کے دائمی عذاب کی صورت میں ہوگی کوئی جاہل اپنی جان کا دشمن آیت کا مطلب یہ نہ سمجھ لے کہ کفر اختیار کرنے کی اجازت دیدی گئی ہے یہ اجازت نہیں ہے بلکہ بندوں کو جو ایمان اور کفر دونوں صورتیں اپنے اپنے ارادہ سے اختیار کرنے کی قدرت دی گئی ہے اس کا بیان ہے اسی لیے متصلاً ہی اہل کفر کی سزا اور اہل ایمان کی جزا بتادی اگر کفر اختیار کرنے کی اجازت ہوتی تو مشرکوں کو کافروں کو دوزخ میں داخل کیوں کیا جاتا یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص اپنے ماتحتوں سے کہے کہ کرلو جو چاہو نافرمانی کی سزا مل ہی جائے گی۔ ظالموں یعنی کافروں کی سزا بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ہم نے ان کے لیے دوزخ کی آگ تیار کی ہوئی ہے اس کی دیواریں انہیں گھیرے ہوں گی جو داخل ہوگا کہیں بھاگ کر نہ جاسکے گا اور نکلنے کی کوئی راہ نہ پائے گا۔ آگ میں جلنے کے عذاب کے علاوہ انہیں پیاس بھی لگے گی جب پانی طلب کریں گے تو بہت زیادہ تیز گرم پانی دیا جائے گا یہ پانی بہتا ہوا خوشگوار نہ ہوگا بلکہ تیل کی تلچھٹ کی طرح سے گاڑھا پانی ہوگا پیا تو نہ جاسکے گا لیکن پیاس کی شدت کی وجہ سے پینا پڑے گا یہ پانی اتنا گرم ہوگا کہ جیسے ہی منہ کے قریب آئے گا چہروں کو بھون ڈالے گا یہ تو ان کے پینے کی چیز ہوگی اور کھانے کے لیے زقوم کا درخت ہوگا جیسا کہ دوسری آیت میں وارد ہوا ہے سورة الصافات رکوع نمبر ٢ اور سورة دخان رکوع نمبر ٣ اور سورة واقعہ رکوع نمبر ٢ میں مذکور ہے، زقوم کا درخت کھائیں گے اور اوپر سے کھولتا ہوا گرم پانی پئیں گے جو ان کے مونہوں کو بھون دے گا اور آنتوں کو کاٹ ڈالے گا (کما فی سورة محمد) اور یہ پانی بھی تھوڑا بہت نہیں بلکہ اس طرح پئیں گے جیسے پیاسے اونٹ پیتے ہیں۔ (بِءْسَ الشَّرَابُ ) یعنی وہ پانی پینے کی بری چیز ہے آخر میں فرمایا (وَ سَآءَ تْ مُرْتَفَقًا) اور دوزخ آرام کی بری جگہ ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنے بڑے سخت عذاب میں آرام کہاں ہوگا ؟ جواب یہ ہے کہ یہ لفظ بطور محکم لایا گیا ہے وہ لوگ دنیا میں اپنی مستیوں میں لگے رہے دنیاوی آرام کے سامنے اللہ تعالیٰ کے احکام کی طرف بالکل توجہ نہیں دیتے تھے، دنیا کے آرام کو دیکھتے ہوئے انہوں نے ایمان قبول نہیں کیا کیونکہ ایمان قبول کرنے پر تکلیفیں پہنچنے کا اندیشہ تھا اور انہوں نے وعیدیں سننے کے باوجود دوزخ ہی کے کاموں کو اختیار کیا اور گویا کفر ہی کو اپنے لیے آرام کا ذریعہ سمجھا لہٰذا عذاب کی جگہ کو ان کے لیے آرام کی جگہ فرمایا کیونکہ دنیا کے آرام ہی کی وجہ سے انہوں نے اس تکلیف کو اپنے سر لیا اور یہ سمجھا کہ آخرت میں بھی ہم آرام ہی سے رہیں گے۔ ثم ھو علی سبیل المشاکلۃ فی مقابلۃ قولہ تعالیٰ (وَ حَسُنَتْ مُرْتَفَقًا) حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ دوزخ کو چار دیواریں گھیرے ہوئے ہیں جن میں ہر دیوار کا عرض چالیس سال چلنے کی مسافت رکھتا ہے (رواہ الترمذی) یعنی اس کی دیواریں اتنی موٹی ہیں کہ صرف ایک دیوار کی چوڑائی طے کرنے کے لیے کوئی چلنے والا چلے تو چالیس سال خرچ ہوں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

37:۔ یہ چھٹا امر متفرع ہے۔ ” الحق “ خبر ہے اور اس کا مبتدا محذوف ہے اصل میں تھا ” ھو الحق “ اور اس سے مراد بقول امام ضحاک مسئلہ توحید ہے، امام مقاتل فرماتے ہیں اس سے مراد قرآن۔ قال الضحاک ھو التوحید وقال مقاتل ھو القرآن (بحر ج 6 ص 120) ۔ یعنی آپ اعلان کردیں کہ یہ مسئلہ توحید اور اللہ کے کلمات و آیات جن میں مسئلہ توحید اور دیگر احکام بیان کیے گئے ہیں سب حق ہیں اور اللہ کی جانب سے نازل شدہ ہیں۔ ” فمن شاء فلیومن الخ “ یہ تہدید اور شان استغناء کا اظہار ہے مطلب یہ کہ ہم نے تو مسئلہ توحید کو اپنے پیغمبر کے ذریعے واضح کردیا ہے۔ اور اس کی سچائی پر عقلی اور نقلی دلائل بھی قائم کردئیے ہیں، جس کا جی چاہے اسے قبول کرے اور جس کا جی چاہے اس کا انکار کر کے شرک پر اڑا رہے، جو مان لے گا وہ ہمارا کچھ نہیں سنوارے بلکہ اس کا اپنا فائدہ ہے اور جو انکار کرے گا وہ ہماری کچھ نہیں بگاڑ سکے گا بلکہ اپنی ہی عاقبت خراب کرے گا۔ وفیہ من التھدید والاستغناء عن متابعتھم (روح ج 15 ص 266) ۔ 38:۔ یہ تخویف اخروی ہے۔ مسئلہ توحید کا انکار کرنے والوں کے لیے ” سرادق “ (قنات) جس طرح قناتیں آدمیوں کے گرد گھیرا ڈال لیتی ہیں، اسی طرح جہنم کی آگ کے شعلے جہنمیوں کو گھیر لیں گے، ” المھل “ (تیل کی تلچھٹ) جہنم میں جب ان کو پیاس لگے گی اور وہ پانی مانگیں گے، تو ایسے پانی سے ان کی تواضع کی جائے گی، جو تیل کی تلچھٹ کیطرح گندا اور اس قدر گرم ہوگا کہ ان کے مونہوں کو بھون ڈالے گا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

29 اور آپ ان سے کہہ دیجیے کہ یہ دین حق تمہارے پروردگار کی جانب سے آیا ہے سو جس کا جی چاہے اس کو مانے اور ایمان لائے اور جو چاہے اس کو نہ مانے اور کافر بنا رہے بلاشبہ ہم نے ایسے ظالموں اور نا انصافوں کے لئے ایک ایسی آگ تیار کر رکھی ہے کہ آگ کی قناتیں ان ظالموں کو گھیرے ہوئے ہوں گی اور اگر وہ کافر پیاس کی وجہ سے فریاد کریں گے تو ان کی فریاد رسی ایک ایسے پانی سے کی جائے گی جو پگھلے ہوئے تانبے کی مثل ہوگا جو اپنی حرارت کی وجہ سے ان ظالموں کے منہوں کو بھون ڈالے گیا کیا کیا ہی برا پانی ہوگا اور وہ دوزخ کیا ہی بری آرام گاہ ہوگی۔ یعنی دین حق پروردگار کی جانب سے آچکا اب اگر ایمان لائو گے تو تمہارا ہی فائدہ اور بھلا ہے ایمان نہ لائو گے تو تمہارا ہی نقصان اور ضرر ہے۔ چنانچہ اس نفع اور نقصان کی تفصیل بیان فرمائی جہن میک قناتیں جن سے اہل دوزخ کو گھیرا جائے گا وہ بھی آگ کی ہوں گی اور جب پانی مانگیں گے اور پیاس پیاس کریں گے تو ایسا پانی دیا جائے گا جیسے تیل کی تلچھٹ اور دوزخیوں کی پیپ اونٹی ہوئی اور گرم ایسا جیسے تانبا پھگلا ہوا جس کو منہ سے قریب کرتے ہیں منہ جھلس جائے پانی بھی برا اور جہنم کی آگ آسائش و آرام کے اعتبار سے کیا ہی بری آرام گاہ ہے۔